Table of Contents
میری پچھلی زندگی ایک سرگرم مسلم کی زندگی تھی۔ میں"تحریکِ محمدیہ" کا ایک منتظم اور اِسلام کا مبلغ تھا۔1947ء میں جناب ادہم خالد کے ساتھ میں کالیمنتان (Kalimantan) مسلم کانگریس امنتائی (Amuntai) کا صدر چُنا گیا تھا۔
1950ء سے 1951ء تک مجھے شہر بنجرماسین (Banjarmasin) میں فوج میں مسلم پیشوا مقرر کیا گیا اور سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عُہدے سے نوازا گیا۔
میرے مضامین "سولو" (Solo) کے مسلم رسالہ "Mingguan Adil", شہرجکارتہ کے اہم مقامی رسالہ "Mingguan Risalah Jihad" میں اور شہر بانڈونگ کے رسالہ "Mingguan Anti Komunis" میں شائع ہو رہے تھے۔ میں نے 1936ء سے مواراتیویہ (باریتو) میں مسیحیوں کے خلاف ایک تشدد پسند گروہ کے ساتھ تعاون کیا اور 1962ء تک میری ہمدردیاں ایسی جماعتوں کے ساتھ رہیں جو انڈونیشیا میں اِسلامی حکومت قائم کرنا چاہتی تھیں جو کہ خودبخود مسیحیوں کے خلاف سرگرم ہو جاتی۔
اگرچہ بائبل مقدس کی ایک جلد 1936ء ہی میں میرے ہاتھوں میں آ چکی تھی لیکن میں نے اُسکا مطالعہ سچائی جاننے کی خاطر نہیں کیا تھا، بلکہ میں اُلٹا بائبل مقدس میں ایسے مقامات کی تلاش میں رہتا تھا جو مسیحی مخالف رویے کے حامل میرے اِسلامی نکتہ نظر کی ہمنوائی کرسکتے تا کہ میں مسیحی عقیدے پر زیادہ موثر طریقے سے حملہ کرنے کے قابل ہوتا۔ چالیس سال کی عمر تک میں یسوع مسیح کی راست زندگی پر نکتہ چینی کرتا رہا جس میں اُس کی الوہیت کو بھی مکمل طور پر رد کرنا شامل تھا۔ میں نے جان بوجھ کر سچائی کا مذاق اُڑایا اور اُسے رد کیا۔ لیکن خُدا کی محبت اتنی عظیم تھی کہ اُس نے مجھے ڈھونڈا، پایا اور بچا لیا۔
مجھے 1962ء میں مسجد میں پیش کرنے کےلئے ایک خطبے کی تیاری کے دوران سورة المائدة 68:5 پر کافی غور کرنے کا موقع مِلا:
«قُلْ يَا أَهْلَ ٱلْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا ٱلتَّوْرَاةَ وَٱلإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ»
"کہو کہ اَے اہلِ کتاب! جب تک تُم تورات اور اِنجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔"
میں نے یہ قرآنی آیت ویسے تو سینکڑوں بار پڑھی تھی، لیکن اِس بار تو خُدا نے میرے دِ ل میں سرگوشی کی کہ "توریت اوراِنجیل" جن کے بارے میں قرآن میں بیان مذکور ہے، صِرف بائبل مقدس میں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ میں نے ہمیشہ یہ سوچا تھا کہ قرآن میں مذکور توریت اور اِنجیل کا اب کہیں مادی طور پر وجود نہیں ہے،اور اُن کے مضامین کا قرآن میں خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ میں اِس بارے میں قائل تھا کہ توریت اور اِنجیل جو اَب بائبل مقدس میں ہیں غلط تھیں اوراُن کا اصلی مواد لوگوں کے ہاتھوں غلط ترتیب دیا گیا، تحریف کیا گیا یا اُس میں کمی بیشی کی گئی تھی۔
اب میرا جی یہی کہنے لگا تھا کہ توریت اور اِنجیل جو بائبل مقدس میں موجود ہیں بالکل صحیح ہیں۔ مگرعقلاً میں اپنے ضمیر کی اِس اندرونی آواز کو قبول کرنے کےلئے تیار نہیں تھا، اور عجیب کشمکش میری ذات میں چل رہی تھی اور میں بے یقینی اور شک کی حالت کا شکار ہو گیا کہ کیا صحیح تھا۔ ضمیر میں اِس ہلچل سے تسکین کی خاطر میں نے یہ معاملہ نمازِ تہجد میں خُدا کے سُپرد کیا تا کہ وہ سچائی جاننے کےلئے واضح نشان عطا کرے۔ میں نے خُدا سے اِلتجا کی کہ وہ یہ پہچاننے میں میری مدد کرے کہ مسیحیت و محمدیت، اِن دونوں عقیدوں میں سے کون سا سچا ہے اور میری دعا یوں تھی:
"آسمان و زمین کے خالق خُدا، تُو ہی مسلمانوں، مسیحیوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کا خُدا ہے۔ تُو ہی چاند ستاروں، وادیوں اور پہاڑوں بلکہ ساری کائنات کا خُدا ہے؛ قرآن میں جو کچھ توریت اور اِنجیل کی بابت لکھا ہے اُس کے بارے میں مجھ پر سچائی کو مہربانی سے واضح کر۔ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ اصل توریت اور اِنجیل جن کا اَب وجود نہیں اُن کا قرآن میں خلاصہ موجود ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو اَے خُدا میں تجھ سے منّت کرتا ہوں کہ تُو میرے دِل میں یہ مضبوطی بخش کہ میں بائبل کو کبھی بھی نہ پڑھوں۔ لیکن 'توریت اور اِنجیل کی سچائی' جس کا ذکر قرآن میں ہے اگر اِس کا مطلب وہ سچائی ہے جو اَب بائبل میں موجود ہے، تو میری فریاد ہے کہ تُو میرے دل کو کھول دے تا کہ میں زیادہ شوق، تجسس اور دیانتداری سے بائبل کا مطالعہ کر سکوں۔"
میں نے اِس اَمر میں فیصلہ کرنے کےلئے نہ تو کسی متقی مسلم ،مولوی یا خطیب اور نہ ہی اپنے دانا اور ذہین دوستوں سے مدد لی، بلکہ میں نے براہ راست سب کچھ جاننے والے خُدا سے دُعا کی کہ و ہی میری صحیح راہنمائی فرمائے تا کہ میں اُس کی اِلہٰی مرضی کے مطابق صحیح فیصلہ کر سکوں۔ میں نے خُدا کی راہنمائی کی امید میں بڑے خشوع و خضوع سے دُعا کی تا کہ وہ میرے لئے حق کو مقرر کرے اور میری مدد کرے کہ میں دینِ حقیقی کو جان اور مان سکوں۔
ہر مذہبی شخص کا عموماً یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ موت کے بعد ایک حقیقی زندگی ہے۔ اور میں بھی یہی مانتا تھا اور میں نے خُدا پر اپنی امید رکھی۔ میں مانتا تھا کہ موت کے بعد دو ہی جگہیں ہیں جن میں سے ہم کسی ایک میں جا سکتے ہیں: جہنم میں جہاں ابدی آگ کی ہمیشہ کی سزاہے، یا پھر فردوس میں خُدا کے ساتھ ابدی جلال میں۔ میں اپنے ابدی مستقبل کے بارے میں غیرسنجیدہ انداز میں سوچ نہیں سکتا تھا۔ اگر ہم ایک لمحے کےلئے فرض کریں کہ ہم نے دس گرام خالص سونا خریدا ہے تو ہمیں اُسے نہایت احتیاط سے پرکھنا پڑے گا، اور اِس بات کا اطمینان کرنا پڑے گا کہ کسی نے ہمیں دھوکا تو نہیں دیا تا کہ بعد میں ہمیں پچھتانا نہ پڑے۔ جب عام زندگی میں ایسا ہے تو کتنا زیادہ ہمیں اپنی رُوح کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنی عبادت و ریاضت کو پرکھنا اور اُس کا جائزہ لینا چاہئے کہ آیا وہ خُدا کی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں جو اُس آسمانی زندگی کا مالک ہے۔ بصورت دیگر، ہمیں اپنی لاپرواہی پر ابدی پشیمانی ہو گی۔ اب میرا ہمیشہ سے یہ یقین تھا کہ جنت و دوزخ خُدا کے بنائے ہوئے ہیں۔ اِس لئے میں نے کسی بھی آدمی سے، نہ کسی مسلم مبلغ سے اور نہ ہی کسی مسیحی مُبشّرسے مشورہ لیا۔ کیونکہ وہ بھی تو میری ہی طرح اِنسان تھے، اور سچائی کی حقیقت جو خُدا کی مرضی کے مطابق ہو، سِوائے خُدا کے کسی اَور سے نہیں مل سکتی۔ میں نے براہ راست خُدا کو جو تمام سچائی کا منبع ہے پُکارا، اِس امید اور بھروسے کے ساتھ اُس کے سامنے گڑگڑایا کہ وہ مجھے سچی راہنمائی بخشے گا۔
خُدا کا شکر ہو کہ میری تمام دعاؤں کا جواب ملا! یوں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہر اُس فرد پراپنی سچائی عیاں کرتا ہے جو اُس کو سنجیدگی سے جاننا چاہتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ سورة المائدة کی آیت 68 کے علاوہ اَور بھی کئی قرآنی آیات تھیں جنہوں نے مجھے اُس وقت متاثر کیا۔ مثلاً
سورة السجدة 23:32 میں درج ہے:
«وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَابَ فَلاَ تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ»
"اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو تم اُن کے ملنے سے شک میں نہ ہونا۔
اور سورة المآئدة 46:5 ،47 میں لکھا ہے:
«وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ. وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.».
"اور ان پیغمبروں کے بعد اُنہی کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ ابنِ مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور ان کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تورات کی جو اس سے پہلی (کتاب) ہے تصدیق کرتی ہے اور پرہیزگاروں کو راہ بتاتی اور نصیحت کرتی ہے۔ اور اہل انجیل کو چاہئے کہ جو احکام خدا نے اس میں نازل فرمائے ہیں اس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خدا کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرمان ہیں۔
اور سورة البقرة 62:2 میں لکھا ہے:
«إِنَّ ٱلَّذِينَ آمَنُوا وَٱلَّذِينَ هَادُوا وَٱلصَّابِئُونَ وَٱلنَّصَارَى مَنْ آمَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ»
"جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روزِ قیامت پر ایمان لائے گا اور عمل نیک کریگا تو ایسے لوگوں کو اُن (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) اُن کو نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔"
اِن کے علاوہ بھی قرآن میں ایسی آیات ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ توریت اور انجیل ہی خدا کی مرضی کے مطابق سچائی کا حقیقی راستہ ہیں۔ اِن قرآنی آیات نے میری عقل و شعور کو جگا دیا اور مُجھ میں زیادہ گہرائی سے بائبل مقدس کا مطالعہ کرنے کا شوق پیدا کیا کیونکہ خدا نے میری رُوح سے اِس کی سچائی کی بابت سرگوشی کی تھی۔ نمازِ تہجد کے وقت جب میں نے خُدا سے راہنمائی کی دُعا کی تو اُس سے اگلے دن میں نے اپنے آپ میں ایک واضح تبدیلی دیکھی۔ تب سے میں نے بائبل مقدس کو اپنا دشمن نہیں بلکہ اپنا عزیز ترین دوست بنا لیا۔ اُس صبح میں نے بڑی آس کے ساتھ بائبل مقدس کو لیا اور اُسے پڑھتے ہوئے ہر لفظ پر بہت غور کیا کیونکہ میں اُس کی سچائی کا متلاشی تھا۔
میں نے بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ [شروع خُدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے] کے الفاظ کے ساتھ بائبل مقدس کو کھولا۔ اُس وقت میرا ارادہ توریت میں سے استثنا 15:18 پڑھنے کا تھا۔ اِس حصے کو پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ میں اِسے پہلے مسیحی واعظین اور منادوں کے ایمان پر حملہ کرنے کےلئے اِس نیت سے استعمال کرتا تھا کہ وہ محمد کو اُس نبی کے طور پر تسلیم کریں اور اُس پر ایمان لائیں جس کے بارے میں نبوت بائبل کے اِس باب میں کی گئی تھی۔ میں اِن آیات سے پہلے سے واقف تھا، مگر اب اِن کے معنٰی میرے لئے مکمل طور پر مختلف ہو گئے۔ یہ سچ ہے کہ جو بائبل مقدس کی صداقت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کےلئے یہ ایک بند کتاب ہے جس کا سمجھنا مشکل ہے، مگر اِس کے برعکس جو اِس کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں اور جن کے دل خدا کے ُروح سے معمور ہیں وہ اِسے واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
استثنا 15:18 میں یوں لکھا ہے: "خُداوند تیرا خُدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تُم اُس کی سُننا۔"
پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ پیشین گوئی محمدِ عربی کے بارے میں ہے۔ میرے نزدیک الفاظ 'میری(موسیٰ) مانند ایک نبی' محمد کی شخصیت کو وعدہ شدہ نبی کے طور پر پیش کرتے تھے کیونکہ:
الف۔ موسیٰ انسانی والدین کے ذریعہ اِس دُنیا میں پیدا ہوا اور محمد نے بھی موسیٰ ہی کی طرح انسانی والدین کے ذریعہ اِس دُنیا میں جنم لیا۔ وہ جناب عیسیٰ (یسوع مسیح) کی طرح نہ تھا جو صرف اپنی ماں کے وسیلے بغیر والد کے پیدا ہوا۔
ب۔ موسیٰ نبی نے جوان ہونے پر شادی کی۔ اِسی طرح محمد صاحب نے بھی شادی کی جب کہ اِس کے برعکس یسوع مسیح نے ہرگز کوئی شادی نہ کی۔
ج۔ موسیٰ اور محمد دونوں ہی صاحبِ اولاد تھے، جبکہ یسوع مسیح کی اولاد نہ تھی کیونکہ اُنہوں نے شادی نہ کی تھی۔
د۔ موسیٰ نے سن رسیدہ ہو کر وفات پائی اور دفن ہوئے، اِسی طرح جناب محمد کے ساتھ بھی ہوا لیکن یسوع مسیح کبھی نہیں مرے اور وہ زندہ آسمان پر اُٹھا لئے گئے اور کہیں دفن نہیں۔
پہلے میں سوچتا تھا کہ استثنا 15:18 نے محمد کے اُس نبی ہونے کی طرف اشارہ کیا ہےجس کا وعدہ موسیٰ نے کیا تھا، اور یہ حوالہ یسوع مسیح کے بطور نبی ہونے کے بارے میں پیشین گوئی نہیں تھی، اور اِس میں ہرگز اُسے خُدا کے بیٹے کے طور پر جیسا کہ مسیحی ایمان میں ہے بیان نہیں کیا گیا۔
لیکن اُس دن میں نے اِن الفاظ کا آہستگی سے خلوص کے ساتھ مطالعہ کیا تا کہ اِنکے حقیقی معنٰی کو سمجھ سکوں۔ جب میں اِن الفاظ تک پہنچاکہ '...میری (موسیٰ) مانند ایک نبی' تو رُوح القُدس نے میری رُوح میں سرگوشی کی کہ اگر تُو موسیٰ اور محمد کے درمیان مشابہت ڈھونڈتا ہی ہے کہ دونوں کے والدین تھے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ورنہ وہ تو ہم تمام انسانوں کی طرح عام ہو گئے کہ سب کے والدین ہوتے ہیں۔ اِس لئے یہ خصوصیت پیشین گوئی میں پائی جانے والی سچائی کی نشاندہی کرنے کےلئے استعمال نہیں کی جا سکتی۔
مزید برآں، اگر محمد، موسیٰ کے ساتھ شادی شُدہ ہونے کی وجہ سے مشابہ تھے تو دونوں دنیا کے اکثر لوگوں کی طرح تھے۔ سو اِس سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ محمد ہی وہ نبی تھا۔
اگر محمد کو موسیٰ کے مشابہ اِس حیثیت سے مانیں کہ دونوں کے ہاں اولاد تھی تو یہ حقیقت بھی اِس نبوت کے تعین کےلئے استعمال نہیں ہو سکتی کیونکہ اِس دنیا کے اکثر لوگوں کے ہاں اولاد ہوتی ہے۔
جناب محمد نے موسیٰ کی طرح سن رسیدہ ہو کر وفات پائی اور دفن ہوئے۔ اب اگر اِس حقیقت کو نبوت کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مشابہت ثابت کرنے کےلئے یہ نکتہ استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اِس دنیا میں عمر رسیدہ ہو کر مرنا اور دفن ہونا بھی ایک عام سی بات ہے جو کہ ہرانسان کےلئے مقرر ہے، سب مرتے اور دفن ہوتے ہیں۔
یوں مجھ پر یہ بات زیادہ واضح ہو گئی کہ جناب موسیٰ کی پیشینگوئی اِس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ صرف اور صرف یسوع مسیح ہی وہ وعدہ شدہ ہستی ہیں۔ اِس لئے میں نے موسیٰ اور یسوع مسیح میں لاثانی اور غیر معمولی مشابہتوں کو دیکھنا شروع کیا اور مجھے اِن دو شخصیتوں میں بہت اہم مشابہتیں ملیں جو کسی اَور سے نہ ملتی تھیں۔
الف۔ موسیٰ کو بچپن میں مصر کے بادشاہ فرعون نے قتل کرنے کی کوشش کی، جبکہ یسوع کو بچپن میں ہیرودیس بادشاہ نے قتل کرنے کی کوشش کی۔ یہ عام مماثلت نہیں تھی۔ ہر بچے کو عام طور پر اُس کی شیرخوارگی میں قتل کئے جانے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ موسیٰ کی پیدایش کے وقت فرعون بادشاہ نے غضبناک ہو کر دو سال سے کم عمر کے سارے بچے قتل کرنے کا حُکم دیا۔ مسیح یسوع کی پیدایش پر ہیرودیس بادشاہ نے غضبناک ہو کر شیر خوار بچوں کے قتل کا حُکم دیا۔ ساری دُنیا میں یہی دو ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایسی سخت انسانی حقارت اور اِیذا رسانی کا سامنا کیا۔
ب۔ موسیٰ کے بچپن میں اُس کی حفاظت فرعون بادشاہ کی بیٹی نے کی۔ اِسی طرح بچپن میں یسوع کی حفاظت اُس کے قانونی باپ یوسف نے کی۔ دُنیا کے تمام انسانوں کی اُن کے بچپن میں حفاظت، اِس طرح خُدا کے چُنے ہوئے وسیلے سے نہیں ہوتی۔
ج۔ بچپن میں موسیٰ اپنے آبائی ملک سے دور مصرمیں رہا۔ اِسی طرح یسوع مسیح نے بھی مصرمیں بچپن میں جلاوطنی کاٹی۔ اب ہر بچے کو بچپن میں جان بچانے کی خاطر مصر جیسے دُور دراز ملک میں تو نہیں لے جایا جاتا۔
د۔ جب موسیٰ نے خُدا کے پیغمبر کے طور پر خدمت کی تو خدا تعالیٰ نے موسیٰ کو معجزہ کرنے کی قدرت دی۔ اِسی طرح مسیح یسوع نے بطور کلمتہ اللہ، خُدا اور رُوح القُدس کا اِلہٰی اختیار رکھتے ہوئے بیماروں کو شفا دی اور مردوں کو زندہ کیا۔
ہ۔ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے چھٹکارا دلایا۔ مگر یسوع نے اپنے لوگوں کو گناہ اور موت کی زنجیروں سے چھٹکارا دیا۔
یہ خاص ثبوت میرے لئے بہت مددگار ہوئے کہ نتیجہ نکالوں کہ اِستثنا18 باب میں درج یہ بے نظیر پیشین گوئی محمد کے نبی ہونے کے بارے میں نبوت نہیں کرتی بلکہ یہ موسیٰ کی مشابہت یسوع مسیح یعنی خُدا کے کلمہ سے متعلق ہے، جو وقت آنے پر مجسم ہوا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ گو خُدا کی محبت اتنی زیادہ تھی کہ اُس نے میرے ذہن کو روشن کر دیا کہ میں واضح طورپر دیکھ سکوں کہ بائبل مقدس ہی خُدا کا سچا کلام ہے مگر پھر بھی میں مسیحی ہو جانے کےلئے تیار نہ تھا۔ اب اِس کی وجہ یہ تھی کہ مسیحی عقیدے کی کچھ باتیں میں قبول نہیں کر سکتا تھا، خاص کر یہ کہ یسوع مسیح خُدا کا بیٹا تھا۔ بچپن ہی سے میں نے یہ سیکھا تھا اور دُوسروں کو بھی سکھایا تھا کہ: لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ 'نہ (اللہ نے) کسی کو جنا اور نہ (اللہ) کسی سے جنا گیا۔'
میرے لئے یہ دُشوار تھا کہ میں یسوع کو خُداوند مان سکتا کیونکہ بچپن سے سیکھا اور سکھایا تھا کہ لا إله إلا الله (کوئی معبود نہیں سِوائے اللہ کے)۔
تثلیث کے معنٰی کو بھی سمجھنا میرے لئے دشوارتھا۔ مجھے سکھایا گیا تھا:
لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ(سورة المائدة 73:5)
"وہ لوگ (بھی) کافر ہیں جو اِس بات کے قائل ہیں کہ خُدا تین میں کا تیسرا ہے۔"
میں اُس وقت اِس مسیحی عقیدے کو بھی قبول نہ کر سکتا تھا کہ یسوع مسیح واقعی صلیب پر مرگیا تھا۔ اگر یسوع جنہیں عیسیٰ المسیح بھی کہا جاتا ہے نبی، خُدا کے محبوب اور وفادار پیغمبر یا خُدا کے بیٹے تھے جیسے مسیحی اُنہیں پکارتے ہیں تو کیونکر یہودیوں نے اتنی آسانی کے ساتھ اُنہیں اذیتیں دے کر صلیب پر لٹکایا جب تک وہ مر نہ گئے؟ کیوں خُدا نے اُنہیں نہ بچایا اور صلیب پر مرنے دیا؟ میں سوچتا تھا کہ اگر میں اپنے بیٹے کو ظلم سہتے ہوئے یا صلیب پر لٹکے ہوئے دیکھتا تو یقیناً اُسے بچانے کےلئے اُن لوگوں سے ضرور لڑتا جو اُس پر تشدد کر رہے ہوتے، چاہے نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ نکلتا؟ کیسے خُدا تعالیٰ یہودیوں پر اپنے اختیار کو کھو سکتا تھا؟ اُس وقت میں واقعی اِس حقیقت کو قبول نہ کرسکا۔
اِس معاملے کو حل کرنے اور اِس کی تہہ تک پہنچنے کی غرض سے میں کئی مسیحی واعظین اور مبشروں سے مِلا اور اُن سے پوچھا کہ یسوع کو خُدا کا بیٹا اور خُداوند (انڈونیشیائی زبان میں توہان) کیوں کہا جاتا تھا اور خُدا کی تثلیث کے کیا معنٰی تھے؟ میں نے اِس بات کی بھی تحقیق کی کہ کیوں یسوع خُدا کا بیٹا یہودیوں کے ہاتھوں مصلوب ہوا اور صلیب پر مر گیا؟ میں نے اُن سے موروثی گناہ یعنی والدین سے اولاد میں منتقل ہونے والے گناہ کے بارے میں بھی پوچھا جسے میں خُدا کی ناانصافی پر مبنی سزا سمجھتا تھا۔
تمام مسیحی مبلغوں نے میرے پوچھے گئے سوالات کے جوابات بڑی احتیاط سے دئے لیکن وہ اُس وقت میری سمجھ میں نہ آئے۔ وجہ یہ تھی کہ ہم مختلف پس منظر کے لوگ تھے اور ہماری سمجھ اور خیالات کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل تھی۔ مذاہب کے درمیان فرق کا مطالعہ اِس نکتہ نظر سے نہیں کیا گیا تھا کہ کچھ ایسے نکات کو تلاش کیا جائے جن میں اتفاق پایا جاتا ہے۔
یقیناً ہمیں مذاہب کے مابین پائے جانے والے فرق کا مطالعہ کرنا ہے تا کہ منطقی ملتے جلتے پہلوؤں کی تلاش کی جائے جو غلط فہمیوں کو دور کرنے میں ایک پُل کا کام کر سکیں۔
اُس وقت میں ایک ریڈیو ریسیور اورواعظ اُن سگنلز کو بھیجنے والے کی مانند تھا۔ دونوں اچھی حالت میں تھے، مگر چونکہ آواز کی لہروں میں فرق تھا اِس لئے اُس کی ٹرانسمیشن اور میری ریسیپشن مکمل طور پر مختلف تھی۔ ریسیور، اناؤنسر کی آواز کو پکڑنے کے قابل نہ تھا۔
واعظین اور مسیحی مبشروں کی باتوں کو میں ایک کان سے سُنتا جو کہ دُوسرے کان سے نکل جاتیں۔ وہ میرے دِل کی گہرائی میں نہ اُتریں کیونکہ جو الفاظ وہ استعمال کر رہے تھے میں اُن کے معنٰی کو سمجھ نہ سکا۔
مسیحی مبلغ میرے پس منظر کو ٹھیک ٹھیک نہ سمجھ سکا تھا، اِس لئے اُس کی وضاحتیں میری توقع کے برعکس تھیں۔ ایسا اِس لئے نہ ہوا تھا کہ اُس کی وضاحت غلط تھی، بلکہ اِس کی وجہ ہمارے درمیان سوچنے اور وضاحت کرنے کے مختلف اندازکا پایا جانا تھا، یوں ہم ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ اِس سب کے باوجود میں پُراُمید تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ اَب جب خُدا نے میری راہنمائی کی ہے کہ میں سچائی کا انتخاب کر سکوں، تو وہ یقینا کوئی دروازہ کھولے گا اور میری راہنمائی کرے گا کہ میں اِن باتوں کو جو میرے لئے رکاوٹ کا باعث ہیں سمجھ سکوں۔
میری مستقل دُعا یہ تھی: "یا رب! میں تیرے حضور منّت کرتا ہوں کہ تُو الفاظ 'خُدا کابیٹا' اور یسوع المسیح کےلئے 'خُداوند' (توہان) کے لفظ کے بارے میں سچائی مجھ پر ظاہر کر۔ میں تجھ سے یہ التجا بھی کرتا ہوں کہ پاک تثلیث کے معنٰی اور صلیب کے بھید کو مجھ پرعیاں کر۔ خُدا تعالیٰ! تُو نے مجھے یہ سمجھ بخشی ہے کہ بائبل مقدّس اِلٰہی کتاب ہے، اِس لئے یقینا تُو ہی مجھ پر اِس میں سے تمام مشکل باتوں کو واضح کرے گاجو کہ تیرا سچا کلام ہے جس کا کسی بھی زمانے میں بدلا جانا ممکن نہیں بلکہ یہ ابد تک یکساں اور قائم و دائم ہے۔"
بے شک، کئی بار خُدا نے اپنی پاک رُوح کی معرفت میری مدد کی اور میرے دِل میں کا م کیا۔ اِس لئے میں یہ ضرور بیان کرونگا کہ کیسے خُدا نے اِن رکاوٹوں کے ہٹانے میں میری مدد کی۔
"یوحنا کی معرفت لکھی گئی اِنجیل کے پہلے باب کی پہلی اور چودھویں آیت میں یوں لکھا ہے: "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا ... اور کلام مُجسم ہُوا اور فضل اورسچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اِکلوتے کا جلال۔"
اِن آیات میں "خُدا کے بیٹے" کی اصطلاح کے رُوحانی معنٰی کا مکاشفہ دیا گیا ہے۔ خُدا کا کلام یسوع مسیح کی پیدایش میں انسان بن گیا۔ اِسی لئے یسوع کو یوحنا 1:1 میں زندہ کلام کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
یہ یقینی ہے کہ یسوع کو خُدا کا بیٹا اِس لئے نہیں کہا گیا کہ خُدا نے طبعی اور جسمانی طور پر پیدا کیا جیسا کہ اکثر لوگ غلطی سے سوچتے ہیں، بلکہ خُدا کا بیٹا اِس لئے کہا گیا ہے کہ خُدا کا کلام رُوح القُدس کی اِلٰہی قدرت کے وسیلے سے کنواری مریم کے پاک بطن میں ظاہر ہُوا۔
محمد عربی نے خُود کئی مرتبہ مسیح کی اِس اِلٰہی صداقت کی بابت تصدیق کی ہے:
"عِیسیَ فَاِنَّہُ رُوح الُلَّہِ وَ کَلِمَتُہُ" (بے شک عیسیٰ اللہ کی رُوح اور اُس کا کلمہ ہیں۔) حدیث، انس ابنِ مالک ، متیارا حدیث ، صفحہ نمبر ۳۵۳۔
نیز سورة النساء 171:4 میں ہم یوں پڑھتے ہیں کہ:
«إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّـهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ»
"بیشک مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ خُدا کے رُسول اوراُس کاکلمہ تھے جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اُس کی طرف سے ایک رُوح تھے۔"
"اُس کا کلمہ" یا "خُدا کا کلام" کے اظہار کی بابت جو کہ یسوع مسیح کا جسم بن گیا، ڈاکٹرحسب اللہ بکری نے اپنی تصنیف "قرآن میں عیسیٰ نبی" کے صفحہ نمبر109 پر یوں لکھا ہے کہ:
"عیسیٰ نبی کو کلمتہ اللہ اِس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ خُدا کے کلام کا تجسم ہے جو کنواری مریم کی طرف بھیجا گیا تا کہ وہ نبی عیسیٰ کو جنم دے سکے۔"
جب یہ حقیقت مجھ پر واضح ہو گئی تو پھر یسوع کو خُدا کا بیٹا کہنے میں مجھے کوئی جھجک نہ رہی کیونکہ وہ خدائے قادرِ مطلق کا زِندہ مجسم کلمہ ہے۔ لیکن اِس سے پیشتر میں اِس بات کو ماننے سے انکار کرتا تھا کہ یسوع خُدا کا بیٹا تھا کیونکہ میں بیٹے کے تصور کو محض حیاتیاتی اور انسانی سمجھتا تھا۔
قرآن کی سورة اخلاص 112 میں ہم یوں پڑھتے ہیں کہ:
«اللَّـهُ أَحَدٌ ... لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ»
"اللہ ایک ہے ... نہ اُس سے کوئی جنا گیا ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے۔ اور کوئی اُس کا ہمسر نہیں۔"
اکثر مسلم علما "ایمان کی اِس سورہ" کو بیان کرتے ہیں اور میں بھی اِسے مدنظررکھتے ہوئے ماضی میں اِس بات کا انکار کرتا تھا کہ خُدا کا کوئی بیٹا ہے۔ یہ مسیحی ایمان سے تضاد رکھتی ہے جو بیان کرتا ہے کہ یسوع خُدا کا بیٹا ہے۔ بہرحال ایک مسیحی اِن قرآنی آیات کو قبول کر سکتا ہے کیونکہ مسیحیت کا ہر گز یہ دعویٰ نہیں کہ خُدا کا طبعی طور پر کوئی بیٹا ہے جس کا اظہار قرآنی اصطلاح "ولد" میں کیا گیا ہے، جس سے مراد طبعی طور پر پیدا ہونے والا بیٹا ہے۔ عرب کے مسیحی یسوع کو خُدا کا بیٹا کہتے ہوئے جو لفظ استعمال کرتے ہیں وہ "ابن" ہے۔ اِس اصطلاح کے مطابق اُسے طبعی طور پر پیدا ہونے والا بیٹا نہیں کہا جاتا جس کےلئے قرآنی اصطلاح "ولد" استعمال ہوئی ہے۔
اِس لئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جو بائبل مقدّس کی تعلیم "ابن اللہ" کو رد کرتی ہو جس کے مطابق یسوع مسیح رُوحانی اور قانونی لحاظ سے خُدا کا بیٹا ہے۔ قرآن صرف اِس بات کا انکار کرتا ہے کہ عیسیٰ المسیح "ولد" کے جسمانی مفہوم میں خُدا کا بیٹا ہے یعنی ایسا بیٹا جو مریم اور خُدا کے درمیان (نعوذباللہ) کسی قسم کے ازدواجی رشتے کا نتیجہ تھا۔ ہم سب کسی بھی ایسے انسانی خیال کو رد کرتے ہیں۔
یسوع مسیح کو "خُداوند" کیوں کہا جاتا ہے؟ جیسا کہ پہلے بیان ہوچُکا ہےکہ میں ایک عرصے تک یہ نہ کہہ سکا کہ "یسوع خُداوند ہے۔" میں یہ بھی نہ کہہ سکتا تھا کہ "یسوع مسیح خُداوند" کیونکہ بچپن سے یہی سیکھا تھا اورمیں دوسروں کو بھی یہی سکھاتا رہا کہ لا إله إلا الله (کوئی معبود نہیں سِوائے اللہ کے)۔
شاید یسوع کو "خُداوند" اِس لئے کہا گیا کہ وہ بغیر انسانی باپ کے پیدا ہوئے تھے؟ نہیں! حضرت آدم بھی تو بغیر باپ، حتّٰی کہ بغیر ماں کے پیدا ہوئے لیکن اُنہیں تو کبھی خُداوند نہیں کہا گیا۔ یا کیا پھر اِس وجہ سے کہا گیا کہ حضرت مسیح نے بہت سے معجزات کئے؟ نہیں! یہ بھی جواب نہیں ہو سکتا ہے۔ موسیٰ نبی نے بھی تو کئی معجزات کئے تھے لیکن اُنہیں کبھی بھی خُداوند نہیں کہا گیا۔ تو کیا پھر اِس وجہ سے کہا گیا کہ یسوع مسیح کوڑھیوں کوشفا دے سکتے اورمردوں کو زندہ کر سکتے تھے؟ یہ بھی معقول جواب نہ ہوا کیونکہ الیشع نبی نے بھی کوڑھی اچھے کئے اور ایک مردے کو زندہ کیا تھا لیکن اُسے بھی کبھی خُداوند نہیں کہا گیا۔ تو کیا پھر یسوع مسیح اِس لئے خُداوند ہے کہ وہ آسمان پر زندہ اُٹھا لیا گیا تھا؟ نہیں کیونکہ ایلیاہ کا بھی تو یہی تجربہ تھا مگر پھر بھی وہ کبھی خُداوند نہیں کہلایا۔ تو پھرکیوں کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح خُداوندہے؟
یوحنا کی انجیل کے پہلے باب کی پہلی اور چودھویں آیت کے مطابق یسوع خُداوند ہے کیونکہ خُدا کا کلام مجسم ہوا۔ اِسی وجہ سے بائبل مقدّس میں یوحنا کے پہلے خط کے پہلے باب کی پہلی آیت میں یسوع کو "زندگی کا کلام" کہا گیا ہے۔ اورکئی دیگر آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ خُدا نے مسیح میں اِنسانی بدن اختیار کیا۔
لفظ "تجسم" (خُدا کا اِنسانی شکل میں ظاہر ہونا) اور خُدا سے متعلق اِسی قِسم کے دُوسرے الفاظ کے رُوحانی مطلب اور اُن کی تشریح کو عام اِنسانی معنوں میں ہرگز نہیں پرکھنا چاہئے۔ مثلاً، خُدا وجود رکھتا ہے -- اِنسان بھی وجود رکھتا ہے۔ جب وجود کا لفظ خُدا کےلئے استعمال ہوتا ہے تو یہ اُس "وجود" سے جو ہر بنی نوع اِنسان رکھتا ہے بہت ہی الگ معنٰی رکھتا ہے۔ خُدا اپنی ذات میں خود وجود رکھتا ہے یعنی وہ ذات واجب الوجود ہے۔اُس کا وجود ازل سے ہے جبکہ اِنسان کا وجود خُدا کے ہاتھوں تخلیق کیا گیا ہے۔
اِسلئے خُدا کےلئے "تجسم" کے لفظ کا عام انسانی مطلب نکال لینا ہرگز جائز نہیں۔ ڈکشنری کے مطابق اگر بلی ایک ہاتھی کا جسم اختیار کر لے تو بلی غائب ہو جائے گی اور ایک ہاتھی ظاہر ہو جائے گا۔ اگر پتھر سونے کی صورت اختیار کر لے تو پتھر کا اپنا وجود ختم ہو جائے گا اور صِرف سونا ہی رہ جائے گا۔ مگر خُدا کے کلام کا اِنسانی بدن اختیار کرنا ایک الگ ہی مطلب کا حامل ہے۔ تجسم جو خُدا سے متعلق ہے،اُس کا مطلب یہ نہیں کہ خُدا کے وجود میں کوئی فرق آ گیا ہے کیونکہ خُدا ملاکی نبی کی معرفت اپنی بابت فرماتا ہے "میں خُداوند لا تبدیل ہوں" (ملاکی6:3)۔
خُدا نے اِنسانی جسم اختیار کیا۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ خُدا کی اپنی ذات معدوم (نیست) ہو گئی اور صِرف اِنسان موجود رہا۔ ایسا خیال سراسر غلط ہے۔ خُدا کی ذات و فطرت میں ہرگز تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ خُدا کا اِنسانی جسم اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خُدا کی اپنی اِلٰہی ذات بھی قائم رہی اور اُس میں کامل اِنسان بھی قائم رہا۔ سو لفظ "تجسم" منطق سے متجاوز ایک عمل اور حقیقت کےلئے بطور تشبیہ استعمال ہوا ہے، تاہم اِس کے معنٰی ویسے نہیں ہیں جیسے اِنسانی زبان میں ہیں۔
خُدا کا اِنسانی صُورت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خُدا نے کامل طور پر اپنی ذات کو اِنسان یعنی یسوع مسیح کی بےنظیر شخصیت میں ظاہر کیا جو کہ خُدا کی پاک الٰہی مرضی، قدرت اور محبت کا واضح اظہار ہے۔ یوں ہم مسیح کے مندرجہ ذیل بیانات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں:
"---باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں" (یوحنا 38:10ب)
"میں اور باپ ایک ہیں" (یوحنا 30:10)
"جِس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا" (یوحنا 9:14)
اِس ضمن میں پولُس رسُول کا بیان یوں ہے: "کیونکہ اُلوہیّت کی ساری معموری اُسی میں مُجسم ہو کر سکونت کرتی ہے"(کلسیوں 9:2)۔
ایک اَور آیت جو بتاتی ہے کہ یسوع واقعی خُدا ہے متی 18:28 ہے جہاں یسوع نے کہا کہ "آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔" یعنی یسوع مسیح قادر مطلق ہے ہر شے اُس کے اختیار میں ہے۔
پولُس رسُول اِسی بیان کی پھر یوں تصدیق کرتا ہے: "(مسیح) ساری حُکومت اور اِختیار کا سَر ہے" (کلسیوں 10:2)۔
قرآن میں ہم پڑھتے ہیں کہ خُدا ہی خُداوند ہے,"اللَّہ رب العالمین" (خُدا ہی خُداوندِ عالم ہے ).
اِنجیل مقدّس میں ہم پڑھتے ہیں کہ خُدا نے یسوع کو خُداوند بھی کیا اور مسیح بھی(اعمال 36:2)۔
ہم، لفظ خُدا اورخُداوند کے فرق میں تمیز کر سکتے ہیں۔ خُدا کےلئے یونانی زبان میں لفظ "تھیوس" (Theos) اور عربی زبان میں لفظ "اللّہ" استعمال ہوتا ہے،لیکن خُداوند کےلئے یونانی زبان میں "کیریوس" (Kyrios) اور عربی زبان میں لفظ "ربّ" استعمال ہوتاہے۔ لفظ "ربّ" ہمیشہ ہر طرح کی قانون سازی اور اُسے نافذ کرنے کے اختیار کا اظہار کرتا ہے۔ خُدا کی قدرت اوراختیار یسوع مسیح کے وسیلے سے کئی طرح سے ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً:
(1)تخلیق میں، (2)شریعت کے دینے اور احکام میں، (3)مدد اور مہیا کرنے کے ساتھ راہنمائی میں، (4)معاف کرنے اور بچانے میں، (5)اپنی روح سے نیا بنانے میں، (6)عدالت میں، (7)جلال میں۔
خُدا کا حکم دینے، راہنمائی کرنے اور بچانے کا اختیار یسوع کی شخصیت میں پایا جاتا ہے۔ اِسی وجہ سے یسوع مسیح کو " خُدا کا زندہ کلام" اور "ہمارا واحد نجات دہندہ" کہہ کر پُکارا جاتا ہے۔ "خُدا کا زندہ کلام" ہوتے ہوئے یسوع نے خُدا کی اُلوہیّت کا اظہار منادی کرنے اور گناہوں کی معافی دینے سے کیا۔ اِسی لئے خُدا نے یسوع کو خداوند بھی کیا اور مسیح بھی(اعمال 36:2; کلسیوں 10:2)۔ صرف اُسی کے پاس نجات دینے کا مکمل اختیار ہے۔ وہ زندہ کلام ہم سب کا نجات دہندہ ہے اور اُس کے الفاظ ہمیں اُس کے دعویٰ کی یاد دلاتے ہیں: "راہ اور حق اور زندگی میں ہوں" (یوحنا 6:14)۔
یہ یاد رہے کہ یسوع کو خُداوند کہنے میں مجھے جو رکاوٹ پیش آرہی تھی، وہ اِسلامی شہادت تھی جو مجھے سکھائی گئی تھی اور میں نے دوسروں کو بھی سکھائی تھی یعنی "لا الہ الا اللہ" (کوئی معبود نہیں سِوائے اللہ کے)۔
اُس وقت تک مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ یہ اسلامی عقیدہ بائبل مقدّس کی تعلیم کے برعکس نہیں ہے۔ توریت میں لکھا ہے: "میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا" (خروج 3:20 )۔ پھر میں نے دیکھا کہ یسوع مسیح کی خُداوندیت اور اِلٰہی شخصیت کو محمد عربی نے بھی رُوح اللہ اور کلمتہ اللہ کے طور پر بیان کر کے تسلیم کیا ہوا ہے۔
"عِیسیَ فَاِنَّہُ رُوح الُلَّہِ وَ کَلِمَتُہُ"
(بے شک عیسیٰ اللہ کی روح اور اُس کا کلمہ ہیں۔)
مسیحی ایمانداروں کےلئے "توحید" کا لفظ اتنا مانوس نہیں ہے کیونکہ مسیحی علم اِلٰہی میں لفظ توحید کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ مسیحیت میں توحید خُدا کی ذات میں پائی جانے والی تثلیث میں وحدانیت کی وضاحت کرتی ہے۔ تثلیث فی التوحید کا موضوع جو مسیحی ایمان کا اہم جزو ہے اکثر بحث کا سبب بنا رہا ہے، جو کہ ہمارے بہت سے ایسے بھائیوں کی سمجھ میں نہیں آتا جو مسلم تعلیم اور پس منظر کے حامل ہیں۔
الف ۔ برحق خُدائے واحد
ہر مسلمان برحق واحدخُدا پرایمان رکھتا ہے۔ اِسلامی تعلیمات میں یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ جسے نہ تو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی رد۔ یہ عقیدہ کہ ایک ہی بر حق اورسچّا خُدا ہے مسیحی مذہب کا بھی بنیادی جُزو ہے، اور ہر مسیحی بھی اِس عقیدے کا قائل ہے۔ لیکن کیا مسلمانوں اور مسیحیوں کے نظریات "برحق واحد خُدا" کے اِس اہم نکتے پر یکساں ہیں؟
اِسلامی تعلیمات میں توحید کی وضاحت قرآن میں سورةاِخلاص 1:112; سورة البقرة 136:2; سورة المائدة 73:5ب، اور دیگرکئی حوالوں میں کی گئی ہے۔
بائبل مقدّس میں توحید کا بیان مندرجہ ذیل حوالوں میں ملتا ہے:
"میں ہی خُداوند ہوں اَور کوئی نہیں---" (یسعیاہ 5:45)
"اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تُجھ خُدای واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جِسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔" (یوحنا 3:17)
"ہم جانتے ہیں کہ--- سِوا ایک کے اَور کوئی خُدا نہیں۔" (1-کرنتھیوں 8:4)
"لیکن ہمارے نزدیک تو ایک ہی خُدا ہے یعنی باپ جِس کی طرف سے سب چیزیں ہیں اور ہم اُسی کےلئے ہیں اور ایک ہی خُداوند ہے یعنی یسوع مسیح جِس کے وسیلہ سے سب چیزیں موجود ہوئیں اور ہم بھی اُسی کے وسیلہ سے ہیں۔" (1-کرنتھیوں 6:8)
بائبل مقدّس کی اِن آیات کو پڑھنے کے بعد مجھ میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ خُدائے واحد کی بابت میرا ایمان جو پہلے مسلمان ہوتے ہوئے تھا اور اب بطور مسیحی اُسے مجھے بالکل تبدیل کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ باالفاظ ِ دیگر، گو میں مسیحیت کا پیروکار ہو گیا ہوں مگر میں نے خُدا کی وحدانیت سے متعلق سچائی کو نہ تو چھوڑا ہے اور نہ رد کیا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ مسیحی ہونے کے بعد اِس بارے میں میری سمجھ مزید خالص اور واضح ہو گئی ہے۔ اب میں صرف محمد عربی کے نبی ہونے کے دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتا۔
خُدا کی وحدانیت کے بارے میں یسوع مسیح کی تعلیمات خالص اور اعلیٰ ترین ہیں۔ ہم توحید کے نکتہءنظر کو مندرجہ ذیل بیان کئے گئے عنوان یعنی شرک کے مسئلہ سے پرکھ سکتے ہیں۔
ب۔ شرک کا مسئلہ
مذہب اِسلام، ایک سے زائد خُداؤں کو ماننے کے مسئلہ کو نہایت سنجیدہ تصور کرتا ہے۔ ہمیں نہایت محتاط انداز سے اِس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ مسیحیت کے خُدائے واحد کے تصور کو غیر اَقوام کے شرک کے تصور کے ساتھ مُنسلک نہ کر دیا جائے۔
اِسلام میں ایک سے زائد خُداؤں کو ماننا تین ناقابلِ معافی گناہوں میں سے ایک ہے۔ اِس لئے جب میں نے اِن دونوں مذاہب کا موازنہ کیا تو ایسا بہت محتاط ہو کر کیا اور ہمیشہ اِس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا کہ کیا مسیحی تعلیم میں شرک کا پہلو موجود ہے یا نہیں۔
سب سے پہلے مجھے بائبل مقدّس میں یہ نمایاں آیات ملیں:
"میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی کی صُورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تُو اُنکے آگے سِجدہ نہ کرنا اور نہ اُنکی عبادت کرنا کیونکہ میں خُداوند تیرا خُدا غیُور خُدا ہوں اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں اُنکی اولاد کو تیسری اور چوتھی پُشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتا ہُوں" (خروج 3:20-5)۔
یوحنا اِنجیل نویس ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ "اَے بچو! اپنے آپ کو بُتوں سے بچائے رکھو" (1 -یوحنا 21:5)۔ اِن بتوں کی واضح تعریف ہونی چاہئے کہ کب اور کِسے "بُت" کہاجائے؟ کیونکہ ہر مُجسمہ بُت نہیں, ہر عمارت کے ستون کو بُت نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی ہر قبر کے پتھر کو یا ہر تاریخی عمارت کو بُت کہا جا سکتا ہے کیونکہ ایسی تمام عمارتیں بُت بن سکتی تھیں اگر لوگ اُن کےلئے مذہبی رسومات کرتے یا اُن کی عبادت کرتے اور اُن سے دُعا کرتے۔
ساحر، قسمت کا حال بتانے والے اور جادوگرنیاں اپنے تمام منتروں اورساز و سامان کے ساتھ جیسے خوشبو جلا کر جِن بھوت نکالنا، مردوں کی رُوحوں کو بُلانا وغیرہ، سب اِس بات کی نشاندہی ہیں کہ لوگ شرک میں شریک ہیں۔ لیکن بائبل مقدّس میں ہمیں پُر زور تاکید ملتی ہے کہ ہم کبھی بھی ایسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہوں بلکہ ایسے لوگوں سے کنارہ کشی کریں اور اِس کی تائید توریت میں استثنا 10:18-13 سے بھی ہوتی ہے: "تُجھ میں ہرگز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے یا فالگیر یا شگون نِکالنے والا یا افسون گر یا جادُو گر یا منتری یا جنّات کا آشنا یارماّل یا ساحِر ہو کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں خُداوند کے نزدیک مکرُوہ ہیں اور اِن ہی مکرُوہات کے سبب سے خُداوند تیرا خُدا اُنکو تیرے سامنے سے نکالنے پر ہے۔ تُو خُداوند اپنے خُدا کے حُضور کامل رہنا۔"
ایک سے زائد خُداؤں کی پیروی کرنے کے بارے میں میرے اخذ کردہ نتائج یہ ہیں:
(1)سچا مسیحی دین یہ دعویٰ اور اقرار کرتا ہے کہ خُدا صرف ایک ہے اوربرحق خُدائے واحد کی پرستش و عبادت ہر انسان پر لازم ہے۔ کسی دوسرے معبود کی طرف جھکاؤ ایک بہت بڑا گناہ ہے (دیکھئے لوقا 8:4; متی 10:4; استثنا 13:6; یشوع 14:24-15)۔
(2)خُدا کی وحدانیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے، مسیحیت ایک سچے خُدا کے علاوہ کسی بھی دوسرے معبود کی کسی بھی شکل میں ہرگز پرستش کی اجازت نہیں دیتی خواہ وہ بُت، کسی عمارت یا فطرت کی نمائندگی کرنے والے مُجسمے کی صُورت میں ہو جن کو انسانی ہاتھ نے بنایا ہو، اِس میں تصویروں یا جائے نماز پر خانہ کعبہ یعنی بیت اللہ کی صُورت بھی شامل ہے جو اکثر سفید، سُرخ یا سیاہ رنگوں میں ہوتی ہے۔ عبادت کے ایک انداز کے طور پر ایسی تصاویر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی کوئی بھی معقول وجہ نہیں (دیکھئے خروج 3:20-5)۔
(3)بائبل مقدّس کی تعلیمات کے مطابق ایک سچا مسیحی فال گیری، جادُو منتر، خوش بختی کی علامتوں (خواہ وہ بائبل مقدّس کی آیات سے بنائی جائیں)، مُردوں کی روحوں کو بلانے یا بھگانے کےلئے خوشبوؤں کے استعمال سے گریز کرتا ہے۔ ضرور ہے کہ وہ ہر طرح کی توہم پرستی اور بدرُوحوں کے خوف سے آزاد ہو (دیکھئے استثنا 10:18-13)۔
(4)ایک سچا اور حقیقی مسیحی بد ارواح، جادُو یا تاریکی کی قوتوں سے کبھی بھی خوف زدہ نہیں ہو گا۔ بائبل مقدّس میں کئی مقامات پر اِس بات کا ذکر ہے کہ مسیح تمام شیطانی قوتوں کو شکست دے کر فتح مند ہوا ہے۔ اور آخرکار تمام تاریکی کی قوتوں اور بُری رُوحوں نے خُداوند یسوع مسیح اور اُس کے پیروکاروں کے قدموں میں جُھکنا ہے (مطالعہ کےلئے دیکھئے یوحنا 12:14; مرقس 17:16)۔
(5)حقیقی مسیحی کسی انگوٹھی میں جڑے قیمتی پتھر،جادُو تعویز اور نہ ہی کسی ایسی اَور چیز کو مافوق الفطرت قوت کا حامل سمجھتا ہے۔ مسیحی مذہب میں واحد طاقت خُدا کے روح کی طاقت ہے جسے رُوح القُدس کہا جاتا ہے (دیکھئے رومیوں 14:8-17)۔
(6)ایک مسیحی کی زندگی میں خوف، بے چینی، فکریں اور دیگر مسائل وہ معاملات ہیں جو صرف خُدا کے حضور دُعاؤں میں پیش کرنے چاہئیں، کیونکہ صرف خُدا ہی ہماری تمام ضروریات سے واقف ہے اورہماری دُعاؤں کاجواب دیتاہے (دیکھئے زبور 3:5; متی 25:6-34; 7:7-8)۔ اِس لئے مزاروں پر نہ جائیں، جس میں نبیوں کے مزار بھی شامل ہیں خواہ اُن کا کوئی بھی نام کیوں نہ ہو۔
آخر میں، میں پوری دیانتداری سے اِس بات کی تصدیق کر تا اور ایمان رکھتا ہوں کہ مسیحی تصور توحید سب سے اعلیٰ و افضل اور خالص ترین ہے جس میں ارواح، اِنسانی ہاتھوں سے بنائے ہوئے بُتوں اوردیوی دیوتاؤں کےلئے ہر گز کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔ ایک ہی خُدا ہے جو آسمانی خُدا باپ ہے اوراُس کا سرگرم زندہ کلام یسوع مسیح خُداوند ہے۔
یسوع مسیح کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرنے سے پہلے تثلیث فی التوحید کا عقیدہ میرے لئے ایک بڑی رُکاوٹ تھا۔ یہ بہت سے لوگوں کےلئے رُکاوٹ کا باعث بنا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ مسیحی عقیدے کو دُرستی سے سمجھا نہیں گیا۔
مگر میں نے سمجھ لیا کہ خُدا کی ذات میں پائی جانے والی تثلیث فی التوحید کسی بھی طرح سے خُدا کے ایک ہونے کی تعلیم کی نفی نہیں کرتی۔ سورة المائدة 73:5 میں لکھا ہے:
«لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ»
(وہ لوگ [بھی] کافر ہیں جو اِس بات کے قائل ہیں کہ خُدا تین میں کا تیسرا ہے۔)
پھر سورة النساء 171:4 میں لکھا ہے:
«وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ»
(اور یہ نہ کہو کہ [خُدا] تین ہے۔)
یہ قرآنی آیات اکثر مسلم حضرات کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں۔ میں بھی مذہب کی تبدیلی سے پیشتر مسیحی عقیدہ تثلیث فی التوحید کو رد کرنے کےلئے اِنہی قرآنی آیات کا سہارا لیتا تھا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ قرآنی آیات صِرف اِس عقیدے کو رد کرتی ہیں کہ تین الگ الگ خُدا ہیں، مگر یہ تثلیث فی التوحید کے مسیحی عقیدے کی ہرگز نفی نہیں کرتیں۔
ہم مسیحی اِن قرآنی آیات کو سراہ سکتے ہیں کیونکہ مسیحی تعلیمات کسی بھی طرح کے شرک کوسختی سے رد کرتی ہیں جس میں تین الگ الگ خُداؤں کو ماننا بھی شامل ہے جو بائبل مقدّس کی تعلیمات کے برعکس عقیدہ ہے۔ اِسی طرح مسیحیت "دھریت" (Atheism) اور "ہمہ خُدائی" (Pantheism) کو بھی ردکرتی ہے۔
بائبل مقدّس نے خُدا کے بارے میں بنیادی اعتقاد پر یوں مہر لگادی ہے: "سُن اَے اسرائیل! خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے" (استثنا 4:6)۔ یسوع نے بھی اِس عقیدے کا لوگوں کے سامنے اعلانیہ اقرار کیا (مرقس 29:12-30)۔
یسعیاہ نبی کے صحیفے میں یوں درج ہے: "میں ہی خُداوند ہوں اَور کوئی نہیں" (یسعیاہ 5:45)۔
اِسی طرح یوحنا 3:17 میں لکھا ہے: "اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تُجھ خُدای واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جِسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔"
یہاں اِس بات کا ذرا بھی ثبوت نہیں کہ خُدا کی بابت مسیحی عقیدہ تثلیث فی التوحید خُدائے واحد کی وحدانیت کے برخلاف ہے۔ اور اِسکا یہ بھی ہر گز مطلب نہیں کہ تین خُدا یکجا ہیں جیسا کہ اکثر لوگ اِس کی تشریح کرتے ہیں۔
خُدا کی ذات میں پائی جانے والی تثلیث فی التوحید کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے:
الف۔ خُدائے خالق کو "باپ" کہا جاتا ہے جس نے تمام کائنات کو خلق کیا۔ اور یہ تصور مذہب اِسلام میں خُدا کے نام"القادر" سے ملتا جُلتا ہے جس کا مطلب "قادرِ مُطلق" ہے۔
ب۔ اُس کا کلام جسے اُس کا بیٹا بھی کہا جاتا ہے یسوع کی پیدایش میں مجسم ہوا۔ وہ خُدا کی شریعت اور اُس کی پاک اِلٰہی مرضی کو ظاہر کرنے، خُدا کے وعدوں کو اِنسانیت کےلئے بیان کرنے اور اِنسانوں کی اپنی ہی زبان میں اُن سے ہم کلام ہونے کےلئے زندہ کلام ہے۔ اُس کا کلام ہونا اِسلامی حلقوں میں استعمال ہونے والے اسم صفت "مرید" سے ملتا جُلتا ہے جس کا مطلب "اِرادہ کرنے والا" ہے۔
ج۔ خُدا ئے خالق کا رُوح یعنی رُوح القُدس جو رُوحِ حق بھی کہلاتا ہے، اُن ایمان داروں کو مدد اور ہدایت مہیا کرتا ہے جو اپنے آپ کو خُدا کےلئے وقف کرتے ہیں۔ رُوحِ خُدا کی بابت یہ تعلیم اسلام میں استعمال ہونے والے اسم صفت "مُحی" کے مترادف ہے جس کا مطلب "زندگی بخشنے والا" ہے۔
خُدائے واحد کے یہ تین ظہور (آسمانی خُدا باپ، بیٹا یا کلام اور روح القُدس) تین اقانیم (یہ لفظ اسلام میں استعمال ہونے والے لفظ "صفات" کا مترادف ہے) میں بیان کئے گئے ہیں لیکن یہ خُدا کے وجود میں ایک جوہر ہیں۔ یہ تینوں ایک دُوسرے سے غیر منقسم (نا قابلِ جُدا) ہیں، اِسی طرح یکساں قدرت رکھتے ہوئے غیر فانی ہیں اور اِن میں کوئی بھی نہ تو ایک دوسرے سے پہلے وجود میں آیا اور نہ ہی بعد۔ اِن تینوں ظہورات یعنی باپ، بیٹا/کلام اور روح القُدس کو ایک لفظ خُدا سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
اب یہ واضح ہے کہ مسیحیت کا تثلیث فی التوحید کا عقیدہ، توحید کی تعلیم کی نفی نہیں کرتا اور نہ ہی اِس کا مطلب کئی خُداؤں یا دیوتاؤں کی یگانگت ہے۔
قرآن اِس مسیحی عقیدہ تثلیث فی التوحید کے معنٰی پر نہ تو اعتراض کرتا ہے اور نہ ہی اِسے رد کرتا ہے۔ جس عقیدے کو سورة المائدة 73:5 یا سورة النسا 171:4 میں رد کیا گیا ہے، وہ تین مختلف خُداؤں پر اعتقاد (Tritheism) ہے۔ مسیحیت خُود بھی تین مختلف خُداؤں پراعتقاد (Tritheism) کو رد کرتی ہے۔
اِس لئے میں یہ سوچتا ہوں کہ قرآن میں ایسی کوئی بھی آیت موجود نہیں ہے جو واقعی مسیحی عقیدہ تثلیث فی التوحید کی نفی کرتی ہے۔
سورة النساء 157:4 میں لکھا ہے:
«وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا»
(اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خُدا کے پیغمبر [کہلاتے] تھے قتل کر دیا ہے [خُدا نے اُن کو ملعون کردیا] اور اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سُولی پر چڑھایا بلکہ اُن کو اُنکی سی صُورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ اُن کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور پیروی ظن کے سِوا اُن کو اُس کا مطلق علم نہیں۔ اور اُنہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا۔)
یہ قرآنی آیت اکثر مسلم علماء استعمال کرتے ہیں، اور خود پہلے میں نے اِس آیت کو کئی مرتبہ اِس حقیقت کو جھٹلانے کےلئے استعمال کیا تھا کہ یسوع مسیح حقیقتاً صلیب پر مرے تھے۔
پہلے میں یہی سمجھتا تھا کہ خُدا کی اتنی پسندیدہ اور قریبی ہستی کا، جو اُس کا پیغمبربنی، صلیب پر بےیارومددگار مر جانا ناممکن ہے۔ پھر یہ بھی سوچتا تھا کہ جب مسیحی اُسے خُدا کا بیٹا کہتے ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ خُدا باپ نے اُسے اپنی کسی بھی طرح کی حفاظت مہیا نہ کی تھی۔
سورة المائدة 68:5 اور دوسرے حوالہ جات کے پڑھنے سے جب میں متاثر ہوا اور اِس بات کا قائل ہو گیا کہ بائبل مقدّس کی سچائی کی تصدیق قرآن کرتا ہے تو میں نے صلیب پر یسوع کی موت کے موضوع کا بغور جائزہ لیا، اور بائبل مقدّس اور قرآن کے حوالوں سے اُس کا دوبارہ مطالعہ کیا اور دیانتداری سے تحقیق کی۔
الف۔ قرآن کے مطابق ہم ایک ایسے واقعے کے بارے میں پڑھتے ہیں جس میں کوئی مصلوب ہوا اور مر گیا لیکن وہ جو مر گیا اُس کی شناخت واضح نہیں۔ قرآنی علما اِس امر کا انکار کرتے ہیں کہ یہ یسوع مسیح تھے جو مر گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص صلیب پر موا، وہ یہوداہ تھا۔
ب۔ قرآن یہ بھی بیان کرتا ہے کہ یہودی یقیناً اِس بات کے قائل تھے کہ درحقیقت اُنہوں نے ہی یسوع کو قتل کیا تھا۔
اب مجھے اِس بارے میں زیادہ بہتراور مزید قائل کرنے والی معلومات درکار تھیں کہ دراصل کون مصلوب ہوا اور مرا تھا یسوع یا کوئی اَور۔ ایسی معلومات حاصل کرنے کےلئے مجھے کوئی ایسا ثبوت دَرکار تھا جو حقیقی تواریخی شہادت پر مبنی ہو۔ اور ایسے سچے تواریخی ثبوت تو صرف بائبل مقدّس ہی سے ملنا ممکن تھے، جو کہ ایک کُھلی دستاویز ہے اور مکمل صحیح تواریخی معلومات حاصل کرنے کےلئےاستعمال کی جا سکتی ہے۔
صلیب پر یسوع کی موت کے واقعے کا مطالعہ نئے عہدنامے کی چارکتابوں میں کیا جا سکتا ہے جو متی، مرقس، لوقا اور یوحنا نے تحریر کیں۔ اِن مصنفین کی شہادتیں اصل واقعات پر مبنی ہیں جن میں سے تین اِنجیل نویس ایسے تھے جو اِن واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔
اگر ہم شریعت کی شرائط کو مدنظر رکھیں کہ کسی خاص واقعے کی تصدیق کےلئے دو یا تین عینی شہادتیں کافی ہیں (استثنا 6:17-7)، تو اِن چار مصنفین میں سے تین جنہوں نے یسوع کی مصلوبیت اور موت کی گواہی دی، کی گواہیاں سچی، قانونی اور قابل یقین ہیں۔ جب اِس کا موازنہ محمد اور قرآن کی گواہی سے کیا جائے تو اِس کا تعلق اُن واقعات کے چھ صدیوں بعد سے ہے اور یوں محمد صاحب کا بیان قائل نہ کرنے والا مفروضہ ہے کیونکہ وہ اُن واقعات کے چشم دید گواہ نہ تھے۔
علاوہ ازیں، اِنجیل مقدس سے مزید چشم دید شہادتیں بھی مِلتی ہیں، مثلاً جب یسوع نے جان دے دی تو اُس کے بعد اَرِمتیہ کا رہنے والا یوسف پینطس پیلاطس کے پاس گیا اور یسوع کی لاش مانگی اور اُس کی درخواست مان لی گئی (مرقس 42:15-46)۔ اب اگر وہ لاش جو صلیب پر سے اُتاری گئی، یسوع کی نہیں تھی تو یقیناً اَرِمیتہ کا رہنے والا یوسف اُسے رد کر دیتا اور وہ لاش لینے سے انکار کر دیتا۔
ایک اَور ثبوت یہ ہے کہ یہودیوں نے پینطس پیلاطس سے یسوع کی قبر پر پہرہ بٹھانے کی درخواست کی تھی۔ اگر یسوع کے علاوہ کوئی اَور اُس میں دفن ہوتا تو پیلاطس اُس کی حفاظت نہ کرتا کیونکہ اُس نے یسوع کی زبانی یہ سُنا تھا کہ وہ تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔
اگر ایک لمحے کےلئے ہم فرض کریں کہ وہ شخص جسے صلیب پر مصلوب کیا گیا یسوع نہیں تھا۔ تو یہ ناممکن تھا کہ وہ فرد اِتنے پُرمحبت الفاظ ادا کر سکتا جنہوں نے اُس کے حقیقی کردار کو ظاہر کیا: "اَے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں"، اور "تمام ہُوا"۔ یہ سب الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ صلیب پر جو فرد مصلوب ہوا تھا وہ یسوع مسیح کے علاوہ کوئی اَور دوسرا نہ تھا۔
یوں میں اِس قائل کرنے والے نتیجے پر پہنچا کہ سورة النساء 157:4 میں جس فرد کا ذکر کیا گیا ہے کہ جسے مصلوب کیا گیا اور وہ مر گیا، وہ بغیر کسی شک و شبے کے یسوع خود تھا، نہ کہ کوئی اَور فرد جیسے کہ یہوداہ; اورچاروں اِنجیلی بیانات کے مصنفین کی سچی گواہی قائل کرنے والی، قانونی اور درست ہے۔
مُردوں میں سے مسیح کا جی اُٹھنا
قرآن کہیں پر بھی یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا انکار نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق محمد کو یسوع کے بارے میں یہ مکاشفہ ملا:
«"وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا"(سورة مریم 33:19)»
(اور جس دن مَیں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام[ورحمت] ہے۔)
اِس قرآنی آیت نے مجھے قائل کر دیا کہ یسوع نے واقعی صلیبی موت کا مزہ چکھّا، مگر کچھ لوگ اِس حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ یسوع مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھا (أُبْعَثُ حَيًّا)۔ ایسا جِسم جو حقیقی موت (أَمُوتُ) کے بعد جی اُٹھے، اُس کےلئے"أُبْعَثُ حَيًّا" کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔
یسوع اپنے بدن میں تیسرے دِن واقعی مُردوں میں سے جی اُٹھا جِس کا مشاہدہ کیا اور چُھوا جاسکتا تھا (فلپیوں 21:3)۔ یسوع مسیح کی موت بے معنٰی ہوتی اگر اُنہیں مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا سہرا نہ ملتا۔
فرض کریں، جب مسیح صلیب پر لٹکایا گیا اور مر گیا اور اگر وہ مُردہ ہی رہتا تومسیحی دُنیا اور مذہب کےلئے یہ ہولناک دھچکا ہونا تھا کیونکہ اُن کا خُدا یوں مرجاتا اور ختم ہو جاتا۔ اورمسیحی مذہب اب تک مضبوطی سے قائم نہ رہتا کیونکہ مسیحیوں کے پاس اپنی نجات کی کوئی امید نہ ہوتی۔
اور یہ بھی کہ اگر مسیح مرکر مُردہ ہی رہا اوراگر اُس کی ہڈیاں آج تک قبر میں ہی ہوتیں تو کیوں مسیحی مُردہ خُدا کی پرستش میں اپنا وقت گنواتے؟ اورکس مقصد کے تحت مسیحی ایک مُردہ شخص کے نام پر بپتسمہ لیتے؟ اور کیوں وہ ایک مُردہ شخص پر گیان دھیان کرتے؟ یقیناً ایسا گیان دھیان تو بے وقوفی ہی ٹھہرتا کہ اگر مسیحی اُس یسوع کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے جو خود موت کے بند سے چھٹکارا نہ پا سکا تھا اور قبر ہی میں پڑا رہ گیا۔
خُدا کی لا محدود محبت کو ثابت کرنے کےلئے یسوع کو مصلوب ہونا تھا، لیکن ہمیشہ مُردہ رہنے کےلئے نہیں بلکہ ایسا موت پر فتح پا کر جی اُٹھنے اور تا ابد زندہ رہنے کےلئے تھا۔ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا، وہ پھر سے زندہ ہے اور یہ تصوراتی یا قیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ بہت سے لوگوں نے بعدازاں اُسے دیکھا اور اِس بات کی گواہی دی۔
یسوع کی صلیبی موت اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھنا تمام دُنیا میں مسیحی کلیسیاؤں کی گواہی کا جوہر ہے۔ ہمارا ایمان کامل اُمید سے بھرپور ہے۔ ہمارا ایسا نجات دہندہ ہے جو ابد تک جیتا ہے۔ ہمارے ایمان کی بنیاد محبت پر ہے اور یسوع کی بدولت ہم خُدا کے وعدے حاصل کرتے ہیں۔ ہم اُسکے سا تھ دُکھ اُٹھاتے ہیں اور اُسکے ساتھ جلال بھی پائیں گے (رومیوں 17:8)۔
اِسی وجہ سے ہم مسیح کے پیروکار ہوتے ہوئے کامل یقین رکھتے ہیں کہ ہم تمام مختلف قسم کی اموات سے چھٹکاراپائیں گے:
الف۔ ہم خاندانی جھگڑوں، تنازعوں اور نفرت کی موت سے چھٹکاراپاتے ہیں۔
ب۔ ہم تکلیف سے اپنی روزی کمانے کی موت سے چھٹکارا پاتے ہیں۔
ج۔ ہم تشویش سے بھرے دِل کی موت سے چھٹکارا پائیں گے۔
د۔ ہم اپنے کمزور ایمان کی موت سے چھٹکارا پائیں گے۔
ہ۔ ہم اپنی خُود غرضی اور انا کی موت سے چھٹکارا پائیں گے۔
و۔ ہم تمام خوف، بیماریوں اور دکھوں کی موت سے چھٹکارا پائیں گے۔
ہمارے لئے یسوع کی صلیب کے معنٰی
پطرس رسول نے رُوح القُدس کی تحریک سے یوں لکھا :
"کیونکہ اگر کوئی خُدا کے خیال سے بے اِنصافی کے باعِث دُکھ اُٹھا کر تکلیفوں کی برداشت کرے تو یہ پسندیدہ ہے۔ اِس لئے کہ اگر تُم نے گناہ کر کے مکّے کھائے اور صبر کیا تو کونسا فخر ہے؟ ہاں اگر نیکی کر کے دُکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو یہ خُدا کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ اور تُم اِسی کےلئے بُلائے گئے ہو کیونکہ مسیح بھی تُمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تا کہ اُس کے نقشِ قدم پر چلو۔ نہ اُس نے گناہ کیا اور نہ اُس کے مُنہ سے کوئی مکر کی بات نِکلی۔ نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کِسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے اِنصاف کرنے والے کے سُپرد کرتا تھا۔ وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تا کہ ہم گناہوں کے اِعتبار سے مر کر راستبازی کے اِعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تُم نے شفا پائی۔ کیونکہ پہلے تُم بھیڑوں کی طرح بھٹکتے پھرتے تھے مگر اب اپنی رُوحوں کے گلہ بان اور نگہبان کے پاس پھر آگئے ہو" (1-پطرس 19:2-25)۔
یسوع کی صلیبی موت اُس کے دُکھوں کی اِنتہا تھی۔ صلیب پر مرنے کی تمنا مسیح نے اپنے لئے خُود نہ کی بلکہ اِنسانیت کے گناہوں کی خاطر یہ خُدا کی طرف سے ایک مقررکردہ انتظام تھا۔ یسعیاہ نبی نے یسوع کے دُکھوں کی بابت پیشینگوئی اِس تمام واقعے سے سات سو سال پہلے کی:
"تو بھی اُس نے ہماری مشقّتیں اُٹھا لیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئےاُس پرسیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔ وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔ وہ ظُلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے پر اُس کے زمانہ کے لوگوں میں سے کس نے خیال کیا کہ وہ زِندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا؟ میرے لوگوں کی خطاؤں کے سبب سے اُس پر مار پڑی۔ اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی مَوت میں دولتمندوں کے ساتھ ہُوا حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظُلم نہ کیا اور اُس کے مُنہ میں ہرگز چھل نہ تھا۔ لیکن خُداوند کو یہ پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کےلئے گذرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عمر دراز ہو گی اور خُداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پُوری ہو گی۔ اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راستباز ٹھہرائیگا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خُود اُٹھا لے گا۔ اِس لئے میں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصّہ دُونگا اور وہ لوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان مَوت کےلئے اُنڈیل دی اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔ (یسعیاہ 4:53-12)۔
یسوع نے بذاتِ خُود جان لیا تھا کہ یہ نبوت اُس کی اپنی ہی پاک ذات میں پُوری ہونی تھی کیونکہ وہی خُدا کا صادق خادم تھا جس کا اِس نبوت میں ذِکر ہے۔ اِسی وجہ سے یسوع نے اِس حد تک دکھوں کا سامنا کرتے ہوئے، اپنے اُس شاگرد کو جس نے اُسے گرفتار کرنے والے سپاہی پر تلوار سے حملہ کیا، یہ حکم دیا: "اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔ کیا تُو نہیں سمجھتا کہ میں اپنے باپ سے منّت کر سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تُمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا؟ مگر وہ نوِشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہونگے؟" (متی 52:26-54)۔
یہودی مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں یسوع کو رُومی گورنر کے حوالہ کیا گیا تا کہ اُسے صلیب دی جائے، اِس لئے نہیں کہ اُس نے توریت کی تعلیمات کے خلاف کوئی جُرم یا گناہ کیا تھا۔ اُس کے بارے میں یہودی مذہبی پیشواؤں نے کفر کا فتویٰ اِس لئے دیا کہ اُس نے اُن کے سامنے اقرار کیا تھا کہ وہ خُدا کا بیٹا اور دنیا کا نجات دہندہ ہے۔
صلیب کی علامت ہمیں یاددہانی کراتی ہے کہ یسوع نے ہمیں گناہ کی طاقت سے نجات دینے کےلئے بطور قربانی صلیب پر دکھ سہہ کر موت برداشت کی تا کہ ہم ہمیشہ کی زندگی کے وارث بن سکیں۔
یسوع کا صعودِ آسمانی (معراج)
یسوع کا آسمان پر اُٹھایا جانا یروشلیم شہر سے باہر بَیت عنیاہ میں اپنے گیارہ شاگردوں کے سامنے ہوا (لوقا 50:24)۔
جہاں تک یسوع کے آسمان پر اُٹھائے جانے(معراج) کی حقیقت ہے، قرآن میں اِس بارے میں کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ قرآن میں اِس کی تصدیق سورة اٰل عمرٰن55:3 میں یوں مِلتی ہے :
«إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ»
(اُس وقت خُدا نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں بےشک تمہیں موت دونگا اور اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔)
یسوع کے آسمان پر صعود کر جانے کے واقعے میں دو چیزوں کو مدنظر رکھنا چاہئے :
۱لف۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو جو آخری پیغام دیا اُس میں اُس کے آنے کا مطمع نظر اُس حکم میں بیان کیا گیا جو اُس نے اپنے تمام پیروکاروں کو دیا ہے: (1) تمام دُنیا میں جاؤاور نجات کی خوشخبری کی منادی کرو اور سب قوموں کو یسوع کے شاگرد بناؤ۔ (2) اُنہیں خُداباپ، بیٹے اوررُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ (3) اور اُنکو وہ تعلیم دو جو میں نے تمہیں بالخصوص اِنجیل کے بارے میں اور بالعموم بائبل مقدّس کے بارے میں دی ہے۔
ب۔ یسوع نے اپنے تمام شاگردوں کو رُوح القُدس کی قوت دینے کا وعدہ کیا، جس میں ہم بھی شامل ہیں جو موجودہ زمانے میں اُس کے شاگرد اور پیروکار بنتے ہیں کہ اِس بات کی گواہی دیں کہ یسوع خُدا کا بیٹا زندگی کا کلام ہے۔ اُس کا رُوح اب سے لے کرابدالآباد تک ہمارے ساتھ ساتھ رہے گا۔
یسوع کی آمدِ ثانی
یسوع زندوں اور مُردوں کا انصاف کرنے کےلئے اِلٰہی مُنصف کی حیثیت سے اِس دُنیا میں جلد ہی دوبارہ تشریف لائے گا(اعمال 11:1; مکاشفہ 11:20-15)۔
یسوع کا راست مُنصف کی حیثیت سے اِس دُنیا کے آخر میں دوبارہ آنا مسلم عقیدہ بھی ہے اور اِس تعلق سے کئی احادیث بھی ملتی ہیں۔ مثلاً :
الف۔ صحیح بخاری کی جلد چہارم میں ابوہریرہ سے روایت ہے :"کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم و امامکم منکم"(تمہارا اُس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریم تم میں اُتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا)۔
ب۔ مسند امام احمد ابن حنبل 240:2، 411میں لکھا ہے "لَیُوشِکَنَّ انَّ یَنزِلَ فِیکُم ابنُ مَریَمَ اِمَاماً مَھدِیاً وَ حَکَماً عَدلاً"(وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابنِ مریم تُم میں بحثیت راہ یافتہ امام اورعادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہونگے)۔
ج۔ حدیث مسلم کتاب اول کے مطابق ایک مرتبہ محمد عربی نے قسم کھا کر دُوسروں کو یقین دِلایا کہ یسوع مسیح ابنِ مریم دوبارہ بہترین مُنصف بن کر آئیں گے۔ محمد نے کہا:"وَاُللَّہَ لَیَنزِلَنَّ ابنُ مَریَمَ حَکَماً عَادِلاً "(اللہ کی قسم، ابنِ مریم عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے)۔
اِس حدیث کی تشریح یہ ہے کہ یسوع مسیح کی دو سری آمد ضرور ہی آخری زمانے میں ہو گی۔ لفظ 'حَکَماً' سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یسوع مسیح کی دوبارہ آمد نبی کی حیثیت سے نہیں ہو گی اور وہ خُدا کی شریعت کو بائبل یا قرآن میں لے کر نہیں آئے گابلکہ وہ تمام اِنسانوں کے مُنصف کی حیثیت سے اپنے ساتھ ایک نئی کتاب 'کتابِ حیات' لے کر آئے گا (مکاشفہ 11:20-15)۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مندرجہ بالا حدیثوں کا موازنہ بائبل مقدّس کی ایک آیت سےکیجئے :"جِس روز خُدا میری خُوشخبری کے مطابق یسوع مسیح کی معرفت آدمیوں کی پوشیدہ باتوں کا انصاف کریگا"(رومیوں16:2)۔
اِس وجہ سے میرے لئے یسوع کو اپنا خُداوند اور شخصی نجات دہندہ قبول کرنے اور بطورراست منصف اُس کی دوسری آمد کے انتظارکرنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔
یسوع کے پیروکاروں کی نجات کے بارے میں قرآن یوں شہادت دیتا ہے:
«"إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ "(سورة اٰل عمرٰن 55:3)»
(اُس وقت خُدا نے فرمایا کہ عیسیٰ! میں بے شک تمہیں موت دونگا اور اپنی طرف اُٹھا لوں گا اور تُمہیں کافروں [کی صحبت سے پاک کر دُوں گا۔ اور جو لوگ تمہاری پیروی کرینگے اُن کو کافروں پرقیامت تک فائق [و غالب] رکھوں گا۔)
واضح طور پر قرآن گواہی دیتا ہے کہ مسیح کے پیروکاروں کی نجات یعنی فردوس میں ابدی زندگی کی ضمانت دی گئی ہے جیسے کہ یسوع نے خود فرمایا:
"میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسکی ہے اور اُس پر سزا کا حُکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کرزندگی میں داخل ہو گیا ہے۔" (یوحنا 24:5
"راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔" (یوحنا 6:14)
جیسا کہ میں نے اپنے مسیحی ایمان کی بابت گواہی کے شروع ہی میں ذِکر کیا تھا کہ سب سے پہلے سورة المائدہ کی آیت 68 نے مجھے بائبل مقدّس کی صداقت کو پرکھنے پر آمادہ کیا، اور یہ قرآنی آیت تصدیق کرتی ہے کہ بائبل مقدّس (توریت، زبور، صحائف ِانبیا اور اِنجیل) ہر اُس شخص کےلئے، جو خُدا کی مرضی کے مطابق سچائی سے خُدا کی پرستش کرتا ہے، راست کتاب ہے۔
قرآن میں کئی ایسی آیات ہیں جو مسلم علماء اکثر یہ ثابت کرنے کےلئے استعمال کرتے ہیں کہ بائبل مقدّس تبدیلی، تحریف اور غلطی کا شکار ہو چکی ہے۔ پہلے میں نے بھی اِن قرآنی آیات کو اِس مقصد کےلئے استعمال کیا تھا۔
لیکن بعدازاں میں نے اِن قرآنی آیات کو واقعی حقیقی معنوں میں سمجھنے کی کوشش کی، بالکل ویسے ہی جیسے میں بائبل مقدّس کے مشمولات سمجھنا چاہتا تھا۔
میں نے دیانتداری سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مندرجہ ذیل قرآنی آیات میں کس حد تک سچائی پنہاں ہے۔ آخرکارمیں اِس نتیجہ پر پہنچا:
۱لف۔ سورة البقرة 75:2
«أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ»
([مومنو] کیا تُم اُمید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے [دین کے] قائل ہو جائیں گے [حالانکہ] اُن میں سے کچھ لوگ کلام خُدا [یعنی تورات] کو سُنتے پھر اُس کے سمجھ لینے کے بعد اُس کو جان بُوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں ۔)
عموماً مسلمان 'کچھ لوگ' (فَرِيقٌ مِّنْهُمْ) سے بائبلی علما (یہود و نصاریٰ) مراد لیتے ہیں جنہوں نے توریت اور انجیل میں خُدا کے الفاظ کو بدل دیا۔
میری تحقیق کے مطابق سورة البقرة 75:2 کے معنٰی یہ نہیں ہیں۔ 'کچھ لوگ' سے مراد وہ مسلمان تھے جو پہلے یہودی اور مسیحی تھے مگر جب اُن کو محمد کی حقیقی تعلیمات کا علم ہوا تواُنہوں نے اسلام کو ترک کر دیا۔ قرآن اُن لوگوں کو مورد ِالزام ٹھہراتا ہے کہ اُنہوں نے قرآنی آیات کے معنٰی یا تشریح کو بدل دیا تھا نہ کہ بائبل مقدّس کے الفاظ کو۔
اِس قرآنی آیت کو پڑھنے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ "کیا تُم [محمد] اب بھی اُمید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارا یقین کریں گے؟" اِس جملے میں 'تُم' کا لفظ واضح طور پر محمد کےلئے استعمال ہُوا ہے۔ انہوں (یہودیوں اور مسیحیوں) نے محمد کو اپنا نبی تسلیم کرلیا، اور بعد ازاں جب اُنہوں نے اسلام کو خیر آباد کہہ دیا تو اُن پر یہ اِلزام لگا کہ اُنہوں نے قرآنی آیات کے مطلب کو بدل ڈالا ہے اور یہ کہ ایسے لوگ احمق، جھوٹے اور جاہل ہیں۔
(ہم جِس آیت کو منسُوخ کر دیتے یا اُسے فرموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اَور آیت بھیج دیتے ہیں کیا تُم نہیں جانتے کہ خُدا ہر بات پر قادر ہے۔
ب۔ سورة البقرة 106:2
«مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا»
(ہم جِس آیت کو منسُوخ کر دیتے یا اُسے فرموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یاویسی ہی اَورآیت بھیج دیتے ہیں کیا تُم نہیں جانتے کہ خُدا ہر بات پر قادر ہے۔)
اِس قرآنی آیت کے بارے میں عام طور پر مسلمان یہ مانتے ہیں کہ یہ'منسوخ' آیات بائبل کی آیات ہیں جو توریت اور اِنجیل میں ہیں۔ لیکن قرآن کی کچھ اِسلامی تشریح سے آپ جان سکتے ہیں کہ اِن منسوخ شدہ یا فراموش کی گئی آیات سے مراد کئی قرآنی آیات ہیں کیونکہ اُن کے قوانین اور احکام اب منسوخ کر دئے گئے ہیں۔ کتاب "التجدید فی الاسلام" کے مطابق پانچ سے پچاس تک ایسی قرآنی آیات ہیں جو منسوخ شُدہ ہیں۔
جبکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ منسوخ شدہ آیات وہ ہیں جن میں محمد کے معجزات کا ذکر تھا، کیونکہ محمد خُدا کی طرف سے نبی ہوتے ہوئے بھی موسیٰ اور عیسیٰ کی طرح معجزات کرنے سے محروم تھا۔ اِس لئے سورة البقرة 106:2 کا حوالہ اِس سچائی کو رد کر نے کےلئے بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا کہ بائبل مقدّس اِلہٰی کتاب ہے جو ہر اُس فرد کےلئے راستی کی حقیقی بنیاد ہے جو سچائی سے خُدا کی پرستش کرے گا۔
ج۔ سورة المائدة 13:5
«فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ»
(تو اُن لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب ہم نے اُن پر لعنت کی اور اُن کے دِلوں کو سخت کر دیا۔ یہ لوگ کلمات [کتاب] کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔ اور جن باتوں کی اُن کو نصیحت کی گئی تھی اُن کا بھی ایک حصہ فراموش کر بیٹھے اور تھوڑے آدمیوں کے سِوا ہمیشہ تُم اُن کی [ایک نہ ایک] خیانت کی خبر پاتے رہتے ہو۔)
سورة المائدة کی اِس آیت کے لفظ 'اُن' کے ساتھ عموماً قوسین میں 'یہودی/مسیحی' جان بوجھ کر لکھا جاتا ہے اور جملے کے الفاظ 'یہ لوگ کلمات کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں' سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ توریت اور اِنجیل تبدیل ہو گئی ہیں۔
حقیقت میں یہ قرآنی آیت سورة البقرة 75:2 کی طرح محمد کے زمانے کے اُن مسلمانوں کی بات کرتی ہے جو پہلے یہودی یا مسیحی تھے لیکن بعد ازاں دوبارہ اپنے پرانے مذہب میں چلے گئے اور اسلام کو رد کر دیا۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو ملزم ٹھہرایا کہ اِن لوگوں نے قرآنی آیات کے لفظوں کو اُنکے مقام سے بدل ڈالا ہے۔ اِس موضوع پر مزید مطالعہ سورة المائدة 7:5-14 کے تنا ظر میں کیا جا سکتا ہے۔
یقیناً سورة المائدة 13:5 کو بائبل مقدّس کی سچائی کو رد کرنے کےلئے بنیاد کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
نتائج تحقیق
اوپر بیان کی گئی آیات سے ملتی جُلتی اَور بھی کئی قرآنی آیات ہیں جن کے پڑھنے سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ وہ بائبل مقدّس کی سچائی کو رد کر رہی ہیں۔ ایسی آیات کا دیانتداری سے مطالعہ کرنے کے بعد میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ ایک بھی ایسی قرآنی آیت نہیں جو واضح طور یہ بیان کرتی ہو کہ بائبل مقدّس (توریت، زبور اور اِنجیل) میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی گئی ہے۔
آخر میں میرا نتیجہ یہ ہے کہ قرآنی آیات یعنی سورة المائدة 68:5، سورة البقرة 62:2، سورةالسجدة 23:32 اور کئی دوسری آیات ایسی ہیں جو یہ یقین دِلاتی ہیں کہ توریت، زبور اور اِنجیل اُن سب لوگوں کےلئے برحق ہدایت ہے جو خُدا کی پرستش و عبادت اُس کی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ میں مسیحی ایمان کی سچائی کا قائل ہو چکا تھا اور یسوع کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرنے کےلئے بھی تیار تھا، تاہم میں باقاعدہ طریقے سے مسیحی نہ ہُوا کیونکہ میرے گرد و پیش کے حالات سازگار نہ تھے اور میرے لئے رُکاوٹ کا سبب بنے ہوئے تھے۔ اِس کے علاوہ میں خوف و اضطراب کا شکار بھی تھا۔
میرا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یسوع کو اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنے کےلئے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ماحول کے اثرات سے گھبرا کر اکثر ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ شاید وہ اپنے والدین کے خلاف جانا نہیں چاہتے، کئی بار اُنہیں اپنی نوکری کے کھو جانے کا یا بیوی سے تصادم کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ اَور بھی بہت سی رُکاوٹیں ہیں جو لوگوں کو اِس بات سے روکتی ہیں کہ وہ یسوع کو پُورے طور پر اپنی زندگی پر حکمرانی کرنے دیں۔
یسوع نے ماحول کے خوفناک اثرات سے پیشتر ہی آگاہ کر دیا تھا جسکا ذکر متی 34:10-36 میں ملتا ہے ۔ آپ نے اُن دکھوں کا ذکر کیا جنکا سامنا ہر اُس فرد کو کرنا پڑ سکتا ہے جو مسیح کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ والدین کی طرف سے مذہب کی تبدیلی کے باعث نفرت کا جذبہ پیدا ہو، خاندانی تعلقات ختم ہو جائیں اوراپنی جان کا خطرہ لاحق ہو جائے۔ تاہم، وہ جویسوع کو خُداوند کے طورپر قبول کرتے ہیں اور اپنی زندگی اُس کے حوالے کرتے ہیں کہ وہ اُن کے دِلوں پر حکومت کرے، اُن کی مشکلات کبھی دیرپا نہیں رہتیں اور خدا کی مدد اِن تمام مسائل پر غلبہ پانے کےلئے مددگار ہو گی۔ مجھے بھی ایسے ہی تجربات سے گزرنا پڑا لیکن ہر بار خُدا نے اِن تمام مسائل سے نکلنے کی راہ بھی آسان کر دی۔
1961ء سے لے کر 1964ء تک میں دوہرے مذہبی فرائض ادا کرتا رہا۔ میں مسلم عقیدے کے مطابق نماز پڑھتا اور ہر جمعہ کو مسجد بھی جاتا۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ ہر اتوار کو میں مسیحی عبادت گاہ میں بھی جاتا اور ہفتے کے دن ایک ایڈونٹسٹ چرچ میں عبادت کرتا۔ اُس وقت میں گرجے میں قائلیت کے تحت نہ جاتا تھا بلکہ صرف اِس وجہ سے کہ میں سچائی کو جاننا چاہتا تھا۔ اکثر میں نے غیر مسیحیوں کے یہ بیانات پڑھے تھے کہ گرجے میں لوگ بتوں اور تصویروں کی پرستش کرتے ہیں۔ اِس وجہ سے میں ہر اِتوار جکارتہ میں کسی نہ کسی گرجے میں جاتا اور پھر اکثرمیں ایک ہی اتوار کو کئی گرجوں میں یہ دیکھنے کےلئے جاتا کہ کیا مسیحی مُجسموں یا تصاویر کی پوجا کرتے تھے۔
آخرکار، میں یہ نتیجہ نکالنے کے قابل ہوا کہ میرے خدشات بے بنیاد تھے۔ میں جس بھی گرجے میں گیا مجھے کہیں بھی بُت پرستی نظر نہ آئی۔
1964ء سے میری رُوح حقیقت میں خُدا کے رُوح یا سچائی کے رُوح سے معمور ہو گئی۔ اور اُس وقت میں نے یسوع کو پورے دل سے اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ابھی تک ایک بات کی کمی کا احساس مُجھ میں تھا اور وہ یہ تھی کہ مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے مسیحی ایمان کا اِقرار اِعلانیہ طور پرکرتا۔ میں نے اُس وقت تک اپنی مسیحیت کو راز میں رکھا ہُوا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ میرا خاندان، میری بیوی اور دوسرے عزیز میرے اِس فیصلے کو کسی طرح سے جان پائیں، اِس لئے میں نے "کویٹنگ" (Kwitang) شہر میں، چرچ آف اِنڈونیشیا سے رازداری میں بپتسمہ لینے کی درخواست کی جو کہ نامنظور کر دی گئی کیونکہ کسی کو بھی خفیہ طور پر بپتسمہ نہیں دیا جاتا تھا۔
کئی ہفتے گزرنے کے بعد اِسی مقصد کے تحت میں نے پادری جے سپولیتے (Rev. J. Sapulete) سے بیت ایل چرچ جاتی نگارا (Jatinegara) میں مُلاقات کی۔ وہ فوراً راضی ہو گئے، مگر ایک شرط پر کہ بپتسمہ دو یا تین مسیحی پڑوسیوں کے سامنے ہو گا جو میری مسیحی زندگی میں میری روحانی راہنمائی کر سکیں تا کہ میں مسیحی زندگی بسر کر سکوں۔ میں اِس شرط کو ماننے کےلئے تیار نہ تھا کیونکہ اُس وقت تک میں نے مسیحی ہونے کا اعلانیہ اِقرار نہ کیا تھا اور اِسکی وجہ میرے اِردگرد کا ماحول اور میرا اپنا گھرانا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ اِسطرح میرے اپنے ہی گھر میں بڑی مشکل پیدا ہو جائیگی۔ اِس خوف کے تحت کہ کہیں وہ اِنتقاماً مجھے اِسلامی قانون کے تحت طلاق کےلئے عدالت میں نہ لے جائے میں اپنی بیوی سے بھی بات کرنے کی ہمت نہ پا رہا تھا کہ وہ چرچ میں میرے ساتھ جائے۔ اِس وجہ سے میں یسوع مسیح کو صرف خُفیہ طور پر قبول کرنا چاہتا تھا۔
تاہم، مسیحی ایمان کے تعلق سے مجھ میں کوئی غیر یقینی باقی نہ رہی تھی۔ اِس وجہ سے میں نے دوہری مذہبی عبادات کو ادا کرنا چھوڑ دیا اور میں صرف مسیحی عبادتگاہ میں جاتا۔ لیکن راز افشا ہو جانے اور خاندان کے رد عمل کا ڈر ہمیشہ ہی لگا رہتا تھا۔ مجھے کوئی حل نظر نہیں آتا تھا کہ میں اِن تمام مشکلات پر کیسے قابُو پاؤں اور نہ ہی مشورہ لینے کےلئے کسی کے پاس گیا۔
پھر بھی، خُدا نے اپنے وقت پر اِن تمام مشکلات پر قابو پانے کےلئے میری مدد کی۔ پہلے میں سوچتا تھا کہ اگر میں اپنی بیوی سے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں بات کروں گا تو یہ ہمارے لئے مشکل کا سبب بن جائے گا۔ لیکن خُدا نے اپنی بڑی رحمت سے میری بیوی پر سچائی کا دروازہ کھول دیا۔ کرسمس کی خوبصورت سجاوٹ یعنی رنگ برنگی روشنیاں اور کرسمس ٹری جو مسیحی گھروں سے دِلکش نظارہ پیش کر رہے تھے، اُنہوں نے میری بیوی کے دِل کو بہت سکون دیا اور مسیحیت کی خُوبی اُس پر ظاہر ہوئی کہ مسیحی خاندان میں زندگی کتنی خوبصورت ہوتی ہے۔
اپنے جذبات کا اظہار کرنے کےلئے میری بیوی اور میری ایک بیٹی میرے پاس یہ بتانے کےلئے آئیں کہ کتنا اچھا ہو کہ ہمارا خاندان بھی مسیحی گھر ہو۔ اَب یہی موقع تھا جس کا میں منتظر تھا۔
اَگلے دِن کرسمس تھا اور میں پادری سپولیتے سے پھر مِلا اور اُن سے اپنے اور اپنے خاندان کی طرف سے بپتسمہ کی درخواست کی جو فوراً منظور ہو گئی۔ یوں 26 دسمبر 1969ء کو میں نے بمعہ بیوی اور سات بچوں کے ایک خاندان کی طرح بیت ایل چرچ میں پادری جے سپولیتے سے بپتسمہ لیا۔ ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد میرے ایک اَور بیٹے نے بھی بپتسمہ لیا اور یہ انکشاف ہوا کہ وہ بھی چھُپ چھُپ کر چرچ جاتا تھا کیونکہ اِس بات سے خوفزدہ تھا کہ کہیں مجھے سچ نہ پتا چل جائے۔ میں بھی اپنی بیوی اور بچوں کے ڈر سے چھُپ کر چرچ جاتا تھا، اور یوں گویا ہم ایک دُوسرے کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہے، لیکن خُداوند کی تعریف کرتا ہوں کہ بالآخر میں اور میرا خاندان یسوع کے پیروکار بن گئے اور ہمارے دلوں پر اُس کی حکمرانی ہو گئی۔
بے شمار برکتیں
26 دسمبر 1969ء میں جب میں نے اپنے گھرانے سمیت بپتسمہ لیا تو ہم نے کئی خوشگوار تبدیلیوں کا تجربہ کیا۔ ہمیں بہت سی برکات ملیں جن سے ہماری زندگی بدل گئی۔ پولُس رسول نے لکھا: "اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (2 ۔کرنتھیوں 17:5)۔
جب کوئی فرد یسوع کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کرتا ہے تو خُدا اُس ایماندا ر کی زندگی کو تبدیل کر دیتا ہے اور وہ مسیح کی صُورت پر ڈھلنے لگتا ہے۔ بائبل مقدّس میں لکھا ہے: "خُدا نے اِنسان کو اپنی صُورت پر پیدا کیا" (پیدایش 27:1)۔ اِس نئی رُوحانی تبدیلی میں خوشی اور محبت کی چاہتیں جنم لینے لگتی ہیں۔ ایسا فرد دُنیاوی چیزوں سے محبت کی جگہ نفرت کرنے لگتا ہے اور جو دینداری کی باتیں اُسے پہلے ناپسند ہوتی تھیں وہ دل پسند بن جاتی ہیں۔ اُس کی زندگی بدل جاتی ہے اور ایسی نمایاں تبدیلی آتی ہے جسے آس پاس کے لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اُس کی زندگی کے راستے بدل جاتے ہیں جو اُس کے طرزِ کلام میں بھی تبدیلی لاتا ہے۔ کیا ہی عجیب تبدیلی ہے!
ایسی ہی تبدیلی کا میں اور میرے خاندان نے بھی اپنی زندگی میں تجربہ کیا۔ گرم مزاجی کے بجائے نرم مزاجی نے جگہ لے لی۔ اپنی رُوحانی زندگی میں ہمیں خُوشی اور اطمینان مِلا۔ تمام شکوک و شبہات دُور ہو گئے۔ ہماری روحیں محفوظ تھیں اور دِل خُوشی سے بھر گئے۔ یہاں تک کہ ہمیں دنیاوی طور پر بھی کثرت سے برکتیں ملیں۔ یہ تمام تجربات خُدا کے حقیقی وعدوں کا ثبوت تھے جو یسوع مسیح کے وسیلے سے ایمانداروں کی زندگی میں پورے ہوتے ہیں۔
"اگر کوئی پیاسا ہو تو میرے پاس آ کر پئے ۔جو مجھ پر ایمان لائے گا اُس کے اندر جیسا کہ کتابِ مقدّس میں آیا ہے زِندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہونگی۔" (یوحنا 37:7-38)
"میں اِس لئے آیا کہ وہ زندگی پائیں اور کثرت سے پائیں ۔" (یوحنا 10:10)
ہماری روزمرہ خاندانی زندگی میں تبدیلی اِس قدر تیزی سے نمایاں ہوئی کہ ہم لوگوں کی نظروں میں آ گئے اور ہماری طرف اُنگلیاں اُٹھنے لگیں۔ ہمارے ہمسائے اور رشتہ دار یہ خیال کرنے لگے کہ ہم نے مسیحیت اِختیار کرنے کے عوض چرچ سے مدد حاصل کی ہے۔ لوگ یہ کہتے ہوئے ہمارا تمسخر اُڑانے لگے کہ 'اگر جلد امیر بننا ہے تو مسٹر امبری کے نمونے کی پیروی کرو اور مسیحی ہو جاؤ تو مدد کے طور پرتمہیں چرچ کی طرف سے لاکھوں روپیہ حاصل ہوگا۔' لوگ یہ شک کرتے تھے کہ ہماری زندگی میں برکات کا نازل ہو جانا چرچ کی طرف سے تھا جبکہ مسیحی ہو جانے پر رشوت کے طور پر ہمیں مالی مدد دی گئی ہے۔ ایسا ہر گز نہیں تھا! ہم نے کسی بھی چرچ سے یا کسی اَور ذریعے سے مسیحی ہو جانے پر کوئی مدد نہ لی، نہ روزگار کےلئے کوئی وعدہ لیا اور نہ ایک پائی تک لی۔ در حقیقت ہماری تمام رُوحانی و مادی برکات اور بابرکت زندگی فقط خُدا کی فیاضی کا نتیجہ تھی۔ یہ اُس کا وعدہ ہے کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے گا کثرت سے برکت پائے گا۔
میرے غیر متحرک ابتدائی مسیحی سال
1970ء سے 1972ء تک میں ایک جامد (سُست) مسیحی تھا۔ میں اپنے کاروبار کو قائم کرنے اور اپنے خاندان کی پرورش میں مصروف رہا۔ میں صرف اتوار کو چرچ میں جاتا اور فارغ وقت میں بائبل مقدّس کی تلاوت کرتا۔ خُدا نے مجھے ایسے رویے پر مجرم ہونے کا احساس دلایا۔ میں نے اُس وقت واضح محسوس کیا کہ خُدا نے مجھے تنبیہ کی: "اگر تُم حقیقی مسیحی بننا چاہتے ہو تو اِس طرح کی سرد مزاجی کا رویہ درست نہیں۔ تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ تُم کاہلی سے بیٹھ کر خُدا کی اُن برکات کا مزہ چکھو جو اُس نے تمہیں عطا کی ہیں۔ مسیح کے ایک شاگِرد کی حیثیت سے تمہیں لازماً مسیح کی انجیل کی واضح گواہی دینی ہے کیونکہ اُس نے متی 19:28-20 میں تمہیں اِس بات کا حکم دیا ہے۔"
سوال یہ تھا کہ کس طرح میں کھلے عام شخصی مسیحی گواہی اور انجیل کی خوشخبری کی منادی کروں؟ درحقیقت میں ایسا کرنے کی خواہش تو رکھتا تھا لیکن اِس بات سے نا واقف تھا کہ کیسے اِس کا آغاز کیا جائے۔ اِس کےلئے ایک بار پھر خُدا نے راستہ تیار کیا اور یوں میری مدد کی:
ایک دِن میرا بہترین دوست ہمارے گھر ایک رات قیام کرنے کےلئے بنجرماسین سے آیا۔ وہ میرا حقیقی دوست تھا جس نے اچھے اور بُرے دنوں میں میرا ساتھ دیا تھا۔ جب بھی ڈچ فوج کی طرف سے گرفتاریاں ہوتی تھیں ہماری ہمیشہ ایک دوسرے سے کسی نہ کسی قید خانہ میں ملاقات ہو جاتی تھی۔
ہمارے گھر میں کوئی ایسا نشان نہ تھا کہ جس سے پتا چلتا کہ ہم مسیحی ہو چکے تھے۔ وہ ہم سےحسبِ معمول ملا۔ جب اُسنے "السلام علیکم" کہا تو میں نے جواب دیا "وعلیکم السلام۔" میرے دوست نے پڑوسیوں سے سُنا تھا کہ میں مسیحی ہو چکا ہوں۔ لیکن اُس نے اُنہیں جواب دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکتا اور تقریباً میرے پڑوسیوں کو اِس کا قائل بھی کرلیا۔ اُس نے اُنہیں بتایا "میں ہمران امبری کو نہ صرف جکارتہ بلکہ بنجرماسین سے بھی اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ وہ کوئی معمولی مسلمان نہیں بلکہ اپنے ایمان میں بااصول ہے۔ اپنے صُوبے میں وہ ایک تشدد پسند مجاہد ِ اسلام، مخالفِ مسیحی، تحریکِ محمدیہ کے راہنماؤں میں سے ایک، مسلم صحافی اور اِسلام کے مبلغ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اور وسطی اور مشرقی کالیمنتان (Kalimantan) کا سارا علاقہ اِسے جانتا ہے۔ مزید برآں 1947ء میں امونتائی (Amuntai) میں کالیمنتان اِسلامی کانگریس کی ترویج میں ہمران امبری نہایت سرگرم تھا۔ اِس کے علاوہ انڈونیشیا کی سرکاری فوج کےلئے بنجر ماسین میں بڑے مسلم مبلغ کی حیثیت سے مقرر کیا گیا تھا۔ سو، میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہمران امبری اپنے ہوش و حواس میں کبھی بھی مسلمان سے مسیحی نہیں ہو سکتا۔"
لیکن میرے پڑوسیوں نے اُسے یقین دِلایا کہ کئی سالوں سے ہم نے اُسے گاؤں کے چرچ میں باقاعدگی سے جاتے اور کرسمس کے تہوار پر کرسمس ٹری (Christmas Tree) سجاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ اُنہوں نے اُسے مجھ سے براہ راست وضاحت حاصل کرنے کےلئے کہا۔
سو میرا دوست جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہُوا، براہِ راست اُس نے مجھ سے سوال کیا کہ میرے مسیحی ہو جانے کی خبر کیا واقعی دُرست ہے؟ میں نے بغیر کسی شک و شبہ کے اُسے جواب دیا: "ہاں یہ دُرست ہے۔ میں اور میرے خاندان نے بپتسمہ لے لیا ہے۔"
یہ سُنتے ہی میرے اُس دوست کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اُسے انتہائی افسوس ہُوا اور ایک لمحے کےلئے حیرانی کے عالم میں کھڑا رہا۔ بنجرماسین لوٹ جانے کے بعد اُس نے دوسروں کو خصوصاً میرے قریبی دوستوں کو میرے مسیحی ہو جانے کی خبر دی۔
میرے ایک اَور قریبی دوست نے جو ایک مسلم صحافی تھا بنجر ماسین کے ایک اخبار ہاریان اوتاما (Harin Utama)میں اِس بارے میں خبر چھاپ دی۔
ایچ ارسیاد ماران(H.Arsyad Maran)کے قلم سے جلی حروف میں یہ شائع ہوا:"تحریک کی ایک ممتاز ہستی مسیحی ہو گئی ہے۔" اور خبر یہ دی کہ"وہ تیس کے عشرے کی محمدیہ تحریک کی ممتاز ہستی ہے جو کبھی اخبار'جہاد' کا چیف ایڈیٹر تھا۔"
جناب انتیماس نے یوں لکھا:"محمدیہ تحریک کی ایک ہستی کی مسیحی مذہب میں تبدیلی: انتہائی حیرت انگیز خبر۔"
ایک اَور صحافی ارتھم آرتھا (Arthum Artha) نے یہ توقع ظاہر کی کہ اِس خبر میں سچائی نہیں ہے اور ہمران امبری جو آزادی کا سورما ہے، اُس کے مذہبی عقیدے کے تعلق سے اب بھی بہت سے سوال ہیں۔
بنجرماسین کے مسلمانوں نے بھی تعصب بھرا رد عمل دِکھایا کہ:"مالی تنگی کسی کو بھی تبدیلیِ مذہب پر آمادہ کر سکتی ہے۔"
حتّٰی کہ مسلم یونیورسٹی آ ئی اے آئی این انتاسری (I. A. I. N. Antasari) نے بھی میرے مذہب کی تبدیلی پر ردِعمل ظا ہر کیا۔ اِسی اثناء میں بنجرماسین میں پی ایم ڈبلیو محمدیہ (P. M. W. Muhammadiyah) کے سیکریٹری نے تو اِس بات سے اِنکار ہی کرنے کی کوشش کی کہ میں کبھی محمدیہ تحریک کا ایک رُکن تھا، البتہ یہ ضرور مانا کہ میں آزادی کا ایک مسلم سورما تھا۔
میرے مذہب کی تبدیلی پر یہ تمام خبریں اخبارات میں اِس لئے شائع کی گئیں تا کہ مجھے شرمندہ کیا جائے اور میں واپس اِسلام کی طرف لوٹ آؤں۔ مگر اُن کا اِرادہ اور مرضی خُدا کی اِلٰہی مرضی کے بالکل بر عکس تھی اور خُدا نے اُنہیں اِس طرح استعمال کیا کہ میں اَور بھی سَر گرم مسیحی بن کر اپنے خُداوند یسوع مسیح کی اُلوہیت کی سچائی کی گواہی دینے کےلئے تیار ہو سکا۔ یوں تقریباً دو ماہ تک میرے مذہب کی تبدیلی پر اخبارات میں چرچا ہوتا رہا، یہ عوام میں زیرِ موضوع رہا اور یہ موضوع بنجرماسین میں ہاریان اوتاما اخبار کی اہم خبروں کی سُرخی بنا رہا۔ مجھے یہ بھی خبرملی کہ اِس وجہ سے بعض جگہوں پر قتل و غارت بھی ہوئی۔ میرے کچھ دوست جن کا خیال تھا کہ یہ خبریں مجھے بدنام کرنے کےلئے چھاپی گئی ہیں نامہ نگاروں پر حملے کےلئے تیار تھے۔ یہ سب کچھ دیکھ کرمیں نے جلد ہی ایک "کھلا خط" بنجرماسین کے اخبار ہاریان اوتاما میں چھپوایا جس میں اپنے مذہب کی تبدیلی کا کُھلے عام اعتراف کیا۔
ہاریان اوتاما کے قارئین کے نام ایک کھلا خط
قارئین حضرات السلام و علیکم!
میں اِس خط کے ذریعہ اِقرار کررہا ہوں کہ یہ بات سچّ ہے کہ میں پروٹسٹنٹ مسیحی دین اِختیار کر چکا ہوں اورمیری یہ تبدیلی 1964ء سے ہے۔
آپکے اخبار میں شائع ہونے والی خبر سنسنی خیز رہی کیونکہ اِس نے مجھے اِسلام کی عظیم ہستی اور آزادی کے ایک سورما کے طور پر بیان کیا ہے۔
میں اِس سارے ردِعمل اور داد کےلئے جو میرے دوستوں نے مجھے دی اُن کا شکرگزار ہوں۔ حالانکہ اب تک میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا اور نہ ہی یہ اعلان کیا ہے کہ میں اسلام کی کوئی عظیم ہستی اور آزادی کی تحریک کا سورما ہوں۔ اگر میں نے ماضی میں جنگ میں شرکت کی بھی، جیسا کہ میرے دوستوں نے لکھا ہے تو وہ سوائے دھرتی ماں کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے فرض کے علاوہ اَور کچھ نہ تھا۔ اِس وجہ سے یہ میرا اصول بن گیا ہے کہ اِس خدمت کے عِوض کوئی لقب نہیں چاہتا۔ میں نے تو صِرف اپنا فرض ادا کیا ہے۔
میں اپنے تمام دوستوں خاص طور پر ایچ ارسیاد ماران (میں نے آپ کے خط کو قبول نہیں کیا)، انتیماس اور ارتھم آرتھا کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے بارے میں لکھنا ضروری سمجھا۔ آپ سب کی تحریروں میں ایسی کوئی بات نہیں جس کا میں اِنکار کروں یا اپنا ردِعمل ظاہر کروں سِوائے اِس تصحیح کے کہ میں نے آزادی کے پہلے علمبردار کے لقب کےلئے کبھی بھی درخواست نہیں کی۔
ارتھم آرتھا کو میں نے "نوٹس آف فیتھ" (Notes of Faith) بھی بھیجے جو میرے پروٹسٹنٹ مسیحی مذہب کی بنیاد بھی بنی۔
خیر جو کچھ بھی ہو، دوست تو دوست ہی رہتے ہیں اور اچھی دوستی کبھی نہیں ٹوٹتی۔
آپ سب فکرمند افراد کا بہت شکر یہ۔
آپکا مُخلص
ہمران امبری
جکارتہ ، 6 مئی 1972ء
مسیحی زندگی میں سرگرم گواہی کا آغاز
اِس "کُھلے خط" کے شائع ہونے کے بعد دوستوں کی طرف سے بنجرماسین اور ہولوسنگھائی سے کئی خطوط موصول ہوئے جن میں تاسف کا اظہار تھا اور قرآنی آیات کے ساتھ نصیحت اور تنبیہ کی گئی تھی۔ کچھ خط ایسے تھے جن میں مجھ سے پوچھا گیاکہ وہ کون سے حالات تھے جنہوں نے مجھے تبدیلیءمذہب پر آمادہ کیا۔
یہ وہ ابتدائی وجوہات تھیں جنہوں نے مجھے آمادہ کیا کہ میں مسیحی گواہی کےلئے تیار ہو جاؤں۔ پہلے پہل تو ہر خط کے ذاتی جواب کےلئے میں ٹائپ رائٹر استعمال کرتا تھا۔ یہ خطوط ایمان کی وضاحت کرنے والے نوٹس میں ڈھلنا شروع ہو گئے۔ پھر جیسے جیسے اِن میں اضافہ ہُوا تو میں نے ایک مضمون پریس میں چھپوایا جِس کاعنوان تھا "خُدا، یسوع اور ُروح القُدس۔" اگلی اشاعت "مسیح اور خُدا کی وحدانیت کی بابت علمِ اِلٰہی" 1973ء میں مکمل ہوئی۔ نتیجتاً، سوالات اور ہمدردی کی شکل میں کئی خطوط موصول ہوئے اور کچھ ایسے بھی تھے جو بحث کے انداز میں سچائی جاننے کے کوشاں تھے۔
میرے مسیحی عقیدے کی مخالفت میں کئی رسالے جاوا میں چھاپے گئے۔ اُن مضامین کی اشاعت کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے لکھے جانے والے خطوط کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ خطوط انڈونیشیا کے تمام علاقوں، بنجرماسین سے اور مغربی جاوا، وسطی جاوا اور مشرقی جاوا کے مسلم علاقوں سے، سماٹرا (پالم بینگ، میڈان، پڈانگ، آچہ) سے بھی لکھے گئے۔ کچھ خطوط غیر ممالک سے بھی آئے جیسے مصر اور ملائیشیا۔
یہ خُدا کی راہنمائی تھی جس کی وجہ سے میں اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہا اور اُس کی گواہی دی۔
کچھ لوگوں سے خط و کتابت کا سلسلہ نصف سال تک جاری رہا۔ مسیحی دین سے متعلق کئی نکات پر خیالات کا تبادلہ ہوا۔ کچھ سوالات اور جوابات کو میں نے کتابی شکل دی اور سچائی کی دستاویز کے طور پر شائع کیا:
الف۔ میڈان سے قِبلت میگزین جکارتہ کے معاون مدیر اور مسلم صحافی ایچ ایم یوسف شعیب سےخط و کتابت۔
ب۔ سلاٹیجا سے اِسلامی مدرس سموڈی سے خط و کتابت۔
ج۔ جکارتہ کے سٹوڈی اسلام میگزین کے مدیر امام موسیٰ پروجوسیسوویو سے خط و کتابت۔
د۔ دارالکتب الاسلامیہ جکارتہ کے جناب ہادی واھیو نو سے خط و کتابت۔
ہ۔ قاہرہ، مصر کے ایک مسلم طالب علم علی یعقوب ماتوندانگ سے خط و کتابت۔
و۔ ڈنپاسار، بالی میں اِسلامی جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے واعظ اے حسن تاؤ سے خط و کتابت۔
ز۔ ازیف فہمی اور دیگر طلبا (سورابایا کے مسلم طلبا کا ایک گروہ) سے خط و کتابت۔
ح۔ کیماھی - بانڈونگ کی مسجد آگونگ (مرکزی مسجد) کے منتظم اعلیٰ، ایم۔ اے۔ فضلی سے خط وکتابت۔
1979ء تک میں نے انڈونیشیا کے تقریباً ہر حصے سے ہزاروں مسلمان بھائیوں کے خطوط کے جوابات دیئے۔ ہر روزآنے والے خطوط میری ہمت بڑھاتے اور اِس بات کازندہ ثبوت تھے کہ خط لکھنے والے سچائی کے متلاشی تھے، اورمیرے دئیے گئے جوابات سے اُنہیں تسلی ملتی تھی۔ خُدا کا شکر ہو! اُن میں چند ایسے بھی تھے جو شخصی طور پر مجھے ملنے کےلئے آئے۔
جب میں نے دیکھا کہ میری اِس مذہب کی تبدیلی نے بہت سے لوگوں کو تلاشِ حق کی جانب مائل کیا ہے تو میں نے ملاقاتیوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کےلئے ہر منگل جمعرات اور ہفتہ کو صبح سے شام تک کا وقت وقف کر دیا۔
میں خُدا کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اُس نے مجھے وسیلہ بنایا کہ خاص طورپر مسلم بھائیوں کو بائبل مقدّس کی صداقت اوریسوع مسیح کی اُلوہیت کے بارے میں بتا سکا تا کہ وہ مسیح کی بابت کامل طور پر سمجھ سکتے۔
سوالات واعتراضات کے جوابات دینے سے میں نے محسوس کیا کہ بائبل مقدّس اور یسوع مسیح کی اُلوہیت کے بارے میں تمام غلط فہمیوں اورغلط وضاحت کی سچائی کو واضح طور پر دکھا کر فوراً تصحیح کرنی چاہئے۔
بیرونی خدمت
1973ء سے فروری 1978ء تک مسیحی مذہب کی بابت سوالات کے جواب دیتے ہوئے میں اپنی شخصی گواہی اپنے میز سے خطوط کے ذریعے دیتا رہا۔ میں نے اُن خطوط کے جوابات کو سچائی کی دستاویز کے طور پر چھپوایا۔
لیکن فروری 1978ء میں میں نے دُعاکی: "اے خُدا، مہربانی سے اِس تحریک کو کوئی نیا میدان بخش کیونکہ میرا خط و کتابت کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔" اِس دُعا کا مجھے براہِ راست جواب مِلا کہ کل صبح مجھے اپنے گھر سے باہر آنا چاہئے اور وہاں سے مجھے نیا میدان ملے گا۔
اگلے روز صبح ہوتے ہی میں گھر سے نکِلا اور بالکل نہیں جانتا تھا کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ جب میں مرکزی سڑک پر آ گیا تو میں نے خُدا سے دُعا کی کہ جس راہ مجھے جانے کی ضرورت ہے وہ میرے قدموں کی راہنمائی فرمائے۔ رُوح کی ہدایت سے میں شمال کی جانب چلا، مجھے منزل کا علم تو نہیں تھا اور میں بغیر کوئی گاڑی یا بس لئے پیدل چلتا رہا۔ جب میں بائبل انسٹی ٹیوٹ آف انڈونیشیا کے دفتر کے سامنے پہنچا تو خُداوند نے مجھے دفتر میں داخل ہونے کو کہا۔ میں شک کی حالت میں تھا کیونکہ کسی کو جانتا نہ تھا۔ کسی وقت وہاں پادری بی پروبووینوتو تھے لیکن وہ سلاٹیجا میں بھیج دیئے گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب اگر میں اندر جاؤں تو کس سے بات کروں اور کیا کہوں؟ لیکن میرے دِل کی آواز یہی تھی کہ اندر جاؤ اور میں دفتر میں داخل ہو گیا۔
ایک دوست نے مجھے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا تو پہچان لیا اور فوراً ہی مُجھ سے مخاطب ہوا: "مِسٹر امبری! خُداکی حمد ہو، یہ کیسی راہنمائی ہے! دفتر میں کوئی آپ کو ملنا چاہتا ہے۔" جلد ہی ہم بات کرنے کے قابل تھے۔ بعدازاں، مجھے پادری ایم۔ کے۔ جاکراتمادجا سے ملاقات کا موقع مِلا جنہوں نے میرے بارے میں سُنا تھا اور مُجھ سے مِلنے کے خواہش مند تھے۔ اِس باہمی گفتگو سے مجھے بہت برکت ملی۔ وہ میری چند کتابیں خریدنا چاہتے تھے۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا یہ میرا نیا میدانِ عمل ہے اور پھر فیصلہ کیا کہ ایسا نہیں ہے۔ میں نے گھر واپس لوٹنا چاہا لیکن میری رُوح نے راہنمائی کی کہ میں شمال کی طرف چلتا جاؤں۔
میں پیدل چلتا رہا یہاں تک کہ کرامات وی کے سامنے آگیا۔ میری رُوح نے مجھے اندر جانے اور پادری ڈاکٹر ایس ایم۔ او۔ پورمز سے ملاقات کرنے کےلئے کہا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیسے پادری پورمز سے ملاقات کی جائے کیونکہ میں اُن سے اچھی طرح سے واقف نہ تھا اور نہ ہی اُن کے ادارے سے میرا کوئی تعلق تھا۔ ہم ایک دوسرے سے ملے تو تھے لیکن یہ کوئی تین سال پہلے کی بات تھی۔
لیکن جب خُدا کے رُوح نے مجھ سے بات کی تو میں کرامات وی کی طرف مڑ گیا۔ وہاں داخل ہونے سے پہلے میں بے یقینی کا شکار تھا۔ پہلے یہ گھر خُدا کے خادموں سے بھرا ہوتا تھا لیکن اب بڑی خاموشی تھی۔ میں نے سوچا، شاید پادری پورمز یہاں سے چلے گئے ہیں۔ تاہم، پادری پورمز نے مجھے دیکھ لیا اور استقبال کےلئے آگے بڑھتے ہوئے بولے "خوش آمدید، امبری صاحب! کل ہی سے میں آپ کے بارے میں سوچ رہا تھا اور آپ سے ملنا چاہتا تھا کیونکہ کچھ باتیں آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔ میں آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ ہم مل کر خُداوند کی خدمت کےلئے آگے بڑھیں گے۔" مجھے بے حد تعجب ہوا کہ پادری پورمز نے مجھے کیسے یاد رکھا جبکہ ہم ایک دُوسرے کو زیادہ نہ جانتے تھے؟ لیکن مجھے ایک دن پہلے کی اپنی دُعا یاد آئی۔ خُدا کے رُوح نے میری راہنمائی کی کہ میں یہاں خدمت کے نئے میدان میں داخل ہو سکا۔
اُس ساری گفتگو سے مجھے تازگی ملی۔ پادری پورمز مجھ سے توقع کر رہے تھے کہ میں اُن کے ساتھ مل کر خُدا کی خدمت کروں۔ اُنہیں میری صحت کے بارے میں بھی فکر مند ی تھی جو اُس وقت اِتنی اچھی نہ تھی۔
آخر میں پادری پورمز نے کہا کہ میں اُن کا خط ایم ۔کے۔ سیناگا، ڈائریکٹر بومی اسیح، گلی نمبر4 سولو میں لے کر جاؤں اور اُنہیں دوں۔ میں یہ خط لے کر گیا اور ذاتی طور پر اُن کے حوالے کیا۔ وہاں سے مجھے جمعہ کی صبح ہوٹل انڈونیشیا میں بھیجا گیا کیونکہ اُن کے بقول کئی واعظ میری بابت جاننا چاہتے تھے۔
جمعہ کی صبح 24 فروری 1978ء کو میں ہوٹل انڈونیشیا پہنچا جہاں جکارتہ کے مسیحی تاجروں کے ایک گروپ کی طرف سے جو "C.B.M.C." کہلاتا تھا، ایک دعائیہ مجلس کا انعقاد کیا گیا تھا۔
دورانِ تعارف پتہ چلا کہ بہت سے لوگ میرے نام سے پہلے ہی سے واقف تھے اور مجھے ذاتی طور پر ملنا چاہتے تھے۔ اُس وقت کے بعد مجھے کئی اَور دعائیہ مجالس میں خدمت کرنے کا موقع مِلا جس کا نتیجہ بعد میں کلیسیائی عبادات میں خدمت کی صورت میں نکلا۔ مجھے جکارتہ اور بانڈونگ کے کئی گرجوں میں اپنی شخصی گواہی دینے کا موقع ملا۔ اب تک میں نے جکارتہ سے باہر بھی خدمت کی ہے، خاص کر جنوبی کالیمنتان (بنجرماسین اور امنتائی)، وسطی کالیمنتان (پالانگ کارایا)، مشرقی جاوا (سورابایا اور ملانگ)، بانڈونگ وغیرہ۔
یہ خدمت کےلئے ایک نیا میدان تھا۔ میں نے وفاداری سے اِسے جاری رکھا اورمختلف طرح کی میٹنگز کے ذریعے مسیح کی خوشخبری دوسروں تک پہنچائی۔
گو، اب میری خدمت کا میدان گھر کے باہر کی دُنیا میں ہے تو بھی خط و کتابت کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔ خُداکی حمد ہو! یہ خطوط میرے لئے برکت کا باعث ہیں اور میں خوشی سے بہت سے متلاشیوں کی خدمت کر سکتا ہوں۔
مسیحی خدمات میں اضافہ
ایک تحریری دعوت نامہ میں مجھے کہا گیا کہ 13مئی 1979ء کو مسجد دارالسلام، شارع بٹنگ ہاری، جکارتہ میں مسلمان نوجوانوں کے ایک گروہ کے سامنے جنہوں نے لیمباگا پینگاجیان اسلام الفرقان میں شمولیت کی تھی ایک لیکچر"اُلوہیت مسیح" پر دوں۔ اِس میں بڑے مناظر ڈاکٹر ابو نیامین روھام اور ڈاکٹر سانی اردی تھے اورحاضرین کی تعداد تقریباً سو کے قریب تھی جس میں اسلامی طلبا اور اساتذہ سب ہی شامل تھے۔ صرف مَیں ہی جوابات دینے کےلئے آیا تھا۔ اختتام اچھا رہا اور یہ ملاقات دوستانہ مصافحہ پر ختم ہوئی۔
22 جولائی 1979ء کو میرے اور مجلس علما (مسلم ماہرین علم الٰہیات کی کونسل) کے کئی اسلامی قائدین کے درمیان پھر لیکچر کا سلسلہ ہُوا۔ بحث کا موضوع "خُدائے قادرِ مطلق - تثلیث میں ایک؟" تھا۔ مناظرہ کرنے والے افراد کی فہرست میں دس اشخاص تھے جِن میں پروفیسر ڈاکٹر ایچ۔ ایم۔ رسیدی، ڈاکٹر ابو نیامین روھام، ڈاکٹرٹاگور، ڈاکٹر اسمونی بھی شامل تھے۔ صدرِ مجلس کے فرائض ڈاکٹر مارمنسے ارحمان نے انجام دئیے۔ حاضرین کی تعداد 150 کے قریب تھی جِن میں مسلم قائدین، اساتذہ اور کئی دانشمند افراد شامل تھے۔
دو ماہ کے اندر اندر 15 اگست کے بعد میں نے جکارتہ سے باہر مشرقی اور مغربی جاوا کے کئی علاقوں کا دورہ کیا۔ اُسی سال یکم ستمبر کو گاسپل مشن کی راہنمائی کرتے ہوئے میں نے میناڈو اوجونگ پانڈانگ، تانہ توراجا، پالوپو، بالیک پاپان، بنجرماسین اور کپواس کا دورہ کیا۔
نجات ہر فرد کےلئے سب سے اہم ترین مقصد ہے جِس میں اپنے لئے، اپنے خاندان کےلئے، اپنی زمین کےلئے نجات اور کئی اَور طرح کی مخلصی شامل ہے۔ یہ تمام مقاصد اُس کی زندگی کی خوشی میں اہم ترین مقاصد بن جاتے ہیں۔
ایک خُدا پرست آدمی کےلئے نجات اِس دنیاوی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اِس میں اُس کی رُوح کی گناہوں کے اثر سے نجات بھی شامل ہے۔ اُس کی رُوحانی نجات کا محبت سے قریبی تعلق ہے جو آسمانی زندگی کی بنیاد بھی ہے۔
فرض کریں کہ اگر آدم اور حوا باغِ عدن میں گناہ میں نہ گرتے تو اِنسان اب بھی ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہتا۔ لیکن آدم اور حوا، جب اُنہوں نے خُدا کے حکم کی نافرمانی کی، اپنے گناہ کے باعث ابدی زندگی سے نکال دیئے گئے اور یوں تمام اِنسانی نسل بھی گناہ گار ٹھہری اور ایک ایسی حالت میں داخل ہو گئی جہاں رُوحانی اور جسمانی موت دونوں کا سامنا ہے۔
یہ فنا و برباد ہونے والی زندگی جس میں رُوحانی اور جسمانی موت ہے آدم اور حوا کے گناہ کا نتیجہ ہے جو ہمیں ورثہ میں ملا۔ یہ موروثی گناہ ہراِنسان کے اندر ہے جس میں میں اور آپ بھی شامل ہیں۔
لیکن رحمدل خُدا ہمیں مُردہ حالت میں اپنے آپ سے جُدا نہیں رہنے دے گا۔ خُدا نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی دینے کا وعدہ کیا ہے جو اُس زندگی سے بھی بہت بہتر ہو گی جب آدم اور حوا کی تخلیق ہوئی تھی۔
پہلاقدم
خُدا نبیوں کی معرفت لوگوں سے ہم کلام ہوا کہ ہم توبہ کریں، اُس کی طرف رجوع لائیں، اُس کی فرمانبرداری کریں اور اُس کے احکام کی پیروی کریں جو توریت اور نبیوں کی معرفت دیئے گئے (عبرانیوں 1:1)۔
دُوسرا قدم
خُدا کا کلام یسوع مسیح میں مجسم ہوا جو 'زندگی کا کلام' ہے اور جسے باپ کا اِکلوتا بیٹا کہا گیا ہے (عبرانیوں 1:1; یوحنا 14,1:1; 1۔یوحنا 1:1)۔
تیسراقدم
خُدا اپنے پاک رُوح کی بدولت اِنسان کی راہنمائی کرتا اور مدد فراہم کرتا ہے تا کہ وہ بائبل مقدّس میں دئیے گئے اِلٰہی احکام پر عمل کر سکے۔ اب جو اِلٰہی قوانین اور خُدا کے زبردست وعدوں کو قبول کرتے ہیں اُنہیں وہ ابدی زندگی عطا کرتا ہے۔
یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے:
"کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔" (یوحنا 16:3)
"جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لائے وہ مُجرم ٹھہرایاجائے گا۔" (مرقس 16:16)
یسوع نے فرمایا:
"میں اِس لئے آیا کہ وہ زندگی پائیں اور کثرت سے پائیں۔" (یوحنا 10:10)
"دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔" (متی 20:28)
فرشتوں نے یسوع کے شاگردوں سے کہا:
"اے گلیلی مردو! تُم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اِسی طرح پھر آئے گا جس طرح تُم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔" (اعمال 11:1)
یسوع نے خود اِس بارے میں بتایا:
"اُس وقت لوگ ابنِ آدم کو قدرت اور بڑے جلال کے ساتھ بادل میں آتے دیکھیں گے۔" (لوقا 27:21)
یسوع مسیح کی دوسری آمد کا ذکر صرف بائبل مقدّس میں بیان نہیں کیا گیا بلکہ اِس سچائی کا اظہار احادیث نبوی سے بھی ہوتا ہے جہاں ہم راست منصف کی حیثیت سے یسوع کی دوسری آمد کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔
تین ایسے وعدے ہیں جِن کی خُدا کے فرزندوں کےلئے ضمانت دی گئی ہے:
الف۔ آسمان پر ہمیشہ کی زندگی آدم و حوا کی ابتدائی زندگی سے بھی کہیں شاندار اور جلالی ہو گی۔ ہمیشہ کی زندگی اور آسمانی نجا ت حاصل کرنے کےلئے یسوع مسیح پرایمان لانے، اُس کے وفادار شاگرد بننے اور پھر بپتسمہ پانے کی ضرورت ہے۔
ب۔ بھرپور زندگی جس میں روحانی و جسمانی برکات شامل ہیں۔ مسیح کے پیروکاروں کو کسی چیز کی کمی نہ ہو گی بلکہ ہمیشہ اُس کی کثرت کی معموری کا تجربہ کریں گے۔
ج۔ خُدا کا پاک رُوح ہر اُس فرد میں ہمیشہ ہمیشہ بسیرا کرے گا جو مسیح کا اقرار کرتااوراُس کی پیروی وفاداری سے کرتا ہے۔
اے عزیز قاری! اِس وجہ سے میں آپ کو یہ مشور ہ دیتا ہوں:
اب موقع ہے کہ آپ فیصلہ کیجئے۔ وعدہ کی گئی اور تیار شُدہ نجات کو قبول کرنے کا فیصلہ کریں۔ یسوع مسیح کو قبول کریں کہ آپ کے دل پر حکمرانی کرے، یوں آپ کی نئی زندگی اُس میں محفوظ ہو گی اور آپ اُس میں آرام و چین پائیں گے۔ تب ہم ابدیت میں خُداکے ساتھ سکونت کریں گے۔
اِس موقع کو نظر انداز نہ کریں۔ کل تک کا اِنتظار نہ کریں۔ آج ہی فیصلہ کیجئے گا، معلوم نہیں کہ کب توبہ کا دروازہ بند ہو جائے اور کہیں آپ کو ابدی ندامت اور سزا کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سچے دل سے مسیح کے پاس آئیں اور اُسے اپنے خُداوند اور شخصی نجات دہندہ کے طور پرقبول کریں تا کہ اُس زندگی بخش دروازے میں داخل ہو جائیں جو ابدی زندگی میں لے جاتا ہے۔
"اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جِس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔" (اعمال 12:4)
یسوع مسیح میں آپ کا خیرخواہ
ہمران امبری
حیاتِ جاودانی کی اِلٰہی پیشکش کے سوالات حل کیجئے۔ عزیز قاری، اگر آپ نے اِس سرگزشت کا دھیان سے مطالعہ کیا ہے تو آپ ذیل میں دیئے گئے سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔
قرآن کی وہ کلیدی آیت لکھیں جو ظاہر کرتی ہے کہ اُس وقت توریت اور انجیل وہی تھیں جو اب بائبل مقدّس میں موجود ہیں۔
وہ کونسے چار قرآنی حوالہ جات ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں کہ توریت اور انجیل خُدا کی مرضی کے مطابق سچائی ہیں؟
موسیٰ اورمسیح کے درمیان کون سی لاثانی اور غیر معمولی یکسانیت پائی جاتی ہے؟
وہ کون سے خاص نشان ہیں جو دکھاتے ہیں کہ استثنا18 باب کی بے نظیر پیشینگوئی اشارہ کرتی ہے کہ یسوع مسیح خُدا کا مجسم کلام ہے؟
جب ہمران امبری نے جان لیا کہ بائبل مقدّس خُدا کا سچا کلام ہے تو تب بھی وہ مسیح کو قبول کرنے کےلئے تیارنہ تھا۔ کیوں؟
کیوں وہ مکمل طور پر مسیحی واعظین اور مبشروں کے جوابات اور وضاحتیں قبول نہ کر سکا تھا؟
ہمران امبری نے اُن تین رُکاوٹوں پر کیسے قابو پایا جو اُس کی راہ میں حا ئل تھیں؟
خُدانے اِن رُکاوٹوں کے دُور کرنے میں ہمران امبری کی کیسے مدد کی؟
یسوع کو "خُداوند" کیوں کہتے ہیں؟
خُدا کی وحدانیت کی بابت ہمران امبری کا عقیدہ مسیحی ہو جانے کے بعد بھی کیوں نہ بدلے جانے کی ضرورت تھی؟
خُدا کی وحدانیت کے عقیدے کو کیسے مسیحی تعلیم اعلیٰ درجہ دیتی ہے؟
ایک سے زائد خُداؤں کو ماننے (شرک) کا کیا مطلب ہے؟
کیوں مسیحیوں کو ایک سے زائد خداؤں کو ماننے والے نہیں گردانا جا سکتا؟
خُدا کی بابت تثلیث کی حقیقت کیوں مسلمانوں کےلئے ایک رُکاوٹ ہے؟
مسیحی نکتہءنظر سے پاک تثلیث میں یگانگت کو واضح کریں۔
ہم کیسے نشاندہی کر سکتے ہیں کہ یسوع مسیح حقیقت میں صلیب پر مصلوب ہوئے تھے؟
ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یسوع مُردوں میں سے زندہ ہوئے؟
وہ کون سی مختلف اموات ہیں جِن سے ہم چھٹکارا پائیں گے؟
یسوع کی صلیب کے معنٰی کی وضاحت کریں۔
یسعیاہ 4:53-12 کو پانچ مرتبہ لکھیں اور زبانی یاد کریں۔
جو تلوار کھینچتے ہیں اُن سب کے ساتھ کیا ہو گا؟
کیا قرآن یسوع کے صعودِ آسمانی پر اعتراض کرتا ہے؟
یسوع جب اِس دنیا میں دوبارہ آئے گا تو اُس وقت کیا کرے گا؟
بائبل مقدّس کو جُھٹلانے کی خاطر کس طرح قرآن کی بعض آیات کا غلط استعمال کیا گیا ہے؟
کیا قرآن میں ایسی کوئی بھی ایک آیت ہے جو صاف طور پر بیان کرتی ہو کہ بائبل مقدّس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی گئی ہے؟
یسوع کی پیروی میں کون سی مشکلات اور دُکھوں کا سامنا ہو سکتا ہے؟
جب ہمران امبری اور اُن کے گھرانے نے اپنی اپنی زندگی یسوع کے سپُرد کی تو اُن میں کون سی تبدیلیاں آئیں؟
وہ کونسے چار وعدے ہیں جِن کا خدا کے فرزندوں کی زندگی میں پُورا ہونا یقینی ہے؟
یوحنا 16:3 اور اعمال 12:4 کو پانچ مرتبہ لکھیں اور زبانی یاد کریں۔
کیا آپ نے زندہ مسیح کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟
"اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خُدای واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔" (یوحنا 3:17)
The Good Way
P.O.Box 66
CH - 8486
Rikon
Switzerland