میرا فضل تیر ے لئے کافی ہے

میرا فضل تیر ے لئے کافی ہے

از غلام مسيح نعمان


1.کوئی بتلاؤ!

خُداوند یسُوع مسیح کے قدموں میں آنے کے بعد جب کبھی لوگوں نے میری تبدیلی کا سبب پوچھا تو جیسا شخص اپنے سامنے پایا ویسا ہی اُس کو جواب دے دیا۔ اگر کسی نے حُجّت کی خاطر پوچھا تو اُس سے صِرف یہ کہہ کر پیچھا چُھڑا لیا کہ "یہ میری زِندگی کا ذاتی معاملہ ہے۔"

اگر کسی مُلا بھائی نےدریافت کیا تو پہلے اُس سے یہ وعدہ کر لیا کہ: "اگر میری بات آپ کے ہاضمے پر گراں گزرے تو جھگڑا تو نہیں کرو گے؟"

لیکن ایسے بیشتر حضرات سے بھی واسطہ پڑا جِنہوں نے خاکسار کی گواہی یا حالات کی تبدیلی کی داستان سُن کر اصرار کیا کہ اِس کو لکھا جائے۔

راقم نے اپنی مسیحی زِندگی کے دوران اور کاہنانہ خِدمت کے دوران خُداوند اپنے آقا (سیدنا یسُوع مسیح) کےلئے بُہت کچھ کہا اور لکھا بھی ہے لیکن اپنی تبدیلی کے بارے میں اب تک تحریر کچھ نہ کیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شاید انگریزی میں ایک آدھ کتابچہ چھپا ہو گا، وہ بھی بیرون ملک، لیکن ملک کے اندر چند مصلحتوں کے پیشِ نظر ابھی تک اپنے قلم سے کچھ نہیں لکھا۔

مصلحتوں کے بارے میں آپ یہ خیال نہ کر لیں کہ میں حالات و زمانہ سے سمجھوتہ کرنے کا عادی ہوں، موقع شناس ہوں یا دوسروں سے مرغوب ہوں۔ ہرگز نہیں! بلکہ جہاں میں رہا ہوں میرے عزیز مسیحی دوست بخوبی جانتے ہیں کہ میرا ماضی کیا تھا۔

میں چاہتا تھا کہ میرے احباب میں سے جن لوگوں نے مجھے قریب سے دیکھا ہے وہ کچھ لکھتے نہ کہ میں۔ پھر بھی چند باتیں ہیں جو دوسرا بیان نہیں کر سکتا کیونکہ جِن تجربوں میں سے میں گزرا ہوں اُن کو خود میں ہی بیان کرسکتا ہوں۔

علاوہ اِن باتوں کے اِس دُنیا میں کسی چیز کو ترک کرنے کی بعض وجوہات ہیں:

1۔ ایک سبب یہ ہوتا ہے جِس سے اِنسان ترکِ ارادہ کرتا ہے۔

2۔ دوسرا سبب اِنسان کو ترکِ وطن پر آمادہ کرتا ہے۔

3۔ مگر ترکِ مذہب کےلئے تو کوئی بُہت بڑا سبب ہونا چاہئے۔

کیونکہ ایمان و مذہب کے نام پر ہمارےاس خِطہ زمین ہِند و پاک میں لوگوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور اپنی بیٹیوں تک کی عصمتوں کو ایمان کے نام پر قربان کر کے اپنےایمان و مذہب پرقائم ہونے والے ملک میں داخل ہو کرخُدائےعَزوجل (باعزّت و بزرگ) کےحضور سجدہ ریز ہوئے۔

اِن باتوں کے پیش نظر میں مختصراً یہ بیان کروں گا کہ وہ کونسی وجوہات تھیں جنہوں نے مجھ کو زِندگی میں اتنا بڑا قدم اُٹھانے کی جرأت دی۔

میں ترکِ اسلام کی داستان کے چند حساس پہلوؤں کو زیربحث نہیں لاؤں گا جو دوسروں کی دِل آزاری کا سبب ہوں۔ کیونکہ اِس کتابچے کو رقم کرنے کا جو مقصد میرے سامنے ہے وہ صِرف یہ ہے کہ چند ایمان افروز قسم کی باتیں جن کا مجھے ذاتی تجربہ ہے بیان کی جائیں۔ کیونکہ دورِحاضرہ میں اِس ملک کی مسیحی کلیسیا کسی قدر حالاتِ عالم کے تحت سہمی سی ہے، اِس لئے میرا ایمان ہے کہ یہ کتابچہ بہت سے عزیزوں کےلئے باعثِ تقویت ہوگا۔

کو ئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!

2.آس پاس

جب شعُور کی آنکھ کُھلی تو اپنے آس پاس چار بڑے بھائیوں اور ایک چھوٹے بھائی محمد رمضان کو پایا۔

نرم دِل والدہ اور شفیق والد اور چار بھائیوں سے بھرا ہوا گھر نظر آیا۔ 1960ء میں جب زِندگی اور خُدا کا منصوبہ مجھے جنوبی سندھ میں لے آیا تو چودھری علی احمد باجوہ نے جو برادرم چودھری نظیر احمد کے والد مرحُوم تھے بتایا کہ میرے والد چودھری لعل خان اُنکے عزیزوں میں سے تھے۔ لیکن کوئی جائیداد کا جھگڑا تھا جِس کی وجہ سے میرے والد محترم اپنے ایک فوجی افسر دوست منشی کے ہاں ایک گاؤں میں رہتے تھے اور آپ نے کبھی بھی اپنے حسب و نسب کا ہم سے بچپن میں ذکرنہیں کیا تھا۔

ظفروال ضلع سیالکوٹ میں والد صاحب نے ہم چھوٹے لڑکوں کی تعلیم کی خاطر مکانات بنوائے کیونکہ اسکول گاؤں سے دُور پڑتا تھا۔ لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کا نہ ہی دستور تھا اور نہ ہی خُدا نے میرے والدین کو کوئی بیٹی دی تھی۔

والد صاحب خود فوجی تھے اورغالباً پہلی جنگ عظیم میں صوبہ دار تھے۔ کیونکہ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مہاراج کشن جب غیر حاضر ہوتے تھے تو پینشن یافتہ فوجی اپنی تصدیق کے سلسلے میں والد صاحب کی طرف رجوع کرتے تھے۔

میں نے اپنے ہوش میں اپنے والد صاحب کو کوئی محنت طلب کام کرتے نہیں دیکھا تھا۔ بھائی سب بڑے تھے اور اُس وقت کی بارانی زمین جو نالا ڈیک کے کنارے پر تھی، اتنی گندم پیدا کر دیتی تھی کہ ہمیں اناج خریدنا نہیں پڑتا تھا۔

گھر میں فارغ البالی تھی، محبت اور پیار تھا، والدہ کی مامتا اور والد کی شفقت تھی، بھائیوں کی طرف سے پیار تھا۔ برادری میں اور ماحول میں والد محترم کی درویشانہ زِندگی کی وجہ سے بُہت عزّت تھی۔

والد صاحب کبھی بھی کسی اپنے مقدمہ یا قضیہ کےلئے کسی عدالت میں نہیں جاتے تھے۔ لیکن اگر کسی پر زیادتی ہوتی اور وہ اپنی غربت کی وجہ سے انصاف کو خرید نہ سکتا تو اُس کےلئے آپ سب کچھ کرنے پرآمادہ رہتے تھے۔

والد صاحب سے جنگ اور لڑائی کی کہانیاں اور افریقہ کے جنگلات میں پیش آنے والے واقعات سُننے میں مزہ آتا تھا۔ جب ہم اکثر والد کی مرضی کے خلاف اُن کو قصے اور کہانیاں سُنانے پر مجبور کرتے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سُنا دیا کرتے تھے۔

اچانک رمضان کو غالباً نمونیہ ہو گیا اور وہ چند ہی دِنوں میں چل بسا! اب میں اکیلا رہ گیا، دوسرے بھائی بڑے تھے اور اُن میں سے اکثر گھر پر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ دو بھائیوں کا کاروبار کشمیر میں تھا اور دو لاہور شہر میں تھے۔

میرے ذِمّے گھر کے تمام کاموں سے بڑھ کر یہ تھا کہ میں صُبح سویرے اُٹھکر باہر حویلی سے دُودھ لایا کرتا تھا لیکن میری غیرحاضری کی وجہ سے یہ کام بھی ایک ملازم نے اپنے ذِمّے لے لیا۔ اب میرا شوق صِرف برائے نام پڑھائی اور زیادہ شکار تھا۔ والد صاحب کی شکار کھیلنے والی رائفل چونکہ بُہت ہلکی تھی اِس لئے اُس کا جھٹکا بھی کم پڑتا تھا۔ میں نے اِس شوق میں اپنا زیادہ وقت خراب کرنا شروع کر دیا۔ لیکن گھر والوں کا اِرادہ تھا کہ میں اپنا دِل پڑھائی میں لگاؤں۔ اِسی مصلحت کے تحت مجھے جموں کے مہاراجہ رنبیر سنگھ ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا۔ جہاں پر باقی مضامین کے علاوہ گھڑ سواری لازمی مضمون تھا۔ میں اِس میں خوش تھا لیکن بھائی خُدا بخش مرحوم کو یہ شکایت تھی کہ اسکول میں مذہبی پڑھائی نہیں ہے۔ البتہ ہندو دھرم کے منتر وغیرہ خُوب زُبانی یاد ہو گئے تھے۔ اور میں ہِندی زبان روانی کے ساتھ بول سکتا تھا اور سمجھ بھی لیتا تھا اور اب بھی سمجھ میں آتی ہے۔

سو بھائی صاحب نے مجھے جموں کے اِسلامیہ ہائی اسکول کے بورڈنگ (ہوسٹل) میں داخل کرا دیا جو بورڈنگ کم اور یتیم خانہ زیادہ تھا۔ بورڈنگ ہاؤس سے غیرحاضری کی شکایتیں آنے لگیں کیونکہ میں دِن میں کسی وقت، جب بھائی کاروبار میں ہوتے تھے تو کھانا کھانے گھر چلا جایا کرتا تھا۔ ایک روز جمعہ کی چُھٹی تھی، مجھے دُکان پر بڑے بھائی نے طلب کیا۔ پڑوس میں ایک حلوائی کی دکان پرایک سات آٹھ برس کا بچّہ کام کرتا تھا۔ اُس کو بلوا کر بھائی صاحب نے سوال کرنا شروع کر دیئے۔

"برخوردار! تُم صُبح کتنے بجے اُٹھتے ہو، کام کےلئے؟" جی! کوئی تین بجے اُٹھتا ہوں۔ رات کے سارے "جوٹھے" برتن صاف کرتا ہوں۔ پھر صُبح کو پوری حلوے کی کڑاھیاں وغیرہ "مانجھتا" ہوں، اور پھر پورا دِن آپ کے سامنے کام میں لگا رہتا ہوں۔ "رات سوتے کِتنے بجے ہو؟" گیارہ بجے سے پہلے کبھی نہیں! لڑکے نے جواب دیا۔ پھر میری طرف بھائی جی مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ یہ بھی کسی ماں کا بیٹا ہے جو چوبیس گھنٹے میں صِرف چار گھنٹے سوتا ہے۔ تم نہ تو پڑھتے ہو نہ ہی کوئی کام کرتے ہو۔ تم موقع سے فائدہ اُٹھاؤ، اِنسان بنو! ورنہ زِندگی تمہارے لئے مشکل ہو گی۔ اِن باتوں کو گویا میں نے اپنے لئے ایک چیلنج قبول کیا اور اِرادہ کر لیا کہ اب میں اپنی زِندگی کی راہ خود متعین کروں گا۔ مجھے دوسروں کی مہربانیوں پر زِندہ نہیں رہنا چاہئے۔ چُنانچہ سب چیزوں سے دِل اُچاٹ ہو گیا۔

مارچ میں دسویں جماعت کے پکے امتحان تھے لیکن ہم امتحانات سے پہلے ہی فرار ہو گئے تھے۔

3.ہم بھی دیکھیں گے!

انگریز نے جرمنی اور جاپان کے محاذوں پر جنگ کا آغاز کر دیا تھا اور اُسے ہمارے جیسے لوگوں کی اَشد ضرورت تھی۔ چُنانچہ میں .R.A.F برطانوی شاہی ہوابازی کے محکمے میں چند سوالات کے معقول جوابات دینے پر .F.M.E جن کا تعلق ہوابازی کی مشینری سے تھا، بھرتی کر لیا گیا۔

لاہور میں چند دِن اُلٹے سیدھے پاؤں مارنے کے بعد سیدھا کلکتہ ڈم ڈم اور بیرک پور پُہنچا دیا گیا جہاں مزید تربیت دی گئی اور پھر رنگون اور برما کے جنگلات کی مُختلف فیلڈ ورکشاپس (Field Workshops) میں تبادلے ہوتے رہے۔ اپنے پیشے اور ٹریڈ (Trade) کے ساتھ ساتھ اپنے بُزرگ انڈین افسر مبارک کے مشورہ اور اُنہی کی سفارش پر محکمہ سُراغ رسانی کی متحدہ ٹیم کا رُکن بنا دیا گیا اور ٹریڈ سے ہٹ کر اسی میدان میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔

جنگ کے ابتدائی دور میں اتحادی فوجیں چونکہ ہر محاذ پر بُہت بُری طرح پِٹ رہی تھیں اور بُہت سے سستے اِنڈین فوجی کام آ رہے تھے (مر رہے تھے)، اِ س لئے انگریز نے وقت کی نزاکت کو سامنے رکھ کر ترقیاں تھالی میں رکھ رکھ کر پیش کیں اور بُہت تھوڑی عُمر میں ہی ہم ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دوسروں سے سلیوٹ وصول کرنے کے بھی قابل ہو چکے تھے۔

اِن تمام ترقیوں میں بُہت سا دخل بُزرگ والد صاحب کی تربیت کا بھی تھا۔ اپنے کام میں پوری لگن، دیانت داری اور وفاداری ایسی چیزیں تھیں جِن کی وجہ سے میں ہر مقام پر کامیاب و کامران رہا۔ نہ خود ہی بددیانتی کی اور نہ ہی کبھی دوسروں کی طرف سے اِس قسم کے رویہ کو برداشت کیا۔ اپنے ماتحت لوگوں کو کبھی بھی بلاوجہ تنگ نہ کرتا، بلکہ اُن کے جائز مطالبات کو بسر و چشم قبول کرتا۔

اُن کے آرام کا خیال رکھتے ہوئے، کئی بار خود اُن کی جگہ ڈیوٹی دینے کو تیار ہو جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ میرے ماتحت تمام نوجوان میرے ایک اِشارہ پر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کےلئے تیار ہو جاتے۔ نہ کبھی خود اپنے افسرانِ بالا کے حکم سے عدول کیا اور نہ ہی یہ برداشت کیا کہ میرے ماتحت میری حکم عدولی کریں۔ جنگ کے دوران حکم عدولی کی سزا موت تھی، جِس پر میں نے کبھی عمل نہ کیا کیونکہ اِس غُلام ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے سینے میں ایسا دِل اور ضمیر تھا جِن کے پاس حقِ خود ارادیّت بھی تھی۔

کسی وقت اگر کوئی ماتحت نوجوان میرا حکم نہ بھی مانتا تو میں ہنس کر ٹال جاتا تھا یہ خیال کر کے کہ یہ لوگ غُلام ہیں۔ مجبوریوں یا ضروریات نے اگر اُنہیں اِس موت کے کھیل میں جھونک دیا ہے، تو کیا ہوا! وہ بھی تو اِنسان ہیں! اُن کا خون اور جانیں بھی اِتنی ہی قیمتی ہیں، جِتنی کہ ایک گورے صاحب بہادر کی۔

4.ارزانیءحیات (زِندگی کی بے قدری)

باوجود تمام وفاداری اور کام کی لگن کے، میں دو باتوں کی وجہ سے کافی حد تک دُکھی تھا۔

1۔ انگریز بہادر کا ترجیحی سلوک، جِس سے ایک ہی رینک (Rank) کے گورے اور کالے افسر کے مابین ایک بُہت بڑی خلیج اور جانبدارانہ سلوک تھا، جس کا شکار میرا ایک دوست اسکاڈرن لیڈر سرندر سنگھ ہوا، اور وہ لُقمہ اجل ہو گیا۔

ہوا دراصل یہ کہ ایک روز سرندر کو ایئریا کمانڈر کی جانب سے احکامات موصول ہوئے کہ فلاں بمبار میں فنی خرابیوں کی اطلاع کئی بار مل چُکی ہے، جِس کے ائیر ٹیسٹ کےلئے اُس کو خو د جانا ہو گا۔ سرندر تیار ہو کر آ گیا لیکن قدرے اُداس تھا۔ اُس کو شاید ماضی کے چند تجربوں کے تحت خدشہ تھا۔ جب وہ متعینہ سمت میں جہاز لے کر اُڑا، تو تقریباً 15 منٹ کے بعد اُس کا رابطہ ہم سے ٹوٹ گیا۔ 15 منٹ گزرنے کے بعد دیکھا کہ خلیج بنگال پر سے ایک جہاز آ رہا ہے اور یہ سرندر تھا۔ میدانی فوجوں کو اُس کی حفاظت کےلِئے باخبر نہیں کیا گیا تھا۔ جاپانیوں نے نیچے سے فائر کر کے سرندر سنگھ کی ایک آنکھ اور آدھا چہرہ اُڑا دیا تھا۔

2۔ دوسری بات جو میرے لئے تکلیف دہ تھی، وہ تھا بنگال کا قحط! ہزاروں جانیں روزانہ موت کا شکار ہو رہی تھیں جب کہ ہمارے سرکاری راشن اسٹوروں میں فالتو راشن (اناج) پڑا سڑ رہا تھا۔ انگریز کو اِن نذرِ اجل ہوتی ہوئی زِندگیوں کی پرواہ نہ تھی۔

ملیریا (Malaria) جیسی مہلک بیماری عام تھی۔ ہمارے دواؤں کے سٹوروں (Stores) میں فالتو ملیریا کی جراثیم کش دوائیں کثرت سے تھیں۔ کئی پتھر دِل اِنسان نما درِندوں نے کونین (Quinine) کی ایک ایک گولی، ایک روپے میں فروخت کی اور خوب پیسے بنائے۔ لیکن مجھے تو ایسے بےکس اور لاچار لوگوں کی حالت پر رحم آیا کرتا تھا۔

میں نے انگریز کی اِس سنگ دلانہ حرکت سے تنگ آ کر راشن سٹور میں سے چاول اور دال، چینی اور چائے نِکال کر ضرورتمند لوگوں میں مفت تقسیم کرنا شروع کر دِیا اور ملیریا کش دوائیں بھی دے دیا کرتا تھا۔ یہ میں بعد میں بتاؤں گا کہ اِس عمل کی مجھے کیا قیمت ادا کرنا پڑی!

لیکن اِس بیان میں صِرف یہ بتانا مقصود ہے کہ میں نے زِندگی اور اِس کی ارزانی (سستے پن) کو بُہت قریب سے دیکھا۔ بےبس اِنسان! باوجود اپنے پاس پیسے رکھنے کے اپنے لئے کچھ بھی خرید نہیں سکتے تھے۔ غیور بھائی، جو اپنی اور اپنے خاندان کی بھُوک مٹانے کےلئے اپنی بتولہ بہن کی عصمت کو دوسروں کی ہوس کا شکار ہونے سے نہیں بچا سکتا تھا۔ یہ میرا اِحساس تھا، جو باوجود اپنے قبضے میں سب کچھ رکھنے کے دوسروں کےلئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔

ایک بار میں اور پورن (میرا ماتحت) نے سڑک سے دو بچّے اُٹھائے اور اُن کو کیمپ میں لا کر پورے چھ ماہ تک چھُپا کر رکھا۔ جب اُس وقت کے کمانڈر کو علم ہوا تو اُس نے ہم دونوں کے خِلاف مقدمہ بنا دیا جو بظاہر ایک دھمکی تھی۔ میں اور پورن اُن بچّوں کی زِندگی بچانے کےلئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھے۔

لیکن ہوا یوں کہ اُن بچوں کو ایک فلاحی کیمپ میں مغربی بنگال کے کسی نامعلوم مقام پر بھیج دیا گیا۔ ممکن ہے وہ بچّے بخیریت ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُن بچّوں کے عزیز و اقارب بھی مل گئے ہوں۔ لیکن ہمیں اُن بچّوں سے جو رُوحانی اور اِنسانی لگاؤ ہو چُکا تھا، اُن تمام جذبات کا گلا گھونٹنا پڑا۔

یہ گِلہ ہے کہ یہاں زِندگی کیوں سستی ہے

یہ ہے اِک تلخ حقیقت جو مجھے ڈستی ہے

5.مُختلف تجربات

1۔ جہاں میں نے اُس دور کے حاکم کے عہد میں کالے لوگوں سے گوروں کے غیرانسانی رویّے کا ذِکر کیا ہے، وہاں اگر میں چند فرشتہ سیرت لوگوں کا ذِکرنہ کروں جِن کے رویّے سے میری زِندگی متاثر ہوئی، تو یہ ایک غیراخلاقی بات ہو گی اورحقائق کی پردہ داری بھی۔

ایک نوجوان افسر ہمارے 345 ونگ (Wing) میں تبدیل ہو کر آیا جِس کا نام بکسٹر (Baxter) تھا۔ یہ ایک کم گو، بُردبار اور اپنے ماتحتوں کو پیار کرنے والا شخص تھا۔ اُس کی طبیعت اور مزاج کا آپ صِرف اِسی ایک واقعہ سے اندازہ کر لیں گے۔ ایک بار انڈین سٹاف نے مطالبہ کیا کہ ہم اپنا کھانا الگ پکوا کر کھائیں گے۔ نئے میس (Mess) میں بُنیادی بات یہ تھی کہ نئے چولہے بنانا ضروری تھے۔ جب کہ جنگ کا زو ر تھا، تو وقت کسی کے پاس تھا نہیں۔ فیصلے کے دوسرے دُوسرے دِن جب میں ورکشاپ سے واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ مسٹر بکسٹر ایک کتاب کی مدد سے پکے چولہے بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اگر کِسی لڑکے کو داڑھی بنانے کا وقت نہ ملتا تو صُبح ناشتے کے بعد بکسٹر بجائے اُس نوجوان کو ڈانٹنے کے، اپنی ہی جیب سے اُس کو ایک بلیڈ (Blade) نِکال کر دے دیتا۔

سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ ہر صُبح ہمارے ساتھ ناشتہ کرتا اور اُس کی موجودگی میں اگر جاپانی جہاز بمباری کےلئے آ جاتے تو بجائے مورچوں میں پناہ لینے کے سب نوجوانوں سے کہتا کہ "چلو! خُدا سے دُعا کرنے چلیں۔" یہ ایک ٹینٹ (Tent) تھا، جِس کو خُدا کی عبادت کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔

دُعا وہ خود کرتا تھا، ہمیں صِرف "آمین" کہنے میں شرکت کرنا ہوتی تھی۔ دو تین مرتبہ ایسا ہوا۔ ایک دِن بڑا سخت حملہ ہوا، جاپانی بمبار جہاز بڑی تعداد میں آئے۔ آج موت بڑی یقینی تھی۔

بکسٹر صاحب نے پھر وہی مشورہ دیا اور رو رو کر دُعا شروع کر دی۔ وہ کچھ اِس طرح سے دُعا کر رہا تھا "خُداوند یسوع مسیح، تُو آج اپنی قُدرت کو ظاہر فرما! اِن نوجوانوں کے والدین اور عزیزوں کی خاطر، اِن کو آج اِس حملے سے محفوظ رکھ تا کہ یہ نوجوان جان لیں کہ تُو زِندہ ہے اور نہ صِرف اِنسانی جِسم، بلکہ اِنسان کی رُوح کو بھی ہلاکت سے بچاتا ہے۔" اُس روز ہمارے آس پاس کے کیمپوں میں بُہت جانی نُقصان ہوا تھا۔ میس اور ورکشاپ کی چھت کے ٹکڑے اُڑ کر ہمارے کیمپ کی سڑکوں تک آ گئے تھے۔ پاس ہی ہماری بڑی میس کے پیچھے سے جو نالا گزرتا تھا سینکڑوں بم اُسمیں گرے اوراُسکی کیچ اُبل رہی تھی جِس کے سبب سے چاروں طرف دُھواں اُٹھ رہا تھا۔ نالے سے پار والی ایک یونٹ سے جوانوں کے کراہنے کی دِل ہلا دینے والی آوازیں آ رہی تھیں لیکن ہم محفوظ تھے۔ نہ صِرف میں، بلکہ میرے علاوہ اور کئی لوگ بھی یہی ا قرار کر رہے تھے کہ بکسٹر صاحب کا یسوع "Lord Jesus Christ" سَچ مُچ زِندہ ہے۔ یسوع مسیح واقعی ہماری حفاظت کرتا ہے اور ہم اِنسانوں کی دُعائیں بھی سُنتا ہے۔

بکسٹر صاحب ہمیشہ ہر بات میں اپنے ایمان اور مذہب کو سامنے رکھتا تھا اور اگر کوئی ایسی اِخلاق سوز بات ہو جاتی تو صِرف یہ کہتا کہ مسیحی ہوتے ہوئے اِس قسم کی حرکت میں تو کم ازکم نہیں کر سکتا۔

2۔ اُن ہی دِنوں راقِم کو، یعنی مجھے بھی ایک حادثہ پیش آیا، جِس کی نوعیّت سرندر کے حادثے سے مِلتی جُلتی تھی۔ جِس کے نتیجے میں میرے چہرے کا کچھ دائیں حِصّہ جل گیا اور آنکھ سمیت چہرہ زخمی بھی ہو گیا۔ زخمی حالت میں مجھے 52 انڈین جنرل ہسپتال پُہنچا دیا گیا لیکن فوری مرہم پٹی کے بعد مجھے داخل نہ کیا جا سکا کیونکہ ".B.O.R.S" وارڈ پر دو روز پہلے بم گرا تھا۔

میں اسٹریچر پر ہی پڑا تھا کہ دو نرسز، ڈاکٹر کمانڈنگ آفیسر کے دفتر میں داخِل ہوئیں۔ میرے بارے میں اُنہوں نے دریافت کیا تو کمانڈنگ آفیسر نے اُنہیں بتایا کہ .R.A.F کے لوگوں کو وہ عام وارڈ میں داخِل نہیں کر سکتا تھا۔ اُن نرسوں میں سے ایک نرس نے کہا کہ رینک زیادہ ضروری ہے یا جان! گفتگو کی تفصیل مجھے یاد نہیں لیکن اِتنا یاد ہے کہ میں ایک نرس کوارٹر میں اکیلا تھا اور یہ لڑکیاں مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھیں کیونکہ میری دونوں آنکھیں بند تھیں۔ پھر میری بند آنکھیں کھول دی گئیں اور چند روز بعد مجھے چھُٹّی مل گئی۔

جِس روز مجھے ہسپتال چھوڑنا تھا، اُ س روز صُبح سویرے یہ دونوں لڑکیاں ایک ساتھ میرے کمرے میں آئیں۔ اُنہوں نے اپنے نام بتائے جو "امبر" اور "میری" تھے۔ اُنہوں نے یوں کہا کہ "ہم نے تُمہاری خِدمت اِس لئے نہیں کی کہ تم بُہت خوبصورت ہو یا ہمیں تم سے کسی قسم کا لالچ ہے! بلکہ صِرف اِس لئے کہ ہم مسیحی ہیں، اور ہمارے مالک (خُداوند یسُوع مسیح) نے نجات دہندہ ہوتے ہوئے، تمام اِنسانوں کے گناہ اور موت سے نجات کی خاطر دُکھ اُٹھایا ہے اور یوں ہم پر بھی فرض ہے کہ ہم اپنے جیسے ہر اِنسان کی خِدمت کریں۔"

اِس مختصر تعارف نے تو میرا بُہت بُرا حال کر دیا۔ میں زار و قطار رو رہا تھا اور ایسے لگتا تھا کہ جیسے میں اپنے آنسوؤں کے سیلاب میں خود ہی بہہ جاؤں گا۔ اُنہوں نے مجھے تسلّی دی اور کہا "رونا تمہارے لئے ٹھیک نہیں کہ ابھی آنکھ کا زخم کچّا ہے۔" میری گردن تشکّر کے جذبات کے تحت جُھک گئی اور دِل چاہتا تھا کہ اِن نیک دیوییوں کے قدم چوم لوں۔ میں اِس بات کا قائل ہو گیا کہ اِس دھرتی کے سینے پر ابھی خُدا کے پیارے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کی خِدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

3۔ کیمپ میں واپسی کے بعد مجھے ہلکا کام سُپرد کر دیا گیا۔ اور یہ کام فوجیوں اور خصوصاً ائیر فورس (Air Force) کے لوگوں کو ممنوعہ علاقے جو شہر میں تھے، جانے سے روکنا تھا۔ چونکہ میری ڈیوٹی ایسی تھی اور میں اسٹاف پولیس کا نِگران تھا، سو میری واقفیت ایسے علاقوں میں رہنے والے لوگوں سے ہو گئی تھی۔

ہماری فیلڈ ورکشاپ میں ایک نوجوان ائیر مین (Air Man) "فلپ بدری ناتھ " تھا۔ یہ موجودہ ہِندوستان کے صوبہ بہار کا رہنے والا تھا۔ جِسکی موجودگی ہم سب کےلئے تازگی کا سامان مہیا کیا کرتی تھی۔ اکثر اوقات کیمپ کے قوانین کی خِلاف ورزی اِس صورت میں ہو جایا کرتی تھی کہ بدری کی صُحبتوں میں اِتنا لُطف آتا تھا کہ اُٹھنے کو دِل ہی نہیں چاہتا تھا۔ بدری کے نزدیک زِندگی ایک ہنسی کا نام تھا۔ میں چونکہ اپنے افسانے "بھینٹ" میں بدری کے بارے میں کچھ کہہ چُکا ہوں، اِس لئے اب اصل واقعہ کی طرف آتا ہوں۔

ایک صُبح جب میں نے بدری کو اُس کی ایک دوسری ورکشاپ میں تبدیلی کے آرڈر (Order) دیئے تو بدری پر گویا بِجلی گِر پڑی۔ میں نے اِس کی وجہ دریافت کی تو بدری نے بتایا کہ وہ ایک بازاری عورت بنام کملا سے پیار کرتا ہے اور اُس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اُس سے شادی کرے گا۔ میں نے سماج سے اِتنی بڑی بغاوت کا سبب معلوم کیا، تو بدری نے نہایت سنجیدگی سے کہا:

سر (Sir) میرا دھرم (دین) بھینٹ (قربانی) ہے، پربھو (خُداوند) یسوع مسیح نے مجھ جیسے پاپی سے پریم (پیار) کیا ہے، اور اپنی جان کی بھینٹ دے کرتمام پاپی (گناہ گار) اِنسانوں کی مکتی (نجات و کفارہ) کا بندوبست کیا ہے۔ اگر پربھو یسوع مسیح مجھ جیسے کو قبول کر سکتا ہے تو میرا بھی کام ہے کہ میں اُن لوگوں کو بھی قبول کروں جو پاپی ہیں، جِن کو دُنیا پست خیال کرتی ہے۔

اِس کے بعد جو کچھ میں کر سکا وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اُس نوجوان کی اتنی بڑی قُربانی کے نتیجے میں بدری کو واپس بُلوا لیا گیا۔ کیونکہ میں نے مسٹر بکسٹر کی وساطت سے کمانڈنگ کو سارے معاملے کی اِطلاع دے دی تھی اور بدری اور کملا کو کیمپ میں رکھ کر مقامی پادری (Area Chaplain) سے اُن کا نِکاح پڑھوایا گیا۔ اِس کے بعد بدری اور کملا، بدری کے گاؤں میں آ گئے۔

اِن واقعات نے میرے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، کہ سچی مسیحیت کس قدر بُلند و بالا اور عظیم ہے، بکسٹر کی عُمدہ ترین خاموش مسیحی زِندگی، "امبر اور میری" کا نیک اور پاک مسیحی سلوک اور فلپ بدری ناتھ کی زِندگی میں قربانی کا عملی نمونہ، یہ سب باتیں مجھے ایک دُوسری بہتر دُنیا میں لے گئیں، جہاں میں نے اِنسانوں کو ایک دُوسرے سے سچّا پیار کرتے اور پاک محبّت کرتے اور ایک دوسرے کےلئے قربانی کا نیک اور مُخلِص جذبہ رکھتے ہوئے دیکھا۔

6.اعزازات ِ خدمت

جنگ تو 1945ء میں ختم ہو گئی، مگر اب برصغیر (ہِندوستان) میں آزادی کی مُہم نے زور پکڑا اور اِس مُہم کے علمبرداروں کی طرف سے تشدّد اور آتشزدگی کی وارداتیں ہونے لگیں۔ اُن کو دبانے کےلئے بھی فوج کی ضرورت تھی۔ اوراب ہِندوستانی سپاہی اورافسر اپنے ہی ہِندوستانی مظاہرین بھائیوں کے سینے میں گولی داغ رہا تھا۔ میں کسی تنظیم میں باقاعدہ طور پر ملوّث نہیں تھا، البتہ محکمہ سُراغ رسانی سے مُنسلک ہونے کی وجہ سے جب کبھی مہاتما گاندھی صاحب یا محمد علی جِناح صاحب ہمارے ہوائی اڈوں پر اُترتے تو ہم بھی اُن کو پھولوں کے ہار پہناتے تھے۔

بکسٹر صاحب تبدیل ہو کر کسی اور جگہ جا چکے تھے۔ ایک دِن شام کے کھانے کے بعد مجھے گرفتار کر لیا گیا اور اِلزام ظاہر کرنے سے گریز کیا گیا۔ دُوسرے دِن ہند چینی کے ایک جزیرہ "بلانکا ماتی" پُہنچا دیا گیا جو سنگاپور میں واقع ہے۔ قیدی کیمپ میں ایک سِکھ کرنل صاحب بھی تھے جو پوری سِکھ رجمنٹ لے کر جاپان سے جا ملے تھے۔

سردار صاحب نے میری آمد کی وجہ دریافت کی، جِس کا مجھے علم بھی نہ تھا تو سردار صاحب انگریزوں کو گالیوں سے خراجِ عقیدت پیش کرنے لگے۔ کوئی ایک ہفتہ بعد میرے کاغذات بھی آ گئے۔ تین اِلزامات تھے:

1۔ یہ کہ ".F.O چودھری فلاں دِن فلاں وقت ایک بنگالی کے ہاتھ راشن فروخت کرتے ہوئے پکڑا گیا اور یونٹ کے چوکیدار گوکل کے سیٹی بجانے سے قبل ریوالور سے اُس کو زخمی کر دیا۔"

2۔ دوسرا اِلزام یہ تھا کہ فلاں وقت فلاں روز .F.O چودھری اور کارپول اِسحاق نے مسٹرگاندھی کو ہار پہنائے تھے جب کہ وہ سرکاری ورد ی میں تھے۔

3۔ تیسرا اِلزام یہ تھا کہ .F.O چودھری اور ایس جی اسلم کو جناح صاحب کے سیاسی جلسے میں تقریر کرتے سُنا گیا اور اُن کی تقریر میں بغاوت کا تاثر تھا۔

پہلے دو اِلزامات میں تو کچھ صداقت تھی کیونکہ میں بذاتِ خود اورمیرے ہم خیال اور بُہت سے لوگ تھے جو مہاتما گاندھی جی کی عزت کرتے تھے اور آزاد ہِند کے حق میں تھے اور سباش چندر بوس کی تحریک ِآزادی کے ساتھ اِتّفاق کرتے تھے اور راقِم اب تک گاندھی جی سے بڑا لیڈر کسی کو نہیں مانتا، حالانکہ اور بھی کئی لوگوں نے آزادی کی راہ میں قُربانیاں دی ہیں۔

راشن فروخت کبھی نہیں کرتا تھا، اور نہ ہی لوگوں سے نقدی وصول کی کیونکہ اِس کی نہ مجھے ضرورت تھی اور نہ ہی میرے گھر والوں کو بھُوک۔ گوکل چوکیدار کو زخمی کیا تھا کیونکہ ایک بار اُس نے مجھ سے دُودھ کے بیس ٹین مانگے تھے جو میں نے دینے سے اِنکار کر دیا تھا۔ اِسی لئے اُس نے اِنتقام لینے کے غرض سے مجھے پکڑوانے کےلئے سیٹی بجانا چاہی تھی۔

سب سے آخر میں جو اِلزام تھا، وہ بالکل بے بُنیاد تھا۔ اِس سے اِنکار نہیں کہ اُس جلسے میں میں اور سارجنٹ اسلم شامل تھے لیکن ہم تو ڈیوٹی پر تھے اورہمیں جلسے کی پوری کارروائی لکھ کر لانا تھی۔ یہ فیصلہ اُسی روز چٹاگانگ ائر فورس اسٹاف میٹنگ میں ہوا تھا۔

کیمپ اِنچارج سردار صاحب نے تمام کاغذات پڑھ کر واپس کر دیئے اور مجھے بھی بجائے چٹاگانگ، بیرک پور کے قریب ایک گروپ میں بھیج دیا۔ شاید اوپر سے ہدایت ہی ایسی تھی۔ بہرحال ہم پر کوئی جُرم ثابت نہیں ہوا۔

اب 1947ء کا آغاز تھا۔ بہار ایکشن کے بعد اب جنگ آزادی فرقہ ورانہ فسادات کی شکل اِختیار کر گئی تھی۔ ایک روز ہمارے کیمپ کو بھی کانگریسی لوگوں نے آگ لگا دی۔ اُدھر پنجاب کے دیہات بھی اِسی لپیٹ میں آ چکے تھے۔

تمغہ خِدمت

والد صاحب جِن کی تقلید میں، میں نے اِس خُونی کھیل کا آغاز کیا تھا کہ مفت میں دیس دیس کی سیر ہو گی اور اعلیٰ کارکردگی پر تمغہ خِدمت الگ ملے گا، میری غیر موجودگی ہی میں فوت ہو گئے۔ اب والدہ اور بھائیوں کا اصرار زور پکڑ گیا تھا کہ میں واپس آ جاؤں۔

والدہ کی طرف سے خط و کتابت میرے بارے میں محکمہ کے ساتھ جاری تھی۔ اب میں خود بد دِل ہو چُکا تھا۔ میں نے اپنا نام ریلیز (Release) کےلئے دے دیا۔ شرط یہ تھی کہ ریلیز کی درخواست کے دِن شروع کر کے پورے اٹھارہ ماہ بغیر کسی فعال ڈیوٹی کے رکھا جاتا تھا تا کہ میرے ٹریڈ کا شخص اِس عرصہ میں تمام خفیہ کوڈز (Codes) بھُول جائے اور سِول (Civil) زِندگی میں اپنی تعلیم کو کام میں نہ لا سکے، لیکن خُدا بھلا کرے گروپ کیپٹن ڈاکٹرعبد اللہ کا، جِس نے میرے ضمن میں یہ شرط معاف کروا دی، یہ کہہ کر کہ سائل کو فوری طِبّی اِمداد کی ضرورت ہے۔ اورمیں اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو کر، اپنے کاغذات پر سُرخ سیاہی کے نِشانات کو بطور "تمغہ خدمت" ہاتھوں میں لے کر گھر آ گیا۔ جِس سے والدہ کو اِنتہائی رنج ہواتھا۔

7.ایک ہی خواہش

الف۔ جہاد فی سبیل اللہ

زِندگی کی بے مائیگی (مُفلسی) اور موت کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد دِل میں ایک ہی خواہِش تھی کہ کسی طرح اپنے ربّ کو راضی کر لیں۔ میں جب جمو ں پُہنچا تو میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے بڑے بھائیوں کو معہ بچّوں کے گاؤں روانہ کر دیا۔ کیونکہ مہاراجہ کشمیر کی نیّت پر شُبہ تھا کہ وہ کبھی بھی جموں و کشمیر کو ایک خود مختار ریاست نہیں رہنے دے گا۔ وہ ضرور ہِندوستان سے اِلحاق کر لے گا۔

آخر وہی ہوا جِس کا ڈر تھا۔ دُوسرے دِن مسلمانوں کا خُون بُہت ہی بے دردی سے بہایا جانے لگا۔ اُردُو بازار میں ایک دہی والے پہلوان کو دِن دیہاڑے چُھرا گھونپ دیا گیا۔ اگلے روز ہماری فیکٹری کا ایک چودہ سالہ اِلیاس مزدور کام پر نہ آیا، پتا چلا کہ اُس کی لاش گلی میں پڑی ہے۔ اِلیاس کو سُپرد ِخاک کرنے کے بعد میں نے تمام کاریگروں کا حساب چُکا دیا اوراُنہیں شام کی گاڑی سے سیالکوٹ شہر آنے کی تاکید کر دی کیونکہ اُن میں سے کوئی بھی مجھے تنہا چھوڑ کر آنے پر رضامند نہیں تھا۔

کچھ دِنوں کے بعد میں نے بھی ایک سِکھ پڑوسی کے مشورہ پر تیاری کر لی۔ ستمبر کے آخِر میں دریائے توی رات کی تاریکی میں تیر کر پار کیا۔ دوبارہ اپنی فوجی وردی پہنی اور ایک راستے سے ہوتا ہوا، جہاں سے گاؤں صرف ساٹھ میل پڑتا تھا خالی ہاتھ گھر پُہنچ گیا۔ اب ہر مسجد سے یہی آوازیں آ رہی تھیں کہ جہاد کےلئے تیار ہو جاؤ۔ یہ سب سے اعلیٰ خِدمت ہے جو اللہ کو پسند ہے۔ میں ابھی جہاد کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ اچانک سردار ابراہیم سے مُلاقات ہو گئی اور اُنہوں نے مجھے اپنا ذاتی کارڈ دے کر ہیڈ کوارٹر مجاہدین کشمیر بھیج دیا اور مجھے بطور مجاہد بھرتی کر لیا گیا۔

سب سے پہلے مظفر آباد کی طرف سے بارہ مولا پر حملہ ہوا تو میں بھی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اِس میں شامل تھا۔ تقریباً دو ماہ اِسی محاذ پر خون ریز جھڑپیں ہوتی رہیں۔ آخر سردی بڑھ جانے کی وجہ سے مجھے جنوبی محاذ پر بھیج دیا گیا۔ یہاں بھی کئی معرکے ہوئے اورجِس پلاٹون کے ساتھ میں تھا، اُس کے ذِمّے یہ کام تھا کہ جو سڑک پٹھان کوٹ سے جموں کو ملاتی ہے اُس پر فوجی نقل و حمل کو بند کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو اُس سڑک پر قبضہ کیا جائے، جِس کی کوشش جاری رہی اور کئی بار مار کھائی اور بُہتیروں کو مارا بھی۔

ب۔ اہلِ کتاب

ایک روز میں نے ایک مولانا صاحب سے "کافر" کی تشریح طلب کی تو اُنہوں نے بتایا کہ: "جو شخص کلمہ گو نہیں، وہ کافر ہے۔"

میں نے پھر وضاحت چاہی کہ: "عیسائیوں (مسیحیوں) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟"

مولانا صاحب کی طرف سے جواب مِلا کہ مسیحی "اہل ِ کتاب" ہیں۔

میں نے اپنی اُلجھن کو ظاہر کرتے ہوئے پھر سوال کر ڈالا کہ: ابھی تو آپ کچھ اور کہہ رہے تھے اور اب آپ کتاب کو درمیان میں لے آئے ہیں، عیسائی تو کلمہ نہیں پڑھتے اور بقول آپ کے وہ کافر ہیں۔ مگر کافر کےلئے تو صِرف دو ہی مقام ہیں۔ ایک "باب الامان" یعنی وہ صورت جِس میں مسیحی بیعت کر کے اِسلام میں پناہ حاصل کر لیتا۔ دُوسرا "باب الحرب" یعنی وہ صورت جِس میں اُسے جنگ کےلئے تیار ہو جانا چاہیے۔ مگر کیا مجھے اہلِ کتاب (یہودیوں اورمسیحیوں) کو کافر خیال کرنا مُناسب بھی ہو گا، جب کہ اِن کی بابت اِسلامی کتاب قُرآن کی فیصلہ کن آیات میں تو یہ بیان ملتا ہے کہ:

کہہ اے مُحمد! کہ (اے ) اہلِ کتاب، تم کچھ بھی نہیں، جب تک تم، توریت اور اِنجیل پر عمل کر کے اِن کو قائم نہ کرو۔

اہلِ اِنجیل (مسیحی لوگوں) کو اِنجیل کے مطابق فیصلے کرنے دیا کرو، جیسا کہ خُدا نے اُن کو اِنجیل میں حکم دیا ہے اور وہ لوگ کافر ہیں۔ جو اہلِ کتاب کے فیصلوں اور عدالت میں رُکاوٹ اوررخنہ ڈالتے ہیں۔

یہ (یہودی اور مسیحی) وہ لوگ ہیں، جِن پر ہم نے اِلہاٰمی کتابیں، عدالت اور پیغمبری نازل کی اور مقرّر کی ... یہ ہی (یہودی اور مسیحی) وہ لوگ ہیں، جِن کو خُدا نے راہنمائی دی اور ہدایت دی ہوئی ہے۔

اے (مُحمد )! تم سے پہلے ہم نے رُوح اور وحی سےمعمور لوگوں کو بھیجا، اور اگر تجھ (محمد) کو سمجھ نہیں آتی، تو اِن (یہودیوں اور مسیحیوں) سے دریافت کر۔

(سورة المائدہ، سورة یونس اور سورة الانبیاء کی مُختلف آیات کے مطابق)

بھلا وہ قوم جو خُدا، اُس کے کلام، اُس کے فرشتوں، اُس کے نبیوں، روزِ عدالت یعنی قیامت پر پختہ یقین رکھتی ہو کیسے کافر ہو سکتی ہے، جبکہ اللہ یہودی اور مسیحی قوم سے بھی نیکی، بھلائی اور اجر عظیم کا وعدہ کرتا ہے اور اِن قوموں کو اُنکے اپنے انبیاء کے علاوہ اَور کسی نبی اور اُس کی کتاب کے ماننے اور کسی دُوسرے نبی اورکتاب پر عمل کرنے کا بھی حکم اللہ نہیں دیتا! جِس قوم کےلئے اللہ نے اِلہاٰمی کُتب، عدالت، پیغمبری، اپنی رُوح اور اپنا کلام عنایت کیا، بھلا وہ کیسے کافر ہو سکتی ہے! جِس قوم کو اللہ نے رُوح اور وحی سے معمور کر دیا، کیا مجھے اُس قوم کو کافر سمجھنا روا ہو گا؟ بلکہ یہاں تو اُن لوگوں کو کافر کہا جا رہا ہے جو اہلِ کتاب کے فیصلوں اورعدالت میں رخنہ ڈالتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ تو بذاتِ خود پیغمبر اِسلام کو یوں فرما رہے ہیں، کہ تم اہلِ کتاب کچھ بھی نہیں، جب تک کہ توریت اور اِنجیل پر عمل کر کے اُن کو قائِم نہ کریں۔ یہاں تو توریت اور اِنجیل کو قائم کرنے کا حکم صادر فرمایا جا چُکا ہے۔ اگر اہلِ کتاب کُفّار میں سے ہوتے تو کیا واقعی اللہ تعالیٰ توریت اور اِنجیل کو قائِم کرنے کا حکم دے سکتا تھا؟

مولانا صاحب میرے دلائل کو تو ردّ نہ کر سکے۔ البتہ اِتنا ضرور فرمایا کہ "میں (مولانا) اِس کی اِجازت نہیں دیتا، جو بھی آپ کی سمجھ میں آئے کریں۔"

بس پھر کیا تھا! میرے ذہن میں ایک عجیب کشمکش شروع ہو گئی کہ جب کہ ہم مسلمانوں کی کتاب اِن اہم قُرآنی حوالوں کے مطابِق مسیحی یا یہودی قوم کو کافر قرار نہیں دیتی تو مولانا صاحب نے کیوں کر قُرآن سے ہٹ کر ایسا فیصلہ کر لیا۔

لیاقت نہرو پیکٹ (مُعاہدہ) عمل میں آ چُکا تھا۔ آزاد کشمیر فوج کی ہر طرح سے حوصلہ شِکنی کی جا رہی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اِن مجاہدین کی نقل وحرکت غیرآئینی خیال کی جا رہی تھی۔ اِس پیکٹ سے فائدہ اُٹھا کر انڈین آرمی اپنی پوزیشن کشمیر میں مستحکم کر چُکی تھی۔ مجاہدین اپنے محدود وسائل کے تحت جم کر نہیں لڑ سکتے تھے، سِوائے چُھپ چُھپا کر شب خون مارنے کے۔

ایک رات مع اپنے چند ساتھیوں کے ایک گاؤں میں داخِل ہوا جِس کے بارے میں خبر ملی تھی کہ ابھی تک اِس گاؤں میں غیر مسلم ہیں۔ (اِس سے پہلے کہ آگے بڑھیں یہ بتاتا چلوں کہ قلعہ ہسپتال کی فتح کے بعد مجھے کمیشن مل گیا تھا۔) گاؤں بارڈر سے تھوڑی دُور اندر تھا۔ میں نے نمبردار صاحب کو بُلوا کر دریافت کیا: "یہاں کوئی غیر مسلم ہے؟" صاحب! کوئی ہِندو تو نہیں، البتہ ایک مسیحی خاندان ہے، جواب مِلا: "مسیحی؟ یعنی عیسائی؟" جی ہاں! صِرف تین افراد ہیں۔ "خیر غیرمسلم تو ہیں۔ چلو! لے چلو ہمیں اُن کے گھر، آج ہم اُنہی سے ... "

بیرونی دروازے کے بغیر، ایک چار دیواری میں ایک کمرہ جو اندر سے بند تھا دروازہ پر دستک دینے سے کھل گیا۔ آپ مسیحی ہیں؟ "جی ہاں ہم مسیحی ہیں۔" کیا ابھی تک آپ مسیحی ہیں؟ کیا آپ مسلمان نہیں ہو سکتے؟

دو ادھیڑ عُمر اشخاص میرے سامنے دیسی گھی کے دیئے کی مدہم روشنی میں کھڑے کانپ رہے تھے اور جواب کی تلاش میں تھے کہ اچانک چارپائی کے نیچے سے ایک کوئی دس سالہ لڑکی نکل کر سامنے آ گئی اور دو ٹوک جواب دے دیا: "ہم مسلمان نہیں ہو سکتے!"

مجھے ہنسی آ گئی اور میں نے کہا کہ: تم سے کسی نے مشورہ بھی نہیں لیا ... وجہ؟

"وجہ کچھ بھی ہو ہم مذہب نہیں بدل سکتے!"

بھولی بچّی! آج کل جان بچانے کا سستا اور آسان طریقہ یہی ہے، میں نے جواب دیا۔

"لیکن جِس پر ہمارا اِیمان ہے اُس نے کہا تھا کہ میں (یسوع مسیح) دُنیا کے آخِر تک تمہارے ساتھ ہوں اور ہمارا ایمان ہے کہ وہ آج بھی ہمارے ساتھ ہے۔" اُس نڈر بچّی نے دلیری سے جواب دیا۔

اب مزید برداشت کرنا مشکل تھا۔ اِس لئے میں نے فیصلہ کن انداز میں کہہ دیا: ٹھیک ہے! ہم اِن دو بُڈھوں کو تو ابھی ختم کر دیں گے اورتمہیں کیمپ میں اپنے ساتھ لے جائیں گے کہ تمہارے بدلے میں ہِندوستان سے ایک مسلمان لڑکی حاصل کریں۔

"جو آپ لوگوں کی مرضی آئے کریں، لیکن صِرف ایک درخواست ہے۔ ہم آپ سے زِندہ رہنے کی بھیک نہیں مانگیں گے، صِرف چند منٹ ہمیں دے دیں تا کہ ہم دُعا کر لیں، جِس (مسیح) نے یہ وعدہ کیا ہے اُس کو یاد دِلا دیں کہ وہ ہماری مدد کو آئے۔" اُس نوعمر بچّی نے درخواست کے لہجے میں کہا۔

بے وقوف لڑکی! آج کل کوئی خُدا کسی کو نہیں بچاتا۔ مسلمانوں کو سرحد کے اُس پار کسی نے نہیں بچایا، اور سرحد کے اِس پار ہِندوؤں کا کوئی دیوتا نہ اپنے آپ کو نہ اپنے پُجاریوں کو بچا سکا۔ وہ سامنے والے قلعہ ہسپتال کے مندر کو تم نے دیکھا نہیں، جِس کو مِسمار کر کے، چند گھنٹوں میں ہمارے دو جتھوں نے زمین بوس کردیا۔

"صِرف چند منٹ کےلئے اِجازت دے دیں۔" اُس چھوٹی بچّی نے کہا۔

ہاں ہاں! تم کر لو دُعا! نِکال لو ایٹم بم دُعا کر کے! بظاہر میں نے کوئی دُعائیہ جُملے نہیں سُنے، اُس لڑکی کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گر رہے تھے اور لَب ہِل رہے تھے، پھر تینوں نے یک آواز اپنی دُعا کے اِختتام میں یوں کہا: "خُداوند یسوع مسیح کے نام میں۔ آمین!"

لفظ "آمین" کے ادا ہونے کے ساتھ ہی زمین سے ایک تیز قسم کی روشنی کی دیوار اُبھرنا شروع ہو گئی اور اُس دیوار نے اُن تینوں کو ہماری نظروں سے چُھپا دیا۔ میں نے اپنی پوری زِندگی میں ایسی تیز اور ڈراؤنی قسم کی روشنی کبھی نہیں دیکھی تھی، حالانکہ موت کی روشنیوں سے میں کھیلا کرتا تھا، لیکن یہ اپنی نوعیّت کی واحد روشنی تھی جِس کو میں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصِر ہوں۔ رفتہ رفتہ یہ روشنی میرے زیادہ قریب ہوتی جا رہی تھی اور میرا بُرا حال تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ روشنی آگے بڑھ کر مجھے بھسم کر دے گی۔ میرے پسینے چھوٹ رہے تھے، اور میری رائفل ...؟ اچانک میرے ذہن میں یہ خِیال اُبھرا کہ میں اِن غریبوں سے مُعافی مانگ لوں۔ چُنانچہ میں نے کہا "ہمیں مُعاف کر دیں۔" اور میری اِلتماس کے جواب میں یوں آواز آئی کہ: "ہم آپ کو خُداوند یسوع مسیح کے نام میں مُعاف کرتے ہیں۔"

اِس جملہ کے ادا ہوتے ہی وہ آتشی دیوار ختم ہو گئی اور ہم کچھ لوٹ مار کے زیورات اور کچھ نقدی اُن کی طرف پھینک کر اُس کمرے سے نِکل آئے۔ لیکن واپس پوسٹ پر جانے کے بعد میں سو نہ سکا۔ "خُداوند یسوع مسیح" کا نام بار بار میرے ذہن کے دریچوں پر حملہ آور ہوتا رہا۔

ج۔ بِکھرے دانے

1۔ بکسٹر صاحب کا "Lord Jesus Christ" یاد آنے لگا، جِس کی مدد سے میں اور میرے ساتھی جاپانی بمباری سے محفوظ رہے تھے۔

2۔ امبر اور میری کا "یسوع مسیح" جِس کے ایمان کے تحت اُنہوں نے ایک مجبور نوجوان کی جان بچائی اور خِدمت کی۔

3۔ فلپ بدری کا "یسوع مسیح" جِس نے فلپ بدری کو اِتنی بڑی قُربانی دینے کی ہِمّت بخشی تھی۔

4۔ اُس کمسن مسیحی لڑکی کا "خُداوند یسو ع مسیح" جِس نے بروقت آ کر اُس کو اور اُس معصوم بھولی مسیحی بچّی کے خاندان کو بچا لیا۔

یہ سب واقعات باری باری یاد آ کر ایسے یک جا ہونے لگے جیسے کوئی ایک ہی مالا کے دانوں کو بِکھرا پا کر اُنکو دوبارہ ایک دھاگے میں پرو کر اُس کو مکمل کر دے۔ میں اِس حد تک قائل ہو چُکا تھا کہ یسوع مسیح ہی خُدا کی مانِند ایک زِندہ ہستی ہے جو اپنے نام لیواؤں کو بچاتا اور اُنکے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن اِس کے بعد کیا ہوا؟ اِس کا مجھے علم نہیں۔

ایک رات میری پلاٹون نے کامیاب شب خون کا منصوبہ بنایا کہ ایک گاؤں کو جو جموں ریاست کے کافی اندر تھا آگ لگا دی۔ میں خود اُس راستے پر ... ایک کماد کے کھیت میں ایک کونے پر کھڑا تھا جو ریاست کے اندر کی طرف جاتا تھا۔ گاؤں میں مرتے ہوئے اور آگ میں جُھلستے ہوئے لوگوں کی چیخ و پُکار سُنائی دے رہی تھی اور میں اِنتظار کر رہا تھا کہ اگر کسی نے اُس طرف آنے کی کوشش کی تو میری گولی ہی اُس کا موت کےلئے اِستقبال کرے گی۔

زبردست آتشی شُعلوں کو چیرتی اور دُھوئیں کو اپنے پلو سے دُور کرتی ہوئی ایک کوئی ستّر سالہ خاتون نمودار ہوئیں۔ کوئی ایک سالہ بچّے کو اپنے کندھے سے چمٹائے ہوئے تھیں۔ میں نے سوچا کہ گولی مارنا تو بیکار ہے، صِرف رائفل کے بٹ کی ایک تگڑی سی ضرب ہی کافی ہو گی۔ جونہی خاتون کی طرف بڑھا اُس نے بچّہ میرے پاؤں پر پھینک دیا اور کہا کہ "مارو! پہلے اِس کو مارو، یہ بھی ہِندو کی اولاد ہے۔ تمہارا اللہ لوگوں کے مارنے میں خُوش ہوتا ہے۔ اِس لئے اِس کو مارو۔"

میرا بڑھا ہوا ہاتھ رُک گیا اور میں سراسیمہ کھڑا رہ گیا۔ میری خاموشی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، وہ خاتون اور آگے بڑھیں اور مادرانہ انداز میں مجھ سے مخاطب ہو کر سوال کر ڈالا "کیا تمہارے بچّے ہیں؟" نہیں امّاں! مگر بھائیوں کے ہیں، میں نے جواب دیا۔ "یہ بچّے جب برسات کے دِنوں میں گیلی مٹی کے گھروندے بناتے ہیں، تم نے کبھی اُن کو بغور دیکھا ہے؟" ہاں امّاں! میں نے خُود بھی کئی بار مٹی کے گھوڑے، بیل اور گھر بنائے ہیں، "اور اگر کوئی اُن گھروں اور کھلونوں کو توڑ ڈالے تو کیسا لگتا ہے؟" بُہت دُکھ ہوتا ہے امّاں! میں نے جواب دیا۔

بس بیٹا! یہی سمجھ لو کہ یہ اِنسانی زِندگی بھی بھگوان (خُدا) کی بنائی ہوئی مورتی ہی ہے۔ اور خُدا کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ایک کھلونا جو اُس کی مہانتا (عظمت و جلال) کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر تم کو یہ گوارا نہیں کہ کوئی تمہارے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیز کو بِگاڑے تو تم یہ کیسے خیال کر سکتے ہو کہ بھگوان یا اللہ تمہارے اِن خُونی کاموں کو پسند اور قبول کریں گے، جب کہ تم اپنے ہاتھوں سے اُس کی اِنسانیت کو بگاڑتے ہو؟

کیا بھگوان اِتنے ہی کمزور ہیں جو تم سے اِنسانیت کو قتل کرنے کی بھیک مانگتے ہیں کہ "کافر" کو مارو۔ اگر کوئی اِنسان یا کوئی چیز بھگوان کو پسند نہیں تو بھگوان تو خود بھی شکتی مان (قادر) ہیں کہ وہ اُس ناپسند اِنسان یا چیز کو خود ہی ختم کرسکتے ہیں۔ بھگوان کو تم لوگوں کو کیوں کہنے کی کوئی ضرورت ہو سکتی ہے، کہ تم خُدا کی اِنسانیت کو محض کافر کا بہانہ بنا کر مار ڈالو؟ کیا تمہارے اپنے ایمان اور عقیدے اور عبادت میں یوں نہیں کہ "جِس نے کسی ایک اِنسان کو قتل کیا اُس نے ساری اِنسانیت کو قتل کر ڈالا؟"

یہ الفاظ میرے دِل و دماغ پر ہتھوڑے کی ضرب کی طرح لگے اور میں چِلا اُٹھا۔ "امّاں بس کرو! آج کے بعد یہ ہاتھ مذہب کے نام پر کسی پر نہیں اُٹھیں گے۔ امّاں! میں سمجھ گیا ہوں کہ، میں گمراہ ہوں۔

8.مجروح اِنسان

الف۔

میرے ہمدموں نے، مجھے زخمی کر دیا

مجروح ہوکے، یاد کروں، چارہ جُو کو میں

یہ اِنسانی فِطرت ہے کہ وہ جِس بات یا اِعتقاد کا قائِل ہے یا جو خیال اُس کے نزدیک قابلِ قبول ہے وہی بات دُوسروں سے منوائے، اور اگر بس چلے تو جبراً دُوسروں پر اپنی بات اورعقیدہ تھوپنے کی کوشش کرے۔ اور یہی رویّہ اور روِش، ایمان اور مذہب کے بارے میں اِنسانیت میں رہی ہے۔ لیکن ہم تو اِس بات کے قائِل ہو چکے ہیں کہ جیسے ایک اِنسان کی ناک دُوسرے اِنسان کی ناک سے مُختلف ہے، ویسے ہی ہر اِنسان کے سوچنے کا انداز بھی دُوسروں کی سوچ سے جُدا جُدا ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے اِس بیان سے دُوسروں کو اِختلاف ہو گا اور مذہب اور خصوصاً مسئلہ جہاد پر بُہت کچھ کہنے اور بیان کرنے کےلئے احباب کے پاس ہو گا۔ لیکن اِس ضمن میں میں (راقِم) کسی بھی نکتہ چینی یا وضاحت کو اپنے حق میں قُبول کرنے کےلئے ہرگز تیار نہیں۔ (راقِم، خود بھی مسلم ہوتے ہوئے) اِسی طرح اِسلامی جہاد کا قائِل تھا۔ مگر مسیحی ہونے کے بعد، مسیح کی پاک محبّت اور ابدی مُعافی میں اِسلامی جہاد کی قتل و غارت کو ہم نے سرے ہی سے اپنے ایمان اور زِندگی سے خارج کر دیا۔ موجودہ مُہذب دُنیا کے کسی بھی شخص کو اپنی رائے اور خاص کر مذہبی رائے کسی دوسرے پر نافذ یا لاگو کرنے کا کوئی حق ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم نے قلم اِس لئے نہیں اُٹھایا کہ کسی کے اِیمان و مذہب کی تذلیل کریں۔ اورنہ ہی ہم کسی کو یہ کرنے کی اِجازت دینے کو تیار ہیں۔ بس جیسا ہم نے سوچا اور محسوس کیا، ویسا ہی فیصلہ بھی کیا۔ اِسی طرح ہم نے مسیحیت کو محمدیت سے بھی پرکھا، اورمسیحیت کا اِلہاٰمی اور پاک اور عظیم ترین رُوحانی تاثُّر قبول کر کے، اِس زِندہ اور سچے مسیحی ایمان کو صراطِ مستقیم کے طور پر اپنی آخرت کی راہ مُتعیّن کر لیا ہے۔

ہم نے تو اپنا، آپ گریبان کیا ہے چاک

خود ہی سیا، سیا نہ سیا، پھر کسی کو کیا

اُس رات اُس بُزرگ ہِندو خاتون کے مُنہ سے اِیسی باتیں سُن کر جب میں نے اپنے آپ کا محاسبہ کر کے دیکھا اور پرکھا تو یہ محسوس کیا کہ میرے جیسے شخص کےلئے سِوا دوزخ کے اَور کوئی مقام نہیں ہے کیونکہ میں نے خُدا کی صِفت (اشرف المخلوقات) کو اپنے ہاتھوں سے بگاڑا (اِسلامی جہاد کے نام پر قتل کیا) تھا۔

جِس بشر کےلئے خُدا تعالیٰ نے پُوری کائنات کو وُجُود بخشا تھا، میں نے خُدائے خالِق کی اِس مخلوق ِاشرف کو تباہ کر دیا ہے۔ ہِندو خاتون ماں کی یاد دِہانی اب فیصلہ کن سی ہو گئی کہ جِس نے ایک اِنسان کو قتل کر ڈالا اُس نے تمام اِنسانیت کو قتل کر ڈالا۔

پھر یہ خیال ذہن میں سر اُٹھاتا کہ یہ سب کچھ میں نے خُود نہیں کیا بلکہ مُجھ سے کروایا گیا ہے۔ کیا میں نے اللہ اور پیغمبرِ اِسلام اور قُرآن کے حُکم سے اِنسانیت کی قتل و غارت نہیں کی؟ اِس تمام خونی کھیل کا ذِمہ دار کون! اللہ یا مُحمد یا قُرآن یا ...؟

جب خُدا کسی اِنسان کو بناتا ہے اور اُس کو اُس کی آزاد مرضی پر چھوڑ دیتا ہے تو پھر اُس اِنسان کے نیک و بَد اعمال کی بابت باز پُرس کرنے کا خُدا کو کیا حق ہے؟ اور پھر اُسے دوزخ کی دھمکی کیوں دیتا ہے؟ اگر کسی گناہ یا بدی یا قتل و غارت کو خُدا ناپسند کرتا ہے تو اُس کے اِرتکاب کی طاقت اِنسان کو کیوں دیتا ہے؟

جب میری محدود عقل نے میری کسی بھی طرح سے راہنمائی نہ کی اور میں کسی نتیجے پر پُہنچ نہ سکا تو میں نے خیال کیا کہ شاید خُدا کا وجود ہی ایک واہمہ ہے اور مذاہب اِنسانوں کے خود ساختہ ہیں، جو لوگوں نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق اِنسانوں کو بے وقوف بنانے کےلئے مرتّب کر لئے ہیں۔

لیکن ضمیر سے آواز آتی کہ نہیں! بلکہ خُدا ہے۔ اور کائنات کا نِظام اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کا کوئی نہ کوئی موجِد اور ناظم ہے۔ اگر اِنہی حقائق کا کوئی مقام نہ ہوتا اور ربّ کا رشتہ اپنے بندوں سے، اپنے ہی کلام اور اپنی ہی رُوح کے وسیلہ نہ ہوتا تو یہ پُوری کی پُوری دُنیا وِیرانہ ہوتی اور دُنیا میں کوئی جاذبیّت نہ ہوتی۔

اب حالت یہ تھی کہ میں راتوں کو سو نہیں سکتا تھا اور سوچتے سوچتے جب تھک جاتا تو کبھی کبھی نیند آ بھی جاتی۔ لیکن اب نہ تو وہ جوش تھا نہ ہی وہ ولولہ۔ چند روز اپنی پوسٹ پر گزارنے کے بعد، میں اپنے کمانڈر سے ملا اور اِستعفیٰ پیش کر دیا۔ کیونکہ اب مزید خِدمت میرے بس کی بات نہیں تھی۔

اِستعفیٰ پیش کرتے وقت جو بات چیت میرے کمانڈنگ کے مابین ہوئی اُس کی تفصیل کی ضرورت نہیں اور ممکن ہے وہ بعض احباب کی دِل آزاری کا سامان پیدا کرے، جو اپنا شیوہ نہیں ہے ورنہ بُہت تفصیل سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ میں چونکہ کوئی تنخواہ وغیرہ وصول نہیں کرتا تھا اِس لئے میں کسی کا پابند نہیں تھا، سو میں نے اس نام نہاد جہاد والی رضاکارانہ خِدمت سے علیحدگی اختیار کر لی۔

ب۔ رہبر و رہزن

اب میں اپنے آپ کو ایک بھٹکا ہوا اِنسان محسوس کر رہا تھا اور زِندگی میں روشنی کی کوئی تھوڑی سی بھی جان باقی نہیں تھی۔ میں نے کمانڈنگ کے مشورے پر ایک خِدمت قبول کر لی اور وہ یہ تھی کہ ہِندوؤں کی اِملاک متروکہ (ترک شُدہ جائیداد) کو ایک جگہ جمع کیا جائے۔ میرے ساتھ نیشنل گارڈ کے رضاکار ہوتے تھے اورایک مسلمان دینی راہنما جِس کا نام میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

ایک روز جب میں کھانا کھانے گھر آیا، تو میرے بھائی مرحوم حاجی خُدا بخش نے میرے پاس ایک بُہت ہی خوبصورت رُومال دیکھا اور پوچھا کہ رُومال تم نے کہاں سے لیا ہے؟ میں نے بتا دیا کہ ہِندوؤں کے سامان سے لیا ہے۔ بھائی صاحب نے رُومال لے کر چولہے میں جھونک دیا اور کہا: "تم یہ رُومال لے کر اپنا اور ہمارا مُنہ کالا کر رہے ہو! تم اب گھر پر ہی رہو گے اور کل سے بیت المال کی ڈیوٹی پر نہیں جاؤ گے! سُنا تم نے؟" مجھے حیرت ہوئی کہ بھائی صاحب نے ایک رُومال کو تو میرے پاس برداشت نہیں کیا لیکن فلاں مولوی صاحب نے تو ہِندوؤں کے مِٹّی کے چولہے تک اُٹھوا کر اپنے گھر میں رکھوا لئے ہیں۔

بلند شہر یعنی دیوبند میں یہ مولوی صاحب تو صِرف تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے تھے اور مجھے یاد ہے کہ والد صاحب اُس کو دیوبند میں پیسے بھیجا کرتے تھے اور اُس کی غیر موجودگی میں اُس کے خاندان کی کفالت میں بھی نُمایاں کِردار ادا کرتے رہے۔ لیکن ابھی اگلے روز ہی ایک افسر ضلع کی طرف سے آیا تھا تو مولوی صاحب اپنے کو ہِندوستان کا شہری بتا رہے تھے اور کلیم (Claim) فارم میں کافی اراضی لِکھوائی تھی اور کئی مکانات کا بھی ذِکر تھا۔ اِس کلیم کے علاوہ پاس کے گاؤں میں ہِندوؤں کے چلے جانے کے بعد مولوی صاحب نے ایک بُہت بڑی حویلی پر بھی قبضہ جما رکھا تھا۔ آخِر یہ سب کیا تھا؟ جب میں بُہت چھوٹا تھا تو والد محترم نے مجھے ایک بار نصیحت کے طور پر یوں مکینِ مساجِد کی بابت کہا تھا کہ:

بیٹا سُنو! یہ مولوی حضرات، بس ہر طرح سے گُمراہ ہیں۔ اِن کی باتیں تو سُنو لیکن اِن کی پیروی مت کرو۔ منصور کو سُولی چڑھانے والے یہی لوگ ہیں۔ اِن کا احترام ضرور کرو لیکن اِن پر بھروسا ہرگز نہ کرو۔ جہاں تک ممکن ہو ایسے مذہبی لوگوں (مولوی یا قاری یا حافظ حضرات) کو اپنے گھر سے بُہت ہی دُور رکھو۔

یہ بات غالِباً والد صاحب نے اُسی وقت کہی تھی، جب ایک فرشتہ سیرت حافظ صاحب کو ایک مسجد میں سے کسی عورت کے ساتھ عین زِناکاری کی حالت میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اور والِد صاحب نے اُس وقت سے باجماعت نماز ترک کر دی تھی۔ وہ نماز تو باقاعدہ پڑھتے، مگر تنہا۔

رہبر کے روپ میں مجھے کئی رہزن ملے

خود کو سنبھالوں یا بچاؤں آبرو کو میں

9.لاَ تَقْنَطُو

الف۔ رُوح کی فریاد

اب میرا مزاج چِڑچِڑا ہو چُکا تھا اور دُنیا کی ہر چیز کی طرف بیزاری کا سا عالم پیدا ہو چُکا تھا۔ جو دوست میرے قریب بیٹھنے میں فخر محسوس کرتے تھے اب وہ دامن بچانے لگے۔ میری باتیں دوسروں کے ذہنوں کےلئے ناقابل قبول تھیں کیونکہ میں اپنے اِسلامی مذہب اوراِس مذہب میں موجود تمام گناہ آلودہ روایات یعنی توہم پرستی، قبر پرستی، مردہ پرستی، دھاگہ تعویز اور جادوگری، دھوکہ، جھوٹ و مکاری، کثرت کی شادیوں کی آڑ میں زِناکاری، قُرآن کے مطابِق عورتوں کے صلب شُدہ حقوق، دکھاوے کی نماز، مکاری کا روزہ، معاشرے میں حاجی صاحب بننے کی غرض سے حج کرنے کی نیت اور لاؤڈ سپیکروں میں لوگوں سے واہ واہ کی خاطر اعلان کے ساتھ زکوٰ ة، رشوت، سفارش، وقت اور مال کی چوری، جہاد کے نام پر قتل و غارت، دُوسروں کے مذاہب کو ناچیز و حقیر جاننا اور اُن کو گالی گلوچ دینا وغیرہ وغیرہ کو ہوبہو سچّائی کے ساتھ ہی بیان کردیا کرتا تھا اور میری سچی تجربے والی یہ باتیں بیشتر لوگ رد بھی نہیں کرتے تھے، مگر چند لوگ مشورہ بھی دیتے کہ مذہب کی بابت گناہگار گریباں کو چاک نہ ہی کیا جائے۔ مولانا مذہبی حضرات بھی میری نظروں میں ہرگِز نہیں بھاتے تھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں ہی لوگوں سے نفرت کرتا تھا یا لوگ مُجھ سے بھی۔

البتہ اِتنا ضرورتھا کہ میں اپنے گھر اور باہر، اپنوں اور دُوسروں کےلِئے اجنبی تھا۔ مذہب کی بابت میرے آزاد خیالات کی وجہ سے مجھ سے گھر کا کوئی فرد بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ اب مجھے گھر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ اب میرا وجود سب کے نزدیک قابلِ اعتراض تھا۔

مئی 1949ء میں، میں نے خاموشی سے اپنا گھر چھوڑ دیا اور کسی نامعلوم منزِل کی طرف روانہ ہو گیا۔ گرچہ کوئی منزل اور کوئی ٹھِکانہ نہیں تھا لیکن ایک مقصد ضرور تھا، اور وہ مقصد یہ تھا کہ مجھے حقیقی سکونِ قلب مل جائے۔

کئی دوست احباب سے مِلا، درگاہوں پر راتیں گزاریں، کئی درویشوں کی قُربت اِختیار کی لیکن جِتنا زِیادہ میں نے اِن لوگوں کی قُربت اور دِکھاوے کے درویشوں اور نام نہاد خُدا رسیدہ ہستیوں کی نزدیکی اِختیارکی، مجھے سِوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملا۔ میری ملٹری کی تربیّت کچھ ایسے ڈھنگ سے ہوئی تھی کہ میں ہر شخص پر آسانی سے یقین بھی نہیں کرتا تھا۔

میں ہر درویش اور فقیر کا جب بغور مطالعہ کرتا تو پتہ چلتا کہ یہ لوگ تو خود راہ اور حق اور زِندگی کی تلاش کے دعوے دار ہوتے ہوئے بھی گمراہ ہیں۔ میں نے اِن اصفیاء (چُنے ہوئے پاک دِل بُزرگ) اور فُقراء کو ایسی ایسی گندی و غلیظ قسم کی عادات میں مبتلا پایا کہ بیان کرتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتا ہوں۔ گدی نشینوں کی طرف پلٹ کر دیکھا تو اِن کا اِس سے بھی بدتر حال دیکھ کر دِلی دُکھ ہوا۔

سیّد زادوں اور نجانے کیا کیا زادوں کے غُلاموں جیسے مزارعین تو فاقے کر رہے ہیں اور خود یہ سیّد حضرات رُوس کے ملک سے بذریعہ ہوائی جہاز کتّوں کی جوڑیاں منگوا رہے ہیں۔ اور جو لوگ اِن سیّد زادوں کے کھیتوں میں اپنا خون پسینہ ایک کر دیں، اُن کے بچّے ایک گھونٹ دُودھ حاصل نہ کر سکیں لیکن ادھر سیّد زادوں کے کتّوں کو دو وقت تازہ گوشت مل رہا ہے۔

اپنے ہی مذہب کی اِن تمام گناہ آلودہ حرکات کے مشاہدات نے مجھے ذہنی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا اور اَب میں نے براہِ راست بُہت سویرے اُٹھ کر خُدا تعالیٰ سے دُعا کرنا شروع کر دی۔ یہ دُعا کم اور رُوح کی پُکار اور فریاد زیادہ تھی۔

میری دُعا اِن الفاظ میں زیادہ تھی:

رَبّ باری! تیری ذات سے اِنکار ناممکن ہے۔ میری رگ و ریشہ سے تیری ذاتِ باری کا ظہور ہے۔ پوری موجودات تیری ہی ذات کی مظہر ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تُو نے مجھے اور تمام اِنسانوں کو بنایا، میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے رہبرانِ بے ایماں کی تقلید کر کے اُن کے تباہ کن مشوروں پر عمل کر کے تیرے ہی بنائے ہوئے اِنسانوں کو ستایا اور جہاد کے نام پر مارا، اور قتل و غارت کی ہے۔ میری بد اعمالیاں یہ بتاتی ہیں کہ میرا حِصّہ دوزخ ہے، کیونکہ اے میرے مالک تو تمام گُنہگاروں کی عدالت کرے گا، مجھے اپنے موجودہ مذہب اورعقیدہ پر مزید اعتماد نہیں رہا ہے۔ اے میرے خالِق اور آقا! تُو مجھے صراطِ مستقیم دِکھا اِس لئے کہ میں دوزخ میں نہیں جانا چاہتا اگر تُو نے مجھے صراطِ مستقیم نہ دِکھائی، اور میں اِسی حالت میں دُنیا سے اُٹھ گیا تو تجھے کوئی حق نہیں کہ تُو مجھے دوزخ میں جانے کا حُکم دے۔ میں جَہنّم میں بھی جانے سے اِنکار کر دوں گا۔ اگر تُو زِندہ اور راست ہے تو مجھے اپنی ہی راہ دِکھا کہ میں تیرے دیدار کو حاصل کر سکُوں۔ میں دُکھی ہوں میرے مالک اور خُداوند! میں سکونِ قلب کی خاطر مارا مارا پھر رہا ہوں۔ میری مدد کو آ، اے میرے خالِق و آقا! مجھ کو میرے گناہوں کے اِحساس کے نشتر زخمی کر رہے ہیں، مجھ پر اپنے پاک فضل کی نظر کر، مجھ گناہ گار پر رحم کر اپنے پاک کلام اور اپنی پاک رُوح میں مجھ کو لے لے! راہ اور حق اور زِندگی ظاہر کرنے والے پاک آسمانی خُدایا! رحم کر۔ آمین!

ب۔ سُراغ منزل

تاریخ تو اَب یاد نہیں لیکن یہ صُبح کے تین یا چار کا وقت ہو گا۔ میں حسبِ عادت فریاد اور دُعا کر رہا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سلسلہ جاری تھا۔ آج میں معمول سے زیادہ رنجیدہ تھا۔ یہ کمالیہ ریلوے اسٹیشن کا مسافر خانہ تھا۔ اچانک میری پچھلی طرف آ کر، کسی نے میرے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا: "میرا فضل تیر ے لئے کافی ہے۔"

یہ جُملہ تین بار دُہرایا گیا اور تیسری بار میں نے اپنے جِسم میں برقی لہر کو دوڑتے ہوئے محسوس کیا اور میرے ذہن اور دِل پر جو بوجھ تھا وہ ایک دم سے دُور ہو گیا۔ میری رُوح گویا زِندہ ہو گئی اور مجھ پر کیف و سُرور کی سی عجیب کیفیت طاری ہو گئی اور میں وَجد کی حالت میں یہی جُملہ بار بار دُھرانے لگا "میرا فضل تیر ے لئے کافی ہے۔"

میرے بینچ کے قریب ہی ایک ریلوے کا مُلازم صفائی کر رہا تھا جو مجھے اِس حالت میں دیکھ کر رُک گیا اورمیرے قریب آ کر بولا: "کاکا! تُوں عیسائی ایں؟"

میں نے نفی میں سر کو جُنبش دی تو اُس نے حیرت زدہ ہو کر مُجھ سے پوچھ ڈالا: تو پھرتم یہ مسیح کی پاک اِنجیل کے الفاظ کیوں بار بار کہہ رہے ہو؟ "میرا فضل تیرے لئے کافی ہے۔"

بُزرگ بابا جی! میں نہیں جانتا کہ میں کیوں یہ فِقرہ بار بار کہہ رہا ہوں۔ صِرف یہ جانتا ہوں کہ ابھی ایک نیک پاک اِلہٰی ہستی نے مجھ سے یہ الفاظ کہے تھے، اور غالِباً چند تختیاں بھی دِکھائی تھیں، جِن پر میری تمام بداعمالیاں کندہ تھیں۔ لیکن اُن گناہ سے بھری تختیوں کو اُس نیک اور پاک اِلہٰی ہستی نے اپنے پاک ہاتھوں سے، اپنے ہی پاک خون کے وسیلہ صاف کر دیا تھا۔ اُس وقت سے میں ایک نیا بشر ہوں، میری رُوح کا سارا بوجھ اُتر گیا ہے، میرا دِل کچھ گانے کو چاہتا ہے۔

اُس بُزرگ آدمی نے مجھے بتایا کہ، خُداوند کا شکر ہو بیٹا! یہ جو پاک و نیک اِلہٰی ہستی تیرے پاس آئی تھی وہ "خُداوند یسوع مسیح" تھا۔ یہی الفاظ خُداوند یسوع مسیح نے مقدّس پَولُس رسول سے بھی کہے تھے، جب یسوع مسیح، ساؤل یعنی پَولُس پر ظاہر ہوا تھا اور یہ سچّا واقعہ اِنجیل پاک میں لکھا بھی ہوا ہے۔

اَب خُداوند یسوع مسیح یہ چاہتا ہے کہ تم اُس کے نیک و پاک بندے بن جاؤ! اُس بُزرگ نے مجھے مشورہ دیا۔ مگر وہ کس طرح بابا جی؟ میں کس طرح مسیح کا وفادار بندہ بن سکتا ہوں؟ بابا جی نے مجھے بتایا کہ میں اپنے گناہوں کا مسیح کے سامنے اِقرار کروں اپنے گناہوں سے توبہ کروں اور اِن تمام گناہوں کو ترک بھی کر دوں۔ یسوع مسیح کے خُداوند اور مسیح ہونے کا اِقرار کروں اور یہ اِقرار کروں کہ مسیح یسوع میرےگناہوں کےلئے پاک نوِشتوں کے مطابِق صلیب پر قُربان ہوا، مر گیا اور دفن ہوا۔ اور پھر خُدا کی پاک رُوح کی قُدرت سے مردوں میں سے زِندہ ہوا۔ اوراب مجھے اِسی مسیحا کے مردوں میں سے زِندہ ہونے کی گواہی دینا ہے۔ مسیح خُداوند کے نام میں بپتسمہ لینا ہے اور پاک اِنجیل کے تمام احکامات کے مطابق مسیح کے پیچھے چلنا شروع کرنا اور آسمان کی بادشاہت اور خُدا کی راستبازی کی منادی بھی کرنا ہے۔ مگر بابا جی! مجھے وضاحت سے بتاؤ کہ میں ابھی کیا کروں اور کہاں جاؤں، کس سے ملوں؟ مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اب منزل مل گئی ہے!

اُس بُزرگ بابا نے مجھے بتایا کہ "میرے بیٹے! تم اب یہاں سے تاندلیانوالہ جاؤ تو وہاں سے عیسیٰ نگری چلے جانا جہاں پر ایک پادری صاحب ہیں جِن کا نام پادری عنایت رومال شاہ ہے اور وہ تمہاری مدد کریں گے۔" اَب یہ بُزرگ جھاڑو چھوڑ کر آبدیدہ ہو کر میرے اَور قریب آ گئے اور میں نے اُنہیں اپنی بانہوں میں بھینچ کر گلے لگا لیا اور دُونوں نے خوب رو کر دِل کی بھڑاس نکالی۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے یہ اُسی بچّی کا باپ ہو جِن کے مارنے کےلئے میں اور میرے ساتھی گئے تھے۔ مگر اُن کو خُداوند مسیح یسوع نے بچا لیا تھا۔

10.سَرِ راہ

تھی وہ اِک در ماندہ، راہ روکی، صدائےِ دردناک

بُھول سے جِس کو، رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں

الف۔ راہوں کے کانٹے

دِل و ذہن پر سے مایوسی اور نااُمیدی کے بادل چھٹ جانے کے بعد جب میں تاندلیانوالہ ریلوے اسٹیشن پر اُتر کر عیسیٰ نگری چک 462 سمندری پُہنچا تو بُزرگ پادری عنایت رومال شاہ صاحب سے مُلاقات ہوئی جِنہوں نے بڑے تپاک کے ساتھ مجھے قبول کیا۔ اپنے دفتر میں بِٹھا کر کھانا کھلایا۔ بعد میں مجھ سے سوال کیا اور زیرِ لب مُسکرا دئیے۔

"برخوردار! تم کیوں مسیحی ہونا چاہتے ہو؟"

کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ میں مسیحی ہو جاؤں۔ کل رات یعنی آج صُبح سویرے قریب تین چار بجے، مسیح خود مجھ سے ملا ہے اور اُس نے خود کہا ہے کہ "میرا فضل تیرے لئے کافی ہے" میں نے جواب میں کہا۔

پادری صاحب نے میرے ایمان کو آزمانے کی غرض سے پوچھا کہ "لیکن مسیح کے تو لوگوں نے کپڑے بھی اُتار لئے تھے، اُس کو کوڑے مارے، مُنہ پر تھُوکا، گالیاں دیں، لعن طعن کیا گیا، اور اِنسانیت کے گناہوں کی خاطر کفّارہ کی موت بھی مر گیا، اور تیسرے دِن مردوں میں سے زِندہ ہوا۔ وہ تو ایک حلیم ہستی تھی۔ مسیح یسوع سے تم کیا توقع کرتے ہو؟ یہ دیکھو سامنے والی تصویر کو!" پادری صاحب نے (دیوار کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے) کہا۔ پادری صاحب! یہ مت کہیے، یسوع مسیح کی اُس عظیم اور حلیم ہستی نے تو مجھے سب کچھ ہی دے دِیا ہے، اُس نے مجھے ایک نیا اِنسان بنا دیا ہے اور مجھے سکُونِ قلب (دِلی سکون) مل گیا ہے۔

پادری صاحب نے کچھ دیر سوچ کر کہا کہ "اچھا تو میں یہ کرتا ہوں کہ تمہیں گوجرہ میں ایک مشنری دوست کے پاس بھیج دیتا ہوں۔ آگے وہ تمہاری مدد کریں گے۔" چند لمحوں کے بعد مجھے ایک خط تھما دیا گیا، اور نو (9) آنے کی رقم مجھے دی تا کہ میں سمندری سے بس میں سوار ہو کر گوجرہ چلا جاؤں۔

بعد از دوپہر میں گوجرہ آ گیا، مشنری پادری وٹن صاحب سے ملا۔ پادری صاحب نے مجھ سے کہا کہ پہلے ہم تمہیں آزمائیں گے۔ اِس کے بعد آپ کے بپتسمہ (Baptism) کا فیصلہ ہو گا۔ میں نے بخوشی اِسے قبول کر لیا۔ اِس کے بعد مجھے ایک مسافرخانہ دکھایا گیا، جِس کی کل کائنات دو لحاف اور ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی تھی۔ اگر لحاف اوڑھتا تو گرمی ستاتی اور اگر لحاف اُتارتا تو مچھّر حملہ آور ہو کر میرےسُرخ خون کی ضیافت اُڑاتے۔ کھانے کا کوئی معقول بندوبست نہیں تھا۔ اگر کسی صاحب نے دے دیا تو کھا لیا اوراگر کسی کو خیال نہ آیا تو فاقہ۔

ایک مرتبہ کوئی تین روز تک کسی کو مجھے کھانا دینے کا خیال نہ آیا تو میں بھوک سے نڈھال ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ آخِر ایک روز صاحب بہادُر خود میرےسیاہ خانے میں تشریف لائے اور پوچھا: "بھائی جی! کیا بیمار ہیں آپ؟" نہیں صاحب! بیمار تو نہیں ہوں۔ "آپ اِتنے کمزور کیوں لگ رہے ہیں؟ کھانا وغیرہ کھایا ہے؟" میں نے نفی میں سر ہلایا تو پھر پوچھا "کِتنے روز سے؟" بات کرنے کی قُوّت تو جواب دے چکی تھی، لیکن آنسو نہ جانے کیوں اور کہاں سے آنکھوں میں اُتر آئے۔ میں نے اُنگلیوں کے اِشارے سے بتانے کی کوشش کی تو وٹن صاحب سمجھ گئے کہ تین روز سے فاقہ سے ہوں۔

وٹن صاحب میری چارپائی کے پاس بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ اور کہنے لگے کہ ہم لوگ کتنے کمینے ہیں، کتنے ظالم! میں تو یہاں تھا نہیں، لیکن احاطے کے لوگوں میں سے کسی کو بھی خیال نہ آیا کہ تمہیں کھانے کےلئے پوچھ لیتا؟

کوئی بات نہیں صاحب! میں نے کہا کہ شاید یہ بھی میرے اِمتحان کا ایک حِصّہ ہے، اِس لئے میں نے کسی سے نہیں کہا، نہ ہی باہر نِکلا ہوں کیونکہ احاطے کے لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ نوجوان ضرور کسی چھوکری کے پیچھے عیسائی ہو رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے اِسے مُلازمت کی ضرورت ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اِسے پیسے کا لالچ ہے۔ میں سب کچھ سُنتا ہوں مگر خاموش ہوں ۔ "اچھا اَب اُٹھو اور میرے ساتھ گھر پر چلو۔"

مجھے سہارا دے کر وٹن صاحب اپنے گھر لے گئے اور خانساماں سے کہا کہ "میں گھر پر رہوں یا نہ، وہ کھانا بنا کر مجھے کھلا دیا کرے۔" یہ تو صاحب بہادُر کی مہربانی تھی ورنہ احاطے کے لوگوں کو یہ بھی پسند نہیں تھا۔ دو روز کے بعد ہی باتیں شروع ہو گئیں تھیں کہ، "بس جی! مکھّن روٹی مل جاتی ہے۔ خُدا کا شکر ہے۔"

میں نے حالات کو بھانپ کر صاحب بہادُر سے کہا کہ میرے رہنے اور کھانے کا اِنتظام آئیور ہوسٹل (بورڈنگ ہاؤس) میں کر دیں کیونکہ لوگ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اِس احاطے میں کسی دُوسرے کی گنجائش نہیں ہے۔

جون کے مہینہ میں اسکول اور بورڈنگ بند ہو جایا کرتے تھے لیکن میرا انتظام ایک برادر سیوک بوٹا مسیح کے سُپرد کر دیا گیا اور ساتھ ہی چوکید ار کی مُلازمت کی بھی پیشکش کی گئی جو میں نے بخوشی قبول کر لی کیونکہ میں کسی پر بوجھ بن کر زِندگی گزارنا نہیں چاہتا تھا۔

سیوک بوٹا مسیح، نہایت دُعا گو اور حلیم الطبع اِنسان تھا۔ جِس کی رفاقت میرے لئے رُوحانی ترقّی کا باعث تھی۔ مسیحی عملی زِندگی اور مسیحی اِیمان کے سادہ رموز میں نے اُنہی سے سیکھے۔ سیوک صاحب صِرف گورمکھی زُبان پڑھ سکتے تھے اور لڑکیوں کے اسکول یا بورڈنگ میں بطور چپڑاسی کے کام کرتے تھے اور اپنی قلیل آمدنی پر قانع تھے اور اُسی سے میرے جیسے لوگوں کی بھی مدد کرتے تھے۔ اب اگر اِن باتوں کو تفصیل سے بیان کیا جائے جو میرے مُتلاشی ہونے کے زمانے میں مجھ پر گزریں تو میں شِکوہ کی حدُود میں داخِل ہو جاؤں گا۔

غم نہ کر، یہ دُنیا ہے، سب اُلٹے، اِس کے دھندے ہیں

شِکوہ زبان پر لا نہیں سکتے، جو حق کے بندے ہیں

اِختصار کے ساتھ یہ بیان کر دینا کافی ہو گا کہ مِشن احاطوں کی مسیحی دُنیا الگ ہی ہوتی ہے۔ گِرجے سے قریب رہنے والے لوگ گرجے سے بُہت کم تعلق رکھتے ہیں اور صاحب کی خوشامد اورحاضِرباشی (موجودگی) اُن کی زِندگیوں میں خلوص کے بجائے ریاکاری کو بھر دیتی ہے اور یہ غریب لوگ اِسی چکر میں اپنی عُمر عزیز گزار دیتے ہیں اور حقّانیت کو زِندگی بھر نہیں پا سکتے۔ حالانکہ باہر (اِسلام یا کسی اور دین) سے، مسیحیت میں آنے والے لوگ اِن ہی کی آنکھوں کے سامنے قُربِ خُداوندی حاصل کر کے خُداوند یسوع مسیح سے سرشاری اور راحت حاصل کر لیتے ہیں، جِس کےلئےاُ نہوں نے اپنی مادی دُنیا کو پھونک کر زِندگی میں ایک نہایت ہی سنجیدہ فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ اِن لوگوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ مگر غُربت اِنسان کو کمینہ بھی بنا سکتی ہے۔اِس میں اُن کا قُصور کم ہے۔

ستمبر 1949ء کے آخری دِنوں میں مجھے بتایا گیا کہ میرا بپتسمہ اکتوبر کی 2 تاریخ کو ہو گا جب گوجرہ (ضلع لائیلپور، موجودہ فیصل آباد) کا پہلا اِجلاس ہو گا۔ بپتسمہ سے پہلے مجھ سے کئی سوالات پوچھے گئے، کتابوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کِتنی اور کون کون سی پڑھی ہیں، غالِباً وٹن صاحب کی اُردو کی پوری الماری اور کچھ انگریزی کی کتابیں بِلااِجازت پڑھی تھیں۔

بپتسمہ (Baptism) سے مراد پانی میں ڈالا جانا ہے جو مسیح یسوع کی موت، مسیح کے دفن ہونے، اورمسیح کے مردوں میں سے زِندہ ہو جانے کی عین مشابہت ہے۔ اِنسان خُدا کے سامنے اپنے گناہگار ہونے کا اِقرار کرتا اوریسوع مسیح کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرتا اور اِس موجودہ گناہ آلودہ دُنیا کو ترک کر کے مسیح کے ساتھ ایک طرح سے پانی میں دفن ہوتا، اور جب وہ پانی سے باہر نِکلتا، تو گویا وہ گناہوں کے باعث مردہ حالت سے زِندہ ہوتا ہے، اور راستبازی کے اِس قدم کے بعد وہ مسیح اوراُس کے پاک خون سے خریدی گئی پاک کلیسیا کے ساتھ زِندہ رہے گا (مُتلاشی اورنو مرید مسیحی کےلئے لفظ بپتسمہ کی بابت ایک اہم مگر بُنیادی خیال)۔

ستمبر کی 30 تاریخ کو جب میں دُعا کر رہا تھا تو خُداوند نے میرے ضمیر کو بیدار کیا اور بتایا کہ اَب تک میں نے وٹن صاحب کو اپنا حسب و نسب نہیں بتایا۔ گویا اپنے آپ کو چھپائے رکھا۔ یہ بُزدِلی یا فریب دہی ہے۔ یہ بھی تمہاری راہوں کا کانٹا ہے جِس کو ہٹانا ہے۔ میں اُسی وقت رات کو اُٹھ کر صاحب بہادُر کے پاس گیا اور اپنے آپ کو اصلی صورت میں پیش کیا جِس سے اُنہیں بُہت خوشی ہوئی اوراُنہوں نے میرے ساتھ مل کر خُداوند یسوع مسیح سے دُعا کی۔

2 اکتوبر کو میرا بپتسمہ ہو گیا اور مجھ پر "مسیحی" ہونے کی مہر لگ گئی۔ میں بُہت خوش تھا کہ اب تو میں نے خُداوند یسوع مسیح کے پاک نمونہ کا (راست بازی کو پورا کرنے کے مطابِق) بپتسمہ بھی لے لیا ہے۔ اب تمام راہیں صاف اور ہموار ہو گئی ہیں۔ اب تو میں مسیحی برادری کا ایک رُکن بن گیا ہوں۔ اب یہی میرے لوگ ہیں اور میں مسیحی خاندان کا فرد ہوں اور اپنے خُداوند یسوع مسیح کا گواہ ہوں۔

ابھی میرے بپتسمہ کو دو ہفتے ہی گزرے ہوں گے کہ میرے بڑے بھائی صاحب میری تلاش میں گوجرہ آ گئے۔ اُس روز نہ تو ماسٹر چرن داس نہ ہی وٹن صاحب اور نہ ہی پادری بی۔ ایم۔ آگسٹین صاحب تھے۔ غالِباً یہ سب لوگ کسی اہم مشن میٹنگ پر گوجرہ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ میرے بڑے بھائی نے میرے سامنے دو راستے رکھ دئیے۔

1۔ پہلا تو یہ کہ میں بِلا کسی تامل کے اُن کے ساتھ چل دُوں اور کسی کو نہ بتاؤں کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔

2۔ دوسرا راستہ یہ کہ اِنکار یا عدم تعاون کی صورت میں، وہ شہر جا کر یہ خبر عام کر دیں اور بلوا کر کے گوجرہ کے تمام مسیحیوں کو میر ے ساتھ پٹوائیں گے۔

میں نے صِرف اپنے بڑے بھائی صاحب سے یہ کہا کہ پہلے میں اپنے آقا و مالک یسوع مسیح سے پوچھ لوں۔ میں نے اپنے کمرہ کا دروازہ بند کر کے اپنے آقا خُداوند یسوع مسیح سے دریافت کیا تو خُدا کی پاک رُوح نے مجھ پر ظاہِر کیا کہ "ابھی اور بُہت سے کانٹے ہیں جِن پر سے گزر کر تمہیں میرے پیچھے آنا ہے۔ تم اِس کے ساتھ چلے جاؤ۔ سب سے پہلے تمہیں اپنے ہی خاندان سے میری گواہی کا شروع کرنا ہے کیونکہ پہلے یروشلیم، پھر یہودیہ، پھر سامریہ اور پھر پورے عالم میں تم کو میرے گواہ بن کر کھڑے ہونا ہے۔" میں نے بھائی سے کہہ دیا کہ میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔

لائل پور (فیصل آباد) میں آ کر کسی گلی میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے پر مجبور کیا گیا مگر میں نے شکر کر کے کھا لیا۔ اِس کے بعد میرے بڑے بھائی مجھے ضلع شیخوپورہ میں لے آئے جہاں ہر روز ایک تازہ مولوی کو میرے مدِّمقابل لایا جاتا۔ ہر مولوی بمشکل چند منٹ بات چیت کر کے یا تو اپنی شکست تسلیم کر لیتا یا پھر میرے پاگل ہو جانے کا تصدیق نامہ دے کر چلا جاتا۔

یہ سِلسلہ کوئی ڈیڑھ ماہ تک جاری رہا۔ آخِر یہ فیصلہ ہوا کہ میری مُلاقات سیّد عطا اللہ شاہ بُخاری صاحب سے کروائی جائے۔ چونکہ شاہ صاحب اُن ہی دِنوں شیخوپورہ تشریف لانے والے تھے۔ وقتِ مقررہ پر مجھے شاہ صاحب کے حُضور میں پیش کر دیا گیا، تو بجائے اِس کے کہ شاہ صاحب مجھ سے کوئی مذہبی قسم کی بات کرتے، وہ زور زور سے ہنس کر پوچھنے لگے، "تم مسیحی ہو گئے ہو؟" جی ہاں! میں نے مُختصِر جواب دیا۔ کچھ اور فرمائیے شاہ صاحب! میرے لہجے میں نرمی اور اِضطراب تھا۔ اور کیا کہوں؟ شاہ صاحب نے حقارت سے کہا۔ مزید کوئی نصیحت وغیرہ! میں نے اِلتجا بھرے انداز میں کہا۔ نصیحت کیا؟ یہی ایک وجہ ہے جِس کےلئے لوگ عیسائی ہوتے ہیں۔ اب مجھ میں مزید صبر کرنے کی ہِمّت نہیں تھی، اِس لئے میں نے اپنے غم و غُصّہ کو چھپاتے ہوئے کچھ کہنے کی اِجازت چاہی اور اِن صاحب کو یوں جواب دیا۔

شاہ صاحب! میں تو بڑی آرزو لے کر آپ کی خِدمت میں حاضِر ہوا تھا کہ آپ ہی مجھے صراطِ مستقیم پر ڈال دیں گے لیکن آپ کے بُزرگ چہرے سے ایسی گھٹیا گفتگو کی اُمید نہ تھی۔ آپ کی طرف سے مجھے بےحد نااُمیدی ہوئی ہے۔ مزید میں یہ بھی عرض کر دُوں کہ جِنس اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جو شخص جِنسی لذّت کی خاطر مذہب اور اِیمان جیسی مقدّس چیز کو رد یا قبول کرتا ہے وہ تو سراسر احمق ہے۔ شاہ صاحب! مزید آپ کی اِطّلاع کےلئے آپ کو بتا دوں کہ میں مسلمان رہ کر کم ازکم چار اور اگر مقدور ہو تو سُنتِ محمدِ عربی کی طرح اِس سے بھی زیادہ عورتوں سے شادی کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہوں۔ اور اگر مردِ مومن کی موت مرتا تو مجھے بھی بے شُمار حُوریں مل سکتی تھیں۔ (سورة رحمٰن آیت71-72)۔

شاہ صاحب! مذہب اور اِیمان اِن جِنسی حرام کاری کی باتوں سے بُہت بالا چیز ہے، جِسے نہ تو عورت کےلئے چھوڑا جا سکتا ہے، اورنہ عورت کی خاطر اِس کو قُبول کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے مجھ جیسے شخص پر اِلزام لگایا ہے، جس نے ایسی کسی اِسلامی جنّت کو بھی قُبول کرنا پسند نہیں کیا، جب کہ سچے آسمانی خُدا کے پاک حُضور میں تو اِنسانی اور جِسمانی اور بدنی خواہِش ہرگز نہ ہو گی اور خُدا کے سامنے لوگ پاک فرشتوں کی مانِند رُوحانی حالت میں ہوں گے جہاں گناہ کا گزر تک ممکن نہیں۔

شاہ صاحب کا چہرہ تو غُصّے سے کبھی پیلا پڑے اور کبھی سُرخ۔ اور پھر آپ غضبناک ہو کر دھاڑے۔ خاموش، بدتمیز چھوکرے! شاہ صاحب بےقابو ہو گئے۔ شاہ صاحب! غُصّے میں آنے کی ضرورت نہیں، آپ بات کریں، میں نے عرض کیا۔ "سیڑھیوں سے نیچے پھینک دو اِس گُستاخ کو" شاہ صاحب بھڑک اُٹھے۔ خبردار! شاہ صاحب! میرے سگے بھائی کو ہاتھ لگانے کی ہرگز ہِمّت نہ کرنا، اگر اِس کو مارنا ہی تھا تو کیا ہمارا اپنا ہی خاندان اِس کو نہیں مار سکتے تھے؟ میرے بھائی صاحب اُس شاہ صاحب پر خوب چنگھاڑے۔ بھائی میں بھی اپنا ہی خون تھا، آخر جوش میں آ گیا اور ہم تینوں سیڑھیاں اُتر آئے۔

ب۔ اختتامِ قضیہ

خالو اور بھائی صاحب اور باقی تمام عزیزوں کی تمام تر ناکام کوشِشوں کے بعد جب محسوس کیا گیا کہ مسیح یسوع کی محبّت میں میرا نشہ نہیں اُترا تو مجھے لاہور پُہنچایا گیا، کیونکہ ضلع شیخوپورہ میں خالہ کے گاؤں سے کچھ فاصلے پر، میں ایک گاؤں میں رات کو گھر والوں کے سو جانے کے بعد ایک مسیحی خادم سے مِلنے چلے جاتا تھا۔ اور مسیح کے اِس گواہ کے ساتھ مل کر دُعا کر کے اپنے لئے رُوح القُدس کے وسیلہ رُوحانی قُوّت حاصل کرتا تھا۔ اِس خادم کا نام کیپٹن آئیزک تھا۔ میری اِن مُلاقاتوں کا علم میرے خالو کے عزیز ذیلدار حسین علی کو ہو چُکا تھا، جس سے یہ نتائج برآمد ہو سکتے تھے کہ وہ مُجھ کو اذّیت ناک سزائیں دیں۔ خُدا کے اِس مسیحی خادِم سے میری مُلاقات کو روکنے کی غرض ہی سے مجھے شہر لاہور لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

لاہور کو اِس لئے منتخب کیا گیا کہ راوی دریا قریب پڑتا تھا اورراوی کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ زِندہ اِنسانوں کو اپنی لہروں کی لپیٹ میں لے کر اُن کے زِندگی کے زمینی سفر کا اِختتام کر دے، اور جو مردے اِس کے سُپرد کئے جائیں اُن کو بہا کر کسی اور ہی دُنیا میں لے جائے۔ یہ کام انجام دیتے ہوئے دریائے راوی کو مُدّتیں گزر گئی ہیں اور 1947ء میں تو دریائے راوی نے اِس خِدمت کو بڑی فراخدِلی سے انجام دیا تھا، جب یہ ہِندوستان کے شہر گرداسپور اور پٹھان کوٹ کی طرف سے، موت کے ڈنگ سے ڈسے مسلمانوں کو، یہ اپنے بے رحم سینہ پر اُٹھا لاتی تھی۔

لاہور کے قیام میں بحث و تمحیص کا سِلسلہ بند رہا تا کہ برادری کے لوگوں میں بات نہ پھیلے لیکن میں وقت پا کر گوجرہ کے پادری وٹن صاحب کو اپنے حالات سے باخبر کرتا رہتا تھا۔ ایک روز ایک مشنری برادر ڈگلس میرا نام پوچھتے ہوئے مجھے مِلنے آ گئے۔ کسی کو میرے نئے نام کا علم ہی نہیں تھا۔ جب میں نے اُنہیں بازار میں کھڑے دیکھا تو خود ہی آگے بڑھ کر اُنہیں بتایا کہ "غُلام مسیح" میں ہوں۔ میری خیریت پوچھ کر وہ چلے گئے۔

لیکن یہ بات میرے گھر والوں اور خصوصاً میرے بھائی صاحب کے دوستوں کو ناگوار گزری اور اُس شام یہ فیصلہ کیا گیا کہ آج رات اِس قضیہ (کہانی) کو جڑ ہی سے ختم کر دیا جائے اور کل صُبح مُنہ اندھیرے اِس کی لاش کو بوری میں ڈال کر دریائے راوی کے سُپرد کر دیا جائے تا کہ یہ ندامت ختم ہو جائے۔

دسمبر کی 5 تاریخ ایک نہایت ہی سرد رات تھی۔ شام کے کھانے کے بعد میرے سب کپڑے اُتروا لئے گئے سِوائے ایک دھوتی اور بُنیان کے، اور خالی کمرے میں بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی گئی۔ میرے کپڑے اِس لئے اُتروا لئے گئے تا کہ میں سردی کی وجہ سے سُن ہو جاؤں اور کوئی مُدافعت نہ کر سکُوں۔ لیکن پاک اور برحق مسیحی ایمان کی حرارت نے مجھے سردی سے بھی محفوظ رکھا۔ جب مجھے اپنی موت بُہت ہی قریب سے نظر آنے لگی تو میں نے اپنے پاک اور سچے آقا یعنی خُداوند یسوع مسیح سے اُس وقت ایک آخری دُعا کی جو کِسی لحاظ سے مشروط نوعیّت کی تھی مگر یہ دُعا میں نےاپنے پورے دِل، جان، عقل، قُوّت اور رُوح میں کی۔

"میرے مالک و نجات دینے والے المسیح! میری رُوح پُرسکون ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں اِس فانی جِسم یا بدن کو چھوڑنے کے بعد تیرے پاس آؤنگا۔ اب کوئی دیوار میرے اورتیرے درمیان حائل نہیں ہے۔ تیرا شکر ہو! لیکن لوگ اورخاص طور پر اِس خونی کھیل میں شریک لوگ کیا تاثُّر لیں گے کہ اُنہوں نے تیرے شیدائی کو ختم کر دیا ہے! موت تو میرے لئے ابدی زِندگی کا دروازہ ہے! لیکن اُن کےلئے تیرا نام، میری مَوت کے ساتھ ہی، ختم ہو جائے گا۔ اِس لئے اگر تُو پسند کرے تو مجھے آج یہاں سے رہائی دے کر، مجھے یہ حق دے دے کہ میں تیری نجات کے بڑے بڑے کاموں کا ذِکر لوگوں کے درمیان کر سکوں۔ گناہوں میں برباد اِس دُنیا کو میں بتا سکوں کہ مسیحا تُو آج بھی، لوگوں کی روحوں کو زِندہ اور تازہ کرتا ہے اور اِس زِندگی میں گناہگار اِنسان کو ابدی زِندگی کا یقین دِلاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں میرے خُداوند یسوع! میرے حقیقی مالک! میرے اور تمام اِنسانوں کے نجات دہندہ! جِس طرح ۔۔۔ میری اِس زُبان سے جہاد کے نام پر تیرے ہی بنائے ہوئے لوگوں کو قتل وغارت کے احکام صادِر ہوتے رہے ہیں، آج کے بعد اِسی زُبان سے تیری زِندگی بخش باتوں کا بیان ہو جِن کا ذِکر تیری پاک اور سچی اِنجیل میں ہے۔ گناہ اور موت سے بچانے والی تیری اِلہٰی قُدرت کو میری اِن آنکھوں نے دیکھ لیا ہے۔ اب اگر تُو پسند کرے تو مجھے یہاں سے نِکال لے اور کل کی صُبح میری زِندگی میں نئی صُبح ہو! اِس موت کی کوٹھری سے رہائی، میرے لئے اِس بات کی سَند ہو کہ تو مجھ کو اپنی مسیحی گواہی کےلئے زِندہ رکھنا چاہتا ہے! میں چاہتا ہوں، اے خُداوند مسیح! کہ آج رات میں خود اپنے ہی خون ِ جگر سے 'وضو کر کے' ایسی نماز ادا کرنے کی نیّت باندھ لوں کہ اگر تُو زِندہ رکھے، تو اپنی باقی زِندگی کے دِن تیرے پاک یسوع نام کو، سربُلند کرنے کی خاطر گزار دُوں۔ اے خُداوند یسوع مسیح! تُو میری خِدمت اور مدد کا محتاج تو نہیں، لیکن یہ میری خِدمت ہو گی کہ جیسے میں تیرے ہی بنائے ہوئے اِنسانوں کو جہاد کے نام پر مِٹانے میں سرگرم تھا، ویسا ہی جذبہ، اب دوسروں کو موت سے بچانے اور تیرے پاس لانے کےلئے مجھے حاصل ہو۔ اے پاک یسوع مسیح! اگر تیری یہ مرضی ہے تو مجھے آج اور اِسی وقت یہاں سے رہائی دے دے۔ آمین!

بجائے اِس کے کہ میرا بدن سردی سے سُن ہو جاتا، اپنے خُداوند یسوع مسیح سے میں نے دُعا سے فارِغ ہو کر دیکھا کہ میری پیشانی پر پسینے کے قطرے تھے۔

اِسی اثنا میں اچانک یوں ہُوا کہ کسی نے باہر سے کنڈی کھولی۔ میں تھوڑی دیر تک صبر کر کے دروازے پر آیا کہ کسی کے پاؤں کی آہٹ سُنوں، مگر کوئی نہیں تھا۔ میں نے دروازہ کھول دیا اور دیکھا کہ پوری گلی سُنسان تھی اور میرے کان میں خُداوند یسوع مسیح نے آواز دی "بھاگ نِکلو! میں نے دروازہ کھولا ہے!"

میں اُسی حالت میں بھاگ کھڑا ہوا۔ لیکن کہاں جاؤں؟ لاہور میں تو کوئی بھی مسیحی دوست نہیں ہے جو واقف کار ہو، سِوا اُن دوستوں کے جو مسلمان ہیں۔ میں لاہور سے رائے ونڈ کی طرف آنے والی ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بھاگتا رہا۔ لاہور چھاؤنی ریلوے اسٹیشن پار کرنے کے بعد ایک ویرانہ میں ریلوے لائن سے گر کر ایک نشیب میں جا گرا کیونکہ سردی نے بدن کو جکڑ لیا تھا۔

دِن کے قریب گیارہ بجے سُورج کی تَپش نے گرم کر کے دوبارہ آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔ میں ہوش میں آ چُکا تھا۔ ماڈل ٹاؤن، لاہور کی طرف رُخ کیا لیکن اپنے ننگے پن اور بڑے بڑے بنگلوں کا موازنہ کر کے ایک طرف مڑ گیا۔ ماڈل ٹاؤن کے پیچھے ایک گاؤں نظر آیا۔ اِس گاؤں میں داخِل ہوا تو میدان میں کچھ بچّے کھیل رہے تھے۔ میں نے ایک بچّے سے پوچھا: "برخوردار یہاں کوئی مسیحی ہے؟" جی ہاں! میرے والد صاحب پادری ہیں! مگر آپ کو اُن سے کیا کام ہے؟ "بس مجھے اپنے والد صاحب کے پاس لے چلو" میں نے اُس بچّے سے اِلتجا کی۔

یہ ننھا بچّہ مجھے اپنے گھر لے آیا۔ یہ کیپٹن سیموئیل تھے۔ جو بڑے تپاک کے ساتھ مجھے ملے اور مجھے تسلّی دی کہ اب تم محفوظ ہو۔ اگر کوئی آفت آئی تو پہلے وہ خود کو قُربان کر دیں گے۔ میری مُختصر کہانی سُننے کے بعد وہ آبدیدہ ہو گئے اور میرے ساتھ مل کر نجات دہندہ خُداوند مسیح یسوع سے دُعا کی اور بِسترمیں لٹا دیا۔ اِس کے بعد ایک دیہاتی ڈاکٹر کو بُلوا لائے۔ جِس نے مجھے دَوا دی اور سُوئی بھی لگائی۔

میں قریب چار روز تک اُن کے پاس رہا اور پھر میں نے کیپٹن صاحب سے کہا کہ میں گوجرہ جانا چاہتا ہوں۔ اُنہوں نے مجھے ایک قمیض اور ایک جوتا اور ایک کھیس دیا اور پانچ روپے بھی ہاتھ میں تھما دئیے۔

میں دِسمبرکی غالِباً 15 تاریخ کو گوجرہ آ گیا۔ مجھے دوبارہ زِندہ و سلامت پا کر سب دوست و احباب بُہت خوش ہوئے، خصوصاً وٹن صاحب، پادری بی۔ ایم۔ آگسٹین، سیوک بوٹا مسیح اور ماسٹر چرن داس صاحب۔ میں نے بڑے دِن کی عبادت اپنے ایک دوست باوا مسیح کے گاؤں میں آس پاس کے دیہات کے لوگوں کے ساتھ کی اور بُہت لُطف آیا۔ باوا مسیح آئیور ہوسٹل گوجرہ میں خِدمت کرتے تھے اور میرا بُہت خیال رکھتے تھے۔ اُن کے والِد صاحب اور چھوٹی بہن گریس بھی خُداوند مسیح کی محبّت میں بُہت پیار کرتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ میں نے اب مسیحی برادری کا ایک فرد بن کر اُن غریبوں مگر نادر لوگوں کو اپنے عزیزوں میں شامل کر لیا یا اُنہوں نے مجھے قُبول کر لیا۔ یہ بات تو دونوں طرف سے ہی بنتی ہے۔ آج وہ نو مسیحی، جو اپنے نامقبول ہونے کی شکایت کرتے ہیں، اُن کی اپنی زِندگیاں بھی مشکوک ہو سکتی ہیں یا وہ خود مُخلِص اور قابلِ اعتماد نہیں ہوتے۔ مگر اگر وہ آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری اورخُدا کی راست بازی کی مُنادی کرنے میں مسیح یسوع کی طرح پاک دِلی سے مُخلِص ہوں تو خُدا باپ، یسوع نام میں خود بھی اُن کو قبول کرے گا اور مسیح کے لوگ بھی ایسے صاف دِل نومرید مسیحی گواہوں کو اپنی کلیسیاؤں میں جگہ دیں گے۔ مگر ضروری ہے کہ وہ ہر بات میں، ہر حالت میں اپنے خُداوند یسوع مسیح پر بھروسا کریں، نہ کہ کسی اِنسان پر یا کسی پادری پر یا کسی چرچ پر۔ اگرکوئی مسیحی قُبول نہ بھی کرے تو بھی فکر نہیں کہ خُدا باپ نے مسیح یسوع میں تو قُبول کر لیا ہے اور جب آسمان نے قُبول کر لیا ہے تو زمین کے حالات کو فکر نہ ہو کہ خُدا خود ہی اپنی خِدمت کے حالات اور مواقع پیدا بھی کرے گا۔ ہمیں صِرف مسیح یسوع کے پاک کلام اور اُسی کی پاک رُوح سے معمور ہونا ہے، اور ہر وقت اور ہر حالت میں مسیح کے مردوں میں سے زِندہ ہونے اور آسمان کی بادشاہت کے کلام کی مُنادی اور گواہی دینا ہے۔ باقی کام اور خِدمت لینا ہمارے خُداوند یسوع مسیح کا کام ہے۔ ہمیں اپنی فکر فقط اُسی پر ایمان سے ڈالنا ہے کہ اُس کو ہماری فکر ہے۔

11.نمازِ عشق

غالب، نمازِ عشق، نہ ہو گی کبھی قبول

اپنے ہی خونِ جگر سے جب تک وضو نہ ہو

الف۔ سِجدہ ریز

گوجرہ آنے کے بعد میرے لئے، میرے خیرخواہوں کے پاس، میرے مستقبل کے بارے میں بُہت مشورے تھے۔ کوئی کہتا کہ کاروبار شروع کر لوں، بعض احباب کہتے کہ مشن کی مُلازمت اِختیار کر لوں۔ لیکن میں جانتا تھا کہ میں کیا کرو ں گا۔

اپنی مشروط رہائی کے بعد، میں نے یسوع مسیح سے سِجدہ ریز ہو کر پوچھا کہ: خُداوند! اب مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیرے بڑے بڑے کاموں کا بیان کرنے کےلئے دُنیا میں کُود پڑوں۔ مجھے ایسی سرمستی عطا کر کہ اِس دُنیا کے ہنگاموں میں رہ کر بھی، میں اپنے دامن کو پاک اورصاف رکھ سکوں۔ دُنیا اور اِس کی لذّتیں مجھے تجھ سے جُدا نہ کردیں۔ میں تیری محبّت کی اَتھاہ گہرائیوں میں ایسا ڈوب جاؤں کہ یہ جہان والے مجھے نہ پا سکیں۔ میری مادی زِندگی کی ناہموار راہوں میں میری روشنی بن کر میری راہوں کو اُجالا کر دے تا کہ ٹھوکر کھا کر تیرے پاک اور باعزّت نام کےلئے ایک بدنُما دھبّہ نہ بنوں۔

میں نے بورڈنگ کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر گوجرہ کے آس پاس کے دیہات میں جا کر مُنادی شروع کر دی۔ مسٹر وٹن بھی کئی بار ساتھ ہوتے لیکن اُنہیں ساتھ لے جانے سے میں اِحتراز کرتا تھا تا کہ لوگ جو بھی سلوک میرے ساتھ کرنا چاہتے ہیں کریں۔ اِس کے بعد خِدمت کا دائرہ وسیع ہو گیا اور پورے پنجاب کے دیہات میں جا کر خُداوند یسوع مسیح کی گواہی دینے لگا۔ میں اکثر خُدا کے مسیحی خادِموں کے پاس ہی قیام کیا کرتا تھا۔ اور مسیحیوں کے سامنے بھی خُداوند یسوع کی گواہی دیتا تھا تا کہ اُنہیں بھی مضبوط کروں۔

ایک بار پھر خواہِش پیدا ہوئی کہ اپنے پُرانے مسلم دوستوں سے مل کر اپنے گاؤں میں گواہی دوں۔ اِسی غرض سے مارچ 1950ء میں ظفروال گیا۔ معلوم ہوا کہ میری جُدائی کے غم کو والدہ نے اِتنا گہرا لیا کہ چند روز ہی میں چل بسیں۔ ماں تو بُہت قیمتی چیز ہوتی ہے لیکن یہ بھی ہم نے قبول کر لیا تا کہ اپنے آقا یسوع مسیح کےلئے سچّی نماز کی نیّت ہرگزنہ ٹوٹنے پائے۔

اِس کے بعد میرے بھائیوں نے میری طرف سے خوفزدہ ہو کر کئی حربے اِستعمال کئے۔ اُنہیں ڈر تھا کہ یہ کہیں اپنے حقوق کےلئے قانونی چارہ جوئی نہ کرے۔ مجھے اِس بات کا علم نارووال میں ہوا، کہ چونگی ناکہ پر چند کشمیری نوجوان میری گھات میں بیٹھے ہیں۔ پادری عیسیٰ داس کے گھر پر ایک مسلم دوست نے آ کر بتایا کہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ میں نے اِرادہ کیا کہ وہ باتیں جو میری نمازِ عِشق میں رُکاوٹ ہو سکتی ہیں، میں اُن سے کنارہ کشی اختیار کر لوں۔ میں نے تحریر میں دے دیا کہ میں اپنی رضامندی سے اپنے والد چودھری لعل خان باجوہ کی جائیداد میں جو میرا حِصّہ ہے، اُس سے اپنے بھائیوں کے حق میں دستبردار ہوتا ہوں۔

اُسی ماہ ایک شفیق بُزرگ پادری چندو رے (بعد میں بِشپ) سے میری ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے مشورہ دیا کہ میں سندھ (سکھر) چلا جاؤں، کیونکہ پورے پنجاب میں میری جان کی حِفاظت غیر یقینی تھی۔ میں نے مشورہ قبول کرلیا۔

چل بُلھیا ہن اوتھے چلئے جتھے رہندے ا نّے

نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے تے نہ کوئی سانوں منّے

سکھرمیں ایک مہربان اور بُزرگ پادری کارسن صاحب مشنری تھے اور پادری ہرنام داس نندا اور پادری جے۔ بی۔ راوت بھی اُنہی اوقات میں تھے۔ میں نے چند ماہ بائبل سوسائٹی کے زیرِ انتظام کام کیا، لیکن ضمیر نے آواز دی کہ یہ تو پھر وہی کاروباری سِلسلے کا آغاز ہو گیا۔

میں نے بڑی عاجزی اور اِنکساری کے انداز میں اِس مُلازمت کو الگ رکھ دیا اور پادری کارسن صاحب سے سندھی زُبان سیکھنا شروع کر دی۔ بُہت تھوڑی محنت کے بعد میں سندھی زُبان بڑی روانی سے بول، پڑھ اور لِکھ سکتا تھا، جِس سے زُبان کا خلا دور ہو گیا۔

اُس زمانے میں سکھر کی گرمی میرے لئے ناقابلِ برداشت تھی۔ چونکہ میں آزمائِش کے طور پر گوجرہ کی گرمی کو بھی سہہ گیا تھا، لیکن دورانِ نماز مشکل تھا۔ اِس لئے میں گرمی گزارنے پنجاب چلا آیا لیکن میں نے سندھ کو مسیحی خِدمت کےلئے قُبول کر لیا۔

پنجاب میں میری مُلاقات لائیلپور کے ایک درویش سیرت امریکن دوست پادری لیروئے سیلبی (Leeroy Selby) سے ہوئی۔ جنہوں نے مجھے اپنے ساتھ نوجوانوں میں خِدمت کرنے کی دعوت دی۔ لائل پور کنونشن دراصل اُسی زمانہ میں پہلی بار شروع ہوئی تھی اور اِبتدائی دو برسوں میں یہ "یوتھ کنونشن" تھی۔

چونکہ میرا کوئی گھر نہیں تھا اور مشنریوں کے گھروں میں رہنا میں پسند نہیں کرتا تھا، اِس لئے خُداوند کی طرف سے یہ اِنتظام ہوا کہ لائیلپور کے ایک بُزرگ چودھری جلال مسیح نے مجھے اپنے گھرمیں پناہ دی اور میں نے اُن کو اپنے باپ کا مُقام دے دیا۔ اُن کے اِکلوتے بیٹے یعقوب کو بطور اپنے بھائی کے قُبول کیا اور اُن کی بیٹی خورشید کو اپنی چھوٹی بہن بنا لیا۔ اور جو اِس خاندان کے عزیز و اقارب تھے، اُن کے گھروں کے دروازے بھی میرے لئے کھل گئے۔ اور میں اپنی نماز (مسیحی بشارتی خِدمت) میں اور بھی زیادہ یکسوئی سے مصروف ہو گیا۔

ب۔ شریکِ نماز

کیماڑی کراچی سے لنڈی کوتل تک سائیکل کی سیٹ پر تقریباً بارہ ہزار میل کا کئی بار سفر کر کے جنوبی سندھ کے قبائل میں گجراتی زُبان کو سیکھنے کے بعد معہ تین ساتھیوں کے ایک خاص میواسی اور بھیل قبیلہ میں، میں نے بشارتی خِدمت کا آغاز کیا۔ دو برس مُتواتر ایک پیپل کے درخت اور پھر ایک جھونپڑی میں رہ کر اِن ہِندو قبائل میں خِدمت کرتا رہا تو کلیسیا کے بُزرگوں نے محسوس کیا کہ مجھے زیادہ مفید خادِم بنانے کےلئے اِلہٰیات کی تعلیم کی تحصیل کےلئے بھیجا جائے۔

میرے تین رفیقوں میں سے ایک تو پٹڑی سے اُتر گئے۔ اُنہوں نے ایک صِنفِ نازک سے مُتصادم ہو کر شادی کرنے کےلئے ہتھیار ڈال دیے لیکن منظور اور عطا اللہ میدان میں ڈٹے رہے اور ممکن ہے کہ اب تک بھی ہوں۔

میرے علم اِلہٰی کی مزید تعلیم کےلئے جانے سے قبل ایک محترمہ نے آ کر میرے کان میں کہا، "بھلے آدمی! جذبات سے جنگ تمہیں بُہت مہنگی پڑے گی۔ تمہارا زُہد ٹوٹ جائے گا، تمہارے ہاتھ کی تسبیح کا ڈور ٹوٹنے کو ہے۔ اِس خوبصورت تسبیح کے دانے بِکھر جائیں گے اور لوگ تمہارا مضحکہ اُڑائیں گے، تم کب تک اِن درختوں کے بے قیام سایوں کے تلے پناہ لو گے، یہ تمہاری نماز اِس دُنیا کے تھپیڑوں میں قائِم نہ رہ سکے گی، کسی کو شریکِ نماز کر لو۔"

لائیلپور کی مسیحی بستی میں رہ کر بھی ہم نے اپنی نیّت میں خلل نہیں آنے دیا تھا۔ چونکہ اِس خاتون نے ہماری بے خانماں زِندگی پر رحم کرتے ہوئے پورے خلوص کے ساتھ مشورہ دیا تھا، اِس لئے ہم نے رضامندی ظاہِر کر دی، اور لائیلپور والے ابّا حُضور چودھری جلال مسیح اور اُن کے سمدھی اور عزیز منظور کے والد نے مل کر راہوں کو ہموار کر دیا، اور وہی محترمہ ڈیزی 1958ء میں میری شریکِ حیات ہو گئیں۔

یہ میری بے سر و سامانی کا دَور تھا۔ درسگاہ میں بُہت ہی تھوڑا وظیفہ ملتا تھا۔ لیکن ایک کیف و سرورتھا اِس نماز میں، کیونکہ اکتوبر میں شروع ہونے والی سہ ماہی سے ہم نے اپنے نام "غُلام مسیح" کے ساتھ "نعمان" کا اِضافہ کر دیا تھا۔ اِس غرض سے کہ مجھے اپنا تاریک ماضی نہ بھولے اور میں حال کی دوڑ میں ثابت قدم رہ کر مستقبل میں "قُبولِ نماز" کا شرف حاصل کر کے سُرخرو ہو سکوں۔

تربیّت کا یہ عرصہ بچپن کی حسین چاندنی راتوں کی طرح بُہت جلد گزر گیا اور میں اور ڈیزی فارِغُ التحصیل ہو کر اپنے پُرانے دیش سندھ آگئے۔

دو برس سے کچھ عرصہ کم، حیدرآباد (پاکستان) میں بُزرگ پادری جون راوت صاحب کی زِیرنگرانی دیہات میں بشارتی اور پاسبانی خِدمت کرنے کے بعد فروری 1960ء میں ہم میرپور خاص (سندھ) آ گئے، جہاں پر اِس سے قبل بھی خِدمت کر چکا تھا۔ دیہات کی خِدمت میں ڈیزی میرے شانہ بشانہ تھیں لیکن ہم دونوں ہی تھے، اور میری عدم موجودگی میں ڈیزی گھر پر اکیلی ہوتی تھی۔ اِس خلاء کو خُداوند پاک خُدا نے 19 ستمبر 1960ء کو پُر کر دیا۔ کیونکہ خُداوند نے ہمیں ایک بیٹا دے دیا جِس کو ہم نے دِسمبر 1959ء میں خُداوند سے مانگا تھا، اور ہم نے اِس کا نام سموئیل نعمان رکھا۔

بیٹی کے بغیر گھر طبیلہ ہوتا ہے۔ اِس لئے خُداوند نے خانہءنعمان کو پُر رونق بنانے کےلئے 17 اپریل 1962ء کو ہمیں ایک بیٹی خُلدہ دے دی۔

1963ء میں ضرورت کوئٹہ میں محسوس کی گئی اور ہم یہاں چلے آئے۔ یہاں آ کر بندہ نے علامہ رشید سے پشتو زُبان سیکھی اور پشتو بولنے والے غیر مسیحی بھائیوں میں اپنے مسیح کی گواہی دیتا رہا اور ساتھ ساتھ پادری عنایت رومال شاہ صاحب سے آدابِ فرزندی بھی سیکھتا رہا، کیونکہ آپ وِکر اِنچارج تھے اور میں مسیحی ہسپتال کا چیپلن تھا۔

ستمبر 1963ء میں خُدا نے سموئیل کو اکیلا دیکھ کر ایک اور بھائی دے دیا، جِس سے گھر کی رونق دوبالا ہو گئی، اور نعمان سموئیل کا چھوٹا بھائی عوبید نیر آ گیا۔

کام کے دباؤ کی وجہ سے مئی 1965ء میں مجھے دِل کا عارضہ ہو گیا اور ڈاکٹروں کے مشورے کے تحت ہم دوبارہ میرپور خاص آ گئے۔ باوجود ڈاکٹروں کے منع کرنے کے کوھلی اور بھیل دوستوں میں دوبارہ کام شروع کیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے یسوع مسیح کو اپنا شخصی نجات دہندہ اور خُداوند قبول کیا۔

بدن کے ساتھ ساتھ بیماریاں اورعارضے بھی ہوتے ہیں۔ میرپور خاص کے علاقے میں خِدمات کی خوشی اور پھل کے ساتھ ایک تکلیف اَور بھی مل گئی، "دردِ گردہ" جِس سے نجات پانے کےلئے ایک گردہ قُربان کرنا پڑا۔ چونکہ گردہ کے درد میں اِس علاقے کے پانی کو زیادہ دخل تھا، اِس لئے موجودہ بِشپ روڈوین صاحب کے ایماء پر جولائی 1973ء میں سکھر آ گئے، جہاں سے سندھ کی خِدمت کا آغاز ہوا تھا۔

لوگوں اور مشنری صاحبان کے خیال میں یہ مشکل کلیسیا تھی۔ لیکن میرا تجربہ اِس سے مُختلف رہا۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت بُہت اچھے اور مددگار قسم کے لوگوں پر مشتمل تھی۔ صِرف چند ایسے افراد تھے، جو احساسِ کمتری کا شکار تھے۔ اگر اُن کے مرض کو سمجھ کر بروقت کوئی موثِّر دوا دی جا سکتی تو یہی لوگ بُہت کام کے تھے، اور مجھے کبھی اِن لوگوں سے شکایت نہ ہوئی تھی۔

میں ہمیشہ اپنے آپ کو پرکھتا اور جانچتا رہتا کہ کیا میں اِن لوگوں کو مسیحی روحانی خوراک مہیّا کر رہا تھا جِس سے اِن لوگوں کی رُوحانی نشوونُما ہو سکتی تھی؟ اگر نہیں تو پھر لوگوں کو اِلزام دینے کا مجھے کیا حق حاصل ہو سکتا تھا؟

ج۔ قُبولِ نماز

مزید تفصیل کا وقت تو نہیں، مگر صِرف یہ بیان کر دینا کافی ہو گا کہ خُدا باپ آسمانی کے پاک حُضور میں یسوع مسیح کے وسیلہ میری نماز قبول ہو چکی تھی۔ گزشتہ برس جب میں ڈایوسیس کے اِجلاس میں کراچی گیا تو داؤد منظور کو ہولی ٹرینٹی کیتھڈرل (چرچ) میں عشاءربّانی کی رسم ادا کرتے دیکھ کر میری گردن شکر گزاری کے احساسات کے تحت سجدے میں جُھک گئی اور جب میں نے اُن کے ہی ہاتھ سے پاک عشاء لی تو ایسی خوشی کی لہر میرے بدن میں برقی رو کی طرح دوڑ گئی کہ میرا دِل بلیوں اُچھلنے لگا کیونکہ منظور داؤد کو بندہ ہی پنجاب سے سندھ لایا تھا اور اِسے میں نے پہلی بار 1952ء میں دیکھا تھا، اور 1966ء میں وہ میرے ہی ہاتھوں مسیحی ہوا، اور پھر مُبشّر اور بعد میں پادری بن کر کہانت کی خِدمت پر مامور ہوا۔

میرے جیسے نااہل اِنسان کےلئے اَور کیا اجر ہو سکتا تھا؟ کیا آپ کو مُجھ سے اِتّفاق نہیں ہو گا کہ اِس سے مجھے میری ریاضت کا صلہ مل گیا اور آسمانی خُدا باپ کے سامنے یسوع نام میں میری نماز قبول ہو گئی۔

تیرے دَر کی عبادت میں، فنا ہوتی ہے، جو ہستی

وہ اوروں کےلئے، خود اِک، عبادت ہوتی جاتی ہے

گریبان کو مزید چاک کیا جانا ابھی اَور بھی ممکن ہے مگر اب وقت نہیں۔ ہم نے اِس کتابچہ میں اُنہی باتوں کا ذِکر کرنے کی کوشش کی ہے جو ایمان افروز ہیں، ورنہ اِس دُنیا میں اور خصوصاً اِس کلیسیا میں رہ کر ایک میرے جیسا فراخدل شخص کیونکر اِلزامات سے بَری رہ سکتا ہے۔ لیکن یہ سب دُکھ کی باتیں اِس لئے لِکھی گئیں، جِس نے اِتنی بڑی دلیری عطا کی تھی، جِس کے ایماء پر ہم نے اپنے پاک مسیحا کےلئے وہ کر دِکھایا جو عام اِنسانوں کےلئے مشکل نظر آتا ہے۔ اور جو کچھ ملا ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ہماری زِندگی کا ایک ہی رُخ ہے، یعنی رُخِ مسیحا، جو سب پر عیاں ہے، جِس سے کوئی بات بھی چُھپی نہیں ہے۔

آخِر میں یہ کہوں گا کہ اِبلیسی قُوّتوں نے خُداوند مسیح کے قدموں سے دُور کرنے کی ہزار کوششیں کیں کہ ہم بد دِل ہو کر جہالت، ظُلمت، جھوٹ، گناہ اور موت کی طرف پیچھے لوٹ جائیں اور اپنے سچے اور پاک مسیحا کا اِنکار کریں لیکن خُداوند یسوع مسیح کا شکر ہو کہ اِبلیس اور اُس کے پیروکار سب برابر ناکام رہے ہیں۔

عُدو نے سینکڑوں جھٹکے دیئے ہیں

ہمارے دامن کتنے کڑے ہیں!

اَحقر اور محتاج دُعا

غُلام مسیح نعمان

19 جون 1998ء

سوالات

کتاب "میرا فضل تیر ے لئے کافی ہے" کے معموں (سوالات) کے جوابات لِکھئے۔ عزیز قاری! اُمید ہے کہ آپ غُلام مسیح نعمان کی سچی گواہی پڑھ کر ضرور اپنے آپ کو آزمائیں گے کہ آ پ سچے اور حقیقی ایمان پر ہیں یا نہیں اور اپنے آپ کو جانچیں گے کہ سچے، حقیقی ایمان کا بانی یعنی یسوع مسیح آپ میں ہے یا نہیں۔ اور جِس طرح حقیقی راہ اور حق اور زِندگی (صراطِ مستقیم) خُدا کے اِس بندے کو ملی، خُدا کا پاک رُوح المسیح کے پاک رُوح میں ایسی ہی حقیقی توفیق آپ کو بھی عطا کرنے پر قادر ہو گا کہ آپ کا شعور اور ضمیر بھی غُلام مسیح نعمان کی طرح بیدار ہو سکے۔ آمین! اِس دِلچسپ اور پُر حقائق کتاب کے گہرے اور تفصیلی مطالعہ کے بعد اب آپ نیچے دیئے گئے سوالات کے جوابات الگ کاغذ پر لِکھ کر اِدارہ ہذٰا کو روانہ کیجیئے تا کہ اِنعام کے طور پر ایک کتاب آپ کو ارسال کی جا سکے۔ شکریہ

  1. مسیحی دین میں آنے سے قبل غُلام مسیح نعمان کی اور اُس کے خاندان کی مذہبی زِندگی اور ایمان کی حالت کیسی تھی؟

  2. جنگ کے دِنوں میں غُلام مسیح نعمان کو کون سی چار مختلف باتوں سے مُتاثر ہو کر دُکھی ہونا پڑا تھا؟

  3. بکسٹر نامی فوجی آفیسر کی کون کون سی باتیں مُتاثِر کن تھیں؟

  4. جاپانی حملے میں بمباری سے بچنے کےلئے جناب بکسٹر نے کیا دُعا کی تھی؟ اور اُس دُعا کا غُلام مسیح نعمان اور دُوسرے فوجیوں پر کیا اثر ہوا؟

  5. زخمی ہونے کے بعد تیمارداری کے دوران، دو نرسوں (امبر اور میری) نے غُلام مسیح نعمان کی طبعی خِدمت سے مُتعلق آپ کو کیا کہا تھا؟

  6. پربھو (خُداوند) یسوع کی بابت، فلپ بدری ناتھ کا پورا بیان لِکھئے؟

  7. بکسٹر، امبر اور میری اور فلپ بدری کے کن کن مُختلف واقعات نے غُلام مسیح نعمان پر کیا کیا تاثرات چھوڑے؟

  8. اُن قُرآنی حوالہ جات کو لِکھئے، جِن کے پیشِ نظر، یسوع مسیح اور مسیح کے پیروکاروں کا اِس دُنیا اور آخرت میں اِنتہائی ممتاز مقام ہو گا۔ کیا اِن قُرآنی حوالہ جات کے مطابِق اہلِ کتاب (توریت ماننے والے یہودی اور توریت اور اِنجیل کو ماننے والے مسیحی لوگوں) کو کافر کہنے کی اِجازت نظر آتی بھی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کافر کی تعریف لِکھئے۔

  9. جہاد کے قاتلانہ اور مُجرمانہ اور گناہ آلودہ نشہ میں، جب غُلام مسیح نعمان ایک مسیحی خاندان کو ہلاک کرنے گیا، تو ایک دس سالہ لڑکی نے کس طرح اپنے مسیحی ایمان کا اِظہار کیا، اور کس مقدّس اور زِندہ ہستی سے، اُس معصوم اور کمسن لڑکی نے دُعا مانگی تھی؟

  10. "تقسیم ہِند کے وقت، مسلمانوں کو سرحد کے اس پار کسی نے نہیں بچایا" غُلام مسیح نعمان کا یہ بیان کیا اِشارہ کرتا ہے؟

  11. دس سالہ معصوم مسیحی بچّی کی دُعا کے بعد کیا معجزہ رُونما ہوا اور غُلام مسیح نعمان پر اُس معجزہ کا کیا اثر ہوا؟

  12. کن باتوں نے غُلام مسیح نعمان کو قائِل کر دیا کہ صِرف المسیح ہی ایک زِندہ ہستی ہے، جو اپنا نام لینے والوں کو بچاتا اور اُن کے ساتھ ساتھ بھی رہتا ہے؟

  13. "آج کے بعد یہ ہاتھ مذہب کے نام پر کسی پر نہیں اُٹھیں گے ... میں گمراہ ہوں۔" غُلام مسیح نعمان کے اِس بیان کے پیچھے کون سا واقعہ تھا؟ اورآپ اپنے لئے اِس سے کیا اِخلاقی اور رُوحانی سبق سیکھتے ہیں؟

  14. تمہارا (مسلمانوں کا) خُدا (اللہ) لوگوں (اِنسانیت) کو مارنے (قتل کرنے) سے خوش ہوتا ہے۔ یہ کس کے الفاظ تھے اور کیوں ایسے الفاظ کہے گئے۔

  15. بُزرگ ہِندو خاتون کے منہ سے باتیں سُن کر جب غُلام مسیح نعمان نے اپنا محاسبہ کیا تو اُس نے اپنے ضمیر میں کیا محسوس کیا؟

  16. غُلام مسیح نعمان کے والد نے مولوی صاحب کے بارے میں کیا بیان دیا تھا اور کیونکر مسجد کی نماز باجماعت ترک کر دی؟

  17. غُلام مسیح نعمان کو اُس کے بچپن کے مذہب اِسلام کی کن کن گناہ آلودہ روایات نے ٹھوکر دِلائی؟ تفصیل سے سب نکات کو لِکھئے۔

  18. یہ لوگ تو حق کی تلاش کے دعوے دار ہوتے ہوئے گمراہ ہیں، غُلام مسیح نعمان کا یہ بیان کن کی طرف تھا؟ اور اُن لوگوں کو کیسا پایا؟

  19. اصفیا، فقرا، سید زادوں، گدی نشینوں، درویشوں، خُدا رسیدہ ہستیوں، درباروں اور درگاہوں کی بابت غُلام مسیح نعمان نے عملی زِندگی میں کیا دیکھا اور سیکھا؟

  20. اپنے آپ کو خطا کار اور گُنہگار محسوس کرتے ہوئے غُلام مسیح نعمان نے دعا کر کے توبہ کرنا چاہی۔ وہ دُعا تحریر کیجیے۔

  21. کمالیہ ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانہ میں صُبح قریب چار بجے، غُلام مسیح نعمان کے ساتھ کیا عجیب واقعہ پیش آیا اور کیا آسمانی آواز سُنائی دی؟

  22. "میرا فضل تیر ے لئے کافی ہے" آپ کے خیال میں یہ الفاظ کس پاک اور اِلہٰی ہستی کے ہو سکتے تھے؟

  23. مسیح یسوع کی آسمانی آواز سُننے کے بعد غُلام مسیح نعمان کی کیا کیفیت تھی اور اُس نے اپنے اندر کیا کیا محسوس کیا؟ تحریر کیجیے۔

  24. ریلوے کے صفائی کے ملازم کو غُلام مسیح نعمان نے کیا کیا اہم باتیں بتائیں؟

  25. غُلام مسیح نعمان کو اس معمولی ریلوے ملازم نے کیا معلومات فراہم کیں؟

  26. خُداوند یسوع مسیح کا بندہ بننے کےلئے بُزرگ ریلوے ملازم نے غُلام مسیح نعمان کو کیا مشورہ دیا؟

  27. غُلام مسیح نعمان کیونکر مذہب اِسلام کو ہمیشہ کےلئے ترک کر کے مسیحی ہونا چاہتا تھا؟

  28. مسیحی ایمان میں عملی طور پر شامل ہونے کےلِئے اکتوبر کی 2 تاریخ کو غُلام مسیح نعمان کو کس ضروری اور اہم مرحلہ میں سے ہو کر گزرنا ضروری ہوا؟

  29. گناہ آلودہ اور ناپاک جِنسی لذت اور اِسلامی مذہبی ایمان کے تعلق سے، غُلام مسیح نعمان نے اِسلامی جنت کو قبول کرنا کیوں پسند نہ کیا، بلکہ رد کر دیا؟

  30. 5 دسمبر کی رات کو اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھوں قتل کئے جانے سے پیشتر غُلام مسیح نعمان نے خُداوند المسیح سے کیا دُعا کی؟

  31. اِس اہم دُعا کے بعد خُداوند یسوع المسیح نے کس طرح معجزانہ طریقے سے غُلام مسیح نعمان کو خُدا کی سچی محبت سے خالی، بے درد اورظالم اپنے ہی مسلمان بھائی کے ہاتھوں سے، موت سے آزاد کیا؟

  32. مشروط رہائی کے بعد کی اہم دُعا کیا تھی جو غُلام مسیح نعمان نے خُداوند یسوع المسیح سے کی؟

  33. خُداوند یسوع المسیح کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرنے کی کیا کیا قیمت غُلام مسیح نعمان کو شروع سے آخر تک چُکانا پڑی تھی؟


The Good Way
P.O.Box 66
        CH - 8486 
        Rikon
        Switzerland