جویائے حقّ

جویائے حقّ

. اسكندر جديد


List of Tables

1.
2.
3.
4.
5.

Bibliography

جویائے حقّ. اسكندر جديد. . 2024. English title: For the Sake of Truth. German title: Um der Wahrheit willen.

تمہید

مَیں توفیق کو بچپن سے جانتا ہوں۔ وہ جوان ایک نامور خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جِس کا ایک تابناک ماضی تھا اور دولت و ثروت کی کثرت تھی۔ مگر اِس عظیم خاندان میں جب توفیق نے ہوش سنبھالا تو سب کُچھ بکھر چکا تھا۔ زندگی کے حالات نے اُسے جوانی میں ہی مایوسی میں دھکیل دیا۔ آزمایشوں اور پریشانیوں کے باعث اُس کے آنسو بہت تھے جِن کے باعث وہ دیرپا خوشی سے محروم تھا۔ پھر ایک دِن وہ اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔

اُس کے یوں چلے جانے کی خبر نے طرح طرح کے قِصّوں کو جنم دیا۔ گاؤں کے کُچھ لوگوں نے کہا کہ وہ جھگڑالو ماں باپ سے تنگ آ گیا تھا، اِس لئے اُس کا جانا فطری تھا۔ بعض نے دعویٰ کیا کہ کسی لڑکی کی بیوفائی سے دلگیر ہو کر اُس نے ایسا کیا تھا۔ کسی کی رائے تھی کہ چند مذہبی کتابیں پڑھنے سے اُس کے عقائد متاثر ہو گئے اور اُس نے اپنے آبا ؤ اجداد کے عقیدے کو چھوڑ دیا، نتیجتاً اُسے چھپنا پڑا۔ بعض لوگ یہ کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ وہ تو پاگل تھا۔

جہاں تک میرا تعلق ہے، مَیں خاموش تھا کیونکہ مُجھے اِس نوجوان میں سوچ و فکر کی سادگی پسند تھی اور مَیں سچّائی کےلئے اُس کی تگ و دو کی بڑی قدر کرتا تھا۔ مَیں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو گمان پر چل پڑتے ہیں۔ میری رائے میں کسی بھی فرد کی رُوح کے گہرے اسرار تک گمان و اندازوں سے رسائی نہیں ہوتی، اور مجھے یہ تمنّا رہی کہ کبھی ملاقات ہو گی تو ضرور حال دریافت کروں گا۔

سالہا سال گزر گئے۔ اُس کے بارے میں بہتان پر مبنی خبریں مُجھ تک پہنچیں، لیکن مَیں نے اُن کو لکھنے سے اپنے قلم کو روکے رکھا تا کہ وہ جھوٹ کا زہر نہ پھیلے جو گاؤں والے ہر واقعے میں گھولتے تھے۔ ایک دِن مُجھے ڈاک کے ذریعے توفیق کا ایک خط ملا، جِس میں اُس نے مُجھے ایک مقررہ وقت اور جگہ پر ملاقات کےلئے لبنان آنے کی دعوت دی۔ مَیں اِس دعوت پر بہت خوش تھا۔ اِسی کا تو مُجھے عرصہ سے انتظار تھا، اِس لئے نہیں کہ مَیں اُس کے ساتھ ہمدردی رکھتا تھا، بلکہ اِس لئے کہ مَیں اُس کے گرد چھپے رازوں کو جاننا چاہتا تھا۔

ملاقات کے وقت مَیں نے اپنے دوست کو صحت مند پایا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اُس کے چہرے کی لکیریں گہری ہو چلی تھیں جنہوں نے اُس کا وقار دوبالا کر دیا تھا۔ اُس کی آنکھوں کی چمک اُس میں موجود اطمینان سے پُر باطنی خوشی کو عیاں کر رہی تھی۔

مَیں نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا، اُس کی تابناک مسکراہٹ کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی جِس میں اُس کا وقار نمایاں تھا اور یہ سب برسوں تک اُس کے بارے میں کہی جانے والی تہمت آمیز باتوں کے بالکل برعکس تھا۔

آخر میں نے اُس سے پوچھا، "کیا حال ہے؟ کیسے رہے؟ وہ تمہارے چہرے کا غصہ اور درشتگی کہاں گئی؟ تمہاری جوانی کی اُداسی کا کیا ہُوا؟"

اُس نے مسکرا کر جواب دیا: "میرے دوست، یہی سب بتانے کےلئے تو تم کو یہاں آنے کی دعوت دی ہے۔ بیس برس سے مَیں گھر سے نکلنے کی وجوہات میں الجھا ہُوا ہوں۔ مَیں نے ہر طرف سے ملنے والے طعنوں کو صبر سے برداشت کیا ہے اور اپنے دوستوں کے گھر میں لگنے والے زخموں سے میری رُوح بہت گھایل ہوئی۔ اِس تکلیف میں تسلی کا واحد ذریعہ میرے دِل میں موجود وہ زندہ اُمّید تھی جو چند کتابوں کے پڑھنے کے نتیجے میں مُجھ میں پیدا ہوئی تھی۔ میرے دوست، اَب وقت آ گیا ہے کہ اپنی دبی ہوئی پکار سب کو سُناؤں۔ لیکن میری کہانی مناسب وقت پر ظاہر کرنے تک اپنے تک محدود رکھنا۔ اور پھر میری سرگزشت کو شائع کر دینا، لیکن احتیاط ملحوظ خاطر رہے کہ کچھ ایسا نہ لکھ دینا جس سے میری آزادی رائے کے ساتھ ناانصافی ہو اور سچائی کی خاطر جدوجہد کرنے کا میرا جوش کم معلوم ہو۔"

چند دِن مَیں اپنے دوست کے ساتھ رہا، اور اُس کی سرگزشت سُنتا اور پوچھتا رہا۔ وداع کے بوسہ کے بعد اُس نے ایک پلندہ میرے حوالہ یہ کہہ کر کیا کہ "میرا بھائی حسّان آخر تک میرا وفادار رہا۔ اِس میں تمہیں وہ ساری باتیں اور خط و کتابت اور بحثیں ملیں گی جو ہم دونوں کے درمیان ابدی زندگی کی راہ کی بابت ہوتی رہیں۔" چند لمحات کی خاموشی کے بعد اُس نے اپنی بات جاری رکھی "مُجھے اُمّید ہے کہ اِن خطوط کے مندرجات بہت سے اعتراضات کا جواب ہوں گے اور غیبت گو لوگوں کی زبان کو بند کر دیں گے۔"

اِس ملاقات کو ہوئے دس برس بیت چکے ہیں جِس نے مُجھ پر اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مَیں جب بھی اکیلا ہوتا ہوں، مُجھے اپنے ذہن میں توفیق کے آخری الفاظ کی بازگشت سُنائی دیتی ہے۔

ایک دِن مُجھے اخبار کے ذریعہ توفیق کی کچھ خبر معلوم ہوئی، جِس نے توفیق کے میرے سپرد کئے گئے خطوط کی یاد تازہ کر دی۔ مُجھے احساس ہوا کہ اب توفیق کی سرگزشت شائع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اَب مُجھے یہ بیان اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔

اسكندر

حِصّہ اوّل: توفیق کی یادداشتوں کا خلاصہ

1۔ دعوت اور چناؤ

"اَے جزِیرو میری سُنو! اَے اُمّتو جو دُور ہو کان لگاؤ! خُداوند نے مُجھے رَحِم ہی سے بُلایا۔ بطنِ مادر ہی سے اُس نے میرے نام کا ذِکر کیا۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 49: 11)

بحیرہ روم کے نیلگوں پانیوں کے متوازی ایک پہاڑی سلسلہ موجود ہے جو شمال میں طوروس سے لے کر جنوب میں عکار تک پھیلا ہُوا ہے۔ اِس کی ایک سرسبز پہاڑی کی پیشانی پر زرخیز زمین کے بیچوں بیچ ایک مکان تھا جِس میں نہ کوئی سائبان تھا اور نہ کوئی بالکونی۔ اگر وہ پتھروں سے بنا ہُوا نہ ہوتا تو اِردگرد کی جھونپڑیوں سے کوئی بھی امتیاز نہ کر سکتا کہ وہ قبیلہ کے ایک سردار کا گھر ہے۔ اِسی گھر میں 1911ء میں میری پیدایش ہوئی۔

میرا نام توفیق رکھا گیا۔ گو میرے جنم پر بڑی دھوم دھام مچی، لیکن مَیں نے بچپن میں کوئی خوش بختی نہ دیکھی۔ میرے گھر میں لڑائی جھگڑا رہتا جِس نے گھر کا چین چھین رکھا تھا۔

میرے والد کی پہلے ہی تین بیویاں تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ایک طرح کی جنگ بندی کر کے ایک ہی چھت تلے اکٹھے رہنا سیکھ لیا تھا۔ تاہم، میرے والد کی چوتھی بیوی (میری ماں) کی آمد سے سب کو دھچکا لگا، جِس نے فضا میں کشیدگی اَور بڑھا دی اور نفرتیں اور غصہ جاگ اُٹھا، اور جھگڑا رہنے لگا۔

یہ سب کچھ ہوتا رہا اور مَیں چھ برس کا ہو گیا۔ میری ننھی عقل میں یہ چیزیں نہ سما سکیں، اور نہ ہی مَیں سمجھ سکا کہ آخر میری والدہ کیوں دوری پیدا کرتی رہتی ہیں اور مُجھے میرے دوسرے بھائیوں بہنوں سے کیوں دُور رکھنا چاہتی ہیں۔ میری آنکھیں اُس انسانی المیے کا برابر مشاہدہ کرتی رہیں جو ایسے گھرانے کے سٹیج پر کھیلا جا رہا تھا جو دشمنی اور حقارت کے جذبات سے بھرا ہُوا تھا۔

مُجھے ایک خاص صبح کی تلخی یاد ہے، جب میرے والد کی غیر موجودگی میں، مُجھے صبح سویرے بستر سے کھینچ کر اُٹھایا گیا، جلدی سے کپڑے پہنائے گئے اور نیند کے غلبے کے دوران مُجھے گھر سے لے جایا گیا۔ جب مَیں جاگا تو خود کو نانا کے گھر میں پایا جہاں میری دونوں بہنوں کو ایک گھنٹہ پہلے بھیج دیا گیا تھا۔ وہاں مَیں نے اپنی والدہ کو اپنے خاندان کے سامنے یہ کہتے سُنا کہ وہ شوہر کا گھر چھوڑ چکی ہیں اور اب مستقل یہیں رہیں گی۔

جونہی میرے والد واپس لوٹے، اُنہوں نے والدہ کو واپس لے جانے کی بڑی کوشش کی، لیکن وہ کسی بھی قسم کے تصفیے سے انکاری تھیں۔ آخرکار والد ناکام ہوئے اور کُچھ اراضی والدہ کو دے دی گئی تا کہ اُس سے حاصل آمدنی سے وہ اپنے بچوں کی اچھی طرح پرورش کر سکیں۔

اگرچہ میرے والد نے اُن کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کیا، لیکن وہ ہمیشہ اُن کی طرف بے رُخی دکھاتی رہیں۔ وہ اُنہیں کسی بات حتیٰ کہ میری پرورش کے معاملے میں بھی جواب نہیں دینا چاہتی تھیں۔ حسد کے باعث وہ معقولیت کھو بیٹھی تھیں۔

اگرچہ میرے دِل میں اپنی والدہ کےلئے احترام موجود ہے، مگر مَیں یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ مُجھے اچھی پرورش فراہم کرنے میں ناکام رہیں۔ وہ مُجھ سے قربانی کی حد تک پیار کرتی تھیں، لیکن مُجھے اُن کے منفی رویے، تلخی اور سخت غصہ کو برداشت کرنا پڑا۔ اِن رویوں نے اُنہیں ویسی ماں بننے سے روکے رکھے جیسا اُنہیں ہونا چاہئے تھا۔ مَیں اُن کے رویہ کی کسی حد تک توجیہہ پیش کر سکتا ہوں، وہ خود اِسی قسم کے تناؤ والے ماحول کی پیداوار تھیں جہاں سوتوں کا ہجوم تھا۔ مشرقی سماج میں بہت سے خاندانوں کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہے۔

میری والدہ کی شخصیت اپنی اولاد سے محبّت کرنے اور اپنے شوہر کی دوسری بیویوں سے نفرت کرنے میں منقسم تھی۔ یوں میرا بچپن متضاد جذبات کے ماحول میں گزرا اور استحکام مُجھ سے کوسوں دُور تھا۔ مَیں جِس ماحول میں پروان چڑھا، اُس کا مُجھ پر گہرا اثر پڑا تھا، جِس کے نتیجہ میں میرے اندر مضطرب جذبات نے جنم لیا، جنہوں نے مُجھے اپنے سوتیلے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ بھائی چارے کا بندھن قائم رکھنے سے روکا۔ وہ خود بھی مُجھ سے بہتر نہیں تھے۔ اگر خُدا کی حیرت انگیز محبّت مُجھ پر ظاہر نہ ہوئی ہوتی اور مُجھے نجات دہندہ کی پہچان کےلئے تیار نہ کیا ہوتا تو یقیناً مَیں آدمیوں میں بدترین ہوتا۔

میرے والد مُجھ سے بہت پیار کرتے تھے، اور میری پرورش اپنی نگرانی میں کرنا چاہتے تھے۔ اُن کی دِلی خواہش تھی کہ مَیں اُن کے ساتھ رہوں۔ میرے لئے اپنی محبّت کی وجہ سے غالباً اُنہوں نے میری والدہ کی نافرمانی کے باوجود اُنہیں اپنی پناہ دے رکھی تھی۔

ایک دِن میرے والد مُجھے شہر جبلہ لائے جہاں اُن کا ایک بڑا گھر اور دفتر تھا جہاں وہ قبیلہ کے سردار ہونے کے باعث ہمارے علاقے کے لوگوں کے جھگڑوں اور معاملات کا فیصلہ کرتے تھے۔ لیکن میری ماں کی ایک سوتن بھی اُسی چھت کے نیچے رہتی تھیں جو میری والدہ کو بھڑکانے کےلئے کافی تھا۔ اُنہوں نے مُجھے خطرہ میں دیکھا اور فوراً اپنے پاس گاؤں میں لوٹا دینے کی ضد کی۔ مَیں نے اِس گاؤں میں اپنی زندگی کے پانچ برس گزارے، پڑھنا لکھنا سیکھا۔ جب ہمارے گاؤں کے نزدیک ایک اسکول کھلا تو میری والدہ نے مُجھے وہاں ڈال دیا۔ وہاں مَیں نے مزید پانچ برس گزارے، اور شیخ احمد اور علی أفندي سے جو کُچھ ممکن تھا سیکھا۔

جب مَیں نے سن بلوغ میں قدم رکھا تو مُجھے اپنے والدین کی حماقت سمجھ میں آئی۔ یہ میرے الجھے ہوئے جذبات اور احساسات کے حل کی جانب ایک آغاز تھا۔ مُجھے راہنمائی کی اشد ضرورت تھی، اور میری ضرورت پکار رہی تھی کہ کوئی میری راہنمائی کرے اور مُجھے راستہ دکھائے۔

فطری طور پر میرے والد میری راہنمائی کےلئے سب سے موزوں شخص تھے کیونکہ وہ مُجھ سے محبّت کرتے تھے۔ لیکن میرے والد اپنی نئی بیوی کے بچوں میں اتنے مصروف تھے کہ یوں لگتا تھا کہ اُن کے پاس میرے لئے کوئی وقت نہیں۔ ایسی صورتحال میں میرے بڑے بھائیوں کو ایسی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے تھے، لیکن وہ بھی اِس کےلئے تیار نہ تھے۔ مَیں بڑے بھائیوں کو تو چند سالوں سے پہلے جانتا بھی نہ تھا کیونکہ وہ اکثر پردیس اور سیر و شکار میں وقت گزارتے اور اِس طرح گھر کے ماحول سے دُور رہتے۔

ایسے ماحول میں جو محبّت اور ہم آہنگی سے خالی تھا مُجھے خود اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا تھا۔ اگرچہ مُجھے کوئی واضح اندازہ نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے، لیکن مُجھے شدّت سے احساس تھا کہ سیکنڈری اسکول میں بلا کسی تاخیر کے داخلہ ہو جائے۔

شہروں میں سیکنڈری اسکولوں کے کھلنے کی خبریں یکے بعد دیگرے میرے کانوں تک پہنچیں جِس نے میرے اندر اُن میں سے کسی ایک میں داخل ہونے کی خواہش کو ہوا دی اور یہ خواہش میری عزیز ترین خواہش بن گئی، چنانچہ مَیں اِس خواہش کی تکمیل کےلئے اپنے والد کے پاس گیا، اور اپنے شدید شوق کا اظہار کرنے کےلئے کتنے آنسو بہائے اور درخواست کی کہ داخلہ دِلوا دیں۔ شہر لاذقیہ کے اسکول میں داخلہ ممکن تھا، والدہ بھی راضی تھی کیونکہ وہاں اُن کی کوئی سوتن نہیں تھی۔

داخلہ ملتے ہی مَیں نے دِل لگا کر محنت و کوشش کی، اور اپنی ذہانت کی بناء پر تین برس میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ اَب سمجھ اور ملاحظہ کی قوت بڑھ چکی تھی جِس نے مُجھ میں سماجی نعمتوں کی کمی کو جلد پورا کرنے میں مدد کی۔

سیکنڈری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران میری اقامت کا انتظام میرے والد نے ایک مسیحی بیوہ خاتون کے ہاں کر دیا جِسے وہ قیام و طعام کا خرچ دیتے تھے۔ اُس شریف خاتون نے مُجھے ماں کی شفقت دی، اور مُجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ آدابِ معاشرت کا ابتدائی سبق مَیں نے اُنہی سے لیا۔

مَیں نے اُس عظیم گھر میں دیکھا کہ کیسے صابر، مہربان اور معاف کرنے والی محبّت خاندان کے افراد میں اطمینان لے کر آتی ہے۔ اُن کے بیٹوں نے لطف و کرم دکھایا جِس سے میرا غرور جاتا رہا، اور مُجھے اپنے کھردرے پن اور خود غرضی سے نجات ملی۔ اِس سے مُجھے اپنے مجموعی رویے کا از سرِ نو جائزہ لینے کا موقع ملا۔ مَیں نے اِس خاندان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے سادہ سے حلقے میں مہمان نوازی اور قبولیت پائی، اور جو عادات مَیں نے سیکھیں اُنہوں نے میری زندگی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں مدد فراہم کی۔ نک چڑھے اور گھمنڈی شرفا کی اولادوں کے سائے سے دُور یہیں محبّت و صداقت کے دوستی کے رشتے بندھے!

2۔ راہِ حق پر

"اور میری اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس بھیڑ خانہ کی نہیں۔ مُجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سُنیں گی۔ پھر ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 10: 16)

بچپن ہی سے میرا رُجحان پرہیزگاری کی طرف تھا اور جِس دینی فرقہ میں میری پرورش ہوئی تھی اُس پر مَیں فِدا تھا۔ جبکہ دوسرے فرقوں کے عقائد کے بارے میں میرے خیالات قدامت پسندانہ تھے۔ مَیں مسیحی دین میں یہودیوں کے ہاتھوں مسیح کی مصلوبیّت کے اعلان کی موجودگی اور بعض مذہبی کتابوں میں مسیحیوں پر شرک کے الزام کی وجہ سے اِس سے دُور رہا۔ مَیں اِسلام میں باطنی مذہب سے بہت متاثر تھا، جِس نے میرے اندر ایک طرح کا یہ عقیدہ پیدا کر دیا کہ مسیح جسے قرآن نے کلمتہ اللّہ اور اُس کی طرف سے رُوح کہا ہے، یقیناً ملائکہ اور بشر سے بڑھ کر کوئی ہے۔ اِس لئے یہ خیال کہ وہ یہود کے ہاتھوں پڑ کر صلیب کی طرف لے جایا گیا مضحکہ خیز معلوم ہُوا۔

میری اپنے نئے دوستوں کے ساتھ کئی بار بحث ہوئی، اور جب وہ جواب نہ دے پائے تو مُجھ سے بحث کرانے کےلئے اِنجیل کے ماہر ایک نوجوان کو لائے۔ تاہم، اُس نے مُجھ سے بالکل بھی بحث نہ کی، اور صرف یہ کہہ کر اپنا تعارف کرایا کہ "مَیں مسٹر الف میم ہوں، اِنجیلی مدرسہ کا ایک طالب علم، اور اگر ہم دوست بن سکیں تو مُجھے بہت خوشی ہوگی۔" "اھلاً و سھلاً،" مَیں نے اُسے جواب دیا "آپ کے دوستوں میں شامل ہونا میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہو گا۔"

یہ نوجوان عمدہ ذوق کا خوش سیرت شخص تھا۔ اِن خوبیوں کی وجہ سے جلد ہی اُس نے میرے دِل میں گھر کر لیا۔ جلد ہی ہم ایک دوسرے کے گرویدہ ہو گئے، اور ہمارا باہمی احترام اخوّت کی شکل میں بدل گیا۔ خُدا نے مُجھے مُنجی کے عرفان تک لے جانے کےلئے اِسی نوجوان کو استعمال کیا۔

ایک بار چھٹیوں کے دِن تھے کہ اُس نے مُجھے اپنے چرچ چلنے کی دعوت دی، اور کہنے لگا "ہمارا آج ایک تہوار ہے، چلو چل کر ہماری عبادت دیکھو۔"

مَیں نے اُسے کہا، "میری طرف سے معذرت، میری رائے مسیحیت کے بارے میں کُچھ اَور ہے، اِس لئے مُجھے گرجے میں جانے میں ہچکچاہٹ ہے۔ مَیں مسیح کے مصلوب ہونے کے بارے میں مسیحیوں کی باتوں سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں۔"

"چھوڑو یار، صلیب کی تعلیم تو مسیحیت کی پُر شوکت تعلیم ہے، اور یہ تمہارے تصوّر یا سوچ سے زیادہ گہری ہے۔ یہ اِنسان کی مخلصی کےلئے خُدا کی حیرت انگیز محبّت کے کام کی تصویر ہے۔ لیکن چونکہ تم اِس موضوع پر ابھی گفتگو کرنے کےلئے تیار نہیں ہو، اِس لئے اِس بحث کو کِسی اَور موقع کےلئے چھوڑ دیتے ہیں۔"

ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اُس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اِنجیل کا ایک چھوٹا سا نُسخہ نکالا اور کہا "لو، یہ خُدا کی خوشخبری ہے۔ اِسے خلوص سے پڑھو اور اِس کی آیتوں پر غور کرو۔ مَیں خُدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ تمہارے ذہن کو کھولے اور مُنور کر دے تا کہ تم جان سکو کہ کیوں مسیح جسدِ خاکی میں دُنیا میں آیا اور صلیب پر اپنی جان دی۔"

مَیں نے شکریہ کے ساتھ کتاب لے لی۔ رات کو بستر پر جانے سے پہلے مَیں نے اُس کے الفاظ پر کافی غور کیا، اور اُس کے غیرمعمولی لہجے کو یاد کیا جِس میں وہ مُجھ سے مخاطب ہُوا تھا، اور مَیں نے اُس میں خلوصِ دِلی کو محسوس کیا جو اپنے دوست کی خوشی کا خواہاں تھا۔ میرے اندر متعدد متضاد خیالات پیدا ہوئے۔ آخرکار باطن میں الہٰی راہنمائی کی بدولت مَیں نے محسوس کیا کہ اُس کی دعوت کے بارے میں اپنے منفی رویے پر غور کروں۔

مَیں نے اُسے بتایا "مَیں نے تمہارے ساتھ تمہارے چرچ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ میرے پاس گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔"

"ٹھیک ہے" اُس کا چہرہ چمک اُٹھا "کل اِتوار کو ملتے ہیں۔"

اِتوار کو مَیں اُس کے ساتھ گرجے گیا۔ وہاں مَیں نے چیزوں کو اُس سے بہت مختلف دیکھا جو مُجھے بتایا گیا تھا اور جو مَیں نے تصوّر کیا تھا۔ وہاں کی عبادت میں دلکشی تھی سادگی تھی، خصوصاً گیت بڑے پیارے لگے۔ عابدوں کا خشوع اور پاسبان کا وعظ بڑا بھایا جِس نے میری رُوح پر اثر کیا۔

3۔ اوّلین تاثرات

"اِسی طرح تُمہاری رَوشنی آدمِیوں کے سامنے چمکے تا کہ وہ تُمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تُمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجِید کریں۔" (اِنجیل بمطابق متّی 5: 16)

اِن سادہ لوگوں نے جِن کے ساتھ خُدا نے مُجھے رکھا، بہت پیار دیا۔ ظاہر ہے مَیں اُن کی محبّت کی طرف متوجہ ہُوا، جِس نے مُجھے اُن کی زندگی کی حیرت انگیز سادگی اور مسیحی عقیدت کی خوبصورتی دِکھائی۔ اُن کی گواہی کا میری رُوح پر اثر ہونے لگا، جِس نے اُس اندھے تعصب کو تحلیل کر دیا جِس نے میرے ذہن کو ڈھانپ رکھا تھا اور میرے خیالات کو مفلوج کر کے اُن معقول سچّائیوں کو قبول کرنے سے روک رکھا تھا جِن پر کروڑوں لوگ ایمان رکھتے ہیں۔

محبّت کے جذبے سے لبریز اِس ماحول میں مُجھے اپنے دوست الف میم کی نصیحت یاد آئی۔ مَیں نے اپنی میز کی دراز سے اُس کا دیا ہُوا نُسخہ نکالا اور اِنجیل کی تلاوت میں لگ گیا جس کا شروع سے ہی مُجھ پر گہرا اثر ہُوا اور یوں لگا کہ یسوع کے الفاظ خاص طور پر میرے لئے لکھے گئے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے جب مَیں مسیح کے پہاڑی وعظ پر پہنچا تو ایک نئی محبّت بھری دُنیا جھلملاتی نظر آنے لگی۔

جوں جوں مَیں اِنجیل کو پڑھتا گیا، فضل اور مسیح کے عرفان میں ترقی کرتا گیا۔ جب مَیں مُقدّس یوحنّا کی معرفت لکھے گئے اِنجیلی بیان کے تیسرے باب کی سولہویں آیت پر پہنچا کہ "کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بیٹا بخش دِیا تا کہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے" تو خوشی کی ایک لہر سی دِل میں سما گئی کیونکہ کتاب مُقدّس کے اِس حوالہ میں مُجھ پر صلیب کے بھید کی کلید عیاں ہونے لگی۔

میرا ذہن کُھل گیا، اور میری بصیرت سے دُھند جاتی رہی۔ مَیں جان گیا کہ کیوں یسوع نے صلیب پر مرنا قبول کیا: خُدا نے اِنسان سے اِس حدّ تک محبّت کی کہ اُس نے اپنے اِکلوتے بیٹے کی قربانی دی تا کہ اُس پر اِیمان لانے والے مخلصی پائیں اور ابدی ہلاکت سے بچ جائیں۔ لیکن اکثر اِنسانی سوچ اِس سچّائی سے متصادم ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ اِس خیال کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ خُدا نے اپنے اِکلوتے بیٹے کو بنی نوع اِنسان کےلئے دیا۔ لیکن اگر ابرہام نے خُدا سے محبّت کی وجہ سے اپنے بیٹے اِضحاق کو خُدا کے حضور قربانی کےلئے پیش کیا، تو کیا خُدا جو محبّت کا سرچشمہ ہے اپنے بیٹے کو دینے میں اپنی مخلوق سے پیچھے رہے گا؟ ہرگز نہیں! کیونکہ اگر اِنسان کے دِل میں خُدا کی محبّت موجود ہو سکتی ہے تو یقیناً یہ خُدا کے دِل میں بےحدّ طور پر موجود ہے، کیونکہ خُدا خود محبّت ہے!

پھِر تو اِنجیل کی وُقعت و محبّت بڑھنے لگی، مُردہ دِل میں جان سی آ گئی جو میری بغاوت اور گُناہوں سے سخت ہو چُکا تھا۔ اِنجیل مُقدّس میں بیان کردہ محبّت میرے وجود میں اُترتی چلی گئی، اِس لئے مَیں نے بڑے اِشتیاق سے اِس کا مطالعہ کیا۔ مَیں نے اُن تمام آیات کو ذہن نشین کر لیا جِن میں گُنہگار اِنسان کےلئے خُدا کی محبّت کا بیان ہے، اور جلد ہی مُجھے اپنی نجات کی طلب و ضرورت سے آگاہی ہو گئی۔ یہ میرے لئے سعادت کی بات ہے کہ مَیں نے یسوع کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر جان لیا۔ اُس نے میری خاطر صلیب پر جان دی تا کہ مَیں ہلاک نہ ہوں اور ہمیشہ کی زِندگی پاؤں۔

مُنجی کے بارے میں معرفت نے میری راہنمائی کی کہ لوگوں کے روبرو اپنے خیالات کا اِظہار کروں۔ لیکن خیال آیا کہ یہ کیسے ہو گا؟ کیا لوگوں کو اُس جوان پر ترس آئے گا جو اپنے باپ دادا کے چلن کو چھوڑنے کا اِرادہ رکھتا ہو؟

ہر راہ میرے سامنے پُر خطر اور ہر درِ اُلفت میرے لئے بند نظر آنے لگا۔ یہ خُدا کی رحمت تھی جِس سے مُجھے تسلّی مِلی، کیونکہ جِس نے کہا کہ "میرے پیچھے چلے آؤ" اُس نے اپنی بھیڑوں کے بارے میں فرمایا: "مَیں اُنہیں ہمیشہ کی زِندگی بخشتا ہُوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چِھین نہ لے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 10: 28)۔

مُجھے ابھی تک رُوحانی زِندگی کے معاملات کا وسیع علم نہیں تھا جِس کے نتیجہ میں مَیں دُعا کے ذریعہ اپنی صورتحال سے نمٹ سکتا۔ تاہم، بھیڑوں کا عظیم چرواہا میری حفاظت کی ضرورت کو جانتا تھا۔ یہ تو مَیں جاننے لگا تھا کہ اُسے میری فِکر ہے، وہ ہر بلا دُور کرے گا اور مُجھے ہر قِسم کے شر و فساد سے بچا کر میری راہنمائی کرے گا!

4۔ واقعات در واقعات

"اَے جزیرو! میرے حضُور خاموش رہو اور اُمّتیں از سرِ نَو زور حاصِل کریں۔ وہ نزدِیک آ کر عرض کریں۔ آؤ ہم مِل کر عدالت کےلئے نزدِیک ہوں۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 41: 1)

1929ء کا سال میرے خاندان کےلئے اہم واقعات کا سال تھا۔ میرے والد پر مسلسل آفتیں آئیں۔ وہ پارلیمانی اِنتخابات میں اپنی نشست ہار گئے، اور یہ سیاسی، مالی اور سماجی طور پر اُن کے زوال کا باعث بنا۔ جوئے اور شراب کی میزیں سجنے لگیں، یہاں تک کہ میرے والد قرض کے بوجھ تلے دب گئے۔ اُنہوں نے جائیدادیں گروی رکھ دیں اور اُن کی آمدنی کم ہو گئی۔ والد صاحب کے معاملات کی خرابی نے میری زندگی کو متاثر کیا، اور تعلیم جاری رکھنا میرے لئے مشکل ہو گیا۔ وہ وقت آ گیا تھا کہ مَیں خود ہی کُچھ کروں۔

تعلیم منقطع ہوتے ہی مَیں نے سرکاری دفاتر میں ملازمت کی تلاش شروع کر دی۔ دِل کو یہ آس تھی کہ والد کے اثر و رسوخ رکھنے والے احباب میری مدد کریں گے، لیکن ایسا کُچھ نہ ہُوا۔ میرے اسکول کے اعلیٰ عہدیداروں نے میرے تعلیم منقطع کرنے کی مخالفت کی، اور کہا کہ اگر مَیں اپنی پڑھائی جاری رکھوں تو میرے لئے بہت روشن مستقبل ہو گا۔ مَیں نے اِس مشورے پر دھیان نہیں دیا بلکہ نوکری تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھی۔

مَیں نے محکمہ ڈاک اور ٹیلی گراف میں ایک عہدے کےلئے درخواست جمع کرائی، لیکن چونکہ وہاں اپنا کوئی نہیں تھا، لہٰذا ناکامی ہوئی۔ میری سوچ اِضطراب کا شکار ہوئی، اور میری زِندگی کی کشتی گویا طوفانی لہروں کے تھپیڑے کھاتی رہی۔ دوستوں نے میرے چہرے پر پژمردگی دیکھی، اور حیران ہوئے کہ اِس لڑکے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے جِس نے حال ہی میں زِندگی کے تمام حالات کا مسکراہٹ کے ساتھ سامنا کیا تھا۔ کُچھ لوگوں نے مدد کی غرض سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا مسئلہ تھا۔ تاہم، عزّت نفس آڑے آئی اور مَیں نے کسی بھی مدد لینے سے اِنکار کیا۔

اِن واقعات اور اِن کے ساتھ آنے والی پریشانیوں اور تکلیف دہ خدشات کے باوجود بھی مَیں نے مسیحیت اپنانے کے اعلان پر کمر باندھ لی۔ مارچ 1929ء کو ایک دِن بارش ہو رہی تھی اور مَیں اپنے دوست الف میم کے ہمراہ کلیسیائی پاسبان سے ملنے گیا اور اپنے خیالات اُسے بتائے۔ وہ پاسبان خوش ہُوا اور اُس نے میرے لئے دُعا کی اور ہمّت بڑھائی۔ لیکن ساتھ ہی اپنی معذرت بھی ظاہر کی کہ وہ مُجھے کلیسیا میں باضابطہ طور پر شامل نہیں کر سکتا کیونکہ مُلکی قانون آڑے ہے۔ اُس نے اِس تعلق سے میرے والد کے ساتھ ممکنہ تنازعہ کے خدشے کا اظہار بھی کیا۔ کُچھ سوچنے کے بعد اُس پاسبان نے مُجھے لُبنان جانے کا مشورہ دیا جہاں شہریوں کو سوچ اور عقیدہ کی آزادی حاصل ہے۔ اور اونجیلیکل چرچ کے اراکین کے نام سفارشی خط بھیجنے کا وعدہ کیا تا کہ وہ مُجھے وہاں کی کلیسیاؤں میں سے کسی ایک میں شامل کریں۔

اگرچہ مُجھے اُس سرزمین کے قوانین سے فائدہ اٹھانے کے پہلو سے لُبنان جانے کا خیال درست معلوم ہُوا، لیکن اِس سے میرا مسئلہ حل نہ ہُوا۔ ایک ایسے ملک میں جانے سے جہاں میرا کوئی دوست یا جاننے والا نہ تھا، مُجھے نئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جِن کےلئے مَیں تیّار نہ تھا۔ سب سے پہلے تو مُجھے کسبِ معاش کی ضرورت تھی۔ مُجھے تو کوئی کام بھی نہیں آتا تھا۔ یہ امور بڑی اُلجھن والے تھے۔

تاہم، مَیں نے خُدا پر اپنا توکّل نہ چھوڑا، جِسے مَیں نے اپنے تمام معاملات سونپ دیئے تھے۔ بہت سی مایوسیوں اور حوصلہ شکنیوں کے باوجود مَیں نے اپنے اندر محسوس کیا کہ راحت قریب ہے۔

اگلی صبح مَیں اپنی اُلجھنوں میں پھنسا ہُوا تھا کہ میرا ایک ہم جماعت نمودار ہُوا۔ مُجھے سلام کرنے کے بعد اُس نے کہا "والد سے میرے اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں۔ زیادہ دیر تک گھر میں رہنا مُشکل نظر آ رہا ہے، اِس لئے مَیں نے تو جلد لُبنان جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہاں مشرق کی فوج میں بھرتی ہو جاؤں گا جو فرانسیسی قیادت کے تابع ہے۔"

مَیں نے جلدی سے اُسے خبردار کیا "لیکن کیا تم فوجی زندگی کی مشقّت برداشت کر پاؤ گے؟"

اُس نے جواب دیا "تعلیم یافتہ نوجوانوں کےلئے صحیح معنوں میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ تربیت پوری ہوتے ہی ایک امتحان ہوتا ہے، جِس میں کامیاب ہونے والوں کو آفیسرز اسکول اور باقیوں کو نان کمیشنڈ آفیسرز اسکول میں بھیج دیا جاتا ہے۔"

مَیں نے جواب دیا، "اگر ایسی بات ہے تو مَیں بھی تمہارے ساتھ ہو لوں گا۔" جیسے ہی اُس نے لُبنان جانے کی تجویز دی تو مُجھے ایسا محسوس ہُوا کہ فوج میں شمولیت سے میرے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔

میرے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا، "اگر ہم ساتھ جائیں تو مُجھے بہت خوشی ہو گی۔ اِس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا، لیکن جلدی۔ مَیں کل صبح واپس آؤں گا۔ اگر تم نے جانے کا فیصلہ کیا تو ہم اکھٹے جا سکتے ہیں۔"

مَیں نے کہا، "مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے اور فوراً تیاری شروع کر دوں گا۔ خُدا ہماری مدد کرے۔"

مُجھے تیاری کےلئے زیادہ وقت نہیں لگا، کیونکہ جو چیزیں میں اپنے ساتھ بیرک میں لا سکتا تھا وہ بہت کم تھیں۔ مَیں نے اپنے کپڑے مسز سین کے بچّوں میں بانٹ دیئے۔ جب اُنہوں نے میرے جانے کی خبر سُنی تو اُن کے چہروں پر اُداسی چھا گئی۔ اگلی صبح مَیں نے آنکھوں میں آنسوؤں اور ٹوٹے ہوئے دِل کے ساتھ اُنہیں الوداع کہا، کیونکہ اِن نیک لوگوں نے میری زِندگی میں میرے خاندان سے بڑھ کر مقام حاصل کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر نئی اُمّید نے مُجھ میں دلیری پیدا نہ کی ہوتی تو مَیں اُن سے رُخصت نہ ہوتا۔

مَیں اپنے دوست مسٹر میم کے ساتھ طرابلس کی طرف روانہ ہُوا۔ دوپہر کو ہم وہاں پہنچے۔ سارا دِن شہر میں گشت کیا، اور رات ایک کم درجہ کے ہوٹل میں گزاری۔ صبح ہوتے ہی ہم آرمی بیرکس میں پہنچے۔ وہاں طبّی معائنے کے بعد ہمیں فرسٹ اِنفنٹری ڈویژن میں بھرتی کر لیا گیا۔ یہ 11 مارچ 1929ء کی بات ہے، اور میرا سپاہی نمبر 8382 تھا۔

اگلے دِن مُجھے تربیتی اسکول میں بھیج دیا گیا جہاں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے جوانوں کے درمیان مَیں نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ وہاں جو کمرہ ہمیں رہنے کےلئے دیا گیا اُس میں چالیس رنگروٹ رہتے تھے۔ مُجھے کھجور کے پتوں سے بھرا ہُوا ایک گدا اور ایک تختہ دیا گیا۔

جب میرا نام رجسٹر میں درج کر لیا گیا تو مُجھے ڈِپو سے فوجی لباس، ایک بندوق، ایک تھیلا، ایک کلہاڑی، اور کھانے پکانے کے چند برتن اور خیمہ نصب کرنے کا کُچھ سامان ملا۔

تب سے، مُجھے اپنے کپڑے خود دھونے پڑے۔ اسلحہ کی صفائی اور دوسری صفائی سب خود ہی کرنی پڑتی تھی۔ وقتاً فوقتاً عام کاموں میں بھی حصہ لینا پڑتا، مثلاً کمرے کی صفائی کرنا، صحن میں جھاڑو لگانا اور سپاہیوں کا کھانا باورچی خانے سے میس تک لے کر جانا وغیرہ۔ رجمنٹ میں بھرتی ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہُوا تھا کہ کُچھ سپاہیوں نے یہ کام اپنے ذمہ لے لئے، بدلہ میں اُن کے خطوط وغیرہ لکھنے ہوتے کیونکہ اکثریت اَن پڑھوں کی تھی۔ مزید برآں، سارجنٹ نے فرانسیسی زبان میں اپنی روزانہ کی رپورٹیں لکھنے کے عوض میرے کُچھ کاموں کو ہلکا کر دیا، کیونکہ وہ فرانسیسی زبان میں روانی نہیں رکھتا تھا۔

تنہا زندگی کا پہلا مرحلہ شروع ہُوا جو میرا مقدر بنتا دکھائی دیا۔ یہاں کی فِضا میں سکون تھا، وقتاً فوقتاً بِگل کی آوازیں مختلف کاموں کے آغاز کےلئے ہوتیں اور اُن سے فِضا کے سکون میں خلل پڑتا رہتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ مُجھے چند ناخوشگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ کُچھ ہی عرصہ میں میرے والد کو میرے جانے کی وجوہات اور رہنے کی جگہ معلوم ہو گئی۔ اُنہوں نے فرانسیسی حاکم بلاد کے حضور مُجھے فوج سے فارغ کرنے کی درخواست دے دی، اور بعض لوگوں کے مشورہ پر تا کہ نوکری چھوٹنے میں آسانی ہو جائے، میری بدچلنی اور نابالغ ہونے کی وجہ پیش کی، نیز یہ کہ مَیں باپ کی تَولِیَت کا محتاج ہوں۔ اُن کے ایک دوست نے جو ضلعی کونسلر تھا، فوج کو میری درخواست رد کرانے کی اِس کوشش میں اُن کی مدد کی۔ چونکہ ابھی تک میری درخواست پر باقاعدگی کی مہر نہیں لگی تھی، اِس لئے فرانسیسی کمانڈر نے میرے ڈسچارج کی درخواست منظور کر دی۔

پِھر درخواست افسر اعلیٰ کے حضور پہنچی، جِس نے ضروری تحقیقات کےلئے اُسے کمانڈنگ افسر کے پاس بھیج دیا۔ اُن تمام الزامات کو جنہیں میرے والد نے درج کروایا تھا، بعد از تحقیقات جھوٹ پا کر رد کر دیا گیا، اور میرے کاغذات پر باقاعدگی کےلئے مہر و دستخط کے احکام جاری کر دیئے۔ تاہم، کونسلر نے اِس فیصلہ کو اپنے وقار کی توہین سمجھ کر ایک چال کا سہارا لیا۔ اُس نے ایک سرکاری خط بھیجا جِس میں اِن وجوہات کی وجہ سے فوج سے میری بےدخلی کا مطالبہ کیا: بدچلنی، باپ کا مال لا کر عیش میں اُڑانا، آوارگی کی طرف جھکاؤ اور تعلیم مکمل کرنے سے پہلے اسکول چھوڑنا۔

یہ الزامات بےبنیاد من گھڑت تھے اور یہ وہ ایذا تھی جِس کا اُس وقت سے اَب تک کسی نہ کسی طرح مُجھے سامنا ہے۔ میرے لئے یہ صورتحال تکلیف دہ تھی کہ اِن اِلزامات کی تائید میرے والد کے بیانات سے کی گئی تھی۔ شاید ایک قبائلی سردار کے وقار کو ٹھیس پہنچی تھی کہ اُس کا بیٹا ایک ادنیٰ سپاہی بنے، یا پِھر یہ مسیحیت کی جانب میرے جھکاؤ کو ختم کرنے کی کوشش تھی۔ یا پِھر ممکن ہے کہ اِن دونوں باتوں نے میرے معروف والد کو دوہری بےعزتی کا احساس دلایا ہو؟

افسر اعلٰی نے ہائی کمشنر کے ملٹری اتاشی کو نظرانداز کرتے ہوئے معاملہ حکام بالا تک پہنچا دیا۔ تاہم خُدا نے جو جانتا تھا کہ مُجھ پر یہ تمام الزامات غلط ہیں، کمانڈر کو جو ایک دیانتدار شخص تھا، میری مدد کےلئے تیار کیا۔ اُس نے مُجھے اپنے دفتر میں بلایا اور مَیں نے اپنا سارا ماجرا اُس کے سامنے رکھا۔ اِس کے فوراً بعد اُس نے تمام الزامات کے خلاف میرا دفاع کیا، اور اِس ضمن میں اُسے میرے ہیڈ ماسٹر کے سرٹیفکیٹ سے مدد ملی جو ایک تمغہ یافتہ فوجی افسر رہ چکے تھے۔ اُنہوں نے میرے طرزِعمل اور مثالی کردار کی تعریف کی تھی۔

کمانڈ ہیڈکوارٹر میں اُس کی رپورٹ پہنچنے پر چیف آف اسٹاف نے ضلعی کونسلر کو شکایت بھیجی، اور کہا یا تو میرے کاغذات پر دستخط کرے یا پھر احکامات میں رکاوٹ ڈالنے پر کارروائی کےلئے تیار رہے۔ اُس نے اِن ہدایات پر پوری طرح عمل نہیں کیا، اور میرے والد کو مطمئن کرنے والا حل تجویز کیا جو یہ تھا کہ مُجھے لاذقیہ ٹرانسفر کر دیا جائے جہاں اُس کے مطابق اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افسران میری تربیت کر سکتے تھے۔

یہ تجویز توثیق کےلئے ہائی کمان کو بھیج دی گئی۔ خوش قسمتی سے میرے کمانڈر نے اِس تجویز کو اپنے افسر کے موقف پر شک کرنے کی کوشش سمجھا گیا، لہٰذا اُس نے ضلعی کونسلر کے خلاف ایک مُفصّل رپورٹ بھیجی جِس میں اُس نے کونسلر پر میرے والد کے ساتھ مل کر فوج کو ایک پڑھے لکھے نوجوان سے محروم کرنے کی سازش کا الزام لگایا۔ اِس رپورٹ کا ہائی کمان پر گہرا اثر ہُوا جِس نے میرے معاملے میں حتمی فیصلہ کیا، اور میرے سامنے تین چناؤ رکھے گئے: سبکدوشی، دوسری بٹالین میں منتقلی، یا پِھر پہلی بٹالین میں ہی برقراری۔

ظاہر ہے کہ مَیں نے لبنان میں ہی پہلی بٹالین کے ساتھ رہنے کا انتخاب کیا تا کہ آزادی کے ساتھ کلیسیا کی باقاعدہ رُکنیت حاصل کر سکوں۔ مَیں نے اپنے لوگوں اور مُلک کو اِسی مقصد کے تحت چھوڑا تھا۔ جب مَیں نے اپنے کمانڈر کو اپنے فیصلہ کے بارے میں بتایا تو اُس نے حوصلہ افزا انداز میں کہا، "آج کے بعد مت ڈرو، کیونکہ مَیں ذاتی طور پر تمہارا خیال رکھوں گا۔"

"شکریہ جناب،" خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ مَیں نے کہا، "مَیں آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا۔"

اُس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور جب میں نے اپنا پہلا تربیتی کورس مکمل کیا تو اُس نے مُجھے نائیک کے عہدے پر ترقی دے دی اور مُجھے اپنے دفتر میں سیکرٹری اور ترجمان مقرر کیا۔ کچھ اَور مہینوں کے بعد اُس نے مجھے حوالدار کے طور پر ترقی دے دی۔ اِس سے میرا حوصلہ بلند ہُوا، تنخواہ بھی بڑھ گئی اور معاشرہ میں عزّت بھی۔

اِس دوران مَیں نے ایک اِنجیلی کلیسیا میں جانا شروع کیا جہاں مُجھے ایسا رُوحانی ماحول ملا جِس نے مُجھے متاثر کیا۔ وہاں مقامی کلیسیا کے پاسبان عبد اللہ مسوح نے بھی ہمّت افزائی کی۔ کلیسیائی اجتماعات میں کُچھ عرصہ شرکت کرنے کے بعد مُجھے کلیسیا کی رُکنیّت دے دی گئی۔

5۔ ایک سادہ شادی

"مُبارک ہیں وہ جو دِل کے غرِیب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔" (اِنجیل بمطابق متّی 5: 3)

23 فروری 1932ء کو بیروت میں میرا عقد مارتھا عطیہ سے ہُوا۔ بیروت کی اِنجیلی کلیسیا میں یہ رسم قسیس مفید عبد الکریم کے ہاتھوں انجام پائی جو اِنجیلی کلیسیا کی سپریم کونسل کے صدر تھے۔

ہماری شادیوں میں دوسری شادیوں کی طرح کی رونق نہ تھی، جِن کا آغاز عموماً ایک بڑے جلوس، گھنٹیوں کے بجانے اور خواتین کی خوشیوں بھری آوازوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ دُلہن کا بھائی اور اُس کی بیوی، اور تین دوست گرجے تک پیدل گئے۔ میری طرف سے دو گواہ تھے جو تعمیراتی مزدور تھے۔

اگرچہ یہ شادی ازحد سادہ تھی، لیکن اِس میں سادگی کی شان اور عاجزی کی عظمت تھی، اور خُداوند کی حضوری چھائی تھی جِس نے اِس شادی کو ویسی برکت دی جیسی گلیل کے قانا میں شادی کو برکت دی تھی۔ اِس شادی میں نہ کوئی جشن تھا نہ دھوم دھام، پاسبان کی اہلیہ اور بیٹی نے صرف رُوحانی گیت گایا جو ہمارے دِلوں میں شکرانے کے گیتوں کے ساتھ گھل مل گیا۔ یہ گیت اُس شخصیت کے بارے میں تھا جِس نے ہم سے محبّت کی اور اپنے خون سے ہمیں ہمارے گناہوں سے پاک کیا۔

جب ہم گرجے سے رخصت ہوئے تو ساتھ سجی گاڑیوں کا کوئی قافلہ نہ تھا، ہم پیدل ٹیکسی اسٹیشن گئے اور طرابلس جانے والی کار میں دو نشستیں حاصل کیں۔ جب ہم التل چوک پہنچے تو وہاں کوئی ہمارا انتظار نہیں کر رہا تھا، لیکن خدا ہمارے ساتھ تھا اور اُس کی آواز نے ہمارے دِل میں سرگوشی کی: "مُبارک ہیں وہ جو دِل کے غرِیب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے ۔۔۔ مُبارک ہیں وہ جو حلِیم ہیں کیونکہ وہ زمِین کے وارِث ہوں گے ۔۔۔ مُبارک ہیں وہ جو پاک دِل ہیں کیونکہ وہ خُدا کو دیکھیں گے" (متّی 5: 3، 5، 8)۔

صحیح معنوں میں تو ہمارا کوئی گھر نہ تھا۔ جِس کمرہ میں قیام کیا وہاں ایک چارپائی، بھوسا بھرا ایک گدا اور تکیہ مہیا کیا گیا تھا، ایک چھوٹی سی میز اور دو کرسیاں تھیں۔ لیکن ہم خوش تھے کیونکہ ہمارے دِل اُس خوشی سے بھر گئے تھے جو اِس دنیا کی نہیں ہے، اور ہم میں خُدا کے اطمینان کے باعث پیدا ہوئی جِسے دنیا نہ تو دے سکتی ہے اور نہ ہی سمجھ سکتی ہے۔

ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ہم باورچی خانہ سجا سکتے، اِس لئے ہم کُچھ عرصہ اپنی پڑوسی اُمّ فہد کے گھر سے چند درہموں کے عوض کھانا کھاتے رہے۔ اُمّ فہد سے ہم نے اجتماعی تعاون کا سبق سیکھا، اور اِسے ایک بہت بڑی نعمت سمجھا، کیونکہ یہیں ہم نے اپنے وسائل کے اندر سادہ اور حقیقت پسندانہ زندگی گزارنی سیکھی۔ پولس رسول نے لکھا ہے: "مَیں نے یہ سیکھا ہے کہ جِس حالت میں ہُوں اُسی پر راضی رہُوں‘‘ (نیا عہدنامہ، فلپیوں 4: 11)۔

اُس وقت ہمیں سماجی اعتبار سے راہنمائی کی ضرورت تھی، اِس لئے خُدا نے ہمیں کلیسیا میں سیدہ وجیہہ ابو رستم کی صورت میں ایک بڑی بہن عطا کی جِس نے میری بیوی کو صحیح راہنمائی اور مشورہ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اُنہوں نے اپنا دروازہ ہمارے لئے کھول دیا اور یوں ہمیں اُن کے بہترین دوستوں سے ملنے کا موقع ملا۔ مَیں نے ذاتی طور پر ابو رستم کو نہ صرف ایک وفادار دوست بلکہ ایک دانش مند راہنما بھی پایا۔

جہاں تک رُوحانی گوشوں میں راہنمائی کا تعلق ہے تو ریورنڈ مسوح اور نیلسن صاحب نے ہماری مدد کرتے رہے۔ یہ دونوں حضرات اپنی اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمیشہ ہمارے گھر آتے رہے اور اِن مواقعوں کی بدولت میری رُوحانی زِندگی ایک مضبوط بنیاد پر قائم ہوئی۔

6۔ ملٹری اکیڈمی میں

"تب لُوط نے آنکھ اُٹھا کر یَردن کی ساری ترائی پر جو ضُغر کی طرف ہے نظر دَوڑائی کیونکہ وہ اِس سے پیشتر کہ خُداوند نے سدُوم اور عمُورہ کو تباہ کِیا خُداوند کے باغ اور مِصر کے مُلک کی مانِند خُوب سیراب تھی۔" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 13: 10)

مَیں نے 1934ء کے موسم گرما میں حمص کی ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی، جہاں مَیں نے پانچ سال گزارے۔ اِس عرصے میں میرا آدھا وقت شعبہ اکاؤنٹس میں اور باقی آدھا وقت فوجی اور سائنسی تربیت حاصل کرنے میں گزرا۔ اِس مدّت کے اختتام پر، مَیں نے کامیابی سے امتحانات پاس کئے اور وہ سرٹیفکیٹ حاصل کئے جِن سے مَیں افسر کے عہدے تک پہنچ سکتا تھا۔

حمص میں اپنے قیام کے دوران مَیں وہاں کی کلیسیائی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا۔ مَیں نے حمص کی اِنجیلی کلیسیا میں مشہور مصری واعظ شیخ کامل منصور کا وعظ سُنا جِس نے میری آنکھیں کھول دیں۔ وعظ کا موضوع "نئی پیدایش" تھا۔ اُس کی روشنی میں مَیں نے اپنی دعوت و بلاہٹ کو پہچانا کہ مُجھے زِندگی خُدا کےلئے وقف کرنی ہے۔ مُجھ میں اپنے تمام وجود کے ساتھ اپنی زندگی نجات دہندہ کےلئے وقف کرنے کی خواہش تھی۔ تاہم، یہ مقصد ناقابلِ حصول نظر آیا، کیونکہ فوجی بیرکوں کی زندگی نے مُجھے کچھ اکھڑ اور تنک مزاج بنا دیا تھا۔

مَیں نے حمص میں گزارے عرصہ کے دوران بہت سے لوگوں میں نیک نامی حاصل کی، اور اِس دوران بہت سے قابل قدر دوست بنائے، لیکن یہ کامیابیاں زِندگی کو وقف کرنے سے بہت دُور تھیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یہ معاملہ مُجھے پریشان کرنے اور میرے ضمیر پر بوجھ بننے لگا۔ لیکن یہ احساس تھوڑے عرصے کےلئے تھا، کیونکہ دنیاوی زندگی کے لالچ نے جلد ہی میری بیداری کو ماند کر دیا، اور یوں مَیں نے نام نہاد حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے کہ شاید زِندگی کا مقصد ایک طرح کی تصوفانہ زِندگی بسر کرنے سے ہے، جِس کا ادراک ایک طویل جدوجہد اور ایک خاص عمر کو پہنچے بغیر نہیں ہو سکتا۔

دِن اِسی طرح گزرتے رہے۔ میرے مسیحی ہونے کی خبر اَب عام ہو چکی تھی۔ میرے بارے میں خوب تبصرے ہوئے اور مُجھ پر اتہام لگائے گئے۔ مَیں نے اِس سخت سلوک کو اُس محبّت کے ساتھ برداشت کیا جو سب کُچھ صبر سے برداشت کرتی ہے۔ مُجھے میرے دوستوں نے گھایل کیا، ماں کی ممتا سے محروم ہُوا، بھائیوں کے منہ پھول گئے، اور میرے ہم وطنوں نے کنارہ کشی اختیار کی۔ میرے بھائیوں اور بہنوں کی ناراضگی حق پر میری ثابت قدمی کو کم نہ کر سکی۔ تمام بہتانوں کے باعث مَیں سچّائی کی خاطر اپنی جدوجہد میں مزید پُر عزم ہو گیا۔

اُس وقت کئی بڑے علماء نے مُجھے دلیل کے ذریعے بدلنے کی کوشش کی۔ مَیں نے دوران گفتگو پوری محبّت اور تحمّل کے ساتھ اُن کی سخت تنقید کو برداشت کیا۔ مَیں نے سختی کے بدلے میں نرمی کے ساتھ ہر سوال کا جواب کماحقہ ایمانداری اور سادگی سے دیا، جیسا کہ رسول نے فرمایا ہے: "غرض سب کے سب یک دِل اور ہمدرد رہو۔ برادرانہ مُحبّت رکھّو۔ نرم دِل اور فروتن بنو۔ بدی کے عِوض بدی نہ کرو اور گالی کے بدلے گالی نہ دو بلکہ اِس کے برعکس برکت چاہو کیونکہ تُم برکت کے وارِث ہونے کےلئے بُلائے گئے ہو" (نیا عہدنامہ، 1۔ پطرس 3: 8، 9)۔

خُداوند میرے ساتھ تھا اور اُس کی رُوح نے میری راہنمائی کی، میرے منہ میں مناسب الفاظ ڈالے جو کتاب مقدّس کی نمکینی سے بھرے تھے جن سے سُننے والوں پر فضل ہُوا۔ مَیں نے خُدا کی اُس محبّت کے بارے میں جو اُس نے دُنیا سے رکھی اُس پر اور اُس کے مُتجسّد کلام کی میل ملاپ کی خدمت پر زور دیا۔ مَیں نے اُنہیں بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح وہ ایک درمیانی کی حیثیت سے خُدا اور اِنسان کے درمیان مغفرت کا کام کرتا ہے۔ آخر میں یہی کہا کہ جِسے مَیں نے اپنایا ہے اَب اُس سے واپسی ناممکن ہے کیونکہ اُس نے میری زِندگی روشن کر دی ہے اور میرے بوجھ کو ہلکا کر دیا ہے۔

کُچھ ہی دِنوں کے بعد چند پڑھے لکھے نوجوان آئے اور مُجھے بتانے لگے کہ حکومت نے معزز خاندانوں کے نوجوانوں کےلئے خاص اسکیم بنائی ہے جِس میں فوجی ترقی بھی شامل ہے۔ پِھر ایک نے چپکے سے کہا، "میرے بھائی، اپنے عقائد پر قائم رہو، لیکن یوں ظاہر کرو کہ تم نے یہ عقیدہ چھوڑ دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنے خاندانی نام پر لگے دھبے کو مٹاؤ جِسے ہر زبان داغدار کر رہی ہے۔"

مَیں نے احتجاج کیا: دوست، تم تو مُجھے نفرت انگیز کام کرنے کو کہہ رہے ہو۔ عظیم ریاکاری پر اُبھار رہے ہو۔ شاید تم نے مسیح کا یہ قول نہیں سُنا کہ "مگر جو کوئی آدمِیوں کے سامنے میرا اِنکار کرے گا مَیں بھی اپنے باپ کے سامنے جو آسمان پر ہے اُس کا اِنکار کرُوں گا" (اِنجیل بمطابق متّی 10: 33)۔

ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد مَیں نے کہا: تم کہتے ہو کہ حکومت ایک خاص گروہ کی ہمدرد ہے اور اگر مَیں تمہاری خواہش کے مطابق عمل کروں تو تیزی سے ترقی حاصل کر سکتا ہوں۔ لیکن تم نے شاید مسیح کے اُس سوال پر غور نہیں کیا: "اور اگر آدمی ساری دُنیا حاصِل کرے اور اپنی جان کا نُقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائِدہ ہو گا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دے گا؟" (متّی 16: 26)۔

آزمانے والے نے مسیحی جماعت کے درمیان بھی مُجھے بہکایا۔ ایسا ایک انٹرویو کے دوران ہُوا جب ایک بشپ نے جو مُجھ سے بہت پیار کرتے تھے میرے لئے فوری ترقیاں حاصل کرنے کےلئے آرمی چیف کمانڈ میں اپنا وسیع اثر و رسوخ استعمال کرنے کی رضامندی ظاہر کی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ مَیں اُن کی جماعت میں شامل ہو جاؤں۔ اُنہوں نے مُجھ سے کہا، "مَیں پروٹسٹنٹ گمراہی سے تم کو نکالنا چاہتا ہوں۔"

مَیں نے اُنہیں جواب دیا، "آپ کی پیشکش واقعی دلکش ہے، لیکن پروٹسٹنٹ طریقہ پر ہی مَیں نے مُنجی کو پایا ہے، اگر آپ کا مسیح کوئی اَور ہے یا اِس سے بہتر ہے تو مَیں اُس کے پیچھے چلنے کو تیار ہوں، بغیر کسی مادی لالچ کے۔"

7۔ صلیب کا پیغام

"اور اُس نے سب سے کہا، اگر کوئی میرے پِیچھے آنا چاہے تو اپنی خُودی سے اِنکار کرے اور ہر روز اپنی صلِیب اُٹھائے اور میرے پِیچھے ہو لے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 9: 23)

پِھر حمص شہر میں ریورنڈ ڈاکٹر عسّاف بشّارۃ بیداری کی عبادتوں کےلئے تشریف لائے۔ اُن کے پیغامات کا موضوع ایک مسیحی کی زِندگی میں صلیب کا کردار تھا، اور اُنہوں نے اپنے موضوع کےلئے مسیح کے عظیم خادم پولس رسول کے الفاظ کا چناؤ کیا: "مَیں مسیح کے ساتھ مصلُوب ہُؤا ہُوں اور اب مَیں زِندہ نہ رہا بلکہ مسِیح مُجھ میں زِندہ ہے اور مَیں جو اَب جِسم میں زِندگی گُذارتا ہُوں تو خُدا کے بیٹے پر اِیمان لانے سے گُذارتا ہُوں جِس نے مُجھ سے محبّت رکھّی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دِیا" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 2: 20)۔

اِس واعظ نے از سرِ نو میرے ضمیر کو بیدار کر دیا۔ دِل نے صلیب کے تجربہ کو اپنانے کا ارادہ کیا، نفسِ امّارہ کو مارنے اور مسیح کے حکموں کے مطابق جینے کا قصد زور پکڑتا گیا۔ لیکن جیسے ہی مَیں نے اپنی کوشش کی، مَیں ناکام ہو گیا، بیرکوں کے ماحول نے اِس میں میری کوئی مدد نہیں کی۔

اُس زمانے میں میری ایک کوشش یہ تھی کہ مَیں کُچھ مسیحیوں سے رابطہ کروں جِن کے بارے میں مَیں نے محسوس کیا کہ وہ رُوحانیت کے اعلیٰ درجہ پر ہیں۔ مَیں نے سوچا کہ اُن کے ساتھ گُھل مِل کر مَیں اعلیٰ رُوحانی درجہ تک پہنچ جاؤں گا۔ لیکن افسوس، مَیں کسی ایسے شخص کی طرح تھا جو مُردوں میں زندہ تلاش کرنے آیا تھا۔ وہاں ایک ہیڈ ماسٹر اور مشہور مصنف نے ہماری دوستی کو عرق کے گلاس سے منانے پر اصرار کیا جو کہ ووڈکا جیسا مشرقی مشروب ہے۔ اِس سے مَیں سخت مایوس ہُوا، کیونکہ مَیں نے اُسے وہ "اچھا نمک" سمجھا تھا جو میرے اندر زِندگی کا ذائقہ ٹھیک کر دے گا۔

جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی، مُجھے لاذقیہ میں تعینات پیدل بٹالین نمبر 191 میں بھیج دیا گیا۔ اِس بٹالین کو جدید ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت ملتے ہی محاذ جنگ پر بھیجنے کا انتظام کیا گیا۔ تاہم، ایسا نہ ہُوا، کیونکہ 1940ء میں ہٹلر کی فوجوں سے فرانسیسی مقابلہ میں ناکام رہے۔

جب فیشی حکومت قائم ہوئی تو ہماری فوج کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اِس تقسیم کے نتیجہ میں ہماری ٹکڑی کو پانچویں ٹکڑی کا نام دیا گیا۔ 1941ء کے موسم گرما میں، فیشی افواج اور اتحادی افواج کے مابین فلسطین و عراق کی حدود پر جھڑپیں ہوئیں۔ نتیجہ یہ ہُوا کہ جلد ہی ہماری ٹکڑی جنوب مغربی شام کی طرف بھیج دی گئی تا کہ فلسطین میں انگریزوں اور دیگالیوں کو شام اور لُبنان میں پیش قدمی سے روکا جا سکے۔ تاہم، معرکہ زیادہ دِنوں تک نہیں رہا کیونکہ دونوں میں صلح کی گفتگو ہونے لگی۔ جنگ بندی ہوئی اور ہمیں ہائی کمان کی طرف سے حکم ملا کہ تمام فورس اکھٹی ہو کر اُس پوزیشن پر چلی جائے جہاں وہ لڑائی کے شروع ہونے سے پہلے تعینات تھی۔ لیکن اتحادی افواج نے اِس سے اِنکار کر دیا۔ نتیجتاً، ہمیں وہاں قائم کئے گئے حراستی مراکز میں لے جایا گیا۔ یوں میرے لئے خاردار تاروں کے پیچھے قید کا ذائقہ چکھنا لکھا گیا۔ مُجھے اُس وقت رہا کیا گیا جب مَیں نے فری فرانسیسی افواج میں بھرتی کے معاہدے پر دستخط کئے۔ مُجھے ساتویں بریگیڈ میں منتقل کر دیا گیا جو لُبنان و شام کے ساحلوں کے دفاع کی غرض سے وہاں تعینات تھی۔

اسیری کے دوران وقف شدہ زِندگی کا موضوع میرے ذہن میں پِھر سے آیا۔ مَیں نے جنگ ختم ہوتے ہی فوج چھوڑنے کا فیصلہ کیا، تا کہ اپنی پوری زِندگی اپنے پیارے نجات دہندہ کےلئے وقف کر دوں۔ لیکن، جیسے ہی مُجھے سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی ملی، دُنیا کے سبز باغ ایک بار پِھر سامنے آ گئے۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ فوجی لااُبالی بن جاتے ہیں اور ہر طرح کے بندھنوں سے خود کو آزاد کر لینا چاہتے ہیں، مَیں نے بھی خود کو ترقی یافتہ لوگوں میں شمار کرنا شروع کر دیا اور رُوحانی طور پر خواب غفلت کا شکار ہو گیا، حتیٰ کہ خُدا کی آواز نے یہ کہہ کر مُجھے چونکا دیا: "اِس لئے وہ فرماتا ہے اَے سونے والے جاگ اور مُردوں میں سے جی اُٹھ تو مسِیح کا نُور تُجھ پر چمکے گا" (نیا عہدنامہ، افسیوں 5: 14)۔

8۔ وطن چھوڑنے کا فیصلہ

"اور ہم کو معلُوم ہے کہ سب چیزیں مِل کر خُدا سے محبّت رکھنے والوں کےلئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کےلئے جو خُدا کے اِرادہ کے موافِق بُلائے گئے۔" (نیا عہدنامہ، رُومیوں 8: 28)

1945ء میں جب شام و لُبنان سے فرانسیسی افواج نکالنے کا فیصلہ ہُوا تو میرے اور میرے خاندان کے یورپ جانے کےلئے سب انتظام کیا گیا۔ لیکن خُداوند جِس نے مُجھے چُن لیا تھا اور اپنے گلّہ میں جگہ دی تھی، تمام خطرات اور لڑائیوں میں میری حفاظت کی تھی، مُجھے یورپ جانے کی اجازت نہ دی۔ اُس کی حیرت انگیز حکمت مُجھے دُنیا کی گرفت سے چھڑانے کےلئے ہر طرح سے کام کر رہی تھی، تا کہ مَیں اُس کے فرزند کے طور پر حقیقی آزادی سے لطف اندوز ہو سکوں۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ مَیں حق کا عرفان پانے کے بعد تقدیس شدہ زِندگی گزارنے کی اپنی خواہش کو پورا کر سکوں۔

جو سال مَیں نے فرانسیسی پرچم تلے فوجی خدمات میں گزارے تھے اُنہوں نے مُجھے فرانسیسی شہریت کا حقدار ٹھہرایا۔ قانونی طریقہ کار مکمل ہونے کا انتظار کرتے ہوئے مُجھے مغربی جرمنی میں تعینات فرانسیسی فوج میں منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ یہ ایک پُرکشش موقع تھا۔ اِس بڑی فوج میں اپنی خدمات جاری رکھنے کا مطلب تھا فوج میں اعلیٰ ترقی اور دس سال کے بعد ایک اچھی پنشن۔ لیکن خُدا اپنے کلام میں کہتا ہے: "کیونکہ جِس قدر آسمان زمِین سے بُلند ہے اُسی قدر میری راہیں تُمہاری راہوں سے اور میرے خیال تُمہارے خیالوں سے بُلند ہیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 55: 9)۔

ہمارے خُدا نے اپنی رحمت کی دولت کو اِس کمزور برتن سے ظاہر کرنے کےلئے جِسے اُس نے اپنے نام کی تعظیم کےلئے پہلے سے مقرر کیا تھا، آخری وقت میں میرے یورپ جانے کے راستے میں کچھ رکاوٹیں کھڑی کر کے مداخلت کی۔ ہُوا یہ کہ مُجھے اپنے خاندان میں شامل ہونے سے پہلے دو سال کےلئے وسطی افریقہ میں تعینات نو آبادیاتی فوج میں بھیجنے کا نیا حکم جاری ہُوا۔ میرا خاندان مارسیلیا میں رہتا تھا اور میری بیوی جُدا رہنا پسند نہیں کرتی تھی، اِس لئے مَیں نے فوج سے مستعفی ہونے کی درخواست کر دی جو جلد ہی منظور کر لی گئی اور مُجھے فارغ کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے، اور فرانسیسی جھنڈے تلے خدمات کے عوض حسبِ قانون مُجھے فوجی فنڈ سے مالی معاوضہ ادا کیا گیا۔

ستمبر 1946ء میں سبکدوشی کے بعد مَیں نے طرابلس میں رہائش اختیار کی۔ شہری زندگی میں واپسی کے ابتدائی دنوں میں مُجھے ایسا لگا کہ مَیں ایک ایسی دنیا میں رہ رہا ہوں جو اپنے تصورات اور رہن سہن کے لحاظ سے میرے لئے اجنبی ہے۔ پِھر بھی مُجھے اُن لوگوں کے درمیان اُن کے مطابق رہنا پڑا اور مُجھے اپنے خاندان کی کفالت کےلئے کُچھ کرنا تھا۔

کُچھ دوستوں نے مُجھے تجارت کرنے کا مشورہ دیا، اور جب مَیں نے اِس قسم کے کام کےلئے عدم میلان کا اظہار کیا تو اُنہوں نے بہت سے ایسے لوگوں کا تذکرہ کیا جو چند سالوں میں تجارت سے کافی دولت کما چکے تھے۔ اُن کا اِستدلال اتنا مضبوط تھا کہ مَیں جلد ہی تجارت کی دنیا میں داخل ہونے پر آمادہ ہو گیا۔ آخرکار مَیں نے شہر کے وسط میں ایک دکان کرائے پر لے لی اور اُسے سامان سے بھر دیا۔

اپنے اِس نئے کام کے دوران، مُجھے لوگوں کو پرکھنے اور یہ مشاہدہ کرنے کا موقع ملا کہ کیسے وہ اپنے معاملات میں محبّت کی شریعت کی نفی کر رہے تھے۔ مُجھے اُن کی خواہشات اور رجحانات میں ناپاکی کی بو محسوس کرنے کا موقع ملا۔ مُجھے بہتوں میں اخلاقی گراوٹ، مادی اشیاء میں دلچسپی اور جِسم فروشی سے جِسم کی اہانت دیکھ کر سخت ناگواری محسوس ہوئی۔

مَیں گراوٹ بھرے ایسے ماحول میں گویا پاتال کے دہانے پر کھڑا تھا، مَیں بھی بارہا پھسلا، اور تباہی کی دلدل میں گرنے کو تھا۔ مَیں خلوص دِل سے خُدا کی حضوری کا متمنی تھا، لہٰذا، مَیں نے اُس سے فریاد کی، اُس سے مدد کی عاجزی سے التجا کی۔ لیکن نیکی کا دشمن ملعون بہکانے والا سرگرم عمل تھا، شیطان نے خُدا کےلئے میری خواہش کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اُسے میرے کاروبار کے فریب بھرے ماحول سے مُجھے غلام بنانے کا موقع ملا۔ اُس نے بعض گناہوں کی جانب میرے سابقہ رُجحانات کو جگایا جو مَیں نے اپنی جاہلیت کے دور میں کئے تھے۔ جِسم و رُوح کی جنگ برابر جاری رہی، رُوح جو جِسمانی خیالات و خواہشات کو رد کرتی رہی اور جِسم جو پہلے اپنی خواہشات کی اطاعت کرتا اور رُوح کے خلاف چلتا تھا۔

آزمایش کرنے والا اپنے فن میں بڑا ماہر تھا۔ اُس کے طریقے نت نئے تھے۔ اُس مکّار نے مُجھے سبز باغ دِکھائے۔ ماضی کی زِندگی پِھر ابھرنے لگی۔ جب اُس نے مُجھ میں مزاحمت دیکھی تو اُسے شک کے ساتھ دبانے کی کوشش کی کہ کیا کوئی خاص لذّت واقعی گناہ ہے؟ اُس نے میرے کانوں میں اُن الفاظ سے سرگوشی کی جِن سے اُس نے ہمارے اوّلین والدین کو دھوکا دیا تھا: "کیا واقعی خُدا نے کہا ہے؟" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 1)۔ ایسا لگا کہ جیسے وہ یہ پوچھتے ہوئے مُجھے چیلنج کر رہا تھا: "کیا حقیقت میں خُدا نے کہا ہے کہ تم دن بھر کی محنت کے بعد کُچھ لذتوں کے ساتھ تفریح ​​​​نہ کرو؟" فریب دینے والے نے اپنی چالوں میں کامیابی پا لی ہوتی لیکن خُدا کے پاک رُوح نے مُجھے رسولی نصیحت یاد دِلائی: "نہ دُنیا سے محبّت رکھّو نہ اُن چِیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔ جو کوئی دُنیا سے محبّت رکھتا ہے اُس میں باپ کی محبّت نہیں۔ کیونکہ جو کُچھ دُنیا میں ہے یعنی جِسم کی خواہِش اور آنکھوں کی خواہِش اور زِندگی کی شَیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔ دُنیا اور اُس کی خواہِش دونوں مِٹتی جاتی ہیں لیکن جو خُدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائِم رہے گا" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 2: 15۔ 17)۔

خُدا کے پاک رُوح نے میرے ضمیر میں کام کرنا نہ چھوڑا، اور مُجھے راست بازی، گناہ اور عدالت سے متعلق معاملات میں مجرم ٹھہراتا رہا۔ اُس نے مُجھے وہ سب کُچھ یاد دلایا جو یسوع نے پاکیزگی کے بارے میں سکھایا تھا، جِس کے بغیر کوئی بھی خُداوند کو نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن جیسے ہی آزمانے والا ایک طریقہ میں ہار جاتا تو دوسرا طریقہ اختیار کرتا، کبھی وہ خُدا کی رحمت نہ ملنے کے بارے میں شبہ میں ڈالتا، کبھی میری گذشتہ زِندگی کے گناہ یاد دِلاتا۔

ایک رات مَیں اپنے بستر پر سونے کی کوشش میں تھا اور یہ عوامل مُجھے تباہ کر رہے تھے۔ مَیں تھکا ہارا، پریشان حال تھا، اور اُس جہاز کی مانند تھا جِس کا کپتان شدید طوفان کے باعث اپنا راستہ بھٹک گیا تھا۔ تاہم، الہٰی محبّت نے میری آنکھیں کھول دیں تا کہ مَیں اُس کی شریعت کے عجائب دیکھ سکوں۔ صبح ہونے سے پہلے، خُدا کے رُوح نے مُجھے اپنا یہ قول یاد دلایا: "اَب خُداوند فرماتا ہے آؤ ہم باہم حُجّت کریں۔ اگرچہ تُمہارے گُناہ قِرمزی ہوں وہ برف کی مانِند سفید ہو جائیں گے اور ہرچند وہ ارغوانی ہوں تَو بھی اُون کی مانِند اُجلے ہوں گے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 1: 18)۔

پِھر مُجھے وہ سنہری آیت یاد آئی جِس نے میرے ذہن کو روشن کیا تھا اور مُجھے صلیب پر ظاہر کی گئی الہٰی محبّت کا عرفان بخشا تھا: "کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دِیا تا کہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 16)۔

تب مَیں گھٹنوں کے بل گر گیا، ماضی کی ناکامیوں کا جائزہ لینا شروع کیا، اور پنسل سے ایک ایک گناہ یاد کر کے لکھنے لگا۔ خُدا نے میری راہنمائی کی اور مَیں نے دُعا میں اُن گناہوں سے معافی مانگی۔ اُس نے میری دُعا سُنی اور مُجھے فتح عطا فرمائی۔ یسوع کے خون نے مُجھے میرے تمام گناہوں سے دھو کر پاک صاف کر دیا۔

9۔ رُوحانی تجربات

"تو مسیح کا خُون جِس نے اپنے آپ کو ازلی رُوح کے وسِیلہ سے خُدا کے سامنے بےعَیب قُربان کر دِیا تُمہارے دِلوں کو مُردہ کاموں سے کیوں نہ پاک کرے گا تا کہ زِندہ خُدا کی عِبادت کریں۔" (نیا عہدنامہ، عِبرانیوں 9: 14)

اُس یادگار رات کے بعد جب کہ گناہ سے پاک ہو کر مَیں نے خُدا کے محبّت میں نئے نئے رُوحانی تجربات کا مشاہدہ کیا، مَیں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اُن میں سے کُچھ کا خُدا کے حیرت انگیز فضل کے کام کی گواہی کے طور پر بیان کروں۔

مُجھے اُمّید ہے کہ اِن تجربات کے تذکرہ کے دوران کوئی بھی یہ نہیں سوچے گا کہ مَیں اپنے اوپر فخر کر رہا ہوں، کیونکہ مَیں نے پولس رسول سے سیکھا ہے کہ "خُدا نہ کرے کہ مَیں کِسی چِیز پر فخر کروں سِوا اپنے خُداوند یسوع مسیح کی صلِیب کے جِس سے دُنیا میرے اِعتبار سے مصلُوب ہُوئی اور مَیں دُنیا کے اِعتبار سے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 14)۔ اِس تذکرے کا مقصد خُدا کی نجات بخش قدرت اور اُس کی محبّت کے کام کو ظاہر کرنا ہے تا کہ اُس سے تعلق رکھنے والی زِندگیوں کی راہنمائی ہو۔ اِس کا مقصد یہ بھی ظاہر کرنا ہے کہ آزمایش کی گھڑی میں خُدا سنبھالتا ہے اور اُس وقت اُن کی رُوحوں کو مایوسی کی گرفت سے محفوظ رکھتا ہے جب وہ اپنی حکمت میں اُنہیں آزمایشوں کی چھلنی سے گزرنے دیتا ہے تا کہ اُن کے ایمان کی پرکھ ہو۔

صلیب کے سائے تلے

اپنی تبدیلی کے آغاز پر مَیں صلیب کی دعوت کے سبب بہت پرجوش تھا اور مُجھے حاصل ہونے والے فضل پر فخر تھا۔ لیکن دوستوں کی ایک جماعت نے میرے خلاف ناحق ہی سازش کی۔ اُنہوں نے میری برادرانہ محبّت کی حقیقت پر سوال اُٹھایا۔ اِس نے مُجھے رنجیدہ کیا کیونکہ اُن کی یہ حرکت جلد ہی ایذا میں تبدیل ہو گئی۔ اِس سے میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور سکون جاتا رہا۔ تب مَیں نے اِنجیل بمطابق مرقس 10: 29، 30 میں درج یسوع کے الفاظ پڑھے: "مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اَیسا کوئی نہیں جِس نے گھر یا بھائِیوں یا بہنوں یا ماں یا باپ یا بچّوں یا کھیتوں کو میری خاطِر اور اِنجِیل کی خاطِر چھوڑ دِیا ہو۔ اور اب اِس زمانہ میں سَو گُنا نہ پائے۔ گھر اور بھائی اور بہنیں اور مائیں اور بچّے اور کھیت مگر ظُلم کے ساتھ۔ اور آنے والے عالَم میں ہمیشہ کی زِندگی۔"

مَیں نے مایوسی میں الفاظ "ظُلم کے ساتھ" کی طرف اشارہ کیا اور خُداوند سے کہا کہ اگر اُس کی یہی مرضی ہے کہ اِس جماعت کے ذریعہ ہی یہ بات پوری ہو تو ہوتی رہے۔ لیکن مددگار رُوح القدس نے مُجھے بےیقینی میں نہیں چھوڑا بلکہ مُجھے خُداوند کا ایک اَور قول یاد دِلایا: "شاگِرد کےلئے یہ کافی ہے کہ اپنے اُستاد کی مانند ہو۔ اور نوکر کےلئے یہ کہ اپنے مالِک کی مانند۔ جب اُنہوں نے گھر کے مالِک کو بعلزبُول کہا تو اُس کے گھرانے کے لوگوں کو کیوں نہ کہیں گے؟" (اِنجیل بمطابق متّی 10: 25)۔ اِس آیت نے میری رُوح میں کام کیا۔ مَیں نے شکستہ دِلی سے اپنے دُکھوں کو اپنے نجات دہندہ کے آگے رکھا اور اُس نے میری پکار سُنی۔

پِھر صلیب کے سائے تلے

1954ء کے موسم گرما میں، میرے بھائیوں نے پِھر دُشمنی تیز کر دی، جس نے مُجھے ایک بار پِھر تلخ بنا دیا۔ مَیں نے یہ سوال کرنا نہ چھوڑا کہ آخر کیوں، لیکن میرا اُن کے ساتھ سلوک ویسا ہی برادرانہ رہا۔ اگرچہ مَیں نے اُن کے قریب جانے اور ہمارے درمیان جمی برف کو توڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن میرے مثبت رویہ کو پذیرائی نہیں ملی۔ میرے لئے اِس کے سِوا کوئی چارہ نہ تھا کہ معاملہ کو خُداوند کے حضور رکھوں۔ موسم گرما کی ایک رات مَیں نے اِس صورتحال میں مدد کےلئے لشکروں کے خُداوند کو پکارا۔ نہ جانے کب تک گھٹنوں کے بل گرا رہا، حتیٰ کہ مُجھ پر غنودگی چھا گئی۔ رات کا آخری پہر تھا کہ ایک تیز آواز نے مُجھے پکارا: "اُٹھ اور زبور 84 پڑھ۔"

مَیں گھر میں اکیلا تھا، اِس لئے مُجھے شک نہیں ہُوا کہ یہ خُداوند کی آواز تھی، اور یہ کہ زبور میں میرے لئے ایک پیغام تھا۔ لیکن دِن بھر کی تھکان کے باعث فوراً نہ اُٹھا بلکہ سو گیا، لیکن صبح سویرے آواز نے مُجھے پِھر جگایا کہ "اُٹھ، زبور 84 کو پڑھ۔" مَیں بستر سے اُٹھا، اپنی بائبل اٹھا لی اور زبور 84 پڑھنے کےلئے گھٹنے ٹیک دیئے۔ تلاوت کے دوران مَیں لفظ لفظ پر غور کرتا رہا، مُجھے ایسا لگا کہ یہ میرے لئے خُدا کا پیغام ہے۔ پڑھتے پڑھتے مَیں پانچویں اور چھٹی آیت تک پہنچا: "مُبارک ہے وہ آدمی جِس کی قُوّت تُجھ سے ہے۔ جِس کے دِل میں صِیُّون کی شاہراہیں ہیں۔ وہ وادیِ بُکا سے گُزر کر اُسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں۔ بلکہ پہلی بارِش اُسے برکتوں سے معمور کر دیتی ہے۔"

مَیں نے خُدا کے بیٹے کی صلیب میں محبّت خُداوندی کا نظارہ کیا۔ تب مَیں نے جانا کہ جو مُنجی کے نقش قدم کی اِتّباع کرنا چاہتے ہیں اُن کےلئے آنسوؤں کی وادی سے گزرنا ضرور ہے، اور وہ مَردِ غم ناک اور رنج کے آشنا کے دُکھ و رنج میں شریک ہوں گے، اور ایسا وہ بطور فرض نہیں بلکہ اُس کےلئے محبّت کی خاطر کریں گے جِس نے اپنے پیاروں کی خاطر اپنی جان دی۔ تبھی اُن پر رسولی کلام کا اطلاق ہو سکتا ہے: "اَے میرے بھائِیو! جب تُم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اِس کو یہ جان کر کمال خُوشی کی بات سمجھنا کہ تُمہارے اِیمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے۔ اور صبر کو اپنا پُورا کام کرنے دو تا کہ تُم پُورے اور کامِل ہو جاؤ اور تُم میں کِسی بات کی کمی نہ رہے" (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 2۔ 4)۔

اِس پیغام نے مُجھ میں حیرت انگیز قدرت کے ساتھ کام کیا، اور اِسی میں مَیں نے محبّت کی فتح دیکھی، محبّت جو بہت سے گناہوں کو ڈھانپ دیتی ہے۔ خُداوند نے مُجھے نیا فضل عطا کیا تا کہ مَیں دوستوں کے سِتم سہنے کے لائق بن جاؤں۔

مسیح کا جؤا

ایک دِن تجارتی لین دین کے دوران مسٹر ایم ایم میرے پاس آئے جو بیروت کے ایک تاجر کی طرف سے وصولی کےلئے آئے تھے۔ ایسا ہُوا کہ حساب میں میرے ذمہ ایک سو شامی پاؤنڈ تھے۔ چونکہ شامی اور لُبنانی کرنسیوں میں فرق نو فیصد تھا، میں نے مسٹر ایم ایم سے کہا، "براہ مہربانی تاجر صاحب سے بعد سلام عرض کر دینا کہ وہ میرے حساب میں نو پاؤنڈ کا اضافہ کر لیں۔" اگرچہ میری درخواست معقول تھی اور کاروباری حلقوں میں ایسا کرنا عام بات تھی، لیکن ایم ایم صاحب بھڑک اُٹھے اور کہنے لگے "تم مُجھ سے واقف نہیں ہو، مَیں سانپ کا سر اپنے پاؤں سے کچل سکتا ہوں۔"

اُن کی یہ باتیں ناگوار تھیں، لیکن مَیں مسیح کے فضل سے بدتمیزی کا جواب مہربانی کے رویہ سے دے سکا۔ یہی نعمت میرے نوجوان بیٹے میں بھی ہے جِس نے اِس اہانت کے گھونٹ کو پی لیا اور ایک دوسرے نوجوان کی مدد سے اُن صاحب کو نرمی سے دکان سے باہر لے گیا۔

اِس شخص کی حرکت نے مُجھ پر بڑا بُرا اثر ڈالا۔ دِل نے چاہا کہ اُس پر ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ کروں، لیکن مسیح کے جلال کی خاطر سب کُچھ برداشت کرنے والی محبّت نے اُس کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کے بارے میں میرا ذہن فوراً ہی بدل دیا۔

جب مَیں اپنے بیٹے کو خُداوند کے حکم کے مطابق کہ "شریر کا مقابلہ نہ کرنا" (اِنجیل بمطابق متّی 5: 39) درگزر کرنے کے بارے میں بتا رہا تھا تو ایم ایم صاحب واپس آئے، جِن کے چہرے پر شرمندگی تھی۔ دُکان کی دہلیز میں داخل ہونے سے پہلے ہی کہنے لگے، "مَیں مسیح کے نام میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ مُجھے معاف کر دیجئے۔" مَیں نے جواب دیا: "مَیں نے آپ کو معاف کرنے کےلئے اِس وقت کا انتظار نہیں کیا۔ مَیں نے تو آپ کو پہلے ہی معاف کر دیا تھا۔ اگر معاف نہ کر دیا ہوتا تو لوگ دوسرا ہی منظر دیکھتے۔"

"مُجھے معاف کر دیں، مُجھے معاف کر دیں" اُنہوں نے التجا بھرے لہجے میں دہرایا، گویا وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھے۔ مَیں نے گرمجوشی سے اُنہیں گلے لگایا، کرسی پر بٹھایا، اور پِھر اپنے بیٹے سے کہا، "جاؤ قریبی چائے خانہ میں جاؤ اور ایک پیالہ قہوہ کا لا کر اِنہیں پیش کرو۔" مَیں نے اُن سے کہا "ایم ایم صاحب، خُدا آپ کو معاف کرے۔"

اِس واقعے کے دوسرے دِن جب مَیں مار الیاس سیکنڈری اسکول میں طلبہ کو درس دے رہا تھا تو ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر گفتگو کی اِجازت چاہی۔ پِھر بولا "کل کے واقعہ کو مَیں نے بازار میں دیکھا تھا، مُجھے تو بڑا غصہ آیا۔ اِنسان کو اتنا بھی بزدل نہیں ہونا چاہئے کہ اِس طرح ذِلّت برداشت کر لے۔"

مَیں نے درس روک دیا، اور اُس موقع کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو "سنہری اصول" کے بارے میں بتایا جو مسیح نے مسیحیت کےلئے مقرر کیا تھا:

"تُم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ شرِیر کا مُقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دُوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تُجھ پر نالِش کر کے تیرا کُرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اُسے لے لینے دے۔ اور جو کوئی تُجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تُجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تُجھ سے قرض چاہے اُس سے مُنہ نہ موڑ۔" (اِنجیل بمطابق متّی 5: 38۔ 41)

اِس سے پہلے کہ مَیں اِس موضوع پر تبصرہ شروع کرتا مَیں نے طالب علم سے کہا: "میرے دوست، مَیں بزدل نہیں ہوں۔ میرے پاس ملٹری کراس کا اعزاز ہے، اور یہ تمغہ بہادری کے کارناموں کے سِوا فوجیوں کو نہیں دیا جاتا۔" ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد مَیں نے بات جاری رکھی، "دوسروں کے بُرے رویہ کو برداشت کرنا اور ویسے برتاؤ سے گریز کرنا واقعی ایک شجاعت ہے۔" اِس تمہید کے بعد، مَیں نے پولس رسول کے الفاظ کا حوالہ دیا: "بلکہ اگر تیرا دُشمن بُھوکا ہو تو اُس کو کھانا کِھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پِلا کیونکہ اَیسا کرنے سے تُو اُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 12: 20)۔

اِس کے بعد مَیں نے کلاس کو سمجھایا کہ اگر مَیں مسٹر ایم ایم کا سا رویہ اپناتا تو اِس کا نتیجہ گالی گلوچ یا ہاتھا پائی بھی ہو سکتا تھا اور یوں مَیں گر کر اُن کی سطح پر آ جاتا۔ مسیح کے ایک شاگرد کے طور پر مَیں نے ایسا کام کرنے سے انکار کر دیا۔ مُجھے فخر ہے کہ مَیں نے مسیح کی فروتنی اپنائی اور اُن صاحب کی بدی کا قلع قمع کر دیا۔ یوں جیسے مسٹر ایم ایم کے واقعہ میں نیک اُستاد یسوع نے جلال پایا، ویسے ہی مَیں نے طلبہ کے سامنے اپنے اُستاد یسوع کی بزرگی بیان کی اور اُس کے فضل و کرم کی ستایش کی۔ یوں ایک سپرد یافتہ زِندگی جِس نے مسیح کو خوش آمدید کہا اور اُس کا جؤا اُٹھایا اُن کے سامنے تھی جِس میں خُدا کا فضل کام کر رہا تھا۔

مزید مخالفت

یہ 1955ء کا موسم بہار تھا، خُدا کے لوگوں پر حملہ کرنے والے شیطان نے پِھر لڑائی ڈالنے کی کوشش کی اور اِس بار وہ کُچھ کامیاب بھی ہُوا۔ ہُوا یہ کہ چرچ کے چوپان نے جِن کے ساتھ مَیں بغیر کسی معاوضہ کے کام میں ہاتھ بٹاتا تھا، افواہوں پر کان دھرنا شروع کیا۔ نتیجتاً، اُن کا میرے بارے میں رویہ منفی ہو گیا۔ اگرچہ مُجھے وہ باتیں یاد ہیں لیکن مَیں اُس محبّت کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیلات بتانے سے گریز کروں گا جو بدگمانی نہیں کرتی، اپنی بہتری نہیں چاہتی اور برائی سے خوش نہیں ہوتی۔

یہ افسوسناک واقعہ تھا کیونکہ یہ پیاروں کو چھوڑنے کا سبب بنا۔ پِھر بھی جماعت کو چھوڑنے سے پہلے مَیں نے پورا ایک ہفتہ دُعا، روزہ اور غور و فکر کرنے میں گزارا۔ مَیں نے خُدا کے حضور جِس کی پرستش مَیں رُوح میں کرتا ہوں درخواست کی کہ مُجھے وہ سمت دِکھائے جہاں وہ مُجھے لے جانا چاہتا ہے۔ مَیں نے دُعا کی کہ وہ مُجھے اپنے قیمتی کلام میں سے کوئی واضح پیغام عنایت کرے۔ خُدا نے میری درخواست کا جواب دیا اور میری پریشانی دور کر دی۔ ساتواں دِن تھا، مَیں نے کتابِ مُقدّس کھولی تو صحیفہء یرمیاہ چالیسواں باب چوتھی آیت میرے سامنے تھی: "اور دیکھ آج مَیں تُجھے اِن ہتھکڑیوں سے جو تیرے ہاتھوں میں ہیں رہائی دیتا ہُوں۔ اگر میرے ساتھ بابل چلنا تیری نظر میں بِہتر ہو تو چل اور مَیں تُجھ پر خُوب نِگاہ رکُھّوں گا اور اگر میرے ساتھ بابل چلنا تیری نظر میں بُرا لگے تو یہِیں رہ۔ تمام مُلک تیرے سامنے ہے۔ جہاں تیرا جی چاہے اور تُو مُناسِب جانے وہِیں چلا جا۔"

یہ پیغام میرے لئے بالکل واضح تھا۔ مَیں طرابلس کے پریسبٹیرین چرچ میں گیا جہاں مُجھے مسیح کے بدن کے رکن کے طور پر قبول کیا گیا۔ کلیسیا کے ارکان نے مُجھے ایک پیارے بیٹے کی طرح خوش آمدید کہا اور اپنے دِلوں پر میرا نام لکھ لیا۔ میری واپسی پر بھائیوں نے خوشی کا یوں اِظہار کیا کہ مُجھے ایک ایلڈر بنا کر سفری مناد بنا دیا اور اِنجیل کی خدمت کےلئے عكار، كورة اور منصف کے علاقوں میں مقرر کیا۔

مَیں نے شہر حاکور میں منادی کی خدمت سرانجام دینے کے دوران جِس سرور کا تجربہ کیا اُس کے بارے میں وہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے الہٰی نجات کی مٹھاس کا مزہ چکھ لیا ہے اور اُس کی خدمت کےلئے وقف ہو چکے ہیں۔ اُس وقت مُجھے خُداوند اپنے نجات دہندہ کے الفاظ یاد آئے: "دیکھ مَیں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھّا ہے۔ کوئی اُسے بند نہیں کر سکتا کہ تُجھ میں تھوڑا سا زور ہے اور تُو نے میرے کلام پر عمل کیا ہے اور میرے نام کا اِنکار نہیں کیا" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 3: 8)۔

ایک ناکام تاجر

مَیں اپنے کاروبار میں کامیاب نہیں ہُوا۔ شروع سے ہی مُجھے بہت نقصان ہوتا رہا۔ اِس کی سب سے پہلی وجہ کُچھ لوگوں کی بےایمانی تھی جِن کے ساتھ میرے تجارتی معاملات تھے، ایسے بےایمان لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے غلط طریقوں کے استعمال سے ججھکتے نہ تھے۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ جنگ کے اختتام پر دو سال تک قیمتوں میں بہت کُچھ اُتار چڑھاؤ ہُوا، خصوصاً جب جنگِ کوریا بھڑکی۔ اِن عوامل کی وجہ سے میرا سامان ایک ہی جگہ رہا اور وقت کے ساتھ اُس کی قدر گر گئی اور میرا سرمایہ ضائع ہُوا۔ نتیجتاً، مَیں کاروبار جاری رکھنے سے قاصر رہا۔

دس سال کی سخت محنت کے بعد مَیں نے اپنے آپ کو انتہائی ابتر صورتحال میں پایا۔ دکان سامان سے بھری تھی، اِس کے مقابلہ میں بہت سی ادائیگیاں کرنی تھیں جِس سے کاروبار کی ساکھ خطرہ میں پڑ گئی۔ کُچھ ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ مُجھے اپنا قیمتی سامان چھپانے کے بعد دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دینا چاہئے۔ اُنہوں نے مزید کہا: "ایسی صورتحال میں سب ایسا کرتے ہیں کہ 15 سے 20 فیصد ادا کر کے قرض دہندگان کے ساتھ تصفیہ کرتے ہیں۔ اِس طرح سے تم اپنا سرمایہ بچا سکتے ہو۔"

مَیں نے مشورہ دینے والوں سے کہا: "نہیں، شکریہ۔ مَیں مسیح کا ایک شاگرد ہوں جو مسیح کی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے جِس نے کہا کہ 'جان دینے تک بھی وفادار رہ تو مَیں تُجھے زِندگی کا تاج دُوں گا' (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 2: 10)۔"

کئی مہینوں تک مَیں شش و پنج کا شکار رہا، اور کاروبار جاری رکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک دِن اچانک ایک نوجوان نے آ کر دُکان اور سارا سامان خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مَیں فوراً راضی ہو گیا اور اُنہوں نے فوراً ادائیگی کر دی جو اتنی ضروری تھی کہ مَیں اپنا سارا قرض ادا کر سکا اور پِھر بھی چند سو پاؤنڈ بچ رہے۔

دُکان کی فروخت کا صدمہ میری بیوی اور بیٹی کےلئے گہرا تھا۔ اب مُجھے اور میرے بیٹے کو زِندگی سے جدوجہد کرنا تھی۔ دُکان کو نئے مالک کے حوالہ کرنے سے پہلے مَیں پیچھے گودام میں گیا اور خُدا کے حضور شکرگزاری کی اور آنے والے دِنوں کو اُس کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔ اُس نے اپنی محبّت میں مُجھے تربیت کی چھڑی کا مزہ چکھایا کہ اپنے مالی نقصان کو ایک نعمت اور اپنے تکبر کی باقیات سے رہائی پا کر حلیمی حاصل کرنے کا موقع سمجھوں۔

جب کاروبار کی فروخت کے بعد گھر لوٹا تو میری بیوی اور بیٹی رونے لگیں۔ مَیں نے مسکرا کر اُن کا دِل بڑھایا اور کہا: ''خوف نہ کرو اور اپنے دِل کو پریشان نہ ہونے دو کیونکہ ہم خُدا پر ایمان و توکل رکھنے والوں میں ہیں جِس نے کہا ہے 'مَیں نہ تُجھ سے دست بردار ہُوں گا اور نہ تُجھے چھوڑُوں گا۔' ہم خُدا پر اُمّید رکھتے ہیں اور اُس کی رحمت پر بھروسا کرتے ہیں۔' پِھر مَیں نے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا، ''مسیحی گیت کی کتابیں اُٹھا لاؤ، ہم سب پر واجب ہے کہ اپنی نجات کے خُدا کی حمد کے گیت گائیں، کیونکہ اَب تک اُس نے ہماری مدد کی ہے اور ہم سے اپنی شفقت کو باز نہیں رکھا، نہ ہی اپنے فریاد کرنے والوں کو شرمندہ کیا ہے، نہ ہی ہمارے پاؤں کو پھسلنے دیا ہے۔'

اِن گیتوں کے باعث ہمارا خاندان خُدا کے نزدیک آیا۔ ہم نے اپنی رُوح میں زبور نویس کا سا جذبہ محسوس کیا جِس کا بیان اِن الفاظ میں ہے: ''۔۔۔ میرے لِئے یِہی بھلا ہے کہ خُدا کی نزدِیکی حاصِل کرُوں۔ مَیں نے خُداوند خُدا کو اپنی پناہ گاہ بنا لِیا ہے تا کہ تیرے سب کاموں کا بیان کرُوں'' (پرانا عہدنامہ، زبور 73: 28)۔

گیت کی کتاب اُٹھاتے ہی سب پُرسکون ہو گئے۔ چند لمحات کی خاموشی کے بعد جب دِل اپنے نجات دہندہ، خُداوند اور اچھے چرواہے کی طرف متوجہ ہوئے، تو ہم نے گیت گانا شروع کیا:

Table 1. 

خُدا کے سپاہیوجو خُداوند کے لشکر میں آئے ہو    
ہمارے فاتح بادشاہ کا شکر کرتے ہوئےابدی فتح کےلئے اُس کی ستایش کرو    

اُداسی سے رنگی آوازیں بلند ہوئیں۔ لیکن جب ہم نے مل کر یہ کورس گایا کہ ''نجات کا کام پورا ہُوا، ہالیلویاہ، ہمارے خُداوند یسوع کےلئے گاؤ'' تو ہم سب کی آوازوں میں خوشی کا عنصر نمایاں تھا، جِس سے ہمیں خُداوند کی تسلی ملی، جو رُوح القدس نے ہمارے دِلوں میں انڈیلی۔ جب ہم نے خُدا کے اطمینان کا اظہار کیا جِس سے ہمارے رُوحیں معمور ہو گئی تھیں تو ہماری آنکھیں چمک اُٹھیں۔ پِھر کتابِ مُقدّس کے ایک حصہ کی تلاوت کرنے کے بعد ہم نے اُس ذاتِ پاک کا شکریہ ادا کیا جِس نے ہم سے محبّت رکھی اور تربیت کی چھڑی سے ہماری اصلاح کی۔ یوں خُداوند پر ہمارے عزم کو تقویت ملی جِس نے فرمایا: ''تُمہاری قدر تو بُہت سی چِڑیوں سے زیادہ ہے'' (متّی 10: 31)۔

ہم میں سے ہر ایک اِس بات پر خوش تھا کہ خُدا نے ہم سے وہ تکبّر دُور کیا جو عالم بالا کی چیزوں کی تلاش کی ہماری کوششوں میں رکاوٹ تھا۔ اَب وہ ہمیں مسیح کا جؤا اُٹھانے اور اُس کے قدموں میں حلیمی اور فروتنی کا سبق سیکھنے کےلئے تیار کر رہا تھا۔

مَیں اور میرے بڑے بیٹے نے کُچھ وقت کام کی تلاش میں گزارا، کئی دروازے کھٹکھٹائے اور مایوسی کا سامنا کیا۔ لیکن ہمیں سب سے زیادہ مایوسی کُچھ مشنریوں کے رویے سے ہُوئی۔ اپنے اسکول میں خالی آسامی کے باوجود اُنہوں نے مُجھے ملازمت دینے سے انکار کر دیا۔ میرا صبر، جو مصائب کے باعث پختہ ہو چکا تھا، خاموشی سے اُن کی مخالفت کو برداشت کرتا رہا۔

خُداوند نے ہماری فریاد سُنی۔ اُس نے میرے بیٹے کو سعودی عرب کے صحراؤں میں کام فراہم کیا۔ دُکان کی فروخت کے آخری پچاس پاؤنڈ خرچ کرنے سے پہلے مُجھے نیشنل ایونجیلیکل چرچ کے سنڈ اسکول میں کام مل گیا، اور وہاں کے منتظمین نے میرا استقبال کیا۔ مُجھے میرے تدریسی فرائض کے علاوہ طلبہ کی رُوحانی زندگی کی ذمہ داری دی گئی۔ مَیں اِس نتیجے سے بہت خوش تھا۔ جِس چیز نے میرے دِل کو زیادہ خوشی بخشی وہ لائبریری میں ہر صبح منعقد ہونے والی دُعائیہ میٹنگ میں طلبہ کا زبردست ردعمل تھا۔ مَیں پرائمری حصہ کے طلبہ کو دینی تعلیم دینے میں بھی شامل تھا۔

خون تمہارے لئے ایک نشان ہو گا

1958ء میں لُبنان کے خونی واقعات کے دوران، ہم فوجی بیرکوں اور باغیوں کے مضبوط گڑھ کے درمیان ایک علاقے میں رہتے تھے۔ باغی ہمارے محلہ میں داخل ہو کر اُن لوگوں کو گرفتار کرتے جِن کی سیاسی وفاداریاں مشکوک تھیں۔ ایک دن ایک شناسا نے میرے پاس آ کر کہا: "مَیں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ شہر چھوڑ دیں۔ باغیوں کی آپ پر نظر ہے۔ اُن میں سے ایک نے یہ بات پھیلائی ہے کہ تم انقلاب کے مخالف ہو۔"

"مَیں کسی کا مخالف نہیں ہوں۔" مَیں نے مخبر سے کہا "اگر مَیں باغیوں کی تحریک کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تو مَیں نے اُس کی مزاحمت بھی نہیں کی۔ مَیں ایک امن پسند شہری ہوں، اور اُن معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا جِن سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔"

اُس نے جواب دیا: "کہتے تو آپ ٹھیک ہیں۔ لیکن میرے پاس جو معلومات ہیں اُن سے مُجھے اندیشہ ہے کہ آپ پر آفت آنے والی ہے۔ اِس لئے مَیں اپنا مشورہ دہراتا ہوں کہ آپ اپنے خاندان کے ساتھ چلے جائیں۔"

ہم اپنی حفاظت کےلئے لوگوں کے گھروں میں پناہ نہیں لے سکتے تھے کیونکہ ہر کوئی خوفزدہ تھا۔ درحقیقت زیادہ تر آبادی پہاڑوں کی طرف بھاگ گئی تھی۔ لیکن ہم اُس کو جانتے تھے جس نے کہا تھا: "جو کوئی تُم کو چُھوتا ہے میری آنکھ کی پُتلی کو چُھوتا ہے" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 2: 8)۔

ہم نے اُس خُدا میں پناہ لی جو حلیموں کا محافظ ہے۔ اُس کی پاک رُوح نے ہمیں رہائی کا راستہ دکھایا۔ ایک رات تیز گولہ باری ہو رہی تھی، ہم معمول کے مطابق خاندنی دُعا کےلئے جمع ہوئے۔ مَیں نے کتابِ مُقدّس کھولی اور خروج کی کتاب کا بارھواں باب نکالا اور جو خُدا نے موسیٰ نبی سے کہا تھا، پڑھا:

"تُمہارا برّہ بےعیب اور یک سالہ نر ہو اور ایسا بچّہ یا تو بھیڑوں میں سے چُن کر لینا یا بکریوں میں سے۔ اور تُم اُسے اِس مہینے کی چودھوِیں تک رکھ چھوڑنا اور اِسرائیلیوں کے قبِیلوں کی ساری جماعت شام کو اُسے ذبح کرے۔ اور تھوڑا سا خُون لے کر جِن گھروں میں وہ اُسے کھائیں اُن کے دروازوں کے دونوں بازُوؤں اور اُوپر کی چَوکھٹ پر لگا دیں۔ اور وہ اُس کے گوشت کو اُسی رات آگ پر بُھون کر بےخمِیری روٹی اور کڑوے ساگ پات کے ساتھ کھا لیں۔ اُسے کچّا یا پانی میں اُبال کر ہرگز نہ کھانا بلکہ اُس کو سر اور پائے اور اندرُونی اعضا سمیت آگ پر بھُون کر کھانا۔ اور اُس میں سے کُچھ بھی صُبح تک باقی نہ چھوڑنا اور اگر کُچھ اُس میں سے صُبح تک باقی رہ جائے تو اُسے آگ میں جلا دینا۔ اور تُم اُسے اِس طرح کھانا اپنی کمر باندھے اور اپنی جُوتیاں پاؤں میں پہنے اور اپنی لاٹھی ہاتھ میں لِئے ہُوئے۔ تُم اُسے جلدی جلدی کھانا کیونکہ یہ فَسح خُداوند کی ہے۔ اِس لِئے کہ مَیں اُس رات مُلکِ مِصر میں سے ہو کر گُذروں گا اور اِنسان اور حَیوان کے سب پہلوٹھوں کو جو مُلکِ مِصر میں ہیں مارُوں گا اور مِصر کے سب دیوتاؤں کو بھی سزا دُوں گا۔ مَیں خُداوند ہُوں۔ اور جِن گھروں میں تُم ہو اُن پر وہ خُون تُمہاری طرف سے نِشان ٹھہرے گا اور مَیں اُس خُون کو دیکھ کر تُم کو چھوڑتا جاؤں گا اور جب مَیں مِصریوں کو مارُوں گا تو وبا تُمہارے پاس پھٹکنے کی بھی نہیں کہ تُم کو ہلاک کرے۔" (پرانا عہدنامہ، خرُوج 12: 5۔ 13)

تلاوت کے بعد گھٹنوں کے بل ہو کر ہم نے اپنے خُدا سے جو اپنے مُقدّسوں کی رُوحوں کا نگہبان ہے، عرض کی کہ ہماری دہلیز و چوکھٹ پر بھی وہ خونِ مسیح جو ہمارے فسح کا نشان ہے لگا دے (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 5: 7)۔ خُدا نے اِیمانی دُعا کا جواب دیا اور ہمیں اُس رات اور آگے کی راتوں میں خطرے سے بچایا۔

زیادہ دیر نہیں گزری، حالات بدتر سے بدترین ہوتے گئے۔ بجلی اور پانی منقطع کر دیئے گئے، اور بازار سے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کےلئے جانے کا مطلب گولی سے ممکنہ موت تھی۔ وسائل کی کمی کے باعث ہم پہاڑوں میں پناہ لینے کےلئے نہیں جا سکتے تھے۔ اِس لئے مَیں نے خُدا سے درخواست کی کہ وہ ہمارے لئے شہر سے باہر کسی دور دراز جگہ جانے کا انتظام کرے جہاں مُجھے اُس کی خدمت کرنے کا موقع ملے۔ خُداوند نے میری دُعا کا جواب دیا اور میرے دِل کی مراد پوری ہوئی۔ دوسرے دِن مَیں اپنے محلہ سے نکل کر بیروت کی طرف گیا، جہاں میری ملاقات مسز ایلس خوری سے ہوئی جو ایک چرچ کے پاسبان کی بیوی تھیں۔ جیسے ایک ماں اپنے بچوں سے محبّت کرتی ہے، ویسی محبّت اُنہوں نے ہمارے خاندان کو دِکھائی۔

اُنہوں نے فون پر ڈاکٹر فرید عودہ سے گفتگو کی اور اُن کے گھر پر پاسبانوں کے اکٹھے ہونے کا بندوبست کیا۔ اِس جماعت نے مسیح کی محبّت میں میری مدد کی۔ اُنہوں نے بیروت سے باہر کے علاقہ المتن میں مروج کے چرچ میں میرا تقرر کیا۔ مَیں ہر قسم کے خطرے سے دور، نجات دہندہ کی خدمت میں تین مہینے گزار کر بہت خوش ہُوا۔ خُداوند نے میری خدمت اور ایک محفوظ پناہ گاہ کی درخواست کا جواب دے کر اپنی بھلائی دکھائی اور یوں میرا لئے یہ الہٰی قول پورا ہُوا: "اور یُوں ہو گا کہ مَیں اُن کے پُکارنے سے پہلے جواب دُوں گا اور وہ ہنُوز کہہ نہ چُکیں گے کہ مَیں سُن لُوں گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 65: 24)۔

مُجھے اپنے خاندان کو طرابلس سے لانے کےلئے ریاض الصلح چوک سے گزرنا پڑا جہاں ہر وقت گولی کی آواز سُنائی دیتی تھی، لیکن مُجھے کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ایک اَور حیرت انگیز تجربہ چار ماہ بعد کا ہے۔ ہُوا یہ کہ میری اہلیہ سامان لینے طرابلس گئی ہوئی تھیں، جب وہاں پہنچیں تو تالا ٹوٹا پڑا تھا، گھر کُھلا تھا لیکن کوئی چیز غائب نہیں تھی۔ بےشک مسیح کے خون نے ہماری جان و مال کی حفاظت فرمائی تھی۔

مروج کی خدمت میں بڑی برکتیں ملیں۔ المتن میں آنے والے پناہ گزینوں میں بہت سے ایونجیلیکل مسیحی بھی تھے جو ہر اتوار گرجے میں آتے۔ اِس سے میرے دِل کو خوشی ہوئی اور میری رُوح تازہ ہو گئی۔ ایسی صورتحال میں سنڈ کے سیکرٹری پادری داغر کی بات میں حکمت نظر آئی کہ اپنا سارا وقت کلیسیا میں مسیح کی خدمت میں لگا دو۔ مَیں نے اِس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا اور خُدا کی راہنمائی کےلئے دُعا کرنا شروع کی۔ جلد ہی اِنجیل کی خدمت کا بلاوا آیا۔ یوں مَیں خُدا کے خادموں کی صف میں شامل ہو گیا۔ جب سنڈ کے سیکرٹری داغر صاحب تشریف لائے تو مَیں نے اُنہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اُنہوں نے کمیٹی کو بخوشی میرے تقرر کی سفارش کی جِس نے یکم ستمبر 1958ء کو مرجعیون کی کلیسیا میں میرا تقرر بطور مبلغ و مبشر کر دیا۔

10۔ عملی خدمت

"تُم نے مُجھے نہیں چُنا بلکہ مَیں نے تُمہیں چُن لیا اور تُم کو مُقرّر کیا کہ جا کر پھل لاؤ اور تُمہارا پھل قائم رہے تا کہ میرے نام سے جو کُچھ باپ سے مانگو وہ تُم کو دے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 15: 16)

مرجعیون میں اپنی عملی خدمت کے دوران مُجھے خُدا کا خصوصی فضل عطا ہُوا۔ نبطیہ میں ایک ریڈنگ روم تھا جِس کا مَیں منتظم تھا۔ یہاں آنے والے اسکول کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ مُجھے دوستانہ روابط قائم کرنے کے موقع ملے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اِن روابط سے تعلیمی حلقے میں اِنجیل کی خدمت کا دروازہ کھلا۔ مزید برآں، جلد ہی مُجھے اِن طلبہ کا اعتماد حاصل ہُوا جو اکثر اپنے ذاتی مسائل کے حوالے سے مُجھ سے مشورہ طلب کرتے۔ مُجھے نیشنل ایونجیلیکل سنڈ سے منسلک اسکول میں خُدا کے کلام کو پھیلانے کا موقع بھی ملا۔ ہر کلاس کی مذہبی تعلیم میرے سپرد تھی، اور تمام اساتذہ اور طلبہ کےلئے ایک ہفتہ وار وعظ بھی میرے فرائض میں شامل تھا۔

مَیں نے چرچ میں ریورنڈ ودیع انطون کے ساتھ خدمت سرانجام دی جو وہاں پاسبان تھے۔ مُجھے اَب تک وہ برکات یاد ہیں جو خُدا نے نجات کی خوشخبری بانٹتے وقت ہمیں عطا کیں۔ مَیں شہر نبطیہ میں پانچ سال رہا، اور وہ ایک وسیع تر خدمت کےلئے مطالعہ اور تیاری کا عرصہ تھا۔ اِس دوران مَیں نے آرٹس اور الہٰیات کا امتحان پاس کیا اور نیشنل ایونجیلیکل سنڈ سے خدمت کا لائسنس حاصل کیا۔ اِس کے بعد مُجھے پورٹ چرچ اور ایونجیلیکل ہسپتال کا پاسبان منتخب کر لیا گیا۔ پورٹ چرچ میں چاہے کلیسیائی عبادات ہوں، یا ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ خُدا کا کلام بانٹنا ہو، ہسپتال سے منسلک نرسنگ سکول میں بائبل کی تعلیم دینا ہو، یا پِھر طرابلس میں خواتین کی میٹنگ میں افسیوں کے خط پر بائبل اسٹڈی میں راہنمائی ہو، خدمت بہت بابرکت ثابت ہوئی۔

طرابلس کی میری خدمت طویل نہیں رہی۔ ایک سال بعد ہی ہسپتال بند ہونے کی نوبت آ گئی جو گذشتہ پانچ سالوں سے مالی کمی کا شکار تھا۔ چونکہ پورٹ چرچ کے تمام ارکان ہسپتال میں کام کرتے تھے، اِس لئے ظاہر تھا کہ چرچ کا کام بھی بند ہو جانا تھا۔ جب ایسا ہُوا تو میرے پاس کوئی کام نہ رہا۔ اُسی وقت میرے بڑے بیٹے جِس نے خاندان کا زیادہ تر مالی بوجھ اٹھایا ہُوا تھا، امریکہ میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کےلئے سعودی عرب میں کام چھوڑ دیا۔ اِن حالات کے امتزاج کے باعث پریشانی فطری تھی۔ بعض دوستوں کے مشورہ سے مَیں نے کرمل مشن میں مبشر کی حیثیت سے کام کی درخواست بھیجی، لیکن خُدا نے اپنی حکمت میں میرے لئے ایک مسیحی اشاعتی ادارے میں ایک سال کےلئے کام کا منصوبہ بنا رکھا تھا، جہاں مُجھے بڑی تعداد میں مسیحی کتابوں کا ترجمہ کرنے، لکھنے اور ایڈیٹنگ کرنے اور اُن کی طباعت کی نگرانی کا موقع ملا۔

سال ختم ہوتے ہی ریورنڈ عبد المسیح نے مُجھ سے ملاقات کی اور یہ تجویز پیش کی: "ریورنڈ ڈاکٹر فرید عودہ نے ہم سے درخواست کی ہے کہ ضبیۃ، الحدت اور الرابیہ میں ایک پاسبان کا انتظام کر دیں، اور کُچھ غور و خوض کے بعد ہماری نظر انتخاب آپ پر پڑی ہے۔ کیا آپ ہمارے ساتھ پاسبانی خدمت میں واپس آنے کا سوچیں گے؟"

ریورنڈ عبد المسیح نے مزید کہا، "مُجھے مشن بورڈ کہا ہے کہ آپ کو فیصلہ کرنے کےلئے دو ہفتہ دوں تا کہ آپ اِس بارے میں دُعا کر سکیں۔"

یہ جولائی 1965ء کا پہلا ہفتہ تھا اور اُسی رات مَیں نے فضل کے تخت کے سامنے دُعا میں معاملہ رکھنا شروع کیا۔ مَیں نے قضاۃ 6: 36۔ 40 میں جدعون جیسا طریقہ اختیار کیا تا کہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اِس معاملے میں خُداوند کی کیا مرضی ہے۔

خُدا نے اِس وقت کے ختم ہونے سے پہلے ہی اپنی مرضی واضح کر دی۔ تب میری خوشی بڑی دیدنی تھی اور مَیں نے مشن کے سربراہ ریورنڈ مارٹن شپانگن برگ کے پاس جا کر اُنہیں ایک پاسبان کے طور پر کام شروع کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ 15 اکتوبر 1965ء کو ہمارے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔ اور اُسی سال 14 نومبر کو بیروت ایونجیلیکل چرچ میں ایک بڑی تقریب کے دوران میرا بطور پادری تقرر کیا گیا جِس میں بارہ پادری صاحبان شریک تھے۔ جب ریورنڈ فرید عودہ نے مُجھے بطور پاسبان اپنی ذمہ داریوں کی یاد دلائی کہ مَیں خُداوند کا سفیر ہوں، مُجھے خُدا کے لوگوں کی بطور نگہبان اور مختار ہدایت و مشاورت کرنی ہے، راست بازی کی راہ کی طرف اُن کی راہنمائی کرنی ہے، اُن لوگوں کی حفاظت کرنا ہے جِن کو اُس نے اپنی موت سے خریدا اور جِن کےلئے اُس نے اپنا خون بہایا تھا، اور اُن سب لوگوں کی الہٰی عرفان اور مسیح میں پختگی کی تکمیل کی طرف راہنمائی کرنی ہے جو میری سپردگی میں دیئے گئے ہیں تو اِس بھاری ذمہ داری کا مُجھے گہرا احساس ہُوا۔

جب بارہ پاسبانوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر مُجھے دُعا اور برکت دی اور کہا: "ہم تمہیں خدمت کا دہنا ہاتھ پیش کرتے ہیں کہ اِس مبارک خدمت میں ہمارے شریک ہو" تو مَیں احساسِ تشکر سے جھوم اُٹھا۔

حصّہ دوّم: خطوط کا ایک تبادلہ

1۔ ایک بھائی حقّ کا متلاشی ہے

"مُجھے بڑا غم ہے اور میرا دِل برابر دُکھتا رہتا ہے۔ کیونکہ مُجھے یہاں تک منظُور ہوتا کہ اپنے بھائِیوں کی خاطِر جو جِسم کے رُو سے میرے قرابتی ہیں مَیں خُود مسیح سے محروم ہو جاتا۔" (نیا عہدنامہ، رومِیوں 9: 2، 3)

1936ء میں جب ہمارے والد کی وفات ہوئی تو مُجھے اپنے بھائیوں کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کا موقع ملا، اور ایک طرح کی مصالحت سی ہو گئی۔ جب بعد تجہیز و تکفین مَیں حمص اپنے گھر لوٹا تو چھوٹے بھائی حسّان کو بھی ساتھ لیتا آیا۔ وہ کُچھ وقت ہمارے ساتھ اُس محبّت کے ماحول میں رہا جو مسیح نے ہمارے عاجز گھر کو عطا کی تھی۔

پِھر سترہ سال گزر گئے، اَب حسّان ایک تعلیم یافتہ جوان بن چکا تھا جِس کی شادی ہو چکی تھی اور صاحبِ اولاد ہو چکا تھا۔ اِس طویل عرصہ میں اُس نے کوئی راہ و رسم نہ رکھی تھی، جِس پر مَیں نے اُسے ڈانٹ پلائی۔ اِس چیز نے اُسے وہ دِن یاد دلائے جو اُس نے ہمارے ساتھ بسر کئے تھے اور جِن میں وہ ایک مثبت رویہ اپنا چکا تھا۔ ایک دِن اُس کی طرف سے یہ خط موصول ہُوا:

اگست 8، 1952ء

میرے عزیز توفیق

والدہ نے آپ کی ناراضگی کے بارے میں بتایا۔ آپ کو غصہ ہونے کا پورا حق ہے۔ پِھر بھی آپ کے ساتھ میری محبّت اور دوستی کی اصلیت ابھی بھی استوار ہے۔ وہ کبھی بدلنے والی نہیں۔ بےشک آپ یہ سمجھ سکتے ہیں۔

مَیں جب آپ کو یاد کرتا ہوں تو میرے تصور میں ایک حقیقی بھائی کی بہترین تصویر تشکیل پاتی ہے۔ آپ اچھے ذوق، مہربانی اور خلوص کی علامت ہیں جو کبھی بوسیدہ ہونے کو نہیں۔ آپ کے سلوک نے میری شخصیت پر ایک اَن مِٹ چھاپ چھوڑی ہے۔ میری شخصیت کی تعمیر میں آپ کی سیرت و اطوار کی یادوں نے مدد کی ہے۔ مَیں نے آپ میں ایک ایسی مثال پائی ہے جو قابل اقتداء ہے۔ اِس لئے آپ کی مُجھ سے ناراضگی محض موسم گرما کے بادل کی طرح ہے جِس میں مَیں بےخوف ہو کر پناہ لے سکتا ہوں۔ مُجھے جھڑکنے کا آپ کو پورا اختیار ہے اور مُجھے آپ سے معافی مانگنے کا۔ جب ہر ایک نے اپنا اپنا حق پا لیا تو اَب دِل کا میل کیسا؟

آپ کا مخلص

حسّان

٭ ٭ ٭

جواب کی تاخیر نے حسّان میں یہ تاثّر پیدا کیا کہ شاید خط پہنچا ہی نہیں، اِس لئے اُس نے دوسرا خط لکھا:

ستمبر 7، 1952ء

عزیز برادر محترم،

اُس ہستی کو میرا مخلصانہ سلام جِس کی قوت اطمینان، محبّت اور خلوص ہے۔ مَیں ایسے فیاض دِل بھائی سے معافی کا خواستگار ہوں۔

چند ماہ قبل آپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے مُجھے آگاہی ہوئی، اور مَیں دوبارہ جواب تحریر کر رہا ہوں۔ یہ آپ کو ضرور موصول ہو گا۔ محبّت ایک طاقتور جذبہ ہے، مرئی ہو یا غیر مرئی، دُور ہو یا نزدیک، ہمیں اُس کا حصہ وافر مقدار میں ملا ہے۔ خُدا کےلئے ناراضگی چھوڑیئے، ہمارے بیچ یہ خیال بھی نہ پھٹکے کہ مَیں آپ کے احسانوں کو بُھلا بیٹھا ہوں۔ بچپن ہی سے میرے لئے آپ کی حیثیت ایک اتالیق کی رہی ہے جِس نے سدا دستِ محبّت بڑھایا۔ مَیں نے آپ کی شخصیت میں اعلیٰ اقدار کا مشاہدہ کیا اور اُن کا ذائقہ چکھا ہے، اور مَیں ہر طرح سے اپنے آپ کو قصوروار پاتا ہوں کہ آپ سے کٹا کٹا رہا۔ مَیں آپ کی برابری تو کر ہی نہیں سکتا، لیکن یہ بھی بتا دوں کہ مَیں آج بھی آپ سے وہ سچی اور خالص محبّت رکھتا ہوں جِس کی جوت آپ نے بچپن میں جگائی تھی۔ اَب تو اِس سے موت ہی دُور کر سکتی ہے۔

آپ کا مُخلص

حسّان

٭ ٭ ٭

مَیں نے حسّان کے دونوں خط پڑھے اور اُن کے ہر لفظ پر غور کیا۔ میرے لئے اِن خوبیوں کی تعریف قبول کرنا مشکل تھا جو اصل میں میری فطرت میں نہیں تھیں بلکہ میرے ربّ اور نجات دہندہ کا کام تھا جِس نے مُجھے بری دُنیا کی گمراہی سے بچا لیا۔ زِندگی مُجھ پر ظاہر ہوئی تھی، اور وفادار رہنے کےلئے مُجھے زِندگی کے خُداوند کے بارے میں بتانا تھا جِس نے مُجھے کلامِ حق کے وسیلہ سے پیدا کیا (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 18)۔ مَیں نے بھی اپنے مُنجی کی محبّت کی خاطر اپنے بھائی کو جواب دیا اور اُس کی توجہ اُن خوبیوں کے منبع خُدا کی جانب مبذول کرائی۔

''خُدا مُحبّت ہے اور جو مُحبّت میں قائم رہتا ہے وہ خُدا میں قائم رہتا ہے اور خُدا اُس میں قائم رہتا ہے۔'' (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 4: 16)

٭ ٭ ٭

ستمبر 20، 1952ء

میرے عزیز بھائی حسّان،

مَیں تم سے ذرا بھی خفا نہیں۔ عتاب تو محبّت کی ہی ایک چنگاری ہوتا ہے جِس کے انگاروں کے اوپر ہجر و جدائی کی راکھ جمی ہوتی ہے، جوں ہی ہُوا چلی کہ راکھ اُڑی اور انگارے دہکنے لگتے اور عزیزوں کو ڈسنے لگتے ہیں۔

ہاں، مَیں اپنی چھوٹی سی دُنیا میں ایک وفادار بیوی اور بچوں کے درمیان ذہنی سکون کے ساتھ رہتا ہوں جِن کی پرورش مَیں خُداوند کے خوف اور نصیحت میں کر رہا ہوں۔ تاہم، اِس نعمت بھری زِندگی میں میرے ذہن سے میری اُس دُنیا کی صورت زائل نہیں ہوئی جِس سے الگ ہو کر مَیں سنِ بلوغ کو پہنچا۔

مَیں نے اُس دُنیا میں، جہاں خشک، دقیانوسی، قدامت زدہ تقالید کے سائے بستے تھے، زِندگی گزاری جہاں قربانی کے نام سے بھی لوگ واقف نہیں جو محبّت کا نچوڑ ہے۔ تم تو مُردہ رسوم کے ساتھ زِندگی بسر کرنے والے ہمارے خاندان کا خود ہی تصوّر کر سکتے ہو جہاں بے رُوح تقالید کی بیڑیاں تھیں جنہوں نے ہمارے لطیف جذبات کو کُچل کر بکھیر دیا تھا، اُنہی لعنتوں میں ہم پھنسے تھے۔ چار چار ماؤں کی باہمی نوک جھونک اور بات بات پر ٹکر، غلط تقلیدوں کے سائے تھے جنہیں ایک بےپروا باپ نے گھر میں اکھٹا کیا تھا۔ مَیں اُسی میں ایک زمانہ تک بڑا ہُوا، کڑواہٹ کے گھونٹ پیتا رہا اور حالات نے مُجھے ایک پراگندہ اُمّید شخص بنا دیا۔

والدین کے احساسات بے گرداب ہچکولے لیتے رہے اور ہم ہر بار اُس کی قیمت ادا کرتے رہے۔ مَیں اُن لمحات کو نہیں بھول سکتا جب ماں کی محبّت اور باپ کی شفقت متصادم رہی۔ میرے سوزاں مستقبل پر مایوسیاں لادتے رہے۔

لڑکپن سے جب جوانی میں قدم رکھا تو مَیں نے زِندگی کو مایوسی کی نظر سے دیکھا اور کبھی بھی اپنے بارے میں کچھ کرنے سے مایوس ہو گیا۔ لیکن عنایت خُداوندی نے نہیں چھوڑا۔ جو تھوڑا سا اِیمان خُدا اور اُس کی رحمت پر تھا اُس کی روشنی میں مَیں نے زِندگی پر غور کیا۔

مَیں نے بارہا چاہا کہ ایک محبّت بھری زِندگی اپنے بھائیوں بہنوں کے ساتھ رہ کر جیوں۔ لیکن وائے افسوس، وہ حالات اور وہ ماحول جِس میں ہم رہتے تھے وہ کُچھ اِس قدر حسد، کراہیت، کینہ اور جھگڑے سے پُر تھا کہ مُجھ جیسا باغی اُس میں رہنے پر آمادہ نہ ہُوا۔ مَیں نے اکثر اپنے والد کے دوسرے بیٹوں اور بیٹیوں کے قریب آنے کی کوشش کی، لیکن مَیں اُن کی دوسری بیویوں کی طرف سے سازشوں کی ایک اونچی دیوار سے ٹکرا گیا۔ یوں میری تمام کوششیں خاک میں مل گئیں، جِس نے میرے غم کو ہوا دی اور میرے آنسو بہائے۔

نتیجتاً ماں، بھائی، بہنوں اور عزیزوں کی جُدائی اختیار کرنا پڑی۔ خُدا کی عظیم دُنیا میں ہاتھ پاؤں مارنے لگا، آخر کو خوش بختی سے قادر مُطلق کے فضل نے ایک مسیحی کلیسیا تک پہنچا دیا۔ مسیح کے چرچ میں مَیں نے پہلی بار حقیقی محبّت اور دوستی دیکھی۔ پس خدا کا شکر ہے کہ جِس نے مُجھے اپنے جذبات سے لڑنے کےلئے چھوڑ نہیں دیا، بلکہ مُجھے اُن برگزیدہ اور اپنے محبوب بندوں کے پاس لے گیا جنہیں یسوع نے دردمندی، مہربانی، فروتنی، حلم اور تحمّل کا لباس پہنایا ہے (نیا عہدنامہ، کُلسّیوں 3: 12)۔

اَب اَے عزیز، مَیں تمہارا کتنا شکریہ ادا کروں محبّت کے اِس اظہار کےلئے جو اِس عبارت کی صورت میں تمہارے دِل سے نکلی ہے۔ تم نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، اور میری تعریف میں ایسی رطب اللسانی کی ہے جِس کا مَیں خود کو اہل نہیں پاتا۔ وہ تو خُداوند ہی کی تمجید ہو جِس نے مُجھ پر رحم کرنا چاہا اور رُوح القدس سے از سرِ نو میری تشکیل کی۔ بھائی مُجھ میں اپنی کوئی راست بازی نہیں۔ یہ خُدا تعالیٰ ہے جِس نے ایک دِن اپنا نور اِس پست حال پر چمکایا تو مَیں نے خود میں بربادی و بدحالی دیکھی۔ مَیں نے پایا کہ میرے اندر بہت سی وہ باتیں ہیں جو خُدا کی مرضی کے خلاف ہیں، اور مُجھے اپنے سارے گناہوں سے پاک ہونے کی ضرورت ہے، اپنی خوفناک انانیت سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اُس نے احساس جگایا کہ نفرت، غرور اور ناانصافی کو پسِ پُشت ڈالوں۔

مُجھے خوشی عطا کرنے کےلئے خُداوند نے میرے لئے ایک راہ متعین کی، میری ہدایت کےلئے اپنی اِنجیل میرے ہاتھوں میں تھما دی۔ مَیں نے مسیح کی مثال سے الہٰی محبّت سیکھی: "کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی مُحبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دِیا تا کہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 16)۔ مَیں نے اِس سبق کو عملی طور پر مسیح کے قول میں سمجھا: "اِس سے زیادہ مُحبّت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کےلئے دے دے" (یوحنّا 15: 13)۔

مَیں محبّت کی طرف کِھنچا چلا گیا۔ جلد ہی محبّت کے بارے میں پولس رسول کا مشہور حوالہ ہر موقع پر میرا راہنما بن گیا، اور مَیں نے اِس کے شاندار الفاظ کو ایک ایسی خوشی سے دہرایا جو اِس دُنیا کی نہیں: "محبّت صابِر ہے اور مہربان۔ محبّت حسد نہیں کرتی۔ محبّت شیخی نہیں مارتی اور پُھولتی نہیں۔ نازیبا کام نہیں کرتی۔ اپنی بہتری نہیں چاہتی۔ جُھنجھلاتی نہیں۔ بدگُمانی نہیں کرتی۔ بدکاری سے خُوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خُوش ہوتی ہے۔ سب کُچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کُچھ یقین کرتی ہے۔ سب باتوں کی اُمّید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ محبّت کو زوال نہیں" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 13: 4۔ 8)۔

مَیں نے محبّت کے مدرسہ میں سیکھا کہ جو نیکی نہیں کرتا وہ خُدا سے نہیں، اِسی طرح جو بھائی سے محبّت نہیں رکھتا وہ خُدا کو نہیں جانتا کیونکہ خُدا محبّت ہے (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 3: 10)۔ یہ محبّت کے اسباق ہیں جنہیں آدمی کو سیکھنا ضرور ہے۔ اِنہیں اگر عمل میں لایا جائے تو ساری مشکلیں حل ہو جاتی ہیں، اور تب ہی یہ نوشتہ پورا ہوتا ہے کہ "وہ میرے تمام کوہِ مُقدّس پر نہ ضرر پُہنچائیں گے نہ ہلاک کریں گے کیونکہ جِس طرح سمُندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین خُداوند کے عِرفان سے معمور ہو گی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 11: 9)۔ نہیں میرے بھائی، مَیں تمہیں کبھی نہیں بھولا۔ اگر زبان چوک جائے تو تمہاری صورت میرے دِل سے مٹ نہیں سکتی کیونکہ مَیں تم سے محبّت و شفقت رکھتا ہوں۔

حسّان میاں، معذرت کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مسیح نے میرے نفرت کرنے والے دِل کو شفا بخشی ہے۔ مُجھے عذر کی توقع کرنے کا کوئی حق نہیں، اِس لئے معذرت خواہ نہ ہو۔ معذرت تو اَنانیت کو راضی کرتی ہے، میری خودی تو کب کی صلیب پر کھینچی جا چکی ہے۔ اَب تو میرے لئے عملِ محبّت ہی باقی ہے۔

میرے بارے میں مبالغہ نہیں نرمی برتو۔ تمہیں تو معلوم ہی ہونا چاہئے کہ میرے ساتھ وہ سچّائی ہے جِسے مَیں نے جانا ہے اور جِس کو مَیں مطمئن اور ٹھنڈے دِل کے ساتھ جی رہا ہوں۔ بہتوں نے میری نکتہ چینی کی، بیوقوفی منسوب کی، اتہام بھی لگایا، کبھی فریب کا کفر کا، سرکشی کا، اِس لئے مَیں ماضی پر ناراض ہوں۔ لیکن اَب تو شکر کرتا ہوں کہ اُن کی نکتہ چینیاں اور چوٹیں دوسرا موڑ لے چکی ہیں۔ خُدا نے میری کوششوں میں میری مدد کی ہے۔ اُس نے مُجھے آزمایا اور آخر نیک اُستاد یسوع کے نقش قدم پر چلایا کہ اُس سے سچّائی کے بارے میں سیکھوں۔

حسّان مَیں کوئی فلسفی نہیں ہوں۔ ایک سادہ سا ایمان رکھنے والا بندہ ہوں جو اُن اشخاص کےلئے خُدا کی طرف سے تحفہ ہے جو دِل کے غریب ہیں، اور اُنہیں پیچیدہ معاملات کے شر سے بچاتا ہے۔ آخر میں، اَے عزیز، ہاتھ بڑھاؤ تا کہ ہم اِس محبّت کی بنیاد پر اپنے تعلق کو قائم کریں اور خُداوند سے مدد چاہیں جِس کی ذات ہی محبّت ہے کہ وہ ہمیں ہماری ذاتیات سے خالی کر کے اُس کی جگہ محبّت بھر دے۔

پُر خلوص

توفیق

٭ ٭ ٭

2۔ عملی محبّت

"پس اے میرے عزیز بھائیو! ثابِت قدم اور قائم رہو اور خُداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تُمہاری محنت خُداوند میں بےفائدہ نہیں ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 15: 58)

خط کو حسّان کےلئے ڈاک کے حوالہ کرنے کے بعد مَیں نے خُداوند سے دُعا کی کہ یہ خط اچھی طرح قبولیت پائے اور اِس کے پیغام میں اُس کا فضل کام کرے۔ خُدا نے میری التجا سُنی اور درخواست کا جواب دیا۔ 15 اکتوبر 1952ء کو مُجھے حسّان کی طرف سے یہ خط موصول ہُوا:

میرے پیارے بھائی،

مَیں نے جواب لکھنے میں کبھی اتنی تاخیر نہیں کی جتنی اِس بار ہوئی ہے۔ شاید اِس کی وجہ وہ خوف ہے جِس نے جب بھی قلم پکڑا مُجھے اپنی گرفت میں لے لیا جو اُن مراحل کا نتیجہ تھا جِن سے آپ گزر رہے تھے اور پیشتر اِس کے آپ کی زِندگی میں سدھار آتا، اِس راہ میں آپ کی کاوشوں کے سامنے مَیں بھی کھڑا ہوتا۔ اور جیسا کہ آپ نے ظاہر کیا ہے کہ ہر اثر سے آزاد ہو کر آپ کی شخصیت کی تشکیل ہو۔ آپ نے ایک بار جب آپ کو محبّت کی ترغیب مل گئی جِس نے آپ کی پوری زِندگی کی راہ کا تعین کر دیا تو آپ نے ہر رواج کو رد کیا۔

محبّت کا ہر آدمی پر اُس تناسب سے گہرا اثر پڑتا ہے جِس کا وہ تجربہ کرتا ہے۔ آپ نے اپنے گہرے ایمان کے نتیجہ میں اِس کا ایک بڑا حصہ پایا ہے۔ درحقیقت، مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ نے محبّت کو اپنے متجسس اور صحت مندانہ جذبے کے مطابق اپنے مسائل کو حل کرنے کےلئے ایک ذریعہ اور خودغرضی کے طوق سے اطمینان اور نجات کے حصول کےلئے ایک مقصد کے طور پر استعمال کیا ہے۔

یہ نصب العین نیا نہیں ہے۔ اِس نے دِلی سکون پانے کےلئے آپ کی مسلسل کشمکش میں مضبوط راہنمائی فراہم کی ہے۔ مَیں ہر اُس قدم کےلئے آپ کی تعریف کرتا ہوں جو آپ نے اپنی نئی دُنیا کی تعمیر کےلئے اُٹھائے ہیں، اور مَیں آپ کےلئے مسلسل برکتوں اور خوشیوں کی خواہش کرتا ہوں۔

محبّت بلاشبہ ایمان کا ہی ثمر ہے، جو ہماری دُنیا میں نور کے پھیلنے اور مختلف درجات کی قربانیوں کا باعث ہے۔ درحقیقت، ایک فرد دِل مومن میں سوائے خالص محبّت کے اَور کُچھ نہیں پاتا، جو ہمیشہ خود انکاری اور خُدا کے سامنے مکمل سپردگی کے ذریعے کمال تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جدوجہد ایسی قربانی کےلئے ایک روشن اِرادہ اور دِلی خواہش پیدا کرتی ہے، جو اُن رجحانات اور جذبات سے آزاد ہوتی ہے جو اُس عظیم مقصد کے خلاف ہیں جِس کےلئے محبّت ملی۔

آپ کے بارے میں بہت کُچھ کہا گیا ہے، لیکن مُجھے آپ کے نقطہ نظر پر شک نہیں ہے کیونکہ آپ اُن چیزوں کو سمجھنے کے قابل ہیں جو دوسرے نہیں کر سکتے۔ آپ کو جاننے والے، آپ کے کردار کی رُوحانی مضبوطی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے جِس نے آپ کی شخصیت کو اُن تعلیمات کی روشنی میں تعمیر کرنے میں بہت مدد کی ہے جِن پر آپ کا ایمان ہے۔ مَیں ذاتی انتخاب کے حق کا احترام کرنے والے فرد کے طور پر محسوس کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے لئے جو معیار مقرر کئے اُن کے مطابق عمل کیا۔

جب سے آپ سن بلوغ اور باشعور ہونے کی عمر کو پہنچے ہیں، آپ کے دِل میں ایک پختہ یقین کار فرما ہے۔ آپ نے اپنی عقل سے کام لیا، حقائق کی تلاش کی جو عقیدہ و عمل تک گئی۔ محبّت میں آپ کا ایمان جِس کا آپ نے اظہار کیا ہے وہ آپ کی رُوح کےلئے آپ کی فکر اور ہماری موروثی کمزوریوں سے رہائی کا ثبوت ہے۔ یوں، آپ کو ایک ایسی بصیرت حاصل ہوئی جو عظمت میں لازوال اور جوہر میں مضبوط ہے۔ صرف وہی جو آپ کی طرح دُور افق کی تلاش میں ہیں، اِس کا ادراک کر سکتے ہیں۔

میری اپنی مشکلات آپ کی مشکلات سے مشابہت رکھتی ہیں۔ درحقیقت، وہ شاید زیادہ پیچیدہ تھیں، کیونکہ مَیں والد کی حفاظت اور ماں کی محبّت سے دُور تھا۔ اِس سے پہلے کہ میرا کردار تشکیل پاتا، مُجھے دُنیا میں پھینک دیا گیا جہاں ہر اچھی اور بری روِش میرے سامنے تھی۔ مُجھے باپ کی مدد، ماں کی محبّت یا کِسی رشتہ دار کی ہمدردی کے بغیر مالی اور اخلاقی طور پر اپنا خیال رکھنا تھا۔

جبِلّت اور مزاج میرے راہنما تھے -- لیکن کوئی راہنمائی یا ہدایت نہیں تھی۔ اِس کے باوجود، خُدا مُجھ پر مہربان تھا اور مَیں اُس کی محبّت سے محروم نہ ہُوا۔ مُجھے طبعاً نیکی سے پیار رہا۔ لیکن مُجھے یہ اقرار کرنا چاہئے کہ میرے ٹوٹے پھوٹے بچپن اور نوجوانی نے مُجھے نفسیاتی پیچیدگیوں سے دوچار کیا، جِس کا پہلا نتیجہ تھا اسکول چھوڑ کر مستقبل کی تلاش۔

پِھر بابا کا انتقال ہُوا اور مَیں گاؤں میں آیا۔ تب آپ نے اپنے ساتھ حمص چلنے کی مُجھے تلقین کی۔ مُجھے اَب بھی یہ یاد ہے کیونکہ اہم واقعات ذہن پر نقش ہوتے ہیں اور کبھی فراموش نہیں ہوتے۔ مُجھے یاد ہے کہ ہم نے کیسے سفر کیا -- مَیں طرطوس تک آپ کی گود میں تھا اور طرابلس تک آپ کے ساتھ بیٹھا رہا۔ وہاں سے جولائی کی ایک شام کی خاموشی میں ساڑھے آٹھ بجے ہم حمص کی ٹرین پر روانہ ہوئے۔ آدھی رات کو ایک بجے کے قریب ہم نے حمص پہنچ کر ایک گھوڑا گاڑی کرائے پر لی جو ہمیں الحمیدیہ میں آپ کے گھر لے گئی۔ آپ کی بیوی نے دروازہ کھولا اور ہمیں خوش آمدید کہا، اور مَیں نے آپ کے درمیان کُچھ وقت گزارا۔ پہلی مرتبہ مَیں خاندانی توجہ اور حقیقی محبّت کے ماحول میں رہا، اور پِھر ماضی کے دُکھ ہی بھول گیا۔ میری زندگی کا خلا آخرکار پُر ہوتا نظر آیا۔ مَیں دو دفعہ آپ کے ساتھ رہا، اور مُجھے ایسا لگا جیسے مَیں آپ سب کا عزیز، محبوب اور پسندیدہ ہوں۔ مُجھے زِندگی کے اُن واقعات کا اعادہ کرنے کی اجازت دیجئے۔ میرا یقین کیجئے، وہ یادیں بڑی قیمتی ہیں جِن کا تصور اَب بھی میرے لئے بہت خوش کن ہے۔

آپ کے ساتھ مُجھے رہنے سے زِندگی کی معنویت سمجھنے میں مدد ملی۔ مَیں تو ایک محدود سوچ رکھنے والا سادہ سا نوجوان تھا، اور جب مُجھے اپنے اردگرد کوئی مثالی شخصیت نہ ملی تو مَیں نے ہمیشہ آپ کو اپنے سامنے رکھا اور اپنے اعمال میں آپ کی مانند بنتا گیا۔

آپ کے عمدہ تاثرات اور حوصلہ افزا گفتگو کے ذریعے، آپ کی مہربان مثال اب مُجھے پہلے سے زیادہ واضح اور اثر انگیز دکھائی دیتی ہے۔ آپ کی پُر محبّت باتوں کا میری زِندگی میں گہرا اثر ہُوا۔ بےشک، ہم دونوں مل سکے، اِس میں بھی مُجھے ایسی فضل کی چمک نظر آتی ہے جو رُوح کے تمام اندھیرے کو دُور کرتی ہے، اور زندگی کی بے یقینی کو روشن کرتی ہے۔ محبّت ایک ایسا نور ہے جو دِل میں چمکتا اور تاریکی دُور کرتا ہے، جیسے خُدا نور ہے اور دِلوں میں چمکتا ہے۔ مُجھے یقین ہے کہ خُدا محبّت ہے۔ اِس سے بڑھ کر کوئی محبّت نہیں کہ اِنسان اپنے پیاروں کی خاطر اپنے آپ کو دے دے۔

پیارے بھائی، یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ سلسلہ ارتباط بذریعہ خط و کتابت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یقین جانیں آپ کی محبّت تو میرے دِل کی دھڑکن بن چکی ہے اور آپ کی یاد مُجھے عزیز ہے۔ چاہے ہمارے درمیان کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو، اور حالات بدل جائیں، میری آپ سے محبّت برقرار رہے گی کیونکہ یہ خوش کن حالات میں پروان چڑھی ہے۔ گردشِ زمانہ اِسے میری رُوح سے نہیں مٹا سکتا۔ مُجھے فخر ہے کہ مَیں نے آپ کی اعلیٰ مثال کی تقلید کرنے کی کوشش کی۔ شکریہ، میرے بھائی۔ آپ کی بیوی کو میری طرف سے احترام و آداب اور بچوں کو پیار۔ مُجھے اُمّید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ خُدا آپ کو سلامت رکھے۔

آپ کا مُخلص

حسّان

٭ ٭ ٭

3۔ مُحبّت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈالتی ہے

"لیکن جو کُچھ ہُوں خُدا کے فضل سے ہُوں اور اُس کا فضل جو مُجھ پر ہُؤا، وہ بےفائِدہ نہیں ہُؤا، بلکہ مَیں نے اُن سب سے زیادہ محنت کی اور یہ میری طرف سے نہیں ہُوئی بلکہ خُدا کے فضل سے جو مُجھ پر تھا۔" (1۔ کرنتھیوں 15: 10)

اِس دفعہ کے خط میں حسّان نے پِھر تعریف کے پل باندھے۔ مُجھے اِن خوبیوں کی تعریف کےلئے شرمندگی ہونے لگی جو فطری طور پر میری ذات کا حصہ نہ تھیں بلکہ اُس کے فضل سے عطا ہوئی تھیں جس نے مُجھ سے محبّت رکھی۔ یوں مَیں نے اپنے پیارے بھائی کی نگاہیں اُس شخصیت کی طرف مرکوز کرنے کی کوشش کی جو اپنی محبّت کی طاقت سے بنجر جگہ سے مٹھاس اور خوش ذائقی پیدا کرنے پر قادر ہے۔

23 اکتوبر، 1952ء

پیارے بھائی

تمہارا خط ایک ایسے وقت پر پہنچا جب مَیں بڑی بیتابی سے تمہارے جواب کا منتظر تھا، اور اِس کا میری رُوح پر بہت مثبت اثر ہُوا۔ مَیں خُداوند اپنے خُدا کا شُکر کرتا ہوں جِس نے مُجھے تمہاری نظر میں نعمت بخشی۔ میرے لئے تمہاری محبّت اِس قدر زیادہ ہے کہ اِس نے میری خامیوں کوتاہیوں پر پردہ ڈالا ہے۔ مَیں تمہاری اعلیٰ مہربانیوں کے سامنے کھڑا ہوں جِس نے مُجھے رداء کمال پہنا دیا اور میری کمزوریوں کے باوجود مُجھ پر بھروسا کیا۔ میرے لئے یہ ناگزیر ہے کہ تمہیں اِس نعمت کے سرچشمہ کی طرف متوجہ کروں جس سے مَیں آسودہ ہوں۔

اَے حسّان، مَیں بھی دوسرے انسانوں کی طرح کوتاہیوں کا مرتکب رہا ہوں اور زمانہ جاہلیت میں سنگین ترین گناہوں میں دھنسا رہا ہوں۔ مَیں نے اِنصاف کے تقاضوں کی نافرمانی کی اور اُس کے قوانین کو کُچھ عرصہ تک پامال کیا۔ لیکن خُدا نے جو رحمتوں اور ہر طرح کی تسلّی کا خُداوند ہے اور تمام راست بازی، پاکیزگی اور سچائی کا سرچشمہ ہے مُجھے اپنی بڑی رحمت دکھائی۔ اُس نے میرے دُکھ دُور کئے اور مُجھے یسوع کے پاس جانے کا رستہ دکھایا جو رُوحوں کا گلہ بان اور نگہبان ہے۔ یہ وہ کلام ہے جو ابتدا سے خُدا کے ساتھ تھا اور مجسّم ہُوا، ایک مدّت تک ہمارے درمیان رہا، بھلائی کرتا اور اُن سب کو شفا دیتا رہا جو شیطان کے قبضہ میں تھے۔ یہ اُس کے کلام کے عین مطابق تھا: "چور نہیں آتا مگر چُرانے اور مار ڈالنے اور ہلاک کرنے کو۔ مَیں اِس لِئے آیا کہ وہ زِندگی پائیں اور کثرت سے پائیں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 10: 10)۔ اِس الہٰی ہستی کے بارے میں پولس رسول نے لکھا: "ویسا ہی مِزاج رکھّو جیسا مسیح یسو ع کا بھی تھا۔ اُس نے اگرچہ خُدا کی صُورت پر تھا خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دِیا اور خادِم کی صُورت اِختیار کی اور اِنسانوں کے مُشابِہ ہو گیا۔ اور اِنسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دِیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 5۔ 8)۔

اِنسانوں کےلئے اپنی جان دے کر اُس نے خُدا کی صفات کو ظاہر کیا جو محبّت، شفقت اور ہر طرح کی مہربانیوں سے مالا مال ہے۔ جی ہاں، خُدا کی محبّت ظاہر ہوئی، اور وہ خُدائے مجسم بن کر ہماری اِس دُنیا میں خُدا کا دِل لئے ہوئے آیا اِس اعلان کے ساتھ کہ خُدا محبّت ہے۔ اِس محبّت نے اِس بات میں کُچھ عار نہ دیکھا کہ قدوس و راستباز، بادشاہوں کا بادشاہ دُنیا میں دُکھ و الم اُٹھانے کےلئے پست حال تنگی، عسرت و دُکھ کی زِندگی بسر کرے۔ اُس نے یہ سب کُچھ اِس لئے برداشت کیا تا کہ اِنسان کو گناہ کی غلامی سے آزاد کر کے اُنہیں فرزندِ خُدا بننے کا حق بخشے۔ اُس نے مُجھ گنہگار کو شخصی طور پر بچایا اور ابدی نور میں مقدّسوں کے ساتھ میراث عطا کی۔

عزیزی حسّان، یقین کرو کہ مسیح کا پیغام صرف اپنے لوگوں کے سماجی معیار کو بلند کرنے کےلئے اصولوں کی فہرست نہیں تھا یا قوم کو اجتماعی بلندی پر پہنچانے کا کوئی سیاسی قاعدہ بھی نہیں ہے، نہ سماج کے عناصر کو مجتمع کرنے کا ایک اصول ہے، جیسا کہ اکثر بڑے بڑے مُفکّر یا راہنما کہتے رہے ہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تخلیقی عمل ہے جو اِسے قبول کرنے والوں کے اخلاقی و رُوحانی معیار کو بلند کرتا ہے۔

جہاں تک مسیح کی تعلیمات کا تعلق ہے، وہ ہر طرح سے محبّت کا ایک مثبت قانون ہیں، جس سے بھلائی اور نیکی کی طرف میلان رکھنے والے افراد کمال کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ وہ اِس لحاظ سے بھی مثبت ہیں کہ جو بدی کی جانب مائل ہوتے ہیں یا اُس کا ارتکاب کرتے ہیں اُن کو راست بازی کی راہوں پر جیت کر اُن کی اصلاح کرتی ہیں۔

یسوع نے اپنی تعلیمات کو لوگوں کے سامنے شاندار عملی محبّت میں پیش کیا جِس کے نتیجہ میں اُس نے دوسروں کےلئے اپنی جان قربان کر دی۔ اُس کی حقیقی پاکیزہ زِندگی میں کوئی بھی اُس پر گناہ ثابت نہ کر سکا۔ اپنی خدمت میں مافوق الفطرت طاقت کے اظہار سے اُس نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ وہ حیرت انگیز طور پر ایک لاثانی شخصیت تھی۔ درحقیقت عظیم نبی یسعیاہ نے مسیح کے تجسم سے سات سو سال پہلے بتایا تھا: "اِس لِئے ہمارے لِئے ایک لڑکا تولُّد ہُؤا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجِیب مُشِیر خُدایِ قادِر ابدِیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہو گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 9: 6)۔

یسوع اِس لحاظ سے منفرد ہے کہ اُس کی رُوح القدس کی قدرت سے ایک کنواری سے ولادت ہوئی۔ یوں وہ اپنی پیدایش میں بےمثل تھا۔ وہ خُدا کا ازلی کلام ہے جس کی تصدیق الہامی صحائف سے ہوتی ہے: "سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہُوئیں اور جو کُچھ پیدا ہُؤا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہُوئی۔ اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نُور تھی۔ اور نُور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے قبُول نہ کیا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 3۔ 5)۔

وہ خُدا "کے جلال کا پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قُدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔ وہ گناہوں کو دھو کر عالَم بالا پر کِبریا کی دہنی طرف جا بَیٹھا" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 1: 3)۔ اِنسانوں کے فدیہ و مخلصی کےلئے اُس نے اپنے آپ کو پست کر دیا اور اِنسانی بدن اختیار کیا، چرنی میں جنم لیا کیونکہ اُس کی ماں کےلئے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ یوں وہ اپنی حلیمی کے اعتبار سے بےمثل تھا۔

زمِین اور اُس کی معمُوری، جہان اور اُس کے باشِندے سب خُداوند ہی کے ہیں (پرانا عہدنامہ، زبور 24: 1)۔ اُس کے خزانے اور تمام عناصر اُس کے ہاتھ میں ہیں۔ اُس نے اپنے منہ کے کلام سے دو مچھلیوں اور پانچ روٹیوں سے کئی ہزار افراد کو سیر کیا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 6: 1۔ 13)۔

وہ اپنی خود انکاری کے اعتبار سے بھی بےمثل تھا۔ لوگوں کو اُس نے سب کُچھ مہیا کیا، لیکن اُس کے پاس سر چھپانے کو کوئی جگہ نہ تھی۔ جب ایک شاگرد نے مسیح کی پیروی کرنے کے عزم کا اظہار کیا تو اُس نے کہا: "لومڑِیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابنِ آدم کےلئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں" (اِنجیل بمطابق لوقا 9: 58)۔ اُس نے اپنا جلالی تخت چھوڑا جہاں خدمت گزار فرشتے اُس کے سامنے حاضر رہتے تھے، اور ہماری مصیبت بھری دُنیا میں ماہی گیروں اور محصول لینے والوں کے درمیان رہنے کےلئے آیا جنہیں حقیر سمجھا جاتا تھا۔ اِس پست حالی میں اُس نے نہ چاہا کہ خدمت لے، کیونکہ اُس نے فرمایا: "اِبنِ آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خِدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خِدمت کرے اور اپنی جان بُہتیروں کے بدلے فِدیہ میں دے" (اِنجیل بمطابق متّی 20: 28)۔ لہٰذا اپنی پست حالی و فروتنی میں بھی وہ بےمثل رہا۔

اپنے ایام تجسّد میں وہ گنہگاروں اور بدکرداروں کے بیچ میں رہا، اُن کے ساتھ کھایا پیا، بات چیت کی تا کہ اُن کی حیثیت بلند ہو، وہ اپنی گری حالت سے بحال ہوں اور اُس سے گناہوں کی معافی پائیں اور اُن کی عزت نفس بحال ہو۔ اُس نے فرمایا: "تندرُستوں کو طبیب درکار نہیں بلکہ بیماروں کو۔ مگر تُم جا کر اِس کے معنٰی دریافت کرو کہ مَیں قُربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہُوں کیونکہ مَیں راست بازوں کو نہیں بلکہ گُنہگاروں کو بُلانے آیا ہُوں" (اِنجیل بمطابق متّی 9: 12، 13)۔ اپنی حکمت میں بھی وہ عجیب تھا۔

سماجی برائیوں کے دُور کرنے میں بھی ساری مشکلیں اُس نے محبّت سے برداشت کیں اور حل کیں۔ اُس نے کِسی گنہگار کو اُس کے گناہ پر شرمندہ نہ کیا، بلکہ توبہ، گناہوں کی معافی، زِندگی کی پاکیزگی اور ہمیشہ کی زِندگی عطا کی۔

اُس نے ایک عورت کو زنا میں پکڑا ہُوا دیکھا جسے فقیہوں فریسیوں کے ایک گروہ نے سنگسار کرنا چاہا۔ سب لوگ اُس عورت کو لعنت ملامت کر رہے تھے، اُن کی آنکھیں خود اُن کے اپنے گناہوں کے اثر سے دُھندلا چکی تھیں، اور اُنہیں اپنے گناہ دکھائی نہ دے رہے تھے۔ وہ خون کے پیاسے ہو چکے تھے اور اُن کے کان اُس عورت کی رحم کی درخواست کےلئے بند ہو چکے تھے۔ یسوع نے اپنے دِل میں پاک غصے کے ساتھ اِس کینہ پرور گروہ کا سامنا کیا۔ اگر فریسی واقعی نیکی کے محافظ ہوتے تو وہ اُس بدکار آدمی کو بھی لاتے جو اُتنا ہی قصوروار تھا۔ شریعت کے دینے والے اور تمام دُنیا کے منصف نے اُن کی طرف متوجہ ہو کر کہا: "جو تُم میں بےگُناہ ہو وُہی پہلے اُس کے پتّھر مارے" (یوحنّا 8: 7)۔

اُس کے الفاظ اُن پر کوڑے اور آگ کے شعلے کی طرح صادر ہوئے۔ وہ سب خوفزدہ ہو گئے اور کانپنے لگے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو دیکھنے لگا کہ پہلا پتھر مارنے میں کون پہل کرتا ہے۔ سب پتھر اُٹھائے بے حس و حرکت کھڑے رہ گئے۔ ایک ایک کر کے بڑے سے لے کر چھوٹے تک سب وہاں سے کھسکنے لگے۔ جی ہاں، خُداوند کے نور کی چمک اُس گھڑی چمکی اور پلک جھپکتے ہی اُن کی تمام بدیوں اور بدکاریوں کے پردے چاک ہو گئے۔

اے حسّان کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بےگناہ ہے؟ خُدا فرماتا ہے: "خُداوند کے پہاڑ پر کون چڑھے گا اور اُس کے مقدّس مقام پر کون کھڑا ہو گا؟" (پرانا عہدنامہ، زبور 24: 3)۔

فقیہوں اور فریسیوں نے اُس عورت کی حرکت پر لعن طعن کی اور اُسے اپنے سے بدتر سمجھا۔ ایک فاسد و خاطی بشر کا دِل یہ جان کر خوش ہوتا ہے کہ فلاں مُجھ سے بدتر ہے۔ اِس قسم کے لوگ رحمت سے بہت دُور ہوتے ہیں۔ اُن کے ضمیر اُس وقت باغی بن جاتے ہیں جب کِسی گمراہ شخص پر رحم ہوتا ہے۔ وہ اِس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ خُدا معاف کرنے میں غنی ہے۔ وہ اپنی محبّت کی کثرت کے سبب گنہگار سے نرمی کا برتاؤ کرتا ہے تا کہ وہ معافی کی حالت میں زِندگی گزارے۔

بےشک یہ عورت گنہگار تھی۔ اُس کا جرم شریعت کے پیروکار لوگوں کے سامنے تھا جِس کے الفاظ مار ڈالتے ہیں۔ اُن کے دِلوں میں موسیٰ کی شریعت توڑنے والوں کےلئے کوئی رحم نہ تھا۔ تاہم، جونہی وہ قدّوس ہستی اُن کے سامنے کھڑی ہوئی تو سزا دینے کا اُن کا ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ خُداوند نے اُن کے سامنے یہ شرط رکھی کہ جو اُن میں بےگناہ ہے وہی پہلا پتھر مارے۔ یوں وہ اُس قدّوس کی لگائی ہوئی شرط کے سامنے سزا کے نفاذ پر قادر نہ ہوئے کیونکہ وہ تو خود ہی گنہگار تھے۔

جب سب چلے گئے، تو اُس بدنصیب عورت نے اپنے آپ کو اُس شخص کے روبرو دیکھا جو بےگناہ تھا -- جو اُس پر پہلا پتھر پھینکنے کا مجاز تھا۔ لیکن پِھر اُس پر یہ بات آشکارا ہوئی کہ فی الحقیقت وہی مُنجی ہے جو کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔ فضل اور سچائی سے معمور اِس شخصیت کا اُس عورت کےلئے ردعمل ہمارے لئے یوحنّا کی معرفت اِنجیل میں درج ہے: "اے عورت یہ لوگ کہاں گئے؟ کیا کِسی نے تُجھ پر حُکم نہیں لگایا؟ اُس نے کہا، اے خُداوند کِسی نے نہیں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 10، 11)۔ آپ نے ایسا اِس لئے کہا تا کہ ظاہر ہو جائے کہ خُدا کا عرفان سزا سے زیادہ اہم ہے اور یہ کہ "نِنانوے راست بازوں کی نِسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے ایک توبہ کرنے والے گُنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خُوشی ہو گی" (اِنجیل بمطابق لوقا 15: 7)۔

سچ تو یہ ہے بھائی، مسیح نے اُس کے فعل سے چشم پوشی نہیں کی، اور نہ ہی اُس کے گناہ کو حقیر سمجھا۔ آپ نے تو نرمی سے اُسے اُس کی غلطی یاد دلائی اور اُسے دکھایا کہ اُس کی مہربانی، تحمّل اور صبر توبہ کی طرف لے جاتا ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 2 :4)۔ مطلب یہ کہ آپ نے اُسے معاف کیا۔ ماضی کے بُرے رشتوں سے منہ موڑنے کا معافی ہی ایک بہتر طریقہ ہے۔

مَیں اُن غمگینوں کے درمیان مسیح کے کام کے بارے میں کیا کہوں جِن کی اُس نے مدد کی، دُکھ دُور کئے اور اُن کی آنکھوں سے آنسو پونچھے؟ مَیں اِس دُنیا کے ستائے ہوؤں، مصیبت زدوں اور دھتکارے ہوئے لوگوں کےلئے اُس کی فکر کے بارے میں کیا کہوں؟ اِس سب کےلئے کافی طویل وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن جو مَیں تمہیں بتا سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ یسوع میرا نجات دہندہ، پیار کرنے والا، گنہگاروں کو بچانے کےلئے اِس دُنیا میں آیا، جِن میں سے مَیں سب سے بڑا ہوں۔ وہ میرا بڑا سردار کاہن ہے جو میرے لئے اپنے آپ کو قربان کرنے کے بعد پاک ترین مقام میں داخل ہُوا۔ اُس نے اپنے صلیبی خون کے وسیلہ معافی کے قانونی تقاضوں کو پورا کیا۔ اِس نجات دہندہ کے دُنیا میں آنے سے پیشتر یسعیاہ نبی نے تحریر کیا:

"تَو بھی اُس نے ہماری مشقّتیں اُٹھا لِیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہُؤا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہُوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھرا، پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 4۔ 6)

یہ ہے میرا نجات دہندہ ہے جِس نے بہت سی خطاؤں اور گھناؤنے گناہوں کے باوجود میری راہ روکی اور مُجھے اپنی محبّت کے بارے میں آگاہ کیا۔ اُس نے مُجھ سے کلام کیا، میری رُوح کو موہ لیا اور میرے دِل کو ایمان، اُمّید اور محبّت سے بھر دیا۔ یوں مَیں اُس کی صلیب کی طرف کِھنچا گیا: "کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دِیا تا کہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 16)۔

اُس دِن تک مَیں زِندگی کے صحرا میں بھٹکتا رہا تھا۔ میرے اندر صداقت کی بھوک تھی، ایک ایسی بھوک جِسے دُنیا کا کوئی بھی مذہب نہ مٹا سکتا تھا۔ میری رُوح حق کی معرفت کی پیاسی تھی جِسے کوئی اِنسانی تعلیم بجھا نہ سکتی تھی۔ اِسی شخصیت نے مُجھے روکا اور فرمایا: "۔۔۔ جو کوئی اُس پانی میں سے پِئے گا جو مَیں اُسے دُوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دُوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زِندگی کےلئے جاری رہے گا"، "مَیں ہُوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری۔ اگر کوئی اِس روٹی میں سے کھائے تو ابد تک زندہ رہے گا بلکہ جو روٹی مَیں جہان کی زِندگی کےلئے دُوں گا وہ میرا گوشت ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 4: 14؛ 6: 15)۔

ہاں میرے بھائی، یہ یسوع ہے، میرا محبوب، میرا نجات دہندہ اور میری رُوح کا نگہبان۔ وہی میرا ساتھ کھڑا رہا، حالانکہ اُس وقت میرے والد کے رحم و شفقت نے منہ موڑ لیا، اور جب ماں کی ممتا کے چہرہ پر میرے باعث تاریکی تھی، اُس وقت اُس نے اپنے دست کرم کو، اُس ہاتھ کو جو کیلوں سے چِھدا ہُوا تھا میری طرف بڑھایا اور میری اشک شوئی کی۔ سخت تاریک رات میں کہ جب محبّت کے سب ستارے میرے بھائیوں اور عزیزوں کے افق میں چھپ گئے، وہ نمودار ہُوا اور مُجھ سے یوں گویا ہُوا: "دُنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 12)۔ یہی ہے وہ درمیانی جو آسمان و زمین کے بیچ صلح کرانے والا ہے، جِس نے میرے گناہوں کے کفارہ کے طور پر اپنی موت کے ذریعے مُجھے خُدا سے ملایا۔ پِھر اُس نے مُجھے اپنی محبّت کی کٹھالی میں خالص بنایا اور میری بدبخت انسانیت کو پولس رسول کے الفاظ کے مطابق ایک نئی مخلوق بنایا: "اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلُوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (نیا عہدنامہ، 2۔ کُرِنتِھیوں 5: 17)۔ "دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے" (یوحنّا 1: 29)۔ اُس نے میرے گناہ کو دُور کر دیا، کیونکہ اُس نے صلیب پر میری جگہ سزا برداشت کر کے قیمت ادا کی۔ اُس نے الہٰی عدل کے تقاضے کو پورا کیا اور جہنم میں میری سزا کو منسوخ کر دیا، جِس کا مَیں ہر بدی، ہر بیکار لفظ اور باطل خیال کے وجہ سے مستحق تھا۔

عزیزی حسّان، میرا دِل اَب یسوع مسیح میں ظاہر ہونے والی خُدا کی محبّت کے موضوع پر بہت سے خیالات سے بھرا ہُوا ہے، لیکن اُن سب کا بیان کرنا اِس خط میں ممکن نہیں۔ مُجھے اُمّید ہے کہ ہمیں آپس میں ملنے کا موقع ملے گا۔ تب مَیں تمہیں اپنے روبرو اُن بہت سے رُوحانی تجربات سے آگاہ کروں گا جب سے مَیں اپنے نجات دہندہ سے ملا ہوں جِس نے مُجھے حقیقی اور ابدی زندگی عطا کی ہے۔

خلوص کار

توفیق

٭ ٭ ٭

4۔ مَیں ایمان رکھتا ہوں

"سب مُقدّس لوگ تُم کو سلام کہتے ہیں۔" (2۔ کُرِنتِھیوں 13: 13)

پیشتر اِس کے کہ مَیں یہ خط ڈاک کے حوالہ کرتا، مَیں نے بہت سے اِیماندار بھائیوں سے اِس سلسلہ میں دُعا اور روزہ میں وقت گزارنے کی درخواست کی تا کہ اِس خط کے ساتھ خُدا کی رُوح حسّان کے دِل تک پہنچے۔ خُداوند نے ہماری اِیمانی دُعا کا جلد ہی جواب دیا۔ چند ہی دِنوں میں جواب بھی آ گیا جِس میں محبّت کے خط کے اثرات کا مژدہ تھا۔

10 جنوری، 1953ء

میرے پیارے بھائی،

آپ کے حالیہ خط نے گذشتہ کئی دِنوں سے میرے خیالات کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کیونکہ اِس میں آپ کی زِندگی کی کہانی، اہم اعترافات، اُمّیدیں اور خواہشات اور اِس کے ساتھ تلخ تجربات، مشکلات اور تذلیل کا بیان ہے۔ آپ نے سب کُچھ برداشت کیا یہاں تک کہ آپ اِس مقام پر پہنچ گئے جِس نے آپ کی تمام نفسیاتی گتھیوں کو سلجھا دیا۔ آپ نے تمام گھبراہٹ اور تھکان سے آرام پایا ہے۔ آپ واقعی پوری طرح سے مادی اور اخلاقی طور پر اپنی ذاتی جدوجہد سے کامیابی حاصل کرنے والے فرد ہیں۔ آپ کو فخر کرنا چاہئے کہ آپ نے اپنے تجربات، آزمایشوں، تحقیق اور چھان بین کے ذریعے اپنی شخصیت کی تشکیل کی، اور آپ نے کمال کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کےلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

مَیں نے آپ کا خط کئی بار پڑھا، اور ہر بار مُجھے اِس میں تازگی اور عظمت نظر آئی۔ اِس کے تاثرات کے ذریعے مُجھے محبّت اور تزکیہ نفس سے لبریز آپ کی پاکیزہ رُوح کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اعلیٰ ترین اِنسانی جذبات اور محبّت اور وفا کی گواہی دیتا ہے۔ آپ کے اِن اعترافات نے آپ سے میرا لگاؤ ​​اَور زیادہ بڑھا دیا ہے، اور مَیں آپ کو گذشتہ کئی سالوں کی طرح اپنے لئے ایک مثالی شخصیت کے طور پر رکھنے میں پرعزم ہوں۔ کمزوری اور پستی کے اعتراف نے آپ کی وقعت میری نظر میں اَور بھی بڑھا دی ہے۔

اگرچہ میری آپ سے رفاقت مختصر مُدّت کےلئے تھی، لیکن آپ کے خیالات اور احساسات کا مُجھ پر گہرا اثر پڑا ہے۔ آپ کے پیار، محبّت اور فیاضی کا اثر برسوں مٹ نہیں سکتا۔ اور اَب آپ نے اپنی محبّت اور خلوص کو تعلیمات اور سچائیوں کی صورت میں ظاہر کیا ہے جیسا کہ گذشتہ سال ایسے ہی خط میں کیا تھا جِسے مَیں نے سنبھال کر رکھا ہے اور ہمیشہ رکھوں گا۔ مَیں وقتاً فوقتاً راہنمائی اور بصیرت کےلئے اِسے پڑھتا ہوں۔ آپ کی نرم دِلی اور پاکیزہ اِرادہ میرے دِل کی بھی تمنّا ہے۔

رُوحانی یقین کی نعمت سب کے پاس نہیں ہے۔ درحقیقت میرے نزدیک کوئی شخص اُس وقت تک ذاتی اطمینان حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ اُسے اپنی رُوح کی نجات کا یقین نہ ہو اور یہ نہ جانتا ہو کہ وہ پاک دِل کے ساتھ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ مبارک ہے وہ شخص جو راست بازی حاصل کر کے، شکوک و شبہات اور خوف سے نجات پا کر اِس مقصد تک پہنچتا ہے۔ اِنسان کو رُوحانی بلندی کی طرف لے کر جانے والے راستوں کا تعلق مذہب اور فلسفے کے دائرے سے ہے۔ مذہبی اور فلسفی لوگ اعلیٰ درجے اور سب سے بڑی سعادت رکھتے ہیں۔ مذہب کو ایک اعلیٰ فلسفہ سمجھا جا سکتا ہے جو انسان کو روحانی خوشی کا احساس کرنے میں مدد کرنے کے قابل ہے، اگرچہ یہ بعض اوقات منطق کی حدود سے تجاوز کرنے کا سبب بنتا ہے۔

مَیں آپ کی طرح مانتا ہوں کہ ایک شخص صرف محبّت کے ذریعے ہی منوّر ہوتا ہے۔ وہ خُدا کے الہام کے بغیر اپنے دُکھوں اور مشکلات پر غالب نہیں آ سکتا۔ آپ نے اِس کا اُس وقت تجربہ کیا جب والدین کی محبّت سے محروم ہو کر اور اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے حقارت کا نشانہ بن کر زِندگی کے صحرا میں بھٹک رہے تھے۔ یوں لگتا ہے جیسے خُدا آپ کو مایوسی میں پڑنے کی اجازت دے کر آپ کو آپ کی آزمایشوں سے نجات دلانا چاہتا تھا، تا کہ آپ کو آپ کے عظیم منجی یسوع کا چہرہ دکھائے۔ آپ نے اُسے یہ کہتے سُنا: "دُنیا کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ رہے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 12)۔ آپ کی رُوحانی بھوک پیاس شدید تھی جب یسوع نے آپ سے ملاقات کی اور یہ کہتے ہوئے اپنا رحم دکھایا: "زِندگی کی روٹی میں ہُوں۔ جو میرے پاس آئے وہ ہرگز بُھوکا نہ ہو گا اور جو مُجھ پر اِیمان لائے وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا" (یوحنّا 6: 35)۔ پِھر آپ نے اُس عظیم نور کی روشنی میں ایک نئی زندگی پائی جو آپ پر ظاہر ہُوا۔ آپ اُس آسمانی روٹی کی تلاش میں نکل پڑے تا کہ آپ ایک ہی بار ہمیشہ کےلئے سیر ہو جائیں۔ آپ رسولی الفاظ کے مطابق ایک نئی رُوح کے ساتھ نئی مخلوق کے طور پر نئے سرے سے پیدا ہوئے: "اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلُوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 5: 17)۔

مُجھے شک نہیں کہ آپ اِن اہم تعلیمات کے تحت دِلی اطمینان کی بلندی پر پہنچے ہیں۔ مَیں اِس بہت بڑے قدم اور آپ کو ملنے والے اطمینان اور قبولیت کےلئے آپ کی تعریف کرتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ استحکام اور ابدیت کی طرف راستہ آپ کےلئے روشن ہُوا۔ مَیں جِس اطمینان کی تلاش میں ہوں اُس تک پہنچنے میں اپنی ناکامی آپ سے نہیں چھپاؤں گا۔

ہماری پریشانیاں کئی طرح سے ایک جیسی رہی ہیں، ایک ہی وجہ سے پیدا ہوئیں، کیونکہ ہم دونوں ماں اور باپ سے دُور رہتے تھے اور ہم دونوں نے ہر طرح کی محرومی کی تلخی کا مزہ چکھا ہے۔ لیکن آپ خوشی کا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آپ کے پاس آنسو پونچھنے والا، تنہائی دُور کرنے والا اور ٹھوکر لگنے پر اُٹھانے والا موجود تھا۔ بڑی رُوحانی مصیبت سے گزرنے کے بعد آپ نے آخرکار سعادت و اطمینان پایا۔ تاہم، مَیں اتنا خوش نصیب نہیں رہا۔

مُجھے آپ کے یقین اور پختگی نے بہت زیادہ متاثر کیا، جو بےشک آپ کے عرفان کے باعث ہونے والے مختلف تجربات کا نتیجہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جِس سے مُجھے یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ آپ کے اِس استدلال میں کیا ہے جو مَیں اَب تک سمجھ نہیں سکا۔

مُجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے مُجھے اپنے بارے میں بتایا اور مُجھ سے قطعی کوئی بات نہیں چھپائی۔ آپ نے منفی جذبات کے بغیر اور الجھن پیدا کرنے والی یادوں کا تذکرہ کئے بغیر، ایک تائب گنہگار کے طور پر اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ جیسے جیسے آپ کا اِیمان بڑھتا گیا اور آپ کی سوچ مستحکم ہوتی گئی، آپ نے اپنی کمزوریوں پر فتح حاصل کی۔ آپ نے الہٰی محبّت کا مزہ چکھا اور اُس سے لپٹ گئے۔

آپ کے بھروسے سے مُجھے خوشی ہے۔ آپ اُسے مُجھ پر ظاہر کر رہے ہیں جِس نے آپ کو تلخ اندھیروں سے ایک اَور دنیا میں پہنچایا جہاں محبّت، شخصی قربانی اور اِیمان کے معیار ہیں۔

آپ نے مُجھے ایسے عنوانات سے مسحور کر دیا ہے جنہوں نے میرے گہرے احساسات اور جذبات کو متحرک کیا ہے۔ میرے بھائی، رُوحانی راہنمائی اور شاندار سچائیوں کو ظاہر کرنے سے آپ میری شدید پیاس دُور کر رہے ہیں، شکریہ۔

آپ نے مُجھے جو کُچھ بتایا مَیں اُس میں سے زیادہ تر پر اِیمان رکھتا ہوں۔ مَیں مانتا ہوں کہ یسوع خود خُدا ہے اور یوں وہ قادر مطلق ہے۔ اُس کی پیدایش قدرت بھری ہے۔ اُس کا ہزاروں لوگوں کو دو مچھلیوں اور پانچ روٹیوں پر کھانا کھلانا زبردست ہے۔ اُس کا مُردوں کو زندہ کرنا قدرت بھرا ہے، گونگے آدمی اور کوڑھی کو شفا بخشنا زبردست ہے۔ اُس کےلئے کُچھ بھی ناممکن نہیں!

جب بھی آپ کےلئے مناسب ہو مُجھے اُس کی موت اور مصلوبیت کے بارے میں مزید بتائیے، کیونکہ مَیں اِن اہم موضوعات کو پوری طرح نہیں سمجھتا۔ براہ کرم میرے لئے اِن اہم واقعات پر روشنی ڈالیں۔

آپ کی اہلیہ محترمہ نے جب سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی ہے میرے ساتھ اپنا رویہ کبھی نہیں بدلا۔ مَیں جب بھی حمص اور لطاکیہ میں آپ کے ساتھ رہا وہ میرے ساتھ ماں اور بہن کی طرح پیش آئیں۔ میرے ذہن میں اَب بھی اُن کے ساتھ گزرے وقت کی خوشگوار یادیں ہیں۔ کوئی اَور ماں ویسے میرا خیال نہ رکھ سکتی جیسے اُنہوں نے رکھا۔ کوئی بہن مُجھے ویسے نہیں سمجھ سکتی تھی جیسے اُنہوں نے سمجھا۔ مَیں جب بھی اُن دلکش یادوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو خوشی سے بھر جاتا ہوں۔ مُجھے اُمّید ہے کہ آپ کی پیاری بیوی، میری عزیز بہن، اِس اچھی خبر کو سُن کر خوش ہوں گی۔ مُجھے اُمّید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔

مخلص

حسّان

٭ ٭ ٭

5۔ صلیب ایک حقیقت ہے

"اور مَیں اگر زمین سے اُونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا۔" (اِنجیل بمطابق یُوحنّا 12: 32)

حسّان کا خط پڑھ کر میری رُوح ایسی خوشی سے بھر گئی جِسے قلم بیان نہیں کر سکتا۔ مَیں کیونکر خوش نہ ہوتا، زِندگی کے کلام نے اُس کے دِل کو چھؤا اور وہ نجات دہندہ کے نزدیک آنے لگا جِسے اُس نے اپنا آقا، معلم اور ہادی تسلیم کیا تھا۔ چنانچہ مَیں بیٹھ گیا اور اُسے جواب میں لکھا:

9 جنوری، 1954ء

میرے پیارے بھائی،

مَیں خُدا کی طرف سے ایک ایسے وقت میں تسلّی کا منتظر تھا جبکہ تمہارا نامہ ملا تو کیا تھا، دِل جھوم جھوم اُٹھا جِسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔

سب سے بڑی تسلی تو یہ ہے میرا یہ بھائی جو فرسودہ رواج و تقالید میں گرفتار تھا، اَب نور کے فرزندوں کی آزادی میں شامل ہونے کو تیار ہے تا کہ میرے ساتھ اُس آواز کو سُن سکے جو کہتی ہے: "دُنیا کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ رہے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 12)۔

اِس سے بڑھ کر اَور کیا خوشی ہو گی کہ کلام حق تمہارے دِل میں جگہ پا رہا ہے اور تمہاری رُوح پر اثر انداز ہو رہا ہے کہ تمہارا ایمان تمہیں یسوع کی الوہیت کی معرفت اور حیرت انگیز محبّت کی طرف کھینچ رہا ہے۔ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ خُدا کی محبّت کے فداکارانہ کام پر تمہاری جستجو اَور بڑھی ہے کہ تم صلیب کے سائے میں رُوحانی اطمینان تلاش کر رہے ہو جو اِنسان کےلئے خُدا کی محبّت کی سب سے زبردست نمائندگی ہے! اِس سے بڑھ کر اَور کیا اعزاز ہو گا کہ خُدا نے میرے سپرد یہ کام کیا کہ مَیں خداوند یسوع مسیح کی صلیب کے موضوع کی وضاحت پیش کروں، اور تمہاری خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنی عاجزانہ معلومات کے مطابق وہ سب واضح کروں جو مسیح کی موت کے تعلق سے تم پر غیر واضح ہے۔

میرے عزیز بھائی، صلیب کا موضوع ایک اہم و دقیق موضوع ہے۔ اِس کا تفصیلی جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ مَیں کتابِ مُقدّس کے چند ضروری واقعات کا ذکر کروں جنہوں نے اِنسان کی نجات کےلئے خُدا کی محبّت کو واضح کیا۔

سقوط

کتابِ مُقدّس یہ تعلیم دیتی ہے کہ خُدا نے اِنسان کو اپنی صورت پر راست بازی، پاکیزگی اور حق کے ساتھ خلق کیا۔ کامل فرمانبرداری کی شرط پر حیاتِ جاوید کا وعدہ تھا۔ پیدایش کی کتاب کے ایک حوالہ میں یوں درج ہے:

"اور خُدا نے اِنسان کو اپنی صُورت پر پیدا کِیا۔ خُدا کی صُورت پر اُس کو پیدا کیا۔ نر و ناری اُن کو پیدا کیا۔ اور خُدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور و محکوم کرو اور سمُندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرِندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اِختیار رکھّو ۔۔۔ اور خُداوند خُدا نے آدم کو لے کر باغِ عدن میں رکھّا کہ اُس کی باغبانی اور نگہبانی کرے۔ اور خُداوند خُدا نے آدم کو حُکم دِیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 1: 27، 28؛ 2: 15۔ 17)

آدم کُچھ عرصہ تک خُدا کے فردوس کے عمدہ مُقدّس ماحول میں رہا جہاں اُسے خُدا کے ساتھ رُوحانی رفاقت حاصل تھی۔ اِس رفاقت نے آدم کے دل و دماغ کو خوشی سے بھر دیا۔ اُس میں گناہ نہ تھا اور یوں وہ خُدا کے دِل کے قریب تھا۔ خُدا پر اِیمان نے اُس کو اِس قابل بنا رکھا تھا کہ خُدا کی ساری برکتوں کو حاصل کرتا رہے۔ وہ راست باز تھا اور اُس کی راست بازی خُدا کے نور کی چمک تھی۔

خُداوند خُدا نے آدم کا امتحان لیا کہ دیکھے وہ اِس دوستی و فرمانبرداری کو کس حد تک نبھا سکتا ہے۔ اِس کےلئے اُس نے امر و نہی کے درمیان کی حدِ فاصل قائم کی کہ جِس کا تجاوز کرنا گناہ کو جنم دینا تھا۔ خُدا نے یہ حدِ فاصل علامتی انداز میں درخت کے پھل میں رکھی جو آدم کو کھانا منع تھا۔

یہ امتحان شیطان کی طرف سے آزمایش کے طور پر آیا۔ وہ پہلی عورت حوّا کے پاس آیا، اور یوں ظاہر کیا کہ وہ اُس پہلے خاندان کی بہبود میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اُس نے اُس کے سامنے ایک بھولے انداز میں پُر فریب سوال رکھا: "۔۔۔ کیا واقعی خُدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 1)۔ گویا کہ دھوکہ باز یہ کہہ رہا تھا کہ یہ بات تو معقول نہیں لگتی کہ خُداوند جِس نے اپنی محبّت میں یہ سب عنایات کی ہیں، تمہارا خیال رکھا ہے اور یہ سب خوشیاں عطا کی ہیں، ایسا کہے اور باغ کے ہر درخت کا پھل کھانے سے روک دے؟

سب اِنسانوں کی ماں حوّا شیطان کے اِس مکارانہ سوال کے دام میں آ گئیں۔ اِس سوال نے حوّا کے ذہن میں پہلے حکم کے تعلق سے شک پیدا کر دیا، اور شک کے تحت حوّا نے جواب دیا: "باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خُدا نے کہا ہے کہ تُم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چُھونا ورنہ مر جاؤ گے" (پیدایش 3: 2، 3)۔

حوّا پر جب شبہ کا عالم پیدا ہُوا تو اُس نے الفاظ "نہ چُھونا" کا اضافہ کر کے خُدا کے الفاظ کو توڑ مروڑ دیا۔ اِس اضافے نے اُسے ایک سنگین خطا، کلام خُدا کو مسخ کرنے کا مرتکب ٹھہرا دیا۔ پِھر شیطان نے خُدا کے حکم کی بابت مزید شک پیدا کرنے کےلئے کہا: "بلکہ خُدا جانتا ہے کہ جِس دِن تُم اُسے کھاؤ گے تُمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خُدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے" (پیدایش 3: 5)۔ یوں دھوکے باز کے الفاظ معقول معلوم ہوئے۔ اُس نے یہ ظاہر کیا کہ گویا خُدا نے اُنہیں علم میں اپنی برابری کرنے سے روکنے کےلئے ایک غیر معقول تنبیہ کے ذریعے محدود کر دیا۔ عورت کے دِل میں شک کا بیج پڑ چکا تھا، اِس لئے زیادہ دیر تک خود کو روک نہ سکی اور شیطانی بہکاوے میں آ گئی۔ دیکھنے پر پھل اُسے بھایا جِسے اُس نے خود بھی کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا: "عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کےلئے اچھّا اور آنکھوں کو خُوش نما معلُوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کےلئے خُوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کُھل گئیں اور اُن کو معلُوم ہُؤا کہ وہ ننگے ہیں اور اُنہوں نے اِنجیر کے پتّوں کو سی کر اپنے لئے لُنگیاں بنائیں" (پیدایش 3: 6، 7)۔

اِس طرح، اوّلین میاں بیوی خُدا کے حکم کے نافرمان ہوئے۔ حوّا نے خُدا کے حکم کی مصلحت پر شک کیا، اُسے توڑا اور اپنے شوہر کو بھی اُس گناہ پر آمادہ کیا۔ اِسی طرح آدم نے خُداوند کے عہد کو توڑا اور اپنی حدود سے تجاوز کیا (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 3: 4)۔ اور چونکہ خُدا کی شریعت کے مطابق گناہ کی مزدوری موت ہے (نیا عہدنامہ، رومیوں 6: 23)، اِس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ دونوں حکم توڑنے والے دیئے گئے الہیٰ انتباہ کے مطابق سزا کے مستحق ٹھہرے: "لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جِس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا" (پیدایش 2: 17)۔ یہاں موت کا مطلب قبر میں جسم کی تحلیل نہیں ہے، بلکہ رُوح کی موت ہے جو آگ کی جھیل میں ہمیشہ کےلئے ڈالا جانا ہے۔ یسعیاہ نبی نے جہنم کے عذاب کو یوں بیان کیا ہے: "اور وہ نکل نکل کر اُن لوگوں کی لاشوں پر جو مُجھ سے باغی ہُوئے نظر کریں گے کیونکہ اُن کا کیڑا نہ مرے گا اور اُن کی آگ نہ بُجھے گی اور وہ تمام بنی آدم کےلئے نفرتی ہوں گے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 66: 24)۔

جب آدم کا سقوط ہُوا اور وہ سزا کا مرتکب ٹھہرا۔ اِس لئے خدا نے اُسے کہا: "چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جِس کی بابت مَیں نے تُجھے حُکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا اِس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہُوئی۔ مشقّت کے ساتھ تُو اپنی عُمر بھر اُس کی پیداوار کھائے گا۔ اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اُونٹ کٹارے اُگائے گی اور تُو کھیت کی سبزی کھائے گا۔ تُو اپنے مُنہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تُو پھر لَوٹ نہ جائے اِس لئے کہ تُو اُس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا" (پیدایش 3: 17۔ 19)۔ پِھر اُنہیں باغِ عدن سے نکال باہر کیا گیا۔ آدم اپنی بیوی کے ساتھ مشقّت اور پسینے کی روٹی کھانے لگا۔ پھِر اُن کی اولاد ہوئی جو باغِ عدن کی میراث سے محروم تھی۔

آدم اور حوّا کی اولاد موروثی گناہ کے بوجھ تلے اِس زمین پر کراہنے لگی جو خود بھی اُن ہی کے سبب لعنت زدہ ہو چکی تھی۔ ہمارے اوّلین والدین نہ صرف خود گنہگار ہوئے، بلکہ اُن کی اولاد ویسی ہی موروثی گنہگار ٹھہری۔ پولس رسول نے اِس کا ذِکر یوں کیا ہے: "پس جِس طرح ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یُوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گُناہ کیا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 12)۔

چنانچہ یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ آدم کی خطا ہمارے ضمیر میں اُتر کر نہیں آئی یا یہ کہ ہر شخص صرف نیکی کے چناؤ کی قابلیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور وہ والدین کے گناہ کے زیرِ اثر نہیں ہوتا۔ مُجھے تعجّب ہے کہ کُچھ لوگوں نے ایسی رائے کیونکر پکڑ لی جبکہ کتابِ مُقدّس سراسر اِس کے خلاف ہے۔

کیا عملی طور پر آدم نسل انسانی کا نمائندہ نہیں تھا؟ وہ تمام وعدے جو خُدا نے اُس سے کئے تھے وہ اُس کے اور اُس کی اولاد کےلئے بھی تھے۔ جب سزا کا فیصلہ سنایا گیا تو زمین اُس کی اولاد کےلئے بھی ملعون ہو گئی۔ اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھانا اُن کا بھی مقدّر ٹھہرا۔ آدم کی طرح اُن پر بھی موت کا تسلّط ہے۔ حوّا پر دردِ زہ کی سزا ہر دخترِ حوّا پر صادق ہے۔ نابینا شاعر، ابو الاعلیٰ المعری نے اِنسان کو وراثت میں ملنے والی گناہ کی فطرت کا یوں بیان کیا ہے: "یہ وہ گناہ ہے جو مُجھ پر میرے باپ نے لادا لیکن مَیں نے وہ کسی پر نہیں لادا۔"

ہمارے لئے اِس بات کا کیا جواز ہے کہ زِندگی میں وراثت کے گہرے اثرات کو اُس کے مختلف پہلوؤں میں قبول کریں اور اُس وراثت کے اثر کو قبول نہ کریں جو اِنسان کو اس کے پہلے والدین کے گناہوں سے ملتا ہے؟ ہر دور کے اِنسانی تجربات داؤد بن یسّی کے الفاظ کی عکاسی کرتے ہیں: "دیکھ! مَیں نے بدی میں صُورت پکڑی اور مَیں گُناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا" (پرانا عہدنامہ، زبور 51: 5)۔ ہزاروں سال گزرنے کے بعد یہی سوال پولس رسول کی زبان پر تھا:

"کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شریعت تو رُوحانی ہے مگر مَیں جسمانی اور گُناہ کے ہاتھ بِکا ہُؤا ہُوں۔ اور جو مَیں کرتا ہُوں اُس کو نہیں جانتا کیونکہ جِس کا مَیں اِرادہ کرتا ہُوں وہ نہیں کرتا بلکہ جِس سے مُجھ کو نفرت ہے وُہی کرتا ہوں۔ اور اگر مَیں اُس پر عمل کرتا ہُوں جِس کا اِرادہ نہیں کرتا تو مَیں مانتا ہُوں کہ شرِیعت خُوب ہے۔ پس اِس صُورت میں اُس کا کرنے والا مَیں نہ رہا بلکہ گُناہ ہے جو مُجھ میں بسا ہُؤا ہے۔ کیونکہ مَیں جانتا ہُوں کہ مُجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہُوئی نہیں البتّہ اِرادہ تو مُجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مُجھ سے بن نہیں پڑتے۔ چنانچہ جِس نیکی کا اِرادہ کرتا ہُوں وہ تو نہیں کرتا مگر جِس بدی کا اِرادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہُوں۔ پس اگر مَیں وہ کرتا ہُوں جِس کا اِرادہ نہیں کرتا تو اُس کا کرنے والا مَیں نہ رہا بلکہ گُناہ ہے جو مُجھ میں بسا ہُؤا ہے۔ غرض مَیں اَیسی شرِیعت پاتا ہُوں کہ جب نیکی کا اِرادہ کرتا ہُوں تو بدی میرے پاس آ موجود ہوتی ہے۔ کیونکہ باطنی اِنسانیّت کی رُو سے تو مَیں خُدا کی شریعت کو بُہت پسند کرتا ہُوں۔ مگر مُجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مُجھے اُس گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔ ہائے مَیں کیسا کمبخت آدمی ہُوں! اِس موت کے بدن سے مُجھے کون چُھڑائے گا؟" (نیا عہدنامہ، رُومِیوں 7: 14۔ 24)

نامور انگریز عالم ہکسلے کا قول ہے کہ اِنسانی ترقی کے مطالعہ کے علاوہ مَیں کسی اَور مطالعہ کو نہیں جانتا جو دردناک نتیجہ تک پہنچاتا ہے۔ تاریخ کے اندھیروں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اِنسان ایک ایسی قوّت کا غلام ہے جو اُسے اپنے شکنجے میں لئے ہوئے ہے، وہ شکار ہے اندھے پن کا اور توہمات کا جو اُسے بربادی کی طرف دھکیلتی ہیں، اور یوں یہ قوّت اُسے دُکھوں اور پریشانیوں سے تباہ کر دیتی ہے۔ ہزاروں سال سے اِسی طرح وہ اِن چیزوں سے نبرد آزما ہے اور اپنی قبر خود کھود رہا ہے اور رو رہا ہے۔

کیا تاریخ میں موجود اِن پکارتی شہادتوں کی احتیاج ہے؟ کیا اِس حقیقت کے اِدراک کےلئے اتنا کافی نہیں ہے کہ اِنسان خود اپنے اندر جھانکے اور اپنے رُجحانات و جذبات کا احساس کرے اور خود یہ معلوم کرے کہ آیا اُس کے اندر قانونِ گناہ بس رہا ہے؟

ہمارے لئے یہی بہت ہے کہ بشری سماج پر نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ یہ حقیقت اِنسانیت میں رچی بسی ہے۔ کتاب مقدّس میں لکھا ہے:

  • "احمق نے اپنے دِل میں کہا ہے کہ کوئی خُدا نہیں۔ وہ بِگڑ گئے۔ اُنہوں نے نفرت انگیز کام کئے ہیں۔ کوئی نیکوکار نہیں۔" (پرانا عہدنامہ، زبور 14: 1)۔

  • "ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھرا ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 6)۔

  • "سب گُمراہ ہیں سب کے سب نِکمّے بن گئے۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ اُن کا گلا کُھلی ہُوئی قبر ہے۔ اُنہوں نے اپنی زُبانوں سے فریب دِیا۔ اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔ اُن کا مُنہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔ اُن کے قدم خُون بہانے کےلئے تیز رَو ہیں۔ اُن کی راہوں میں تباہی اور بدحالی ہے۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 12۔ 16)

جی ہاں، اِنسانی دِل میں گُناہ کی موجودگی ایک ایسی حقیقت ہے جِس کا انکار صرف خود فریبی کا شکار شخص ہی کر سکتا ہے۔ اِنسانی فطرت کی خرابی واضح ہے، اِنسان اخلاقی قوانین پر عمل کرنے میں ناکام رہتا ہے، حتیٰ کہ اپنی توبہ پر بھی وہ قائم نہیں رہ سکتا۔ جب تک اُسے رُوح القدس کے ذریعے خُدا کی مدد حاصل نہ ہو وہ نیکی کی ہر کوشش میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اِنسان کی رُوح بے داغ نہیں ہے جیسا کہ آدم کے گناہ میں گرنے سے پہلے تھی۔

زمانہ ماضی کے جرائم کی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ یہ جاننے کےلئے کافی ہے کہ اِنسانی طبیعت میں بگاڑ ہے۔ ہم اِنسان کو میراث میں ملی بگڑی ہوئی فطرت کا پہلا مظاہرہ تاریخ کے پہلے قتل میں دیکھتے ہیں جب آدم کے بیٹے قائن نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کر دیا۔ اور قائن نے ہابل کو کیوں قتل کیا؟ کیا اِس لئے نہیں کہ وہ شریر تھا؟ ہم آپس میں کیوں جھگڑتے ہیں؟ کیا اِس لئے نہیں کہ بدی ہماری فطرت کے اندر موجود ہے؟ کیوں ایک قوم دوسری سے جنگ پر آمادہ رہتی ہے؟ کیا اِس لئے نہیں کہ افراد کی انفرادی برائی اجتماعی ہو جاتی ہے؟

گناہ کی مزدوری

پِھر سوال اُٹھتا ہے کہ گناہ کی مزدوری کیا ہے؟ گناہ کی مزدوری موت ہے (رومیوں 6: 23)۔

آدم اور حوّا گناہ میں گرنے کے باعث رُوحانی طور پر مر گئے اور یہ خُدا سے اُن کی علیحدگی کا ثبوت ہے۔ اِس طرح، اُنہوں نے اپنے خالق کے ساتھ خوبصورت، پیاری اور مُقدّس رُوحانی رفاقت کا رشتہ کھو دیا۔ اُنہوں نے ٹھنڈے وقت میں خُدا کی حضوری میں کھڑے ہونے کی اپنی خواہش کھو دی، اور باغ کے درختوں میں اپنے آپ کو اُس سے چھپایا (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 8)۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو گناہ کی وجہ سے چھپایا جیسا کہ لکھا ہے: "۔۔۔ تُمہاری بدکرداری نے تُمہارے اور تُمہارے خُدا کے درمیان جُدائی کر دی ہے اور تُمہارے گُناہوں نے اُسے تُم سے رُوپوش کیا ایسا کہ وہ نہیں سُنتا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 59: 2)۔

اِنصاف پر مبنی وہ فیصلہ کس قدر ہولناک تھا جو خُدا نے جاری کیا: "لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جِس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا" (پیدایش 2: 17)۔

لیکن کیا ساری اُمّید ختم ہو گئی ہے؟ کیا اِنسان کےلئے کھوئی ہوئی فردوس اور پاکیزگی کی طرف لوٹنے کا کوئی موقع نہیں ہے؟ نہیں! اُمّید ختم نہیں ہوئی، نہ ختم ہو گی؛ کیونکہ خُدائے عادل محبّت کرنے والی ہستی بھی ہے جِس کی مہربانی کی کوئی حد نہیں۔ وہ اپنی شفقت میں بےحد غنی ہے۔ اِس عظیم محبّت نے اِنسان کی نجات کا انتظام حیرت انگیز فدیہ و کفّارہ میں کیا تا کہ ہمیں اپنے لئے مول لے سکے۔

الٰہی محبّت کی مداخلت

چونکہ خُدا اپنی تمام صفات میں کامل ہے، اور اُس کی کمال صفات میں عدل اور صِدق بھی ہیں جو بدلتے نہیں، اِس لئے اُس نے اِنسان کی سرکشی پر ابدی موت کی سزا کا اعلان کیا۔ تاہم، جِس طرح اُس کا عدل اور صِدق لا تبدیل ہے ویسے ہی اُس کی محبّت بھی حیرت انگیز طور پر لا تبدیل ہے جِس کی معافی اور درگزر کے معاملے میں کوئی حد نہیں۔ خُدا تعالیٰ نے اِس کا اظہار یہ کہہ کر کیا: "مَیں نے تُجھ سے ابدی مُحبّت رکھّی، اِسی لئے مَیں نے اپنی شفقت تُجھ پر بڑھائی" (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 31: 3)۔

خُدا کی اِس بےمثال محبّت نے اِنسان کو اُس کی کمزوری اور نجات کی ضرورت کے پیش نظر بچانے کا انتظام کیا۔ یوں اِنسان کی کمزوری نے خُدا کی ہمدردی حاصل کی۔ پرانے عہدنامہ میں خُدا کی محبّت کا اظہار یوں ملتا ہے: "شریر کے مرنے میں مُجھے کُچھ خُوشی نہیں بلکہ اِس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے۔ اے بنی اِسرائیل باز آؤ۔ تُم اپنی بُری روِش سے باز آؤ۔ تُم کیوں مرو گے؟" (پرانا عہدنامہ، حزقی ایل 33: 11)۔

یہ حیرت انگیز محبّت ابتدا سے کلام تھی جو خُدا کے ساتھ تھی، اُس نے قوّت پورا ہونے پر یسوع مسیح میں تجسّم لیا تا کہ اِنسان خاطی کےلئے فدیہ و کفّارہ کا کام کرے، جِس سے خُدا کا وہ وعدہ بھی پورا ہو جائے جو عورت کی نسل سے ایک منجی کے پیدا ہونے کا تھا (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 15)۔ اِس مبارک وعدہ نے نبوّتوں اور رویاؤں کو جنم دیا، حتیٰ کہ یسوع کے قلب نے گلگتا کی صلیب تک جانے کا عزم کیا تا کہ وہ اپنا مُقدّس خون بہا کر دُنیا کے گُناہوں کا کفّارہ دے۔

ایک مشہور وکیل سر جان پرینٹس نے اپنے ایک مؤکل کے دفاع میں کہا: "مَیں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ خُدا نے اپنے مشورہ ازلیہ میں عدل، حق اور محبّت سے پوچھا، 'کیا مَیں انسان کو پیدا کروں؟' عدل نے جواب دیا، 'نہیں، وہ تیرے تمام قوانین اور احکام کو روندے گا۔' حق بولا، 'اُسے نہ بناؤ کیونکہ بڑا قبیح الشکل بن جائے گا، ہمیشہ باطل کے پیچھے دوڑے گا، اور جھوٹ بولے گا۔' پِھر محبّت نے کہا: 'مُجھے معلوم ہے کہ یہ سب ہو گا، لیکن مَیں اِنسانی شر و فساد کے باوجود اُس کا خیال رکھوں گی اور جب وہ تاریک راہوں میں بھٹکے گا تو اُس کے ساتھ رہوں گی جب تک کہ اُسے تیرے پاس نہ لے آؤں۔'"

درحقیقت، خُدا نے اِنسان کو بہترین شکل میں پیدا کیا، لیکن وہ اپنے مقام سے گر گیا جب اُس نے بطالت کی پیروی کی اور برائی میں مشغول ہو گیا۔ خُدا کی محبّت نے اُسے رحم سے مالا مال کر دیا، اور یسوع مسیح کی پیدایش کے ذریعہ پست حال اِنسان کو بچانے اور برائی سے چھٹکارا دلانے کا انتظام کیا۔ اِنسان کو اِس کامل اور ابدی نجات کی ضرورت، اُس کی طرف جانے کی سبیل دکھائی گئی۔ نیز یہ بتایا گیا کہ اِنسان اُسے کیسے قبول کر سکتا ہے اور اِنسان کی موجودہ اور ابدی زِندگی میں اِس قبولیت کے نتائج اور اثرات کیا ہیں؟ اُمّید ہے کہ ایک دِن، اِس زندگی کے بعد، ہم پوری طرح سمجھ جائیں گے کہ نجات کا کیا مطلب ہے۔

اَب مَیں تمہیں پیدایش کے واقعہ کی طرف واپس لے جاتا ہوں، تا کہ ہم غور کر سکیں کہ آدم اور حوّا کی برہنگی کو ڈھانپنے کےلُے الٰہی محبّت نے کیا کیا۔ بیش قیمت کتابِ مُقدّس میں درج ہے: "اور خُداوند خُدا نے آدم اور اُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہنائے" (پیدایش 3: 21)۔ یہ الٰہی عمل بتاتا ہے کہ باغ عدن کے حیوانات میں سے کسی کو ذبح کیا گیا۔ اِس طرح، کفّارہ دینے والی قربانیوں کا عہد جو بعد میں عہدنامہ قدیم میں رائج کیا گیا تھا اُس کی بنیاد پڑی۔ یہ قربانیاں خُدا کے برّہ، یسوع کی علامت تھیں، جِس نے اپنے آپ کو قربان کر کے دُنیا کا گناہ اُٹھا لیا۔ ہم صحائفِ مُقدّسہ سے جانتے ہیں کہ ہابل نے جِس ذبیحہ کو خُدا کی نذر کیا تھا وہ آنے والی مخلصی کا عکس تھا (پیدایش 4: 4)۔

اِسی طرح جناب ابرہام کے بیٹے اضحاق کے چھٹکارے کےلئے خُدا نے جو مینڈھا مہیا کیا (پیدایش 22: 1۔ 14)، وہ بھی اُس عظیم نجات کی علامت تھا جِسے اُس نے ازل سے مسیح کی قربانی کے ذریعے تیار کیا تھا۔ نیز، فسح کا برّہ جِسے خُدا نے بنی اسرائیل کو مصر میں قربان کرنے کی ہدایت کی تھی (پرانا عہدنامہ، خروج 12: 1۔ 42)، یسوع خُدا کے برّہ کی واضح تصویر تھا جو قربان ہُوا، جیسا کہ پولس رسول کے الفاظ سے واضح ہے: "پرانا خمیر نکال کر اپنے آپ کو پاک کر لو تا کہ تازہ گُندھا ہُوا آٹا بن جاؤ۔ چُنانچہ تُم بےخمِیر ہو کیونکہ ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قُربان ہُؤا۔ پس آؤ ہم عید کریں۔ نہ پُرانے خمیر سے اور نہ بدی اور شرارت کے خمیر سے بلکہ صاف دِلی اور سچّائی کی بےخمیر روٹی سے" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 5: 7، 8)۔

قوم کے تجربات

عہدنامہ قدیم کے زمانہ میں بنی اسرائیل ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک موسوی شریعت کے تحت رہے۔ اگرچہ اِس شریعت نے قدیم زمانے میں اِنسانوں کو فصلوں اور جانوروں کی مادی قربانیاں دے کر گناہوں کا کفّارہ ادا کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن اُس کے سخت احکام ہر فاسق کو سزائیں دیتے تھے، کیونکہ یہ انصاف اور انتقام کا ذریعہ بھی تھا۔ اِس تعلق سے کتاب مقدّس میں ہمیں درج ذیل آیات ملتی ہیں:

  • "لَعنت اُس پر جو اِس شریعت کی باتوں پر عمل کرنے کےلئے اُن پر قائم نہ رہے اور سب لوگ کہیں، آمین۔" (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 27: 26)۔

  • "اور تُو اُن سے کہہ، خُداوند اِسرائیل کا خُدا یُوں فرماتا ہے کہ لَعنت اُس اِنسان پر جو اِس عہد کی باتیں نہیں سُنتا۔" (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 11: 3)۔

  • "اے نادان گلِتیو! کِس نے تُم پر افسُوں کر لیا؟ تُمہاری تو گویا آنکھوں کے سامنے یسوع مسیح صلیب پر دِکھایا گیا۔" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 1)

  • "کیونکہ جِس نے ساری شریعت پر عمل کیا اور ایک ہی بات میں خطا کی وہ سب باتوں میں قصُوروار ٹھہرا۔" (نیا عہدنامہ، یعقوب 2: 10)

چونکہ کوئی بھی شریعت پر پوری طرح سے عمل نہیں کر سکا، اِس لئے ظاہر ہے کہ سب اِنسان لعنت کے تحت ہیں: "اِس لئے کہ سب نے گُناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محرُوم ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 23)۔ عملی طور پر، ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت ہمیں راست بازی عطا کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ یہ تو بس کمال کی ایک کسوٹی ہے۔ یہ بلاشبہ ایک آئینہ کے مشابہ ہے جو ہماری آنکھ میں موجود دھبے کو تو دکھاتا ہے مگر اُسے دُور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اِس موضوع کے بارے میں پولس رسول نے کہا: "مگر کتابِ مُقدّس نے سب کو گُناہ کا ماتحت کر دیا تا کہ وہ وعدہ جو یسوع مسیح پر اِیمان لانے پر موقُوف ہے اِیمان داروں کے حق میں پُورا کیا جائے۔ اِیمان کے آنے سے پیشتر شریعت کی ماتحتی میں ہماری نگہبانی ہوتی تھی اور اُس اِیمان کے آنے تک جو ظاہِر ہونے والا تھا ہم اُسی کے پابند رہے۔ پس شریعت مسیح تک پُہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تا کہ ہم اِیمان کے سبب سے راست باز ٹھہریں" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 22۔ 24)۔

اِس طرح، اَے بھائی، اِنسان کی کمزوری اور شریعت پر عمل کرنے میں اُس کی نااہلی کے پیش نظر خُدا کی شفقت ظاہر ہوئی، اور اُس نے گُناہ کو دُور کرنے کےلئے مداخلت کی جِس نے اِنسان کی پاکیزگی چھین کر اُس کی صورت مسخ کر ڈالی۔ یوں اِنسان کو شریعت کی لعنت اور اُس کے الفاظ کی غلامی سے نجات ملی۔ وہ مسیح کے الفاظ کے مطابق آزاد ہُوا:

"خُداوند کا رُوح مُجھ پر ہے۔ اِس لئے کہ اُس نے مُجھے غرِیبوں کو خُوشخبری دینے کےلئے مسح کیا۔ اُس نے مُجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سُناوُں۔ کُچلے ہُوؤں کو آزاد کروں۔ اور خُداوند کے سالِ مقبُول کی مُنادی کروں۔" (اِنجیل بمطابق لُوقا 4: 18، 19)

اِس تعلق سے پولس رسول کہتے ہیں: "کیونکہ جب ہم جسمانی تھے تو گُناہ کی رغبتیں جو شریعت کے باعث پیدا ہوتی تھیں موت کا پھل پیدا کرنے کےلئے ہمارے اعضا میں تاثیر کرتی تھیں۔ لیکن جِس چِیز کی قید میں تھے اُس کے اعتبار سے مر کر اَب ہم شریعت سے اَیسے چُھوٹ گئے کہ رُوح کے نئے طور پر نہ کہ لفظوں کے پُرانے طور پر خدمت کرتے ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 7: 5، 6)۔

6۔ تجسُّم

"اِس میں کلام نہیں کہ دین داری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جِسم میں ظاہر ہُؤا، اور رُوح میں راست باز ٹھہرا، اور فرشتوں کو دکھائی دیا، اور غیر قوموں میں اُس کی مُنادی ہُوئی، اور دُنیا میں اُس پر اِیمان لائے اور جلال میں اُوپر اُٹھایا گیا۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ تیمتھیس 3: 16)

زمانہ قدیم سے ہی مردانِ خُدا نے اِس امر کو خوب جان لیا تھا کہ لوگ کمزور ہیں اور شریعت گناہ کی بیماری سے شفا نہیں دے سکتی۔ اِس لئے وہ ذبیحوں اور سوختنی قربانیوں سے ہٹ کر کسی اَور وسیلہ شفا کی راہ دیکھ رہے تھے۔ نئے عہدنامہ میں درج ہے کہ ہیکل میں پیش کی جانے والی نذریں اور قربانیاں عبادت گزار کو دِل کے اِعتبار سے کامِل نہیں کر سکتیں (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 9: 9)۔ اِسی تعلق سے کتاب زبور میں وارد ہُوا ہے کہ "کیونکہ قُربانی میں تیری خُوشنُودی نہیں ورنہ مَیں دیتا۔ سوختنی قُربانی سے تُجھے کُچھ خُوشی نہیں۔ شِکستہ رُوح خُدا کی قُربانی ہے۔ اَے خُدا تُو شِکستہ اور خستہ دِل کو حقیر نہ جانے گا" (پرانا عہدنامہ، زبور 51: 16، 17)۔ یسعیاہ نبی کے صحیفہ میں درج ہے: "خُداوند فرماتا ہے، تُمہارے ذبیحوں کی کثرت سے مُجھے کیا کام؟ مَیں مینڈھوں کی سوختنی قُربانیوں سے اور فربہ بچھڑوں کی چربی سے بیزار ہُوں اور بیلوں اور بھیڑوں اور بکروں کے خُون میں میری خُوشنُودی نہیں۔ جب تُم میرے حضور آ کر میرے دیدار کے طالب ہوتے ہو تو کون تُم سے یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہوں کو روندو؟" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 1: 11، 12)۔

اِس عرصے کے دوران خُدا نے اپنے وفادار بندوں پر ظاہر کیا کہ اُس نے صلح کے ایک درمیانی کے ذریعہ نجات کا ایک مؤثر طریقہ تیار کیا ہے جو وقت پورا ہونے پر آئے گا (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 4)، "کیونکہ اُس نے ایک ہی قُربانی چڑھانے سے اُن کو ہمیشہ کے لِئے کامِل کر دیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 10: 14)۔

ایّوب نبی پر غور کر کے دیکھو جِس پر سخت ترین آزمایشیں اور ہولناک مصیبتیں آئیں، تو بھی اُس نے اپنی انتہائی مشکل میں الٰہی درمیانی کی جھلک دیکھ کر اپنے چھٹکارے کی ضرورت کو محسوس کیا اور کہا: "ہمارے درمیان کوئی ثالِث نہیں جو ہم دونوں پر اپنا ہاتھ رکھّے" (پرانا عہدنامہ، ایّوب 9: 33)۔

اُدھر یسعیاہ نبی نے نبوّت کی آنکھوں سے ایک کنواری سے پیدا ہونے والے مسیحا کو دیکھا اور اُسے عمّانوایل کہا، جِس کا مطلب ہے "خُدا ہمارے ساتھ" (یسعیاہ 7: 14)۔ اُس نے اُس کے الٰہی القابات کا بھی ذِکر کیا: "عجیب مشیر، خُدائے قادر، ابدیت کا باپ، سلامتی کا شاہزادہ" (یسعیاہ 9: 6)۔ اُس کے فدیہ کے کام کی وضاحت کرتے ہوئے یسعیاہ نبی نے لکھا:

"وہ آدمیوں میں حقیر و مردُود، مردِ غم ناک اور رنج کا آشنا تھا۔ لوگ اُس سے گویا رُوپوش تھے، اُس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اُس کی کُچھ قدر نہ جانی۔ تَو بھی اُس نے ہماری مشقّتیں اُٹھا لیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہُؤا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہُوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شِفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا، پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔ وہ ستایا گیا تَو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جِس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بےزُبان ہے، اُسی طرح وہ خاموش رہا۔ وہ ظُلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے، پر اُس کے زمانہ کے لوگوں میں سے کس نے خیال کِیا کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا؟ میرے لوگوں کی خطاؤں کے سبب سے اُس پر مار پڑی۔ اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولت مندوں کے ساتھ مُؤا، حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظُلم نہ کیا اور اُس کے مُنہ میں ہرگز چھل نہ تھا۔ لیکن خُداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گُناہ کی قُربانی کےلئے گُذرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عُمر دراز ہو گی اور خُداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پُوری ہو گی۔ اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادِق خادِم بُہتوں کو راست باز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خُود اُٹھا لے گا۔ اِس لئے میں اُسے بزُرگوں کے ساتھ حصّہ دُوں گا اور وہ لُوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کےلئے اُنڈیل دی، اور وہ خطا کاروں کے ساتھ شُمار کیا گیا، تَو بھی اُس نے بُہتوں کے گُناہ اُٹھا لئے اور خطا کاروں کی شفاعت کی۔" (یسعیاہ 53: 3۔ 12)

ترسس کے ساؤل کا (جو بعد میں پولس رسول بنا) بیان بھی انتہائی متاثر کن ہے، جب وہ شریعت کے ذریعہ راست بازی کی تلاش سے تھک گیا تو گُناہ اور موت کے اپنے بدن سے رہائی پانے کےلئے اُسی درمیانی کی جستجو میں تھا جِس کے بارے میں موسیٰ اور دیگر انبیاء نے بات کی۔ یہ درمیانی، یسوع دمشق کی راہ پر پولس رسول سے ملا، اُسے شریعت کے لفظوں سے رہائی دی جو مار ڈالتے ہیں، اور اُسے زِندگی کے رُوح کی شریعت نے رہائی بخشی۔ پولس رسول نے اپنے تجربہ کی روشنی میں درج ذیل شہادتیں لکھیں:

  • "اپنے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے خُدا کا شُکر کرتا ہُوں۔ غرض مَیں خُود اپنی عقل سے تو خُدا کی شریعت کا مگر جِسم سے گُناہ کی شریعت کا محکوم ہُوں۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 7: 25)

  • "کیونکہ زندگی کے رُوح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مُجھے گُناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا۔" (رومیوں 8: 2)

عبرانیوں کی کتاب میں سے اِس آیت پر بھی غور کرو:

  • "اور کامل بن کر اپنے سب فرمانبرداروں کےلئے ابدی نجات کا باعث ہُؤا۔" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 5: 9)

حقیقت میں تجسّم کتابِ مُقدّس کا محور ہے کیونکہ یہ نجات کے کام کی بنیاد اور نجات دہندہ کے طور پر مسیح کے کام کی تکمیل کےلئے ایک ضروری شرط ہے۔ اِسی وجہ سے اِن اعلانات الٰہیہ میں وقت پورا ہونے پر بشر کی نجات کےلئے ایک نجات دہندہ کے آنے کے اشارے دیئے گئے جِن کے مطابق اُس سے ساری قومیں برکت پائیں گی۔ پِھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس بارے میں تفصیلات واضح تر ہوتی گئیں، عورت کی نسل سے شروع ہو کر ابرہام کی نسل کے ذِکر تک، پِھر یہوداہ کے قبیلہ، پِھر داؤد کے گھرانے، اور پِھر ایک کنواری سے اُس کی پیدایش کا ذِکر ہُوا۔ اِن اعلانات میں اشارے تھے کہ درمیانی صفات الٰہیہ کا حامل ہو گا، خود کو فدیہ کےلئے دے گا اور حاکم و بادشاہ ہو گا (یسعیاہ 9 باب)۔

تعجب خیز امر یہ ہے کہ کُچھ بڑے عجیب و باریک حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اِنہیں اِنسانی ذہانت سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ اِن میں اُس کی پیدایش کے صحیح مقام کا ذِکر ہے:

  • "لیکن اے بیت لحم اِفراتاہ، اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلئے چھوٹا ہے تَو بھی تُجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اِسرائیل کا حاکم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانۂِ سابق ہاں قدِیمُ الایّام سے ہے۔" (پرانا عہدنامہ، میکاہ 5: 2)

یہ بھی بتایا گیا کہ وہ حلیم اور جلال والا ہو گا:

  • "اور یسّی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہو گی۔ اور خُداوند کی رُوح اُس پر ٹھہرے گی۔ حکمت اور خِرد کی رُوح، مصلحت اور قُدرت کی رُوح، معرفت اور خُداوند کے خوف کی رُوح۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 11: 1، 2)

وہ بادشاہ ہو گا، لیکن ظاہری شان کے بغیر حلیم و فروتن ہو گا:

  • "اَے بنتِ صیُّون تُو نہایت شادمان ہو۔ اَے دُخترِ یروشلیم خُوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے۔" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 9: 9)

اور اِس سے بھی تعجب خیز ہو گا اُس کا کاہن اور قربانی ساتھ ساتھ ہونا:

  • "خُداوند نے قسم کھائی ہے اور پھرے گا نہیں کہ تُو ملکِ صِدق کے طور پر ابد تک کاہن ہے۔" (زبور 110: 4؛ عبرانیوں 5: 6)

اُس کے تجسّم کے بارے میں سب سے شاندار بیان یہ ہے:

"ابتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا۔ یہی ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہُوئیں اور جو کُچھ پیدا ہُؤا ہے اُس میں سے کوئی چِیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہُوئی۔ اُس میں زِندگی تھی اور وہ زِندگی آدمیوں کا نُور تھی۔ اور نُور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کیا۔ ایک آدمی یوحنّا نام آ موجود ہُؤا جو خُدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ یہ گواہی کےلئے آیا کہ نُور کی گواہی دے تا کہ سب اُس کے وسیلہ سے ایمان لائیں۔ وہ خُود تو نُور نہ تھا مگر نُور کی گواہی دینے کو آیا تھا۔ حقیقی نُور جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے دُنیا میں آنے کو تھا۔ وہ دُنیا میں تھا اور دُنیا اُس کے وسیلہ سے پیدا ہُوئی اور دُنیا نے اُسے نہ پہچانا۔ وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کِیا۔ لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ نہ خُون سے نہ جِسم کی خواہش سے نہ اِنسان کے اِرادہ سے بلکہ خُدا سے پیدا ہُوئے۔ اور کلام مجسّم ہُؤا اور فضل اور سچّائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اِکلوتے کا جلال۔ یوحنّا نے اُس کی بابت گواہی دی اور پُکار کر کہا ہے کہ یہ وہی ہے جِس کا مَیں نے ذِکر کیا کہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مُجھ سے مقدّم ٹھہرا کیونکہ وہ مُجھ سے پہلے تھا۔ کیونکہ اُس کی معموری میں سے ہم سب نے پایا یعنی فضل پر فضل۔ اِس لئے کہ شریعت تو مُوسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچّائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی۔ خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اِکلَوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 1۔ 18)

"اِس میں کلام نہیں کہ دِین داری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جِسم میں ظاہِر ہُؤا اور رُوح میں راست باز ٹھہرا اور فرِشتوں کو دِکھائی دِیا اور غَیر قَوموں میں اُس کی مُنادی ہُوئی اور دُنیا میں اُس پر اِیمان لائے اور جلال میں اُوپر اُٹھایا گیا۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ تیمتھیس 3: 16)

لہٰذا تجسّم ایک حقیقت ہے جس کی تائید خُدا کی کتاب سے ہوتی ہے جو سکھاتی ہے کہ یہ وہ طریقہ تھا جسے اُس کلمہ نے جو ابتدا سے خُدا کے ساتھ تھا، بنی نوع اِنسان کو چھڑانے کےلئے اختیار کیا: "اِبنِ آدم بھی اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بُہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے" (اِنجیل بمطابق مرقس 10: 45)۔

اَب، اے عزیز حسّان، آؤ ہم فروتنی سے کتابِ مُقدّس کے اُن خاص اعلانوں کو قبول کر لیں جو کلمہ کے جِسم میں ظہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس عزیز کتاب کی اعلٰی ترین اور گہری سچائیاں ہمارے لئے مسیح کی شخصیت میں پوری ہوئیں تا کہ بیٹے کو جاننے والا باپ کو بھی جانے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 19)۔ مَیں خُدا کا کس قدر شکر گزار ہوں کہ اِنجیل جِسے مَیں نے قبول کیا، جِس میں مَیں قائم ہوں اور اُس کے وسیلہ سے بچایا گیا ہوں، کسی اِنسانی درمیانی کے ذریعے نہیں آئی، نہ ہی کوئی فرشتہ اُسے لوح پر مسیح کے پاس لایا تھا، نہ ہی خُدا نے مسیح سے پسِ پردہ کلام کیا جیسا کوہِ سینا پر موسیٰ نبی سے کیا تھا۔ اِنجیل تو صحائف کے مطابق مسیح خود ہے: "اگلے زمانہ میں خُدا نے باپ دادا سے حصّہ بہ حصّہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جِسے اُس نے سب چِیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جِس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کئے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 1: 1، 2)۔

اِس لئے، عزیز بھائی، اِنجیل زِندگی کا ابدی کلام ہے جو باپ کے ساتھ تھا اور ہم پر ظاہر ہُوا: "اُس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتدا سے تھا اور جِسے ہم نے سُنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چُھؤا۔ یہ زندگی ظاہر ہُوئی اور ہم نے اُسے دیکھا اور اُس کی گواہی دیتے ہیں اور اِسی ہمیشہ کی زندگی کی تُمہیں خبر دیتے ہیں جو باپ کے ساتھ تھی اور ہم پر ظاہِر ہُوئی۔ جو کُچھ ہم نے دیکھا اور سُنا ہے تُمہیں بھی اُس کی خبر دیتے ہیں تا کہ تُم بھی ہمارے شریک ہو اور ہماری شراکت باپ کے ساتھ اور اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے ساتھ ہے" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 1: 1۔ 3)۔

باپ کے ساتھ اپنی یگانگی یسوع نے فقہاء کی ایک جماعت کے سامنے خود بیان کی اور سکھائی:

"اُنہوں نے اُس سے کہا، تیرا باپ کہاں ہے؟ یسوع نے جواب دِیا، نہ تُم مُجھے جانتے ہو نہ میرے باپ کو۔ اگر مُجھے جانتے تو میرے باپ کو بھی جانتے ۔۔۔ اُنہوں نے اُس سے کہا، تُو کون ہے؟ یسوع نے اُن سے کہا، وُہی ہوں جو شروع سے تُم سے کہتا آیا ہوں۔ مُجھے تُمہاری نِسبت بُہت کُچھ کہنا اور فیصلہ کرنا ہے لیکن جِس نے مُجھے بھیجا وہ سچّا ہے اور جو مَیں نے اُس سے سُنا وہی دُنیا سے کہتا ہوں ۔۔۔ پس یسوع نے کہا کہ جب تُم ابنِ آدم کو اُونچے پر چڑھاؤ گے تو جانو گے کہ مَیں وہی ہوں اور اپنی طرف سے کُچھ نہیں کرتا بلکہ جِس طرح باپ نے مُجھے سکھایا اُسی طرح یہ باتیں کہتا ہُوں۔ اور جِس نے مُجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے۔ اُس نے مُجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہُوں جو اُسے پسند آتے ہیں۔" (یوحنّا 8: 19، 25۔ 26، 28۔ 29)

میرے پیارے بھائی، یہ ہے اِنجیل: خُدا اور مسیح کے مشترکہ کام کی خوشخبری۔ یہ ہمیں واضح طور پر سکھاتی ہے کہ مُجسّم کلام ہی اُس ذات کی صورت مُتجسّدہ ہے جِس کے بارے میں وہ ہمیں آگاہ کرنے آیا تھا۔ مسیح نے خود فرمایا: "جِس نے مُجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیوں کر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا؟" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 14: 9)۔

چنانچہ وہ کلمہ جو شروع سے خُدا کے ساتھ تھا، یسوع میں خُدا کے مکاشفہ کے طور پر آسمان سے اُترا: "خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اِکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا" (یوحنّا 1: 18)۔ یہ سچائی پولس رسول پر بھی آشکار ہوئی جِس کی واحد خواہش مسیح کو جاننا تھی: "بلکہ مَیں اپنے خُداوند مسیح یسوع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں۔ جِس کی خاطر مَیں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُن کو کوڑا سمجھتا ہوں تا کہ مسیح کو حاصل کروں" (نیا عہدنامہ، فلپّیوں 3: 8)۔ اِسی مقصد کی طرف بڑھنے کےلئے پولس رسول نے افسیوں کے اِیمانداروں کو ترغیب دی کہ "جب تک ہم سب کے سب خُدا کے بیٹے کے اِیمان اور اُس کی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامِل اِنسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پُورے قَد کے اندازہ تک نہ پُہنچ جائیں" (نیا عہدنامہ، افسیوں 4: 13)۔

یہ تجسّم کی سچّائی ہے۔ کتابِ مُقدّس اِسے خُدا کے جِسم میں ظاہر ہونے کے طور پر بیان کرتی ہے (نیا عہدنامہ، 1۔ تیمتھیس 3: 16)۔ یہی میری تحریر کا موضوع ہے۔ یہ فطری قوانین کے تحت اِنسانی پیدایش سے مختلف ہے (یوحنّا 3: 6)۔ وہ کلمہ ابتدا سے تھا جس نے جسد اختیار کیا (یوحنّا 1: 14)۔ تجسّم کلام کا ظہور یا مکاشفہ تھا، اور جو جِسم میں ظاہر ہُوا وہ خُدا میں مَحجوب تھا: "خُدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اِکلَوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا" (یوحنّا 1: 18)۔ وہ نور میں سکونت کرتا تھا جِس تک کسی کو رسائی نہیں (1۔ تیمتھیس 6: 16)۔ لیکن جب اُس نے جسد اختیار کیا تب ہی دیکھے جانے کے قابل ہُوا یعنی "وہ اندیکھے خُدا کی صورت" ہے (نیا عہدنامہ، کُلسّیوں 1: 15)۔

یہی امر خوشی کا باعث بنا ہے کہ کیسے الہامی کلام تجسّم کے مقصد کی وضاحت کرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان میل ملاپ کا کام ہے۔ اگرچہ اِس ہستی کا ظہور، جِسے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا، اِنسانی ذہن کےلئے تقریباً ادراک سے پرے ہے، لیکن یہ بنی نوع اِنسان پر خُدا کے فضل اور سچائی کا واضح ترین اظہار ہے: "اِس لئے کہ شریعت تو مُوسیٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچّائی یسوع مسیح کی معرفت پُہنچی" (یوحنّا 1: 17)۔

اِنجیلِ مُقدّس کا عمیق مطالعہ کرنے سے ہمیں آگہی ملتی ہے کہ کلمہ کے جِسم میں ظہور کا مقصد یہ ہے کہ وہ خُدا اور اِنسان کے بیچ درمیانی کا کام کرے:

  • "کیونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور اِنسان کے بِیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو اِنسان ہے۔ جِس نے اپنے آپ کو سب کے فِدیہ میں دِیا ۔۔۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ تیمتھیس 2: 5، 6)

  • "اور سب چیزیں خُدا کی طرف سے ہیں جِس نے مسیح کے وسیلہ سے اپنے ساتھ ہمارا میل ملاپ کر لیا اور میل ملاپ کی خدمت ہمارے سپرد کی۔ مطلب یہ ہے کہ خُدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذِمّہ نہ لگایا اور اُس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیا ہے۔" (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 5: 18، 19)

یوحنّا رسول کی تحریروں پر غور کرنے والا دیکھ سکتا ہے کہ کیسے رُوح القُدس مسیح کے ذریعے مکمل ہونے والی مخلصی کے پیغام کو بتانے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ تجسّم کا مقصد گُناہوں کو دُور کرنا اور عظیم دھوکے باز کے کاموں کو اُلٹ دینا تھا:

  • "اور تُم جانتے ہو کہ وہ اِس لئے ظاہر ہُؤا تھا کہ گُناہوں کو اُٹھا لے جائے اور اُس کی ذات میں گُناہ نہیں۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 3: 5)

  • "جو شخص گُناہ کرتا ہے وہ اِبلِیس سے ہے کیونکہ اِبلِیس شروع ہی سے گُناہ کرتا رہا ہے۔ خُدا کا بیٹا اِسی لئے ظاہر ہُؤا تھا کہ اِبلِیس کے کاموں کو مٹائے۔" (1۔ یوحنّا 3: 8)

عبرانیوں کی کتاب کا مصنف مسیح کے تجسّم کو کفارہ کے کام کے ساتھ جوڑتا ہے جو گنہگاروں کو راست باز ٹھہراتا ہے:

  • "۔۔۔ مگر اب زمانوں کے آخر میں ایک بار ظاہر ہُؤا تا کہ اپنے آپ کو قُربان کرنے سے گناہ کو مٹا دے۔" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 9: 26)

یہ تمام اقتباسات متجسّد کلام کے درمیانی کے کام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ کلام نے وقت پورا ہونے پر جسم اختیار کیا: "لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہُؤا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہُؤا۔ تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چُھڑا لے اور ہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 4، 5)۔

یہ وہی کلام تھا جو ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ وہ ازل سے موجود ہے، اور اُس کا جوہری رشتہ بطور اقنوم ثانی باپ کے ساتھ کتاب مقدّس میں دکھایا گیا ہے۔ اُس کے تجسّم سے یہ رشتہ ظاہر ہُوا۔ رُوحانی طور پر اندھے اور سخت دِل کے سِوا کوئی بھی اِس سچائی سے انکار نہیں کر سکتا۔

اگر آپ مسیح کے شاگرد یوحنا جِسے یسوع عزیز رکھتا تھا، کی الہامی تحریروں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ یسوع مسیح میں ظاہر ہونے والی زِندگی کی گواہی دینے کےلئے چُنا گیا۔ اُس کی گواہی یہ ہے: "اُس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتدا سے تھا اور جِسے ہم نے سُنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چُھؤا۔ یہ زندگی ظاہر ہُوئی اور ہم نے اُسے دیکھا اور اُس کی گواہی دیتے ہیں اور اِسی ہمیشہ کی زندگی کی تُمہیں خبر دیتے ہیں جو باپ کے ساتھ تھی اور ہم پر ظاہر ہُوئی" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 1: 1، 2)۔ اِس الہامی گواہی سے ہم سمجھتے ہیں کہ یسوع میں زِندگی نئی نہیں تھی بلکہ ازل سے موجود تھی۔ یہ ابدی کلام تھا جو ابتدا سے سے خُدا کے ساتھ تھا، اور پِھر ظاہر ہُوا۔ یوحنّا نے بتایا کہ اُس کے ظاہر ہونے کا مقصد یہ ہے کہ ایمانداروں کی باپ اور بیٹے کے ساتھ رفاقت ممکن ہو سکے (1۔ یوحنّا 1: 3)۔ یہ مبارک رفاقت نور میں چلنے کی دعوت ہے: "اُس سے سُن کر جو پیغام ہم تُمہیں دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ خُدا نور ہے اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہماری اُس کے ساتھ شراکت ہے اور پھر تاریکی میں چلیں تو ہم جُھوٹے ہیں اور حق پر عمل نہیں کرتے۔ لیکن اگر ہم نور میں چلیں جِس طرح کہ وہ نور میں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اُس کے بیٹے یسوع کا خُون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے" (1۔ یوحنّا 1: 5۔ 7)۔

کتابِ مُقدّس کے بہت سے حوالوں میں اِس بارے میں شہادت ملتی ہے:

  • "خُداوند نے انتظامِ عالم کے شروع میں اپنی قدیمی صنعتوں سے پہلے مُجھے پیدا کیا۔ مَیں ازل سے یعنی اِبتدا ہی سے مقرّر ہُوئی۔ اِس سے پہلے کہ زمین تھی ۔۔۔ جب اُس نے آسمان کو قائم کیا مَیں وہیں تھی۔ جب اُس نے سمندر کی سطح پر دائرہ کھینچا۔" (پرانا عہدنامہ، اَمثال 8: 22، 27)

  • "لیکن اے بیت لحم اِفراتاہ اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلئے چھوٹا ہے تَو بھی تُجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اِسرائیل کا حاکم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانۂ سابِق ہاں قدِیمُ الایّام سے ہے۔" (پرانا عہدنامہ، میکاہ 5: 2)

  • "مَیں نے رات کو رویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدم زاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدِیمُ الایّام تک پُہنچا۔ وہ اُسے اُس کے حضور لائے۔ اور سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تا کہ سب لوگ اور اُمّتیں اور اہلِ لُغت اُس کی خدمت گذاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہو گی۔" (پرانا عہدنامہ، دانی ایل، 7: 13، 14)

  • "یسوع نے اُن سے کہا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اُس سے کہ ابرہام پیدا ہُوا مَیں ہوں۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 58)

خُدا کی محبّت کا مسیح میں اعلان کیا گیا۔ یہ محبّت نئی نہیں تھی بلکہ ازلی تھی۔ یہ اُس وقت تک آنکھوں سے پوشیدہ تھی، جب تک کہ بنی نوع اِنسان کے نجات دہندہ میں ظاہر نہیں ہوئی جِس میں گُناہوں اور خطاؤں کے سبب سے مُردہ افراد زندہ ہوتے ہیں (نیا عہدنامہ، اِفسیوں 2: 5)۔ یہ عزیز شاگرد لکھتا ہے: "جو محبّت خُدا کو ہم سے ہے وہ اِس سے ظاہر ہُوئی کہ خُدا نے اپنے اِکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تا کہ ہم اُس کے سبب سے زندہ رہیں" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 4: 9)۔

بیان کے حُسن کو دوبالا کرنے والی تو وہ تصویر ہے جو ہمیں اِیمان کے ذریعہ اُس کلمہ کو دکھاتی ہے جو محبّت کے ذریعے گوشت اور خون میں ہمارے ساتھ ایک ہو گیا، اور ہمارے دُکھوں اور مصیبتوں کی گہرائی کا تجربہ کیا۔ اُس نے نہ صرف ہم پر ترس کھایا بلکہ حقیقت میں اِنسانی جسم اختیار کیا اور "مردِ غمناک اور رنج کا آشنا" بن گیا (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 3)۔ صلیب کے "مذبح" پر ہمارے گناہوں کےلئے قربان ہونے سے پہلے وہ خُدا کا برّہ ہر طرح کی تکلیف، طعن، شرمندگی اور تضحیک برداشت کر چکا تھا۔ یہی سچّا قدّوس ہے "کیونکہ اُلُوہیّت کی ساری معمُوری اُسی میں مُجسّم ہو کر سکونت کرتی ہے" (نیا عہدنامہ، کلسّیوں 2: 9)۔ اُس کے چہرے پر تھوکا گیا، تھپڑ، گھونسے، لاتیں اور کوڑے مارے گئے، اور آخر کار لعنت کی صلیب پر چڑھا دیا گیا (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 13)۔ یہ کیسی عجیب محبّت ہے جو اپنی معموری اور کاملیت میں خُدا کے عظیم نام کے جلال اور اُس کے دِل کی خوشی کےلئے تمام ایمان لانے والوں کی نجات کےلئے ظاہر ہوئی! اِس ضمن میں پولس رسول کے الفاظ کتنے شاندار ہیں: "لیکن خُدا اپنی محبّت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گُنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُؤا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 8)۔

اِس پر بھی غور کرو کہ کلمہ کے جسدی ظہور نے باپ کے بیٹے کے ساتھ ابدیت کے رشتہ کو کمزور یا قطع نہیں کر دیا، بلکہ یہ بعد تجسّد بھی قائم رہا، جیسا کہ یسوع کے الفاظ سے اِس کی تصدیق ہوتی ہے:

  • "باپ بیٹے سے محبّت رکھتا ہے اور اُس نے سب چیزیں اُس کے ہاتھ میں دے دی ہیں۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 35)

  • "اور جِس نے مُجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے۔ اُس نے مُجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اُسے پسند آتے ہیں۔" (یوحنّا 8: 29)

  • "اور آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سِوا اُس کے جو آسمان سے اُترا یعنی اِبنِ آدم جو آسمان میں ہے۔" (یوحنّا 3: 13)

یہ اعلانات بے معنٰی ہوتے اگر اِن کے ساتھ معجزات نہ ہوتے جو کوئی عام انسان نہیں کر سکتا تھا۔ مسیح کے حیرت انگیز کام اِس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ یہ وہ ہے جو "اُس کے جلال کا پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چِیزوں کو اپنی قُدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 1: 3)۔ ہم یسوع کے اُن بیانات سے انکار نہیں کر سکتے جو اُس نے زمین پر اپنے قیام کے دوران اپنے باپ کے ساتھ رفاقت کے بارے میں کہے:

  • "مَیں اور باپ ایک ہیں۔" (یوحنّا 10: 30)

  • "یسوع نے اُس سے کہا، اے فِلِپُّس! مَیں اِتنی مُدّت سے تُمہارے ساتھ ہُوں کیا تُو مُجھے نہیں جانتا؟ جِس نے مُجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیوں کر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟ کیا تُو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہُوں اور باپ مُجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تُم سے کہتا ہُوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مُجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔" (یوحنّا 14: 9، 10)

یہ صحیح ہے کہ خُدا نے ابرہام کو اپنے بعض اسرار سے واقف کرایا (پرانا عہدنامہ، پیدایش 18: 17)؛ وہ ابرہام، اضحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر ہمکلام ہُوا (پرانا عہدنامہ، خروج 33: 1)؛ اور موسیٰ کے ذریعے بڑے عجائبات کئے؛ لیکن نہ اِنہوں نے اور نہ کسی اَور نبی نے یا فرشتے نے یہ کہنے کی جرأت کی کہ "مَیں اور باپ ایک ہیں۔" ہاں یہ دعویٰ صرف عمّانوایل "خُدا ہمارے ساتھ" نے کیا، اُس کے علاوہ کوئی اَور اِس طرح بات کرنے اور خُدا کے عذاب سے بچنے کے قابل نہیں تھا جِس نے کہا تھا، "یہوواہ مَیں ہُوں۔ یہی میرا نام ہے۔ مَیں اپنا جلال کسی دُوسرے کےلئے اور اپنی حمد کھودی ہُوئی مُورتوں کےلئے روا نہ رکھّوں گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 42: 8)۔

شکر ہو اُس ذاتِ اقدس کا جو کلمہ تھا اور خُدا کے ساتھ تھا اور خُدا تھا، لیکن محبّت بےمثل سے مجبور ہو کر گرے ہوئے اِنسان کےلئے جسدی ظہور لیا اور اپنے آپ کو گُناہ کی قربانی کےلئے پیش کر دیا تا کہ صلیب پر سے اپنے بہتے بیش قیمت خون سے خُدا کے ساتھ ہماری مصالحت کرا دے۔

پولس رسول نے فلپیوں کی کلیسیا کےلئے مسیح کے مزاج کو کس قدر خوبصورت انداز میں بیان کیا: "ویسا ہی مزاج رکھّو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔ اُس نے اگرچہ خُدا کی صورت پر تھا خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور اِنسانوں کے مُشابِہ ہو گیا۔ اور اِنسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی" (نیا عہدنامہ، فلپّیوں 2: 5۔ 8)۔

اگر ہم اِس درجہء محبّت کے حیرت انگیز راز کا اِدراک نہ کر پائیں تو ہمارے لئے داؤد بن یسّی کی طرح یہ ماننا ہو گا کہ "یہ خُداوند کی طرف سے ہُؤا اور ہماری نظر میں عجیب ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 118: 23)۔

7۔ مخلصی

"ہم کو اُس میں اُس کے خُون کے وسیلہ سے مخلصی یعنی قصوروں کی مُعافی اُس کے اُس فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے۔" (نیا عہدنامہ، اِفسیوں 1: 7)

فدیہ و مخلصی وہ کام ہے جِسے خُداوند یسوع نے صلیب پر انجام دیا، جہاں اُس نے خُدا کی شریعت اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا اور گنہگار اِنسان کی جگہ لے کر ہماری نجات کےلئے اپنی جان دی۔ اُس نے عوضی کے طور پر اپنے دُکھوں اور موت کے ذریعہ اِنسانوں کے گُناہوں کےلئے واجب سزا کی قیمت چکا دی۔ اُس نے الٰہی انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا اور وہ اُن سب کے گناہوں کو دُور کر کے راست باز ٹھہراتا ہے جو اِس فدیہ و مخلصی پر ایمان لاتے ہیں۔

کتابِ مُقدّس میں جو لفظ مسیح کے ذریعے مخلصی کے تحفے کو بیان کرتا ہے وہ "فضل" ہے، کیونکہ آسمانی باپ اِس بات کا پابند نہیں تھا کہ عاصی بشر پر کوئی رحم کرے، اور اِسی طرح بیٹا بھی پابند نہیں تھا کہ تجسّد اختیار کرے اور فدیہ کے کام کو سرانجام دے۔ تاہم، رحمت اور محبّت سے مالا مال ذاتِ الٰہی نے شریعت کی سزا کو موقوف کیا اور اُن دُکھوں کو قبول کیا جِسے کلمہ مجسّم نے گنہگار کی طرف سے عوضاً پی لیا۔ نجات دہندہ نے اِس حقیقت کو یوں بیان کیا: "مَیں بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتا ہوں" (یوحنّا 10: 15)؛ اور جب ہم اِس آیت کریمہ کو اِس کے سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں کہ "اِس سے زیادہ محبّت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کےلئے دے دے" (یوحنّا 15: 13)، تو وہ وجہ ہمیں معلوم ہو جاتی ہے کہ جِس کی خاطر اقنوم ثانی مسیح اِس بات پر راضی ہو گیا کہ اپنے آپ کو خالی کر دے اور اِنسانی بدن اختیار کرے، دُکھ اُٹھائے اور صلیب پر اپنی جان دے کر اِنسانوں کے گُناہوں کو اُٹھا لے۔

اِن دُکھوں کی وضاحت کرتے ہوئے پولس رسول نے لکھا: "اِس لئے کہ جو کام شریعت جِسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خُدا نے کیا یعنی اُس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلودہ جِسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کےلئے بھیج کر جِسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا تا کہ شریعت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جِسم کے مطابق نہیں بلکہ رُوح کے مطابق چلتے ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 3، 4)۔ باالفاظ دیگر، جِس موت کی سزا کے ہم "گناہ کی مزدوری" کے طور پر مستحق تھے (رومیوں 6: 23)، وہ یسوع نے بطور عوضی برداشت کی۔ یہ اُس پیشین گوئی کے عین مطابق تھا جِس میں کہا گیا تھا: "۔۔۔ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہُوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 5)۔

اِس فدیہ کی بدولت خُدا پر ایمان رکھنے والے افراد معافی اور نجات کی برکات کی ضمانت پاتے ہیں۔ اِس کی دو وجوہات ہیں:

الف۔ اِس کا مسیح کی فرمانبرداری اور دُکھوں کے نتیجہ کے طور پر تمام ایمانداروں کےلئے وعدہ کیا گیا تھا: "غرض جیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہُؤا جِس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا، ویسا ہی راست بازی کے ایک کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جِس سے راست باز ٹھہر کر زِندگی پائیں۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راست باز ٹھہریں گے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 18، 19)۔

ب۔ اِس نے خُدا کے انصاف کے تقاضے کو پورا کیا، کیونکہ یہ باپ اور بیٹے کے درمیان اِنسانی نجات کی خاطر کئے گئے ابدی عہد پر مبنی ہے۔ اِس کا ہمارے لئے الہامی، تحریری کلام میں ذِکر ہے، تا کہ ہم شک نہ کریں: "قربانی اور نذر کو تُو پسند نہیں کرتا۔ تُو نے میرے کان کھول دیئے ہیں۔ سوختنی قربانی اور خطا کی قربانی تُو نے طلب نہیں کی۔ تب مَیں نے کہا، دیکھ! مَیں آیا ہُوں۔ کتاب کے طومار میں میری بابت لکھا ہے۔ اے میرے خُدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دِل میں ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 40: 6۔ 8؛ مزید دیکھئے عبرانیوں 10: 5۔ 7)۔

اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ یسوع نے تجسّم اختیار کیا کہ ہم گنہگاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے ہمارے گُناہوں کی سزا برداشت کرے۔ پولس رسول نے اِس موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا: "۔۔۔ خُدا اپنی محبّت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُؤا" (رومیوں 5: 8)۔

تم مُجھ سے پوچھ سکتے ہو کہ کیوں خُدا نے یہ خاص طریقہ اختیار کیا؟ میرا جواب یہ ہے کہ کتابِ مُقدّس کی بہت سی آیات میں تاکیداً یہ ذِکر موجود ہے کہ کیسے اِنسان موروثی گُناہ کی وجہ سے شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں ناکام ہونے کی وجہ سے شریعت کی لعنت کے تحت آ گیا۔ گُناہ چونکہ زوال سے پہلے ایک کامل اِنسان یعنی آدم اوّل کے ذریعے ہر بشر میں داخل ہُوا، تو ضرور ہُوا کہ ایک کامل اِنسان، پچھلے آدم، یسوع کے وسیلہ سے ختم کیا جائے۔ چونکہ عام آدمیوں کےلئے کاملیت ناقابل حصول تھی، اِس لئے کلمہ جو ازل سے خُدا کے ساتھ تھا، مجسّم ہُوا۔ وہ خُدا اور اِنسان کے بیچ درمیانی بننے کےلئے اِنسان بن گیا، اور یہ ثالثی صلیب پر ہوئی جہاں اُس نے خود نسلِ اِنسانی کےلئے فدیہ کی قربانی کے طور پر اپنی جان دی۔ یسوع نے صلیب پر مرتے وقت کہا، "تمام ہُوا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 30)۔ تب مقدِس کا پردہ جو پاک مقام کو پاک ترین مقام سے جُدا کرتا تھا، اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ یہ پردہ اِنسان اور خُدا کے درمیان گُناہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹ کو ظاہر کرتا تھا۔ صلیب پر خُداوند یسوع کی کفارہ بخش موت نے ہمارے لئے خُدا کی حضوری میں جانے کا راستہ کھول دیا۔ اِسی حقیقت کا اظہار یسوع کے اِس قول میں موجود ہے: "راہ اور حق اور زِندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا" (یوحنّا 14: 6)۔ عبرانیوں کی کتاب میں بھی اِس گہری سچائی کا بیان ہے: "پس اے بھائیو! چُونکہ ہمیں یسوع کے خون کے سبب سے اُس نئی اور زندہ راہ سے پاک مکان میں داخل ہونے کی دلیری ہے۔ جو اُس نے پردہ یعنی اپنے جسم میں سے ہو کر ہمارے واسطے مخصُوص کی ہے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 10: 19، 20)۔

ہاں، مسیح نے عوضی کے طور پر اپنے دُکھوں سے فدیہ و مخلصی کے کام کو مکمل کیا، جِس کا نتیجہ گنہگار کا راست باز ٹھہرایا جانا ہے، جیسا کہ مرقوم ہے: "۔۔۔ سب نے گُناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مُفت راست باز ٹھہرائے جاتے ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 23، 24)۔

کفّارہ کے ضرورت پر ثبوتوں کا سلسلہ

اَب مَیں تمہارے سامنے چند نکات پیش کر رہا ہوں جو اِس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ کفارہ کیوں ضروری تھا:

الف۔ نجات کی شخصی ضرورت: اِس میں شک نہیں کہ ہر فرد کو نجات کی ضرورت ہے کیونکہ گُناہ تمام بنی نوع اِنسان کا مقدر ٹھہرا۔ یہ درست کہا جاتا ہے کہ گُناہ ہم سب کا مشترکہ تجربہ ہے۔ یوحنّا رسول نے فرمایا: "اگر ہم کہیں کہ ہم بےگُناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں اور ہم میں سچّائی نہیں۔ اگر اپنے گُناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گُناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچّا اور عادل ہے۔ اگر کہیں کہ ہم نے گُناہ نہیں کیا تو اُسے جھوٹا ٹھہراتے ہیں اور اُس کا کلام ہم میں نہیں ہے" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 1: 8۔ 10)۔

مزید برآں، نجات محض ایک اجتماعی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہر فرد کی انفرادی ضرورت بھی ہے۔ کالے یا گورے، جاہل یا عالم، امیر یا غریب کی اِس میں تفریق نہیں: "اِس لئے کہ سب نے گُناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 23)۔

اِنسان کے دِل میں یہ شعور ہے کہ صرف توبہ اُس کے ماضی کے گُناہوں کو مٹانے سے قاصر ہے۔ مکمل معافی حاصل کرنے کا کسی اَور طریقہ کی ضرورت ہے، اور یہ طریقہ کفارہ ہے۔ گُناہ کے کفّارے کی ضرورت کے بارے میں اِنسان کی گہری سمجھ کا ثبوت قدیم زمانے سے دُنیا کے مذاہب میں وسیع پیمانے پر قربانی کے موجود ہونے سے ملتا ہے۔ درحقیقت، ہماری اپنی اخلاقی فطرت ہمیں پاکیزگی کے تقاضوں کا احترام کرنے کی طرف راغب کرتی ہے، حالانکہ ہمارا اپنا طرز عمل اِس سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے ضمیر اپنے گُناہوں کے نتائج کی وجہ سے آرام نہیں پا سکتے۔ سِوائے کفّارہ کے ذریعے راست بازی حاصل کرنے کے اطمینان پانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

ب۔ برھان عقلی: خُدا پاک ہے، لیکن اِنسان گنہگار ہے۔ چونکہ گُناہ خُدا کے خلاف ایک جرم ہے، اِس لئے اِس کا نتیجہ اُس کی طرف سے سزا ہے۔ ایک گنہگار محض توبہ کے ذریعہ سے راست باز نہیں ٹھہر سکتا، کیونکہ اِنسان کےلئے اِس سزا سے رہائی ناممکن ہے، تاوقتیکہ وہ گُناہ کی طاقت اور نتائج سے مکمل طور پر بری ہو جائے۔ توبہ فرمانبرداری کی طرف لوٹ جانے کا نام ہے، اور یہ ایک ایسا عمل ہے جِس میں گُناہ کا اقرار، اُس پر پچھتاوا، غم اور شکستگی شامل ہیں۔ تاہم، توبہ چاہے کتنی ہی مکمل اور جامع کیوں نہ ہو، گذشتہ گُناہوں کے بوجھ کو دُور نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ اُٰن کا کفّارہ دینے کے قابل نہیں۔ اگر گُناہ کا کفّارہ صرف توبہ سے ہی ممکن ہوتا تو خُدا کے عدل اور قدوسیّت کا کوئی احترام باقی نہ رہتا۔ تب توبہ محض ایک گنہگار کی اپنی بدکاری اور گُناہوں پر فیصلہ دینے کا رویہ ہو سکتا ہے؛ لیکن یہ صحیح طور پر گُناہ کے بارے میں خُدا کے فیصلے، اِس سے اُس کی گہری نفرت اور اپنے تقدس کی مخالفت کی وجہ سے اُس کی شدید مذمّت کی عکاسی نہیں کرتی۔ توبہ، اپنے آپ میں خُدا کی شریعت اور بادشاہی سے گُناہ کی دشمنی یا اِنسان پر اُس کے تباہ کن اثرات کو صحیح معنوں میں ظاہر نہیں کرتی۔ یوں، ہمیں گُناہوں کے کفّارہ کی منطقی ضرورت بھی نظر آتی ہے۔ کُچھ مثال پیش ہے۔

فرض کرو، کسی سٹور سے تم اُدھار کی بنیاد پر گھریلو سامان خریدتے ہو اور پِھر تم اتنا زیادہ اُدھار لے لیتے ہو کہ تم پر اُس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی ہے۔ لہٰذا دکاندار سودا دینے سے کترانے لگتا ہے اور آخرکار عدالت میں نالش تک کی نوبت پہنچتی ہے۔ تب تم منّت سماجت کرنے اُس کے پاس جاتے ہو اور اپنے پرانے اچھے تعلقات کا واسطہ دے کر کسی طرح پِھر سودا حاصل کرنا چاہتے ہو، تو یہ طے پاتا ہے کہ آگے کو ہمارا معاملہ صرف نقدی پر چلے گا۔ دکاندار فطری طور پر اِس سے خوش ہو گا، لیکن جو کُچھ تمہارے ذمہ نکلتا ہے اُس سے تو درگزر نہیں کرے گا، بلکہ کہے گا: "اچھی بات ہے جناب۔ لیکن میرا جو کُچھ آپ کے ذمہ ہے اُس کا کیا ہو گا؟ وہ تو کھاتے پر چڑھا ہی رہے گا، اُس کی ادائیگی تو تمہیں کرنی ہو گی کیونکہ یہ تو مَیں نہیں کر سکتا کہ اپنے پیسے چھوڑ دوں۔"

ج۔ کفّارہ شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہے: الٰہی شریعت کامل ہے اور وہ گنہگار کےلئے سزا کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ جو شریعت سزا سے خالی ہو درحقیقت وہ شریعت ہے ہی نہیں۔ شریعت ایک سرکاری وکیل کی طرح ہے جِس کےلئے جائز نہیں کہ الٰہی انصاف کی تکمیل کےلئے درکار سزا کے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو جائے۔ وگرنہ اُسے الٰہی انصاف کے ایک اچھے محافظ کے طور پر چیلنج کیا جائے گا۔ اِس لئے، وہ ایک مجرم کےلئے سخت سزا یا اُس کے جرم کے کفّارہ کا مطالبہ کرتا ہے۔

فرض کرو کہ تمہارا کوئی سخی دوست اُس دکاندار کو جانتا ہے جِس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے، وہ آ کر تاجر سے کہتا ہے "مَیں تمہارا بھی دوست ہوں اور حسّان کا بھی ہوں۔ مُجھے اِس بات کا دُکھ ہے کہ اُس کا بڑھتا ہُوا قرض تم دونوں کے جھگڑے کی وجہ بنا ہُوا ہے۔ اِس لئے مَیں آج آیا ہوں تا کہ اُس کا سارا قرض ادا کر دوں۔ براہ کرم اُس کے ساتھ ایک نئے انداز سے پیش آئیں۔" تمہارے خیال میں کیا ہو گا؟ کیا دکاندار خوش نہیں ہو گا؟ بےشک وہ خوش ہو گا کیونکہ اِس ثالثی کی بدولت وہ تم پر واجب الادا رقم کو حاصل کر لے گا۔ علاوہ ازیں، اُسے تم میں ایک نقد صارف مل جائے گا۔

خُداوند یسوع نے بھی گنہگاروں کےلئے یہی کیا۔ اُس کی عوضی موت کے ذریعہ جِس نے الٰہی عدل کے تقاضوں کو پورا کیا، اُسے نجات دہندہ اور خُداوند کے طور پر قبول کرنے والے گُناہوں کی مکمل معافی حاصل کرتے ہیں۔ یہی کمال ہے مسیح کے کفّارہ بخش عمل کا، اور اِس کی وجہ یہ نہیں کہ اُس نے اُسی قِسم یا مقدار میں سزا اُٹھائی جو گنہگار پر واجب تھی، بلکہ اِس عظمت کی وجہ یہ ہے کہ وہ فقط اِنسان نہیں بلکہ خُدا اور اِنسان دونوں تھا۔

اگرچہ مسیح کے دُکھ اور فرمانبرداری ایک الٰہی شخص کے دُکھ اور فرمانبرداری تھے، لیکن اُس کی الٰہی فطرت نے اکیلے دُکھ نہیں سہا کیونکہ اُس میں دو ممتائز فطرتیں موجود تھیں، یعنی ایک ہی وقت میں خُدا اور اِنسان۔ اگر اِس اصول کا مسیح کی ذات پر اطلاق نہ کیا جائے تو پِھر اُس کی مصلوبیت ایک عام آدمی کے ناحق قتل سے زیادہ کُچھ نہ ہوتی۔ ایسی سوچ تو کتاب مقدّس کے برعکس ہے جو بتاتی ہے کہ خُداوند نے خاص اپنے خُون سے مول لیا (نیا عہدنامہ، اعمال 20: 28)، اور یہ کہ جلال کا خُداوند مصلوب ہُوا (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 2: 8)۔

خُدا کے مجسّم کلام کی فرمانبرداری اور دُکھوں کی خاص اہمیت ہے، اور اُس کی راست بازی لامحدود قدر کی حامل ہے۔ عبرانیوں کی کتاب کے یہ الفاظ اِس سچائی کی تصدیق کرتے ہیں: "کیونکہ جب بکروں اور بیلوں کے خُون اور گائے کی راکھ ناپاکوں پر چِھڑکے جانے سے ظاہری پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ تو مسیح کا خون جِس نے اپنے آپ کو ازلی رُوح کے وسیلہ سے خُدا کے سامنے بےعیب قربان کر دیا تمہارے دِلوں کو مُردہ کاموں سے کیوں نہ پاک کرے گا تا کہ زندہ خُدا کی عبادت کریں" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 9: 13، 14)۔ اِس تعلق سے ایک گیت نگار کے الفاظ کتنے خوبصورت ہیں:

Table 2. 

سب قیمت جو چکائی یسوع نےاُس کا مَیں اَب مقروض ہُوا    
گُناہ نے جو چھوڑا نشانِ قرمزدھو کر بنا دیا سفید برف سا    

د۔ کفّارہ اِنسان کی اخلاقی ضرورت کے مطابق ہے: اِنسانی زوال کے باوجود یہ واضح ہے کہ ہر اِنسان ضمیر رکھتا ہے۔ یہ اُس میں صحیح اور غلط میں تمیز کرنے اور عدل اور پاکیزگی کی برتری کو تسلیم کرنے کی اَخلاقی صلاحیت ہے۔ یہ سزا اور جزا کے معاملے میں ہمارے کردار کا فیصلہ کرتی ہے۔ اِس قوت کو دراصل خُدائی آواز کہا جا سکتا ہے جِسے اُس نے اِنسان میں رکھا ہے۔ اِس میں اور کوہِ سینا پر دیئے گئے قوانین میں موافقت موجود ہے۔ اِس لئے، جب لوگ گُناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور کفّارہ نہیں پاتے، تو اُن کے ضمیر مضطرب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اِنسان میں موجود یہ صلاحیت اُسے بچا نہیں سکتی۔ ضمیر برائی کی نشاندہی کر سکتا ہے، یہاں تک کہ اُس کے خلاف احتجاج بھی کر سکتا ہے، لیکن یہ کسی کو راست باز ٹھہرانے سے قاصر ہے۔ پولس رسول کے اِن الفاظ سے اِس حقیقت کا واضح اظہار ہوتا ہے:

"کیونکہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اُس کے حضور راست باز نہیں ٹھہرے گا۔ اِس لئے کہ شریعت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 20)

"پس شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تا کہ ہم ایمان کے سبب سے راست باز ٹھہریں۔" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 24)

اِسی طرح ضمیر کی عدالت کی آواز احساسِ گُناہ کو جگاتی رہتی ہے مگر یہ کسی کو سزا سے بچانے سے قاصر ہے۔ گُناہ کا کفّارہ دینے کےلئے درمیانی ضروری ہے۔ لیکن اِس ضرورت کے باوجود کُچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ذاتی تقویٰ کے ذریعے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اِس اُمّید کے ساتھ اپنے احساس جرم کی حامل ضمیر کی آواز کو خاموش کراتے ہیں کہ اُن کے نیک اعمال کسی نہ کسی طرح قدوس خُدا کو راضی کر دیں گے اور اُس کی رحمت کا باعث ہوں گے۔ یہی وہ طریقہ ہے جِس پر اکثر مذاہب زور دیتے ہیں۔ مثلاً بدھ مت اِنسان کو قربانی، کفّارہ یا گُناہ کے اقرار کی ضرورت کے بغیر کاملیت کےلئے جدوجہد کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اِسی طرح، سولہویں صدی کی بدعت سوسنیہ کے پیروکار سمجھتے تھے کہ صرف توبہ ہی خُدا کی رحمت کو بےچین کر دیتی ہے، لہٰذا جو توبہ کر لے اُس پر الٰہی سزا کا حکم ختم ہو جاتا ہے اور توبہ سزا میں آڑے آ جاتی ہے۔ لیکن ہر دور و مقام میں قربانیوں کا رواج اِس خیال کو غلط ظاہر کرتا ہے۔ کلام مُقدّس نے تو اِس موضوع پر یہ کہہ کر اپنی مہر ثبت کر دی ہے: "اور تقریباً سب چیزیں شریعت کے مطابق خون سے پاک کی جاتی ہیں اور بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 9: 22)۔

یہ سچّ ہے کہ جانوروں کی قربانیوں کا خون عبادت گزار کو دِل کے اعتبار سے کامل نہ کر سکتا تھا (عبرانیوں 10: 2)۔ لیکن مسیح کےلئے خُدا کا شکر ہے جِس نے وقت پورا ہونے پر جسد اختیار کیا اور ہماری مخلصی کےلئے پاک مکان میں داخل ہُوا! وہ بکروں یا بچھڑوں کا خون لے کر نہیں گیا بلکہ اپنا ہی خون لے کر ایک بار داخل ہو گیا (عبرانیوں 9: 12)۔

میرے عزیز بھائی، میری کتنی تمنّا ہے کہ مسیح کی قربانی ایک دِن ہم دونوں کو نور کی میراث میں ساتھ کر دے تا کہ فرشتوں اور مُقدّسوں کے ساتھ ذبح کئے ہوئے برہ کی حمد کا گیت گائیں: "۔۔۔ تُو ہی اِس کتاب کو لینے اور اُس کی مُہریں کھولنے کے لائق ہے کیونکہ تُو نے ذبح ہو کر اپنے خُون سے ہر ایک قبیلہ اور اہلِ زُبان اور اُمّت اور قوم میں سے خُدا کے واسطے لوگوں کو خرید لیا۔ اور اُن کو ہمارے خُدا کےلئے ایک بادشاہی اور کاہن بنا دیا اور وہ زمین پر بادشاہی کرتے ہیں" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 5: 9۔ 10)۔

درحقیقت، ہمیں رحمت و محبّت کی اُس تعلیم سے جِس میں فدیہ و کفّارہ نہ ہو، دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ صرف مسیح کی کفّارہ بخش موت میں عدل اور رحمت کی ضدیں جمع ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف، یہ خُدا کی محبّت کو ظاہر کرتی ہے، جو رحم سے مالا مال ہے (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 4)۔

اِنسان کی مذہبی فطرت کو کفّارہ میں ایک مناسب موضوع ملتا ہے، کیونکہ ایک طرف یہ ہم میں گناہ و خطا کا احساس اور سزا کا خوف پیدا کرتا ہے، تو دوسری طرف یہ ہمیں خُدا کی طرف سے معافی اور فیاضانہ محبّت کی اُمّید دلاتا ہے۔ کیونکہ خُدا نہیں چاہتا کہ ہم ہلاک ہوں بلکہ اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجا تا کہ ہم اُس کے ذریعہ سے زِندگی پائیں۔

ہ۔ کفّارہ کےلئے خُدا کا انتظام: اگر کفّارہ ضروری نہ ہوتا تو خُدا اِس کا انتظام نہ کرتا۔ یسوع نے فرمایا: "چُنانچہ اِبنِ آدم اِس لِئے نہیں آیا کہ خِدمت لے بلکہ اِس لِئے کہ خِدمت کرے اور اپنی جان بُہتیروں کے بدلے فِدیہ میں دے" (اِنجیل بمطابق متّی 20: 28)۔ "اور جِس طرح مُوسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ اِبنِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے۔ تا کہ جو کوئی اِیمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زِندگی پائے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 14۔ 15)۔ پولس رسول نے بھی لکھا: "لیکن جب وقت پُورا ہو گیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہُوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہُؤا، تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چُھڑا لے اور ہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 4، 5)۔

یہ آیات مجیدہ ظاہر کرتی ہیں کہ خُدا اِنسان سے حیرت انگیز، بے بیاں اور رحمتوں سے بھرپور محبّت کرتا ہے۔ یہ محبّت یسوع میں ہم تک پہنچی اور فدیہ و مخلصی کی شکل میں ظاہر ہوئی جِسے یسوع نے ہمارے لئے صلیب پر پورا کیا، تا کہ سب لوگوں پر ظاہر ہو جائے کہ خُدا محض عادل ہی نہیں بلکہ محبّت بھی ہے۔ یہ حیرت انگیز نجات گنہگار کے ضمیر کو بیدار کرتی ہے، اور اُسے صلیبِ مسیح سے ایک بندھن میں باندھ دیتی ہے جِس کے بارے میں یسوع نے فرمایا: "مَیں اگر زمین سے اُونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچُوں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 12: 32)۔

جان بِنیَن نے اپنی کتاب مسیحی مسافر میں بڑی مہارت سے اپنے مرکزی کردار، مسیحی کی گُلگُتا کی پہاڑی پر پہنچنے کی تصویر کشی کی ہے جہاں یسوع کو مصلوب کیا گیا تھا۔ بِنیَن لکھتے ہیں:

مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مسیحی کو جِس شاہراہ پر جانا تھا، وہ دونوں طرف سے ایک دیوار سے گھری ہوئی تھی جِس کا نام نجات تھا۔ بوجھ تلے دبا ہُوا مسیحی یہاں تک بھاگتا آیا، لیکن اپنی پشت پر بوجھ کی وجہ سے بڑی مشکل سے پہنچا۔ وہ دوڑتا رہا یہاں تک کہ ایک اونچی جگہ پر پہنچا جِس کے اوپر صلیب ایستادہ تھی اور کچھ نیچے قبر تھی۔ سو مَیں نے اپنے خواب میں دیکھا کہ جیسے ہی مسیحی صلیب کے قریب پہنچا، اُس کے کندھوں سے بوجھ ڈھلک گیا اور اُس کی پُشت سے گر گیا، اور لڑھکتا ہُوا قبر کے دروازے پر پہنچ کر اُس میں گر گیا اور مَیں نے اُسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ پھر مسیحی خوش اور ہلکا پھلکا ہو گیا، اور اُس نے خوش دِلی سے کہا کہ "خُداوند یسوع نے مجھے اپنے غم کے ذریعے تسلی دی، اور اپنی موت سے زندگی عطا کی۔" پھر وہ کچھ دیر ساکت کھڑا سوچتا رہا، کیونکہ یہ اُس کےلئے بہت حیران کن تھا کہ صلیب کا نظارہ اُسے اپنے بوجھ سے آزاد کر سکتا ہے۔ اُس نے صلیب کی طرف دیکھا اور دیر تک اُسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ آنسو اُس کے گالوں سے بہنے لگے۔ پھر وہ تین بار خوشی سے اچھل پڑا، اور ربّ کی حمد کرتا ہُوا چلا گیا:

Table 3. 

مَیں تھا قید میں گناہوں کیغلام شیطان مردود کا    
اُمّید نہ تھی اپنی نجات کیرحیم خُدا نے لیا مُجھے بچا    
اپنے عظیم خون کے ساتھاُس نے مُجھے خرید لیا    
مال نہ کام آیاوہ ہے فادیء عظیم    
اُس نے اپنے خون سے فدیہ دیاجہنم کے عذاب سے لیا چُھڑا    
اپنے عظیم خون کے ساتھاُس نے مُجھے خرید لیا    

8۔ صلیب کی سچّائی

"مگر تُم جو پہلے دُور تھے اب مسیح یسوع میں مسیح کے خُون کے سبب سے نزدیک ہو گئے ہو۔" (نیا عہدنامہ، اِفسیوں 2: 13)

حسّان، تمہارے لئے میرے خط کا بنیادی موضوع یہی ہے، کیونکہ تمہیں مسیح کی موت کے تعلق سے جو مشکل محسوس ہو رہی ہے، جو تمہیں ایک ناقابل حل معمّہ کی طرح دکھائی دیتی ہے، مَیں یہاں اُس کی وضاحت کروں گا۔ اِس معاملے میں تمہاری حالت بھی اُن لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے اِنجیل مقدّس سے باہر اِس معاملے کی تفصیلات کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ اور ایسی کوشش کو ایسے شخص کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے جو زندہ کو مُردوں میں ڈھونڈ رہا ہو۔

مَیں نے گذشتہ حصوں میں تجسّم، نجات اور کفارہ پر مختصر بات کی ہے، جو صلیب کے موضوع کو متعارف کرانے کی ایک طرح سے تمہید تھی۔ صلیب وہ مذبح ہے جِس پر بنی نوع اِنسان کی خاطر ایک قربانی دی گئی۔

بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ صلیب ایک فرضی واقعہ ہے اور اگر یہ کچھ ظاہر کرتی ہے تو یہ اُن لوگوں کی جہالت ہے جو اِس پر اِیمان رکھتے ہیں، لہٰذا منطقی طور پر یہ بےوقوفی ہے۔ ایسے لوگوں کے تعلق سے پولس رسول نے کہا ہے: "اِس لئے کہ جب خُدا کی حکمت کے مطابق، دُنیا نے اپنی حکمت سے خُدا کو نہ جانا، تو خُدا کو یہ پسند آیا کہ اِس مُنادی کی بیوقوفی کے وسیلہ سے اِیمان لانے والوں کو نجات دے۔ چنانچہ یہودی نشان چاہتے ہیں اور یُونانی حکمت تلاش کرتے ہیں۔ مگر ہم اُس مسیحِ مصلُوب کی مُنادی کرتے ہیں جو یہودیوں کے نزدیک ٹھوکر اور غیر قوموں کے نزدیک بیوقوفی ہے۔ لیکن جو بلائے ہوئے ہیں۔ یہودی ہوں یا یونانی۔ اُن کے نزدیک مسیح خُدا کی قدرت اور خُدا کی حکمت ہے" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 1: 21۔ 24)۔

مَیں پہلے ہی تمہیں بتا چکا ہوں کہ صلیب پر مسیح کی موت ایک نیابتی موت تھی۔ یہ اصول ایک عام اِنسان کےلئے سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن حقیقت اِس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ فطرت اور زِندگی کا سب سے اہم اصول ہے۔ تم جہاں بھی جاؤ اِس کی سرگرمی دیکھو گے۔ مثال کے طور پر ہوا، بارش اور دیگر عناصر چٹانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں، جِس سے زمین میں زرخیزی فراہم ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ، سورج مسلسل اپنی توانائی کی بڑی مقدار خرچ کرتا ہے تا کہ ہمیں حرارت اور روشنی ملے۔ ایک اَور مثال ریشم کے کیڑوں کی ہے جو ہمیں ریشم دینے کےلئے اپنی جان گنوا دیتے ہیں لیکن قدرت کا یہ انتظام ہے کہ موت سے پہلے سیکڑوں انڈے چھوڑ جاتے ہیں۔ اِس سلسلے میں جو سب سے خوبصورت بات کہی گئی ہے وہ یسوع مسیح کا یہ قول ہے کہ "مَیں تُم سے سچّ کہتا ہوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 12: 24)۔

درحقیقت ایسی دوسری مثالیں بھی ہیں جو صلیب کو اِس اصول کے کمال کے طور پر دکھاتی ہیں، اور یہ محتاط غور و فکر کرنے والے ہر فرد پر حیرت انگیز حقیقت ظاہر کرتی ہیں کہ دینا ہی ثمر آوری کی بنیاد ہے۔

اب مَیں تمہارے لئے مسیح کی صلیب پر موت کی تصدیق کرنے والے کئی حقائق پیش کروں گا:

الف۔ تاریخی ثبوت:

پطرس رسول نے کہا، "۔۔۔ نبوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہُوئی بلکہ آدمی رُوحُ القُدس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے‘‘ (نیا عہدنامہ، 2۔ پطرس 1: 21)۔ چنانچہ مسیحی ایمان کی بنیاد ایسے حقائق پر مبنی ہے جنہیں الہامی صحائف کے مصنّفین نے درج کیا ہے اور جِن کی تائید نبوّتوں سے ہوتی ہے۔ مزید برآں، تاریخ اِس کی تصدیق کرتی ہے، اور تجربہ اور تسلسل اِس کی گواہی دیتا ہے۔

مسیح کے مصائب، مصلوبیّت اور موت کی حقیقت صرف مسیحیوں کی گواہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ اِس کی تصدیق بت پرست اور یہودیوں کی قدیم تحریروں سے بھی ہوتی ہے:

(1) بُت پرست مؤرِّخ ٹیسیٹس کی گواہی: یہ شخص اپنے زمانے کا سب سے بڑا خطیب اور ایک فاضل مؤرِّخ تھا۔ 55ء میں پیدا ہُوا۔ اُس نے 69ء سے 79ء تک شہنشاہ ویسپیسِئن کے دورِ حکومت میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 88ء میں وہ قاضی القضاۃ کے عہدے پر مامور ہُوا۔ وہ اپنی تاریخی یادداشتوں اور رومی سلطنت کی تاریخ کی سولہ جلدوں کی وجہ سے مشہور ہے جِن میں 14ء سے 68ء تک سلطنت کی تاریخ کا بیان کیا گیا ہے۔ ایک فصل میں اُس نے مسیح کی مصلوبیّت اور مسیحیوں کی شجاعت کا ذِکر کیا ہے جنہوں نے صلیب پر اپنے اٹل اِیمان کے باعث یہ ہمّت حاصل کی۔ وہ لکھتا ہے کہ لفظ مسیحی مسیح سے مشتق ہے جو تبریاس کے دورِ حکومت کے دوران رومی حاکم پینطس پیلاطس کے حکم سے مارا گیا تھا۔

(2) بُت پرست مؤرِّخ لوسیان کی گواہی: یہ مؤرِّخ 100ء میں پیدا ہُوا۔ وہ ایک ممتاز یونانی مصنف تھا اور ایک ذہین اور قدیم تحریروں کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص تھا۔ اُس کے بہت سے سفروں نے اُس کی تحریروں میں گہرائی اور وسعت بخشی ہے۔ لیکن چونکہ وہ اپکوری گروہ سے تعلق رکھتا تھا، اِس لئے مسیحیوں کے اِیمان یا مسیح کی خاطر اُن کے جان نثار کرنے کی رضامندی کو سمجھ نہ پایا۔ وہ لوگوں کی فردوس کےلئے رُوحانی خواہش کو بھی سمجھ نہ سکا۔ اُس نے روح کے لافانی ہونے کے اُن کے عقیدے کا مذاق اڑایا اور اُنہیں ایک فریب زدہ قوم سے تعبیر کیا، جو موجودہ دنیا سے لطف اندوز ہونے کے بجائے موت کے بعد کی زندگی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اُس نے لکھا: "مسیحی آج بھی اُس عظیم اِنسان کی عبادت کرتے ہیں جِسے فلسطین میں مصلوب کیا گیا تھا، کیونکہ وہ دُنیا میں ایک نیا مذہب لایا تھا۔"

(3) یوسیفس نامی یہودی کی گواہی: یہ شخص ایک مشہور یہودی مؤرِّخ تھا۔ یہ مسیح کی موت کے تھوڑے عرصہ کے بعد یروشلیم میں پیدا ہوا تھا۔ اُس کی یہودی قوم کی تاریخ بیس جلدوں پر مشتمل ہے جِس میں شروع سے لے کر رومی شہنشاہ نیرو تک کی یعنی مسیح کی موت کے بیس برس بعد تک کی تاریخ ہے۔ اُس نے اپنی تحریروں میں مسیح اور اُس کے پیشرو یوحنّا اِصطباغی کا ذکر کیا ہے۔ اُس نے مسیح کی دردناک موت اور اُس کے نتائج کا تفصیلی بیان بھی شامل کیا ہے۔ اُس نے لکھا کہ "ہماری قوم کے عمائدین کے اصرار پر پیلاطس نے مسیح کو صلیب دینے کا حکم دیا۔ لیکن مسیح کو پیار کرنے والے اُس سے نہیں پھرے بلکہ ابھی تک موجود ہیں۔ اُنہیں اُس کے ساتھ تعلق کی وجہ سے مسیحی کہا جاتا ہے۔

(4) تالمود کی گواہی: تالمود یہودیوں کی نظر میں ایک مُقدّس کتاب ہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ ایمسٹرڈم میں مطبوعہ 1943ء تالمود کے صفحہ 43 پر یہودی صدر عدالت کے عنوان کے تحت یہ لکھا دیکھا جا سکتا ہے کہ مسیح کو عید فسح سے ایک دِن پہلے صلیب دی گئی۔ مسیح کی موت سے چالیس دِن پہلے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اُسے قتل کر دیا جائے گا کیونکہ وہ ایک جادوگر تھا جو اِسرائیل کو دھوکہ دینے اور گمراہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ جو چاہے آگے آئے اور اِس کی تردید کرے، لیکن کوئی نہ آیا تو فسح سے ایک دِن پہلے اُسے صلیب دی گئی۔ یہ تصوّر کرنا بھی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی اُس کا دفاع کرنے کی جرأت کرتا، کیونکہ وہ یہودیوں کی نظر میں فساد پھیلانے والا تھا، اور اُن کی شریعت کے مطابق اُس پر ترس نہیں کیا جانا تھا (دیکھئے اِستثنا 13: 6۔ 9)۔

(5) ربّی جوزف کلاؤسنر کی گواہی: اِس مشہور عالم نے یسوع ناصری کے بارے میں ایک کتاب لکھی جِس میں اُس نے تنقید اور تجزیے کے بعد یہ ثابت کیا کہ اِنجیلی بیانات مستند تاریخی دستاویزات ہیں، اور اِن تحریروں کے عین مطابق یسوع نے زندگی گزاری اور اپنی جان دی۔

(6) پینطُس پیلاطُس کی گواہی: رومی حاکم پیلاطس نے قیصر تبریاس کو جو تفصیلی رپورٹ بھیجی اُس میں اُس نے مسیح کے معجزات، موت اور قیامت کا ذِکر کیا۔ یہ رپورٹ رومی محفوظ کی گئی دستاویزات میں موجود ہے، اور اِسے بعد میں طرطلیان نے مسیحیوں کے اپنے تاریخی دفاع میں استعمال کیا، جِسے یسوع کی موت کے تقریباً ساٹھ سال بعد شمالی افریقہ کے رومی حاکم کو پیش کیا گیا۔

ب۔ مسیحی فسح کا روایتی ثبوت:

روایتی مسیحی فسح یا "خُداوند کی عشاء" میں ایسا ٹھوس ثبوت موجود ہے جِسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ تاریخی تسلسل کا حامل ہے۔ چونکہ بنی نوع اِنسان کی نجات کےلئے مسیح کی موت تمام واقعات سے اہم ہے، اِس لئے اِسے ایک مستقل یادگار کے طور پر محفوظ رکھنے کی ضرورت تھی۔ اِس رسم کو ہمارے مبارک منجی نے مقرر کیا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا: "۔۔۔ میری یادگاری کےلئے یہی کیا کرو" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 19)۔ کلیسیائی تاریخ میں عشائے ربّانی کا مسلسل انعقاد اِس واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی سچائی کا حتمی ثبوت ہے۔ یسوع کی صلیب پر موت ایک حقیقت ہے، اور اِس کی تعظیم میں منائی جانے والی یہ رسم نہ صرف اِس موت کا ثبوت ہے، بلکہ اِس کے مقصد کی بھی واضح گواہی ہے۔ جب مسیح نے روٹی توڑی اور فسح کے کھانے کے دوران اپنے شاگردوں کو انگور کا شیرہ دیا تو کہا: "یہ میرا بدن ہے جو تُمہارے واسطے دیا جاتا ہے ۔۔۔ یہ پیالہ میرے اُس خون میں نیا عہد ہے جو تمہارے واسطے بہایا جاتا ہے‘‘ (لوقا 22: 19، 20)۔ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ اُس نے بطور کفّارہ موت سہی۔

مسیحیوں کےلئے عشائے ربّانی کے ایک سے زیادہ معانی ہیں۔

(الف) یہ ہر نسل اور زمانے میں مسیح اور اُس کے پیروکاروں کے درمیان ایک عہد ہے۔ مسیح نے اپنے خون کے وسیلہ فضل، رحم اور معافی کے دور کا آغاز کیا۔ یہودی فسح تو عشائے ربّانی کی سچّائی کا فقد عکس تھا۔

(ب) یہ کلیسیا اور مسیح کے درمیان مسلسل رفاقت ہے جو کلیسیا کا سر اور ایمانداروں کا منجی ہے۔ پولس رسول نے لکھا: "وہ برکت کا پیالہ جِس پر ہم برکت چاہتے ہیں کیا مسیح کے خون کی شراکت نہیں؟ وہ روٹی جِسے ہم توڑتے ہیں کیا مسیح کے بدن کی شراکت نہیں؟" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 10: 16)۔

یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ جناب مسیح نے مسیحیّت میں سب سے اہم اور عظیم چیز یعنی اپنے فدیہ و قربانی کو تمام لوگوں کے سامنے اِس رفاقت کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اِس فِدیہ کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ہمارے لئے اپنی جان دے دے۔

(ج) یہ شکر گزاری کا اظہار ہے۔ چونکہ مسیح نے روٹی کو برکت دی اور پیالے کےلئے شکر ادا کیا، اِس لئے ہم اُس کی عظیم محبّت کےلئے اُس کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو نسلِ اِنسانی کے فدیہ کی وجہ بنی۔

(د) یہ ایک یادگاری ہے۔ عشائے ربّانی کی بابت یسوع نے کہا، "میری یادگاری کےلئے یہی کیا کرو۔" ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ یادگار صرف مصلوبیّت کی ایک تاریخی یاد نہیں ہے بلکہ مسیح کی زندہ، حیات بخش محبّت کا اقرار بھی ہے جو ہمارے ساتھ موجود ہے۔ یہ صلیب کی یادگار ہے جو اِیمانداروں کی زندگی میں حقیقی ہے، جِس کا اظہار پولس رسول نے یوں کیا ہے کہ "مَیں مسیح کے ساتھ مصلوب ہُؤا ہوں اور اَب مَیں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مُجھ میں زندہ ہے اور مَیں جو اَب جسم میں زندگی گذارتا ہوں تو خُدا کے بیٹے پر اِیمان لانے سے گذارتا ہوں جِس نے مُجھ سے محبّت رکھّی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا‘‘ (نیا عہدنامہ، گلتیوں 2: 20)۔

(ہ) یہ مسیح مصلوب کی مستقل گواہی ہے۔ عشائے ربّانی میں حصہ لینے والے افراد مسیح مصلوب پر اپنے اِیمان کا اقرار کرتے اور اُس کے ساتھ اپنی وفاداری کی تجدید کرتے ہیں، اور اپنے لئے اُس کے فضل کا اقرار کرتے ہوئے اُس کی آمد تک اُس کی موت کا اعلان کرتے ہیں۔ پوری دُنیا کے مسیحیوں نے اپنے منجی کے حکم کی تعمیل کی اور رسولوں کی طرف سے پہنچنے والی اِس رسم کو برقرار رکھا۔ اِس موضوع پر پولس رسول کے الفاظ پر غور کریں: "کیونکہ یہ بات مُجھے خُداوند سے پہنچی اور مَیں نے تُم کو بھی پہنچا دی کہ خُداوند یسوع نے جِس رات وہ پکڑوایا گیا روٹی لی۔ اور شُکر کر کے توڑی اور کہا یہ میرا بدن ہے جو تُمہارے لئے ہے۔ میری یادگاری کے واسطے یہی کیا کرو۔ اِسی طرح اُس نے کھانے کے بعد پیالہ بھی لیا اور کہا یہ پیالہ میرے خُون میں نیا عہد ہے۔ جب کبھی پیو میری یادگاری کےلئے یہی کیا کرو۔ کیونکہ جب کبھی تُم یہ روٹی کھاتے اور اِس پیالے میں سے پیتے ہو تو خُداوند کی موت کا اظہار کرتے ہو۔ جب تک وہ نہ آئے" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 11: 23۔ 26)۔

یہ رسولی الفاظ ہمیں اِن حقائق سے روشناس کراتے ہیں:

  • یسوع نے اپنے شاگردوں کو اپنی موت، اپنے بدن کے قربان ہونے اور خون کے بہائے جانے کی خبر پہلے ہی دے دی تھی۔

  • وہ واقعی صلیب پر مر گیا تھا، اور اِس پیغام کا اُس کے شاگردوں نے پرچار کیا اور اُسے آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔

  • اگر مسیح کے علاوہ کوئی اَور مصلوب ہُوا ہوتا تو ایسا فرد اِس رسم کو مقرّر نہ کرتا یا آنے والی نسلوں کےلئے اِسے مقرّر نہ کرتا۔

اگر تم کسی مسلمان سے اُس کے عقیدے کے صحیح ہونے کا ثبوت یا فرائض کے ماخذ کے بارے میں پوچھو گے تو وہ تمہیں جواب دے گا کہ نسل در نسل زمانوں سے روایتی طور پر تسلسل خود اِس کا بہترین ثبوت ہے۔ جیسے مکہ شریف کا حج ایک ایسے حکم کی موجودگی کا ثبوت فراہم کرتا ہے جو اِس کی استطاعت رکھنے والوں پر فرض ہے۔ اِس لئے مسلمان اِس موضوع پر قرآنی نصوص کی سچّائی کے ثبوت کے طور پر جاری عمل کا حوالہ دے گا۔ اِسی طرح عشاء ربّانی کی رسم بطریق نصوص اِنجیل و تقالیدِ مسلسل کے طور پر زیر عمل ہے۔

میرے پاس کچھ تاریخی شواہد تمہارے سامنے پیش کرنا باقی ہے جو مسیحی تحریروں میں کثرت سے موجود ہیں، جو اِس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی مسیحی موجودگی رہی ہے وہاں مسیح کی موت کی یادگاری کی جاتی رہی ہے۔

  1. مُقدّس نوِشتے۔ چاروں اِنجیلی بیانات کے مصنّفین نے اُن حالات کو بیان کیا ہے جِن میں یسوع مسیح نے اِس رسم کو مقرر کیا۔ جب مسیح نے اُنہیں اپنے ساتھ پیش آنے والے تکلیف دہ واقعات کے بارے میں بتایا تو اُن کے دِل غم و اندوہ سے بھر گئے۔ آپ اُن کے دِلوں میں حوصلہ پیدا کرنا چاہتے تھے، تا کہ وہ آنے والی مشکلات کو برداشت کر سکیں۔ یوں، مسیح نے حوصلہ افزائی کے یہ الفاظ کہتے ہوئے عشائے ربّانی کو محبّت کی ضیافت کی ایک یادگار کے طور پر مقرر کیا: "مگر تُم وہ ہو جو میری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے۔ اور جیسے میرے باپ نے میرے لئے ایک بادشاہی مقرّر کی ہے مَیں بھی تُمہارے لئے مقرّر کرتا ہوں تا کہ میری بادشاہی میں میری میز پر کھاؤ پِیو بلکہ تُم تختوں پر بیٹھ کر اِسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 28۔ 30)۔

    پھر مسیح نے اُنہیں ہدایت کی کہ وہ اُس میں، اُس کے کلام میں اور اُس کی محبّت میں ثابت قدم رہیں، اور واضح کیا کہ اُن کےلئے اُس کی محبّت اپنے لئے آسمانی باپ کی طرح کی محبّت ہے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 15: 1۔ 9)۔ مسیح نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے ایک دوسرے سے محبّت کرنے کا حکم دیا: "میرا حکم یہ ہے کہ جیسے مَیں نے تُم سے محبّت رکھّی تُم بھی ایک دُوسرے سے محبّت رکھّو۔ اِس سے زیادہ محبّت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کےلئے دے دے۔ جو کُچھ مَیں تُم کو حکم دیتا ہوں اگر تُم اُسے کرو تو میرے دوست ہو۔ اب سے مَیں تُمہیں نوکر نہ کہوں گا کیونکہ نوکر نہیں جانتا کہ اُس کا مالِک کیا کرتا ہے بلکہ تُمہیں مَیں نے دوست کہا ہے۔ اِس لئے کہ جو باتیں مَیں نے اپنے باپ سے سُنیں وہ سب تُم کو بتا دیں۔ تُم نے مُجھے نہیں چُنا بلکہ مَیں نے تُمہیں چُن لیا اور تُم کو مقرّر کیا کہ جا کر پھل لاؤ اور تُمہارا پھل قائم رہے تا کہ میرے نام سے جو کُچھ باپ سے مانگو وہ تُم کو دے۔ مَیں تُم کو اِن باتوں کا حُکم اِس لئے دیتا ہُوں کہ تُم ایک دُوسرے سے محبّت رکھّو" (یوحنّا 15: 12۔ 17)۔

    یسوع نے اپنے شاگردوں کو سمجھایا کہ جیسے دُنیا نے اُس سے نفرت و عداوت رکھی ہے ویسے ہی وہ اُن سے بھی رکھے گی (یوحنّا 15: 18۔ 25)۔ پھر، آپ نے اپنی مشہور شفاعتی دُعا کی۔ اِنجیلی بیانات کو تحریر کرنے والوں نے مسیح کی اپنے شاگردوں کے ساتھ گزاری آخری رات کے دوران پیش آنے والے واقعات کا بیان بھی کیا ہے۔ دیکھئے متّی 27 باب؛ مرقس 14 باب؛ لوقا 22 باب اور یوحنّا 13، 14 اور 15 باب۔

    مخفی نہ رہے کہ مغربی ملحدوں نے اِنجیلی بیانات کی انتہائی سخت جانچ پڑتال کی، تاہم، اُنہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مصنّفین مسیح کے قدیم ترین ساتھیوں میں سے تھے۔ اُن میں سے کئی یسوع کے ساتھ عشائے ربّانی میں شریک ہوئے۔ اعمال کی کتاب میں ہمیں پہلی مرتبہ ایسے مسیحی گروہ کا تذکرہ ملتا ہے جِس نے مسیح کے آسمان پر صعود کے بعد عشائے ربّانی میں حصہ لیا: "اور یہ رسُولوں سے تعلِیم پانے اور رفاقت رکھنے میں اور روٹی توڑنے اور دُعا کرنے میں مشغول رہے" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 42)۔

  2. عبادتی رسوم کی تحریریں۔ کلیسیا کے پاس بہت سی ایسی تحریریں موجود ہیں جو اوّلین مسیحی جماعت کی عبادتی رسومات کو بیان کرتی ہیں۔ اُن میں عشائے ربّانی کے دوران استعمال کی جانے والی دعاؤں کا تذکرہ موجود ہے۔

  3. قوانینِ کلیسیا۔ کلیسیائی کونسلوں نے 325ء میں منعقد ہونے والی نقایہ کی کلیسیا کے وقت سے متعدد ضوابط وضع کئے ہیں، اور اُن سب میں عشائے ربّانی کا ذِکر موجود ہے۔

  4. اسلاف کی تحریریں۔ قدیم ترین مسیحی تحریروں میں اِس فریضہ کا ذِکر کیا گیا ہے، جِسے نسل در نسل منتقل کرنے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ کلیسیاؤں نے اِس کا شروع سے عبادت کے ایک لازمی حصے کے طور پر اہتمام کیا ہے۔ اِن مصنّفین میں اہم نام یہ ہیں:

    الف۔ اسکندریہ کا کلیمنٹ (150ء)۔ اُس نے فریضہ عشائے ربّانی کا بہت ذِکر کیا ہے۔ اِس موضوع پر اُس کے اقوال میں سے ایک یہ ہے: "منجی نے روٹی لی، اُس پر برکت چاہی، پھر اُسے توڑا، اور یہ کہتے ہوئے پیش کیا 'لو، کھاؤ، یہ میرا بدن ہے۔' پھر پیالہ لیا، اُس پر برکت چاہی اور یہ کہہ کر شاگردوں کو دیا کہ 'لو، پیو، یہ میرا خون ہے۔'"

    ب۔ ایرینئس (135ء)۔ اِس نے پولی کارپ سے تعلیم پائی تھی جو یسوع کے شاگرد یوحّنا رسول کے شاگرد تھے۔ اِس مصنّف نے عشائے ربّانی کا ذِکر کیا ہے اور مسیح کی موت اور روٹی اور مے کے درمیان تعلق کی وضاحت کی ہے۔

    ج۔ یوسطین شہید۔ اِس کی وفات پہلی صدی مسیحی میں ہوئی۔ اِس نے مسیحیوں کی طرف سے دفاع میں کتاب لکھی، جِس میں فریضہ عشاء ربّانی منانے کا ذِکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اُس نے بت پرست لوگوں کےلئے لکھی تھی تا کہ وہ مسیحی عقائد سے روشناس ہو جائیں۔

    د۔ مقدّس اگنیشئس (55ء)۔ یہ یوحنّا رسول اور اُس کے شاگرد پولی کارپ کا ہم عصر تھا۔ اُس نے عشائے ربّانی کے موضوع پر اپنے حلقے کی کلیسیاؤں کو متعدد خطوط لکھے۔ اِفسس کی کلیسیا کے نام اپنے خط میں اُس نے لکھا: "اُسقف اور بزرگان کلیسیا کی یک دِل ہو کر تابع فرمانی کرتے رہو، روٹی توڑتے رہو جو ہماری لافانی زندگی کی صحت ہے۔ کیونکہ ہمارے خُداوند یسوع مسیح کا ایک ہی بدن ہے اور اُس کے خون کی رفاقت کےلئے ایک ہی پیالہ ہے۔"

9۔ مسیح کا مقدّمہ

"وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جِس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زُبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 7)

اب مَیں مسیح کے مقدّمے کے مراحل کا بیان کروں گا، لیکن اُس سے پہلے اُن واقعات کا ذِکر کرتا چلوں جو اِس مقدّمہ سے پہلے واقع ہوئے اور اِس کی کارروائی پر اثر انداز ہوئے:

الف۔ تخمِ جرم: یسوع کی زمینی خدمت کے آخری نصف حصے میں اُس کی تعلیم کو قبول کرنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ چنانچہ اِس امر نے عمائدینِ یہود کو لرزا دیا۔ اُنہوں نے یسوع کو رومی حکومت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی جو فلسطین پر حکومت کر رہی تھی۔ جب یہ کوشش ناکام ہوئی تو اُنہوں نے اُس پر موسیٰ کی شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کا الزام لگانے کی کوشش کی، تا کہ قوم کو اُس کے خلاف ابھار سکیں۔ اُن کا مقصد یہ تھا کہ یسوع سے ایسا جرم کرایا جائے جو اُسے مجرم ٹھہرا دے۔ تاہم، مسیح نے اُنہیں مایوس کیا۔ آپ نے نہ قیصر کے قانون کو توڑا اور نہ موسیٰ کی شریعت کو توڑا، بلکہ کہا: "جو قَیصر کا ہے قَیصر کو اور جو خُدا کا ہے خُدا کو ادا کرو" (اِنجیل بمطابق متّی 22: 21)۔

پھر بھی مذہبی پیشواؤں نے شکست نہیں مانی اور اُنہوں نے فریسی مذہبی طبقہ کو ساتھ ملا لیا اور یسوع پر الزام لگانے کی کوئی نئی ترکیب سوچنے لگے۔ جب ناکام ہو گئے تو کہنے لگے: "ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بُہت معجزے دکھاتا ہے۔ اگر ہم اُسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 11: 47، 48)۔ تب کائفا نے کہا: "۔۔۔ تُمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو‘‘ (یوحنّا 11: 50)۔ اِس بیان سے کائفا نے اپنے سننے والوں کی رُوحوں میں جرم کا بیج بو دیا۔

ب۔ جرم کا بیعانہ: مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے ایک یہوداہ اسکریوتی تھا، اور یوں لگتا ہے کہ وہ شروع میں مسیح سے محبّت کرتا تھا۔ تاہم، پیسے اور شہرت کی محبّت نے یہوداہ کو اپنی گرفت میں لے لیا، اور اُس نے سوچا کہ اگر یسوع کو بادشاہ قرار دیا جائے تو وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن جب اُس نے محسوس کیا کہ یسوع کا زمینی تخت قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، تو وہ سخت مایوس ہُوا -- خاص طور پر جب اُس نے یسوع کی زبانی سُنا کہ اُس کے پیروکاروں کو مخالفت کا سامنا ہو گا، ایذا یہاں تک کہ موت سہنی پڑے گی۔ جب یسوع نے اعلان کیا کہ اُس کا مصلوب ہونے کےلئے یہودیوں کے حوالے کیا جانا ناگزیر ہے تو یہوداہ کی تمام اُمّیدیں دم توڑ گئیں۔ اِس کے بعد، مسیح کےلئے اُس کی محبّت ٹھنڈی پڑ گئی۔ اِس کا ثبوت تو بیت عنیاہ ہی سے ظاہر ہونے لگتا ہے جہاں یہوداہ نے لعزر کی بہن مریم پر اعتراض کیا کہ اُس نے یسوع کے پاؤں پر بیش قیمت عطر کیوں ڈالا۔ باوجود کہ یہودی سردار کاہن، بزرگ اور فریسی اُس کے خداوند کے دشمن تھے، یہوداہ نے اُس کا ساتھ دیا۔ جب یہ گروہ یسوع کو قتل کرنے کی سازش کر رہا تھا تو یہوداہ نے اُن کے پاس جا کر کہا: "اگر مَیں اُسے تمہارے حوالہ کرا دوں تو مُجھے کیا دو گے؟" (متّی 26: 15)۔ شیطانی سازش کرنے والے اُسے اپنی صف میں آتے دیکھ کر خوش ہوئے اور کچھ سودے بازی کے بعد اُنہوں نے اُسے چاندی کے تیس سکے دینے کا وعدہ کیا۔ یہ واقعہ صحائف مُقدّسہ کی نبوّت کی تکمیل تھا:

  • "اور مَیں نے اُن سے کہا کہ اگر تُمہاری نظر میں ٹھیک ہو تو میری مزدوری مُجھے دو، نہیں تو مت دو، اور اُنہوں نے میری مزدوری کےلئے تیس روپے تول کر دئے۔" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 11: 12)

  • "۔۔۔ اُنہوں نے صادق کو روپیہ کی خاطر ۔۔۔ بیچ ڈالا۔" (پرانا عہدنامہ، عاموس 2: 6)

  • متّی 26: 14۔ 16 کے مطابق جب سردار کاہنوں نے اُسے تیس روپے تول کر دے دئے تو وہ اُسی وقت سے یسوع کے پکڑوانے کا موقع ڈھونڈنے لگا۔

ج۔ آخری عشاء: بڑی عید یعنی فسح کی تیاری زوروں پر تھی، اور اسرائیلی عورتیں اُس خاص روٹی کو تیار کرنے میں مصروف تھیں جو عید کے آٹھوں دنوں میں کھائی جاتی ہے۔ مرد بازار میں قربانی کےلئے دُنبے خریدنے میں لگے تھے جنہیں عید کے پہلے دِن ذبح کیا جانا تھا۔ شریعت میں یہی حکم تھا کہ ہر گھر ایک برہ کی قربانی کرے۔

یسوع جان گئے تھے کہ اُس کی مصلوبیّت کا وقت قریب ہے، اِس لئے وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک بالا خانہ میں گئے کہ وہاں اُن کے ساتھ فسح کی ضیافت میں شریک ہوں۔ جب شام ہوئی تو فسح کھانے کے دوران اُنہوں نے خداوند کو مضطرب دیکھا۔ تب یسوع نے اُن سے کہا: "مَیں تُم سے سچّ کہتا ہوں کہ تُم میں سے ایک شخص مُجھے پکڑوائے گا" (یوحنّا 13: 21)۔ یہ زبور 41: 9 میں دھوکا دے کر پکڑوانے کی نبوّت کی تکمیل تھا: "بلکہ میرے دِلی دوست نے جِس پر مُجھے بھروسا تھا اور جو میری روٹی کھاتا تھا مُجھ پر لات اُٹھائی ہے۔"

شاگردوں نے اپنے مالک کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ نہایت دلگیر ہو گئے اور شبہ کر کے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کس کی نسبت کہتا ہے۔ اتنے میں یہوداہ نے یہ معلوم کرنے کےلئے کہ کہیں سازش کا علم تو نہیں ہو گیا یہ استفسار کیا: "اے ربیّ، کیا مَیں ہوں؟" یسوع نے یہوداہ پر ظاہر کیا کہ وہی ہے (متّی 26: 25) کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اِنسان کے دِل میں کیا ہے (یوحنّا 2: 25)۔ جیسے ہی یہوداہ نے یسوع سے روٹی لی، شیطان اُس میں سما گیا۔ تب یسوع نے اُس سے کہا کہ "جو کچھ تُو کرتا ہے جلد کر لے" (یوحنّا 13: 27)۔ یہوداہ اُٹھ کر چلا گیا، اور یہ رات کا وقت تھا۔

مسیح اور یہوداہ کے درمیان گفتگو میں یہ بات نمایاں ہے کہ خداوند کے الفاظ مہربان تھے۔ یوں مسیح اِس غدار کو آخری لمحات میں اپنے دِل کی برائی سے توبہ کرنے کا موقع دینا چاہتے تھے۔ لیکن افسوس، شیطان اُس میں سما گیا۔

یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ اِس آخری فسح کے دوران مسیحی فسح کا سیکرامنٹ مقرر کیا۔ جب آپ نے اُنہیں بتایا کہ آپ کو دُکھ سہنے سے پہلے شاگردوں کے ساتھ یہ فسح کھانے کی بڑی آرزو تھی، آپ نے روٹی لی، شُکر کر کے توڑی اور اُنہیں یہ کہہ کر دی "یہ میرا بدن ہے جو تُمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔ میری یادگاری کےلئے یہی کیا کرو" (لوقا 22: 19)۔ یہ الفاظ اُنہیں عجیب نہ لگے، کیونکہ یسوع نے پہلے کہا تھا: "مَیں ہوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری۔ اگر کوئی اِس روٹی میں سے کھائے تو ابد تک زندہ رہے گا بلکہ جو روٹی مَیں جہان کی زندگی کےلئے دُوں گا وہ میرا گوشت ہے" (یوحنّا 6: 51)۔

جب شاگردوں نے روٹی کھا لی تو یسوع نے پیالہ لیا اور شکر ادا کیا اور اُنہیں دیتے ہوئے کہا: "تُم سب اِس میں سے پیو، کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کےلئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے" (متّی 26: 27، 28)۔

شاگردوں نے پیالہ لیا، بڑے خشوع کے ساتھ اُس میں سے پیا۔ اِس کے بعد یسوع نے چاندانی رات میں وہ راہ پکڑی جو قدرونِ کے نالہ کے پار باغِ گتسمنی کی طرف جاتی تھی۔ تب آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا: "میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ تُم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو" (متّی 26: 38)۔

د۔ غدار کا بوسہ: غدار یہوداہ یہودی بزرگوں کے پاس گیا اور اُنہیں بتایا کہ یسوع نے اپنے آپ کو مصلوب کرنے کے حوالے سے اپنے ارادے کا اعلان کیا ہے۔ یوں اُس پر ہاتھ ڈالنا اور یروشلیم کے لوگوں کے نیند سے بیدار ہونے سے پہلے رومی حاکم کے حوالے کرنا مشکل نہیں ہو گا۔

یہوداہ اُس جگہ کو جانتا تھا جہاں یسوع اکثر اپنے شاگردوں کے ساتھ جاتا تھا۔ چنانچہ وہ سپاہیوں کی پلٹن اور سردار کاہنوں اور فریسیوں سے پیادے لے کر باغ کی طرف گیا۔ اُس نے اُنہیں یہ نشان دیا کہ جِس کا مَیں بوسہ لوں اُسی کو پکڑ لینا (متّی 26: 48)۔ تب یہوداہ آگے آگے چلا اور بڑھ کر یسوع کا بوسہ لیا۔ فوراً ہی سپاہیوں نے اپنی تلواریں اور لاٹھیاں سنبھالیں اور یسوع کی طرف بڑھے۔ یسوع نے اُن سے پوچھا کہ "کسے ڈھونڈتے ہو؟" اُنہوں نے جواب دیا کہ "یسوع ناصری کو۔" یسوع نے با اختیار لہجہ میں جواب دیا: "مَیں ہی ہوں۔" یوحنّا اِنجیل نویس نے ذِکر کیا ہے یسوع کی یہ بات سُنتے ہی وہ پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑے۔ یسوع نے اُن سے پھر پوچھا کہ "تم کسے ڈھونڈتے ہو؟" اور اُنہوں نے پھر جواب دیا "یسوع ناصری کو۔" یسوع نے جواب میں کہا، "مَیں تُم سے کہہ تو چکا کہ مَیں ہی ہوں۔ پس اگر مُجھے ڈھونڈتے ہو تو اِنہیں جانے دو" (یوحنّا 18: 8)۔

اِس سخت ترین حملہ میں سپاہیوں اور یہودیوں کے پیادوں کے ساتھ سردار کاہن کا نوکر بھی شامل تھا، اِس لئے پطرس نے تلوار سے اُس کا دہنا کان اُڑا دیا۔ لیکن مسیح نے شفقت سے اُس کان کو ٹھیک کر دیا جِسے پطرس نے کاٹا تھا۔ یہ اُس کے اپنے حکم کے مطابق تھا: "اپنے دشمنوں سے محبّت رکھو" (متّی 5: 44)۔ خُداوند نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور سردار کاہن کے نوکر کے کان کو اچھا کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس معجزہ کے ذریعہ وہ اپنے گرفتار کرنے والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ اگر وہ خود گرفتاری کےلئے آمادہ نہ ہوتا تو سپاہی اُس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے۔ پھر، اِس طرح کے کام کےلئے ناپسندیدگی میں پطرس کی طرف متوجّہ ہو کر، مسیح نے اُسے حکم دیا کہ وہ اپنی تلوار میان میں واپس کر دے، اور اُسے یاد دلایا کہ: "جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے" (متّی 26: 52)۔ پھر سپاہی یسوع کو پکڑ کر لے گئے، لیکن شاگرد اُس جگہ سے بھاگ نکلے۔

یہ حقیقت کہ باغ میں مسیح ہی تھا معتبر طور پر تصدیق شدہ ہے، کیونکہ جب اُسے پکڑا گیا تو اُس کے کم از کم تین شاگرد اُس کے ساتھ تھے۔ اِس واقعہ کا اندراج اِنجیلی بیانات میں ہے، اور اُن کی گواہی سچی ہے۔ سپاہیوں پر مسیح کی ہیبت طاری ہونے پر گر جانا اِس بات کا ایک اہم ثبوت ہے کہ یہ واقعی اپنی تمام شان و شوکت میں مسیح تھا۔ نیز، مسیح کے ہاتھ کے علاوہ کوئی اَور ہاتھ سردار کاہن کے نوکر کے کٹے ہوئے کان کو ٹھیک نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا، یہ عقیدہ کہ گرفتار کیا گیا شخص مسیح نہیں بلکہ کوئی اَور تھا جِس پر مسیح کی شبیہ ڈالی گئی تھی، ایک کمزور الزام ہے جِس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اِس طرح سے اِنسانوں کو دھوکا دینا قدّوس و برحق خداوند سے بعید ہے۔ یہ سچائی کے گواہ، فدیہ دینے والے اُس شفیع مسیح سے بھی بہت بعید ہے کہ اپنے ایمان لانے والوں کو اِس ڈرامہ کے انداز میں دھوکا دے۔ مسیح نے تو خود اُنہیں بار بار بتایا تھا کہ وہ دُکھ اٹھائے گا، مر جائے گا اور پھر جی اُٹھے گا۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ دوسرے شخص پر اپنی شبیہ ڈال کر اُسے ہلاکت میں ڈال کر اور خود عجوبہ بن کر چھپ جائے، جبکہ وہ خود بچ جائے اور وہ دوسرا قتل ہو جائے؟ یہ نظریہ خُدائے صادق پر طعن نہیں تو اَور کیا ہے!

یقیناً یہ یقین کرنا ایک بہت بڑا کفر ہے کہ قدّوس، راست اور عادل خُدا نے یوں مسیح کو صلیب کی شرمناک موت سے بچایا، جِس کے نتیجہ میں صدیوں سے کروڑوں افراد دھوکے میں پڑے۔ جبکہ وہ اُسے آگ کے رتھ میں ایلیاہ کی طرح اُٹھا سکتا تھا یا پھر جیسا مسیح نے پطرس کو بتایا تھا وہ فرشتوں کے بارہ تمن سے زیادہ موجود کر سکتا تھا (متّی 26: 53)۔ کیا ایک محبّت کرنے والا، رحم دِل اور عادل خُدا لاکھوں مسیحیوں کو اُن کے عقیدے کی وجہ سے جو مبینہ طور پر دھوکہ دہی پر مبنی تھا، شہید ہونے کی اجازت دیتا؟ مجھے نہیں لگتا کہ تم اِس پر یقین کرو گے!

ہ۔ دینی مقدّمہ: مُقدّس یوحنّا نے اپنے اِنجیلی بیان میں لکھا ہے کہ سپاہی مسیح کو گرفتار کر کے سابق سردار کاہن حنّا کے پاس لے گئے، جو صدوقی فرقہء یہود سے تعلق رکھتا تھا۔ شریر ہیرودیس سات برس پہلے حنّا کو اسکندریہ سے لایا تھا اور اُسے سردار کاہن کے طور پر فائز کیا تھا۔ پھر رومیوں نے اُسے اُس کی مشتبہ وفاداری پر معزول کر دیا، اور اُس کے پانچ بیٹوں کے بعد یہ عہدہ اُس کے داماد کائفا کو دیا گیا۔ جہاں تک حنّا کا تعلق ہے، وہ یسوع کی مخالفت میں سب سے آگے تھا کیونکہ اُس نے ہیکل کو صاف کر کے وہاں اُس کی منافع بخش تجارت کو چوپٹ کر دیا تھا۔

حنّا نے جلدی جلدی پوچھ گچھ کر کے یسوع کو کائفا کے پاس بھیج دیا۔ اپنے سُسر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اُس نے یہودی صدر عدالت کے ملنے کا فوری انتظام کیا تا کہ یسوع پر مقدّمہ چلا سکے۔ اُس نے جلدی سے کارروائی کر کے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے یسوع پر موت کا فتویٰ صادر کیا اور رومی حاکم پیلاطس پر دباؤ ڈلوایا تا کہ عید کے ایام شروع ہونے سے پہلے اِس فتوے کی تصدیق کر دے کیونکہ فسح کے دوران خونریزی جائز نہ تھی۔

سردار کاہن نے پوچھ گچھ کی ابتدا کی اور یسوع سے اُس کی تعلیم اور شاگردوں کے بارے میں حیلہ جو انداز میں پوچھا جِس میں یسوع پر بہت سے خفیہ شاگرد رکھنے کا الزام لگایا گیا۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وہ عوامی طور پر تو ٹھیک منادی کرتا ہے مگر اکیلے میں اُس نے آدمیوں کو اپنی غلط تعلیم سے برباد کر دیا ہے۔ تب یسوع نے، اگرچہ اپنے آپ کو اپنے دُشمنوں کے حوالے کر دیا تھا، اِس تہمت کو یہ کہہ کر باطل کر دیا: "مَیں نے دُنیا سے علانیہ باتیں کی ہیں۔ مَیں نے ہمیشہ عبادت خانوں اور ہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور پوشیدہ کُچھ نہیں کہا" (یوحنّا 18: 20)۔

اِس جواب نے کائفا کو غضب ناک کر دیا اور اُس کے حاشیہ بردار بھڑک اُٹھے، یہاں تک کہ پیادوں میں سے ایک نے (شاید ملخس جِس کا کان ٹھیک ہو گیا تھا) آگے آ کر یسوع کو طمانچہ مارا اور کہا "تُو سردار کاہن کو اَیسا جواب دیتا ہے؟" یہ طمانچہ مسیح کے خلاف اِس کے مقدمے کی سماعت کے دوران واحد جرم نہیں تھا، بلکہ اِس کے علاوہ بھی اُنہوں نے کئی زیادتیاں کیں، مثلاً

  • رات میں مقدّمہ کرنے کےلئے مجلِس کا انعقاد جو ایک غیر معمولی امر تھا اور خلاف قانون تھا۔

  • موت کا حکم صادر کرنا، اور یہ ایسا فعل تھا جسے رومیوں نے یہودیوں سے سالوں سے چھین لیا تھا۔

  • مدعا علیہ کےلئے برائے پیروی کوئی وکیل یا دفاع یا کوئی گواہ مہیا نہ کرنا۔

  • عدالت کے صدر اور متعدد ارکان نے مقدّمہ کی سماعت کے دوران اپنی رائے کا اظہار کیا تا کہ مقدّمہ کو متاثر کیا جا سکے۔

  • سزائے موت کےلئے ناکافی بنیاد تھی۔ اگر کچھ پیچھے لوٹیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اُنہوں نے یسوع کے خلاف سازش اور موت کا فتوہ تو مقدّمہ سے پہلے ہی صادر کر رکھا تھا۔ یہ سب تو بس دکھاوا تھا۔

  • سردار کاہن کے پیروکاروں کی طرف سے مسیح کا مذاق اُڑایا گیا۔ تمسخر و طمانچہ زنی اور چہرہ پر تھوکنا یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی کی یاد دلاتا ہے: "مَیں نے اپنی پِیٹھ پِیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی۔ مَیں نے اپنا مُنہ رُسوائی اور تُھوک سے نہیں چُھپایا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 50: 6)۔

جب کائفا مسیح پر فرد جرم عائد کرنے کی اپنی کوشش میں ناکام ہو گیا، تو یہودی راہنماؤں نے اُس پر مجرمانہ سرگرمیوں کا الزام لگانے کےلئے جھوٹے گواہ فراہم کئے۔ تاہم یہ جھوٹی گواہیاں باہم متضاد تھیں اور گواہ کسی بات کو بھی ثابت نہیں کر سکے۔ آخرکار اُنہوں نے دو گواہوں کو پیش کیا جنہوں نے ایک ہی بات کو توڑ مروڑ کر عدالت کے روبرو پیش کیا کہ ہم نے اُسے یہ کفر کہتے سُنا ہے کہ "مَیں خُدا کے مَقدِس کو ڈھا سکتا اور تین دن میں اُسے بنا سکتا ہوں" (اِنجیل بمطابق متّی 26: 61)۔

جب یسوع نے دیکھا کہ یہ گواہی صاف طور پر مضحکہ خیز ہونے کی وجہ سے تردید کے لائق نہیں تو اِس الزام کا جواب نہیں دیا۔ تب سردار کاہن نے چاپلوسی کا سہارا لیا اور کہا، "مَیں تُجھے زندہ خُدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تُو خُدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے" (متّی 26: 63)۔ یسوع نے جواب دیا: "تُو نے خُود کہہ دِیا بلکہ مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ اِس کے بعد تُم ابنِ آدم کو قادرِ مُطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے" (متّی 26: 64)۔

ایسا لگتا ہے کہ مسیح کے اِس بیان نے جو پیشین گوئی کا ایک اقتباس تھا سامعین پر اثر ڈالا۔ کائفا پریشان ہُوا اور مقدّمہ چلانے کی اپنی صلاحیت پر اُس کا اعتماد متزلزل ہو گیا تو ڈرامائی انداز میں اپنے کپڑے چاک کر کے کہنے لگا: "اُس نے کُفر بکا ہے۔ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا ہے۔ تُمہاری کیا رائے ہے؟" (متّی 26: 65)۔ سردار کاہن کے اِس حربے کے نتیجہ میں لوگ چِلّا کر کہنے لگے کہ وہ قتل کے لائق ہے۔

میرے عزیز حسّان، تم سوچ رہے ہو گے کہ مَیں اِن تفصیلات کو بیان کر کے اپنے موضوع سے ہٹ گیا ہوں۔ لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ اِس تمام تشریح سے تم سمجھ جاؤ کہ یسوع ہمیشہ سے اپنے دشمنوں کی نظر میں تھا۔ یسوع کے جواب سے اُس کی شخصیت پر بھی روشنی پڑتی ہے خصوصاً وہ پہلو جو نبوّتوں سے متعلق ہیں۔

و۔ پیلاطس کی عدالت میں: یہ عدالتی کارروائی صبح چھ بجے ختم ہوئی تو قوم کے بزرگوں اور سردار کاہن نے یسوع کے خلاف قتل کا مشورہ دیا۔ اُنہوں نے وہاں موجود لوگوں کو اشتعال دلایا اور یسوع کو باندھ کر پیلاطس رومی حاکم کے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہودی لوگ تو باہر ہی رہے، اندر نہ داخل ہوئے تا کہ نجس نہ ہو جائیں اور گویا کہ وہ فسح کی بھیڑوں کا خون بہانے سے پہلے یسوع کا خون لینے کا عزم کر چکے تھے۔ پیلاطس اُن کی مذہبی رسوم و رواج سے واقف تھا، اور جب اُس نے اُن کی آمد کی بابت سُنا تو اُن سے ملاقات کےلئے باہر آیا۔ جب اُس نے دیکھا کہ وہ ایک قیدی کو اپنے ساتھ لائے ہیں تو اُس نے اُن سے پوچھا کہ اُسے کس جرم میں لائے ہو؟

سردار کاہن اور بزرگوں نے اُمّید کی تھی کہ پیلاطس اُن وجوہات کی جانچ کئے بغیر جِن کی بناء پر صدر عدالت نے سزا دی تھی اُن کی سزا کی توثیق کرے گا۔ لیکن پیلاطس اُن کے اہداف کو پورا کرنے کےلئے آسان ذریعہ نہیں بننا چاہتا تھا، اِس لئے اُس نے اُنہیں مایوس کیا۔ اُنہوں نے جرم بتائے بغیر یسوع پر فتویٰ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے چالاکی سے جواب دیا: "اگر یہ بدکار نہ ہوتا تو ہم اِسے تیرے حوالہ نہ کرتے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 18: 30)۔ پیلاطس جب مطمئن نہ ہُوا تو اُس نے اصرار کیا کہ وہ اِس الزام کی وضاحت کریں جِس نے اُنہیں اِس طرح عجلت میں فیصلہ سنانے پر مجبور کیا۔ اُنہوں نے جواب دیا: "اِسے ہم نے اپنی قوم کو بہکاتے اور قیصر کو خراج دینے سے منع کرتے اور اپنے آپ کو مسیح بادشاہ کہتے پایا" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 2)۔

وہ اپنے جواب سے چاہتے تھے کہ پیلاطس اِس موت کی سزا کے محرکات کا جائزہ لئے بغیر اُن کی سزا کا یقین کرے۔ لیکن پیلاطس اُن کی چالاکیوں سے متاثر نہیں ہُوا، بلکہ اُس نے اُنہیں جواب دیا جو اُن کے غرور پر طمانچہ تھا: "اِسے لے جا کر تُم ہی اپنی شریعت کے موافق اِس کا فیصلہ کرو" (یوحنّا 18: 31)۔ اُس نے یہ بات طنزیہ انداز میں کہی، اُن کے غرور کو ٹھیس پہنچائی، کیونکہ رومی حکام نے اُن سے موت کی سزا سنانے کا حق چھین لیا تھا۔ اِس ذلت کے پیش نظر اُنہوں نے جواب دیا: "ہمیں رَوا نہیں کہ کسی کو جان سے ماریں" (یوحنّا 18: 31)۔ اگر رومی حکومت نے یہودیوں سے یہ حق نہ چھینا ہوتا تو وہ یسوع کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیتے۔ لیکن الہٰی حکمت تو یہ تھی کہ یسوع کی صلیب پر موت ہو اور یسوع کا یہ قول پورا ہو کہ "جِس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے، تا کہ جو کوئی اِیمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے" (یوحنّا 3: 14، 15)۔

پیلاطس اگرچہ اپنے طنز سے یہودیوں کو گھایل کر رہا تھا، لیکن وہ مسیح کے بارے میں اُن کے آخری بیان سے چشم پوشی نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ یہ سیاسی تھا، اور قیصر روم سے جُڑا تھا۔ چنانچہ اُس نے یسوع سے پوچھ گچھ کی جِس کا اندراج ہمارے لئے یوحنّا کی معرفت اِنجیل میں ہے:

"پس پیلاطس قلعہ میں پِھر داخل ہُؤا اور یسوع کو بُلا کر اُس سے کہا، کیا تُو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ تُو یہ بات آپ ہی کہتا ہے یا اَوروں نے میرے حق میں تُجھ سے کہی؟ پیلاطس نے جواب دیا، کیا مَیں یہودی ہوں؟ تیری ہی قوم اور سردار کاہنوں نے تُجھ کو میرے حوالہ کیا۔ تُو نے کیا کِیا ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تا کہ مَیں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔" (یوحنّا 18: 33۔ 36)

پیلاطس نے یسوع کو اُس کی باتوں میں پھنسانے کی کوشش کی تا کہ وہ اُسے یسوع کے خلاف استعمال کر سکے۔ لیکن جلال کے خُداوند نے اُس کی کوششوں کو ناکام بنا دیا: "پیلاطُس نے اُس سے کہا، پس کیا تُو بادشاہ ہے؟ یسُوع نے جواب دیا، تُو خُود کہتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہوں۔ مَیں اِس لئے پیدا ہُؤا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں" (یوحنّا 18: 37)۔ یوں گویا آپ فرما رہے تھے کہ "مَیں سچ مچ کا بادشاہ ہوں اور میری بادشاہی کی بنیاد اور ہتھیار سچّائی ہے۔ اِس اعتبار سے میری بادشاہی قیصری مملکت سے مختلف ہے۔"

تب یسوع نے ظالم حکمران سے اپنے آخری الفاظ کہے جنہوں نے حاکم کے تخت کو ہلا کر رکھ دیا: "۔۔۔ جو کوئی حقّانی ہے میری آواز سُنتا ہے" (یوحنّا 18: 37)۔ اِن الفاظ سے گویا مسیح اُس سے کہہ رہے تھے: "تُو تو باطل سے ہے، اِس لئے میری آواز نہیں سُنتا جو کہ حق کی آواز ہے۔" جب اِس غیر منصف حاکم نے محسوس کیا کہ یسوع سے سوال جاری رکھنا اُسے مشکل میں ڈال دے گا، تو اُس نے موضوع کو ایک غیر سنجیدہ سوال کے ساتھ ختم کرنے کا فیصلہ کیا: "حق کیا ہے؟" (یوحنّا 18: 38)۔ یسوع نے اِس کا جواب نہ دیا۔

ایک بت پرست حکمران کے ہاتھوں مسیح کا مقدّمہ مزامیر کی کتاب کے ایک حوالہ کو ذہن میں لاتا ہے: "قومیں کِس لئے طیش میں ہیں اور لوگ کیوں باطل خیال باندھتے ہیں؟ خُداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف زمین کے بادشاہ صف آرائی کر کے اور حاکم آپس میں مشورہ کر کے کہتے ہیں۔ آؤ ہم اُن کے بندھن توڑ ڈالیں اور اُن کی رسیاں اپنے اوپر سے اُتار پھینکیں" (پرانا عہدنامہ، زبور 2: 1۔ 3)۔

حسّان، تم نے اِس سے یہ اندازہ تو لگا لیا ہو گا کہ یسوع کے علاوہ کوئی اَور اِس قسم کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ کیا کوئی اَور اِنسان خواہ وہ کتنا ہی صاحب قدرت ہو، پیلاطس جیسے فرد کے دِل میں جو مکر و حیلہ میں یکتا تھا، ایسی شرمندگی پیدا کر سکتا تھا۔ اِن سب باتوں کی روشنی میں کیا تم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ گمان کہ وہ شخص یسوع کے علاوہ کوئی اَور تھا جِس پر یسوع کی شبیہ ڈال دی گئی تھی، کس طرح بعید از قیاس ہے۔

ز۔ ہیرودیس کے سامنے: اِنجیل مُقدّس میں مرقوم ہے کہ پیلاطس یہودیوں کے پاس باہر گیا اور اُن سے کہا: "مَیں اُس کا کُچھ جُرم نہیں پاتا۔ مگر تمہارا دستور ہے کہ مَیں فسح پر تمہاری خاطر ایک آدمی چھوڑ دیا کرتا ہوں۔ پس کیا تُم کو منظُور ہے کہ مَیں تمہاری خاطر یہودیوں کے بادشاہ کو چھوڑ دوں؟" (یوحنّا 18: 38، 39)۔ یہ سُنتے ہی یہودی سردار چلّائے: "یہ تمام یہودیہ میں بلکہ گلیل سے لے کر یہاں تک لوگوں کو سکھا سکھا کر اُبھارتا ہے" (لوقا 23: 5)۔

پیلاطس اپنے آپ کو اِس مشکل صورتحال سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس نے جب سُنا کہ یسوع ہیرودیس کی عملداری کا ہے تو خوش ہُوا۔ اُس نے سوچا کہ یسوع کو گلیل کے بادشاہ ہیرودیس کے پاس بھیج کر اِس معاملے میں مزید ملوث ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔ پیلاطس نے اِسے نہ صرف اپنے مخمصے سے باہر نکلنے کے موقع کے طور پر دیکھا بلکہ اِسے ہیرودیس کی حمایت حاصل کرنے کے ایک موقع کے طور پر بھی دیکھا، جِس سے اُس کے تعلقات کشیدہ ہو چکے تھے۔ یوں، اُس نے یسوع کو ہیرودیس کے پاس بھیج دیا۔

ہیرودیس اُس وقت یروشلیم میں ہی تھا۔ وہ یسوع کو دیکھ کر خوش ہو گیا کیونکہ مدّت سے وہ اُسے دیکھنے کا مشتاق تھا۔ اُس نے اُس کا حال سُن رکھا تھا اور کوئی معجزہ دیکھنے کا امّیدوار تھا اور اُس سے بہت سی باتیں پوچھتا رہا۔ لیکن یسوع نے مکمل خاموشی اختیار کر لی اور سردار کاہن اور یہودی بزرگوں کے الزامات کے حوالے سے کوئی جواب نہ دیا۔ یسوع نے خاموشی کو ترجیح دی کیونکہ اُس کے معجزات ہیرودیس کی دلبستگی کےلئے نہیں تھے۔ اگر یسوع نے ہیرودیس کےلئے کوئی معجزہ کیا ہوتا تو شاید رہا ہو جاتا، لیکن یسوع کے دُنیا میں آنے کی وجہ یہی تھی کہ وہ صلیب پر چڑھ کر گنہگاروں کےلئے اپنی جان دے۔

شریر ہیرودیس نے یسوع کی خاموشی کو اپنی اہانت سمجھا، اِس لئے اُس نے بدلہ لینے کی کوشش کی۔ مُقدّس لوقا اپنے اِنجیلی بیان میں ہمیں بتاتا ہے کہ ہیرودیس اور اُس کے سپاہیوں نے یسوع کا مذاق اڑایا، اور چمک دار پوشاک پہنا کر پیلاطس کے پاس واپس بھیج دیا۔ کُچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ چمک دار سفید لباس تھا جِسے بادشاہ خاص مواقعوں پر پہنتے تھے۔ جرمن عالم روزنباخ جو بائبل کی تفسیر کرنے والے علما میں ایک نمایاں نام ہے، کا کہنا ہے کہ یہ لباس مذہبی تقریبات کے دوران پادریوں کے استعمال کردہ لباس سے مشابہت رکھتا تھا۔

ہیرودیس نے یسوع کو پیلاطس کے پاس شکریہ کے ساتھ واپس بھیجا، کیونکہ اُس نے پیلاطس کے عمل کو عزت کی علامت سمجھا۔ اِس واقعہ سے اُن کے دِل کی میل و کدورت ختم ہو گئی اور ہیرودیس اور پیلاطس طویل عداوت کے بعد پھر باہم دوست بن گئے۔

ح۔ مقدّمے کا اختتام: پیلاطس نے تو یسوع کو چھوڑنے کا عزم کیا تھا۔ لیکن جب اُسے یسوع کے پاس واپس لایا گیا تو اُس نے سردار کاہنوں، بزرگوں اور لوگوں کو جمع کیا اور کہا:

"تُم اِس شخص کو لوگوں کا بہکانے والا ٹھہرا کر میرے پاس لائے ہو اور دیکھو مَیں نے تُمہارے سامنے ہی اُس کی تحقیقات کی مگر جِن باتوں کا الزام تُم اُس پر لگاتے ہو اُن کی نِسبت نہ مَیں نے اُس میں کُچھ قصور پایا۔ نہ ہیرودیس نے کیونکہ اُس نے اُسے ہمارے پاس واپس بھیجا ہے اور دیکھو اُس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہُؤا جِس سے وہ قتل کے لائق ٹھہرتا۔ پس مَیں اُس کو پِٹوا کر چھوڑے دیتا ہُوں۔ (اُسے ہر عید میں ضرور تھا کہ کسی کو اُن کی خاطر چھوڑ دے)۔ وہ سب مِل کر چِلاّ اُٹھے کہ اِسے لے جا اور ہماری خاطر برابّا کو چھوڑ دے۔ (یہ کسی بغاوت کے باعث جو شہر میں ہوئی تھی اور خون کرنے کے سبب سے قید میں ڈالا گیا تھا)۔" (لوقا 23: 14۔ 19)

"پیلاطس نے اُن سے کہا، پِھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے کیا کروں؟ سب نے کہا، وہ مصلوب ہو۔ اُس نے کہا، کیوں اُس نے کیا برائی کی ہے؟" (متّی 27: 22، 23)

"اِس پر پیلاطس اُسے چھوڑ دینے میں کوشش کرنے لگا مگر یہودیوں نے چِلاّ کر کہا، اگر تُو اُس کو چھوڑے دیتا ہے تو قیصر کا خیر خواہ نہیں۔ جو کوئی اپنے آپ کو بادشاہ بناتا ہے وہ قیصر کا مخالف ہے۔" (یوحنّا 19: 12)

"پیلاطُس نے اُن سے کہا، کیا مَیں تمہارے بادشاہ کو مصلوب کروں؟ سردار کاہِنوں نے جواب دِیا کہ قیصر کے سوا ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔" (یوحنّا 19: 15)

اِس اقرار کے ساتھ سردار کاہنوں اور یہودیوں کے سرداروں نے خود پر اور تمام امّت پر ذلّت، خواری اور رُوحانی تباہی مسلط کر لی۔ اُنہوں نے بادشاہوں کے بادشاہ اور خُداوندوں کے خُداوند کو مسترد کر دیا تھا جو خدا کے تمام پراگندہ فرزندوں کو اکٹھا کرنے آیا تھا (یوحنّا 11: 52) اور اِس کے برعکس ایک بت پرست حاکم کو اپنا بادشاہ مانا۔ ہیرودیس سے اپنے مسیحا کو مصلوب کرنے کا مطالبہ کر کے اُنہوں نے اپنے بچوں کےلئے خون کے جرم کی میراث چھوڑی۔ یہ واقعی شرم ناک ہے کہ نفرت نے اُن کے دِلوں میں اِس حد تک کام کیا کہ اُنہوں نے مسیح سے منہ موڑ لیا جو خُدا کی طرف سے حکمت ٹھہرا یعنی راست بازی اور پاکیزگی اور مخلصی (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 1: 30)۔

یہودی قوم کا زوال یہ تھا کہ وہ ایسے علما اور راہنماؤں سے گھرے ہوئے تھے جو اپنی عدم برداشت اور مادی جذبات سے اِس قدر اندھے اور مغلوب ہو چکے تھے کہ گمراہی کی دلدل میں دھنس گئے۔ اِس سے بڑی گمراہی اَور کیا ہو گی کہ ہزاروں سال کی انبیاء کی رویاؤں کو ٹھکرایا اور تمام برکتیں گنوا بیٹھے۔ اُنہوں نے مسیح کی نسبت برابّا کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ یوں اُنہوں نے روشنی کی نسبت تاریکی کا ساتھ دینے کا چناؤ کیا اور مسیح کے الفاظ کے عین مطابق سزا کے مستحق ٹھہرے: "اور سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نُور دُنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تاریکی کو نُور سے زیادہ پسند کیا۔ اِس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے" (یوحنّا 3: 19)۔

یہودیوں کے اصرار کا سامنا کرتے ہوئے اور اُن کے الفاظ سے ڈرتے ہوئے کہ "اگر تُو اُس کو چھوڑے دیتا ہے تو قیصر کا خیر خواہ نہیں،" بزدل پیلاطس کانپ گیا۔ اُس نے اپنے اضطراب کو چھپانے کےلئے پانی کا طشت منگوایا، اپنے ہاتھ دھوئے اور یہودیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا، "مَیں اِس راست باز کے خون سے بری ہوں۔ تم جانو" (متّی 27: 24)۔ تب وہاں جمع ہونے والے یہودی چلّائے: "اِس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر" (متّی 27: 25)، تا کہ یسوع کو بچانے کےلئے پیلاطس کی مزید کوششوں کو روکا جا سکے۔ پھر پیلاطس نے یہودیوں کے کہنے پر برابّا کو رہا کر دیا لیکن یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا کہ وہ مصلوب ہو۔

اُس وقت سے لے کر اب تک کی یہودی تاریخ اُس لعنت کی گواہی ہے جو اُنہوں نے اپنے اوپر اور اپنی اولاد پر ڈالی تھی۔ لیکن مسیح کی رحمت کسی بھی ایسے فرد کو ردّ نہیں کرتی جو اپنی برائی سے توبہ کر کے اُسے مسیحا، خُداوند اور نجات دہندہ کے طور پر قبول کرتا ہے۔

میرے بھائی، مَیں اُمّید کرتا ہوں کہ اب تم کسی بھی ایسی سوچ کو ردّ کرو گے کہ یسوع کے علاوہ کوئی اَور تھا، شاید یہوداہ تھا جِس نے مسیح کی جگہ لے لی، کیونکہ کسی اَور کا ساری بے عزتی و ذلّت، کوڑوں کا درد سہنا اور صلیب پر ہولناک موت کی ناانصافی سے خاموشی سے گزرنا عقل میں نہیں آتا۔ جو افراد یہ تجویز کرتے ہیں کہ یسوع کی جگہ یہوداہ نے لے لی تھی، اُن کے دعوے سچّائی کے سامنے چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ یہوداہ اتنا بیوقوف نہیں تھا کہ بچنے کےلئے کوئی راہِ فرار نہ ڈھونڈتا۔ وہ تو اپنے اُستاد سے کچھ ایسی محبّت بھی نہیں رکھتا تھا جو اُسے اِس جانثاری پر آمادہ کرتی۔ اِس کے برعکس آراء کا اِس امر پر اتفاق ہے کہ جب یہوداہ مسیح کی دنیاوی طاقت سے انکار پر مایوس ہو کر اُس کے خلاف ہو گیا تو اُسے اُس کے دشمنوں کے حوالے کر دیا۔

10۔ مصلوبیّت

"مَیں اپنی سب ہڈّیاں گِن سکتا ہوں۔ وہ مُجھے تاکتے اور گُھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قُرعہ ڈالتے ہیں۔" (پرانا عہدنامہ، زبور 22: 17، 18)

پیلاطس کے سپاہی یسوع کو قلعے میں لے گئے، اور قرمزی چوغہ پہنا کر کانٹوں کا تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھا اور ایک سرکنڈا اُس کے ہاتھ میں تھما کر اُس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُسے ٹھٹھوں میں اُڑانے لگے کہ "اے یہودیوں کے بادشاہ آداب" (اِنجیل بمطابق متّی 27: 29)۔ اُنہوں نے اُس پر تھوکا اور سر پر مارنے لگے۔ تب پیلاطس نے یسوع کو باہر لا کر بِھیڑ کے سامنے پیش کیا۔ شاید اُس نے سوچا کہ خون آلود مسیح کو دیکھ کر ہجوم میں رحم پیدا ہو جائے گا، لیکن انتقامی ہجوم زخمی قیدی کو دیکھ کر بلند آواز سے چلّایا: "اُسے مصلوب کر۔"

یوں مسیح کا تعلیم و معجزہ کا دور ختم ہُوا، اور خُدا کا برّہ بننے کا وقت آ گیا جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ ماضی میں، مسیح نے قدرت کے کاموں سے اپنے اختیار کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن اَب وقت آ گیا تھا کہ وہ گنہگار اِنسان کی جگہ لے کر اُن کی لعنت برداشت کرے (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 13)۔

یسوع کےلئے مصلوبیّت کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ جب نیکدیمس رات کے وقت یسوع سے ملنے آیا تو آپ نے اُسے اِس کے بارے میں اشارہ دیا تھا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 14۔ 16)۔ آپ نے تبدیلی صورت کے واقعہ سے کچھ پہلے اِس کا حوالہ بھی دیا (اِنجیل بمطابق متی 16: 21)۔ آپ نے اپنی خدمت کے دوران یہودیوں پر بھی اِسے ظاہر کیا تھا (یوحنّا 12: 32)۔

صلیب کے ذریعے موت دینے کی ابتدا فینیکیوں نے رائج کی تھی، اور یہ سکندر اعظم تھا جو اِسے سرزمین مقدّس میں لایا۔ تاہم، یہودیوں نے اپنی شریعت میں درج ذیل ہدایات کی وجہ سے قتل کی اِس سزا کو شاذ و نادر ہی استعمال کیا تھا: "اور اگر کسی نے کوئی ایسا گناہ کیا ہو جِس سے اُس کا قتل واجب ہو اور تُو اُسے مار کر درخت سے ٹانگ دے۔ تو اُس کی لاش رات بھر درخت پر لٹکی نہ رہے بلکہ تُو اُسی دِن اُسے دفن کر دینا کیونکہ جِسے پھانسی ملتی ہے وہ خُدا کی طرف سے ملعُون ہے تا نہ ہو کہ تُو اُس مُلک کو ناپاک کر دے جِسے خُداوند تیرا خُدا تُجھ کو میراث کے طور پر دیتا ہے" (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 21: 22، 23)۔

رومی قتل کی یہ سزا صرف پردیسیوں، غلاموں اور جرائم پیشہ لوگوں کو دیتے تھے۔ تاہم یہ سزا کسی بھی حالت میں کسی رومی کو نہیں دی جا سکتی تھی، خواہ اُس کا جرم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ لیکن جب یسوع کو اونچے پر چڑھایا گیا تو اُس نے صلیب کی شرم کو جلال کے نشان اور برکت کے ذریعہ میں بدل دیا۔

یہودی اکابرین نے آخرکار یسوع سے چھٹکارا پا لیا۔ وہ اُسے جلوس کی شکل میں گلگتا لے کر گئے۔ سب کی نگاہیں گلیل کے مشہور اُستاد پر جمی ہوئی تھیں جو لاغر بدن، تھکا و خستہ حال تھا، اُس کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا، اور کوڑوں کی مار سے زخمی پشت پر وہ صلیب اُٹھا کر جا رہا تھا۔ یوں جو یسعیاہ نبی نے کہا تھا وہ پورا ہُوا: "مَیں نے اپنی پِیٹھ پیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی۔ مَیں نے اپنا مُنہ رُسوائی اور تُھوک سے نہیں چُھپایا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 50: 6)۔

مسیح یروشلیم کی گلیوں سے صلیب اُٹھائے ہوئے مقتل گاہ و مذبح کی طرف روانہ ہُوا جہاں اُسے قربان ہونا تھا، اور یوں ایک اَور پیشین گوئی پوری ہوئی: "یہوواہ ہی خُدا ہے اور اُسی نے ہم کو نُور بخشا ہے۔ قربانی کو مذبح کے سینگوں سے رسیوں سے باندھو" (پرانا عہدنامہ، زبور 118: 27)۔

یسوع بہت تھکاوٹ کی حالت میں تھا کیونکہ باغِ گتسمنی سے گرفتار ہونے کے بعد سے وہ سویا نہیں تھا۔ اُسے وہاں سے گرفتار کر کے حنّا اور پھر کائفا کی رہائش گاہ اور پھر حاکم کے محلّ میں لے جایا گیا۔ مسیح کو پوچھ گچھ کے دوران کھڑا رہنا پڑا، جِس میں تھپڑ مارنا، مکے مارنا اور کوڑے مارنا شامل تھا، جِس کے دوران اُس کا بہت سا خون بہا۔ اِس کے ساتھ تلخ نفسیاتی اذیتیں بھی شامل تھیں جنہوں نے اُس کی نرم، شائستہ، محبّت اور احساس کرنے والی رُوح کو گھایل کیا۔ اِس بات نے اُسے تکلیف دی کہ اُس کے شاگرد آخری فسح کے کھانے کے وقت آپس میں تکرار کر رہے تھے کہ کون بڑا ہے (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 24۔ 30)۔ وہ اِس بات سے غم زدہ تھا کہ یہوداہ نے اُسے دھوکے سے پکڑوایا تھا، پطرس نے اُس کا انکار کیا تھا، جبکہ باقی شاگرد بھاگ گئے تھے۔ مزید برآں، وہ ہجوم کے رویے سے بھی مایوس تھا کہ کل جو بِھیڑ پیچھے پیچھے چل رہی تھی اور ہوشعنا کے نعرے لگا رہی تھی، اَب وہ اُسے صلیب دلوانا چاہتی تھی۔

اِن تمام عوامل نے مل کر یسوع کو جسمانی طور پر کمزور کر دیا یہاں تک کہ وہ صلیب کے بوجھ تلے دب گیا۔ تب اُس وقت سپاہیوں نے کرینے کے ایک شخص شمعون کو بیگار میں پکڑا، اور اُسے مسیح کی صلیب اُٹھانے پر مجبور کیا۔ ہو سکتا ہے کہ سپاہیوں کے نگران نے یسوع پر ترس کھا کر شمعون کو صلیب اُٹھانے کا حکم دیا۔ یوں لگتا ہے کہ یہ صوبہ دار راست باز تھا، کیونکہ جب یسوع نے صلیب پر جان دی تو اُس نے کہا: "بےشک یہ آدمی راست باز تھا" (لوقا 23: 47)۔

موت کا جلوس آگے بڑھا، اور لوگوں کی بڑی بِھیڑ اور بہت سی عورتیں جو اُس کے واسطے روتی پیٹتی تھیں، اُس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ یسوع نے اُن کی طرف متوجہ ہو کر کہا: "اے یروشلیم کی بیٹیو! میرے لئے نہ رو بلکہ اپنے اور اپنے بچّوں کےلئے رو" (لوقا 23: 28)۔

اِنجیل مُقدّس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے یسوع کے ساتھ حقارت کا برتاؤ روا رکھا، لیکن ہمیں کہیں بھی ایسی عورت کا ذِکر نہیں ملتا جِس نے اُس کے ساتھ زیادتی کی ہو۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے معاشرہ میں اُن کی قدر و منزلت بڑھا دی تھی۔ جب مسیح نے گلگتا کے راستے پر جاتے ہوئے دُکھ اُٹھایا تو اُس کا سامنا ماتم کرتی ہوئی عورتوں سے ہُوا، تب اُس نے اپنے درد کو بُھلا دیا اور اُس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُنہیں نصیحت کی۔ مسیح نے اُن کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی کہ اُس کےلئے ترس کھا کر آنسو بہانے سے زیادہ اہم توبہ کے آنسو بہانا ہے۔

میرے بھائی، یہ منظر نامہ دُنیا کے گناہ کو اُٹھا لے جانے والے خُدا کے برّہ کو دِکھاتا ہے جو نجات کے کام کےلئے قربان گاہ کی جانب جا رہا تھا۔ میری خواہش ہے کہ تم پوری عقیدت کے ساتھ اِس شاندار منظر پر غور کرو تا کہ تمہاری آنکھیں قربانی دینے والی محبّت کے رنگوں سے لطف اندوز ہو سکیں، خُدا کے نور سے معمور ہوں، اُس کے نور سے جِس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنّا 3: 16)۔

آخرکار وہ جلوس گلگتا کی طرف بڑھا، اور سپاہی جلدی جلدی صلیب گاڑنے لگے۔ پِھر رومی سپاہیوں نے یسوع کو پِت ملی ہوئی مے پیش کی تا کہ اُسے درد کی شدّت کا احساس نہ ہو۔ تاہم، یسوع نے اِس سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ مکمل طور پر ہوش میں رہتے ہوئے صلیب کی اذیت کے مکمل درد کا تجربہ کرنا چاہتا تھا۔ یہاں پر مَیں یہ بھی یاد دِلاتا چلوں کہ اگر وہ مسیح نہیں بلکہ کوئی اَور ہوتا تو اِس پیش کش کو کبھی نہ ٹھکراتا۔

جب سب کچھ تیار کر لیا گیا تو رومی سپاہیوں نے یسوع کو صلیب پر لیٹنے کا حکم دیا۔ تب اُنہوں نے آگے بڑھ کر یسوع کے ہاتھ پاؤں کیلوں سے جڑ دیئے۔ پِھر اُنہوں نے یسوع کو صلیب سمیت اُٹھایا اور اُسے زمین میں گاڑ دیا۔ اِس طرح یسوع کو آسمان و زمین کے درمیان اور دو ڈاکوؤں کے درمیان معلق کر دیا گیا جنہیں مصلوب کیا جا رہا تھا۔ اِس طرح سے وہ نوشتہ بھی پورا ہُوا کہ "۔۔۔ وہ خطا کاروں کے ساتھ شمار کیا گیا ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 12)۔

مُقدّس یوحنّا اِنجیل نویس نے اپنے اِنجیلی بیان میں ذِکر کیا ہے کہ پیلاطس نے ایک کتابہ لکھوا کر صلیب پر لٹکوا دیا، جِس پر لکھا تھا: "یسوع ناصری یہودیوں کا بادشاہ" (یوحنّا 19: 19)۔ یہ تحریر تین زبانوں میں تھی: عبرانی میں جو یہودیوں کی مذہبی زبان تھی کیونکہ مسیح ابن داؤد اور خُدا کا بیٹا تھا؛ یونانی میں جو علمی زبانی تھی، کیونکہ مسیح دُنیا کا نور اور ابدی سچائی ہے؛ اور لاطینی میں جو سیاسی طاقت کی زبان تھی، کیونکہ یسوع بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ یہودیوں نے اِس تحریر پر اعتراض کیا اور پیلاطس کے پاس جا کر درخواست کی کہ یوں لکھا دیا جائے کہ "اُس نے کہا کہ مَیں یہودیوں کا بادشاہ ہوں" (یوحنّا 19: 21)۔ پیلاطس نے یہ کہہ کر اُس کی درخواست کو ٹھکرا دیا کہ "مَیں نے جو لِکھ دِیا وہ لِکھ دیا" (یوحنّا 19: 22)۔

یسوع نے صلیب کو ایک جلالی منبر میں تبدیل کیا جہاں سے اُس نے محبّت، معافی اور اُمّید کے اعلیٰ ترین اظہار کا اعلان کیا۔ اپنے درد و الم کے دوران خُداوند نے اپنی زبانِ مبارکہ سے سات کلمات ادا کئے:

1۔ "اے باپ! اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 34)

یہ شفاعتی دُعا ہے جو آپ نے اپنے قاتلوں کے حق میں مانگی۔ اِس سے پہلے ایسا کبھی کسی نے نہیں سُنا تھا۔ ماضی میں مسیح نے ایک ایسے شخص کے طور پر معافی دی تھی جِس کے پاس ایسا کرنے کا اختیار تھا۔ لیکن اَب صلیب سے مسیح نے اپنے دشمنوں کےلئے شفاعت کی جو گویا خُدا کے غضب کو ٹال رہی تھی۔ چونکہ وہ اِنسانوں کی طرف سے سزا کے تحت صلیب پر چڑھا ہُوا تھا، اِس لئے معافی کے معاملے میں اپنے اختیار کو استعمال کرنا اُس کےلئے مناسب نہیں تھا۔ لہٰذا، اُس نے اپنے آسمانی باپ سے الٰہی معافی کی درخواست کی۔ یہ درخواست اُس کے اُس حکم کے ساتھ کتنی مطابقت رکھتی ہے جو اُس نے ہمیں دیا: "لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبّت رکھّو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دُعا کرو" (متّی 5: 44)۔

اِس طرح سے مسیح نے نہ صرف اپنی بےپناہ محبّت کا اظہار کیا بلکہ ایک نبوّت بھی پوری ہوئی کہ "۔۔۔ اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطا کاروں کی شفاعت کی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 12)۔

یوں شفاعت کرتے ہوئے گویا ایک وکیل کی حیثیت اختیار کی جو مجرم کی طرف سے معافی و درگذر کی درخواست کرتا ہے: "۔۔۔ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔" اگرچہ یہودی بہت سی باتوں میں دانا تھے، لیکن اپنی اندھی جنونیت کی وجہ سے وہ اپنے مسیحا سے محروم رہے۔ یوں اُنہوں "نے اُس وقت کو نہ پہچانا" جب اُن پر نظر کی گئی (اِنجیل بمطابق لوقا 19: 44)۔ اپنے اجداد کی روایات کی تقلید کی وجہ سے اُنہوں نے کتابِ مقدّس کی اُن باتوں کو جھٹک دیا جو یسوع کی بابت شہادت دیتی تھیں۔ خُداوند نے اُن کے بارے میں خوب کہا کہ "تُم گمراہ ہو اِس لئے کہ نہ کتابِ مُقدّس کو جانتے ہو نہ خُدا کی قدرت کو" (اِنجیل بمطابق متّی 22: 29)۔ اگر وہ اپنی آنکھیں کھولتے تو وہ اُس کی تعلیمات میں اور اُن معجزات میں جو اُس نے اُن کے درمیان دکھائے تھے اُس کا جلال دیکھ لیتے۔ اُنہوں نے اُس کے رحم کے کاموں کو نظر انداز کر دیا کیونکہ اُن کے دِلوں کی سختی نے اُن کی بصیرت پر ایک بھاری پردہ ڈال دیا تھا۔ اُن کی بابت متّی 15: 14 میں مسیح کا قول بہت خوب ہے: "وہ اندھے راہ بتانے والے ہیں۔" وہ فدیہ کے رموز کو نہ جان پائے جِسے یسوع بنی نوع اِنسان کےلئے پورا کرنے آئے تھے، کیونکہ اُن کے نفرت انگیز کاہنوں اور رہنماؤں نے اُن کے دِلوں کو مسیح کے خلاف کر دیا تھا۔ لیکن یسوع نے اُنہیں معاف کر دیا اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی کی۔

ایک متقّی شخص کا قول ہے کہ نیکی کا بدلہ بدی تو شیطانی عمل ہے، بدی کا بدلہ بدی وحشیانہ عمل ہے لیکن نیکی کا بدلہ نیکی اِنسانی عمل ہے۔ تاہم، بدی کا بدلہ نیکی الٰہی عمل ہے، اور یہ کام مسیح اور اُن لوگوں کے سوا کوئی اَور نہیں کر سکتا جو اُس پر اِیمان لا کر اُس کی الٰہی فطرت میں شریک ہوتے ہیں۔

2۔ "مَیں تُجھ سے سچّ کہتا ہوں کہ آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 43)

جلالی خُداوند نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ "مَیں اگر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا" (یوحنّا 12: 32)۔ مسیح کے اِس قول کے پورے ہونے کا آغاز اُس وقت ہُوا جب آپ نے اپنے دہنے ہاتھ مصلوب ہونے والے ڈاکو کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ یوں لگتا ہے کہ یہ بدقسمت شخص مسیح کی اپنے مصلوب کرنے والوں کے حق میں دُعا سے متاثر ہُوا۔ وہ یقیناً مصلوب کرنے والوں اور خصوصاً بائیں ہاتھ مصلوب ہونے والے ڈاکو کی لعنت ملامت کے دوران یسوع کے صبر پر حیران ہُوا ہو گا۔ خُداوند کی فضیلت نے اُس کی رُوح پر گہرا اثر ڈالا، اور مصلوب نجات دہندہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اُس نے اپنے ​​گناہوں سے توبہ کی۔ اپنی تبدیلی کے بعد اُن لمحات کے دوران، اُس نے مسیح پر لعن طعن کرنے والے اپنے ساتھی ڈاکو کی سرزنش کر کے نجات دہندہ کی خدمت کی۔ اِس اعتبار سے وہ مسیح کے شاگردوں سے زیادہ بہادر ثابت ہُوا جو اپنے آقا کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔

خُداوند نے اُسے کہا: "آج ہی تُو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔" یسوع نے اُس سے کہا کہ آج ہی، نہ کہ قیامت کے دِن جب یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جُھکے گا "خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خُدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خُداوند ہے" (نیا عہدنامہ، فلپّیوں 2: 10۔ 11)۔

اِس ڈاکو نے کیا کیا؟ اُس نے خُدا اور اِنسان کے قوانین کو توڑا تھا۔ اُس نے کوئی نیکی نہیں کی، صرف دِل اور منہ سے چند جملے نکالے، اپنے گناہوں کو چھپایا نہیں بلکہ اُن کا اقرار کیا: "ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اِس نے کوئی بےجا کام نہیں کیا" (لوقا 23: 41)۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ اُس ہستی سے مخاطب ہُوا جو کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور بچانے آیا تھا: "اے یسوع جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا" (لوقا 23: 42)۔

یہ وہی سوچ ہے جو محصول لینے والے نے ہیکل میں دُعا کرتے ہوئے ظاہر کی جِس نے دُور کھڑے ہو کر اتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف نگاہ کرے بلکہ اپنی چھاتی پیٹ کر التجا کی: "اے خُدا! مُجھ گنہگار پر رحم کر" (لوقا 18: 13)۔ جِس طرح محصول لینے والا راست باز ٹھہر کر گیا، اُسی طرح یہ ڈاکو راست باز ٹھہر کر فردوس میں داخل ہُوا۔ اِس ڈاکو کے لبوں سے ادا ہونے والے یہ الفاظ اُس اقرار کی علامت ہیں جن کی خُداوند اُن سب سے توقع کرتا ہے جو راست بازی، پاکیزگی اور اُس کی آسمانی بادشاہی میں میراث چاہتے ہیں۔ یہ واقعی ایک معجزہ ہے کہ اُس لمحے، شرمناک مصلوبیّت کے دوران اُس ڈاکو نے وہ حقیقت پہچان لی جو یہودیوں اور اُن کے کاہنوں، فقیہوں اور فریسیوں کو نظر نہیں آئی جب جلالی خُداوند اُن کے درمیان تھا۔

3۔ "اے عورت! دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 26)

یوحنّا اِنجیل نویس نے بیان کیا ہے کہ یسوع کی صلیب کے گرد عورتوں کا ایک گروہ کھڑا تھا جِس میں یسوع کی ماں، اُس کی خالہ یعقوب اور یوحنّا کی ماں بھی تھیں۔ یسوع کے کپڑے بھی اُتار لئے گئے تھے اور اُس کے پاس پیچھے چھوڑنے کےلئے کوئی قیمتی چیز نہیں تھی، اِس لئے اُس کےلئے اپنی مبارک ماں کو اپنی خالہ کے بیٹے یوحنّا کے سپرد کرنا فطری تھا جِس سے وہ محبّت رکھتا تھا۔ اگرچہ اُس وقت اُس کا بدن سخت تکلیف میں تھا، لیکن اُس نے دوسروں کے بارے میں سوچا۔ اُس نے اپنے صلیب دینے والوں کو معافی عطا کی (لوقا 23: 34)؛ تائب ڈاکو کو فردوس میں داخلہ عطا کیا (لوقا 23: 43)؛ اور یوحنّا کو اپنی ماں کی دیکھ بھال سونپی (یوحنّا 19: 27)۔

یہ بات قابل غور ہے کہ یسوع نے مریم کو "ماں" نہیں بلکہ "عورت" کہہ کر مخاطب کیا۔ اِس سے اُس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ اَب اِس آخری گھڑی دنیوی رشتوں سے صرف نظر کرے اور نجات دہندہ کے رشتہ پر توجہ مرکوز کرے جو ماں بیٹے کے رشتہ سے کہیں بڑھ کر تھا۔

پھر یسوع نے اپنے پیارے شاگرد یوحنّا سے کہا "دیکھ تیری ماں یہ ہے۔" یوں مسیح نے اپنے شاگرد کےلئے برکتوں سے معمور ایک قیمتی ترکہ چھوڑا جِس کے وسیلہ سے اُسے اُس کے حیرت انگیز بیٹے کے بارے میں وہ معلومات ملیں جن کا ذِکر یوحنّا نے اپنے اِنجیلی بیان میں کیا ہے۔

4۔ "اے میرے خُدا! اے میرے خُدا! تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دیا؟" (اِنجیل بمطابق مرقس 15: 34)

اُس دن دوپہر کے وقت مُلک میں اندھیرا چھا گیا اور تیسرے پہر تک رہا۔ اِس عرصہ کے دوران آسمان اور زمین کے درمیان معلق ہوتے ہوئے یسوع اِنسانوں سے الگ کر دیا گیا اور اُس نے گہرے طور پر دُکھوں کا سامنا کیا۔

اِس کی تفسیر میں بڑے مفسّرین نے لکھا ہے کہ بادلوں کا چھا جانا یسوع کی طرف رضائے الہٰی کے نور کے پردے کی علامت تھا، کیونکہ وہ اپنے بدن پر تمام دُنیا کی خطاؤں کا بوجھ اُٹھائے ہُوا تھا۔ یہ وہ بوجھ تھا جو شریعت کے احکام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے خُدا کے غضب اور سزا کی وجہ سے تھا۔

ہماری اِنسانی عقل اُس نوع کے دُکھ کا احساس نہیں کر سکتی جِسے یسوع نے برداشت کیا۔ لیکن یہ جان لینے سے کہ مسیح نے اُس وقت اپنے اوپر تمام دُنیا کا گناہ اُٹھا رکھا تھا ہمارے لئے یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ وہ اُس تمام گناہ سے کس قدر متالم رہا ہو گا۔

خُداوند کے ایک خادم ڈاکٹر زویمر نے کہا: "مسیح جب صلیب پر لٹکے تو شریعت کی ساری لعنت سے نجات دینے کےلئے لٹکے اور تمام نسلوں اور زمانوں کے سارے گناہ اور لعنت اپنے تمام تھپیڑوں اور موجوں کے ساتھ اُس کے ساتھ ٹکرائے جو اُس کے دِل کی گہرائیوں تک پہنچے تو وہ پکار اُٹھا 'اے میرے خُدا! اے میرے خُدا! تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دیا؟'"

ہم یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے کہ اُس گھڑی جب سورج کی روشنی چھپ گئی یسوع اور آسمانی باپ کے درمیان کیا ہُوا، لیکن جب ہم مسیح کے کفّارے کے کام پر غور کرتے ہیں، تو سمجھتے ہیں کہ وہ کلام جو خُدا کے ساتھ تھا ہمیں شریعت کی لعنت سے بچانے کےلئے مجسّم ہوا تھا۔ خُدا کے بیٹے نے اپنی حیرت انگیز محبّت کو مدنظر رکھتے ہوئے، گنہگار بنی نوع انسان کےلئے الٰہی بخشش فراہم کرنے کےلئے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ یوں مسیح نے صلیب پر اپنی موت کے وقت اُن کی نمائندگی کی۔

یسعیاہ 53 میں پیشین گوئی اور پولس رسول کی تحریروں میں اِسی طرح کی بازگشت ہمارے لئے خُدا کے برّہ کی ایک شاندار تصویر پیش کرتی ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ چونکہ گناہ کے باعث خُدا گنہگار سے اپنے چہرہ چھپا لیتا ہے (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 59: 2)، اِس لئے اُس وقت باپ کا چہرہ یسوع سے چھپ گیا۔

مُجھے مشہور مصلح فلپ ملانشتن (1497ء۔ 1560ء) کا قول یاد آتا ہے کہ "مسیح کی پکار 'اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دیا؟' اِس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ مسیح نے اپنی بشری ذات میں گناہ کے خلاف خُدا کے غضب کا تجربہ کیا۔"

ایک اَور مردِ خُدا کا قول ہے کہ "اگر مسیح کی موت محض سچائی کی خاطر ایک عظیم ہستی کی موت تھی، تو اِس کے پکار کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ لیکن اگر وہ ہماری خاطر گناہ بن گیا تھا تو یہ ہمارے اور تمام دُنیا کے گناہ تھے جِن کے باعث اُس کے لبوں سے یہ پکار نکلی۔"

کئی معتبر مفسّرین کی رائے ہے کہ یہ پکار یسوع کی اپنی زبان ارامی میں تھی تا کہ وہاں موجود لوگوں کی بڑی تعداد سُنے اور اچھی طرح سے جان لے کہ یسوع کو باپ نے اُس گھڑی چھوڑ دیا تھا اور یہ بھی کہ یسوع نے ہمارے گناہوں کےلئے کتنی بڑی قیمت ادا کی تا کہ اُس پر ایمان لانے والے سب افراد ہمیشہ کی زندگی پائیں۔

5۔ "مَیں پیاسا ہوں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 28)

تیسرے پہر تک تمام مُلک میں اندھیرا چھائے رہنے میں (اِنجیل بمطابق متّی 27: 45) یہ اشارہ موجود ہے کہ مسیح کے رُوحانی اور جسمانی دُکھوں کا اَب عروج تھا۔ اچھا چرواہا جو اپنی بھیڑوں کو راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے (پرانا عہدنامہ، زبور 23: 2) اَب پیاس کی تکلیف خود اُٹھا رہا تھا۔ وہی اچھا معلّم جِس نے سامری عورت سے فرمایا تھا کہ "جو کوئی اُس پانی میں سے پئے گا جو مَیں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کےلئے جاری رہے گا" (یوحنّا 4: 14) نے کہا "مَیں پیاسا ہوں۔" اگرچہ پرانے عہدنامہ میں دشمن کے بھوکے یا پیاسے ہونے پر اُسے روٹی کھلانے اور پانی پلانے کا حکم دیا گیا تھا (پرانا عہدنامہ، امثال 25: 21)، تاہم یہودیوں نے جو شریعت کے وصول کنندگان تھے، یسوع کو جب وہ اُن کے سامنے صلیب پر لٹکا ہوا اپنی جان دے رہا تھا، اُس کی زبان کو تر کرنے کےلئے پانی کے ایک قطرے سے بھی انکار کیا۔ رومی سپاہی خوش تھے کہ وہ اِس قدر کمزوری اور تھکن کے مقام پر پہنچ گیا تھا۔ اُن میں سے ایک نے سپنج کو سرکہ سے بھرے برتن میں زوفے کی شاخ پر رکھ کر یسوع کے منہ سے لگا دیا۔ یوں وہ نبوّت پوری ہوئی جو کہتی ہے "اُنہوں نے مُجھے کھانے کو اِندراین بھی دیا اور میری پیاس بجھانے کو اُنہوں نے مُجھے سرکہ پلایا" (پرانا عہدنامہ، زبور 69: 21)۔

مسیح کی پیاس معمولی نہیں تھی، بلکہ بہت زیادہ شدید تھی۔ یہ عام موت کی پیاس نہیں تھی، بلکہ ایسی موت کی پیاس تھی جو دوسروں کے گناہوں کی وجہ سے تھی۔ اُس وقت یسوع دُکھوں کی اُن حدّوں سے آگے نکل گیا جو عام طور پر موت کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں، جِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ واقعی "عمّانوایل" "خُدا ہمارے ساتھ" تھا۔

6۔ "تمام ہُوا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 30)

اِن الفاظ سے فدیہ کی تکمیل ہوئی۔ یوں تمام اِنسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ پورا ہُوا۔ اِس کے نتیجہ میں خُدا اور اِنسانوں کے درمیان از سرِ نو میل ملاپ ہو گیا۔ صلیب پر فادی نے شریعت کے تمام تقاضے پورے کر دیئے، اور عہد عتیق کے ضوابط، شرائط اور تقاضوں کو مکمل کیا۔ یسوع نے سارے ذبیحوں اور سوختنی قربانیوں کو موقوف کر دیا "کیونکہ اُس نے ایک ہی قربانی چڑھانے سے اُن کو ہمیشہ کےلئے کامل کر دیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 10: 14)۔

یہودیوں کے گناہ مسیح کو رد کرنے کے اِس حتمی عمل پر منتج ہوئے۔ شروع سے اُنہوں نے یسوع کو قبول نہیں کیا تھا، بلکہ اُس کی تعلیمات کو رد کیا، اُس کے معجزات کا انکار کیا اور اُس کے نام کی توہین کی۔ آخرکار، اُنہوں نے اُسے قید کر لیا، عدالت میں لے گئے، اُس کے خلاف جھوٹی گواہی دی، اُس کے چہرے پر تھوکا، اُسے اُس کے دشمنوں کے حوالے کیا جنہوں نے اُسے کوڑے مارے، تمسخر کا نشانہ بنایا، اُس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا، اُس کے ہاتھ پاؤں کیلوں سے چھیدے، اُسے دو ڈاکوؤں کے درمیان لٹکایا، اُس کے کپڑے اتارے اور آپس میں بانٹ لئے اور انتہائی بے دردی سے اُس کا خوفناک تماشا بنایا!

لیکن یسوع نے خُدا باپ کی مرضی کو مکمل طور پر پورا کیا، موت بلکہ صلیبی موت تک فرمانبردار رہا۔ یسوع نے صحائف کی پیشین گوئیوں کو پورا کیا۔ اَب جانوروں کے خون اور یہودیوں کی عید فسح کی ضرورت نہیں تھی: "پُرانا خمیر نکال کر اپنے آپ کو پاک کر لو تا کہ تازہ گندھا ہُؤا آٹا بن جاؤ۔ چُنانچہ تُم بےخمیر ہو کیونکہ ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قربان ہُؤا۔ پس آؤ ہم عید کریں۔ نہ پُرانے خمیر سے اور نہ بدی اور شرارت کے خمیر سے بلکہ صاف دلی اور سچّائی کی بےخمیر روٹی سے" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 5: 7۔ 8)۔

کفّارہ مکمل ہو گیا۔ مسیح نے اپنے کام سے فراغت پائی۔ اب ہم مسیح کے کام کی بدولت نجات یافتہ ہیں جو اُس نے ہماری خاطر صلیب پر انجام دیا۔ ہمیں اپنے لئے مسیح کے کام پر خوشی منانی ہے:

"لیکن خُدا اپنی محبّت کی خُوبی ہم پر یوں ظاہِر کرتا ہے کہ جب ہم گُنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُؤا۔ پس جب ہم اُس کے خُون کے باعث اب راست باز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضبِ اِلہٰی سے ضرور ہی بچیں گے۔ کیونکہ جب باوجود دُشمن ہونے کے خُدا سے اُس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زِندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خُداوند یسوع مسیح کے طفیل سے جِس کے وسیلہ سے اب ہمارا خُدا کے ساتھ میل ہو گیا خُدا پر فخر بھی کرتے ہیں۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 8۔ 11)

7۔ "اے باپ! مَیں اپنی رُوح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 46)

اِس ساتویں اور آخری کلمہ کے ساتھ مسیح نے اپنی زمینی خدمت کو الوداع کہا اور تھوڑی دیر کےلئے قبر میں اُترا۔ اُس نے قبر کو ایک ایسا دروازہ بنا کر روشن کیا جو ابدی زندگی کا نظارہ پیش کرتا ہے اور آسمانی یروشلیم کا نقطہ آغاز ہے، جو لوگوں کے ساتھ خُدا کی جائے سکونت ہے۔ بہت سے اِیمانداروں نے مسیح کے یہ آخری الفاظ اپنی جان دیتے وقت کہے ہیں۔

یوحنّا اِنجیل نویس کے مطابق یسوع نے اِن الفاظ کے بعد اپنا سر جُھکا کر جان دے دی (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 30)۔ اُس نے اپنے الفاظ کے عین مطابق اپنی مرضی سے اپنی جان دی: "جِس طرح باپ مُجھے جانتا ہے اور مَیں باپ کو جانتا ہوں ۔۔۔ مَیں بھیڑوں کےلِئے اپنی جان دیتا ہُوں۔ اور میری اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس بھیڑ خانہ کی نہیں۔ مُجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سُنیں گی۔ پِھر ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا۔ باپ مُجھ سے اِس لئے محبّت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتا ہُوں تا کہ اُسے پِھر لے لُوں۔ کوئی اُسے مُجھ سے چھینتا نہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مُجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے پِھر لینے کا بھی اِختیار ہے۔ یہ حُکم میرے باپ سے مُجھے مِلا" (یوحنّا 10: 14۔ 18)۔

یسوع نے تبریاس قیصر کے دورِ حکومت کے پندرہویں سال میں اُس دِن صلیب پر اپنی جان دی، جب لوگوں کے گناہوں کا کفّارہ ادا کرنے کےلئے ہزاروں برّوں کو ذبح کیا جا رہا تھا۔ جب یہ ذبح کئے جا رہے تھے، اُس وقت خُدا کے برّہ نے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے، ہماری خطاؤں کو دھونے کےلئے اپنا خون بہایا۔

یسوع خُداوندِ معجزات مر گیا، لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہیکل کا پردہ پھٹ گیا، زمین ہل گئی، چٹانیں تڑک گئیں، قبریں کھل گئیں، اور بہت سے مُقدّسین جو مر چکے تھے جی اُٹھے (اِنجیل بمطابق متّی 27: 51۔ 53)۔

میرے عزیز بھائی، مسیح کی صلیب کو محض ایک تاریخی واقعہ سمجھنا کافی نہیں ہے۔ یہ عملِ محبّتِ الٰہی ہے جو جلال کے خُداوند نے انجام دیا تا کہ اپنے لئے ایک مُقدّس ملکیّت خریدے، ایسی اُمّت جو اُس کی خوبیاں ظاہر کرے جِس نے اُنہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا (نیا عہدنامہ، 1۔ پطرس 2: 9)۔ یہ فادی کی صلیب کے جواب میں اپنی رغبتوں اور خواہشوں کو صلیب دے کر رسول کے اِس قول کا مصداق بنتے ہیں: "کیونکہ جب ہم اُس کی موت کی مشابہت سے اُس کے ساتھ پیوستہ ہو گئے تو بیشک اُس کے جی اٹھنے کی مشابہت سے بھی اُس کے ساتھ پیوستہ ہوں گے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پرانی انسانیّت اُس کے ساتھ اِس لئے مصلوب کی گئی کہ گناہ کا بدن بے کار ہو جائے تا کہ ہم آگے کو گناہ کی غلامی میں نہ رہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 6: 5، 6)۔

11۔ نبوّتی دلائل

"اِس شخص کی سب نبی گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے گا اُس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا۔" (نیا عہدنامہ، اعمال 10: 43)

ہم صحائفِ مُقدّسہ میں مندرجہ ذیل نبوّتیں دیکھ سکتے ہیں جِن کی تکمیل ہوئی:

1۔ یسوع کو چاندی کی تیس سِکوں کے عِوض بیچا جائے گا:

  • نبوّت: "اور مَیں نے اُن سے کہا کہ اگر تمہاری نظر میں ٹھیک ہو تو میری مزدوری مُجھے دو، نہیں تو مت دو۔ اور اُنہوں نے میری مزدوری کےلئے تیس روپے تول کر دئے" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 11: 12)۔

  • تکمیل: "اُس وقت اُن بارہ میں سے ایک نے جِس کا نام یہوداہ اسکریوتی تھا سردار کاہنوں کے پاس جا کر کہا کہ اگر مَیں اُسے تمہارے حوالہ کرا دوں تو مُجھے کیا دو گے؟ اُنہوں نے اُسے تیس روپے تول کر دے دئے" (اِنجیل بمطابق متّی 26: 14، 15)۔

2۔ اُس قیمت سے "کمہار" نامی کھیت خریدا جائے گا:

  • نبوّت: "اور خُداوند نے مُجھے حکم دیا کہ اُسے کمہار کے سامنے پھینک دے یعنی اِس بڑی قیمت کو جو اُنہوں نے میرے لئے ٹھہرائی اور مَیں نے یہ تیس روپے لے کر خُداوند کے گھر میں کمہار کے سامنے پھینک دئے" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 11: 13)۔

  • تکمیل: "جب اُس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے یہ دیکھا کہ وہ مجرم ٹھہرایا گیا تو پچھتایا اور وہ تیس روپے سردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس واپس لا کر کہا۔ مَیں نے گناہ کیا کہ بے قصور کو قتل کےلئے پکڑوایا۔ اُنہوں نے کہا، ہمیں کیا؟ تُو جان۔ اور وہ روپیوں کو مقدِس میں پھینک کر چلا گیا اور جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی۔ سردار کاہِنوں نے روپے لے کر کہا، اِن کو ہیکل کے خزانہ میں ڈالنا روا نہیں کیونکہ یہ خون کی قیمت ہے۔ پس اُنہوں نے مشورہ کر کے اُن روپیوں سے کمہار کا کھیت پردیسیوں کے دفن کرنے کےلئے خریدا۔ اِس سبب سے وہ کھیت آج تک خون کا کھیت کہلاتا ہے" (اِنجیل بمطابق متّی 27: 3۔ 8)۔

3۔ مسیح کے ساتھ بدسلوکی کی جائے گی اور اُسے مصلوب کیا جائے گا:

  • نبوّت: "کیونکہ کتّوں نے مُجھے گھیر لیا ہے۔ بدکاروں کی گروہ مُجھے گھیرے ہوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں۔ مَیں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہوں۔ وہ مُجھے تاکتے اور گھورتے ہیں" (پرانا عہدنامہ، زبور 22: 16، 17)۔

  • تکمیل: "اور سپاہی اُس کو اُس صحن میں لے گئے جو پریتورِیُن کہلاتا ہے اور ساری پلٹن کو بُلا لائے۔ اور اُنہوں نے اُسے ارغوانی چوغہ پہنایا اور کانٹوں کا تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھّا۔ اور اُسے سلام کرنے لگے کہ اے یہودیوں کے بادشاہ آداب! اور وہ اُس کے سر پر سرکنڈا مارتے اور اُس پر تھوکتے اور گھٹنے ٹیک ٹیک کر اُسے سجدہ کرتے رہے۔ اور جب اُسے ٹھٹّھوں میں اُڑا چکے تو اُس پر سے ارغوانی چوغہ اُتار کر اُسی کے کپڑے اُسے پہنائے۔ پھر اُسے مصلوب کرنے کو باہر لے گئے" (اِنجیل بمطابق مرقس 15: 16۔ 20)۔

4۔ وہ زخموں سے گھایل ہو جائے گا:

  • نبوّت: "حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بد کرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 5)۔

  • تکمیل: "اور جو آدمی یسوع کو پکڑے ہوئے تھے اُس کو ٹھٹّھوں میں اُڑاتے اور مارتے تھے۔ اور اُس کی آنکھیں بند کر کے اُس سے پوچھتے تھے کہ نبوّت سے بتا تجھے کس نے مارا؟" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 63، 64)

5۔ وہ سارے دُکھ خاموشی سے برداشت کرے گا:

  • نبوّت: "وہ ستایا گیا تَو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جِس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 7)۔

  • تکمیل: "وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تا کہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مر کر راست بازی کے اعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی" (نیا عہدنامہ، 1۔ پطرس 2: 24)۔

6۔ اُسے مارا جائے گا اور اُس پر تھوکا جائے گا:

  • نبوّت: "مَیں نے اپنی پِیٹھ پیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی۔ مَیں نے اپنا مُنہ رُسوائی اور تھوک سے نہیں چھپایا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 50: 6)۔

  • تکمیل: "اور وہ اُس کے سر پر سرکنڈا مارتے اور اُس پر تھوکتے اور گھٹنے ٹیک ٹیک کر اُسے سجدہ کرتے رہے" (مرقس 15: 19)۔ "اِس پر اُنہوں نے اُس کے مُنہ پر تھوکا اور اُس کے مکّے مارے اور بعض نے طمانچے" مارے (اِنجیل بمطابق متّی 26: 27)۔

7۔ وہ ٹھٹھوں میں اُڑایا جائے گا:

  • نبوّت: "بہت سے سانڈوں نے مُجھے گھیر لیا ہے۔ بسن کے زور آور سانڈ مُجھے گھیرے ہوئے ہیں۔ وہ پھاڑنے اور گرجنے والے ببر کی طرح مُجھ پر اپنا مُنہ پسارے ہوئے ہیں‘‘ (پرانا عہدنامہ، زبور 22: 12، 13)۔

  • تکمیل: "اور راہ چلنے والے سر ہِلا ہِلا کر اُس کو لعن طعن کرتے اور کہتے تھے۔ اے مقدِس کے ڈھانے والے اور تین دِن میں بنانے والے اپنے تئِیں بچا۔ اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اُتر آ۔ اِسی طرح سردار کاہن بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ مل کر ٹھٹّھے سے کہتے تھے۔ اِس نے اَوروں کو بچایا۔ اپنے تئِیں نہیں بچا سکتا۔ یہ تو اِسرائیل کا بادشاہ ہے۔ اب صلیب پر سے اُتر آئے تو ہم اِس پر ایمان لائیں" (اِنجیل بمطابق متّی 27: 39۔ 42)۔

8۔ اُسے باپ چھوڑ دے گا:

  • نبوّت: "اے میرے خُدا! اے میرے خُدا! تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دیا؟ تُو میری مدد اور میرے نالہ و فریاد سے کیوں دُور رہتا ہے؟" (پرانا عہدنامہ، زبور 22: 1)۔

  • تکمیل: "اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چِلاّ کر کہا، ایلی۔ ایلی۔ لَما شَبقتَنِی؟ یعنی اے میرے خُدا! اے میرے خُدا! تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دیا؟" (اِنجیل بمطابق متّی 27: 46)۔

9۔ اُسے پینے کےلئے سرکہ دیا جائے گا:

  • نبوّت: "اُنہوں نے مُجھے کھانے کو اِندراین بھی دِیا اور میری پیاس بجھانے کو اُنہوں نے مُجھے سرکہ پلایا" (پرانا عہدنامہ، زبور 69: 21)۔

  • تکمیل: "وہاں سرکہ سے بھرا ہؤا ایک برتن رکھا تھا۔ پس اُنہوں نے سرکہ میں بھگوئے ہوئے سپنج کو زُوفے کی شاخ پر رکھ کر اُس کے مُنہ سے لگایا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 29)۔

10۔ اُس کے کپڑوں پر قرعہ ڈالا جائے گا:

  • نبوّت: "وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قُرعہ ڈالتے ہیں" (پرانا عہدنامہ، زبور 22: 18)۔

  • تکمیل: "جب سپاہی یسوع کو مصلوب کر چکے تو اُس کے کپڑے لے کر چار حصّے کئے۔ ہر سپاہی کےلئے ایک حصّہ اور اُس کا کُرتہ بھی لیا۔ یہ کُرتہ بِن سِلا سراسر بُنا ہُؤا تھا۔ اِس لئے اُنہوں نے آپس میں کہا کہ اِسے پھاڑیں نہیں بلکہ اِس پر قُرعہ ڈالیں تا کہ معلوم ہو کہ کس کا نکلتا ہے ۔۔۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 23، 24)۔

11۔ اُس کی کوئی بھی ہڈی نہ توڑی جائے گی:

  • نبوّت: "وہ اُس کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اُن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی" (پرانا عہدنامہ، زبور 34: 20)۔

  • تکمیل: "لیکن جب اُنہوں نے یسوع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اُس کی ٹانگیں نہ توڑیں" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 33)۔

12۔ اُس کے پہلو کو بھالے سے چھیدا جائے گا:

  • نبوّت: "۔۔۔ اور وہ اُس پر جِس کو اُنہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 12: 10)۔

  • تکمیل: "مگر اُن میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اُس سے خون اور پانی بہہ نکلا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 34)۔

13۔ وہ شریروں کے درمیان مرے گا، لیکن اپنی موت میں عزت و اکرام پائے گا:

  • نبوّت: "اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولت مندوں کے ساتھ مُؤا ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 9)۔

  • تکمیل: "جب شام ہُوئی تو یوسف نام ارِمتِیاہ کا ایک دولتمند آدمی آیا جو خود بھی یسوع کا شاگرد تھا۔ اُس نے پیلاطُس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی اور پیلاطُس نے دے دینے کا حکم دیا۔ اور یوسف نے لاش کو لے کر صاف مہین چادر میں لپیٹا۔ اور اپنی نئی قبر میں جو اُس نے چٹان میں کُھدوائی تھی رکھّا۔ پھر وہ ایک بڑا پتّھر قبر کے مُنہ پر لڑھکا کر چلا گیا" (اِنجیل بمطابق متّی 27: 57۔ 60)۔

12۔ حِسّی ثبوت

"۔۔۔ ہم نے ۔۔۔ خُود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔" (نیا عہدنامہ، 2۔ پطرس 1: 16)

مندرجہ ذیل طبعی ثبوتوں پر غور کریں جو مسیح کی مصلوبیّت کی تصدیق کرتے ہیں:

الف۔ ماں کا احساس: مسیح کی والدہ مبارک کنواری مریم اپنے بیٹے کے پیچھے گلگتا کے مقام تک گئیں اور خواتین کے ایک گروہ کے ساتھ صلیب کے پاس کھڑی تھیں (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 25)۔ وہاں یسوع نے اُنہیں اُن کے بھانجے یوحنّا کے سپرد کیا۔ اگر بالفرض سب کو مصلوب شخصیت کو پہنچاننے میں غلطی ہوئی تو مُقدّسہ مریم کو یہ دھوکا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ یسوع کی ماں تھیں۔ مُجھے اُمّید ہے کہ تم اِس ماں کے احساسات پر شک نہیں کرو گے جِس نے اپنے بیٹے کے بارے میں سب کچھ دیکھا اور سُنا۔ ماں جس کے لخت جگر کی یہ حالت تھی وہ اپنی محبّت و ممتا میں دھوکا نہیں کھا سکتی تھی۔

ب۔ صلیب کا نشان: صلیب کی علامت اُس کی تاریخی حقیقت کا ٹھوس ثبوت ہے جِس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا! ہر مذہب کا اپنا نشان یا علامت ہوتی ہے، جیسے یہودیوں کے ہاں ستارہ، بدھت مت کے پیروکاروں کے ہاں کنول کا پھول، یا اہلِ اسلام کے ہاں ہلال ہے۔ اِسی طرح مسیحیت میں صلیب کا نشان ہے۔

صلیب جرم، شرم، لعنت، جرم اور تضحیک کی علامت ہونے کے بعد وقار و فخر، برکت و رحمت اور اُمّید کا نشان کیسے بن گئی؟ یہ سخت کھردری لکڑی جِس پر بڑے جرائم پیشہ افراد لٹکائے جاتے تھے، کیونکر شان و شوکت کا نشان بن گئی جِس سے بادشاہوں کے تاج سجے ہیں، قوموں کے جھنڈے اور کلیسیائی عمارتوں کی چھتیں آراستہ ہیں؟ کس نے موت دینے کے اِس طریقے کو عورتوں کے پہننے کے زیور اور عظیم مردوں اور فاتحین کے سینوں کی زینت میں تبدیل کر دیا؟ اِس کا صرف ایک ہی جواب ہے: یسوع مسیح۔ وہی ہے جِس نے صلیب پر لٹکائے جانے سے فدیہ و مخلصی کے اپنے کام کو پورا کیا۔ داؤد نبی نے اِس اہم کام کا اعلان اِن الفاظ میں کیا: "شفقت اور راستی باہم مل گئی ہیں۔ صداقت اور سلامتی نے ایک دوسرے کا بوسہ لیا ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 85: 10)۔

صلیب کی تاریخی صداقت پر غور کرنے کےلئے ایک اَور اہم معاملہ بھی ہے: ہم صلیب کے نشان کی وضاحت کیسے کریں جو مسیحیت کے آغاز سے ہی مسیحیوں کی قبروں اور رومی زیر زمین قبرستانوں میں کندہ ہے جہاں وہ ایذارسانی کے وقتوں میں جمع ہوئے تھے؟ کیا پتھروں پر درج نوشتے ناقابل تردید ثبوت نہیں ہیں کہ مسیح صلیب پر مرا تھا؟

ج۔ پیارے شاگرد یوحنّا کی گواہی: یہ شاگرد یسوع سے محبّت کرتا تھا اور یسوع اُس سے محبّت کرتا تھا، اِس لئے اُس کا لقب "پیارا یوحنّا" پڑ گیا۔ اِس شاگرد نے مسیح کی آخری عشا کے وقت سے لے کر اُس کے قبر میں دفن ہونے تک اپنے اُستاد کو کبھی نہیں چھوڑا۔ اِنجیل مُقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ یوحنّا سردار کاہن کا شناسا تھا، جِس کی وجہ سے اُسے یسوع کے مختلف مقدّموں کے دوران اُس تک رسائی حاصل ہوئی۔ اُس نے ہمارے لئے بڑے یقین کے ساتھ اپنی گواہی درج کی (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 35)۔

د۔ قبر کی گواہی: اِنجیل مُقدّس میں ہمارے پاس مکمل تفصیلات موجود ہیں کہ یسوع کو کس طرح دفن کیا گیا تھا۔ مَیں تمہارے لئے اِس بات کا تذکرہ اُن عینی شاہدین کی تحریروں کے حوالے سے کروں گا جنہوں نے خُداوند کو اپنے ہاتھوں سے چھوا، اُس کی باتیں اپنے کانوں سے سُنیں اور اپنے دِلوں میں حقائق کو قبول کیا:

"جب شام ہوئی تو یوسف نام ارِمتِیاہ کا ایک دولت مند آدمی آیا جو خود بھی یسوع کا شاگرد تھا۔ اُس نے پیلاطُس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی اور پیلاطُس نے دے دینے کا حکم دیا" (اِنجیل بمطابق متّی 27: 57، 58)۔ "اور نیکدیمس بھی آیا۔ جو پہلے یسوع کے پاس رات کو گیا تھا اور پچاس سیر کے قریب مُر اور عُود ملا ہُؤا لایا۔ پس اُنہوں نے یسوع کی لاش لے کر اُسے سُوتی کپڑے میں خوشبودار چیزوں کے ساتھ کفنایا جس طرح کہ یہودیوں میں دفن کرنے کا دستور ہے۔ اور جِس جگہ وہ مصلوب ہُؤا وہاں ایک باغ تھا اور اُس باغ میں ایک نئی قبر تھی جِس میں کبھی کوئی نہ رکھا گیا تھا۔ پس اُنہوں نے ۔۔۔ یسوع کو وہِیں رکھ دیا ۔۔۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 39۔ 42؛ مزید دیکھئے اِنجیل بمطابق مرقس 15: 42۔ 47 اور اِنجیل بمطابق لوقا 23: 50۔ 56)

ارمتیہ کا یوسف اور نیکدیمس جو ممتاز آدمی تھے اگر اُنہیں یسوع کی لاش کے بارے میں ذرا سا بھی شبہ ہوتا تو وہ یسوع کی لاش کو کماحقہ تعظیم کے ساتھ نہ دفناتے۔

ہ۔ قبر پر مُہر لگانا: جیسے ہی یسوع کے دشمنوں کو یہ معلوم ہُوا ہے کہ پیلاطس نے یسوع کی تدفین کےلئے اجازت دے دی ہے تو وہ جلدی سے اُس کے پاس آئے اور بولے:

"خُداوند! ہمیں یاد ہے کہ اُس دھوکے باز نے جیتے جی کہا تھا، مَیں تین دن کے بعد جی اُٹھوں گا۔ پس حکم دے کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے شاگرد آ کر اُسے چُرا لے جائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا اور یہ پچھلا دھوکا پہلے سے بھی بُرا ہو۔ پیلاطُس نے اُن سے کہا، تمہارے پاس پہرے والے ہیں۔ جاؤ جہاں تک تم سے ہو سکے اُس کی نگہبانی کرو۔" (متّی 27: 63۔ 65)

یہ ساری باتیں مکمل طور پر دلالت کرتی ہیں کہ یسوع کی لاش قبر میں دفن تھی، اُس پر مہر لگائی گئی تھی اور پہرے داروں کی نگرانی میں تھی۔

و۔ توما کا شک: یسوع مسیح مُردوں میں سے تیسرے دِن جی اُٹھنے کے بعد اپنے کچھ شاگردوں پر ظاہر ہُوا۔ وہاں توما موجود نہیں تھا۔ جب توما نے خُداوند کے جی اُٹھنے اور شاگردوں پر ظاہر ہونے کی بات سُنی تو اُسے یقین نہ آیا۔ یوحنّا نے مسیح کے مصلوب ہونے اور جی اُٹھنے کے بارے میں کسی بھی ممکنہ شک کو دُور کرنے کےلئے توما کے شک کے واقعہ کا اندراج کیا ہے:

"پھر اُسی دِن جو ہفتہ کا پہلا دن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودیوں کے ڈر سے بند تھے یسوع آ کر بیچ میں کھڑا ہُؤا اور اُن سے کہا، تمہاری سلامتی ہو! اور یہ کہہ کر اُس نے اپنے ہاتھوں اور پسلی کو اُنہیں دکھایا۔ پس شاگرد خُداوند کو دیکھ کر خوش ہُوئے۔ یسوع نے پھر اُن سے کہا، تمہاری سلامتی ہو! ۔۔۔ مگر اُن بارہ میں سے ایک شخص یعنی توما جسے تواَم کہتے ہیں یسوع کے آنے کے وقت اُن کے ساتھ نہ تھا۔ پس باقی شاگرد اُس سے کہنے لگے کہ ہم نے خُداوند کو دیکھا ہے مگر اُس نے اُن سے کہا، جب تک مَیں اُس کے ہاتھوں میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لُوں اور میخوں کے سوراخوں میں اپنی انگلی نہ ڈال لوں اور اپنا ہاتھ اُس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہرگز یقین نہ کروں گا۔ آٹھ روز کے بعد جب اُس کے شاگرد پھر اندر تھے اور توما اُن کے ساتھ تھا اور دروازے بند تھے یسوع نے آ کر اور بیچ میں کھڑا ہو کر کہا، تمہاری سلامتی ہو۔ پھر اُس نے توما سے کہا، اپنی انگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ۔ توما نے جواب میں اُس سے کہا، اے میرے خُداوند! اے میرے خُدا! یسوع نے اُس سے کہا، تُو تو مُجھے دیکھ کر ایمان لایا ہے۔ مُبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لائے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 19۔ 21، 24۔ 29)

13۔ اعلاناتِ مسیح کی بنیاد پر دلائل

"اور اُن سے کہا، یوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اُٹھائے گا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 46)

جِس رات یسوع دھوکے سے پکڑوایا گیا، اُس نے اپنے شاگردوں کو ایک وداعی خطبہ دیا جو واقعی اِنجیل مُقدّس کی شان ہے کیونکہ اِس میں یسوع بطور اُستاد اپنی فکر، بطور دوست اپنی شفقت، بطور فادی اپنی محبّت، اور بطور نجات دہندہ اپنا فضل ظاہر کرتا ہے۔ وہ چرواہے کے طور پر اپنے سادہ شاگردوں کے چھوٹے سے گلّہ کےلئے بھی اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے جنہوں نے اُس پر اپنی اُمّید لگائی اور سب کچھ چھوڑ کر اُس کی پیروی کی۔ چونکہ یسوع جانتا تھا کہ مستقبل میں اُن کےلئے دردناک دُکھ، سخت مشکلات، تلخ مایوسیاں اور مصیبتیں ہوں گی، اِس لئے اُس نے اُنہیں رُوحانی اور نفسیاتی طور پر اُن مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا جو اُنہیں پیش آنے کو تھیں۔ مسیح نے اُنہیں اِنجیل کی منادی کے دوسرے مرحلے کو پورا کرنے کے بارے میں بھی ہدایات دیں۔

خُداوند نے اپنے شاندار خطبے کا آغاز حوصلہ افزا اور تسلی دینے والے الفاظ سے کیا: "تمہارا دِل نہ گھبرائے۔ تُم خُدا پر ایمان رکھتے ہو مُجھ پر بھی ایمان رکھّو۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو مَیں تُم سے کہہ دیتا کیونکہ مَیں جاتا ہوں تا کہ تمہارے لئے جگہ تیّار کروں۔ اور اگر مَیں جا کر تمہارے لئے جگہ تیّار کروں تو پھر آ کر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا تا کہ جہاں مَیں ہوں تُم بھی ہو" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 14: 1۔ 3)۔ پھر آپ نے مزید کہا: "مَیں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ مَیں تمہارے پاس آؤں گا ۔۔۔ لیکن مددگار یعنی رُوحُ القُدس جِسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تُم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔ مَیں تمہیں اِطمینان دئے جاتا ہوں۔ اپنا اِطمینان تمہیں دیتا ہوں۔ جِس طرح دُنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دِل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے" (یوحنّا 14: 18، 26، 27)۔

اُس نے یہ جانتے ہوئے کہ اُس کی آخری گھڑی آ پہنچی ہے، ایک نیک باپ کی طرح اُنہیں اپنی آخری وصیت کی: "مَیں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دُوسرے سے محبّت رکھو کہ جیسے مَیں نے تُم سے محبّت رکھی تُم بھی ایک دُوسرے سے محبّت رکھو۔ اگر آپس میں محبّت رکھو گے تو اِس سے سب جانیں گے کہ تُم میرے شاگرد ہو" (یوحنّا 13: 34، 35)۔ "جو کچھ مَیں تُم کو حکم دیتا ہوں اگر تُم اُسے کرو تو میرے دوست ہو" (یوحنّا 15: 14)۔ "اگر دُنیا تُم سے عداوت رکھتی ہے تو تُم جانتے ہو کہ اُس نے تُم سے پہلے مُجھ سے بھی عداوت رکھی ہے" (یوحنّا 15: 18)۔ "لوگ تُم کو عبادت خانوں سے خارج کر دیں گے بلکہ وہ وقت آتا ہے کہ جو کوئی تُم کو قتل کرے گا وہ گمان کرے گا کہ مَیں خُدا کی خدمت کرتا ہوں ۔۔۔ اور مَیں نے شروع میں تُم سے یہ باتیں اِس لئے نہ کہیں کہ مَیں تمہارے ساتھ تھا۔ مگر اب مَیں اپنے بھیجنے والے کے پاس جاتا ہوں ۔۔۔" (یوحنّا 16: 2، 4۔ 5)۔

اِس پُر تاثیر خطاب کے تناظر سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ مسیح نے اپنے شاگردوں سے اپنا انجام نہیں چھپایا۔ اگر ہم اِس میں بیان کی گئی باتوں کا موازنہ مسیح کے دوسرے سابقہ ​​اقوال سے کریں تو واضح ہوتا ہے کہ مسیح کے دُنیا میں آنے کا واحد مقصد بہتیروں کےلئے اپنی جان فدیہ میں دینا تھا۔

مَیں اِس مناسبت سے کچھ اعلاناتِ مسیح پیش کرتا ہوں جنہیں مسیح کے رسولوں نے رُوح القُدس کی راہنمائی سے ہمارے لئے درج کیا ہے:

  • "اُس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اُسے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جائے اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دُکھ اُٹھائے اور قتل کیا جائے اور تیسرے دِن جی اُٹھے۔" (اِنجیل بمطابق متّی 16: 21)

  • "اور جب وہ گلیل میں ٹھہرے ہوئے تھے یسوع نے اُن سے کہا، ابنِ آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے گا۔ اور وہ اُسے قتل کریں گے اور وہ تیسرے دِن زندہ کیا جائے گا ۔۔۔" (اِنجیل بمطابق متّی 17: 22، 23)

  • "پِھر اُس نے اُن بارہ کو ساتھ لے کر اُن سے کہا کہ دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور جتنی باتیں نبیوں کی معرفت لکھی گئی ہیں ابنِ آدم کے حق میں پوری ہوں گی۔ کیونکہ وہ غیر قوم والوں کے حوالہ کیا جائے گا اور لوگ اُس کو ٹھٹھوں میں اُڑائیں گے اور بےعزّت کریں گے اور اُس پر تُھوکیں گے۔ اور اُس کو کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے اور وہ تیسرے دِن جی اُٹھے گا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 18: 31۔ 33)

  • "اور جب یسوع یہ سب باتیں ختم کر چکا تو ایسا ہُؤا کہ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا۔ تُم جانتے ہو کہ دو دِن کے بعد عیدِ فسح ہو گی اور ابنِ آدم مصلُوب ہونے کو پکڑوایا جائے گا۔" (اِنجیل بمطابق متّی 26: 1، 2)

  • "پِھر وہ اُن کو تعلیم دینے لگا کہ ضرور ہے کہ ابنِ آدم بہت دُکھ اُٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہہ اُسے ردّ کریں اور وہ قتل کیا جائے اور تین دِن کے بعد جی اُٹھے۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 8: 31)

  • "اِس لئے کہ وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتا اور اُن سے کہتا تھا کہ ابنِ آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اُسے قتل کریں گے اور وہ قتل ہونے کے تین دِن بعد جی اُٹھے گا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 9: 31)

  • "اور وہ یروشلیم کو جاتے ہوئے راستہ میں تھے اور یسوع اُن کے آگے آگے جا رہا تھا۔ وہ حیران ہونے لگے اور جو پیچھے پیچھے چلتے تھے ڈرنے لگے۔ پس وہ پھر اُن بارہ کو ساتھ لے کر اُن کو وہ باتیں بتانے لگا جو اُس پر آنے والی تھیں۔ دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور ابنِ آدم سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اُس کے قتل کا حکم دیں گے اور اُسے غیر قوموں کے حوالہ کریں گے۔ اور وہ اُسے ٹھٹّھوں میں اُڑائیں گے اور اُس پر تُھوکیں گے اور اُسے کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے اور تین دِن کے بعد وہ جی اُٹھے گا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 10: 32۔ 34)

  • "اور یسوع نے اُن سے کہا، تُم سب ٹھوکر کھاؤ گے کیونکہ لکھا ہے کہ مَیں چرواہے کو ماروں گا اور بھیڑیں پراگندہ ہو جائیں گی۔ مگر مَیں اپنے جی اُٹھنے کے بعد تُم سے پہلے گلیل کو جاؤں گا۔" (اِنجیل بمطابق مرقس 14: 27، 28)

  • "اُس نے اُن کو تاکید کر کے حکم دِیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا۔ اور کہا، ضرور ہے کہ ابنِ آدم بہت دُکھ اُٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہہ اُسے ردّ کریں اور وہ قتل کیا جائے اور تیسرے دِن جی اُٹھے۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 9: 21، 22)

  • "یسوع نے جواب میں اُن سے کہا، اِس مقدِس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تِین دِن میں کھڑا کر دُوں گا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 2: 19)

  • "مَیں ہُوں وہ زِندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری۔ اگر کوئی اِس روٹی میں سے کھائے تو ابد تک زِندہ رہے گا بلکہ جو روٹی مَیں جہان کی زِندگی کےلئے دُوں گا وہ میرا گوشت ہے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 6: 51)

  • "اُسی گھڑی بعض فریسیوں نے آ کر اُس سے کہا کہ نِکل کر یہاں سے چل دے کیونکہ ہیرودیس تُجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے اُن سے کہا کہ جا کر اُس لومڑی سے کہہ دو کہ دیکھ مَیں آج اور کل بد رُوحوں کو نِکالتا اور شفا بخشنے کا کام انجام دیتا رہُوں گا اور تیسرے دِن کمال کو پہنچوں گا۔ مگر مُجھے آج اور کل اور پرسوں اپنی راہ پر چلنا ضرور ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ نبی یروشلیم سے باہر ہلاک ہو۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 13: 31۔ 33)

14۔ رسولوں کے اقوال پر مبنی ثبوت

"۔۔۔ ہمارے لئے بھی جِن کےلئے اِیمان راست بازی گنا جائے گا۔ اِس واسطے کہ ہم اُس پر اِیمان لائے ہیں جِس نے ہمارے خُداوند یسوع کو مُردوں میں سے جِلایا۔ وہ ہمارے گناہوں کےلئے حوالہ کر دِیا گیا اور ہم کو راست باز ٹھہرانے کےلئے جِلایا گیا۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 4: 24، 25)

جو شخص اعمال کی کتاب اور پولس، پطرس، یوحنّا، یعقوب اور یہوداہ کے خطوط کو پڑھے گا، وہ ضرور یہ ملاحظہ کرے گا کہ جِن تعلیمات کا مسیح کے رسولوں نے پرچار کیا اور تمام دُنیا کو بشارت دی وہ مسیح مصلوب کی منادی تھی جِس نے گنہگاروں کی خاطر اپنا خون بہایا تھا۔ پولس رسول نے اِنجیل کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "اب اَے بھائیو! مَیں تمہیں وہی خوشخبری جتائے دیتا ہوں جو پہلے دے چُکا ہوں جِسے تُم نے قبول بھی کر لیا تھا اور جِس پر قائم بھی ہو۔ اُسی کے وسیلہ سے تُم کو نجات بھی ملتی ہے بشرطیکہ وہ خوشخبری جو مَیں نے تمہیں دی تھی یاد رکھتے ہو ورنہ تمہارا اِیمان لانا بے فائدہ ہُؤا۔ چُنانچہ مَیں نے سب سے پہلے تُم کو وُہی بات پُہنچا دی جو مجھے پُہنچی تھی کہ مسیح کتابِ مُقدّس کے مطابِق ہمارے گناہوں کےلئے مؤا۔ اور دفن ہُؤا اور تِیسرے دِن کتابِ مُقدّس کے مطابِق جی اُٹھا" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 15: 1۔ 4)۔

ذیل میں رسولوں کے اقوال کے اقتباسات ہیں، جِن میں مسیح کی موت کو بیان کیا گیا ہے:

الف۔ مسیح کی صلیب اور موت کی بابت:

"اَے اِسرائیِلیو! یہ باتیں سُنو کہ یسوع ناصری ایک شخص تھا جِس کا خُدا کی طرف سے ہونا تُم پر اُن مُعجِزوں اور عجِیب کاموں اور نِشانوں سے ثابِت ہُؤا جو خُدا نے اُس کی معرفت تُم میں دِکھائے۔ چُنانچہ تُم آپ ہی جانتے ہو۔ جب وہ خُدا کے مقرّرہ اِنتِظام اور علمِ سابِق کے موافِق پکڑوایا گیا تو تُم نے بے شرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلُوب کروا کر مار ڈالا۔ لیکن خُدا نے موت کے بند کھول کر اُسے جِلایا کیونکہ ممکن نہ تھا کہ وہ اُس کے قبضہ میں رہتا۔" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 22۔ 24)

براہِ کرم اِن الفاظ پر غور کرو: "خُدا کے مقرّرہ اِنتِظام اور علمِ سابِق کے موافِق پکڑوایا گیا۔" اِن الفاظ کو لوحِ دِل پر منقش کر لو تا کہ جب بھی مسیح کی فداکارانہ موت کا ذِکر ہو تو یاد رہے کہ وہ ازلی ارادہ الٰہیہ اور تدبیر تھی۔ اِن الفاظ پر بھی غور کرو:

  • "پس اِسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خُدا نے اُسی یسوع کو جِسے تُم نے مصلوب کیا خُداوند بھی کیا اور مسیح بھی۔" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 36)

  • "کیونکہ جب ہم اُس کی موت کی مشابہت سے اُس کے ساتھ پَیوستہ ہو گئے تو بیشک اُس کے جی اُٹھنے کی مشابہت سے بھی اُس کے ساتھ پَیوستہ ہوں گے۔ چُنانچہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پُرانی اِنسانِیّت اُس کے ساتھ اِس لئے مصلوب کی گئی کہ گناہ کا بدن بے کار ہو جائے تا کہ ہم آگے کو گناہ کی غُلامی میں نہ رہیں۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 6: 5، 6)

  • "پِھر بھی کاملوں میں ہم حکمت کی باتیں کہتے ہیں لیکن اِس جہان کی اور اِس جہان کے نیست ہونے والے سرداروں کی حکمت نہیں۔ بلکہ ہم خُدا کی وہ پوشیدہ حکمت بھید کے طور پر بیان کرتے ہیں جو خُدا نے جہان کے شروع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مقرّر کی تھی۔ جِسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خُداوند کو مصلُوب نہ کرتے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 2: 6۔ 8)

پولس رسول نے رُوح القُدس کی راہنمائی میں یہ واضح کیا کہ صلیب کے ذریعہ سے اِنسان کی نجات ازل سے خُدا کا منصوبہ تھا جو خُدا کی حکمت کا ایک بھید ہے۔ پولس رسول کے الفاظ پطرس رسول کی تعلیم کے عین مطابق ہیں۔

  • پطرس رسول نے پراگندگی کے شکار اِیمانداروں کو لکھا: "اُس سے تُم بے دیکھے محبّت رکھتے ہو اور اگرچہ اِس وقت اُس کو نہیں دیکھتے تو بھی اُس پر اِیمان لا کر ایسی خوشی مناتے ہو جو بیان سے باہر اور جلال سے بھری ہے۔ اور اپنے اِیمان کا مقصد یعنی رُوحوں کی نجات حاصل کرتے ہو۔ اِسی نجات کی بابت اُن نبیوں نے بڑی تلاش اور تحقیق کی جنہوں نے اُس فضل کے بارے میں جو تُم پر ہونے کو تھا نبوّت کی۔ اُنہوں نے اِس بات کی تحقیق کی کہ مسیح کا رُوح جو اُن میں تھا اور پیشتر سے مسیح کے دُکھوں کی اور اُن کے بعد کے جلال کی گواہی دیتا تھا وہ کون سے اور کیسے وقت کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اُن پر یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ نہ اپنی بلکہ تُمہاری خدمت کےلئے یہ باتیں کہا کرتے تھے جِن کی خبر اب تُم کو اُن کی معرفت ملی جنہوں نے رُوحُ القُدس کے وسیلہ سے جو آسمان پر سے بھیجا گیا تُم کو خوشخبری دی اور فرشتے بھی اِن باتوں پر غور سے نظر کرنے کے مشتاق ہیں۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ پطرس 1: 8۔ 12)

  • "پس اِسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خُدا نے اُسی یسوع کو جِسے تُم نے مصلوب کیا خُداوند بھی کیا اور مسیح بھی۔" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 36)

  • "کیونکہ مسیح نے مجھے بپتسمہ دینے کو نہیں بھیجا بلکہ خوشخبری سُنانے کو اور وہ بھی کلام کی حکمت سے نہیں تا کہ مسیح کی صلیب بے تاثیر نہ ہو۔ کیونکہ صلیب کا پیغام ہلاک ہونے والوں کے نزدیک تو بیوقوفی ہے مگر ہم نجات پانے والوں کے نزدِیک خُدا کی قدرت ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 1: 17، 18)

  • "چنانچہ یہودی نِشان چاہتے ہیں اور یونانی حکمت تلاش کرتے ہیں۔ مگر ہم اُس مسیحِ مصلُوب کی منادی کرتے ہیں جو یہودیوں کے نزدیک ٹھوکر اور غیر قوموں کے نزدیک بیوقوفی ہے۔ لیکن جو بلائے ہوئے ہیں۔ یہودی ہوں یا یونانی۔ اُن کے نزدیک مسیح خُدا کی قدرت اور خُدا کی حکمت ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 1: 22۔ 24)

  • "اور اَے بھائیو! جب مَیں تمہارے پاس آیا اور تُم میں خُدا کے بھید کی منادی کرنے لگا تو اعلیٰ درجہ کی تقریر یا حکمت کے ساتھ نہیں آیا۔ کیونکہ مَیں نے یہ اِرادہ کر لیا تھا کہ تمہارے درمیان یسوع مسیح بلکہ مسیحِ مصلُوب کے سِوا اَور کچھ نہ جانوں گا۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 2: 1، 2)

  • "کیونکہ تُم اِس کی دلیل چاہتے ہو کہ مسیح مُجھ میں بولتا ہے اور وہ تُمہارے واسطے کمزور نہیں بلکہ تُم میں زور آور ہے۔ ہاں وہ کمزوری کے سبب سے مصلُوب کیا گیا لیکن خُدا کی قدرت کے سبب سے زندہ ہے اور ہم بھی اُس میں کمزور تو ہیں مگر اُس کے ساتھ خُدا کی اُس قدرت کے سبب سے زندہ ہوں گے جو تُمہارے واسطے ہے۔‘‘ (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 13: 3، 4)

  • "مَیں مسیح کے ساتھ مصلُوب ہؤا ہوں اور اب مَیں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مُجھ میں زندہ ہے اور مَیں جو اَب جسم میں زندگی گذارتا ہوں تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گذارتا ہوں جِس نے مُجھ سے محبّت رکھّی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا۔" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 2: 20)

  • "جتنے لوگ جسمانی نمود چاہتے ہیں وہ تُمہیں ختنہ کرانے پر مجبور کرتے ہیں۔ صرف اِس لئے کہ مسیح کی صلیب کے سبب سے ستائے نہ جائیں۔ کیونکہ ختنہ کرانے والے خود بھی شریعت پر عمل نہیں کرتے مگر تُمہارا ختنہ اِس لئے کرانا چاہتے ہیں کہ تُمہاری جسمانی حالت پر فخر کریں۔ لیکن خُدا نہ کرے کہ مَیں کسی چیز پر فخر کروں سِوا اپنے خُداوند یسوع مسیح کی صلیب کے جِس سے دُنیا میرے اِعتبار سے مصلُوب ہوئی اور مَیں دُنیا کے اِعتبار سے۔" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 12۔ 14)

  • "اَے نادان گلتیو! کس نے تُم پر افسوں کر لیا؟ تُمہاری تو گویا آنکھوں کے سامنے یسوع مسیح صلیب پر دکھایا گیا۔" (گلتیوں 3: 1)

  • "اور اَے بھائیو! مَیں اگر اب تک ختنہ کی منادی کرتا ہوں تو اب تک ستایا کیوں جاتا ہوں؟ اِس صورت میں صلیب کی ٹھوکر تو جاتی رہی۔" (گلتیوں 5: 11)

    "ویسا ہی مزاج رکھّو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔ اُس نے اگرچہ خُدا کی صورت پر تھا خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور اِنسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور اِنسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔" (نیا عہدنامہ، فلپیوں 2: 5۔ 8)

  • "اور اِیمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جِس نے اُس خوشی کےلئے جو اُس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پرواہ نہ کر کے صلیب کا دُکھ سہا اور خُدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 12: 2)

  • "لیکن خُدا اپنی محبّت کی خُوبی ہم پر یُوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مؤا۔ پس جب ہم اُس کے خُون کے باعث اب راست باز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضبِ اِلہٰی سے ضرور ہی بچیں گے۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 8، 9)

ب۔ مسیح کے کفّارہ، بہائے گئے خون، مخلصی اور میل ملاپ کی بابت:

  • "اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مفت راست باز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُسے خُدا نے اُس کے خُون کے باعث ایک ایسا کفّارہ ٹھہرایا جو اِیمان لانے سے فائدہ مند ہو تا کہ جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے اور جِن سے خُدا نے تحمّل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہر کرے۔" (رومیوں 3: 23۔ 25)

  • "چُنانچہ اُس نے ہم کو بنایِ عالم سے پیشتر اُس میں چُن لیا تا کہ ہم اُس کے نزدیک محبّت میں پاک اور بے عیب ہوں۔ اور اُس نے اپنی مرضی کے نیک اِرادہ کے موافق ہمیں اپنے لئے پیشتر سے مقرّر کیا کہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے اُس کے لے پالک بیٹے ہوں۔ تا کہ اُس کے اُس فضل کے جلال کی ستایش ہو جو ہمیں اُس عزیز میں مفت بخشا۔ ہم کو اُس میں اُس کے خُون کے وسیلہ سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی اُس کے اُس فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے۔‘‘ (نیا عہدنامہ، افسیوں 1: 4۔ 7)

  • "لیکن تُم اُس کی طرف سے مسیح یسوع میں ہو جو ہمارے لئے خُدا کی طرف سے حکمت ٹھہرا یعنی راست بازی اور پاکیزگی اور مخلصی۔ تا کہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہو کہ جو فخر کرے وہ خُداوند پر فخر کرے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 1: 30، 31)

  • "مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چُھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے۔" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 13)

  • "لیکن جب وقت پُورا ہو گیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہُؤا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہُؤا۔ تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چھڑا لے اور ہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے۔" (گلتیوں 4: 4، 5)

  • "کیونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور اِنسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو اِنسان ہے۔ جِس نے اپنے آپ کو سب کے فدیہ میں دیا کہ مناسب وقتوں پر اِس کی گواہی دی جائے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ تیمتھیس 2: 5، 6)

  • "۔۔۔ اِس موجودہ جہان میں پرہیزگاری اور راست بازی اور دین داری کے ساتھ زِندگی گُذاریں۔ اور اُس مُبارک اُمّید یعنی اپنے بزرگ خُدا اور مُنجی یسوع مسیح کے جلال کے ظاہر ہونے کے مُنتظِر رہیں۔ جِس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تا کہ فدیہ ہو کر ہمیں ہر طرح کی بے دینی سے چُھڑا لے اور پاک کر کے اپنی خاص ملکیّت کےلئے ایک ایسی اُمّت بنائے جو نیک کاموں میں سرگرم ہو۔" (نیا عہدنامہ، طِطُس 2: 12۔ 14)

  • "لیکن جب مسیح آیندہ کی اچھی چیزوں کا سردار کاہن ہو کر آیا تو اُس بزرگ تر اور کامل تر خیمہ کی راہ سے جو ہاتھوں کا بنا ہُؤا یعنی اِس دُنیا کا نہیں۔ اور بکروں اور بچھڑوں کا خُون لے کر نہیں بلکہ اپنا ہی خُون لے کر پاک مکان میں ایک ہی بار داخل ہو گیا اور ابدی خلاصی کرائی۔" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 9: 11، 12)

  • "لیکن اگر ہم نُور میں چلیں جِس طرح کہ وہ نُور میں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اُس کے بیٹے یسوع کا خُون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 1: 7)

  • "وہ برکت کا پیالہ جِس پر ہم برکت چاہتے ہیں کیا مسیح کے خُون کی شراکت نہیں؟ وہ روٹی جِسے ہم توڑتے ہیں کیا مسیح کے بدن کی شراکت نہیں؟" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 10: 16، 17)

  • "۔۔۔ اُس کی طرف سے جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے اور اُن سات رُوحوں کی طرف سے جو اُس کے تخت کے سامنے ہیں۔ اور یسوع مسیح کی طرف سے جو سچّا گواہ اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں میں پہلوٹھا اور دُنیا کے بادشاہوں پر حاکم ہے تُمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے۔ جو ہم سے محبّت رکھتا ہے اور جِس نے اپنے خُون کے وسیلہ سے ہم کو گناہوں سے خلاصی بخشی۔‘‘ (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 1: 4۔ 5)

  • "اور وہ یہ نیا گیت گانے لگے کہ تُو ہی اِس کتاب کو لینے اور اُس کی مہریں کھولنے کے لائق ہے کیونکہ تُو نے ذبح ہو کر اپنے خُون سے ہر ایک قبیلہ اور اہلِ زُبان اور اُمّت اور قوم میں سے خُدا کے واسطے لوگوں کو خرید لیا۔ اور اُن کو ہمارے خُدا کےلئے ایک بادشاہی اور کاہن بنا دیا اور وہ زمین پر بادشاہی کرتے ہیں۔" (مکاشفہ 5: 9، 10)

  • "اَے میرے بچّو! یہ باتیں مَیں تُمہیں اِس لئے لکھتا ہُوں کہ تُم گناہ نہ کرو اور اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راست باز۔ اور وُہی ہمارے گناہوں کا کفّارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 2: 1، 2)

  • "کیونکہ واقع میں وہ فرشتوں کا نہیں بلکہ ابرہام کی نسل کا ساتھ دیتا ہے۔ پس اُس کو سب باتوں میں اپنے بھائیوں کی مانند بننا لازم ہُؤا تا کہ اُمّت کے گناہوں کا کفّارہ دینے کے واسطے اُن باتوں میں جو خُدا سے علاقہ رکھتی ہیں ایک رَحم دِل اور دِیانت دار سردار کاہِن بنے۔" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 2: 16، 17)

  • "کیونکہ جب باوُجُود دُشمن ہونے کے خُدا سے اُس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زِندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خُداوند یسوع مسیح کے طُفیل سے جِس کے وسیلہ سے اب ہمارا خُدا کے ساتھ میل ہو گیا خُدا پر فخر بھی کرتے ہیں۔" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 10، 11)

  • "اور سب چیزیں خُدا کی طرف سے ہیں جِس نے مسیح کے وسیلہ سے اپنے ساتھ ہمارا میل ملاپ کر لیا اور میل ملاپ کی خدمت ہمارے سپُرد کی۔ مطلب یہ ہے کہ خُدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذِمہ نہ لگایا اور اُس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیا ہے۔" (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 5: 18، 19)

  • "کیونکہ باپ کو یہ پسند آیا کہ ساری معموری اُسی میں سکونت کرے۔ اور اُس کے خُون کے سبب سے جو صلیب پر بہا صُلح کر کے سب چیزوں کا اُسی کے وسیلہ سے اپنے ساتھ میل کر لے۔ خَواہ وہ زمین کی ہوں خَواہ آسمان کی۔" (نیا عہدنامہ، کلسّیوں 1: 19، 20)

  • "مگر تُم جو پہلے دُور تھے اب مسیح یسوع میں مسیح کے خُون کے سبب سے نزدیک ہو گئے ہو۔ کیونکہ وُہی ہماری صُلح ہے جِس نے دونوں کو ایک کر لیا اور جُدائی کی دیوار کو جو بیچ میں تھی ڈھا دیا۔ چُنانچہ اُس نے اپنے جسم کے ذریعہ سے دُشمنی یعنی وہ شریعت جِس کے حکم ضابطوں کے طور پر تھے موقوف کر دی تا کہ دونوں سے اپنے آپ میں ایک نیا اِنسان پیدا کر کے صُلح کرا دے۔ اور صلیب پر دُشمنی کو مٹا کر اور اُس کے سبب سے دونوں کو ایک تن بنا کر خُدا سے ملائے۔" (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 13۔ 16)

عزیزم حسّان، مُجھے اِس خط کی تیاری میں کافی دن لگے ہیں، مگر کلامِ مُقدّس کی جو آیات مَیں نے ایک جگہ فراہم کی ہیں، وہ تمہیں اِس قابل بنا دیں گی کہ فدیہ کے تصوّر کو سمجھ لو جو صلیب پر مسیح کی موت سے مکمل ہُوا، اور تم اپنے اِیمان کی بنیاد مسیح کے کفّارہ پر قائم کر لو تو تم اپنے سارے گذشتہ گناہوں سے مکمل پاک کر دیئے جاؤ گے: "مُبارک ہے وہ جِس کی خطا بخشی گئی اور جِس کا گناہ ڈھانکا گیا۔ مُبارک ہے وہ آدمی جِس کی بدکاری کو خُداوند حساب میں نہیں لاتا اور جِس کے دِل میں مکر نہیں" (پرانا عہدنامہ، زبور 32: 1، 2)۔ اَب صلیب پر بہائے گئے مسیح کے خون کے وسیلہ خُدا اور اِنسان کے درمیان میل ملاپ کا دِن ہے۔

مَیں اَب اُمّید کرتا ہوں کہ تم نجات کی معرفت کے ساحل پر کھڑے نہیں رہو گے بلکہ نجات بخش محبّت کے سمندر میں غوطہ زن ہو گے اور اُس کی معموری کے متمنّی ہو گے اور ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے ذریعے خُدا پر فخر کرو گے جِس کی بدولت ہم نے یہ صلح صفائی پائی ہے۔

صلیب کی ذِلّت کے سبب ٹھوکر نہ کھاؤ۔ اِس کی نفرت و خشونت شاید تم کو اِس کی خوبیوں کا اِدراک کرنے سے منع کرے، پھر بھی ایک جویائے حق کی طرح اپنی نئی حاصل کردہ بصیرت کی روشنی میں اِس موضوع پر دوبارہ غور کرو۔

مَیں اُس ٹھوکر کو خوب سمجھتا ہوں جو صلیب سے تمہیں پہنچ سکتی ہے۔ ایک عرصے تک مَیں صلیب کی تعلیم کو ایک قسم کا جاہلانہ کفر سمجھتا تھا، کیونکہ یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ خُدا کو کوڑے مارے جائیں، مصلوب کیا جائے، اُسے موت لاحق ہو اور وہ دفن کیا جائے۔

تاہم، خُدا جِس نے مُجھے اپنی وسیع رحمت سے نوازا، اور جِس کی محبّت مُجھے چشمہ نجات کی طرف لے جانا چاہتی تھی، اُس نے مُجھے زیادہ دیر تک جہالت کی گہرائیوں میں بھٹکنے نہ دیا۔ پھر ایک دِن اُس نے اپنی حکمت میں مُجھ پر واضح کر دیا کہ صلیب درحقیقت اُس کی محبّت کا مظہر ہے۔ یسوع مسیح کو "خُدا نے اُس کے خُون کے باعِث ایک اَیسا کفّارہ ٹھہرایا جو اِیمان لانے سے فائِدہ مند ہو تا کہ جو گُناہ پیشتر ہو چُکے تھے اور جِن سے خُدا نے تحمّل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہِر کرے۔ بلکہ اِسی وقت اُس کی راست بازی ظاہِر ہو تا کہ وہ خُود بھی عادِل رہے اور جو یسوع پر اِیمان لائے اُس کو بھی راست باز ٹھہرانے والا ہو" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 24۔ 26)۔ لہٰذا، خُدا کے مکاشفہ کی روشنی میں، مَیں نے یسوع کو نجات دہندہ کے طور پر قبول کیا، جو خُدا اور اِنسان دونوں تھا۔ کامل خُدا کے طور پر اُس نے مُردوں کو زندہ کیا، اندھوں کی آنکھیں کھولیں، بیماروں اور لنگڑوں کو شفا دی، گناہ کو معاف کیا، اور اُن سب لوگوں کو جنہوں نے اُسے قبول کیا خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا۔ اور اُس نے اِنسانی بدن اختیار کیا اور ایک کامل اِنسان کے طور پر اپنے بدن کو دُنیا کے گناہ کی قربانی کے طور پر صلیب پر پیش کر دیا۔ اگرچہ صلیب کا وقوع اُس کے جسد پر ہُوا، تاہم لاہوت کامل کو وہ چھو نہ سکی۔

لعزر کی موت کا واقعہ ایک ایسی مثال ہے جہاں یسوع کی کامل اِنسانیت اور الوہیّت دونوں ظاہر ہوئیں۔ جب یسوع کے دوست لعزر کی وفات ہو گئی تو یسوع تعزیت کےلئے لعزر کی بہنوں مریم اور مرتھا کے پاس گیا اور اُن کے شدید غم کو دیکھ کر رو پڑا۔ تاہم، اپنے دوست لعزر کی قبر پر بطور خُدا جلال اور قدرت کے ساتھ بلند آواز سے پکار کر کہا "اے لعزر، نکل آ۔" اُسی لمحے، لعزر کے مُردہ جسم میں رُوح واپس آ گئی، اور وہ جِسے مرے ہوئے چار دِن ہو گئے تھے اپنی قبر سے باہر نکل گیا۔

اَب میرے بھائی، مَیں تم سے التجا کرتا ہوں کہ ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے فضل کو جو صلیب پر ظاہر ہُوا، اُسے منطق جامد پر نہ تولو کیونکہ تمہاری نجات کا معاملہ مسیح مصلوب پر تمہارے ایمان پر موقوف ہے جِس نے تمہاری خاطر جان دی۔ منطق تو عقل کا پھل ہے لیکن خُدا تعالیٰ بشر سے فرماتا ہے: "کیونکہ جِس قدر آسمان زمین سے بُلند ہے اُسی قدر میری راہیں تُمہاری راہوں سے اور میرے خیال تُمہارے خیالوں سے بُلند ہیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 55: 9)۔

مَیں خُدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ ایمانی معاملہ پر دِل سے غور کرو نہ کہ عقل انسانی سے، "کیونکہ راست بازی کےلئے اِیمان لانا دِل سے ہوتا ہے اور نجات کےلئے اِقرار مُنہ سے کیا جاتا ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 10: 10)۔ تم خود جانتے ہیں کہ اسلام مسیح کی موت اور جی اٹھنے کو تسلیم کرتا ہے، حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت صلیب کے تصور کی مخالفت کرتی ہے کیونکہ وہ بعض نصوص سے متاثر ہیں جِن میں مُفسّرین کی ایک سے زیادہ آراء ہیں۔ مَیں بعد میں کسی وقت اِس موضوع پر قرآن سے بھی روشنی ڈالوں گا۔

مَیں اِس خط کو ختم کرنے سے پہلے تمہاری حوصلہ افزائی کرنا چاہوں گا کہ تم جو سچّائی کی تلاش میں ہو، خود اِس معاملے کا مطالعہ کرو، اور پولس رسول کے الفاظ تمہارے راہنما ہوں: "سب باتوں کو آزماؤ۔ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو" (نیا عہدنامہ، 1۔ تھسلینیکیوں 5: 21)۔ مَیں تمہارے پاس کتابِ مُقدّس کا ایک نسخہ بھیج رہا ہوں، اور مُجھے اُمّید ہے کہ تم اِسے اپنے مطالعہ اور تحقیق میں استعمال کرو گے۔ اِس قیمتی کتاب میں مسیح کے تجسّم، زِندگی، تعلیمات، موت، جی اُٹھنے اور صعود آسمانی کا اِلہامی اندراج موجود ہے۔

یہ نظریہ ہرگز درست نہیں کہ کتابِ الٰہی میں تحریف کی گئی ہے بلکہ یہ ایک جھوٹ ہے جو شیطان نے لوگوں کو کتابِ مُقدّس سے دُور کرنے کےلئے کچھ لوگوں کے منہ میں ڈال دیا ہے جہاں وہ زندگی پا سکتے ہیں۔ صحائفِ مُقدّسہ یسوع کی گواہی دیتے ہیں، جِس کے بغیر نجات نہیں ہے۔ کتابِ مُقدّس میں تحریف کا دعویٰ بہت مضحکہ خیز ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا موضوع ہے جِس کے بارے میں خُدا نے چاہا تو مَیں اپنے آئندہ خط میں بات کروں گا۔

میرے بھائی، تم جانتے ہو کہ مَیں نے ماضی میں دِلی سکون حاصل کرنے کےلئے کافی جدوجہد کی۔ میری کھوج نے مُجھ پر ظاہر کیا کہ سلامتی سِوائے خُدا کے کہیں نہیں۔ مَیں نے خُدا تعالٰی کی شخصیت کی بڑی کھوج کی اور تلاش کے دوران مَیں نے بہت سی راہوں اور کئی مذاہب کا مطالعہ کیا۔ مَیں مذہبی ہو گیا، تصوّف کی راہ بھی اپنائی، مگر نہ کامیابی ہوئی نہ سکون ملا۔ کیونکہ یہ صرف ایک بیرونی ملمع تھا، جِس کا اظہار تقویٰ کی صورت میں تھا اور مُجھ سے ملنے والے تمام افراد متاثر تھے۔ مَیں میٹھا بولنے والا، خوش اخلاق، باشعور اور خوش مزاج نوجوان تھا۔ لیکن مَیں سچّ کہوں گا کہ مَیں اپنے آپ کو اور اپنے آس پاس والوں کو دھوکہ دے رہا تھا۔ میرا تقویٰ ایک ایسا رنگ تھا جِس کے پیچھے میری بےچین رُوح چھپی ہوئی تھی۔ میری رُوح بےسکون تھی کیونکہ وہ پاکیزگی کے بغیر تھی۔

مَیں تمہارے سامنے تسلیم کرتا ہوں کہ میری اپنے رُوحانی معیار کو بلند کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں کیونکہ مَیں اپنی خواہشات کا اسیر تھا جِس نے مُجھے گناہ اور موت کی شریعت کا قیدی بنا دیا۔ میرا ضمیر مُجھے ملامت کرتا رہا، لیکن مُجھے اُس کی آواز خاموش کرنے میں کوئی دِقت نہ ہوئی، اور کئی موڑ ایسے آئے کہ رُوح میں پیدا ہونے والے ندامت کے جذبات کو خاموش کرا دیا۔ مسلسل بے حسی کے نتیجے میں ضمیر کتنی جلدی بیمار ہو جاتا ہے اور بیمار ضمیر عجیب و غریب خیالات کو جنم دیتا ہے۔ بیمار منطق کے ساتھ مَیں اِس بات کا تجزیہ کر رہا تھا کہ شریعت نے کیا منع کیا ہے۔ مثلاً، میرے بیمار ضمیر نے مُجھے بتایا کہ شریعت اپنے زمانے کے لوگوں کےلئے تھی، جو بہت پہلے زندہ تھے۔ اَب تو دُنیا بدل چکی ہے۔ مثلاً، مَیں اپنے آپ سے کہتا تھا کہ زِندگی کی لذّتیں دینے والا خُدا ہے، اور چونکہ اُس نے مُجھے حواس عطا کئے ہیں، تو کیوں نہ مَیں اپنے آپ کو اپنے آس پاس کی چیزوں سے لطف اندوز ہونے دوں؟ جو اچھے کام ہیں کرتا رہا، حاجتمندوں کی حاجت روائی کرنا، گمراہ کو نصیحت کرنا، کمزوروں کی مدد کرنا۔ مَیں عمر خیام کی سوچ سے متاثر تھا، مَیں نے اپنی نوجوانی میں اُس کی مشہور رباعیات میں اُس کے فلسفہ کا مطالعہ کیا تھا۔

لیکن خُدا، جِس نے مُجھے میری پیدایش سے ہی اپنی عظیم شفقت سے چُنا تھا۔ خُدا نے میری راہنمائی کی، مسیح کا نور چمکا اور ساری راہ روشن ہو گئی۔ مَیں نے اپنے آپ کو واقعی جیسا تھا، گناہ کی دلدل میں ڈوبا ہُوا دیکھا۔ میری راست بازی کا بت ٹوٹ گیا اور میری خود پسندی جاتی رہی، اور مُجھ توفیق میں بس موت کا بدن نظر آیا جِسے پولس رسول پرانی گری ہوئی اِنسانیت کے طور پر بیان کرتا ہے جو فریب کی شہوتوں کے مطابق زندگی بسر کرتی ہے۔

یسوع جو کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے کےلئے دُنیا میں آیا تھا، اُس نے میری بھوکی رُوح نجات کی احتیاج دیکھی۔ مَیں ایک کھوئی ہوئی بھیڑ تھی جِسے ڈھونڈنے کی ضرورت تھی۔ میری خوشی کےلئے، اُس نے مُجھے اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور مُجھے اپنے چُنیدہ لوگوں کے گلّے میں لے آیا۔

اِس بات کو سالوں گزر گئے، مگر جب بھی وہ وقت یاد آتا ہے، خوشی اور شکر گزاری سے دِل لبریز ہو جاتا ہے کیونکہ اُس نے اپنے فضل کے باعث مُجھ سے محبّت کی۔

ہاں، میرے محترم بھائی، مَیں نے اِنسانی طور طریقوں میں کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جو مُجھے سکون کی طرف لے جائے لیکن مَیں کامیاب نہ ہُوا۔ تلاش نے مُجھے تھکا دیا اور کوششوں نے مُجھے بیزار کر دیا یہاں تک کہ مَیں اپنے وجود سے مایوس ہو گیا۔ مَیں نے قدیم فلسفوں اور جدید تعلیمات سے جو کچھ پڑھا تھا وہ میری رُوح کو مطمئن نہ کر سکا۔ یہ کاوشیں سلیمان بادشاہ کے قول کے مصداق تھیں: "باطِل ہی باطِل، واعِظ کہتا ہے، باطِل ہی باطِل۔ سب کُچھ باطِل ہے ۔۔۔ مَیں نے سب کاموں پر جو دُنیا میں کئے جاتے ہیں نظر کی اور دیکھو یہ سب کچھ بُطلان اور ہوا کی چران ہے" (پرانا عہدنامہ، واعِظ 1: 2، 14)۔

تاہم، جو کُچھ حکیموں کی حکمت اور فلسفیوں کے فلسفے مُجھ میں نہ کر سکے، وہ خُدا کے فضل نے ہمارے خُداوند یسوع مسیح کی صلیب پر میرے لئے کیا جِسے بیوقوفی سمجھا گیا (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 1: 21)۔ اِلٰہی محبّت کی صلیب نے ہی مُجھے نفس کی بیڑیوں سے نجات دلائی جو ہمیشہ برائی کی طرف مائل رہتی ہے۔ یسوع نے مُجھے میرے غرور سے رہائی بخشی اور مخلصی اور معافی کے ذریعے مُجھے اپنی رحمت کی معموری سے بھر دیا۔ مَیں خوش نہایت شادمان ہو گیا۔ میری بدحال زِندگی ابدی گھر کے سفر کی تیاری میں بدل گئی۔

مَیں نے خُدا کے اطمینان کی شادمانی کے ساتھ اپنی آسودگی میں اپنے پیاروں کے بارے میں سوچا، جِن میں سے تم میرے بھائی سب سے زیادہ عزیز ہو۔ مَیں نے گھٹنے ٹیک کر تمہارے لئے یسوع میں اُن تمام برکات کی دُعا کی ہے جو مُجھے عنایت ہوئی ہیں۔ تاہم، میری بڑی خواہش ہے کہ تمہیں اُن اذیّتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جو مَیں نے اپنے پیاروں کے ہاتھوں سہی ہیں۔

توفیق

9۔ 1۔ 1954ء

15۔ اُلجھا دینے والے سوالات

"مَیں نے تو جلد بازی سے کہا تھا کہ مَیں تیرے سامنے سے کاٹ ڈالا گیا۔ تَو بھی جب مَیں نے تُجھ سے فریاد کی تو تُو نے میری منّت کی آواز سُن لی۔" (پرانا عہدنامہ، زبور 31: 22)

میرا خیال ہے کہ میرے بھائی نے میرے آخری خط کے مندرجات کا مطالعہ کرنے میں کافی وقت گزارا۔ اُس کی طرف سے کئی ماہ تک خاموشی رہی۔ تاہم، جب اُس نے جواب دیا تو اُس نے مُجھے اپنے تبصرے اور ساتھ ہی سوالات کی فہرست بھیجی:

اپریل 9، 1954ء

میرے پیارے توفیق

پیار بھرا سلام۔ آپ کو اور آپ کے خاندان کے تمام افراد کو ہر خوشی اور کامیابی ملے۔ مُجھے آپ کا خط ایسے وقت میں ملا جب مَیں آپ کے بارے میں سوچ رہا تھا اور ایک ساتھ گزرے اپنے وقت کو یاد کر رہا تھا۔ مُجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ ٹھیک ہیں۔ میرے لئے آپ کی نیک خواہشات، شفقت اور محبّت کےلئے آپ کا شکریہ۔ آپ میری پسندیدہ اور عزیز ترین شخصیت ہیں۔ آپ کو لکھتے وقت مَیں آپ کے عمدہ خیالات اور تصورات کےلئے شکر گزار ہوں۔ سیّدنا یسوع مسیح کی مصلوبیّت کے حوالے سے آپ کی بحث نے نہ صرف مُجھے متاثر کیا ہے بلکہ اِس میں میری دلچسپی کو بڑھایا ہے۔ مَیں اِس میں آپ کی طرف سے بہت سے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ حقائق کو بے نقاب کرنے کی ایک مخلصانہ خواہش اور واضح کوشش محسوس کر سکتا ہوں۔ مُجھے ایسے بھائی پر فخر ہے جِس کے پاس اتنا وسیع علم اور تمام پہلوؤں میں تحقیق کرنے کی صلاحیت ہے۔

مُجھے آپ کے بیان کردہ واقعات پر کوئی اعتراض نہیں۔ تاہم، میرے نزدیک ہر واقعہ کا کوئی نہ کوئی ظاہری پہلو ہوتا ہے جو کسی غیر ظاہر پہلو سے مطابقت رکھتا ہے۔ مثلاً، جب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کسی شخص کا چہرہ زرد پڑ گیا ہے اور وہ کانپ رہا ہے، تو ہم جانتے ہیں کہ یہ ردعمل اُس اندرونی کیفیت کی وجہ سے ہے جِسے ہم خوف کہتے ہیں۔ مصلوبیّت کے بارے میں قرآنی بیان کے تعلق سے کہ "۔۔۔ اور اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی پر چڑھایا بلکہ اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی" (سورۃ النسآء 4: 157)، کُچھ لوگ اِس سوچ سے مطمئن تھے کہ یہ واقعی مسیح تھا جِسے مصلوب کیا گیا تھا، جبکہ بعض اِس تعلق سے شک میں تھے۔

اَب مسیح کو کیوں مصلوب کیا گیا؟ آپ کہتے ہیں کہ یہ آدم کے گناہ کا کفّارہ تھا جو گناہ تمام نسلِ اِنسانی کو منتقل ہُوا، کیونکہ اُس کے گناہ کے نتیجے میں رُوحانی موت واقع ہوئی۔ جو جان گناہ کرتی ہے وہ مرے گی، اور یہ موت الٰہی غضب اور رُوحانی موت ہے۔ مَیں آپ سے مُتّفِق ہوں کہ جناب آدم بنی نوع اِنسان کی نمائندہ تھے۔ اِس تعلق سے کِسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

Table 4. 

ہر چیز ہے ممکن خُدا کےلئے، دُور کُچھ بھی نہیں     
سارے عالم کو ایک میں پرونا، یہ بھی ممکن ہے     

اگر جناب آدم کا گناہ معاف نہیں کیا گیا تھا، تو وہ خُدا کے غضب کے باعث موت کا شکار ہوئے اور جہنم کے مستحق ٹھہرے۔ اِسی طرح نسل آدم کے ساتھ ہُوا، جِن کے گناہ معاف نہیں ہوئے اور وہ بھی جہنم میں گئے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے مسیح تک ہر کوئی جِس کے گناہ معاف نہیں ہوئے جہنم کی آگ میں ہے۔ دوسری طرف، چونکہ مسیح نے آدم کے گناہوں کا کفّارہ دیا ہے، اِس لئے اُس نے اُس کی اولاد کے گناہوں کا بھی کفّارہ ادا کیا ہے۔ گناہ نے تمام بنی نوع انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور یہ مسیح کے بعد آنے والے تمام لوگوں کےلئے آدم کے گناہ کی معافی کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن آدم کا گناہ اُن لوگوں کو معاف نہیں کیا گیا جو مسیح سے پہلے رہتے تھے۔ مسیح کے بعد رہنے والے لوگ خوش قسمت ہیں، جبکہ مسیح سے پہلے رہنے والے بدقسمت ہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ مسیح کے زمانے سے پہلے کے لوگوں کو معاف کر دیا گیا، تو مَیں پوچھوں گا کہ جب اُنہیں معاف کیا گیا تو وہ گناہ میں کیوں زندہ رہے اور اُس میں مرے؟ کیا ایک شخص اپنی موت کے بعد اپنے گناہوں کی معافی پا سکتا ہے، جب وہ زندہ نہ رہے؟

میرے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ عیسیٰ کے قاتل بھی تو آدم کے گناہ سے داغدار تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خُداوند اُن لوگوں کے ہاتھوں مارا جائے اور قاتلوں کو اُن کے کئے کی معافی مل گئی۔ نیز، عیسیٰ کی موت سے پہلے والے کفّارہ کے مستحق کیوں نہیں تھے، جبکہ عیسیٰ کے بعد والے اُس کے مستحق تھے؟ کیوں عیسیٰ اُس وقت قربان نہیں ہوئے جب آدم نے گناہ کیا تھا؟ یوں سب کا گناہ یکساں طور پر معاف کیا جا سکتا تھا۔ چونکہ خُدا قادر مُطلق ہے اور اُس کےلئے کُچھ بھی ناممکن نہیں، تو کیوں وہ اپنے بیٹے کے مارے جانے، مُنہ پر تھوکے جانے اور مصلوب ہونے کی اجازت دیئے بغیر آدم اور اُس کی اولاد کا گناہ معاف نہیں کر سکتا تھا؟ اِس معاملے کو مسیح کے زمانے تک مؤخر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

نیز، کیوں آدم کو گناہ کےلئے جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے؟ کیا اِس کا سبب شیطان نہیں ہے؟ کیا خُداوند نے شیطان کے سبب سے تضحیک سہی اور مارا گیا؟ خُدا بغیر کسی مشکل کے اور عیسیٰ کے آدم اور اُس کی اولاد کے فدیہ کی قیمت ادا کرنے کی ضرورت کے بغیر بہت سے گناہوں کو معاف کر سکتا تھا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ نجات دہندہ منطقی طور پر چھٹکارا پانے والے سے برتر ہے۔ تو پھر کیسے آدم کا گناہ خُدا کے سامنے عیسیٰ کی نسبت زیادہ اہم تھا؟

مَیں یہ بھی سوچتا ہوں کہ جب شیطان نے آدم سے گناہ کرایا تو موت کا حقدار تو وہ تھا، کیونکہ عیسٰی نہیں بلکہ وہ مسئلہ کا سبب تھا۔ اگر خُدا انصاف کے ساتھ سزا دینا چاہتا تھا تو کیا یہ زیادہ مناسب نہیں تھا کہ بے گناہ خُداوند مسیح کو شیطان کے جرم کےلئے سزا دینے کے بجائے شیطان کو اُس کی نافرمانی اور آدم کو بہکانے کی وجہ سے اذیت دی جاتی اور مارا جاتا؟

یوں مُجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی کہ مصلوب شخص عیسیٰ سے مشابہت رکھتا تھا۔ باپ بیٹے کی شبیہ بنا سکتا تھا، یہاں تک کہ عیسیٰ کی والدہ اور شاگرد اُسے حقیقی مسیح سمجھنے لگے۔ اِس طرح باپ نے عیسیٰ کو اہانت و موت سے بچا لیا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ قرآنی الفاظ "۔۔۔اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی پر چڑھایا۔۔۔" اِسی خیال کی ترجمانی کرتے ہوں۔ وہ اُنہیں قتل کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی دوسرے شخص کو قتل کر دیا جو اُن کے مشابہ تھا، اور وہ سمجھے کہ یہ واقعی عیسیٰ تھا۔

خُدا تعالیٰ نے فدیہ کے عمل کو پہلے سے مقرر کیا تھا، اور اِس کی ایک جھلک اُس واقعے میں نظر آتی ہے جب خُدا نے جناب ابراہیم کو اپنے بیٹے اِسمٰعیل کو قربان کرنے کا حکم دیا۔ لیکن جب ابراہیم اِسمٰعیل کو قربان کرنے کو تھے تو خُداتعالٰی نے ایک فرشتہ بھیجا جِس نے اسمٰعیل کی جگہ قربان کرنے کےلئے ایک مینڈھا فراہم کیا۔ فطری طور پر، آپ اِس بات سے اِتّفاق کریں گے کہ فدیہ پانے والا اِسمٰعیل، اُس مینڈھے سے زیادہ معزز تھا جِس سے اُسے چھڑایا گیا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خُدا اِسمٰعیل کو جو اپنے باپ کے ہاتھوں قربان ہونے والا تھا چھڑاتا اور اپنے پیارے مسیح کو نہ چھڑاتا کہ وہ اپنے دشمنوں کے شریر ہاتھوں سے بچایا جائے جو اُسے ناحق قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے؟ کیا خُدا کےلئے ممکن نہیں تھا کہ جیسے ایک مینڈھے کے ذریعے اُس نے اِسمٰعیل کو بچایا تو وہ کسی پر مسیح کی شبیہ ڈال کر اُنہیں بچاتا اور دیکھنے والے سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ مصلوب ہونے والا مسیح تھا؟ میری دانست میں ایسے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

چونکہ یہ بحث کافی طویل ہے، اِس لئے مَیں اِنہی باتوں پر اکتفا کروں گا اور اُمّید ہے کہ آپ میرے سوالات کے جوابات فراہم کریں گے۔ مَیں نے جو حقائق بیان کئے ہیں اُنہیں جزوی طور پر بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مَیں خُدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی مدد کرے اور آپ کو ہر خوشی اور کامیابی عطا کرے۔

آپ کی صحت اور اطمینان کا متمنّی

حسّان

***

مَیں نے حسّان کا خط پڑھا اور اُس کے اُٹھائے گئے سوالات پر غور کیا جِن میں کسی حد تک سنجیدگی اور گہرائی کا اِشارہ ملا۔ اِس خط پر غور کرنے سے مُجھے یقین ہو گیا کہ میرا بھائی اپنے سوالات سے مُجھے شرمندہ کرنے کا اِرادہ نہیں رکھتا، بلکہ اُس نے اُمّید ظاہر کی ہے کہ شاید مَیں مسیح کی زمینی زندگی کے اختتام پر کُچھ روشنی ڈالوں گا۔ وہ ابھی تک اہل باطنیہ کے نظریات سے آزاد نہیں ہُوا تھا۔ اِس مکتبہ فکر کے پیروکار انبیاء کی وفات کو نہیں مانتے۔ اِس کے برعکس وہ اُن کی زمینی زندگی کے اختتام کو "غيبه" کہتے ہیں جِس کا عربی میں مطلب ہے "پوشیدہ ہو جانا۔" لہٰذا، مُجھے ایک بار پھر صلیب کے موضوع کی طرف لوٹنے پر حیرت نہیں ہوئی، بلکہ مندرجہ ذیل خط میں اُس کے استفسارات کا جواب دیتے ہوئے مُجھے خوشی ہوئی:

میرے عزیز بھائی،

مُجھے تمہارا خط ایسے وقت میں ملا جب میری رُوح تسلّی کو ترس رہی تھی۔ میری عاجزانہ حالت اور معمولی تعلیمی قابلیت کے باوجود تم نے مسلسل میرا علمی قد بڑا بیان کیا ہے۔ مَیں خُداوند اپنے خُدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مُجھے راہ، حق اور زندگی، ہمارے خُداوند یسوع مسیح تک لانے کےلئے ایک حیرت انگیز طریقہ استعمال کیا۔ اُس نے نجات بخش خون کے وسیلہ سے میری خطاؤں کو ڈھانکا اور میرے گناہوں کو دھو دیا۔ یہ تمہارے سامنے گواہی ہے کہ وہ اِس مِٹّی کے برتن کو جو کُچھ عرصہ پہلے تک ذِلّت کا برتن تھا، عِزّت کے برتن کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اُس نے تمہارے سامنے مُجھ پر اپنے کرم کی نگاہ کی ہے تا کہ مَیں اِس اہم موضوع کے تعلق سے تمہاری راہنمائی کر سکوں۔

عزیزی، تمہارے خط میں دس اہم سوالات اور قضیے درج ہیں جِن کی تحقیق کی کوشش اپنے مُعلّم یسوع کی مدد چاہتے ہوئے کرنا چاہتا ہوں۔

چونکہ اِن معاملات کا تعلق اِنسان کےلئے خُدا کے مقاصد سے ہے جو اُس نے اپنے رُوح القُدس کے الہام کے ذریعے سے دیئے ہیں، اِس لئے مَیں تم سے اِلتماس کرتا ہوں کہ میرے ساتھ خُدا کے کلام کو دیکھو، اُس کی مُقدّس حضوری میں تعظیم کے ساتھ اُس کے جلال کے سامنے اپنا سر جھکا لو۔ آؤ، ہم اُس کی بادشاہی کے بھیدوں اور نجات کے بابرکت مقاصد کو جو ہم پر ظاہر ہوئے ہیں قبول کریں۔

آؤ ہم متنازعہ خیالات یا فکری جھگڑے کے بغیر سچّائی کے اِن اعلانات تک پہنچیں، کیونکہ کلامِ خُدا اِتنا بلند اور قابل احترام ہے کہ اِنسانی جانچ کے تابع نہیں ہے، اور اِتنا بلند اور مُقدّس ہے کہ اِنسانی عقل منطق کے ترازو سے اِسے تول نہیں سکتی جو ہمیشہ اِنسانی عوامل کے تابع رہتی ہے جو جذبات اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ آؤ ہم ہر اُس سوچ سے دُور رہیں جو اِلٰہی سچّائی کو ہمارے رُجحانات، ذوق یا اجداد سے ملنے والے غلط عقائد کے مطابق لے کر آتی ہے جنہیں ہم نے بغیر تحقیق کے تسلیم کر لیا ہے۔ آؤ ہم آسمانی سچّائی کے منبع سے گزارش کریں کہ ہمیں فضل اور فہم کی رُوح عطا کرے، تا کہ ہم ہر اُس خیال کو ڈھا سکیں جو اِلٰہی معرفت کے خلاف اُٹھتا ہے، کیونکہ اِنسانی علم یا حکمت کا اِستعمال کرتے ہوئے اِلٰہی حقائق کا جائزہ لینا گناہ سے داغدار اور تاریکی کے شکار اِنسانی دِل سے خُدا کی توہین ہے۔ پولس رسول نے کہا: "واہ! خُدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں! خُداوند کی عقل کو کس نے جانا؟ یا کون اُس کا صلاح کار ہُؤا؟ یا کس نے پہلے اُسے کچھ دیا ہے جِس کا بدلہ اُسے دیا جائے؟ کیونکہ اُسی کی طرف سے اور اُسی کے وسیلہ سے اور اُسی کےلئے سب چیزیں ہیں۔ اُس کی تمجید ابد تک ہوتی رہے۔ آمین" (نیا عہدنامہ، رومیوں 11: 33۔ 36)۔

تمہارا خط پڑھنے سے یہ واضح ہے کہ تم اُن وجوہات سے واقف ہو جِن کی وجہ سے فدیہ کی ضرورت تھی۔ لیکن تمہارا نظریہ اِنسانی منطق سے وابستہ بعض عقیداتی اثرات سے متاثر ہے۔ اگرچہ مَیں تمہاری خوبی کی قدر کرتا ہوں، تاہم مُجھے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نجات کی سچّائی کو قبول کرنے میں تمہاری ہچکچاہٹ کےلئے تمہیں پورے خلوص کے ساتھ سرزنش کروں۔ خُدا کی رحمت اور آزاد کرنے والی سچّائی کی گواہی کے باعث مَیں تم سے گزارش کرتا ہوں کہ خُدا کی بیش قیمت کتاب میں منکشف اِلٰہی سچّائیوں کی تصدیق کی کوشش میں کسی بھی عقلی تشریح یا استدلال سے گریز کرو۔ کلامِ خُدا کے مطابق اِن سچّائیوں کی "کوئی بات آدمی کی خواہِش سے کبھی نہیں ہُوئی بلکہ آدمی رُوحُ القُدس کی تحرِیک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے" (نیا عہدنامہ، 2۔ پطرس 1: 21)۔

اور اَب مَیں اُن مسائل کے جوابات فراہم کروں گا جو تم نے اپنے گذشتہ خط میں اُٹھائے ہیں۔

  1. "ہر واقعہ کا کوئی نہ کوئی ظاہری پہلو ہوتا ہے جو کسی غیر ظاہر پہلو سے مطابقت رکھتا ہے۔"

    حوادث کی تصویر کشی میں یہ فرض کرتے ہوئے کہ وہ تمہارے تجویز کردہ خارجی اور داخلی پہلوؤں کے مالک ہیں، یہ واقعی ایک اچھا اور منطقی استدلال ہے۔ یہ درست ہے کہ اِنسان تخیّلات اور ظاہریات کے تابع ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ الہام کے زیر اثر بھی آجاتا ہے۔ لیکن خُدا تعالیٰ کے فدیہ و مخلصی کے اعلانات کی یہ شان نہیں ہے، وہ تَو ایسے واضح اور قطعی ہیں کہ تاویل کا اُن میں عمل دخل نہیں۔ اِس تعلق سے وہ نبوّتیں حرف بحرف پوری ہوئی ہیں جو انبیاء کی تحریروں اور زبوروں میں درج ہیں، اور اِس بات کی گواہی اِنجیل مُقدّس میں موجود ہے۔

    تم مُجھ سے اِتّفاق کرو گے کہ خُدا تعالیٰ ہر طرح کی دھوکا دہی سے دور ہے۔ وہ قدّوس، کامل، راست اور صادِق ہے۔ اُس کے سارے اعمال بڑے واضح ہیں۔ جب آغازِ تخلیق عالم کے وقت اُس نے کہا "رَوشنی ہو جا" (توریت شریف، پیدایش 1: 3)، تو نور کا حدوث لازم تھا۔ اور جب اُس نے نور کو رَوشنی سے جُدا کیا (پیدایش 1: 4)، تو دونوں کے درمیان فرق تھا اور ہمیشہ واضح رہے گا۔ اِسی طرح، الٰہی بیانات واضح ہیں، چھپے اور پوشیدہ نہیں ہیں، کیونکہ اِنسان کےلئے خُدا کے مقاصد اُن میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ابدی زندگی کےلئے اِنسان کی اُمّید اُن تعلیمات پر منحصر ہے جو اُن میں موجود ہیں۔

    تم پر یہ بھی واضح ہو کہ عہدنامہ قدیم میں خُدا نے اپنے آپ کو ظاہر کیا اور الہام کے ذریعہ اِنسان کےلئے اپنی مرضی کا اظہار بھی کیا۔ اُس نے اپنے اعلانات کو واضح بیان کیا تا کہ لوگوں کا سامنا ایسے اسرار کے ساتھ نہ ہو کہ جِن کا سمجھنا مشکل ہو، اور ایسا نہ ہو کہ ہم اندازے لگائیں اور قیاس آرائیوں کا سہارا لیں۔ نئے عہدنامہ میں، خُدا نے اپنے آپ کو مُجسّم کلام، یسوع مسیح کے ذریعے ظاہر کیا، جِس میں تمام پیشین گوئیاں تکمیل کو پہنچیں اور ساری رویائیں اُس کی آمد سے پوری ہوئیں۔ اُس نے اپنے وفادار رسولوں کے ذریعے ہمیں شریعت کے پورا ہونے کی حقیقت بتائی: "اگلے زمانہ میں خُدا نے باپ دادا سے حِصّہ بہ حِصّہ اور طرح بہ طرح نبِیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخِر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جِسے اُس نے سب چِیزوں کا وارِث ٹھہرایا اور جِس کے وسِیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کئے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 1: 1، 2)۔

    مسیح میں خُدا نے خود کو نہایت واضح کر دیا کہ ذرا بھی ابہام و شبہ نہیں رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو بھی تخلیق سے لے کر مُقدّس صحیفوں پر مہر ثبت ہونے تک اعلاناتِ الٰہیہ کا جائزہ لیتا ہے، وہ یہ سمجھ جائے گا کہ مخلصی سے متعلق الٰہی اعلانات پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہری واقعات میں پوری ہوئے۔ یوں عہدِ عتیق میں حقیقت کے سائے عہدِ جدید میں حقیقی بن گے، کیونکہ خُدا نور ہے اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں (نیا عہدنامہ، 1۔ یوحنّا 1: 5)۔

    مصلوبیّت کے واقعے میں نظریہ شبیہ کے حامی محض عقلیت پسندی کا سہارا لیتے ہیں، لیکن ہمیں حقائق کی ضرورت ہے۔ یہ حقائق اِنجیل مُقدّس میں پائے جاتے ہیں اور اُن پیشین گوئیوں پر مبنی ہیں جو انبیاء اور زبور کی تحریروں میں کتابِ مُقدّس میں کثرت سے موجود ہیں۔

  2. مسیح کو مصلوب حالت میں دیکھا گیا۔

    جِس مسئلہ کی تم نے نشاندہی کی ہے، وہ یہ ہے کہ "باپ بیٹے کی شبیہ بنا سکتا تھا، یہاں تک کہ عیسیٰ کی والدہ اور شاگرد اُسے حقیقی مسیح سمجھنے لگے۔ اِس طرح باپ نے عیسیٰ کو اہانت و موت سے بچا لیا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ قرآنی الفاظ '۔۔۔اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی پر چڑھایا۔۔۔' اِسی خیال کی ترجمانی کرتے ہوں۔"

    میرے عزیز بھائی، اگر مَیں تم سے صلیب کے واقعہ کی تمہاری محض تعليل اور قیاس کا استعمال کرنے والی تشریح پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کروں تو مُجھے معاف کرنا۔ کیونکہ تعليل تو وہاں ضروری ہوتی ہے جہاں معاملہ گنجلک ہو اور مبہم نصوص اور متضاد بیانات کی وجہ سے شکوک پیدا ہو جائیں، لیکن یسوع جِس نے اِنسانوں کو نُور اور ابدیت بخشی اُس نے اِس بات کو یقینی بنایا کہ تاویل و تشکیک کی کوئی گنجایش نہ ہو۔ اُس نے جِسم میں رہتے ہوئے اپنے شاگردوں اور پوری دُنیا کے سامنے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ گناہ کی قربانی کے طور پر صلیب پر مرنے اور اِنسان کو شریعت کی لعنت سے چھڑانے کےلئے آیا ہے۔ یوں مسیح کی صلیب پر موت نے اُن پیشین گوئیوں کو پورا کیا جو اُس کے تجسّد سے سیکڑوں برس پہلے کی گئی تھیں (میرا گذشتہ خط دیکھو)۔ ہم اپنی تحقیق میں قرآنی نصوص پر انحصار کرنے کے پابند نہیں ہیں جبکہ ہمارے پاس اِنجیل مُقدّس موجود ہے جِس میں اُن لوگوں کی گواہی ہے جو جناب مسیح کے ساتھ تھے، جنہیں مسیح نے تعلیم دی، جو اُس کی مصلوبیّت کے گواہ تھے اور یہی حقیقت اُن کی تعلیم و منادی کا موضوع بنی رہی کہ مسیح مصلوب ہو کر مرے تھے۔

    برادر عزیز، مسیح کی موت کے عینی شاہدین کے اقوال کو قرآن بیان نہیں کرتا، بلکہ اِس واقعہ کا صرف مختصر ذِکر کرتا ہے۔ قرآنی بیان سے ہم اِس واقعہ کی کھوج نہیں لگا سکتے۔ سورۃ آل عمران 3: 55 میں لکھا ہے، "اے عیسیٰ، بےشک مَیں تُجھے وفات دوں گا اور تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا ۔۔۔" اِس آیت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اِرتفاع سماوی ہُوا مگر بعد از موت۔ اگر مسیح آسمان میں اِس وقت موجود ہیں تو ضرور مرے ہوں گے۔ اَب ہمیں کیفیت موت جاننے کےلئے لامحالہ اِنجیل مُقدّس، تاریخ اور مسیحی کلیسیا کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جِس کی بُنیاد ہی مسیح مصلوب ہے۔

    اَب آؤ، قرآن کے الفاظ پر غور کریں جو سورۃ النسآء 4: 157 میں درج ہیں: "۔۔۔ اور اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی پر چڑھایا بلکہ اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی۔" اگر ہم اِس قرآنی عبارت کو لفظی طور پر لیں تو ہمارے سامنے وفات کی کیفیت کی عدمیت کا ایک حیران کن نتیجہ ہے کہ مسیح کی موت تو ہوئی نہیں۔ اَب اگر مسیح مرے نہیں تو اُن کے آسمان پر ہونے کے کیا معنٰی ہیں۔ اگر وہ آسمان پر نہیں تو زمین پر ہوں گے، اور اگر وہ زمین پر ہیں تو مَیں پوچھوں گا کہ وہ جگہ بتائی جائے جہاں وہ ہیں۔

    تو منطقی استدلال میں اُلجھے اور بھٹکتے رہنے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم وہ رائے مان لیں جِس سے نصوصِ قرآنی اور نصوصِ اِنجیل میں تضاد نہ رہ جائے؟ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ سورۃ النسآء 4: 157 کے الفاظ میں حقیقتِ صلیب کی نفی ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یسوع اُستاد کو قتل کرنے میں یہودیوں کا مقصد اُس کی تعلیمات کے پھیلاؤ کو روکنا تھا۔ لیکن مسیح کے جسد کے دِنوں کے مقابلے میں اُس کی موت کے بعد مسیح کی تعلیمات زیادہ پھیل گئیں، اور یہودی اپنی کوشش میں ناکام رہے۔ یوں ہم منطقی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے اُسے قتل نہیں کیا۔

    اَب مُجھے اِجازت دو کہ مَیں دوسرے مسئلہ میں سے تمہارے الفاظ "دیکھا گیا" کی جگہ لفظ "دیکھا" کا استعمال کروں، کیونکہ صلیب کا واقعہ محض رویا نہیں تھا بلکہ وہ تدبیر الٰہی تھی کہ لوگ اچھی طرح سے دیکھ لیں کہ مسیح کی موت صلیب پر ہوئی۔ اَب اگر اِس نظریہ کو مان لیا جائے کہ وہ مرے نہیں بلکہ کوئی اَور اِنسان مرا جِس پر یسوع کی شبیہ ڈال دی گئی تھی تو یہ صلیب کے واقعہ کی تکذیب ہوئی اور اُس مکاشفہ کی بھی جو خُدا تعالٰی نے انبیا کو دیا۔ اِس سے خُدا کی امانت و صِدق پر اتہام آتا ہے۔ یہ خُدا پر اپنے اُس منصوبہ سے بھی پیچھے ہٹنے کا اِلزام ہے جو اُس نے ازل سے تیار کیا تھا اور بنی نوع اِنسان پر اُس کا اعلان کیا تھا۔

    اگرچہ مَیں تمہیں پہلے ہی مسیح کی مصلوبیّت کی تصدیق کرنے والے متعدد ثبوت فراہم کر چکا ہوں، لیکن مَیں اِس موقع پر اِس حقیقت کی مزید تصدیق کرنے والے ثبوتوں کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا:

    الف۔ معجزات: مُقدّس متّی ہمیں بتاتا ہے کہ جب یسوع نے اپنی جان دی تو یہ تیسرا پہر تھا، اور دوپہر سے تیسرے پہر تک تمام مُلک میں اندھیرا چھایا رہا۔ اُس موقع پر مقدِس کا پردہ اُوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ زمین لرزی اور قبریں کُھل گئیں اور بہت سے سوئے ہوئے مُقدّسین کے بدن میں جان آ گئی، جو مسیح کے جی اُٹھنے کے بعد مُقدّس شہر میں گئے اور بہتوں کو دِکھائی دیئے (اِنجیل بمطابق متّی 27: 50۔ 54)۔

    یہ عجیب مظاہر تھے جِس سے اِنسانی نفوس کی طرح طبعی عناصر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ وہاں اِنسانی نفوس پر دہشت چھا گئی۔ رومی صوبہ دار اور اُس کے ساتھیوں نے مسیح مصلوب کا یقین کیا اور کہا: "بےشک یہ خُدا کا بیٹا تھا" (متّی 27: 54)۔ یہ ایک انوکھا واقعہ تھا، جو تاریخ میں کسی بھی اِنسان کی موت کے بعد اِس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہیں ہُوا۔

    ب۔ قیامت (مُردوں میں سے جی اُٹھنا): فقیہوں اور فریسیوں کے سامنے اپنے اِن الفاظ کی تکمیل کےلئے کہ "اِس مقدِس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تین دِن میں کھڑا کر دُوں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 2: 19)، جناب مسیح قبر میں سے جی اُٹھے اور اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوئے:

    (1) عورتوں پر ظہور:

    "اور سبت کے بعد ہفتہ کے پہلے دِن پَو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دُوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیں۔ اور دیکھو ایک بڑا بَھونچال آیا کیونکہ خُداوند کا فرِشتہ آسمان سے اُترا اور پاس آ کر پتّھر کو لڑھکا دِیا اور اُس پر بَیٹھ گیا۔ اُس کی صُورت بِجلی کی مانِند تھی اور اُس کی پوشاک برف کی مانِند سفید تھی۔ اور اُس کے ڈر سے نِگہبان کانپ اُٹھے اور مُردہ سے ہو گئے۔ فرِشتہ نے عَورتوں سے کہا، تُم نہ ڈرو کیونکہ مَیں جانتا ہُوں کہ تُم یسوع کو ڈھونڈتی ہو جو مصلُوب ہُؤا تھا۔ وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابِق جی اُٹھا ہے۔ آؤ یہ جگہ دیکھو جہاں خُداوند پڑا تھا۔ اور جلد جا کر اُس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور دیکھو وہ تُم سے پہلے گلیل کو جاتا ہے۔ وہاں تُم اُسے دیکھو گے۔ دیکھو مَیں نے تُم سے کہہ دِیا ہے۔ اور وہ خَوف اور بڑی خُوشی کے ساتھ قبر سے جلد روانہ ہو کر اُس کے شاگردوں کو خبر دینے دوڑِیں۔ اور دیکھو یسوع اُن سے مِلا اور اُس نے کہا، سلام! اُنہوں نے پاس آ کر اُس کے قدم پکڑے اور اُسے سِجدہ کیا۔ اِس پر یسوع نے اُن سے کہا، ڈرو نہیں۔ جاؤ میرے بھائِیوں سے کہو کہ گلیل کو چلے جائیں۔ وہاں مجھے دیکھیں گے۔" (اِنجیل بمطابق متّی 28: 1۔ 10)

    یہ واقعہ کتابِ مُقدّس میں خُدا تعالیٰ کے الہام سے درج ہے۔ مصدّق کلمتہ اللّہ کےلئے اِس کا اِنکار کرنا ممکن نہیں۔ اگر کوئی اِس کا اِنکار کرتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ گویا خُدا نے فرشتوں کو سِکھایا کہ لوگوں کو غلطی میں مبتلا ہونے دیں۔ کیا تمہیں اِس کا یقین ہے؟

    (2) اِمّاؤُس کی راہ پر جانے والے دو شاگردوں پر ظہور:

    "اور دیکھو اُسی دِن اُن میں سے دو آدمی اُس گاؤں کی طرف جا رہے تھے جِس کا نام اِمّاؤُس ہے۔ وہ یروشلیم سے قرِیباً سات مِیل کے فاصلہ پر ہے۔ اور وہ اِن سب باتوں کی بابت جو واقع ہُوئی تِھیں آپس میں بات چِیت کرتے جاتے تھے۔ جب وہ بات چِیت اور پُوچھ پاچھ کر رہے تھے تو اَیسا ہُؤا کہ یسوع آپ نزدِیک آ کر اُن کے ساتھ ہو لِیا۔ لیکن اُن کی آنکھیں بند کی گئی تِھیں کہ اُس کو نہ پہچانیں۔ اُس نے اُن سے کہا، یہ کیا باتیں ہیں جو تُم چلتے چلتے آپس میں کرتے ہو؟ وہ غمگِین سے کھڑے ہو گئے۔ پِھر ایک نے جِس کا نام کلِیُپاس تھا جواب میں اُس سے کہا، کیا تُو یروشلیم میں اکیلا مسافر ہے جو نہیں جانتا کہ اِن دِنوں اُس میں کیا کیا ہُؤا ہے؟ اُس نے اُن سے کہا، کیا ہُؤا ہے؟ اُنہوں نے اُس سے کہا، یسوع ناصری کا ماجرا جو خُدا اور ساری اُمّت کے نزدِیک کام اور کلام میں قُدرت والا نبی تھا۔ اور سردار کاہِنوں اور ہمارے حاکِموں نے اُس کو پکڑوا دِیا تا کہ اُس پر قتل کا حکم دِیا جائے اور اُسے مصلُوب کیا۔ لیکن ہم کو اُمّید تھی کہ اِسرائیل کو مُخلصی یہی دے گا اور علاوہ اِن سب باتوں کے اِس ماجرے کو آج تِیسرا دِن ہو گیا۔ اور ہم میں سے چند عَورتوں نے بھی ہم کو حَیران کر دِیا ہے جو سویرے ہی قبر پر گئی تھیں۔ اور جب اُس کی لاش نہ پائی تو یہ کہتی ہُوئی آئِیں کہ ہم نے رویا میں فرِشتوں کو بھی دیکھا۔ اُنہوں نے کہا، وہ زِندہ ہے۔ اور بعض ہمارے ساتِھیوں میں سے قبر پر گئے اور جَیسا عَورتوں نے کہا تھا وَیسا ہی پایا مگر اُس کو نہ دیکھا۔ اُس نے اُن سے کہا، اَے نادانو اور نبیوں کی سب باتوں کے ماننے میں سُست اِعتقادو! کیا مسیح کو یہ دُکھ اُٹھا کر اپنے جلال میں داخِل ہونا ضرور نہ تھا؟ پِھر مُوسیٰ سے اور سب نبیوں سے شرُوع کر کے سب نوِشتوں میں جِتنی باتیں اُس کے حق میں لِکھی ہُوئی ہیں وہ اُن کو سمجھا دِیں۔ اِتنے میں وہ اُس گاؤں کے نزدِیک پُہنچ گئے جہاں جاتے تھے اور اُس کے ڈھنگ سے اَیسا معلوم ہُؤا کہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اُنہوں نے اُسے یہ کہہ کر مجبُور کیا کہ ہمارے ساتھ رہ کیونکہ شام ہُؤا چاہتی ہے اور دِن اب بُہت ڈھل گیا۔ پس وہ اندر گیا تا کہ اُن کے ساتھ رہے۔ جب وہ اُن کے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھا تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے روٹی لے کر برکت دی اور توڑ کر اُن کو دینے لگا۔ اِس پر اُن کی آنکھیں کھل گئِیں اور اُنہوں نے اُس کو پہچان لِیا اور وہ اُن کی نظر سے غائِب ہو گیا۔" (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 13۔ 31)

    مُلاحظہ ہو کہ یسوع نے اپنے اِن دونوں شاگردوں کو صلیب پر اپنی موت اور جی اُٹھنے کے حقائق کے بارے میں صحائف انبیاء کے مطابق یاد دلایا۔ پھر آپ نے اُن کو پیشین گوئیوں کا مفہوم سمجھاتے ہوئے اِس بات کی تصدیق کی کہ وہ بڑے واضح انداز میں پوری ہوئی ہیں۔

    (3) گیارہ شاگردوں پر ظہور:

    "پِھر اُسی دِن جو ہفتہ کا پہلا دِن تھا شام کے وقت جب وہاں کے دروازے جہاں شاگرد تھے یہودِیوں کے ڈر سے بند تھے یسوع آ کر بیچ میں کھڑا ہُؤا اور اُن سے کہا، تُمہاری سلامتی ہو! اور یہ کہہ کر اُس نے اپنے ہاتھوں اور پسلی کو اُنہیں دِکھایا۔ پس شاگرد خُداوند کو دیکھ کر خُوش ہُوئے۔ یسوع نے پِھر اُن سے کہا، تُمہاری سلامتی ہو! جِس طرح باپ نے مُجھے بھیجا ہے اُسی طرح مَیں بھی تُمہیں بھیجتا ہُوں۔ اور یہ کہہ کر اُن پر پُھونکا اور اُن سے کہا، رُوحُ القُدس لو۔ جِن کے گناہ تُم بخشو اُن کے بخشے گئے ہیں۔ جِن کے گناہ تُم قائِم رکھو اُن کے قائِم رکھے گئے ہیں۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 19۔ 23)

    برادر، میرا نہیں خیال کہ تمہاری یہ سوچ ہو گی کہ ایک عام شخص بند دروازوں میں سے داخل ہو سکتا ہے۔ ضرور وہ خود جناب مسیح ہی ہوں گے، کیونکہ آپ نے اُنہیں اپنے ہاتھوں اور پیروں کے زخم دِکھائے۔ اِس طرح، آپ نے کسی بھی طرح کے شکوک و شبہات کو دُور کرنے کےلئے کافی ثبوت پیش کئے، اور ویسے ہی شبہات تمہارے خیالات پر بھی قابض ہیں۔ اَب تم میرے ساتھ دیکھ سکتے ہو کہ حقیقت روزِ روشن کی طرح صاف ہے۔ مسیح کے علاوہ کوئی بھی مُردوں میں سے زندہ نہیں ہو سکتا تھا۔ کون تھا جو قبر سے باہر آ سکتا تھا؟ قبر تو سِوائے خُدا کے قدُّوس کے جو مصلوب ہُوا اور مُردوں میں سے جی اُٹھا، اِنسان کے بدن کو جکڑ رکھتی ہے۔

    مسیح پر اِیمان رکھنے والے سچّے گواہوں سے بعید ہے کہ وہ اُن لوگوں کی سادگی کا فائدہ اُٹھا کر فریب کاری کا ڈرامہ رچاتے جنہوں نے مسیح پر بھروسا کیا تھا، اور دھوکے اور مکر پر دین کی بنیاد قائم کرتے۔ کیا خُداوند سماوی کے یہ بات شایانِ شان ہے جو تعلیم تو یہ دے کہ "تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر"، لیکن شاگردوں کو ناٹک جیسے دھوکے میں ڈالے اور توما سے ایک اداکار کی طرح گھٹنے ٹیک کر کہلوائے "اَے میرے خُداوند! اَے میرے خُدا" (یوحنّا 20: 28)۔

    یہاں پر ایک حقیقت اہم ہے جِسے پولس رسول نے بتایا ہے: "۔۔۔ نہ کوئی رُوحُ القُدس کے بغَیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خُداوند ہے" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 12: 3)۔ جب توما نے اپنے اُستاد کی پکار سُنی کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اُسے چھوئے، شک کرنا چھوڑ دے اور اِیمان لائے، تو توما نے رُوحُ القُدس کے زیر اثر کہا "اَے میرے خُداوند! اَے میرے خُدا" (یوحنّا 20: 28)۔

    آہ، میرے بھائی، میری خواہش ہے کہ میری تمام توانائیاں التجاؤں میں بدل جائیں، تا کہ مَیں خُدا کی رحمتیں یاد دِلاتے ہوئے تُجھ سے درخواست کروں کہ آسمانی پیغام کے بارے میں مثبت رویہ اپناؤ اور دنیاوی اساتذہ کے پیش کردہ نظریات سے چمٹے رہنا چھوڑ دو، جو کہ حق کے متلاشی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ تم اُن خیالات کو رد کر دو جو سچّائی کے خلاف حملہ آور ہیں۔ الٰہی سچّائی کے پیش نظر ہمیں اپنے آباؤ و اجداد سے ملنے والے اُن تمام افکار سے دستبردار ہونے کی ضرورت ہے جو ایسی نظریاتی بیڑیاں بن چکے ہیں جنہیں اُتار پھینکنا مشکل ہے۔

    مَیں نے اپنے گذشتہ خط میں تمہارے لئے کلامِ خُدا میں سے بہت سی آیات کے اِقتباسات پیش کئے ہیں جو انبیاء اور رسُلاء کے توسّط سے ہمیں اُس فدیہ و مخلصی کے موضوع پر ملے جِسے خُدا نے مسیح میں تیار کیا تھا۔ مَیں نے تمہارے لئے یسوع کے اقوال کا بھی تذکرہ کیا جِن میں یسوع نے اِس بات کی تصدیق کی کہ آپ بہتیروں کے بدلہ فدیہ میں اپنی جان دینے آئے تھے۔ مُجھے یقین ہے کہ مخلصی میں اِلٰہی منصوبے کی بابت تمہارا علم اور اِن حقائق کو محتاط جانچ پرکھ اور قبولیّت تمہیں غیر جانبدار رہنے یا اُن نفیس نظریات اور منطقی بہانوں کے پیچھے چُھپنے کی اِجازت نہیں دے گی جو اہل حلول اور باطنیہ کے پیروکاروں کے ہیں۔

    صلیب پر مسیح کے بجائے کِسی دوسرے پر مسیح کی شبیہ کو فرض کر لینا ایک ایسی بات ہے جِس کےلئے ثبوت کی کمی ہے، کیونکہ وہ نہ تو نبوّتوں پر مبنی ہے نہ واقعہ کی حقیقت پر۔ صرف ظن ہی ظن اور تخمینہ ہی تخمینہ ہے۔ اور تخمینہ ایسے اہم معاملہ میں قابل اعتماد ثبوت نہیں بنتا۔ اگر باپ چاہتا تو بیٹے کو بچا لیتا، جیسا کہ تم نے لکھا ہے، اور مسیح کے دُشمنوں کو محض ایک معجزہ سے برباد کر دیتا جیسا کہ اُس نے اپنے نبی موسیٰ کو فرعون اور اُس کے لشکر سے چھڑایا تھا۔ اِسی طرح کوئی مکّارانہ چال جو اُس کے جلال و قدّوسیّت کے برعکس ہے، چلنے کے بجائے وہ مسیح کو اپنے پاس اُٹھا سکتا تھا، جیسے اُس نے حنوک اور ایلیاہ کو اُٹھایا تھا۔ ہمارے عظیم شاعر بدوي الجبل نے کہا ہے:

    Table 5. 

    خُدا اپنے اوپر اِیمان رکھنے والوں کو دھوکا نہیں دیتا     
    کیونکہ دھوکا تو اِنسان اِنسان کو دیتا ہے     

    مسیح نے صلیب کو ٹھکرایا نہیں۔ اِس لئے نہیں کہ یہ آپ پر فرض ہو چکی تھی، بلکہ آپ نے اِسے انسانوں کی نجات کے ذریعہ کے طور پر محبّت اور رضامندی سے قبول کیا۔ مسیح کے الفاظ پر غور کرو: "باپ مُجھ سے اِس لئے محبّت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتا ہُوں تا کہ اُسے پِھر لے لوں۔ کوئی اُسے مُجھ سے چھینتا نہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہُوں۔ مُجھے اُس کے دینے کا بھی اِختیار ہے اور اُسے پِھر لینے کا بھی اِختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مُجھے مِلا" (یوحنّا 10: 17، 18)۔

    اِن آیات کے ساتھ اگر اعمال کی کتاب کے ایک حوالے کو دیکھا جائے تو فدیہ کی حقیقت ہماری آنکھوں کے سامنے روزِ روشن کی طرح ہے، یعنی یہ کہ مسیح اِلٰہی مشورت کی تعمیل کرتے ہوئے ازلی محبّت کی خاطر آیا تا کہ اِنسان کے فدیہ کےلئے باپ کی خوشی پوری کرے: "اَے اِسرائیِلیو!یہ باتیں سُنو کہ یسوع ناصری ایک شخص تھا جِس کا خُدا کی طرف سے ہونا تُم پر اُن مُعجِزوں اور عجِیب کاموں اور نِشانوں سے ثابِت ہُؤا جو خُدا نے اُس کی معرفت تُم میں دِکھائے۔ چُنانچہ تُم آپ ہی جانتے ہو۔ جب وہ خُدا کے مقرّرہ اِنتِظام اور علمِ سابِق کے موافِق پکڑوایا گیا تو تُم نے بے شرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلُوب کروا کر مار ڈالا۔ لیکن خُدا نے موت کے بَند کھول کر اُسے جِلایا کیونکہ ممکن نہ تھا کہ وہ اُس کے قبضہ میں رہتا" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 22۔ 24)۔

    یہ فدیہ یسعیاہ نبی کی ایک نبوّت کی تکمیل بھی تھا:

    "لیکن خُداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔ اُس نے اُسے غمگِین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قُربانی کےلئے گُذرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عُمر دراز ہو گی اور خُداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسِیلہ سے پُوری ہو گی۔ اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادِق خادِم بُہتوں کو راست باز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بد کرداری خُود اُٹھا لے گا۔ اِس لئے مَیں اُسے بزُرگوں کے ساتھ حِصّہ دُوں گا اور وہ لوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کےلئے اُنڈیل دی اور وہ خطا کاروں کے ساتھ شُمار کیا گیا تَو بھی اُس نے بُہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطا کاروں کی شفاعت کی۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 10۔ 12)

    مُجھے کہنے دو کہ تم نے اپنے دلائل اور تاویلات میں کوئی نئی بات نہیں کی۔ نظریہ شبیہ کچھ عرصے سے زبان زد عام ہے جِس میں یہ اِلزام عائد کیا جاتا ہے کہ جب یہودیوں نے مسیح کو پکڑنے کی کوشش کی تو خُدا نے معجزانہ طور پر یہوداہ پر مسیح کی شبیہ ڈالی اور مسیح کو اُن کی نظروں سے چھپا لیا۔ چنانچہ یہودیوں نے یہوداہ کو مسیح سمجھ کر گرفتار کر لیا اور صلیب دے دی۔ باالفاظ دیگر، الزام یہ ہے کہ مسیح نے لوگوں کےلئے اللّہ کے اِس دھوکے کو اپنا لیا اور باغِ گتسمنی سے فرار ہو گئے اور دُور دراز کے مُلک میں جا کر اپنی زِندگی کے دِن دیگر عام اِنسانوں کی طرح گزار دیئے۔

    حسّان، کیا تم اِس کہانی پر یقین رکھتے ہو؟ کیا یہ معقول ہے کہ یہوداہ اُن لوگوں کے سامنے کوئی چیخ و پکار کئے بغیر پکڑ لیا جائے جنہیں وہ مسیح کو گرفتار کرنے کےلئے لے کر آیا تھا؟ درحقیقت یہ ایک ناقص کہانی ہے جو تصوّرات کے دھاگوں سے بنی ہوئی ہے جو مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے! مَیں یہ توقّع نہیں کرتا کہ تم حقّ کی جُستجو میں اِس مذموم جھوٹ کو بحث کی بنیاد بناؤ گے۔ یہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ناممکن بھی ہے:

    الف: ایک عملی نکتہ نظر کے اعتبار سے: اِنجیل مُقدّس کی روایت کے مطابق مسیح کو دھوکے سے پکڑوانے کے بعد یہوداہ اپنے کئے پر پچھتایا۔ اُسے رہ رہ کر مسیح کے الفاظ یاد آ رہے ہوں گے: "اَے یہوداہ، کیا تُو بوسہ لے کر ابنِ آدم کو پکڑواتا ہے؟" (اِنجیل بمطابق لوقا 22: 48)۔ اُس کی پشیمانی اِس حد تک بڑھی کہ وہ کاہنوں کے پاس واپس گیا اور اُن سے وصول کی گئی رقم اُن کے سامنے پھینک دی، لیکن اُنہوں نے اُسے لینے سے انکار کر دیا۔ اُنہوں نے اُسے اپنے کئے کا ذمّہ دار ٹھہرایا، اور اُس نے جا کر اپنے آپ کو پھانسی دے دی۔ اگر یہوداہ ہی وہ شخص ہوتا جِس پر شبیہ ڈالی گئی تھی، اور گرفتار کر کے بندھے ہاتھوں سے مقدّمہ کےلئے گھسیٹا گیا تھا، تو پِھر اُس کا رقم واپس کرنے کےلئے ہیکل میں جانا ناممکن ہوتا کیونکہ ارباب اختیار اور سپاہی قیدی کو موت کے حوالے کئے جانے سے پہلے ایک لمحہ کےلئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔

    ب: اخلاقی اعتبار سے: اگر پیش کردہ دلیل کو بفرض محال مان لیا جائے تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ جو شخص رقم لوٹانے گیا وہ یہوداہ نہیں بلکہ خود مسیح تھا۔ اور اِس ناٹک کے تمام ایکٹ جنہیں اللّہ نے رچا تھا، مکمل کرنے کےلئے مسیح نے یہوداہ کی شکل کے ساتھ خود کو پھانسی دے دی۔ یا پھر اللّہ نے کسی اَور اِنسان کو پیدا کیا جو یہوداہ کی شکل و صورت کا تھا اور اُس کی خودکشی کروا دی۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ تم اُس قدّوس و برحق ذات کی طرف اتنا بڑا مذاق منسوب کرنے پر راضی ہو گے۔

    ج: عالمانہ نکتہ نظر کے اعتبار سے: یہ یقین کرنا ناممکن ہے کہ جو صلیب پر لٹکایا گیا وہ خود مسیح نہیں تھا، کیونکہ صلیب پر سے مسیح نے جو سات آخری کلمات کہے وہ محبّت، پاکیزگی اور رحم سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ کلمات یہوداہ جیسے خائن اور دغاباز کی زبان سے کیسے ادا ہو سکتے تھے؟ اگر تم تاریخ پر ایک نگاہ ڈالو اور اُن لوگوں کے مُقدّمات کا جائزہ لو جنہیں صلیب پر لٹکایا گیا تھا، تو تم دیکھو گے کہ ایسے لوگوں کے آخری لمحات گالی گلوچ اور بدترین لعنتیں بولنے میں گزرے۔ تاہم، جہاں تک مسیح کا تعلق ہے تو آپ کے صلیب پر اوّلین الفاظ معافی کے الفاظ تھے، اور اختتامی الفاظ "تمام ہُوا" تھے جِن کا مفہوم ہے کہ مخلصی کا کام مکمل ہو گیا۔ یہ محبّت کا اعلٰی ترین اِظہار تھا۔

    د: تاریخی تناظر کے حوالے سے: مسیح کی موت کے بارے میں محقّقین کو ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جِس میں گلگتا کے واقعہ کے عینی شاہدین خواہ وہ رومی تھے یا یہودی یا کوئی اَور، صلیب پر مسیح کی موت کی رسولوں اور مومنوں کے بیان کی تردید کرتے ہوں۔ بلکہ معتبر مؤرّخین نے تصدیق کی ہے کہ یہ کوئی اَور نہیں بلکہ یسوع مسیح تھا جو صلیب پر مرا۔

    عزیزی حسّان، اِن سچّائیوں کو قبول کرنے میں تمہاری ہچکچاہٹ ظاہر کرتی ہے کہ شاید تمہیں شک ہے کہ حقیقت میں مسیح صلیب پر مر گیا ہے۔ تو مَیں کہوں گا کہ کتابِ مُقدّس کے حقائق اور تاریخ کی تائید تو یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ہاں مسیح صلیب ہی پر مرا تھا۔

    (1) اِنجیلی بیانات کی گواہی: اناجیل اربعہ کے بیانات تاریخی ثبوت ہیں جو غلط ثابت نہیں ہو سکتے۔ اُن میں ایسے عینی شاہدین کی گواہی موجود ہے جنہوں نے نہ صرف مسیح کو دیکھا اور سُنا بلکہ چھؤا بھی تھا۔ پھِر قانون میں بھی عینی شاہدین کی بڑی وقعت ہے، خاص کر اُس وقت اِس وقعت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب عینی شاہدین اعلٰی اخلاق حمیدہ رکھتے ہوں، اور اِس موجودہ معاملہ میں یہ بات سچّ ہے۔ جن اشخاص کے واقعات اناجیل میں درج کئے گئے وہ مسیح کے شاگردوں میں سے تھے اور اِیمانداری اور اعلٰی اخلاق کے حامل تھے، جِن کی اِیمانداری پر شک کرنا حق کی مخالفت ہے، خاص کر جبکہ مسیح کے اِن شاگردوں اور پیروکاروں نے اپنی باقی زِندگی اِنسانوں میں اِنجیل کی تبلیغ کےلئے وقف کر دی اور اِس سچّائی کو لے کر زمین کی اِنتہا تک گئے، اور کِسی بھی طرح کی مشقّت، ایذا رسانی یہاں تک کہ موت اُنہیں ایسے کرنے اور کہنے سے روک نہیں سکی۔ کوئی بھی فرد اِس سے انکار نہیں کر سکتا۔

    (2) نئے عہدنامہ کی دیگر کتابوں کی گواہی: نئے عہدنامہ کی دیگر کتابوں میں جو خُدا کے الہام سے لکھی گئیں تھیں، ہمیں رسولوں کی تعلیمات اور منادی کا ایک جامع بیان ملتا ہے جنہوں نے دُنیا کے سامنے مسیح مصلوب کا پرچار کیا۔ پولس رسول نے کہا: "لیکن خُدا نہ کرے کہ مَیں کسی چیز پر فخر کرُوں سِوا اپنے خُداوند یسوع مسیح کی صلِیب کے جِس سے دُنیا میرے اِعتبار سے مصلُوب ہُوئی اور مَیں دُنیا کے اِعتبار سے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 6: 14)۔

    (3) نبوّت کی گواہی: پرانے عہدنامہ کے انبیاء نے مسیح کی موت کے بارے میں بات کی، اور بتایا کہ مسیح کے تجسّم کا مقصد بنی نوع اِنسان کی مخلصی کےلئے اپنے آپ کو قربانی کے طور پر پیش کرنا تھا۔ مسیح نے بھی بذاتِ خُود اپنے جی اُٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں سے گفتگو میں اُن پیشین گوئیوں کا ذِکر کیا۔ درحقیقت حضرت موسیٰ، داؤد، یسعیاہ، دانی ایل اور زکریاہ جیسے انبیاء نے مسیح کی موت کے بارے میں یا تو واضح یا علامتی طور پر پیشین گوئیاں کی تھیں۔ ہم نئے عہدنامہ میں اُن تمام پیشین گوئیوں کی تکمیل پاتے ہیں، جو ثبوتوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جِسے صرف جُہلا ہی جُھٹلا سکتے ہیں یا پِھر متعصّب افراد۔

    (4) تاریخ کی گواہی: ہم پہلے ہی قدیم مؤرّخین کی شہادتوں کا جائزہ لے چکے ہیں جنہوں نے مُتفِقّہ طور پر مسیح کی موت کے بائبلی اندارج کی معتبریت کی تصدیق کی ہے۔ چونکہ ہم تاریخ کی گواہی پر غور کر رہے ہیں، اِس لئے مَیں تمہاری توجّہ مسیح کے اُن الفاظ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو آپ نے اپنے شاگردوں سے کہے: "تُم تمام دُنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے اِنجیل کی مُنادی کرو" (اِنجیل بمطابق مرقس 16: 15)۔ شاگردوں نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی اور اِسلام کی آمد سے پہلے چھ سو سال تک اِنجیل دُور دُور تک پھیل گئی۔ جِس خوشخبری کا اُنہوں نے پرچار کیا اُس کا خلاصہ ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے: "وہ ہمارے گُناہوں کےلئے حوالہ کر دِیا گیا اور ہم کو راست باز ٹھہرانے کےلئے جِلایا گیا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 4: 25)۔

    پِھر خواہ کوئی بھی ہو، اور منطق کی کتنی ہی جولانی دِکھائے، لیکن ساری کی ساری قوموں کی تکذیب کرنا کیسے ممکن ہے جو زبان میں اِختلاف کے باوجود اِس اہم واقعہ پر مُتفِقّ ہیں کہ مسیح نے صلیب پر جان دی۔ حتٰی کہ قرآن کی بھی قوم یہود کے بارے میں گواہی نقل ہے کہ "ہم نے المسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا" (سورۃ النساء 4: 155)۔ اور قوم یہود میں یہ روایت تواتر سے چلی آئی، حتٰی کہ زمانہ محمّد میں بھی اُن میں یہی روایت رائج تھی۔ مسیح کی صلیب کی تواتر شہادتوں کے تو حقیقت میں یہودیوں کو مخالف ہونا چاہئے تھا، مگر یہودی بھی اُن مسیحی عینی شاہدین کی تکذیب نہ کر سکے جو نہ صرف عینی گواہ تھے بلکہ اُنہوں نے مسیح کو سُنا اور چھؤا بھی تھا۔ یہودی، بُت پرستوں اور مسیحیوں کی یہ شہادت کُچھ ایسی متواتر ہے کہ کہیں سے بھی اِس کے خلاف کبھی چھٹی صدی عیسوی تک کوئی آواز نہیں اُٹھی حتٰی کہ یہودی دُشمنانِ مسیح کی طرف سے بھی نہیں۔

    اگر ہم قرآن کی ورق گردانی کریں اور اُس کی آیات دیکھیں تو وہاں بھی ہم کُچھ ایسا نہیں پاتے جِس سے مسیح کی موت کی نفی ہو۔ اِس کے برعکس کم از کم پانچ ایسے حوالہ جات ہیں جِن میں مسیح کی موت کی تائید ہے:

    (الف) "اور جِس دِن مَیں پیدا ہوا، اور جِس دِن مروں گا، اور جِس دِن زندہ کر کے اُٹھایا جاﺅں گا مُجھ پر سلام ہے۔" (سورۃ مریم 19: 33)

    • (اِس آیت میں مسیح کی پیدایش، موت اور جی اُٹھنے کی حقیقت کی واضح گواہی موجود ہے۔ یہ ایک معجزے پر مبنی پیشین گوئی کی صورت میں ہے۔ اور اِس کے علاوہ کوئی بھی ایسی تشریح جِس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ موت کا مطلب فوری موت نہیں بلکہ زمانے کے آخر میں موت ہے، ایک ناکام ہیرا پھیری ہے جِس میں آیت کے سیاق و سباق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔)

    (ب) "اور بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی، اور اُس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں، اور پاک رُوح سے اُس کی مدد کی، تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو اُن میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو قتل کرتے ہو۔" (سورۃ البقرۃ 2: 87)

    • (لفظ "تَقْتُلُونَ" (قتل) اِس نظریہ کی تردید کرتا ہے کہ خُدا نے مسیح کو اُن کی موت سے پہلے آسمان پر اٹھایا۔)

    (ج) "جو لوگ کہتے ہیں کہ اللّہ نے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ لے کر آئے جِسے آگ کھا جائے، آپ فرما دیجئے کہ بےشک بہت سے رسول مُجھ سے پہلے بہت سی نشانیاں لے کر تمہارے پاس آئے، اور یہ معجزہ بھی جِس کو تم کہتے ہو تو تم نے کیوں اُن کو قتل کیا تھا اگر تم سچے ہو۔" (سورۃ آل عمران 3: 183)

    • وہ کون سا رسول ہے سِوائے عیسیٰ ابن مریم کے جِسے اُنہوں نے قربانی لانے یا آسمان سے مائدہ لانے (قرآنی روایت کے مطابق) کے بعد قتل کیا؟

    (د) "اُس وقت اللّہ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! مَیں تم کو وفات دوں گا، اور تم کو اپنی طرف اُٹھا لوں گا اور تم کو کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروﺅں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا۔" (سورۃ آل عمران 3: 55)

    • (الرازی نے ابن عباس اور محمّد بن اِسحاق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں "متوفِّیک" سے مُراد موت ہے۔ اور وہب نے کہا کہ عیسیٰ تین گھنٹے مرے رہے اور پھر اللّہ نے اُنہیں آسمان کی طرف اُٹھا لیا۔ محمّد ابن اسحاق نے کہا کہ وہ سات گھنٹے تک مرے رہے، پھر اللّہ نے اُنہیں زندہ کیا، اور اُٹھا لیا۔ اور البیضاوی نے کہا کہ اللّہ نے عیسیٰ کو سات گھنٹے کےلئے مرا رہنے دیا، پھر اُنہیں آسمان کی طرف اُٹھا لیا۔ ربیع بن اُنس نے کہا کہ اللّہ نے اُنہیں اُس وقت وفات دی جب آسمان کی طرف اُٹھایا تھا۔)

    (ہ) "اور جب اللّہ فرمائے گا، اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللّہ کے سوا مُجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے تُو پاک ہے ... مَیں نے اُن سے کُچھ نہیں کہا بجز اُس کے جِس کا تُو نے مُجھے حکم دیا وہ یہ کہ تم اللّہ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ اور تمہارا بھی ربّ ہے۔ ... پھر جب تُو نے مُجھے اُٹھا لیا تو تُو ہی اُن پر نگاہ رکھتا ہے۔ اور تُو ہر چیز پر خبردار ہے۔" (سورۃ المائدۃ 5: 116، 117)

    یہ آیاتِ قرآن اِس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسیح کی موت ہوئی، اور اِس تناظر میں کُچھ مُفسّرین کی وضاحتیں محض کمزور کوششیں قرار دی جا سکتی ہیں جنہوں نے ضعیف تاویلیں کر کے اِس حقیقت پر پردہ ڈالے رکھا۔ الزمخشری نے بعض متنوع قرآنی آیات کو ملانے کی کوشش میں یہی طریقہ استعمال کیا۔

    میرے پیارے بھائی، میری کوشش ہے کہ شکوک کے بادل تم سے چَھٹ جائیں، اِس لئے آؤ پِھر ایک دفعہ شبیہ کے نظریہ کی بات کرتے ہیں جو مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے جِس کے مطابق مسیح کے بجائے کِسی اَور شخص کو مصلوب کیا گیا تھا۔ اِس نظریہ کی بنیاد اِس خیال پر مبنی ہے کہ اللّہ مسیح کو شرمناک اور ذلّت آمیز موت سے دوچار نہیں کر سکتا تھا۔ اِس خیال کے حامی سورۃ النساء 4: 157، 158 کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہیں: "یعنی اُن (یہودیوں) کا یہ قول (دعویٰ) کہ ہم نے المسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ اُن کو نہ اُنہوں نے قتل کیا اور نہ صلیب دی تھی۔ ہاں اُن کو ایسا گمان ضرور ہُوا تھا۔ دیکھو یہ بھی کہ جو اِس بارے میں اختلاف کرتے ہیں، خود بھی شک میں پڑے ہیں اُنہیں اِس کا کُچھ بھی علم نہیں سوائے ظن و گمان کے۔ بےشک اُنہوں نے اُسے قتل کیا ہی نہیں ہے بلکہ اللّہ نے اپنے پاس اُنہیں اُٹھا لیا ہے۔ اور اللّہ غالب حکمت والا ہے۔"

    الفاظ "اُن کو ایسا گمان ضرور ہُوا تھا" اُن تمام روایات کا سبب ہیں جو مُفسّرین نے پیش کی ہیں اور جِن سے دلائل اور مختلف آراء نے جنم لیا ہے۔ امام الرازی نے اِس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یہ پہلو متضاد اور مقابلہ کرنے والے ہیں اور اللّٰہ ہی معاملات کے حقائق کو خوب جانتا ہے۔" خیر کُچھ ہی کیوں نہ ہو، کِسی دوسرے پر مسیح کی شبیہ ڈالنے کے نظریہ سے کُچھ مسائل جنم لیتے ہیں:

    (1) اگر یہ مانا جائے کہ عیسیٰ کی شبیہ کسی اَور پر ڈالی گئی تو اِس سے شکوک کا دروازہ کُھل جاتا ہے اور تواتر پر بھی ضرب پڑتی ہے۔ ایسا دروازہ کھولنے سے کلامِ خُدا کی نبوّتوں کا ابطال ہوتا ہے۔

    (2) خُدا نے رُوح القُدس کے ساتھ عیسیٰ کی مدد کی۔ کیا وہ اِس معاملے میں عیسیٰ کی مدد کرنے میں ناکام رہا؟ پِھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خود مسیح کو قدرت حاصل تھی کہ وہ مُردوں تک کو زِندہ کر دیتے تھے تو کیا وجہ تھی کہ وہ اپنے بچاؤ کےلئے کُچھ نہ کر سکے؟

    (3) اگر اللّٰہ عیسیٰ کو آسمان پر اُٹھانے سے ہی اُنہیں بچا سکتا تھا تو کِسی دوسرے پر عیسیٰ کی شبیہ ڈالنے سے کیا فائدہ تھا؟ سِوائے اِس کے کہ کوئی اَور بیچارہ موت کا نشانہ بنتا۔

    (4) کِسی دوسرے پر شبیہ ڈالنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ دوسرا شخص عیسیٰ تھا جبکہ ایسا نہیں تھا۔ ایسا دھوکہ تو کامل خُدا کے شایانِ شان نہیں ہے۔

    (5) مشرق و مغرب میں نصاریٰ کی ایک بڑی تعداد پھیلی ہوئی ہے جِن میں مسیح کی نسبت شدید محبّت اور وابستگی پائی جاتی ہے۔ بہت سے اوّلین مسیحیوں نے بہ چشم خود مسیح کو صلیب پر مرتے دیکھا۔ اگر ہم اِس سچّائی سے انکار کریں تو یہ اُس اقرار کے خلاف حملہ ہے جِس کی سچّائی کی گواہی تواتر سے ثابت ہے۔ ایسا حملہ تو انبیاء، مسیح اور حتّیٰ کہ محمّد صاحب کی نبوّت پر طعن ہو گا۔

    (6) اگر وہ شخص جِس پر عیسیٰ کی شبیہ ڈالی گئی تھی عیسیٰ نہیں تھا تو کیوں اُس نے نہ احتجاج کیا، نہ مدافعت کی؟ اِس بات کا کوئی اِندراج نہیں۔ اگر ایسا ہُوا ہوتا تو مخالفوں میں بھی اِس بات کا شہرہ ہوتا۔ لیکن چونکہ کوئی ایسی بات موجود نہیں تو ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہُوا۔

    بنا برِیں، نظریہ شبیہ جو کُچھ مسلمانوں میں عام ہے، سراسر کمزور نظریہ ہے جِسے رد کر دینا چاہئے۔ ایسا کرنے سے قرآنی مؤقّف اور سورہ النساء کے مضمون پر کُچھ اثر نہیں پڑتا۔

    الرازی کا یہی قول ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ الرازی جیسا عالم جو اپنی راستی اور دیانت کےلئے مشہور تھا، قرآنی آیات کے درمیان یا قرآن اور انجیل کے مابین تناقض پیدا کرنا چاہتا تھا۔ سورہ النساء کی آیت 157 کو سمجھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اُس کا تقابلی آیات کی روشنی میں گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔ اگر اِس کا تقابل اِنجیل مُقدّس سے کیا جائے تو مسیح کو قتل کرنے میں یہودیوں کے عزائم کا مقصد واضح ہو جاتا ہے۔

    مَیں نے اِس خط کے پہلے حصّے میں مختصراً بتایا ہے کہ یہودیوں نے مسیح کو کیوں مارا۔ اِس بحث کو مکمل کرنے کی غرض سے آؤ پِھر سے اُس طرف لوٹ چلیں۔ یوحنّا کی معرفت لکھی اِنجیل (11: 47۔ 53) میں وہ مقصد ہم دیکھ سکتے ہیں:

    "پس سردار کاہِنوں اور فرِیسیوں نے صَدرعدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا، ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بُہت مُعجِزے دِکھاتا ہے۔ اگر ہم اُسے یُوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر اِیمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قَوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اور اُن میں سے کائِفا نام ایک شخص نے جو اُس سال سردار کاہِن تھا اُن سے کہا، تُم کُچھ نہیں جانتے۔ اور نہ سوچتے ہو کہ تُمہارے لئے یِہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قَوم ہلاک ہو۔ مگر اُس نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ اُس سال سردار کاہِن ہو کر نبُوّت کی کہ یسوع اُس قَوم کے واسطے مرے گا۔ اور نہ صِرف اُس قَوم کے واسطے بلکہ اِس واسطے بھی کہ خُدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کر کے ایک کر دے۔ پس وہ اُسی روز سے اُسے قتل کرنے کا مشوَرہ کرنے لگے۔"

    جب وہ اُسے صلیب دے چُکے اور پِھر قبر کے بھی سپرد کر چُکے تو اُنہوں نے سوچا کہ وہ اُس سے اور اُس کے معجزات سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔ لیکن ہزاروں کو اُس کی صلیب کی طرف کھنچتے دیکھ کر، جو ایک معجزہ ہی تھا، اُن کی اُمّید پر پانی پھرتا نظر آیا۔ مُقدّس لوقا اعمال الرّسل میں ہمیں بتاتا ہے کہ مسیح کی موت، جی اُٹھنے اور صعود کے تھوڑے ہی عرصے کے اندر، پطرس رسول کے ایک وعظ کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسیح کو گلے لگانے لگے۔ اُس نے یہودیوں کے ایک ہجوم سے خطاب کرتے وقت اُن کے راہنماؤں کی مذمّت کی جنہوں نے یسوع کے خلاف سازش کی اور اُسے مصلوب کیا (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 14۔ 41)۔

    یہودی تو اِس سازش میں ناکام ہوئے کہ معجزات کرنے والی مسیح کی شخصیت کو ختم کر دیں۔ یہ صرف اُن کے سامنے ظاہر ہُوا۔ وہ مسیح کو حقیقت میں ختم نہ کر سکے، حالانکہ اُنہوں نے ایسا گمان کیا۔ کیونکہ قبر مسیح کو زیادہ دیر جکڑے رہنے میں کامیاب نہیں رہی، بلکہ آپ تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے اور شاگردوں پر ظاہر ہوتے رہے اور چالیس دِن کے بعد آسمان پر صعود کر گئے۔ یوں قرآن کا یہ قول بھی پورا ہُوا: "اور جِس دِن مَیں پیدا ہوا، اور جِس دِن مروں گا، اور جِس دِن زندہ کر کے اُٹھایا جاﺅں گا مُجھ پر سلام ہے" (سورۃ مریم 19: 33)۔

    یوں، مسیح کا صعود سماوی ہو گیا، یعنی کلمہ جو خُدا کے ساتھ تھا پِھر وہیں چلا گیا، لیکن اِس سے مسیح کے معجزات ختم نہ ہوئے جو آپ نے اپنے پاک رسولوں اور چُنے ہوئے لوگوں کے ذریعے جاری رکھنے کا وعدہ کیا تھا، جب فرمایا تھا: "اور اِیمان لانے والوں کے درمِیان یہ مُعجِزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدرُوحوں کو نِکالیں گے۔ نئی نئی زبانیں بولیں گے۔ سانپوں کو اُٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پیئیں گے تو اُنہیں کُچھ ضرر نہ پُہنچے گا۔ وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہو جائیں گے" (اِنجیل بمطابق مرقس 16: 17، 18)۔

    اِس طرح، یسوع اپنی پیدایش، اپنی تعلیمات، اپنی موت، اپنی قیامت اور اپنی بادشاہی کے پھیلاؤ میں تمام دُنیا کےلئے ایک نشانی بن گئے۔

    اِس سے پہلے کہ مَیں اِس موضوع پر اپنی بحث کو سمیٹوں، مَیں ایک اَور دعوے کی طرف توجّہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جو نظریہ شبیہ کے دعوے سے کم مضحکہ خیز نہیں ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ جناب مسیح کو صلیب پر لٹکایا تو ضرور گیا تھا، مگر وہ مرے نہیں تھے، بلکہ اُن پر بےہوشی طاری ہو گئی تھی۔ چنانچہ یہودیوں نے سمجھا کہ وہ مر چُکے ہیں، اِس لئے اُنہوں نے مسیح کو چٹان میں کُھدی ہوئی قبر میں دفن کیا، اور بعد ازاں ہوش آنے پر وہ قبر سے پوشیدگی سے نکلے اور ایک دُور دراز مُلک کی طرف جا کر رہے جہاں وہ ایک عام اِنسان کی طرح مر گئے۔ اِس پر اُن کا اِستدلال یہ ہے کہ موت کے آتے ہی مُردہ کا خون جم جاتا ہے اور اُس طرح نہیں بہتا جیسا رومی سپاہی کے بھالے سے مسیح کا پہلو چھیدنے پر بہا تھا۔ لیکن اِس دلیل کو سکاٹ لینڈ کے ایک طبیب سر جیمز سمپسن نے مسترد کر دیا جِس نے عملِ جراحی میں کلوروفارم کا استعمال دریافت کیا تھا۔ اُس نے ایک پمفلٹ لکھا جِس میں اُس نے بتاکید یہ ثابت کیا ہے کہ مسیح کی موت ارتشاح الدم سے واقع ہوئی جو اُس صورت میں ہوتا ہے جب بوقت موت کسی کے دونوں بازو کھنچے ہوں اور وہ درد سے چِلّا اُٹھے اور اُس کے دِل کی دیوار پھٹ جائے اور خون بہہ نکلے اور پِھر وہ خون جھلیوں میں رہ جاتا ہے اور اُس میں سے کُچھ پانی سے مشابہ سیال میں بدل جاتا ہے۔ مسیح کے عزیز شاگرد یوحنّا نے بالکل اِسی طرح آپ کے آخری لمحات کو بیان کیا ہے۔ اگرچہ وہ طِب نہیں جانتا تھا، لیکن وہ ایک گہری نگاہ رکھنے والا شخص تھا اور رُوحُ القُدس کے الہام سے اُس نے اپنی آنکھوں کے سامنے جو کُچھ ہُوا، اُسے ویسے ہی بیان کیا۔

    آؤ اَب دیکھیں کہ جو کُچھ یوحنّا نے لکھا ہے طِبّ میں اُس کی تصدیق موجود ہے:

    "پس چونکہ تیّاری کا دِن تھا یہودِیوں نے پِیلاطُس سے درخواست کی کہ اُن کی ٹانگیں توڑ دی جائیں اور لاشیں اُتار لی جائیں تا کہ سبت کے دِن صلِیب پر نہ رہیں کیونکہ وہ سبت ایک خاص دِن تھا۔ پس سپاہِیوں نے آ کر پہلے اور دُوسرے شخص کی ٹانگیں توڑِیں جو اُس کے ساتھ مصلُوب ہُوئے تھے۔ لیکن جب اُنہوں نے یسوع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چُکا ہے تو اُس کی ٹانگیں نہ توڑِیں۔ مگر اُن میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اُس کی پَسلی چھیدی اور فی الفَور اُس سے خُون اور پانی بَہہ نِکلا۔ جِس نے یہ دیکھا ہے اُسی نے گواہی دی ہے اور اُس کی گواہی سچّی ہے اور وہ جانتا ہے کہ سچّ کہتا ہے تا کہ تُم بھی اِیمان لاؤ۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 31۔ 35)

    مسیح کی موت میں داؤد نبی کی اُس نبوّت کی تکمیل بھی ہوئی جہاں لکھا ہے: "ملامت نے میرا دِل توڑ دِیا ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، زبور 69: 20)۔

    آؤ، اَب بے ہوشی کے نظریہ پر غور کر لیں۔ اِس نظریہ کے ماننے والے کہتے ہیں کہ ضعف و یاس کی حالت میں جب مسیح کی قوّت جواب دینے لگی، اور پیشتر کہ اُس پر غشی چھا جاتی اُس کے مُنہ سے ایک یاس بھری چیخ نکل گئی۔ مگر یوحنّا اِنجیل نویس نے ذِکر کیا ہے کہ جب مسیح نے سِرکہ پیا تو کہا "تمام ہُوا" (یوحنّا 19: 28۔ 30)۔ اُس وقت یہ الفاظ تب ادا کئے جاتے تھے جب کوئی حساب چُکتا کر دیا جاتا۔ جب مسیح نے یہ الفاظ کہے تو یہ کِسی نا اُمّید کی چیخ نہیں تھے، بلکہ فتح کا نعرہ تھا جب آپ نے نجات کے کام کو مکمل کیا اور اِبلیس کی طاقت کو شکست دی۔ اَب ہر وہ شخص جو مسیح پر اِیمان رکھتا ہے گناہ کی غلامی سے نجات پا سکتا ہے۔ جب آپ نے پکار کر کہا "تمام ہُوا" تو اپنی جان دے دی۔ آپ مطمئن تھے، کیونکہ آپ نے آسمانی اعلانات اور متعلقہ پیشین گوئیوں کے مطابق نجات کے الٰہی منصوبے کو پورا کیا۔

  3. "مسیح کو کیوں مصلوب کیا گیا؟ ۔۔۔ کیا خُدا اپنے بیٹے کے مارے جانے کے بغیر آدم اور اُس کی اولاد کا گناہ معاف نہیں کر سکتا تھا؟"

    میری دانست میں میرے گذشتہ خط میں بیان کی گئی بائبل مُقدّس کی آیات نے اِس سوال کا جواب دے دیا ہو گا کہ مسیح کو کیوں مصلوب کیا گیا تھا۔ تاہم، اَب جبکہ تم اضافی وضاحت کی درخواست کر رہے ہو تو مُجھے اُس موضوع کی طرف لوٹنا پڑے گا جِس کا پہلے ذِکر کیا ہے کہ خُدا کی نافرمانی کے باعث سقوطِ آدم ہُوا تھا، اور نتیجہ میں اخراج از فردوس اور لعنت کے تحت آ جانا تھا۔ اِس ملعون زمین پر نسلِ آدم ہوئی جِن میں فطری طور پر بدی کی طرف جھکاؤ تھا اور یوں زمین شرارت سے بھر گئی۔ اِس بارے میں کتابِ مُقدّس کا بیان یہ ہے: "اور خُداوند نے دیکھا کہ زمین پر اِنسان کی بدی بُہت بڑھ گئی اور اُس کے دِل کے تصوُّر اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 6: 5)۔ زمین پر رہنے والے تمام لوگوں کے گناہوں کے باعث غضبِ الٰہی طوفان کی صورت میں بھڑکا کیونکہ خُدا اِنسان کو بنانے سے ملول ہُوا (پیدایش 6: 7)۔ اَب یہاں پولس رسول کے الفاظ پر غور کرو: "۔۔۔ ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یُوں موت سب آدمِیوں میں پَھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 12)۔

    تاہم، جِس طرح عدل خُدا کی خوبی ہے جو اُس کی راست بازی کی ترجمان ہے، اُسی طرح اُس میں رحمت کی خوبی بھی ہے جو اُس کی محبّت کی ترجمان ہے۔ وہ عدل اور محبّت دونوں میں کامل ہے۔ تاہم، عدل محبّت میں اپنے کمال کی بناء پر فنا ہونے کی اجازت نہیں دیتا، اور محبّت عدل میں اپنے کمال کی بناء پر اِنسان کو تباہی سے نہیں بچا سکتی۔ الکلمہ نے جو اِبتدا سے خُدا کے ساتھ تھا، یہ مشکل آسان کر دی۔ اُس نے جسد اختیار کیا تا کہ اِنسان کا فدیہ دے کر اُسے ہلاکت سے بچا لے۔ یوں صلیب پر عدل و رحمت جو ضد میں ہیں یکجا ہو گئیں۔

    اِنسانی تاریخ کے ہر دور میں عنایتِ الٰہیہ نے اِنسان پر ظاہر کیا ہے کہ خُدا گناہ کی سزا دیتا ہے، اور اُسے نظر انداز نہیں کرتا۔ موسیٰ کی شریعت کے ذریعہ یہ سکھایا گیا کہ لوگ پاک ہوں کیونکہ خُدا خود پاک ہے (پرانا عہدنامہ، احبار 11: 44)، اور نبیوں کے ذریعے اُنہیں بتایا گیا کہ جو جان گناہ کرتی ہے وہ مرے گی (پرانا عہدنامہ، حزقی ایل 18: 20)۔ تاہم، شریعت اور انبیاء دونوں نے ہدایت اور اِنتباہ کے ہی فرائض انجام دیئے، کیونکہ نہ تو اِنسان کے مجروح ضمیر کو ٹھیک کر سکے اور نہ ہی اُس کے نفس سے گناہ کا ڈنک نکال سکے۔ پرانے عہدنامے نے خُدا کے اخلاقی کمال کو جزوی طور پر، اُس کے الہٰی جلال کے تناظر میں ظاہر کیا۔ لیکن فدیہ و مخلصی نے خُدا کی اخلاقی خوبیوں کے تمام کمالات کو ظاہر کیا، اور اِس کے ذریعہ خُدا نے اپنے پُر از محبّت اور دِلی جذبات کو کھول کر دکھا دیا۔

    عزیز برادر، یہ ممکن نہیں ہے کہ مادی قربانی اُس لافانی روح کو چھڑا سکے جِسے خُدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا تھا، اور نہ ہی توبہ کسی گنہگار کو راست باز بنا سکتی ہے۔ ایک شخص فدیہ و مخلصی کے دائرہ سے باہر توبہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، لیکن وہ کمزوری کا شکار رہے گا اور بار بار گناہ میں پڑ جائے گا۔ یوں، سلامتی پانے کی خاطر اُس کا چھڑایا جانا ضروری ہے۔ ہم اِنجیل کی روشنی میں اور اپنے تجربہ سے پہچانتے ہیں کہ جِن لوگوں کو خُدا نے یسوع کے خون سے نجات دلائی اور اُن کے ساتھ صلح کی، اُنہیں وہ راست باز گنتا ہے اور گناہ کی طاقت سے آزاد کر دیتا ہے: "اِس لئے کہ گناہ کا تُم پر اِختیار نہ ہو گا کیونکہ تُم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو" (نیا عہدنامہ، رومیوں 6: 14)۔

    یہ واضح ہے کہ فدیہ و مخلصی کا منصوبہ شروع سے خُدا کے ذہن میں تھا۔ خُدا نے یہودیوں کو قدیم زمانے سے یہ حکم دیا تھا کہ وہ ذبیحوں کے ذریعہ اِس کی اُمّید رکھیں، اور اِسے موسوی شریعت میں کونے کے پتھر کی حیثیت حاصل تھی۔ شریعت دیئے جانے سے پہلے بھی، نوح، ابرہام، یعقوب، ایّوب اور دیگر یہودی بزرگ اجداد نے علامتی طور پر قربانیاں دیں۔ اِس بارے میں اُن کا فہم نسل در نسل زیادہ سے زیادہ واضح ہوتا گیا۔ وہ سب کے سب مسیح کی آمد کے منتظر رہے اور اِسی اُمّید پر جئے اور اپنے گناہوں کا کفّارہ ذبیحوں کے ذریعے کرتے رہے جو رمز تھا مسیح میں ہونے والے فدیہ کا، اور اِسی سے اُنہیں وہ نجات ملی جِس کا انتظام یسوع نے آخر زمانہ میں کیا۔

    جب خُدا نے شریعت دی تو اُس نے گناہ کی قربانیوں کے حوالے سے پاک اور ناپاک جانوروں میں فرق بتایا۔ اُس نے سکھایا کہ خون بہائے بغیر معافی نہیں ہو سکتی۔ اُس نے گنہگار سے پاک اور بےعیب قربانی پیش کرنے کا تقاضا کیا جو یسوع کی قربانی کا اشارہ تھا، جو کہ عہدِ جدید کی پاک اور بےعیب قربانی ہے۔

    16۔ ایک درمیانی کی ضرورت اور اُس کا تعیّن

    "کیونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور اِنسان کے بیچ میں درمِیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو اِنسان ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ تیمتھیس 2: 5)

    ثالثی کے موضوع کی شرح کےلئے، میرے پاس ایک بار پِھر سقوطِ آدم، عدل، قصاص اور رحمت کی طرف لوٹنے کے سِوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اِس لئے مَیں تمہاری توجّہ اِنسان کی فطرت کی طرف مبذول کروں گا جو اُسے مستقبل میں غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اِنسان کا ضمیر اُسے جتاتا رہتا ہے کہ اُس کے کُل اعمال ایک مُنصِف کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ اُس کے برے اعمال اُسے گنہگار ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں اور وہ آنے والی سزا سے ڈرتا ہے۔ فاسد اِنسان خُدا کا کیسے سامنا کر سکتا ہے جبکہ وہ جیتا ہی اِس لئے ہے کہ اپنے تن بدن اور نفس کی خواہشوں کو ہی پورا کرتا رہے۔

    لیکن اگر اِنسان، جِسم کی محبّت میں، خُدا سے بیگانہ ہو گیا ہے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خُدا کی تمام صفات سے نفرت کرنے لگا ہے۔ انتہائی برے لوگ بھی خُدا کی رحمت کے طالب ہوتے ہیں اور اُمّید رکھتے ہیں کہ خُدا اُن سے عفو و درگزر سے پیش آئے گا تا کہ وہ خُدا کی رضا سے محروم نہ ہوں۔

    اِنسان کی گناہ گار فطرت کے تعلق سے نئے عہدنامہ کی مندرجہ ذیل دو آیات پر غور کریں:

    • "کیونکہ تُم یہ خُوب جانتے ہو کہ کسی حرام کار یا ناپاک یا لالچی کی جو بُت پرست کے برابر ہے مسیح اور خُدا کی بادشاہی میں کچھ میراث نہیں۔" (نیا عہدنامہ، اِفسیوں 5: 5)

    • "اور اُس میں کوئی ناپاک چِیز یا کوئی شخص جو گِھنَونے کام کرتا یا جُھوٹی باتیں گھڑتا ہے ہرگز داخِل نہ ہو گا مگر وُہی جِن کے نام برّہ کی کتابِ حیات میں لکھے ہُوئے ہیں۔" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 21: 27)

    یہ آیات ہمیں یہودیوں کے ایک مذہبی راہنما سے مسیح کے کہے گئے الفاظ کی یاد دلاتی ہیں: "مَیں تُجھ سے سچّ کہتا ہُوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پَیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 3)۔

    اِس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اِنسان اُس وقت تک حیاتِ ابدی کا وارث نہیں ہوتا جب تک کہ خُدا کی صورت پر راست بازی و سچّائی کی پاکیزگی کا حامل نہ ہو جائے، یعنی وہ شبیہ جو آدم کے زوال سے پہلے تھی۔

    یہ اُس کےلئے اُتنا ہی ناممکن ہے جتنا اپنے آپ کو مُردوں میں سے زندہ کرنا۔ لیکن جو کُچھ اِنسانوں کےلئے ناممکن ہے وہ خُدا کےلئے ممکن ہے، کیونکہ "وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچّائی کی پہچان تک پُہنچیں" (نیا عہدنامہ، 1۔ تیمتھیس 2: 4)۔ زبور نویس نے کہا ہے: "۔۔۔ خُداوند پر اِعتماد کر کیونکہ خُداوند کے ہاتھ میں شفقت ہے۔ اُسی کے ہاتھ میں فدیہ کی کثرت ہے" (پرانا عہدنامہ، زبور 130: 7)۔

    خُدا اُن لوگوں کو چُھڑاتا ہے جو اُس میں پناہ لیتے ہیں اور اپنے گناہوں سے باز آتے ہیں: "خُداوند قہر کرنے میں دِھیما اور شفقت میں غنی ہے۔ وہ گناہ اور خطا کو بخش دیتا ہے" (پرانا عہدنامہ، احبار 14: 18)۔ اگر گنہگار اُس کے پاس آتا ہے تو وہ اُسے قبول کرنے کےلئے تیار ہے: "تُو اُن سے کہہ، خُداوند خُدا فرماتا ہے مُجھے اپنی حیات کی قَسم شرِیر کے مرنے میں مُجھے کچھ خُوشی نہیں بلکہ اِس میں ہے کہ شرِیر اپنی راہ سے باز آئے اور زِندہ رہے۔ اَے بنی اِسرائیل باز آؤ۔ تُم اپنی بُری روِش سے باز آؤ۔ تُم کیوں مرو گے؟" (پرانا عہدنامہ، حزقی ایل 33: 11)۔ تاہم، اگر خُدا گنہگار کی خطائیں بخش دے تو اُس پر واجب ہے کہ اتنی بڑی معافی کےلئے کوئی سبب ہو، اور اِس کےلئے ایک درمیانی کی ضرورت پیدا ہوتی ہے کہ جو مصالحت کرا دے اور خُدا کے سامنے کھڑا ہو سکے، ہماری مُردہ روحوں میں جان ڈال سکے اور ہم کو اپنی راست بازی پہنا سکے تا کہ محبّت میں پاک اور بےعیب ہو کر ہم خُدا کے حضور حاضر ہو سکیں۔ اِس بےمثل درمیانی کےلئے لازم ہے کہ وہ ہو:

    الف: اِنسان: رسول نے ہمیں بتایا ہے کہ یسوع نے فرشتوں کی نہیں بلکہ ہماری فطرت کو اختیار کیا تا کہ ہماری دُنیا میں آ کر ہمیں چھڑا لے۔ اُس کےلئے ضروری تھا کہ وہ اُس شریعت کے تحت پیدا ہو جِس کی ہم نے خلاف ورزی کی۔ ہمارے گناہوں کا کفّارہ ادا کرنے کےلئے اُسے تمام راست بازی کو پورا کرنا، دُکھ اٹھانا اور مرنا تھا۔ اُسے ہماری انسانیت کا حصہ بننا تھا اور ہماری کمزوریوں کا تجربہ کرنا تھا، جیسا کہ لکھا ہے:

    "پس جِس صُورت میں کہ لڑکے خُون اور گوشت میں شرِیک ہیں تو وہ خُود بھی اُن کی طرح اُن میں شرِیک ہُؤا تا کہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جِسے موت پر قُدرت حاصل تھی یعنی اِبلیس کو تباہ کر دے۔ اور جو عُمر بھر موت کے ڈر سے غُلامی میں گرِفتار رہے اُنہیں چُھڑا لے۔ کیونکہ واقع میں وہ فرِشتوں کا نہیں بلکہ ابرہام کی نسل کا ساتھ دیتا ہے۔ پس اُس کو سب باتوں میں اپنے بھائِیوں کی مانِند بننا لازِم ہُؤا تا کہ اُمّت کے گناہوں کا کفّارہ دینے کے واسطے اُن باتوں میں جو خُدا سے علاقہ رکھتی ہیں ایک رَحم دِل اور دِیانت دار سردار کاہِن بنے۔ کیونکہ جِس صُورت میں اُس نے خُود ہی آزمایش کی حالت میں دُکھ اُٹھایا تو وہ اُن کی بھی مدد کر سکتا ہے جِن کی آزمایش ہوتی ہے۔" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 2: 14۔ 18)

    ب: بےگناہ: موسیٰ کی شریعت کے مطابق کفّارہ کی قربانی بےعیب ہونی چاہئے تھی۔ اِسی طرح، دُنیا کے گناہ کےلئے اپنی جان دینے والے کا بےعیب ہونا ضروری تھا۔ یہ ناممکن ہے کہ گناہوں سے نجات دینے والا خود گنہگار ہو کیونکہ خاطی تو خُدا کے حضور میں داخل ہونے اور اپنے آپ کو گناہ کی قربانی کے طور پر پیش کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔ مزید یہ کہ، وہ اپنے لوگوں کےلئے پاکیزگی اور ابدی زندگی کا ذریعہ نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ خود راست اور پاک نہ ہو۔ ہم عبرانیوں کے نام خط میں پڑھتے ہیں:

    "چُنانچہ اَیسا ہی سردار کاہِن ہمارے لائِق بھی تھا جو پاک اور بے رِیا اور بے داغ ہو اور گنہگاروں سے جُدا اور آسمانوں سے بُلند کیا گیا ہو۔ اور اُن سردار کاہِنوں کی مانِند اِس کا محتاج نہ ہو کہ ہر روز پہلے اپنے گناہوں اور پِھر اُمّت کے گناہوں کے واسطے قُربانِیاں چڑھائے کیونکہ اِسے وہ ایک ہی بار کر گُذرا جِس وقت اپنے آپ کو قُربان کیا۔ اِس لئے کہ شرِیعت تو کمزور آدمِیوں کو سردار کاہِن مقرّر کرتی ہے مگر اُس قَسم کا کلام جو شرِیعت کے بعد کھائی گئی اُس بیٹے کو مقرّر کرتا ہے جو ہمیشہ کےلئے کامل کیا گیا ہے۔" (عبرانیوں 7: 26۔ 28)

    ج: خُدا: درمیانی کا الٰہی ہونا بھی لازمی ہے، کیونکہ عام اِنسان شیطان کے اِختیار کو نابود نہیں کر سکتا۔ بائبل مُقدّس، اِبلیس کو "اِس جہان کے خُدا"، "دُنیا کا سردار"، "ہوا کی عمل داری کے حاکم" کے طور پر بیان کرتی ہے (نیا عہدنامہ، 2۔ کرنتھیوں 4: 4؛ یوحنّا 12: 31؛ اِفسیوں 2: 2)۔ اِس لئے، صرف ایک الٰہی ہستی ہی بنی نوع اِنسان کو بچا سکتی ہے جِسے راست بازی کے دُشمن نے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ نجات کے عظیم کام کو سرانجام دینے کےلئے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ہر شے پر قادر ہو، اور لامحدود حکمت اور علم رکھتا ہو، اور کلیسیا کا سر بننے کے اور سب کا اِنصاف کرنے کے لائق ہو۔ مخلصی پانے والوں کی بڑی بھیڑ کےلئے روحانی زندگی کا منبع بننے کےلئے، اُس میں "اُلوہِیّت کی ساری معمُوری" کا مجسم ہونا ضروری تھا (نیا عہدنامہ، اِفسیوں 2: 9)۔ صرف وہی ہے جِس کے جسد میں خُدا ظاہر ہُوا، اور وہ خدا اور اِنسان کے مابین درمیانی ہے۔

    کتابِ مُقدّس کے مطابق یہ جمیع صفات جو درمیانی ہونے کےلئے ضروری ہیں، یسوع میں یکجا تھیں۔ وہی اُسے منجّی بناتی اور آسمان اور زمین میں مصالحت پیدا کرنے کا وسیلہ بناتی ہیں۔ چاہے صلیب پر اُس کے مصائب ہوں یا عالم بالا پر کبریا کی دہنی طرف بیٹھے شفاعت کرنا، اُس کے تمام اعمال ایک الٰہی شخص کے اعمال تھے۔ وہ جلال کا خُداوند ہے، جِس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور موت کی حدّ تک فرمانبردار رہا۔

    اگر تمہیں اِس امر کا ثبوت درکار ہے کہ خُدا اور اِنسان کے مابین صرف مسیح ہی درمیانی ہے، تو مسیحیّت میں اِس کی واضح دلیلیں موجود ہیں:

    (1) کتابِ مُقدّس کا متن واضح بیان کرتا ہے: "کیونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور اِنسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو اِنسان ہے" (نیا عہدنامہ، 1۔ تیمتھیس 2: 5)۔

    (2) یسوع نے زمین اور آسمان پر کفّارہ اور شفاعت سے متعلق جِس بھی وساطت کی ضرورت تھی، وہ پوری کی: "اور وُہی ہمارے گناہوں کا کفّارہ ہے اور نہ صِرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی" (1۔ یوحنّا 2: 2)۔ اِس کی گواہی اِس آیت سے بھی ہوتی ہے: "اِسی لئے جو اُس کے وسیلہ سے خُدا کے پاس آتے ہیں وہ اُنہیں پُوری پُوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کےلئے ہمیشہ زِندہ ہے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 7: 25)۔

    (3) یسوع نے اپنے تمام درمیانی کے کام کو درجہ کمال تک پورا کیا، یہاں تک کہ کِسی دوسرے کی ضرورت نہیں ہے: "کیونکہ اُس نے ایک ہی قُربانی چڑھانے سے اُن کو ہمیشہ کےلئے کامل کر دِیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں" (عبرانیوں 10: 14)۔

    (4) مسیح واحد نجات دہندہ ہے: "اور کسی دُوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تَلے آدمِیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جِس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں" (نیا عہدنامہ، اعمال 4: 12)۔

    (5) ہمارے اور خُدا کے درمیان کسی دوسرے درمیانی کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ مسیح ہمارا بھائی اور سردار کاہن بن گیا ہے جو ہماری شفاعت کرتا ہے: "اِس لئے کہ پاک کرنے والا اور پاک ہونے والے سب ایک ہی اصل سے ہیں۔ اِسی باعِث وہ اُنہیں بھائی کہنے سے نہیں شرماتا ۔۔۔ پس اُس کو سب باتوں میں اپنے بھائِیوں کی مانِند بننا لازِم ہُؤا تا کہ اُمّت کے گناہوں کا کفّارہ دینے کے واسطے اُن باتوں میں جو خُدا سے عِلاقہ رکھتی ہیں ایک رَحم دِل اور دِیانت دار سردار کاہِن بنے" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 2: 11، 17)۔ وہ ہمیں اپنے رُوح القُدس کے ذریعے اپنی طرف بلاتا ہے جو اِنسانی دِل میں کام کرتا، اُس کی مدد کرتا، اُسے قائل کرتا، اُس کی تجدید کرتا اور اِلٰہی مکاشفہ کے نور سے اُس کی راہنمائی کرتا ہے۔

    اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسیح ہی ہمارا واحد درمیانی ہے: "کیونکہ اُسی کے وسیلہ سے ۔۔۔ ایک ہی رُوح میں باپ کے پاس رسائی ہوتی ہے" (نیا عہدنامہ، افسیوں 2: 18)۔

    17۔ قربانی کے موضوع پر مزید روشنی

    "کیونکہ اُس نے ایک ہی قُربانی چڑھانے سے اُن کو ہمیشہ کےلئے کامل کر دِیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں۔" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 10: 14)

    مَیں نے تمہارے لئے اپنے گذشتہ خط میں "مخلصی" کے عنوان کے تحت بائبلی تاریخ میں قربانی کی نوعیّت کی ایک مختصر وضاحت پیش کی تھی، لیکن تمہارے سوالات نے مُجھے اُس موضوع کی جانب لوٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔

    کتابِ مُقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ عہد عتیق کی کُچھ قربانیاں خون کے ساتھ تھیں، جبکہ کُچھ نہیں تھیں۔ خون والی قربانیوں میں سے کُچھ کو خطا کی قربانیاں کہا جاتا تھا جِن میں سے سب سے اہم کفّارہ کے عظیم دِن پر پیش کی جانے والی قربانیاں تھیں۔ اُن کا مقصد تھا:

    1. خُدا کی صفات کے لائق ایک قربانی پیش کرنے سے اُس کی طرف سے عاطفت اور مغفرت حاصل کرنا۔

    2. اُن کے گناہ کا ڈھانپا جانا۔ جو ایک ذبیحہ کے ذریعے کفّارہ کے وسیلہ رضاء اِلٰہی کے خواہاں تھے تا کہ خُدا اُنہیں سزا کے لائق نہ سمجھے۔ زبور نویس اِسی سچائی کی طرف اشارہ کر رہا تھا، جب اُس نے کہا: "مُبارک ہے وہ جِس کی خطا بخشی گئی اور جِس کا گناہ ڈھانکا گیا" (پرانا عہدنامہ، زبور 32: 1)۔

    3. یہ اعلان کرنا کہ فدیہ متبادل سزا کے ذریعے پورا ہو گیا۔ باالفاظِ دیگر ذبحہ شدہ جانور نے ایک گنہگار کی جگہ لے لی، اُس کے گناہ کو برداشت کیا، اُس سزا کو سہا جِس کا گنہگار مستحق تھا۔ اِس تعلیم کی تائید کئی دلائل سے ہوتی ہے، جِن میں سے اہم ترین یہ ہیں:

      الف: پرانے عہدنامے کی قربانیاں گناہ کے کفّارہ کےلئے تھیں جو عاصی و خاطی کی مغفرت کا باعث بنتی تھیں۔ یہ محض توبہ یا اِصلاح کے ذریعے ممکن نہ تھا، حالانکہ یہ قربانی پیش کرنے اور خون بہانے سے پہلے ضروری تھا۔ اِس طرح جان کے بدلے جان، زِندگی کے بدلے زِندگی لازمی ٹھہری، بقول رسول: "اور تقرِیباً سب چِیزیں شرِیعت کے مطابِق خُون سے پاک کی جاتی ہیں اور بغَیر خُون بہائے مُعافی نہیں ہوتی" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 9: 22)۔

      احبار کی کتاب کے مطابق کھانے میں خون کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ خون کفّارہ کےلئے الگ کیا گیا تھا: "اور اِسرائیل کے گھرانے کا یا اُن پردیسیوں میں سے جو اُن میں بُود و باش کرتے ہیں جو کوئی کسی طرح کا خُون کھائے، مَیں اُس خُون کھانے والے کے خِلاف ہُوں گا اور اُسے اُس کے لوگوں میں سے کاٹ ڈالوں گا کیونکہ جِسم کی جان خُون میں ہے اور مَیں نے مذبح پر تُمہاری جانوں کے کفّارہ کےلِئے اُسے تُم کو دِیا ہے۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، احبار 17: 10۔ 11)۔

      قربانی کے جانور کی قبولیّت کی شرط یہ تھی کہ وہ پاک جانوروں میں سے ہو اور بےعیب ہو، کیونکہ یہ مُقدّس اور بےعیب مسیح کی طرف اِشارہ کرتا تھا جِس نے گنہگاروں کا عوضی بننا تھا۔ اپنی قربانی سے گنہگار شخص کھلے عام اعتراف کرتا کہ وہ اپنے گناہ کی سزا کا مستحق ہے۔ اُسے قربانی کے جانور کے سر پر ہاتھ رکھنا پڑتا تھا تا کہ اُس کے عوضی ہونے کی نشاندہی ہو، اور یوں وہ علامتی طور پر اپنا گناہ جانور کے سر پر منتقل کرتا۔ اِس کے بعد سردار کاہن اُس خون کو ہیکل کے پاکترین مقام میں لے جاتا اور اُسے عہد کے صندوق پر چھڑکتا، جو اِس بات کی دلالت تھا کہ اَب خُدا کے حضور یہ خدمت پوری ہوئی اور اِلٰہی عدل کی تسلی ہوئی اور گنہگار کی مغفرت ہو گئی۔

      کفّارہ کے عظیم دِن پر دو نر بکرے چنے جاتے۔ ایک کے ذریعے خطا کی قربانی دی جاتی، اور دوسرے کو بیابان میں چھوڑ دیا جاتا لیکن اُس سے پہلے سردار کاہن اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر تمام لوگوں کی خطاؤں کا اقرار کرتا (پرانا عہدنامہ، احبار 16: 21، 22)۔ اِس علامت کی الہامی وضاحت ہمیں یسعیاہ نبی کے صحیفہ میں ملتی ہے جہاں خُدا کے برّہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب تک گیا: "ہم سب بھیڑوں کی مانِند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھرا، پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی ۔۔۔ اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادِق خادِم بُہتوں کو راست باز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خُود اُٹھا لے گا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 6، 11)۔

      عہدنامہ قدیم، اپنی قربانیوں کے ساتھ صرف مسیح کی کہانت اور قربانی کا پیش خیمہ تھا۔ دونوں عہدوں اور قربانیوں کا موازنہ کرتے ہوئے، رسول لکھتا ہے:

      "پس ضرُور تھا کہ آسمانی چِیزوں کی نقلیں تو اِن کے وسِیلہ سے پاک کی جائیں مگر خُود آسمانی چِیزیں اِن سے بِہتر قُربانِیوں کے وسِیلہ سے۔ کیونکہ مسِیح اُس ہاتھ کے بنائے ہُوئے پاک مکان میں داخِل نہیں ہُؤا جو حقیقی پاک مکان کا نمونہ ہے بلکہ آسمان ہی میں داخِل ہُؤا تا کہ اب خُدا کے رُوبرُو ہماری خاطر حاضِر ہو۔ یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بار بار قُربان کرے جِس طرح سردار کاہِن پاک مکان میں ہر سال دُوسرے کا خُون لے کر جاتا ہے۔ ورنہ بِنایِ عالم سے لے کر اُس کو بار بار دُکھ اُٹھانا ضرُور ہوتا مگر اب زمانوں کے آخِر میں ایک بار ظاہِر ہُؤا تا کہ اپنے آپ کو قُربان کرنے سے گناہ کو مِٹا دے۔" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 9: 23۔ 26)

      اصل میں پرانے عہد کی قربانیاں ایک محدود دائرہ میں قصاص بدل کا کام کرتی تھیں، لیکن مسیح کی قربانی تو اِس قدر اعلٰی ہے کہ اپنے لامحدود دائرہ میں سب لوگوں کے خلاص و کفّارہ کا کام انجام دیتی ہے۔

      ب: یسعیاہ کی نبوّت۔ یسعیاہ کی پیشین گوئی نے گواہی دی کہ یہ عظیم الشان موضوع صرف عہدنامہ قدیم کے علامتی نظام تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ حقیقت میں ایک مکمل تلافی کی طرف لے کر جائے گا۔ یسعیاہ نبی نے نہ صرف یہ پیشین گوئی کی کہ مسیح مَردِ غم ناک اور رنج کا آشنا ہو گا، اُس کی تحقیر کی جائے گی اور شرم ناک موت سہے گا، بلکہ اُس نے یہ بھی اعلان کیا کہ مسیح ہمارے گناہ برداشت کرے گا: "حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعِث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہُوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 5)۔

      تم پوچھو گے کہ خُدا نے اپنے بیٹے کو اپنے عدل کی تسکین اور بنی نوع اِنسان کے گناہوں کا کفّارہ دینے کے بجائے پرانے عہدنامے کی رسوم اور قربانیوں کو کیوں برقرار نہیں رکھا۔ مَیں یہ کہہ کر جواب دوں گا کہ یہ ممکن تھا اگر خُدا نجات کے وعدے میں غیر قوموں کو شامل نہ کرتا، کیونکہ مسیح واقعی اقوام عالم کی اُمّید ہے (پرانا عہدنامہ، حجّی 2: 7)۔ چونکہ عہدنامہ قدیم کی رسومات و طریقے بنیادی طور پر یہودی قوم کےلئے ہی مختص تھے، لہٰذا اُن کی جگہ ضروری تھا کہ ایک بہتر عہد قائم کیا جاتا جِس میں تمام اقوام، قبائل اور اہلِ لُغت شامل ہوتے، جو اُن رسومات سے بہت بہتر ہونا تھا جنہیں پولس رسول نے "ضعِیف اور نِکمّی اِبتدائی باتوں" کے طور پر بیان کیا ہے (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 9)۔ یہ سابقہ ​​اِنتظام عبادت گزاروں کو دِل کے اعتبار سے کامل نہیں بنا سکتا تھا (نیا عہدنامہ، عِبرانیوں 9: 9)۔ عِبرانیوں کی کتاب کے مُصنّف نے اُس اِنتظام کی حدود کو یوں بیان کیا ہے:

      "کیونکہ شرِیعت جِس میں آیندہ کی اچھّی چِیزوں کا عکس ہے اور اُن چِیزوں کی اصلی صُورت نہیں اُن ایک ہی طرح کی قُربانِیوں سے جو ہر سال بِلاناغہ گُذرانی جاتی ہیں پاس آنے والوں کو ہرگز کامل نہیں کر سکتی۔ ورنہ اُن کا گُذراننا موقُوف نہ ہو جاتا؟ کیونکہ جب عبادت کرنے والے ایک بار پاک ہو جاتے تو پِھر اُن کا دِل اُنہیں گُنہگار نہ ٹھہراتا۔ بلکہ وہ قُربانِیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دِلاتی ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ بَیلوں اور بکروں کا خُون گناہوں کو دُور کرے۔ اِسی لئے وہ دُنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قُربانی اور نذر کو پسند نہ کیا ۔ بلکہ میرے لئے ایک بدن تیّار کیا۔ پُوری سوختنی قُربانِیوں اور گناہ کی قُربانِیوں سے تُو خُوش نہ ہُؤا۔ اُس وقت مَیں نے کہا کہ دیکھ! مَیں آیا ہُوں۔ (کتاب کے ورقوں میں میری نِسبت لکھا ہُؤا ہے) تا کہ اَے خُدا! تیری مرضی پُوری کرُوں۔ اُوپر تو وہ فرماتا ہے کہ نہ تُو نے قُربانیوں اور نذروں اور پُوری سوختنی قُربانِیوں اور گناہ کی قُربانِیوں کو پسند کیا اور نہ اُن سے خُوش ہُؤا حالانکہ وہ قُربانِیاں شرِیعت کے موافِق گُذرانی جاتی ہیں۔ اور پِھر یہ کہتا ہے کہ دیکھ مَیں آیا ہُوں تا کہ تیری مرضی پُوری کرُوں۔ غرض وہ پہلے کو موقُوف کرتا ہے تا کہ دُوسرے کو قائِم کرے۔" (عبرانیوں 10: 1۔ 9)

      اِس تعلیم سے یہ واضح ہے کہ ایک وقت آیا جب خُدا نے مادی قربانیوں کو رد کر دیا جو عبادت کرنے والوں کو گناہ کے تسلط سے آزاد نہیں کر سکتی تھیں۔ اِس کا اعلان یسعیاہ نبی کے صحیفہ میں ہے، جہاں خُدا کہتا ہے: "تُمہارے ذبِیحوں کی کثرت سے مجھے کیا کام؟ مَیں مینڈھوں کی سوختنی قُربانِیوں سے اور فربَہ بچھڑوں کی چربی سے بیزار ہُوں اور بَیلوں اور بھیڑوں اور بکروں کے خُون میں میری خُوشنُودی نہیں" (یسعیاہ 1: 11)۔ اِس کمزوری کے باعث خُدا نے اُن قربانیوں کو موقوف کیا، جیسا کہ ہم اِن آیات میں دیکھ سکتے ہیں:

      • "غرض پہلا حکم کمزور اور بے فائِدہ ہونے کے سبب سے منسُوخ ہو گیا۔ کیونکہ شرِیعت نے کسی چِیز کو کامل نہیں کیا اور اُس کی جگہ ایک بِہتر اُمّید رکھی گئی جِس کے وسِیلہ سے ہم خُدا کے نزدِیک جا سکتے ہیں۔" (عبرانیوں 7: 18، 19)

      • "کیونکہ اگر پہلا عہد بے نقص ہوتا تو دُوسرے کےلئے موقع نہ ڈُھونڈا جاتا۔" (عبرانیوں 8: 7)

      جِس بات نے اِنجیل کی راہ ہموار کی وہ بابل کی اسیری کے بعد عہدنامہ قدیم کی بہت سی چیزوں کا خاتمہ تھا، جِن میں سے سب سے اہم یہ ہیں:

      (1) ہیکل کی تباہی اور اُس کے ظروف کا لے جایا جانا۔ یہ منطقی ہے کہ جب الحق کے آنے کا وقت آیا جِس کی زمینی ہیکل علامت تھی تو اُس ہیکل کی شوکت جاتی رہی۔

      (2) شہادت کی لوحوں کا کھو جانا جِن پر خُدا نے خود احکام عشرہ کندہ کئے تھے، اور موسیٰ کو دیئے تھے۔

      (3) جلال کے بادِل (شکائنہ) کا غائب ہونا جِس نے عہد کے صندوق کو ڈھانپ رکھا تھا اور ہیکل میں خُدا کی عظمت کی موجودگی کی نشاندہی کرتا تھا۔

      (4) اُس آگ کا نقصان ہُوا جو ہیکل میں اُس وقت سے ہر وقت جلا کرتی تھی جب سے یہ آسمان سے اُتری تھی، اور ذبیحوں کو بھسم کر دیا تھا (پرانا عہدنامہ، 2۔ تواریخ 7: 1)۔ اِس کی حفاظت احبار 6: 13 میں مذکور حکم کی بناء پر کی جاتی تھی۔

  4. "اگر جناب آدم کا گناہ معاف نہیں کیا گیا تھا، تو وہ خُدا کے غضب کے باعث موت کا شکار ہوئے اور جہنم کے مستحق ٹھہرے ۔۔۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے مسیح تک ہر کوئی جِس کے گناہ معاف نہیں ہوئے جہنم کی آگ میں ہے۔"

    نہیں، میرے بھائی، مسیح سے پہلے آنے والے تمام لوگ عذاب میں نہیں ہیں، کیونکہ جنہوں نے توبہ کی، خُدا کی طرف رجوع لائے، اِیمان کے ساتھ قربانی کی، اُنہیں تو اپنے گناہوں کی معافی حاصل ہوئی۔ اَب رہے خود آدم اور اُن کی زوجہ تو وہ خُدا کی طرف سے مخلصی میں اُس وقت سے شامل ہیں جب اُنہوں نے فادی کی آمد کے بارے میں جو عورت کی نسل سے ہو گا سُنا (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 15)۔ جب اُنہوں نے اپنی برہنگی کی شرم محسوس کی تو خُدا نے اُنہیں چمڑے کے کرتے پہنائے، جِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس نے اُن کے گناہ کو معاف کر دیا ہے اور اُن کی خطا پر پردہ ڈال دیا ہے۔ ہم خُدا کی طرف سے اُن کی برہنگی کو جانوروں کی کھال سے ڈھانپنے سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اُس نے اُنہیں خون کی قربانی کے ذریعے چھڑایا۔

  5. "گناہ نے تمام بنی نوع انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور یہ مسیح کے بعد آنے والے تمام لوگوں کےلئے آدم کے گناہ کی معافی کا تقاضا کرتا ہے۔۔۔ مسیح کے بعد رہنے والے لوگ خوش قسمت ہیں، جبکہ مسیح سے پہلے رہنے والے بدقسمت ہیں۔"

    نہیں، میرے بھائی، مسیح کے بعد زندہ رہنے والے تمام لوگوں کو معاف نہیں کیا گیا، لیکن خُدا نے مسیح میں صلح کا دروازہ کھول دیا جب کہا: "یہ میرا پیارا بیٹا ہے جِس سے مَیں خُوش ہُوں اِس کی سُنو" (اِنجیل بمطابق متّی 17: 5)۔ اِس اعلان میں شرطِ نجات یہ رکھی گئی کہ ہم خُدا کے بیٹے کی بات سُنیں۔ یہ تو اِنسانیّت کی خوش بختی ہے کہ خُدا کے بیٹے کے الفاظ نجات کی دعوت ہیں:

    • "اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تُم کو آرام دُوں گا۔" (متّی 11: 28)

    • "جو کُچھ باپ مجھے دیتا ہے میرے پاس آ جائے گا اور جو کوئی میرے پاس آئے گا اُسے مَیں ہرگِز نِکال نہ دُوں گا۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 6: 37)

    • "اب خُداوند فرماتا ہے آؤ ہم باہم حُجّت کریں۔ اگرچہ تُمہارے گناہ قرمزی ہوں وہ برف کی مانِند سفید ہو جائیں گے اور ہرچند وہ ارغوانی ہوں تَو بھی اُون کی مانِند اُجلے ہوں گے۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 1: 18)

    وہ سب جو مسیح کی باتیں سُن کر اُس کے پاس آئے نجات پا گئے۔ خُدا نے اپنی بےپناہ محبّت اور بھرپور رحمت سے درِ مغفرت بند نہیں کیا بلکہ اُسے کھلا چھوڑ دیا ہے تا کہ سب اُس کے پاس آئیں اور اُس کے نام سے معافی حاصل کریں۔ مسیح کا فرمان ہے: "دیکھ مَیں دروازہ پر کھڑا ہُؤا کھٹکھٹاتا ہُوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو مَیں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 3: 20)۔ لہٰذا، کوئی خوش قسمت یا بدقسمت گروہ نہیں ہے، کیونکہ خُدا بغیر کِسی امتیاز کے بچاتا ہے، جیسا کہ لکھا ہے: "مگر اب شرِیعت کے بغیر خُدا کی ایک راست بازی ظاہِر ہُوئی ہے جِس کی گواہی شرِیعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔ یعنی خُدا کی وہ راست بازی جو یسوع مسیح پر اِیمان لانے سے سب اِیمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ کچھ فرق نہیں۔ اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محرُوم ہیں۔ مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مُفت راست باز ٹھہرائے جاتے ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 21۔ 24)۔

  6. "میرے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ عیسیٰ کے قاتل بھی تو آدم کے گناہ سے داغدار تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خُداوند اُن لوگوں کے ہاتھوں مارا جائے اور قاتلوں کو اُن کے کئے کی معافی مل گئی۔"

    ظاہر ہے کہ مسیح جِس نے لوگوں کو اپنے دُشمنوں سے محبّت کرنا اور اُن پر ظلم کرنے والوں کےلئے دُعا کرنا سکھایا، وہ اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کےلئے بھی دُعا کرے گا۔ جنہوں نے مسیح کو مصلوب کیا، اُن کےلئے اُس نے شفاعت کی اور کہا، "اَے باپ! اِن کو مُعاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 34)۔ یہ الفاظ یسعیاہ میں ایک پیشین گوئی کی تکمیل تھے: "۔۔۔ اُس نے بُہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطا کاروں کی شفاعت کی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 12)۔

    تاہم، اپنے دُشمنوں کےلئے جِس معافی کی درخواست نجات دہندہ نے کی، وہ صرف اُن لوگوں کےلئے ہے جنہوں نے توبہ کی اور اُس پر ایمان لائے، اور اپنی زندگی راست بازی، پاکیزگی اور سچّائی کے ساتھ اُس کی اِنجیل کے لائق گزاری۔

  7. "کیوں عیسیٰ اُس وقت قربان نہیں ہوئے جب آدم نے گناہ کیا تھا؟ ۔۔۔ اِس معاملے کو مسیح کے زمانے تک مؤخر کرنے میں کیا حکمت ہے؟"

    ظاہر ہے کہ مسیح کو اُس کے دُنیا میں آنے اور جسد اِختیار کئے جانے سے پہلے قتل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ آمد ازل سے خُدا کی طرف سے مُقرر کردہ وقت پر ہونا تھی، اور پولس رسول نے اِسے وقت کا پورا ہونا کہا ہے۔ تاریخ میں اُس وقت سے پہلے، دُنیا اُس کے آنے کےلئے تیار نہیں تھی، کیونکہ رسول کے مطابق "وارِث جب تک بچّہ ہے اگرچہ وہ سب کا مالک ہے اُس میں اور غُلام میں کچھ فرق نہیں۔ بلکہ جو مِیعاد باپ نے مقرّر کی اُس وقت تک سرپرستوں اور مختاروں کے اِختیار میں رہتا ہے۔ اِسی طرح ہم بھی جب بچّے تھے تو دُنیوی اِبتدائی باتوں کے پابند ہو کر غُلامی کی حالت میں رہے" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 1۔ 3)۔ رسول نے مزید یہ بھی کہا: "لیکن جب وقت پُورا ہو گیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عَورت سے پَیدا ہُؤا اور شرِیعت کے ماتحت پَیدا ہُؤا، تا کہ شرِیعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چُھڑا لے اور ہم کو لے پالک ہونے کا درجہ مِلے" (گلتیوں 4: 4، 5)۔

    یہ سچّ ہے کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے زمین لعنت کے تحت آ گئی، لیکن خُدا نے اپنی حکمت میں یہ فیصلہ کیا کہ لعنت کے بعد مسیح کے ذریعہ تمام چیزیں بحال کی جائیں۔ مگر بحالی سے پہلے زوال کے خوفناک نتائج کو پوری طرح ظاہر کرنے کےلئے زمین پر عام تباہی ہو گی جو زمین کی صورت بدل دے گی۔

    نیز، موسیٰ کی آمد سے پہلے مسیح کی آمد بھی مناسب نہ تھی کیونکہ سب لوگ بت پرستی کی تاریکی میں نہیں تھے۔

    غالباً، طوفان نوح سے پہلے مسیح کے نہ آنے کی وجہ یہ تھی کہ زمین اِنسانوں سے بھر جائے اور یوں شیطان پر اُس کی فتح زیادہ شاندار ہو۔

    بابل کی اسیری سے قبل بھی آمدِ مسیح مناسب نہ تھی کیونکہ شیطان کی بادشاہی ابھی اپنے عروج پر نہیں پہنچی تھی۔ اُس زمانے میں بت پرست ریاستیں چھوٹی تھیں۔ چنانچہ یہی خُدا کو منظور تھا کہ جناب مسیح تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت رومی سلطنت کے وقت میں ظاہر ہوں۔ یہ سلطنت زمین پر شیطان کی نظر آنے والی بادشاہی تھی۔ یوں مسیح نے شیطان کی بادشاہی کو اُس کے عروج پر فتح کیا۔

    اہم بات یہ ہے کہ وہ کلمہ جو اِبتدا میں خُدا کے ساتھ تھا، اور جو شروع سے ہی فطرت کے عجائبات اور زندگی کے رازوں میں خُدا کا ہمنوا تھا (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 1۔ 5)، آخِرکار وقت پورا ہونے پر دُنیا میں آیا، جِسے آنکھوں سے دیکھا گیا اور ہاتھوں سے چھؤا گیا۔ لوگوں نے اُس کا جلال دیکھا، وہ فضل اور سچّائی سے معمور تھا (یوحنّا 1: 14)۔ مسیح خُدا کا اعلٰی ترین مکاشفہ تھا جِسے خُدا نے اِنسانوں پر ظاہر کیا۔ اُس کے ذریعے سے نہ صرف خُدا کی قدرت اور عظمت ظاہر ہوئی بلکہ خُدا کا شفقت سے معمور دِل بھی ظاہر ہُوا جو رحمت، ترس اور محبّت سے بھرا ہے۔

    یہ سچّ ہے کہ اِس دُکھی دُنیا کو خُدا کے بھرپور مکاشفہ کی روشنی کے طلوع ہونے سے پہلے طویل اِنتظار کرنا پڑا۔ لیکن اِس کے باوجود خُدا کو مسیح کے تجسّم سے پہلے اِس تباہ حال دُنیا کی گہری فکر تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسیح کی آمد کے وقت اِس دُنیا میں تین بااثر قومیں موجود تھیں: یونانی، رومی اور یہودی۔ یونانی تہذیب یافتہ ثقافت کے حامل تھے، رومی طاقتور اور غالب تھے، جبکہ یہودی حقیر اور مغلوب تھے۔ اِن تینوں اقوام نے نادانستہ طور پر مسیح کے آنے کی راہ ہموار کی، جِس سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ سب ایک قسم کی الٰہی پروردگاری تھی جِس نے خُداوند کی آمد کی راہ تیار کی۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا نے رومیوں کو دُنیا کے مختلف حصوں کو متحد کرنے اور ایک وسیع علاقے میں امن و امان قائم کر کے راہ ہموار کرنے کےلئے استعمال کیا جہاں پہلے ہر طرف افراتفری پھیلانے والے لٹیروں کا راج تھا۔ اگر اِس سے پہلے مسیحیّت کا ظہور ہُوا ہوتا تو اِنجیل کا پیغام صرف ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود رہتا۔

    یونانیوں نے بھی، نادانستہ طور پر، مسیح کےلئے راستہ تیار کیا۔ اُنہوں نے یہ کام اپنی خوبصورت زبان کو پھیلا کر کیا جو وسیع رومی سلطنت میں سرکاری زبان بن گئی۔ یونانی زبان پوری سلطنت میں اِنجیل کے پیغام کو پھیلاؤ کا ایک عمدہ ذریعہ تھا۔

    جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے، وہ بہت سے ممالک میں منتشر ہو چُکے تھے، اور اپنی مُقدّس کتابیں اپنے ساتھ لے گئے تھے اور موسیٰ کی ہدایت کے مطابق ہر سبت کے دِن اُنہیں عبادت خانوں میں پڑھتے تھے۔ ایک اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ مسیح کے تجسّم سے تقریباً 200 برس قبل اُن صحیفوں کا یونانی میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بت پرست دُنیا مسیح کی آمد کی پیشین گوئیوں سے واقف ہوئی۔

    یہ بہت دلچسپ ہے کہ اُن قوموں نے خُداوند کی راہ کی تیاری میں کس طرح انجانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ یہ حقائق تاریخ کے واقعات میں خُدا کے ہاتھ کو واضح کرتے ہیں۔

    غالباً، اِس سلسلے میں سب سے عجیب بات یہودیوں کا مسیح کا شدّت سے اِنتظار کرنا تھا، کیونکہ تقریباً چار صدیوں سے نبوّت کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا۔ کوئی سوچے گا اتنے لمبے عرصے میں لوگ بھول گئے ہوں گے اور اُن کی اُمّید کمزور پڑ گئی ہو گی۔ لیکن ایسا کُچھ نہیں ہُوا، لوگوں میں قوموں کی اُمّید کی آمد کی آرزو روز بروز بڑھتی گئی۔ بےشک وہ اقوام جِن کے پاس کتابِ مُقدّس کے مواد تک رسائی تھی وہ یہودیوں کی توقع میں شریک تھیں۔ مسیح کی پیدایش کے بعد مشرق کی طرف سے مُقدّس سرزمین پر مسیح کو سجدہ کرنے کےلئے آنے والے مجوسیوں کا واقعہ اِس بات کا ایک ثبوت ہے۔

    یہ بات قابل غور ہے کہ جب کلمہ خُدا متجسّد ہو کر بیت لحم کی چرنی میں پیدا ہُوا، تو بہت ہی اہم واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے خُداوند کی آمد کے منتظر افراد کے دِلوں میں اُمّید کو پھر سے جگایا:

    الف: نبوّت کی رُوح کی واپسی ہوئی جو ملاکی نبی کے بعد موقوف ہو گئی تھی۔ نبوّت کی رُوح زکریاہ کاہن اور اُس کی بیوی الیشبع، مُقدّسہ کنواری مریم اور یوسف، بوڑھے شمعون، حناہ نبیّہ اور یوحنّا بپتسمہ دینے والے کے ذریعے ظاہر ہُوئی۔

    ب: بڑی شادمانی کا عالم بالا پر ظہور ہُوا، ملائکہ نے آسمان و زمین پر بڑی خوشی منائی: "عالمِ بالا پر خُدا کی تمجید ہو اور زمِین پر اُن آدمِیوں میں جِن سے وہ راضی ہے صُلح" (اِنجیل بمطابق لوقا 2: 14)۔ آسمان اور زمین پر رہنے والے کلمہ خُدا کے تجسّم کا اِنتظار کر رہے تھے، کیونکہ اُنہیں نجات سے متعلق خُدا کے وعدوں سے آگاہ کیا گیا تھا۔

    ج: ہیکل میں ننھے یسوع کا داخلہ حجّی نبی کی پیشین گوئی پوری ہونا تھا: "مَیں سب قَوموں کو ہِلا دُوں گا اور اُن کی مرغُوب چِیزیں آئیں گی اور مَیں اِس گھر کو جلال سے معمور کرُوں گا ربُّ الافواج فرماتا ہے۔ چاندی میری ہے اور سونا میرا ہے ربُّ الافواج فرماتا ہے۔ اِس پِچھلے گھر کی رَونق پہلے گھر کی رَونق سے زِیادہ ہو گی ربُّ الافواج فرماتا ہے اور مَیں اِس مکان میں سلامتی بخشُوں گا ربُّ الافواج فرماتا ہے" (پرانا عہدنامہ، حجّی 2: 7۔ 9)۔

  8. "ہم نے دیکھا ہے کہ نجات دہندہ منطقی طور پر چھٹکارا پانے والے سے برتر ہے۔ تو پھر کیسے آدم کا گناہ خُدا کے سامنے عیسیٰ کی نسبت زیادہ اہم تھا؟"

    میرے بھائی، تمہارے اِستفسار سے معلوم ہوتا ہے کہ تم خُدا کی حکمت کے خلاف اِنسانی منطق کو داخل کر رہے ہو۔ یہ ایسا کام ہے جِس سے رسولوں اور انبیاء نے اِجتناب کیا ہے۔ یسعیاہ نبی نے کہا: "خُداوند کھڑا ہے کہ مقدّمہ لڑے اور لوگوں کی عدالت کرے۔ خُداوند اپنے لوگوں کے بزُرگوں اور اُن کے سرداروں کی عدالت کرنے کو آئے گا ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 3: 13، 14)۔ اِسی طرح پولس رسول نے کہا: "واہ! خُدا کی دَولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بے نِشان ہیں!" (نیا عہدنامہ، رومیوں 11: 33)۔

    اِنسانوں کےلئے جائز نہیں کہ خُدا نے اِنسان کی نجات کےلئے جو منصوبہ بنایا ہے اُس پر اعتراض کریں اور نہ ہی محدود اِنسانی عقل کے ساتھ خُدا تعالیٰ کے طریقوں پر بحث کریں، کیونکہ جب خُدا اپنے تقاضوں کے مقابلے میں اپنی محبّت اور رحمت سے مالا مال فضل سے پیش آتا ہے تو اِنسانی بحث کےلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اِنسان، ایک ضعیف و عاجز مخلوق، کون ہے کہ خدا کے خیالات کا جائزہ لے یا اُس کی محبّت کو جانچے؟ کیا یہ جان لینا کافی نہیں ہے کہ قدّوس خُدا گناہ میں گِرے ہوئے ہم اِنسانوں کی فکر کرتا ہے اور اُس نے ہماری نجات کا بندوبست کیا ہے؟

    میرے بھائی، ایسا نہیں ہے کہ آدم کا گناہ خُدا کے سامنے عیسیٰ کی نسبت زیادہ اہم تھا۔ لیکن، اِنسان سے خُدا کی محبّت اِس قدر شاندار ہے کہ اُس نے اِنسان کےلئے جِسے اُس نے اپنی صورت پر بنایا تھا، ایک نجات تیار کی۔ اُس نے نسلِ اِنسانی کو مسیح کے وسیلے، جو زیادہ قیمتی ہے، چھڑایا۔

    پرانے عہدنامے کے وقتوں میں اِنسان کے گناہ کا کفّارہ قربانیوں کے ذریعے دیا جاتا تھا، جِن کی قدر اِنسان سے کم تھی۔ تاہم، خُدا نے اُنہیں اُن کی مادی قدر کی بنیاد پر قبول نہیں کیا تھا، بلکہ اِس لئے کہ یہ اُس نجات دہندہ کی علامت تھیں جو لامحدود قدر کا حامل ہے۔ جیسے کاغذی نقدی کی کوئی قدر نہیں جب تک کہ حکومت اُس پر اپنی مُہر نہ ثبت کرے، اِسی طرح پرانے عہد کی قربانیاں ہیں جِن پر مسیح کی مُہر ثبت ہے۔

  9. "جب شیطان نے آدم سے گناہ کرایا تو موت کا حقدار تو وہ تھا، کیونکہ عیسٰی نہیں بلکہ وہ مسئلہ کا سبب تھا۔"

    نجات میں خُدا کا مقصد شیطان کو سزا دینا نہیں تھا بلکہ اِنسان کو اتھاہ گڑھے سے بچانے میں اپنی عظیم محبّت کا اظہار کرنا تھا جِس میں اُس نے خود کو نافرمانی کے ذریعے پھینک دیا تھا۔ چونکہ خُدا کی محبّت اُس کے اِنصاف پر غالب نہیں آ سکتی، اِس لئے اُس کے پاکیزگی کے لائق ایک قربانی پیش کرنا ضروری ہو گیا۔ برادر، شیطان اپنی گراوٹ و عصیاں کے باعث الٰہی غضب کے تحت ہے۔ خُدا نہ کرے کہ تم ایسا سوچنے لگ جاؤ کہ شیطان رجیم، قدّوس اور سچّے خُداوند یسوع مسیح کے بجائے خُدا کے مذبح پر رکھا جائے تا کہ وہ عظیم فدیہ جیسے الٰہی کام کو سرانجام دے۔

    مسیح نے تو اِبلیس کے حق میں فرمایا ہے کہ وہ جھوٹا بلکہ جھوٹوں کا باپ ہے۔ کیا خُدا ہمیں اِس جھوٹے پر اپنی نجات کی اُمّید رکھنے کی اجازت دے گا جو شروع ہی سے خونی ہے اور جِس میں کوئی سچّائی نہیں ہے؟ (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 44)۔

    مَیں اِس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ شیطان کو موت دینے کا خیال باطنیہ گروہ کے بعض لوگوں کی تعلیمات میں بیان کیا گیا تھا، جنہوں نے اپنے نظریات قدیم یونانیوں اور فارسیوں سے مستعار لیے تھے۔ مَیں تمہیں اُن مضحکہ خیز فلسفوں میں مبتلا ہونے سے خبردار کرتا ہوں جِن کی آسمانی مذاہب میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔

  10. "فدیہ پانے والا اِسمٰعیل، اُس مینڈھے سے زیادہ معزز تھا جِس سے اُسے چھڑایا گیا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خُدا اِسمٰعیل کو جو اپنے باپ کے ہاتھوں قربان ہونے والا تھا چھڑاتا اور اپنے پیارے مسیح کو نہ چھڑاتا ۔۔۔ کیا خُدا کےلئے ممکن نہیں تھا کہ جیسے ایک مینڈھے کے ذریعے اُس نے اِسمٰعیل کو بچایا تو وہ کسی پر مسیح کی شبیہ ڈال کر اُنہیں بچاتا اور دیکھنے والے سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ مصلوب ہونے والا مسیح تھا؟"

    میرے بھائی، ہم جانتے ہیں کہ کوئی اُس وقت تک سچّائی کی خدمت نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ چیزوں کو اُن کے اصلی نام سے نہ پکارے۔ اِس بناء پر سچّائی بیان کرنی ضروری ہے: ابرہام کے جِس بیٹے کا مینڈھے کے ذریعے فدیہ دیا گیا وہ اسمٰعیل نہیں بلکہ اضحاق تھے، اور وہ جگہ جہاں یہ واقعہ رونما ہُوا وہ کوہِ موریاہ تھا نہ کہ کوہِ عرفات۔ خُدا کے نبی موسیٰ نے اِس واقعے کو تفصیل سے بیان کیا ہے:

    "اِن باتوں کے بعد یُوں ہُؤا کہ خُدا نے ابرہام کو آزمایا اور اُسے کہا، اَے ابرہام! اُس نے کہا، مَیں حاضِر ہُوں۔ تب اُس نے کہا کہ تُو اپنے بیٹے اِضحاق کو جو تیرا اِکلوتا ہے اور جِسے تُو پِیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو مَیں تجھے بتاؤں گا سوختنی قُربانی کے طَور پر چڑھا ۔۔۔ اور ابرہام نے ہاتھ بڑھا کر چُھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔ تب خُداوند کے فرِشتہ نے اُسے آسمان سے پُکارا کہ اَے ابرہام اَے ابرہام! اُس نے کہا، مَیں حاضِر ہُوں۔ پِھر اُس نے کہا کہ تُو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اُس سے کچھ کر کیونکہ مَیں اب جان گیا کہ تُو خُدا سے ڈرتا ہے اِس لئے کہ تُو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اِکلوتا ہے مُجھ سے دریغ نہ کیا۔ اور ابرہام نے نِگاہ کی اور اپنے پِیچھے ایک مینڈھا دیکھا جِس کے سِینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ تب ابرہام نے جا کر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قُربانی کے طَور پر چڑھایا۔ اور ابرہام نے اُس مقام کا نام یہوواہ یِری رکھا چُنانچہ آج تک یہ کہاوت ہے کہ خُداوند کے پہاڑ پر مہیّا کیا جائے گا۔" (پرانا عہدنامہ، پیدایش 22: 1، 2، 10۔ 14)

    یقیناً، میرے بھائی، جِس بیٹے کی قربانی کےلئے ابرہام کو کہا گیا، وہ اِضحاق تھا، کیونکہ وہی خُدا کے وعدہ کا فرزند اور اپنے باپ کا وارث تھا۔ خُدا نے ابرہام سے کہا: "۔۔۔ اور زمین کی سب قومیں تیری نسل کے وسِیلہ سے برکت پائیں گی" (پیدایش 26: 4)۔ یہاں برکت سے مُراد نجات کی برکت ہے جو مسیح یسوع کے ذریعے تمام لوگوں اور قوموں کےلئے ممکن ہوئی جو اِضحاق کی نسل سے جِسم میں آیا۔ جہاں تک اِسمٰعیل کا تعلق ہے تو وہ ہاجرہ نامی لونڈی کے بیٹے تھے، جنہیں ابرہام نے اِس واقعہ سے چند سال پہلے اپنے سے دُور کر دیا تھا۔ ہم گلتیوں کی کتاب میں پڑھتے ہیں: "یہ لکھا ہے کہ ابرہام کے دو بیٹے تھے۔ ایک لونڈی سے۔ دُوسرا آزاد سے۔ مگر لونڈی کا بیٹا جِسمانی طَور پر اور آزاد کا بیٹا وعدہ کے سبب سے پَیدا ہُؤا" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 4: 22، 23)۔

    خُدا جانتا تھا کہ ابرہام کے دو بیٹے تھے، اسمٰعیل اور اِضحاق۔ لیکن اِس کے باوجود اُس نے ابرہام سے کہا: "۔۔۔ اپنے بیٹے اِضحاق کو جو تیرا اِکلوتا ہے ۔۔۔ساتھ لے" (پیدایش 22: 2)، اور اِس بچّے کو ممتاز کیا جِسے خُدا نے وعدہ کا وارث ہونے کےلئے مُقرّر کیا تھا۔ جہاں تک اسمٰعیل کا تعلق ہے، خُدا نے وعدہ کیا تھا کہ اُس کی اولاد ایک عظیم قوم بنے گی (پیدایش 21: 18)۔

    جہاں تک تمہارے سوال کی بات ہے کہ "کیا خُدا کےلئے ممکن نہیں تھا کہ وہ کِسی پر مسیح کی شبیہ ڈال کر اُنہیں بچاتا؟" تو اِس دلیل کی کمزوری پر تو مَیں کافی لکھ چکا ہوں جِسے کوئی بھی معقول شخص قبول نہیں کرے گا کیونکہ یہ خُدا کی وفاداری اور حِکمت کی توہین ہے۔ مُجھے یقین ہے کہ جو کُچھ مُیں نے تمہارے لئے صحائفِ مُقدّسہ میں سے نقل کیا ہے اُس میں تمہیں کافی ثبوت مل جائیں گے۔ اُمّید ہے کہ تم نظریہ شبیہ کا پِھر سے جائزہ لو گے جِسے بہت سے مسلمان مانتے ہیں، کیونکہ یہ نظریہ تاریخی حقائق یا ٹھوس شواہد سے ثابت نہیں ہُوا ہے۔ اِس کے بارے میں جو کُچھ کہا گیا ہے وہ خالص قیاس ہے جو سچّائی کی تلاش کرنے والے ذہن کو مطمئن نہیں کرتا۔ قرآن کا قول کہ "۔۔۔ ہاں اُن کو ایسا گمان ضرور ہُوا تھا" (سورۃ النساء 4: 157)، اِس مشکل کے حل کےلئے کافی نہیں ہے، اور اِنجیل مُقدّس کے واضح بیان کے مقابلہ میں مبہم اور اُلجھانے والا ہے۔

    بحث کے اِختتام پر مَیں تم سے یہی چاہوں گا کہ تم جان لو کہ مسیح واقعی ایک حیرت انگیز شخصیّت ہے۔ یسعیاہ نبی نے رُوح القُدس کے الہام سے مسیح کو اِس طرح بیان کیا ہے (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 9: 6)۔ اَب بچا حیرت میں لپٹا تمہارا سوال کہ یہ کیسے ممکن ہُوا کہ خُدا مصلوب ہو گیا اور کیسے خُدا نے اپنے اِکلوتے بیٹے کو گنہگار کی خاطر دے دیا کہ وہ غضب کا شِکار بنا؟ تو اِس کے سمجھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ سادہ اِیمان کے ساتھ مسیح کی دعوت کو قبول کرو۔ اُس نے فرمایا: "اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو، سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تُم کو آرام دُوں گا۔ میرا جُؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مُجھ سے سِیکھو۔ کیونکہ مَیں حلِیم ہُوں اور دِل کا فروتن۔ تو تُمہاری جانیں آرام پائیں گی" (اِنجیل بمطابق متّی 11: 28، 29)۔

    اُس عجیب ہستی کی طرف نظر کرو جو آسمان کا ربّ ہے، اور جِس نے اپنے حیرت انگیز کاموں اور محبّت فائقہ سے خُدا کو ظاہر کیا۔ صرف اُسی میں تمہیں حقیقی معرفت ملے گی، جیسا کہ پولس رسول کو دمشق کی راہ پر مسیح پر ایمان لاتے وقت ملی۔ دُعا ہے کہ تم اُسے پہچان جاؤ، "جِس میں حِکمت اور معرفت کے سب خَزانے پَوشیدہ ہیں" (نیا عہدنامہ، کلسیوں 2: 3)۔

    اَب مَیں گواہی دیتا ہوں اِیمان لانے کے بعد ملنے والی رُوح القُدس کی زبردست قوّت کی جِس نے میری زِندگی میں تجدید پیدا کرنی شروع کر دی، اور اُس کی قوّت صلیب اور قیامت کی کہ جِس نے مُجھے بدل کر رکھ دیا، نئی زِندگی کی راہ دِکھائی، گناہوں کی تاریکیوں سے مغفرت کی روشنی دِکھائی اور وہ راست بازی عطا کی جو صِرف مسیح میں ہی میسّر ہے۔ مَیں تمہیں گواہی دیتا ہوں کہ صلیب بلاشبہ ایک حقیقت ہے، اور باوجود اِس کے کہ مَیں کثیر خطاؤں کی دلدل میں ایک زمانہ تک پھنسا رہا، یہ وہ واحد ذریعہ ہے جِس نے مُجھے خُدا کی محبّت کا یقین دلایا۔

    توفیق

18۔ تحریفِ کتابِ مُقدّس کا گمان

"آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی۔" (اِنجیل بمطابق متّی 24: 35)

مئی 15، 1954ء

میرے پیارے بھائی

خُدا کا فضل و سلامتی تمہارے شامل حال رہے۔

مَیں اپنے وعدے کے مطابق تمہارے سامنے اِس الزام کے جوابات پیش کر رہا ہوں کہ کتابِ مُقدّس میں تحریف کر دی گئی ہے۔

ایسے نظریے کے حامل افراد علماء راسخین اسلام کے بھی برخلاف ہیں جو ہمارے ہمنوا نظر آتے ہیں کہ اللّہ نے اپنے کلام کی کماحقہ حفاظت فرمائی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ یہ الزام کتابِ الٰہی کے خلاف بدترین بہتان ہے کیونکہ اِس کا کوئی سائنسی یا تاریخ ثبوت نہیں ہے۔ خُدا نے موسیٰ کی معرفت یہودیوں کو حکم دیا تھا کہ جو کُچھ اُس نے اُنہیں حکم دیا ہے اُس میں نہ تو کُچھ بڑھائیں نہ گھٹائیں (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 4: 2)۔ کئی صدیوں کے بعد سلیمان حکیم نے بھی اِسی طرح گواہی دی: "خُدا کا ہر ایک سُخن پاک ہے۔ وہ اُن کی سپر ہے جِن کا توکل اُس پر ہے۔ تُو اُس کے کلام میں کُچھ نہ بڑھانا۔ مبادا وہ تُجھ کو تنبِیہ کرے اور تُو جُھوٹا ٹھہرے" (پرانا عہدنامہ، امثال 30: 5، 6)۔

بائبل مُقدّس کی آخری کتاب، مکاشفہ میں ہمارے پاس یہ سخت تنبیہ ہے: "مَیں ہر ایک آدمی کے آگے جو اِس کتاب کی نبُوّت کی باتیں سُنتا ہے گواہی دیتا ہُوں کہ اگر کوئی آدمی اُن میں کُچھ بڑھائے تو خُدا اِس کتاب میں لِکھی ہُوئی آفتیں اُس پر نازِل کرے گا۔ اور اگر کوئی اِس نبُوّت کی کتاب کی باتوں میں سے کُچھ نِکال ڈالے تو خُدا اُس زِندگی کے درخت اور مُقدّس شہر میں سے جِن کا اِس کتاب میں ذِکر ہے اُس کا حِصّہ نِکال ڈالے گا" (نیا عہدنامہ، مکاشفہ 22: 18، 19)۔

اَب اِن سخت تنبیہات کے بعد کیا کوئی مومن خُدا کے کلام میں تحریف کرنے کی جرأت کرے گا؟ جہاں تک برے عزائم رکھنے والوں کا تعلق ہے، وہ بھی ایسا نہیں کر سکتے، کیونکہ اُن کےلئے دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہزاروں نسخے جمع کرنا اور اُن میں رد و بدل کرنا ناممکن ہے!

یہ افسوسناک ہے کہ حالیہ دِنوں میں لوگوں نے مسیح کے رسولوں پر اِنجیل کو بگاڑنے کا اِلزام لگایا ہے، اور ایک طرح سے یہ خود قرآن پر حملہ ہے، کیونکہ قرآن نے مسیح کے مبارک رسولوں کی سالمیّت کی گواہی دی ہے، اور اُنہیں مسیح کے "حواريين" (دوست) اور "أنصار الله" (اللّہ کے مددگار) کہا گیا ہے، اور اِس کے ساتھ کتابِ مُقدّس کی صداقت کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔

قرآن کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے والا کوئی بھی فرد کتابِ مُقدّس کی صداقت کی واضح گواہی سے حیران رہ جاتا ہے۔ یہ ایک سچّی گواہی ہے، جو بہت سی سورتوں میں موجود ہے، جِس کی کِسی وضاحت یا تفسیر کی ضرورت نہیں:

  • "اور اہل اِنجیل کو چاہئے کہ جو احکام خُدا نے اِس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خُدا کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرمان ہیں۔" (سورة المائدة 5: 47)

  • "یہ اللّہ کی ہدایت ہے کہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے دے۔ اور اگر وہ شرک کرتے تو اُن سے وہ اعمال ضائع ہو جاتے جو وہ کرتے تھے ۔۔۔ یہ وہ لوگ تھے جِن کو ہم نے کتاب اور حکم (شریعت) اور نبوّت عطا فرمائی تھی۔ اگر یہ (کفار) اِن باتوں سے انکار کریں تو ہم نے اُن پر (ایمان لانے کےلئے) ایسے لوگ مقرّر کر دیئے ہیں کہ وہ اُن سے کبھی انکار کرنے والے نہیں۔" (سورة الانعام 6: 88، 89)

    (اِن دونوں آیات میں اہلِ کتاب کو بائبل کے احکام کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے)

  • "کہو کہ اے اہل کتاب! جب تک تُم تورات اور اِنجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تُم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کُچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔" (سورة المائدة 5: 68)

    (یہ آیت محمّد صاحب کو اہلِ کتاب کو دی گئی ہدایت پر چلنے کی دعوت دیتی ہے جنہیں حکمت اور نبوت عطا کی گئی تھی)

  • "۔۔۔ اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اُس نے توریت اور اِنجیل نازل کی لوگوں کی ہدایت کےلئے ۔۔۔" (سورۃ آل عمران 3: 3، 4)

    (یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اللّہ تعالیٰ نے اِنسانیت کی راہنمائی کےلئے عظیم کتاب نازل کی)

  • "اور اُن پیغمبروں کے بعد اُنہی کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ ابنِ مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور اُن کو اِنجیل عنایت کی جِس میں ہدایت اور نُور ہے ۔۔۔" (سورة المائدة 5: 46)

    (یہ آیت تورات کے صحیح ہونے کی تصدیق کرتی ہے اور ہر ایک سے اُس کی ہدایت پر چلنے کو کہتی ہے)

  • "پھِر اُن کے پیچھے اُنہیں کے قدموں پر پیغمبر بھیجے اور اُن کے پیچھے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور اُن کو اِنجیل عنایت کی اور جِن لوگوں نے اُن کی پیروی کی اُن کے دِلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔" سورۃ الحدید 57: 27)

    (یہ آیت اِس بات کی تائید کرتی ہے کہ اِنجیل خُدا کی عنایت تھی اور محمّد صاحب کو اِس کے احکام کے تابع ہونا ہے)

  • "اے ایمان والو! ایمان رکھو اللّہ پر اور اُس کے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اپنے رسول پر اُتاری اور اُن کتابوں پر جو اِس سے پہلے نازل کی تھیں۔ اور جو شخص اللّہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں اور روزِ قیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دُور جا پڑا۔" (سورة النساء 4: 136)

    (یہ آیت اُس مسلمان کی گمراہی کا اعلان کرتی ہے جو بائبل مُقدّس کو نہیں مانتا)

  • "کہہ دو کہ اگر سچّے ہو تو تُم اللّہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو اِن دونوں (کتابوں) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔" (سورة القصص 28: 49)

    (اِس آیت میں محمّد صاحب سے بائبل کی صداقت اور قرآن کے ساتھ اُس کی برابری کی بات کی گئی ہے)

  • "اور یہ تُم سے (اپنے مقدمات) کیونکر فیصل کرائیں گے جبکہ خود اُن کے پاس تورات (موجود) ہے جِس میں اللّہ کا حکم (لکھا ہُوا) ہے؟" (سورة المائدة 5: 43)

    (اِس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ بائبل کی پیروی کرنے والے کو ثالثی کےلئے کِسی اَور کتاب کی ضرورت نہیں ہے)

    نہ صرف یہ سچّ ہے، بلکہ قرآن محمّد صاحب سے کہتا ہے کہ وہ شکوک و شبہات کو دُور کرنے کےلئے کتابِ مُقدّس کو استعمال کریں: "اگر تُم کو اِس (کتاب کے) بارے میں جو ہم نے تُم پر نازل کی ہے کچھ شک ہو تو جو لوگ تُم سے پہلے کی (اُتری ہوئی) کتابیں پڑھتے ہیں اُن سے پوچھ لو" (سورة یونس 10: 94)۔

بلاشبہ جو کوئی بھی اِن قرآنی نصوص پر گہرائی سے غور کرے گا اُسے اِبتدائی رسولوں اور مسیحیوں کی اِیمانداری کا واضح ثبوت ملے گا جنہوں نے بڑی سرگرمی سے کتابِ مُقدّس کی حفاظت کی۔ یہ آیات واضح گواہ ہیں کہ بائبل مُقدّس خُدا کے الہام سے لکھی گئی ہے۔ یہ کتابِ مُقدّس کی درستی اور الہام کے بارے میں مسیح کے رسولوں کی تصدیق سے متفّق ہے۔

پولس رسول نے کہا: "ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے تعلیم اور اِلزام اور اِصلاح اور راست بازی میں تربِیّت کرنے کےلئے فائِدہ مند بھی ہے۔ تا کہ مردِ خُدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کےلئے بِالکل تیّار ہو جائے" (نیا عہدنامہ، 2۔ تیمتھیس 3: 16، 17)۔ پطرس رسول نے لکھا: "اور پہلے یہ جان لو کہ کتابِ مقدّس کی کسی نبُوّت کی بات کی تاوِیل کسی کے ذاتی اِختیار پر موقُوف نہیں۔ کیونکہ نبُوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہِش سے کبھی نہیں ہُوئی بلکہ آدمی رُوحُ القُدس کی تحرِیک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے" (نیا عہدنامہ، 2۔ پطرس 1: 20، 21)۔

اِن آیات کی بنیاد پر مسیحی پرانے عہدنامے کی کتابوں کو پیدایش سے ملاکی تک قبول کرتے ہیں جو اِبتدائی کلیسیا کو یہودیوں کے ذریعے حاصل ہوئیں۔ وہ نئے عہدنامے کی کتابوں کی متّی کے اِنجیلی بیان سے لے کر مکاشفہ کی کتاب تک بھی تصدیق کرتے ہیں جنہیں کلیسیا نے رسولوں سے حاصل کیا تھا۔

اَب مَیں کتابِ مُقدّس کی صحت کے دفاع میں اُن ثبوتوں کا ذِکر کروں گا جو مَیں نے اکھٹے کئے ہیں، اور یہ صحائفِ مُقدّسہ کی درستی، اور اُن کے کِسی طرح کے فساد اور تحریف سے پاک ہونے کو ثابت کرتے ہیں:

  1. تاریخی ثبوت:

    الف: بائبل مقدّس کی بناوٹ۔ اگر خُدا کا کلام ایک چمکتا ہُوا نور ہے جِس کی چمک میں کامل دِن تک اضافہ ہوتا ہے، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا نے پوری حکمت اور سرگرمی کے ساتھ مُقدّس صحیفوں کو منکشف کیا ہے۔ اگر عہد عتیق کے تحریر کئے جانے کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مُقدّس تحریریں تین ادوار میں سامنے آئیں:

    پہلا دور: آدم سے موسیٰ تک

    کتابِ مُقدّس یہ نہیں بتاتی کہ خُدا کے کِسی اِنسان سے کلام کرنے کی کیا کیفیّت تھی۔ اِس لئے ہم اپنی محدود فکری صلاحیتوں کا سہارا لیتے ہوئے مُقدّس تاریخ کے بارے میں فیصلہ کرنے کےلئے آزمایش کا شکار ہو جاتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ پیدایش کی کتاب کے باب اوّل کے واقعات اور ہم میں ہزار ہا سال کا عرصہ ہے۔

    دُنیا میں گناہ کے داخل ہونے سے پہلے، خُدا اور اِنسان کا رشتہ بعد کے رشتہ سے کُلی طور پر مختلف تھا۔ یہ بھی ہمارے لئے تصوّر کرنا مشکل ہے کہ آدم و حوّا کو خُدا نے کیسے اپنی صورت اور شبیہ پر خلق کیا، اور کیسے خُدا اُن سے کلام کرتا تھا، لیکن ہم یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اُس نے ایسا کیا۔

    اِسی طرح، مُقدّس تحریریں بنی نوع اِنسان پر خُدا کے مکاشفات کے آغاز کے وقت کی وضاحت نہیں کرتیں، لیکن ہم کلام پاک سے کُچھ نتائج اخذ کرنے کے قابل ہیں اور یہ مددگار ہے۔ مثلاً، حنوک کا ذکر پیدایش 5: 21۔ 24 میں کیا گیا ہے۔ ہمیں یہوداہ رسول نے بتایا ہے کہ وہ آدم سے ساتویں نسل میں ایک نبی تھے (نیا عہدنامہ، یہوداہ، آیت 14)۔ حنوک نبی کو بلاشبہ ماضی کے بارے میں کُچھ علم تھا، کیونکہ کتابِ مُقدّس کے نسب ناموں کے مطابق وہ آدم کے زمانے میں زندہ تھے، اور یقیناً اُن سے گفتگو کرتے ہوں گے۔ اِسی طرح متوسلح بن حنوک، نوح کے ہمعصر تھے جنہوں نے راست بازی کی منادی کی تھی اور سچّائی کا اعلان کیا تھا۔ نوح نبی طوفان کے بعد آنے والی نسلوں تک مُقدّس پیغام پہنچانے کے قابل تھے (نیا عہدنامہ، 2۔ پطرس 2: 5)۔ سام بن نوح تو عبرانیوں کے جدّ اعلٰی تھے جو ابرہام کے زمانے تک زِندہ رہے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 10: 21؛ 11: 10۔ 26)۔

    گلتیوں کے نام پولس رسول کے خط سے پتا چلتا ہے کہ یہ مُقدّس پیغام ابرہام تک منتقل ہُوا: "اور کتابِ مُقدّس نے پیشتر سے یہ جان کر کہ خُدا غَیر قَوموں کو اِیمان سے راست باز ٹھہرائے گا پہلے ہی سے ابرہام کو یہ خُوشخبری سُنا دی کہ تیرے باعِث سب قَومیں برکت پائیں گی" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 3: 8)۔ یہ آیت تصدیق کرتی ہے کہ ابرہام نے گذشتہ واقعات کی معتبر معلومات حاصل کی تھیں۔ بعدازاں، ابرہام نے اپنی اولاد تک یہ باتیں پہنچائیں، جیسا کہ پیدایش کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے: "کیونکہ مَیں جانتا ہُوں کہ وہ اپنے بیٹوں اور گھرانے کو جو اُس کے پیچھے رہ جائیں گے وصِیّت کرے گا کہ وہ خُداوند کی راہ میں قائِم رہ کر عدل اور اِنصاف کریں تا کہ جو کُچھ خُداوند نے ابرہام کے حق میں فرمایا ہے اُسے پُورا کرے" (پیدایش 18: 19)۔ کلام مُقدّس کی اِس آیت سے ابرہام اور موسیٰ کے مابین اتصال کا جاننا چنداں مشکل نہیں رہا۔

    دوسرا دور: موسیٰ کا زمانہ

    خروج کی کتاب کی اِبتدا سے واقعات کا اندراج موسیٰ کو خُدا کی ہدایات کے نتیجے میں نہایت عرق ریزی سے ہُوا: "تب خُداوند نے موسیٰ سے کہا، اِس بات کی یادگاری کےلئے کتاب میں لکھ دے اور یشُوع کو سُنا دے ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، خروج 17: 14)۔ کتابِ مُقدّس یہ بھی خبر دیتی ہے کہ موسیٰ نے عہدنامہ لیا اور لوگوں کو پڑھ کر سُنایا (خروج 24: 7)۔ خُدا نے موسیٰ سے یہ بھی کہا: "تُو یہ باتیں لکھ کیونکہ اِن ہی باتوں کے مفہُوم کے مطابِق مَیں تُجھ سے اور اِسرائیل سے عہد باندھتا ہُوں" (خروج 34: 27)۔

    خُداوند کے حکم پر مُوسیٰ نے اسرائیل کے سفر کا حال اُن کی منزِلوں کے مُطابِق قلمبند کِیا (پرانا عہدنامہ، گنتی 33: 2)۔ نیز، جب وہ شریعت کی کتاب کو شروع سے آخر تک لکھ چُکا تو اُس نے اُن لاویوں کو جو خُداوند کے عہد کا صندُوق اُٹھایا کرتے تھے کہا: "اِس شرِیعت کی کتاب کو لے کر خُداوند اپنے خُدا کے عہد کے صندُوق کے پاس رکھ دو تا کہ وہ تیرے برخِلاف گواہ رہے" (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 31: 26)۔

    تیسرا دور: یشوع سے ملاکی تک:

    • "شرِیعت کی یہ کتاب تیرے مُنہ سے نہ ہٹے بلکہ تُجھے دِن اور رات اِسی کا دھیان ہو تا کہ جو کُچھ اِس میں لکھا ہے اُس سب پر تُو اِحتیاط کر کے عمل کر سکے ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، یشوع 1: 8)

    • "اور یشُوع نے یہ باتیں خُدا کی شرِیعت کی کتاب میں لکھ دِیں ۔۔۔" (یشوع 24: 26)

    • "پِھر سموئیل نے لوگوں کو حُکومت کا طرز بتایا اور اُسے کتاب میں لکھ کر خُداوند کے حضُور رکھ دِیا ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، 1۔ سموئیل 10: 25)

    • "داؤُد کی آخِری باتیں یہ ہیں: داؤُد بِن یسّی کہتا ہے۔ یعنی یہ اُس شخص کا کلام ہے جو سرفراز کیا گیا اور یعقُوب کے خُدا کا ممُسوح اور اِسرائیل کا شیرِین نغمہ ساز ہے۔" (پرانا عہدنامہ، 2۔ سموئیل 23: 1)

    • "اور سردار کاہِن خِلقیاہ نے سافن مُنشی سے کہا کہ مُجھے خُداوند کے گھر میں تَورَیت کی کتاب ملی ہے اور خِلقیاہ نے وہ کتاب سافن کو دی اور اُس نے اُس کو پڑھا" (پرانا عہدنامہ، 2۔ سلاطین 22: 8؛ مزید دیکھئے آیات 9۔ 13)۔

    اِس آیت کے مطابق تَورَیت کی کتاب کے ملنے پر ایک رُوحانی بیداری آئی۔

    یسعیاہ نبی کے صحیفہ کے 28 اور 29 ابواب میں کہانت کی بدعنوانی اور کتابِ مُقدّس کے علم کی کمی کو بیان کیا گیا ہے: "اور ساری رویا تُمہارے نزدِیک سر بمُہر کتاب کے مضمُون کی مانِند ہو گی جِسے لوگ کسی پڑھے لِکھے کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ اور وہ کہے مَیں پڑھ نہیں سکتا کیونکہ یہ سر بمُہر ہے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 29: 11)۔ یسعیاہ نبی نے یہ کہتے ہوئے لوگوں کو خُدا کے کلام کی طرف رجوع لانے اور اُسے پڑھنے کی تلقین کی: "تُم خُداوند کی کتاب میں ڈُھونڈو اور پڑھو۔ اِن میں سے ایک بھی کم نہ ہو گا اور کوئی بے جُفت نہ ہو گا کیونکہ میرے مُنہ نے یِہی حُکم کیا ہے اور اُس کی رُوح نے اِن کو جمع کیا ہے" (یسعیاہ 34: 16)۔

    یہوداہ کے بادشاہ، یہو یقیم بن یوسیاہ کے چوتھے سال میں خُداوند کی طرف سے یہ کلام یرمیاہ نبی پر نازل ہُوا: "کتاب کا ایک طُومار لے اور وہ سب کلام جو مَیں نے اِسرائیل اور یہوداہ اور تمام اقوام کے خِلاف تُجھ سے کیا ۔۔۔ اُس میں لکھ" (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 36: 2)۔

    دانی ایل نبی نے کلام مُقدّس میں سے یرمیاہ نبی کی معرفت خُدا کے الفاظ کو پڑھنے کے بعد کہا: "۔۔۔ مَیں دانی ایل نے ۔۔۔ سمجھا ۔۔۔ یروشلیم کی بربادی پر ستّر برس پُورے گُذریں گے" (پرانا عہدنامہ، دانی ایل 9: 2)۔ دانی ایل نبی کے بنی آدم سے مشابہت رکھنے والی شخصیت کے الفاظ پر بھی غور کرو: "لیکن جو کُچھ سچّائی کی کتاب میں لکھا ہے تُجھے بتاتا ہُوں" (دانی ایل 10: 21)۔

    شاہِ فارس، خورس کے ایّام میں، عزرا اور نحمیاہ نے اپنے آپ کو موسیٰ کی شریعت کےلئے وقف کیا جو خُداوند نے دی تھی۔ عزرا نے لکھا ہے: "اِن باتوں کے بعد شاہِ فارس ارتخششتا کے دَورِ سلطنت میں عزرا ۔۔۔ بابل سے گیا اور وہ موسیٰ کی شرِیعت میں جِسے خُداوند اِسرائیل کے خُدا نے دِیا تھا ماہِر فقِیہ تھا اور چُونکہ خُداوند اُس کے خُدا کا ہاتھ اُس پر تھا بادشاہ نے اُس کی سب درخواستیں منظُور کیں ۔۔۔ عزرا آمادہ ہو گیا تھا کہ خُداوند کی شرِیعت کا طالِب ہو ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، عزرا 7: 1۔ 10)۔

    نحمیاہ نے لکھا: "اور سب لوگ یک تن ہو کر پانی پھاٹک کے سامنے کے میدان میں اِکٹّھے ہُوئے اور اُنہوں نے عزرا فقِیہ سے عرض کی کہ موسیٰ کی شرِیعت کی کتاب کو جِس کا خُداوند نے اِسرائیل کو حکم دِیا تھا لائے۔ اور ساتویں مہینے کی پہلی تارِیخ کو عزرا کاہِن تَورَیت کو جماعت کے یعنی مردوں اور عَورتوں اور اُن سب کے سامنے لے آیا جو سُن کر سمجھ سکتے تھے۔ اور وہ اُس میں سے پانی پھاٹک کے سامنے کے میدان میں صُبح سے دوپہر تک مردوں اور عَورتوں اور سبھوں کے آگے جو سمجھ سکتے تھے پڑھتا رہا ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، نحمیاہ 8: 1۔ 3)۔

    زکریاہ نبی نے کلامِ خُدا کی جانب لوگوں کے طرز عمل کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے: "پِھر خُداوند کا کلام زکریاہ پر نازِل ہُؤا کہ ربُّ الافواج نے یُوں فرمایا تھا کہ راستی سے عدالت کرو اور ہر شخص اپنے بھائی پر کرم اور رحم کیا کرے۔ اور بیوہ اور یتِیم اور مسافر اور مِسکِین پر ظُلم نہ کرو اور تُم میں سے کوئی اپنے بھائی کے خِلاف دِل میں بُرا منصُوبہ نہ باندھے۔ لیکن وہ شنوا نہ ہُوئے بلکہ اُنہوں نے گردن کشی کی اور اپنے کانوں کو بند کیا تا کہ نہ سُنیں۔ اور اُنہوں نے اپنے دِلوں کو الماس کی مانِند سخت کیا تا کہ شرِیعت اور اُس کلام کو نہ سُنیں جو ربُّ الافواج نے گُذشتہ نبیوں پر اپنی رُوح کی معرفت نازِل فرمایا تھا" (پرانا عہدنامہ، زکریاہ 7: 8۔ 12)۔

    ملاکی نبی نے خُداوند کے کلام کو کتاب التذکرہ (یادگار کا دفتر) کے طور پر بیان کیا ہے: "تب خُدا ترسوں نے آپس میں گفتگو کی اور خُداوند نے مُتوجّہ ہو کر سُنا اور اُن کےلئے جو خُداوند سے ڈرتے اور اُس کے نام کو یاد کرتے تھے اُس کے حضُور یادگار کا دفتر لکھا گیا" (پرانا عہدنامہ، ملاکی 3: 16)۔

    میرے بھائی، گذشتہ نکات سے تم پر روشن ہو گیا ہو گا کہ خُدا نے ہر زمانے میں اپنی کتابِ مُقدّس کی تشکیل کے معاملہ میں نظر رکھی، اور اپنے بندوں کو اپنا کلام بخشتا رہا۔ یہ زندہ خُداوند جِس نے اپنی کتابوں کی تشکیل پر نظر رکھی، اُنہیں جعل سازوں کی چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کے قابل بھی تھا۔

  2. اندرونی ثبوت:

    الف: کتابِ مُقدّس اپنے الہام کی سچائی کی گواہی دیتی ہے:

    (1) داؤد نبی نے فرمایا: "خُداوند کی رُوح نے میری معرفت کلام کیا اور اُس کا سُخن میری زُبان پر تھا" (پرانا عہدنامہ، 2۔ سموئیل 23: 2)۔

    (2) خُداوند نے یرمیاہ کو کہا: "تُو اُن کے چہروں کو دیکھ کر نہ ڈر کیونکہ خُداوند فرماتا ہے مَیں تجھے چُھڑانے کو تیرے ساتھ ہُوں ۔۔۔ دیکھ مَیں نے اپنا کلام تیرے مُنہ میں ڈال دِیا" (پرانا عہدنامہ، یرمیاہ 1: 8، 9)۔

    (3) خُدا نے حزقی ایل سے کہا: "اَے آدم زاد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کہ مَیں تُجھ سے باتیں کرُوں ۔۔۔ مَیں تُجھے بنی اِسرائیل کے پاس یعنی اُس باغی قَوم کے پاس جِس نے مُجھ سے بغاوت کی ہے بھیجتا ہُوں ۔۔۔ اُن سے ہِراسان نہ ہو ۔۔۔ اگرچہ وہ باغی خاندان ہیں ۔۔۔ تُو میری باتیں اُن سے کہنا" (پرانا عہدنامہ، حزقی ایل 2: 1۔ 7)۔

    (4) اُس نے ہوسیع سے کہا: "مَیں نے تو نبیوں سے کلام کیا اور رویا پر رویا دِکھائی اور نبیوں کے وسیلہ سے تشبِیہات اِستعمال کیں" (پرانا عہدنامہ، ہوسیع 12: 10)۔

    (5) اُس نے یسعیاہ سے کہا: "کیونکہ اُن کے ساتھ میرا عہد یہ ہے۔ خُداوند فرماتا ہے کہ میری رُوح جو تُجھ پر ہے اور میری باتیں جو مَیں نے تیرے مُنہ میں ڈالی ہیں تیرے مُنہ سے اور تیری نسل کے مُنہ سے اور تیری نسل کی نسل کے مُنہ سے اَب سے لے کر ابد تک جاتی نہ رہیں گی۔ خُداوند کا یہی اِرشاد ہے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 59: 21)۔

    (6) یسوع نے اپنے شاگردوں کو کہا: "۔۔۔ بولنے والے تُم نہیں بلکہ تُمہارے باپ کا رُوح ہے جو تُم میں بولتا ہے" (اِنجیل بمطابق متّی 10: 20)۔

    (7) پولس رسول نے کہا: "اور ہم اُن باتوں کو اُن الفاظ میں نہیں بیان کرتے جو اِنسانی حکمت نے ہم کو سکھائے ہوں بلکہ اُن الفاظ میں جو رُوح نے سِکھائے ہیں ۔۔۔" (نیا عہدنامہ، 1۔ کرنتھیوں 2: 13)۔

    ب: کتابِ مُقدّس کا عدم زوال: کتابِ مُقدّس میں ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جو اِس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ خُدا کا کلام قائم ہے اور ٹلے گا نہیں:

    • "ہاں گھاس مرجھاتی ہے۔ پُھول کُملاتا ہے پر ہمارے خُدا کا کلام ابد تک قائِم ہے۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 40: 8)

    • "کیونکہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نُقطہ یا ایک شوشہ تَورَیت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کُچھ پُورا نہ ہو جائے۔" (اِنجیل بمطابق متّی 5: 18)

    • "آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی۔" (متّی 24: 35)

    • "اور کتابِ مُقدّس کا باطِل ہونا ممکن نہیں۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 10: 35)

    ج: وہ القاب جو کتابِ مُقدّس نے خود کو دیئے ہیں:

    (1) ایک طومار: "تب خُداوند نے موسیٰ سے کہا، اِس بات کی یادگاری کےلئے کتاب میں لکھ دے اور یشُوع کو سُنا دے ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، خروج 17: 14)۔ "تب مَیں نے کہا، دیکھ! مَیں آیا ہُوں۔ کتاب کے طُومار میں میری بابت لکھا ہے۔" (پرانا عہدنامہ، زبور 40: 7)

    (2) شریعت کی کتاب: "اگر تُو اُس شرِیعت کی اُن سب باتوں پر جو اِس کتاب میں لِکھی ہیں اِحتیاط رکھ کر اِس طرح عمل نہ کرے کہ تُجھ کو خُداوند اپنے خُدا کے جلالی اور مُہِیب نام کا خوف ہو۔ تو خُداوند تُجھ پر عجِیب آفتیں نازِل کرے گا اور تیری اَولاد کی آفتوں کو بڑھا ۔۔۔ دے گا۔" (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 28: 58، 59)

    (3) خُداوند کی کتاب: "تُم خُداوند کی کتاب میں ڈُھونڈو اور پڑھو۔ اِن میں سے ایک بھی کم نہ ہو گا اور کوئی بے جُفت نہ ہو گا کیونکہ میرے مُنہ نے یِہی حُکم کیا ہے اور اُس کی رُوح نے اِن کو جمع کیا ہے۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 34: 16)

    (4) سچّائی کی کتاب: "لیکن جو کُچھ سچّائی کی کتاب میں لکھا ہے تُجھے بتاتا ہُوں ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، دانی ایل 10: 21)

    (5) خُدا کا لکھا ہُوا: "اور وہ لَوحیں خُدا ہی کی بنائی ہُوئی تِھیں اور جو لکھا ہُؤا تھا وہ بھی خُدا ہی کا لکھا اور اُن پر کندہ کیا ہُؤا تھا۔" (پرانا عہدنامہ، خروج 32: 16)

    (6) خُداوند کا کلام: "اور وہ لڑکا سموئیل عیلی کے سامنے خُداوند کی خِدمت کرتا تھا اور اُن دِنوں خُداوند کا کلام گران قدر تھا۔ کوئی رویا برملا نہ ہوتی تھی۔" (پرانا عہدنامہ، 1۔ سموئیل 3: 1)

    (7) خُداوند کی شرِیعت: "اور یِہی تیرے پاس گویا تیرے ہاتھ میں ایک نِشان اور تیری دونوں آنکھوں کے سامنے ایک یادگار ٹھہرے تا کہ خُداوند کی شرِیعت تیری زُبان پر ہو ۔۔۔" (پرانا عہدنامہ، خروج 13: 9)

    (8) خُدا کی شہادتیں: "تیری شہادتیں مُجھے مرغُوب اور میری مشِیر ہیں۔" (پرانا عہدنامہ، زبور 119: 24)

    (9) خُدا کے لبوں کا کلام: "اِنسانی کاموں میں تیرے لبوں کے کلام کی مدد سے مَیں ظالِموں کی راہوں سے باز رہا ہُوں۔" (زبور 17: 4)

    (10) سچّائی کی شرِیعت: "سچّائی کی شرِیعت اُس کے مُنہ میں تھی اور اُس کے لبوں پر ناراستی نہ پائی گئی۔ وہ میرے حضُور سلامتی اور راستی سے چلتا رہا اور وہ بُہتوں کو بدی کی راہ سے واپس لایا۔" (پرانا عہدنامہ، ملاکی 2: 6)

    (11) پاک نوِشتے: "اور تُو بچپن سے اُن پاک نوِشتوں سے واقف ہے جو تُجھے مسیح یسوع پر اِیمان لانے سے نجات حاصل کرنے کےلئے دانائی بخش سکتے ہیں۔" (نیا عہدنامہ، 2۔ تیمتھیس 3: 15)

    (12) کتابِ مُقدّس: "تُم کتابِ مُقدّس میں ڈُھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زِندگی تمہیں مِلتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 5: 39)

    (13) شرِیعت: "لوگوں نے اُس کو جواب دِیا کہ ہم نے شرِیعت کی یہ بات سُنی ہے کہ مسیح ابد تک رہے گا۔ پِھر تُو کیوں کر کہتا ہے کہ اِبنِ آدم کا اُونچے پر چڑھایا جانا ضرُور ہے؟ یہ اِبنِ آدم کون ہے؟" (یوحنّا 12: 34)

    (14) تَورَیت اور انبیاء: "پس جو کُچھ تُم چاہتے ہو کہ لوگ تُمہارے ساتھ کریں وُہی تُم بھی اُن کے ساتھ کرو کیونکہ تَورَیت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے۔" (اِنجیل بمطابق متّی 7: 12)

    (15) کلامِ حق: "اُس نے اپنی مرضی سے ہمیں کلامِ حق کے وسِیلہ سے پَیدا کیا تا کہ اُس کی مخلُوقات میں سے ہم ایک طرح کے پہلے پَھل ہوں۔" (نیا عہدنامہ، یعقوب 1: 18)

    یہ القابات اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بائبل مُقدّس میں متکلم خُدا ہی ہے، اور خُدا اپنے کلام کی حفاظت کرتا ہے۔

  3. بیرونی ثبوت:

    الف: قدیم نسخہ جات (مخطوطات) کی گواہی:

    (1) اسکندریہ کا نسخہ: اِس نسخہ کا نام اُس شہر پر ہے جہاں یہ لکھا گیا تھا، اور یہ بڑے حروف میں لکھے جانے والے نسخوں میں سرِفہرست ہے۔ اِسے اسکندریہ کا بطریق سیریلس لوکارس قسطنطنیہ میں لے کر آیا اور اُسے 1628ء میں برطانیہ کے بادشاہ چارلس اوّل کو پیش کیا گیا۔ یہ ایک خوبصورت یونانی نسخہ ہے جِس میں پرانے اور نئے عہدنامے دونوں، بائبل مُقدّس کی تمام کتابیں شامل ہیں۔ یہ مخطوطہ برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔ اِس کے صفحہ اوّل کے حاشیہ سے ظاہر ہے کہ یہ ایک مصری خاتون بنام تقلا نے 325ء میں نقایہ کی کونسل کے قریب میں لکھا گیا تھا۔ علماء کی رائے ہے کہ یہ 350ء کے قریب لکھا گیا۔ یہ رقّ پر دو کالموں میں ہے جِس کے ہر کالم میں بڑے حروف میں پچاس سطریں ہیں۔

    (2) نسخہء واتیکانی: اِس نسخہ کو ویٹیکن کی لائبریری کی وجہ سے یہ نام دیا گیا جہاں یہ محفوظ ہے۔ یہ یونانی زبان میں پرانے اور نئے عہدنامے دونوں پر مشتمل ہے۔ مؤرّخین کا خیال ہے کہ یہ اسکندریہ کے نسخہ کے بیس سے پچیس سال بعد لکھا گیا ہے۔ یہ ایک نفیس رقّ پر لکھا گیا ہے جِس کے ہر صفحہ پر تین کالم ہیں جِن میں سے ہر کالم بیالیس سطور پر مشتمل ہے۔

    (3) سینا کا نسخہ: اِس مخطوطہ کا نام کوہِ سینا کے نام پر رکھا گیا ہے جہاں اِسے سینٹ کیتھرین کی خانقاہ میں جرمن عالم تشندورف نے دریافت کیا تھا۔ اُسے اِس کا پہلا حصہ 1844ء میں اور باقی 1859ء میں ملا۔ یہ ایک بہترین چمڑے پر واضح بڑے حروف میں لکھا ہُوا ہے اور اِس کا ہر حصہ اِس کے قدیم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہر صفحے کے چار کالم ہیں۔ تشندورف نے اِس نسخہ کو روس کے شہنشاہ الیگزینڈر کو پیش کیا۔ بالشویک انقلاب کے بعد اِسے برٹش میوزیم لندن کو فروخت کر دیا گیا جہاں یہ آج بھی موجود ہے۔

    (4) نسخہء افرائیمی: یونانی زبان میں کتابِ مُقدّس کا یہ نسخہ پیرس کے عجائب گھر میں رکھا گیا ہے۔ یہ چمڑے پر خوبصورت رسم الخط میں لکھا گیا ہے۔ غالباً، یہ پانچویں صدی عیسوی کے پہلے نصف سے تعلق رکھتا ہے اور صحائف کے مرکزی موضوعات کے موازنے کےلئے بڑا کارآمد سمجھا جاتا ہے۔ تریجیبس نام کے عالم نے اِسے اہمیّت کے لحاظ سے نسخہء واتیکانی کے بعد درجہ دیا ہے۔

    اِن چاروں عظیم المرتبت نسخوں کے علاوہ اَور بھی نسخے ہیں جو مختلف زبانوں میں بائبل مُقدّس کے تراجم میں بڑے مددگار ہیں۔ یہ سب اُس بائبل مُقدّس کی تصدیق کرتے ہیں جو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ خُدا کا شکر ہو کہ اُس نے اِن متون کو ہم تک پہنچانے میں اِن کی حفاظت کی، اور ہم اِن میں اُن متعصب افراد کے الزامات کو خاموش کرنے کےلئے فیصلہ کُن ثبوت دیکھ سکتے ہیں جو بائبل مُقدّس کو محرّف یا جعلی سمجھتے ہیں۔

    ب: علم آثارِ قدیمہ کی گواہی:

    صحائفِ مُقدّسہ پر ملحدوں اور ناقدین کی طرف سے حملے ہوتے رہے ہیں اور اَب بھی ہو رہے ہیں، کیونکہ یہ اُن کی خواہشات کی مذمّت کرتے ہیں اور اُن کے رُجحانات سے متصادم ہیں۔ لہٰذا، اُن میں سے بہت سے لوگوں نے فلسطین، بابل، اسور اور مصر کے آثارِ قدیمہ میں قدیم نسخہ جات کو تلاش کیا تا کہ کوئی ایسی چیز سامنے آئے جو مُقدّس صحائف کے اقوال کی تردید کرتی ہو۔ تاہم، خُدا کی نظر میں یہ تمام کاوشیں حقیر ثابت ہوئیں، کیونکہ دریافت ہونے والے آثار نے تو عین کتابِ مُقدّس کی ہمنوائی کی۔ یوں بہت سے ملحد مُحقّق اِیمان لے آئے، کیونکہ آثار قدیمہ کی دریافتوں کی گواہی نے اُنہیں بائبل مُقدّس کی کتابوں کی صداقت کا یقین دلایا۔

    ایسے بہت سے لوگوں کا دعویٰ تھا کہ بابلی اسیری (تقریباً 600 ق م) سے پہلے فن تحریر فلستین میں موجود نہیں تھا۔ کُچھ علماء اِس حقیقت کو قبول نہیں کرتے تھے کہ موسیٰ اور دیگر نے وہ سب تحریر کیا ہے جو عام طور پر اُن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ لکھنے والوں نے مشرق کے واقعات اور تہذیبوں کے بارے میں اپنے بیانات میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی کی ہے، اور اِس کی وجہ اُن کا یہ اعتقاد تھا کہ بائبل کے بیانات قدیم مؤرّخین کے اقوال سے مطابقت نہیں رکھتے۔ تاہم، حالیہ دریافتوں نے اُن کے نظریات کو باطل ٹھہرایا ہے، اور مصری، بابلی اور اسوری تہذیبوں کی بابت جو کُچھ سامنے آیا ہے اُس نے الہامی صحائف کی صداقت پر مہر ثبت کی ہے۔ صحائف میں سنحیرب، تگلت پلیصر، نبوکدنضر اور دیگر کے بارے میں بیان کردہ ہر بات کی تصدیق ہو چکی ہے۔

    ہمیں خوشی ہے کہ یہ دریافتیں ہمیں اُن حروف کو دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل بناتی ہیں جو موسیٰ، یسعیاہ اور یرمیاہ نے استعمال کئے تھے۔ اِن دریافتوں نے ثابت کیا ہے کہ فن تحریر ابرہام، موسیٰ اور حزقی ایل کے زمانے میں موجود تھا۔ یوں اِن دریافت شدہ تحریروں نے مسیح کے اِس قول کو پورا کیا ہے کہ "پتّھر چِلاّ اُٹھیں گے" (اِنجیل بمطابق لوقا 19: 40)۔

    درحقیقت پتھر اُس دور کے نوشتہ جات کے ذریعے کلام کر رہے ہیں جِس سے بائبل مُقدّس کے زیادہ تر اہم واقعات تعلق رکھتے ہیں:

    (1) پیدایش کی کہانی:

    بابلی اور اسوری تحریروں کا بائبل مُقدّس کے بیانِ تخلیق کے ساتھ موازنہ کرنے سے ماسوا چند اساطیری باتوں کے دونوں بیانات نے ایک ایسے وقت کا ذِکر کیا ہے جب سب کُچھ ویران اور سُنسان تھا۔

    کتابِ مُقدّس بیان کرتی ہے کہ خُدا نے دو نیّر بنائے، ایک نیّر اکبر کہ دِن پر حکومت کرے اور ایک نیّر اصغر کہ رات پر حکومت کرے اور اُس نے ستارے بھی بنائے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 1: 16)۔ بابلی اندراج بھی ظاہر کرتا ہے کہ خُدا نے سدیم اور ستارے بنائے۔

    کتابِ مُقدّس میں یہ خُدا ہے جِس نے چوپائے، رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُن کی جِنس کے مطابق پیدا کئے (پیدایش 1: 24)۔ بابلی تحریر میں درج ہے کہ ایسا دیوتاؤں نے کیا۔

    کتابِ مُقدّس کے مطابق خُدا نے اِنسان کو زمین کی مٹی سے خلق کیا ہے (پیدایش 2: 7)۔ بابلی کہانی کے مطابق مردوک نے اُسے گوشت اور ہڈی سے بنایا۔

    کتابِ مُقدّس کے واقعات کے بیان کے مطابق اِنسان زندہ خُدا پر اپنے اعتقاد سے ہٹ کر متعدد معبودوں کی عبادت کرنے لگے، جِس کی وجہ سے انبیاء نے لوگوں کو واحد خُدا کی عبادت کی طرف لوٹانے کی کوششیں کیں۔ یہ بیان اُس نظریہ کی تردید کرتا ہے جو بہت سے علماء کے درمیان عام ہے کہ اِنسان شروع سے بہت سے خداؤں پر اعتقاد رکھتا تھا۔

    ڈاکٹر ایس ہربرٹ، علم آثارِ قدیمہ کے ممتاز ماہر اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسوری علوم کے پروفیسر نے لکھا: "مَیں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ توحید کا رواج سامی اور سومیری تہذیبوں میں بہت سے خُداؤں پر یقین سے پہلے تھا۔" سر پیٹر ریتو کی بھی یہی رائے ہے جنہوں نے قدیم مصریوں کی "مُردوں کی کتاب" کا ترجمہ کیا تھا۔

    مزید برآں، حالیہ نتائج نے بعض علمی حلقوں میں رائج اِس نظریے کو بھی غلط ثابت کیا ہے کہ عبرانی مذہب میں توحید اُن عقائد کا نتیجہ ہے جو ساتویں یا آٹھویں صدی قبل مسیح میں انبیاء نے سکھائے تھے۔ نیز اِس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ موسیٰ نے عبرانیوں کے کنعان کی سرزمین میں داخل ہونے سے پہلے توحید کا اعلان کیا تھا۔

    (2) طوفانِ نوح اور اجداد کا دور:

    آثارِ قدیمہ کی بابلی کھدائی سے جو بیان سامنے آیا ہے وہ کئی نکات میں پیدایش کی کتاب کے بیان سے متفق ہے۔ دونوں بیانات کے مطابق یہ طوفان الٰہی حکم سے آیا تھا۔ دونوں بیانات میں کہانی کا ہیرو لوگوں کو اُس آنے والی تباہی سے خبردار کرتا ہے جو دُنیا پر آنے والی تھی، جِس کی وجہ سے وہ اپنے اور اپنے خاندان کےلئے ایک کشتی بناتا ہے، اور اپنے ساتھ جانوروں کو کشتی میں لاتا ہے۔ طوفان کے تھمنے کے بعد کشتی پہاڑ کی چوٹی پر ٹک جاتی ہے۔ کہانی کا ہیرو پرندوں کو علاقے کی تلاش کےلئے بھیجتا ہے، جِن میں سے آخری پرندہ واپس نہیں آتا۔ طوفان کے اختتام کے بعد وہ خُدا کے حضور قربانی پیش کرتا ہے جو مستقبل میں اُس کی حفاظت کی یقین دہانی کراتا ہے۔

    حال ہی میں، ماہرِ آثارِ قدیمہ، سر سی ایل وولی نے کُلدانیوں کے اُور میں ایک قدیم شہر کے ملبے سے بھری ہوئی مٹی کی تہہ دریافت کی، اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تہہ طوفان کے زمانے کی ہے۔

    (3) کُلدانیوں کا اُور:

    عراق کی سرزمین میں کھدائی سے پہلے، علماء بائبل مُقدّس ابرہام کی جائے پیدایش اُور کے بارے میں کُچھ نہیں جانتے تھے، اور نہ اُنہیں وہاں کے تمدن کی جانکاری تھی۔ تاہم، ماہرین آثار قدیمہ کی کوششوں سے یہ ثابت ہُوا کہ یہ بنجر زمین کبھی سرسبز و شاداب تھی، جِس کے قریب ہی نہریں بہتی تھیں، اور دریاؤں سے سیراب ہوتی تھی اور یہ تہذیب کے اعلیٰ درجے کی حامل ایک عظیم قوم کا دارالحکومت تھا۔ جہاں تک اُن کے مذہب کا تعلق ہے، وہ متعدد معبودوں پر یقین رکھتے تھے، اور ہر خاندان کا اپنا ایک بت تھا۔ کتابِ مُقدّس میں بتایا گیا ہے کہ راخل نے اپنے باپ لابن کے گھر سے بھاگتے وقت خاندانی بُت چرائے تھے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 31: 26۔ 32)۔

    دریافتوں سے ثابت ہُوا ہے کہ ابرہام صرف خیموں میں بود و باش کرنے والے قبیلے کے سربراہ نہیں تھے، بلکہ اُن کا تعلق ایک متمدن قوم سے تھا جِن کی تہذیب اُن کی پیدایش سے کئی صدیاں قبل عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اِن دریافتوں نے کتابِ مُقدّس کی تفصیلات کو درست ثابت کیا ہے کہ ابرہام حاران کا رہنے والا تھا (پیدایش 11: 28۔ 31)۔

    ابرہام کے لمبے سفر میں دوتین، بیت ایل اور سکم کا ذِکر ملتا ہے، اور وہ بھی آثارِ قدیمہ سے منکشف ہو چُکے ہیں۔ آثارِ قدیمہ کی کھدائیوں نے کتابِ مُقدّس کی سچّائی کی یہ بتاتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ بحیرہ مُردار کے جنوب کا علاقہ جہاں ابرہام نے ایک طویل عرصہ گزارا، خوشحال اور گنجان آباد تھا۔

    (4) یوسف کا واقعہ:

    کتابِ مُقدّس میں ایک احسن القصص ہے، یعنی بزرگ یوسف کا زِندگی کا واقعہ۔ یوسف اپنے بھائیوں کی سازش کا شکار ہو کر پہلے تو بیچے گئے، پِھر مِصر میں غلاموں کی طرح لے جائے گئے، لیکن خُدا نے اِن سب میں کوئی نہ کوئی بہتری کی شکل پیدا کی یہاں تک کہ فرعونِ مِصر کے خزانوں کے وزیر بنائے گئے۔ اِس واقعہ کی تصدیق ایک عظیم مِصری کی قبر کی دریافت سے ہوئی جِسے "القاب" کہا جاتا ہے جو جناب یوسف کا ہمعصر تھا۔ اُس کی قبر پر ایک تحریر ملی ہے جِس میں اُس بڑے قحط کا ذِکر ہے جو وہاں واقع ہُوا تھا۔ یہ بھی ذِکر ہے کہ وزیر خزانہ نے خوب پیداوار کے زمانہ میں جمع شدہ غلّے کے گوداموں سے اُس قحط کو نبٹایا اور لوگوں کی جائیدادیں غلّہ کے عوض ریاست کو منتقل ہوئیں۔ کتابِ مُقدّس میں ہمیں اِس کی تصدیق ملتی ہے، کیونکہ پیدایش 47: 18۔ 22 میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب لوگ خوراک کے بدلے اپنا سارا روپیہ خرچ کر چکے تو وہ اپنی زمینیں فرعون کو بیچنے پر مجبور ہوئے۔

    (5) عبرانیوں کی مِصر میں غلامی اور خروج:

    مِصر میں عبرانیوں کی غلامی کے وقت اور حالات کا پتہ تحتمس سوّم کے دور سے تعلق رکھنے والی ایک کندہ لوح کی دریافت سے ملا ہے، جِس میں عبرانیوں کو فرعون کےلئے ایک مندر بناتے ہوئے دِکھایا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ پتوم کے کھنڈرات کو ایڈورڈ نیویل نے دریافت کیا ہے۔ اُس شہر میں آٹھ فٹ کی موٹائی والی دیواریں پائی گئیں جو کہ دھوپ میں سکھائی گئی مٹّی بھوسے سے بنی اینٹوں کی ہیں (پرانا عہدنامہ، خروج 5: 7)۔

    جہاں تک مِصر سے عبرانی خروج کے واقعہ کا تعلق ہے، تو اِس کی تصدیق اُس لوح سے ہوتی ہے جو خط میخی (تصویری خط) میں تل العمرنہ سے 1888ء میں دریافت ہوئی۔ اِسے فلستین کے حکمرانوں نے مِصر کے فرعون کو بھیجا تھا جِس میں عبیرو نامی ایک خطرناک قوم کے حملے کے دوران اُس سے مدد طلب کی گئی تھی۔

    (6) موسیٰ اور شریعت:

    اگرچہ کتابِ مُقدّس میں اِس بارے میں سارا احوال درج ہے کہ کب اور کیسے موسیٰ کو شریعت ملی۔ لیکن بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ یہ موسیٰ کے زمانے کے بعد کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم، 1884ء میں قصرِ سوسن (ایران) میں ڈی مورگن نامی ماہر آثارِ قدیمہ کی کھدائی نے بائبلی اندراج کی تصدیق کی ہے۔

    (7) راس شمرہ کی کھدائی:

    1928ء میں، لطاکیہ سے دس میل شمال، راس شمرا میں دو ہزار سال قبل مسیح میں قائم ہونے والے شہر، یوگریت کی باقیات دریافت ہوئیں۔ اُس میں سیکڑوں تختیاں ملیں جو فرزّیوں، حوّیوں اور حتّیوں کے بارے میں بائبلی بیان کی تصدیق کرتی ہیں۔ اُن میں سے ایک تختی پر خُدا کو "ایل" کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو پیدایش کی کتاب میں یعقوب کے خُدا کےلئے مستعمل نام کے عین مطابق ہے۔

    (8) یریحو شہر کی باقیات:

    یہ باقیات کتابِ مُقدّس کی صداقت کو ثابت کرنے والے سب سے مضبوط آثار میں شمار کی جاتی ہیں۔ یہ یشوع کی کتاب کے بیان کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہیں۔ یہ ایک داخلی دروازے کے ساتھ چاروں طرف سے دیواروں سے گھرا ہُوا ہے۔ کھنڈرات کی کھدائی سے پتہ چلتا ہے کہ شہر کو آگ سے تباہ کرنے سے پہلے لوٹا نہیں گیا تھا، اِس کے مٹّی کے ذخیروں میں مکئی، دال، کھجور اور آٹا ملا ہے۔ اِس سب کی وجہ یہ ہے کہ یشوع نے شہر سے کُچھ بھی لینے سے منع کیا تھا (پرانا عہدنامہ، یشوع 6: 17، 18)۔ اِس کی تباہی کا تخمینہ تقریباً 1500 قبل مسیح میں لگایا گیا ہے، جو کتابِ مُقدّس میں درج بیان سے مطابقت رکھتا ہے۔

    (9) حتّی قوم:

    کتابِ مُقدّس کی صداقت کے عظیم ثبوتوں میں سے ایک حتّی قوم کے وجود سے متعلق آثارِ قدیمہ کی دریافت ہے۔ پیدایش کی کتاب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ابرہام نے مکفیلہ کا غار عفرون حِتّی سے خریدا تھا جہاں سارہ کو دفنایا گیا (پرانا عہدنامہ، پیدایش 23: 7۔ 11)۔ ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ اِضحاق کے بیٹے عیسو نے حِتّیوں میں سے بیویاں لی تھیں (پیدایش 26: 34)۔ خروج کی کتاب میں حِتّیوں کا تذکرہ اُن قوموں میں ہوتا ہے جِن کے خلاف عبرانیوں نے جنگ کی۔ حتّیوں کا ذِکر یشوع، قُضاۃ اور 1۔ سموئیل کی کتب میں بھی ہے۔ تاہم، اِس سب کے باوجود جدید عہد قریب کے کُچھ علماء اِس امر میں مشکوک تھے، وہ حتّیوں کے وجود کے قائل ہی نہیں تھے، یہاں تک کہ مِصری آثارِ قدیمہ کے ذریعے اِن کا پتا چلا جِن میں سے ایک میں 1287 قبل مسیح میں قادش کے نزدیک رعمسیس دوّم کی افواج اور اُن کے درمیان ایک معرکہ کا ذِکر ہے۔

    ج: مدفون تحریروں کی شہادت:

    (1) یسعیاہ کی کتاب:

    1947ء میں قمران غاروں سے دریافت ہونے والے خزانوں میں عبرانی زبان میں یسعیاہ نبی کی کتاب کا ایک مکمل نسخہ بھی تھا۔ یہ ایک ساتھ سِلے ہوئے چمڑے پر لکھا ہے جو ایک طومار کی صورت میں ہے۔ رسم الخط کی صورت اور استعمال شُدہ زبان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ نسخہ دوسری صدی قبل مسیح میں لکھا گیا تھا۔ اِس میں جو کُچھ درج ہے وہ ہمارے موجودہ متن سے بالکل میل کھاتا ہے۔ اِس سے علم الٰہی کے ماہرین کو موجودہ صحائف مُقدّسہ کی صداقت کا اَور بھی پختہ یقین ہو گیا ہے۔

    (2) حبقّوق کی تفسیر:

    قمران کے غاروں سے حبقّوق نبی کے صحیفہ کی تفسیر بھی ملی ہے جو آج ہمارے ہاتھوں میں موجود متن کے مطابق ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے احبار، ایّوب اور مزامیر کی کتابوں کی ایک ایک نقل بھی دریافت کی۔ علاوہ ازیں پرانے عہدنامہ کی کتابوں کی ایک فہرست بھی ملی ہے جِس میں سوائے آستر کے تمام کتابوں کے نام موجود ہیں۔

    (3) یوحنّا کی معرفت لکھی گئی اِنجیل:

    بعض علماء کا دعویٰ ہے کہ یہ اِنجیل تیسری صدی عیسوی سے قبل نہیں لکھی گئی تھی، حالانکہ آبائے کلیسیا کے نزدیک یہ یوحنّا مُبشّر کی موت سے کُچھ عرصہ پہلے لکھی گئی تھی۔ یہ نظریہ 1877ء تک برقرار رہا جب قاہرہ سے اسّی میل جنوب میں ارسینو کے قریب مصر کی ریت میں دفن پپائرس پر لکھی ہوئی ہزاروں دستاویزات دریافت ہوئیں۔ ملنے والے سب سے اہم مخطوطات میں سے اِنجیل یوحنّا کا ایک مخطوطہ بھی ہے جِس کی بابت علماء نے تصدیق کی ہے کہ یہ 125ء سے پہلے لکھا گیا ہے۔

    (4) دیگر مخطوطات:

    1931ء میں ایک انگریز بنام چیسٹر بِیٹی کو ایک مِصری بازار سے پپائرس کے کاغذات کے مجموعے ملے، اُس نے اُن کا ایک حصّہ خریدا اور باقی حصّہ مشی گن کی امریکی یونیورسٹی نے خرید لیا۔ یہ مجموعہ گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے جِس میں پرانے اور نئے عہدنامے کے اقتباسات ہیں، جو 200ء کے ہیں۔

    (5) اناجیل اربعہ:

    حال ہی میں سینٹ کیتھرین کی خانقاہ سے متّی، مرقس، لوقا اور یوحنّا کی اِنجیل ملی ہے۔ یہ سریانی زبان میں لکھی گئی ہے اور پانچویں صدی عیسوی کی ہے، اور دوسری صدی عیسوی کے مسیحیوں کے زیرِ استعمال نسخے سے کیا گیا ترجمہ ہے۔ اِن کے اور موجودہ متن کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

    (5) دیاطسّرون:

    یہ اہم نسخہ 1881ء میں دریافت ہُوا۔ اِسے سریانی کلیسیا کے آباء میں سے ایک، طاطیان نے سریانی زبان میں لکھا تھا۔ اِس میں، اُس نے چاروں انجیلی بیانات کو ایک بیان کی صورت میں یکجا کیا۔ یہ کام کافی مشہور ہُوا، اور اِبتدائی مسیحیوں نے اِسے ایک مُدّت تک اِسے استعمال کیا، یہاں تک کہ کلیسیا نے اِس خوف سے اِس کا پڑھنا روک دیا کہ مبادا یہ حقیقی اِنجیلوں کی جگہ لے لے۔

    زیادہ عرصہ پہلے کی بات نہیں ہے جب عراق کے شہر دورا کے کھنڈرات سے مختلف زبانوں میں دیاطسّرون کے متعدد نسخے ملے ہیں۔ اِس دریافت کی روشنی میں علماء نے تصدیق کی ہے کہ اِس کی عبارت جو دوسری صدی عیسوی میں ایک کتاب کے طور پر مقبول تھی، اِنجیل کے متون سے مختلف نہیں ہے۔ اِس سے یہ بھی ثابت ہُوا کہ یوحنّا کی اِنجیل 175ء سے پہلے موجود تھی۔

    یہ ایک حقیقت ہے کہ آثارِ قدیمہ کی کھدائیوں نے ایک حیرت انگیز طریقے سے کتابِ مُقدّس کی تصدیق کی ہے۔ دریافتوں سے پہلے کِسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کتابِ مُقدّس تاریخ کے ساتھ اِس قدر قطعی مُتفّق ہے۔ ڈاکٹر گلوعک نامی ایک عالم جنہوں نے ارضِ مُقدّس میں طویل عرصے تک کھدائی کی، کہا: "حیرت انگیز حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ ایک بھی جدید دریافت نے بائبل مُقدّس میں درج حقائق کی تردید نہیں کی۔ بلکہ ہر دریافت اپنی چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں اِس کتاب عزیز میں درج ہر بات کی تائید کرتی ہے۔ اَب بھی نئی دریافتوں کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ تاہم، تمام شواہد اِس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کِسی نقاد یا معترض کےلئے نئے عہدنامے کی کتابوں یا اُن کی روایتی تاریخوں پر سوال اُٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں اور کتابِ مُقدّس کے متن کے درمیان توافق الٰہی الہام کی صداقت اور اُسے تحریر کرنے والوں کی سالمیّت کی مضبوط ترین گواہی ہے۔"

    میرے عزیز بھائی، اگرچہ کتابِ مُقدّس کا مقصد محض تاریخی نہیں تھا، مگر یہ حقیقی تاریخی ثبوتوں کی حامل ہے۔ جدید دریافتوں کی بدولت ہمیں مکمل یقین ہے کہ اُس سے کِسی وقت کھلواڑ نہیں کیا گیا، بلکہ خُدا تعالیٰ نے اُسے محفوظ رکھا تا کہ لوگوں کےلئے نور و ہدایت ہو۔

    ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر البرائٹ نے کہا ہے کہ قمران کی دریافتوں کی وجہ سے ہی ہم اِس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ موجودہ نیا عہدنامہ ویسا ہی ہے جیسا قدیم لوگوں نے لکھا تھا جِس میں مسیح اور اُس کے رسولوں کی تعلیمات شامل ہیں اور یہ سب 25ء سے 80ء کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی ہیں۔ ہمیں اِن دریافتوں کےلئے خُدا کا کتنا شُکر ادا کرنا چاہئے جِن سے معلوم ہُوا ہے کہ یوحنّا کی اِنجیل کی تحریر قدیم زمانے کی ہے۔ اِس کی کتابت یہ بتاتی ہے کہ یوحنّا کے علاوہ کوئی اَور نہیں تھا جو یروشلیم کے ہر کونے کے بارے میں اتنی درستی کے ساتھ شہر کے تباہ ہونے سے پہلے بتا سکتا۔

    برادر عزیز، ارضِ مُقدّسہ میں سیکڑوں شہر تاریخی تھے جو اَب کھنڈرات کی صورت اختیار کر چُکے ہیں، لیکن تاریخی اندارج میں آج بھی زندہ ہیں اور اِس انتظار میں ہیں کہ کوئی آ کر اُن کے بطون میں چھپے ہوئے خزانوں کو دریافت کرے اور اُن لوگوں کے احوال دُنیا کو بتائے جِن کے درمیان یسوع نے بشر کی خاطر فدیہ دینے کےلئے جنم لیا۔

    اَب میری دِلی خواہش ہے کہ جو ثبوت مَیں نے جمع کئے ہیں، تم اُن پر غور کرو تا کہ الٰہی مکاشفہ کے کاتبین کے بارے میں تم خود اپنی رائے قائم کر سکو۔ مَیں خُدا سے دُعا کرتا ہوں کہ تم ایمان لانے والوں میں شامل ہو جاؤ، کیونکہ "ہر ایک صحِیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے تعلیم اور اِلزام اور اِصلاح اور راست بازی میں تربِیّت کرنے کےلئے فائِدہ مند بھی ہے" (نیا عہدنامہ، 2۔ تیمتھیس 3: 16)۔

19۔ قرآنی گواہی

مَیں نے گذشتہ سطور میں کتابِ مُقدّس کے چمڑوں پر لکھے ہوئے اُن نسخوں کے بارے میں بحث کی ہے جو مسیحی خزانے ہیں اور جِن کی تاریخ کتابت تین صدی قبل ظہور اِسلام کی ہے۔ اَب آؤ قرآن کی طرف کہ جِس نے کتابِ مُقدّس کو کئی القاب دیئے ہیں:

الف۔ اللّہ کی کتاب:

  • "اور جب اُن کے پاس اللّہ کی طرف سے جو اُن کے پاس ہے اُس کی تصدیق کرتے ہوئے ایک رسول آئے تو جِن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی اُن میں سے ایک فریق نے اللّہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا گویا وہ جانتے ہی نہیں۔" (سورۃ البقرۃ 2: 101)

  • "کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب میں سے ایک حصّہ دیا گیا، وہ اللّہ کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں تا کہ وہ اُن میں فیصلہ کر دے تو پھِر اُن میں سے ایک فریق بےرُخی کرتے ہوئے مُنہ پھیر لیتا ہے۔" (سورۃ آل عمران 3: 23)

ب۔ اللّہ کی آیات:

  • "اَے اہلِ کتاب، تم اللّہ کی آیتوں سے کیوں انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود گواہ ہو۔" (سورۃ آل عمران 3: 70)

    (الزمخشری نے اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللّہ کی نشانیاں، تورات اور اِنجیل۔ اگر اُن میں تحریف ہوئی ہوتی تو قرآن اُنہیں اللّہ کی نشانیاں نہ کہتا)

ج۔ ذِکر:

  • "اور ہم نے آپ سے پہلے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جِن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود معلوم نہ ہو۔" (سورۃ النحل 16: 43)

د۔ وہ جِسے نازل کیا گیا:

  • "بنی اسرائیل کےلئے پہلے کھانے کی تمام چیزیں حلال تھیں بجز اُن کے جو یعقوب نے توریت اترنے سے پہلے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں ۔۔۔" (سورۃ آل عمران 3: 93)

    (اگر تورات محرّف ہوتی تو قرآن اِس کی شہادت نہ دیتا۔ قرآن تو کتابِ مُقدّس کی تصدیق کرتا ہے۔)

ہ۔ وہ جِس کی تصدیق کی گئی:

  • "اور یہ قرآن ایسا نہیں کہ اللّہ کے سوا کوئی اس کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں جو اِس سے پہلے ہیں اُن کی تصدیق کرتا ہے اور اُن ہی کتابوں کی تفصیل ہے اِس میں، کُچھ شک نہیں یہ ربّ العالمین کی طرف سے ہے۔" (سورۃ یونس 10: 37)

  • "اور ایمان لاؤ اُس پر جو مَیں نے نازل کیا جو اُس کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے اور سب سے پہلے اُس کے منکر نہ بنو۔" (سورۃ البقرۃ 2: 41)

  • "اور جب اللّہ کے ہاں سے اُن کے پاس کتاب آئی جو اُن کی کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے، اور وہ پہلے کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے، تو جِس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے، جب اُن کے پاس آ پہنچی تو اُس سے منکر ہو گئے ۔۔۔" (سورۃ البقرۃ 2: 89)

  • "اور ہم نے تم پر سچّی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اُن سب پر نگہبان ہے۔" (سورۃ المائدۃ 5: 48)

عزیز برادر، سمجھ سے کام لو۔ اگر کتابِ مُقدّس میں تحریف ہوئی ہوتی تو قرآنی شہادت من گھڑت ٹھہرتی۔ اِس طرح تو قرآن اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ درحقیقت، قرآن میں اَور بھی شہادتیں موجود ہیں جو کتابِ مُقدّس کی صداقت اور ہر نسل اور دور میں لوگوں کی راہنمائی کےلئے اِس کی افادیت کو ثابت کرتی ہیں۔

و۔ لوگوں کی ہدایت کےلئے:

  • "۔۔۔ اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اُس نے توریت اور اِنجیل نازل کی لوگوں کی ہدایت کےلئے ۔۔۔" (سورۃ آل عمران 3: 3، 4)

    (یہ کتابِ مُقدّس کی الہامی نوعیت اور لوگوں کی راہنمائی کےلئے اُس کی افادیت کی واضح گواہی ہے۔)

ز۔ جِس کے احکام قائم کرنے چاہئیں:

  • "اہلِ اِنجیل کو چاہئے کہ جو اَحکام اللّہ نے اُس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں۔ اور جو اللّہ کے اتارے پر حکم نہ کریں تو وہی لوگ فاسق ہیں۔" (سورۃ المائدۃ 5: 47)

ح۔ جِن پر اِیمان رکھنا چاہئے:

  • "اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو۔ ہاں جو اُن میں سے بےانصافی کریں، اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اُتری اور جو (کتابیں) تم پر اُتریں ہم سب پر اِیمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار ہیں۔" (سورۃ العنکبوت 29: 46)

  • "مومنو، اللّہ پر اور اُس کے رسول پر اور جو کتاب اُس نے اپنے اِس پیغمبر پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اِس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان رکھو۔" (سورۃ النساء 4: 135)

ط۔ الکتاب المنیر (روشن کتاب):

  • "پھِر اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو تم سے اگلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔" (سورۃ آل عمران 3: 184)

ی۔ الفرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والی):

  • "اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو ہدایت اور گمراہی میں فرق کر دینے والی اور سر تا پا روشنی اور نصیحت کی کتاب عطا کی یعنی پرہیزگاروں کےلئے۔" (سورۃ الانبیاء 21: 48)

اِن قرآنی آیات کے بعد، اَب مَیں دعویٰ تحریف کی جانب لوٹتا ہوں، اور سب سے پہلے میرے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ آیا واقعی قرآن نے کتابِ مُقدّس کی تحریف پر کُچھ کہا ہے؟

جب ہم قرآن کا بغور غیر جانبداری سے مطالعہ کریں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں یہودیوں کے ایک گروہ کا حوالہ ملتا ہے جِس نے بائبل کی آیات کو نہیں بلکہ کُچھ معانی کو توڑا مروڑا تا کہ اُس کے مفہوم کو چھپا سکیں۔ مگر ہمیں کوئی قرآنی متن نہیں ملتا جِس میں مسیحیوں پر کتابِ مُقدّس کی تحریف کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ جِن آیات میں یہودیوں پر مفہوم میں توڑ مروڑ کا الزام لگایا گیا ہے، وہ یہ ہیں:

  • "کیا تم اُمّید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے قائل ہو جائیں گے، اُن میں سے کُچھ لوگ کلامِ خدا کو سُنتے، پھر اُس کے سمجھ لینے کے بعد اُس کو جان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں۔" (سورۃ البقرۃ 2: 75)

    (الرازی کی رائے ہے کہ "یہاں تحریف سے مراد تاویل کو الجھانا یا سچّائی کو چھپانا ہے۔" اُس نے یہودیوں کی بابت کہا کہ اُنہوں نے متن میں سے کُچھ ظاہر کیا اور کُچھ چھپا دیا۔ اگرچہ یہ طرزعمل مکروہ ہے مگر اِسے بائبل کی آیات میں تبدیلی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ الزام بھی صرف یہودیوں کے ایک گروہ پر لگایا گیا تھا۔)

  • "اور یہ جو یہودی ہیں اُن میں سے کُچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو اُن کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سُن لیا اور نہیں مانا اور سُنیئے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے (تم سے گفتگو) کے وقت راعنا کہتے ہیں۔" (سورۃ النساء 4: 46)

    (لفظ کُچھ کا مطلب سب نہیں ہے۔ کُچھ مُفسّرین نے کہا ہے کہ اِس گروہ نے نبی اِسلام پر طعن کی راہ سے اپنی زبان کو مروڑ کر لفظ راعنا کہا۔ لہٰذا تحریف تفسیر میں تھی، متن میں نہیں، اور یہ یہودیوں کا عمل تھا، مسیحیوں کا نہیں۔)

    دیگر علماء، خاص طور پر البیضاوی نے کہا ہے کہ یہودیوں نے بعض الفاظ کو غلط سیاق و سباق میں ڈال کر توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ مختصر یہ کہ وہ محمّد صاحب سے لفظ رائنا کہتے تھے، جِس کا عربی میں مطلب ہے "ہماری بات سُنو،" لیکن اُن کی اپنی زبان میں یہ ایک لعنت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ وہ اِسے محمّد صاحب سے کہتے اور آپس میں ہنستے۔ سعد بن معاذ نے ایک دن اِسے سُنا اور وہ اُن کی زبان جانتے تھے، اِس لئے اُنہوں نے یہودیوں کو تنبیہ کی کہ جو بھی محمّد سے ایسی بات کہے گا وہ اُس کی گردن توڑ دیں گے۔ قرآن مسلمانوں کو خبردار کرتا ہے کہ اِس اصطلاح کو استعمال نہ کریں: "اے اہل اِیمان! راعنا نہ کہا کرو۔ انظرنا کہا کرو۔ اور خوب سُن رکھو، اور کافروں کےلئے دکھ دینے والا عذاب ہے" (سورۃ البقرۃ 2: 104)۔

  • "۔۔۔ اور کچھ یہودی جھوٹ خوب سنتے ہیں اور لوگوں کی خوب سنتے ہیں، جو تمہارے پاس حاضر نہ ہوئے اللّہ کی باتوں کو اُن کے ٹھکانوں کے بعد بدل دیتے ہیں ۔۔۔" (سورۃ المائدۃ 5: 41)

  • "اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آ گئے ہیں کہ جو کُچھ تُم کتاب میں سے چھپاتے تھے وہ اُس میں سے بہت کُچھ تمہیں کھول کھول کر بتا دیتے ہیں ۔۔۔ بےشک تمہارے پاس اللّہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔" (سورة المائدة 5: 15)

  • "اور اِن میں کُچھ ایسے ہیں کہ کتاب (تورات) کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں تا کہ تم سمجھو کہ جو کُچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ وہ اللّہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللّہ کے پاس سے نہیں اور اللّہ پر دیدہ و دانستہ جھوٹ بولتے ہیں۔" (سورۃ آل عمران 3: 78)

جب ہندوستان کے مسلمان علماء نے اِن آیات کی روشنی میں تحریف کے مسئلے کا جائزہ لیا تو اُنہیں یقین ہو گیا کہ کتابِ مُقدّس کی آیات میں کوئی تبدیلی یا تحریف نہیں کی گئی۔ گویا کہ اُنہوں نے سورہ آل عمران آیت 78 کے حوالے سے تفسیر الرازی کی بات کو مان لیا، جہاں وہ پوچھتا ہے: "لوگوں میں تورات کی وسیع شہرت کے پیش نظر کیسے اِس میں تحریف ہو سکتی ہے؟" درحقیقت، ہر اُس شخص پر جو اِس موضوع پر قرآنی بیانات کے پس پردہ حقائق کی اِیمانداری سے تحقیق کرتا ہے تحریف کے نظریہ کی خرابی ظاہر ہو جاتی ہے۔ اِس کے برعکس، وہ قرآن کی سورتوں میں کتابِ مُقدّس کے پرانے اور نئے عہدنامے دونوں کی صداقت کی واضح شہادتیں پاتا ہے:

  • "بےشک وہ جو ہماری اُتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، بعد اِس کے کہ لوگوں کےلئے ہم اُسے کتاب میں واضح فرما چکے ہیں اُن پر اللّہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت۔" (سورۃ البقرۃ 2: 159)

  • "اور بےشک اللّہ نے بنی اسرائیل سے عہد کیا اور ہم نے اُن میں بارہ سردار قائم کئے ۔۔۔ تو اُن کی کیسی بد عہدیوں پر ہم نے اُنہیں لعنت کی اور اُن کے دِل سخت کر دیئے اللّہ کی باتوں کو اُن کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں اور بُھلا بیٹھے بڑا حصہ اُن نصیحتوں کا جو اُنہیں دی گئیں اور تم ہمیشہ اُن کی ایک نہ ایک دغا پر مطلع ہوتے رہو گے سِوا تھوڑوں کے ۔۔۔" (سورۃ المائدۃ 5: 12، 13)

    مُفسّرین کا اِس بات پر اتّفاق ہے کہ یہ آیت خیبر کے یہودیوں سے تعلق رکھتی ہے، جِن میں سے دو زانیوں کو خیبر والوں نے سنگسار نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور چاہا تھا کہ موسیٰ کی شریعت کے برخلاف اُنہیں صرف کوڑے لگائے جائیں۔ اُنہوں نے قریظہ کے ایک وفد کو نبی عربی کے پاس فتوے کےلئے بھیجا، اور اُنہیں سمجھا دیا کہ اگر وہ کوڑوں کی سزا تجویز کریں تو قبول کر لو، لیکن اگر سنگسار کرنے کا فیصلہ دیں تو اُسے قبول کرنے سے بچو۔ جناب محمد نے توراۃ کے مطابق اُن دونوں زانیوں کو مسجد کے دروازے پر رجم کرنے کا حکم دیا (الجلالین اور البیضاوی)۔

    سو، یہ الفاظ اُن چند یہودیوں کے بارے میں ہیں جنہوں نے تورات کے حکم کو تو اُس کی جگہ سے تبدیل نہیں کیا تھا لیکن اُس کی تشریح کو بدلنے کی کوشش کی۔

  • "اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے اُن سے بھی عہد لیا تھا مگر اُنہوں نے بھی اُس نصیحت کا جو اُن کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کر دیا تو ہم نے اُن کے آپس میں قیامت تک کےلئے دشمنی اور کینہ ڈال دیا ۔۔۔" (سورۃ المائدۃ 5: 14)

    الرازی نے کہا ہے: "یہاں موضوع اُن لوگوں سے متعلق ہے جو زبانی چالوں کے ذریعے حق کو جھٹلاتے اور توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے اپنے زمانے میں باطل فرقے کرتے ہیں، جو اپنے موقف سے اختلاف کرنے والے اقتباسات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔" الرازی نے مزید کہا، "الفاظ کو تبدیل کرنا ناممکن ہے، کیونکہ تورات اور اِنجیل اِس قدر مشہور اور متواتر تھیں کہ یہ ناممکن تھا۔"

ملاحظہ کرنے کی بات یہ ہے کہ قرآن نے نجران کے مسیحیوں کی مذمّت کی، جو بدعتی لوگ تھے اور اُنہوں نے شروع ہی سے بدعتوں کو گلے لگا رکھا تھا۔ اُن بدعتیوں کو سر زمینِ عرب اپنی بدعت پھیلانے کےلئے سرسبز نظر آئی۔ اُن کی تعلیمات اور تصوّرات کفر و الحاد کے زیادہ قریب تھے، نہ کہ اُس اِیمان کے "جو مُقدّسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا" (نیا عہدنامہ، یہوداہ، آیت 3)۔ میرا ہر فرد کےلئے چیلنج ہے کہ وہ کوئی ایک قرآنی آیت دِکھائے جِس میں مستقیم مسیحیوں پر تنقید یا اِنجیل کو مسخ کرنے کا الزام ہو۔

ایک اَور اہم حقیقت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ قرآن نے اپنی توجہ بت پرستوں کی طرف کی تا کہ وہ خُدائے واحد کو ماننے لگ جائیں۔ اُس نے یہودیوں کو ملامت کی کیونکہ اُنہوں نے مسیح کو ٹھکرایا، اُن کے ساتھ دُشمنی کی، اور اُن کی والدہ مبارک کنواری مریم پر نازیبا الزام لگائے۔ قرآن نے بدعتی نصاریٰ کو بھی نہیں چھوڑا، لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض سطحی، متعصب مُفسّرین نے اُن بدعتیوں کے خلاف قرآن کی مذمّت کو حقیقی مسیحیوں پر بھی چسپاں کر دیا ہے اور اُن پر کتابِ مُقدّس کی تحریف کا الزام لگایا ہے، جو کہ ایک ایسا امر ہے جو کبھی واقع ہُوا ہی نہیں اور نہ ممکن ہی تھا کیونکہ خُدا کےلئے یہ اجازت دینا ممکن ہی نہیں تھا کہ بشر اُس کی شریعت کے ساتھ کھیلے، بلکہ اُس نے اُس کی حفاظت کا ذمّہ بھی لے رکھا ہے۔ ایسا کرنا تو قرآن میں مذکور وعدوں کی سچّائی پر اعتراض کرنا ہے:

  • "بےشک یہ (کتاب) نصیحت ہم ہی نے اُتاری ہے اور ہم ہی اُس کے نگہبان ہیں۔" (سورة الحجر 15: 9)

  • "اور اللّہ کی باتوں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں۔" (سورة الانعام 6: 34)

  • "اللّہ کی باتیں بدلتی نہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔" (سورة یونس 10: 64)

  • "۔۔۔ اُس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہ سُنتا اور جانتا ہے۔" (سورة الانعام 6: 115)

اِس موضوع کو ختم کرنے سے پہلے مَیں مدعیان تحریف سے چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:

  1. آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ کتابِ مُقدّس میں تحریف کی گئی ہے یا اُس کی آیات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے؟

  2. کیا آپ کتابِ مُقدّس کا کوئی ایسا نسخہ پیش کر سکتے ہیں جو اپنے متن میں مروّجہ کتابِ مُقدّس سے فرق ہو جو ہم تک نسل در نسل پہنچی ہے؟

  3. کیا کوئی ایک بھی ایسا ثبوت پیش کر سکتا ہے جِس میں مبینہ تحریف کی نوعیّت و حالت کی وضاحت ہو؟

  4. کیا کوئی اُس وقت کی نشاندہی کر سکتا ہے جب تحریف ہوئی؟ اگر یہ اسلام سے پہلے ہوئی تھی تو پِھر قرآن نے کِس بنیاد پر کتابِ مُقدّس کی گواہی دی ہے اور اُس کے مندرجات کی تصدیق کی ہے؟ اگر یہ اِسلام کے آنے کے بعد ہوئی، تب بھی عجائب گھروں میں محفوظ نسخے اِسلام سے کم از کم تین صدیاں پہلے کے ہیں، اور اُن کے متون ہمارے موجودہ دور کی کتابِ مُقدّس کے عین مطابق ہیں۔

  5. اگر قرآن اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کتابِ مُقدّس حق ہے اور باطل کا کتابِ الٰہی میں گزر ممکن نہیں، اور یہ کہ یہ خُدا کی طرف سے "ہدایت و رحمت" بن کر آئی ہے تو کیا تبدیلی کو اُس سے منسوب کرنا صحیح ہے؟

  6. کن آیات میں تبدیلی کی گئی؟ اور اُن کے بدلنے کا مسیحیوں کو کیا فائدہ ہُوا ہے؟

  7. مدّعین کا اِس حقیقت کے سامنے کیا مؤقّف ہے جو اِس معاملے میں تنازعہ کو ختم کرتی ہے؟ یہ تو معقول ہے ہی نہیں کہ یہودیوں نے مسیح سے قبل تورات میں رد و بدل کیا، کیونکہ مسیح نے اُس کی تصدیق کی اور اپنی خِدمت کے دوران اُس سے اقتباس بھی کئے؛ اُن کی اِتّباع میں مسیحی بھی اِس کی اِتّباع کرتے ہیں، یہودی تو کرتے ہی ہیں۔ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ یہود نے مسیح کے بعد اِس میں تبدیلی کی، کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو مسیحی ضرور ہی اُن کی مخالفت کرتے۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ دونوں قومیں مِل کر ایسا کرتیں کیونکہ تاریخ میں وہ باہم دُشمن رہی ہیں۔ پِھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ کتابِ مُقدّس پہلے ہی دُنیا کے کئی حصوں میں بہت سی زبانوں میں پھیل چکی تھی۔ کِسی کےلئے بھی اُن تمام نسخوں کو جمع کر کے اُن میں تبدیلی کرنا ناممکن تھا۔

یہ سوچنا غیر معقول ہے کہ کتابِ مُقدّس محمد صاحب کے دور میں بگاڑ کا شکار ہوئی، کیونکہ قرآن اِس کی صداقت کی گواہی دیتا ہے، جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔ یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ اِسلام کے بعد اِس میں تحریف کی گئی، کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر مختلف اقوام میں پھیل چکی تھی جہاں لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا تھا۔ اگر ہم اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ناممکن کام ممکن ہُوا - یعنی مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان اپنی مُقدّس کتابوں کو بگاڑنے کےلئے سازش ہوئی، تو کیا یہودی اُن حوالہ جات کو حذف نہ کرتے جِن میں اُن کی مذمّت کی گئی ہے؟ اور بدلے میں کیا مسیحی اُن سے یہ مطالبہ نہ کرتے کہ وہ یسوع کو مسیح تسلیم کر لیں؟

20۔ توریت اور اِنجیل کی منسوخی کا دعویٰ

"ایک آواز آئی کہ مُنادی کر اور مَیں نے کہا، مَیں کیا مُنادی کرُوں؟ ہر بشر گھاس کی مانِند ہے اور اُس کی ساری رَونق میدان کے پُھول کی مانِند۔ گھاس مرجھاتی ہے۔ پُھول کُملاتا ہے کیونکہ خُداوند کی ہوا اُس پر چلتی ہے۔ یقیناً لوگ گھاس ہیں۔" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 40: 6، 7)

کتاب "عیون أخبار الرضي" میں مذکور ہے کہ "موسیٰ اور اُن کے بعد ہر نبی نے عیسیٰ کے زمانے تک منہاج و شریعتِ موسوی پر چلے۔ اِسی طرح ہر نبی عیسیٰ اور اُن کے بعد کے زمانے میں محمّد صاحب کے زمانے تک منہاج و شریعتِ عیسوی پر چلے۔ جہاں تک شریعتِ محمدی کا تعلق ہے تو قیامت تک اُسے منسوخ نہ کیا جائے گا۔"

محمّد تقی الکاشانی کی کتاب "هداية الطالبين إلى أصول الدين" (مذہب کے بنیادی اصولوں کی طرف متلاشیوں کی راہنمائی) میں لکھا ہے: "مسلمان علماء نے فیصلہ کیا ہے کہ محمّد دورِ حاضر کے نبی ہیں، اور اُن کا دین انبیاء سابقین کے ادیان کا ناسخ ہے۔"

اِن خیالات کے جواب میں میرا یہ کہنا ہے کہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی ایسے نسخ کا ذِکر نہیں ہے۔ اِس لئے یہ دعویٰ بھی تحریف کے دعوے کی طرح مضحکہ خیز ہے۔ اِس طرح کا دعویٰ قرآن کی تعلیمات کو خلط ملط کر دیتا ہے، اور یوں لگتا ہے کہ علماء قرآن سے وہ کہلوانا چاہتے ہیں جو وہ خود نہیں کہتا۔ درحقیقت، واحد کتاب جِس پر کِسی قسم کے نسخ کا اِطلاق ہوتا ہے وہ خود قرآن ہے، جیسا کہ درج ذیل آیات گواہی دیتی ہیں:

  • "ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اُسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اَور آیت بھیج دیتے ہیں ۔۔۔" (سورۃ البقرۃ 2: 106)

  • "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اُس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا ۔۔۔" (سورۃ الحج 22: 52)

اِن آیات میں سے کوئی بھی یہ ثابت نہیں کرتی کہ قرآن کے نزول کے بعد کتابِ مُقدّس منسوخ ہو گئی ہے، بلکہ یہ تو فقط یہ ثابت کرتی ہیں کہ کُچھ قرآنی آیات دوسری قرآنی آیات کو منسوخ کرتی ہیں۔ علماء اِسلام میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قرآن کی منسوخ شدہ آیات کی تعداد 225 ہے۔

البیضاوی نے سورۃ الحج میں مذکور نسخ کی تفسیر میں جامع تحقیق کی اور بتایا کہ کِس طرح سورۃ النجم 53 کے بعض الفاظ یعنی "تلك الغرانيق العُلى. إن شفاعتهن لتُرتجى" (یہ بہت عالی مقام غرانیق ہیں جن کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا) منسوخ کئے گئے ہیں۔ تم اِس موضوع پر اُن کی تفسیر دیکھ سکتے ہو۔ کئی دوسرے علماء نے اِس موضوع پر بات کی ہے، جیسے کہ یحییٰ اور جلال الدین دونوں نے اِس کا حوالہ دیا ہے، اور ابن ہشام نے سیرت نبوی میں اسحاق کے حوالے سے ذِکر کیا ہے اور طبری نے بھی اِس کا ذِکر کیا ہے۔ ابن حاتم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اُنہوں نے کہا: "ممکنہ طور پر محمّد صاحب پر رات کو وحی نازل ہوئی اور آپ اُسے دِن میں بھول گئے۔ اِس لئے یہ آیت نازل ہوئی: 'ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اُسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اَور آیت بھیج دیتے ہیں ۔۔۔'" (سورۃ البقرۃ 2: 106)۔ البیضاوی نے یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ جب مشرکوں اور یہودیوں نے آنحضرت پر یہ طعن کی کہ دیکھو تو محمّد کو کہ وہ ابھی ایک بات کا حکم دیتے ہیں، پِھر اُسی کو منع بھی کر دیتے ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اِس آیت کا مقصد آیات کی ایسی تبدیلی کے بارے میں اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنا تھا۔ السیوطی نے کہا کہ نسخ ایک ایسی چیز ہے جِسے اللّہ نے اِس اُمّت کےلئے مخصوص کیا ہے۔

تو اَب یہ سارے دلائل اِس دعوے کے خلاف ہوئے کہ زبور ناسخِ تورات ہے اور اِنجیل ناسخِ زبور ہے اور قرآن ناسخِ اِنجیل ہے۔ قرآن نے تو واضح طور پر ہر مدعی کو کہہ دیا ہے: "کہہ دو (اُن سے اَے محمّد) کہ اگر سچے ہو تو تُم اللّہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو اِن دونوں (کتابوں) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو، تا کہ مَیں بھی اُسی کی پیروی کروں" (سورة القصص 28: 49)۔

رحمت اللّہ الہندی اپنی کتاب اِظہار الحق میں کہتے ہیں: "یہ قول کہ تورات منسوخ ہو گئی زبور سے، اور زبور منسوخ ہوئے اِنجیل سے، اور اِنجیل منسوخ ہوئی قرآن سے، اِس قول کا کہیں قرآن و حدیث میں ذِکر نہیں ہے۔" کیا خوب کہا ہے اِس عالم نے، کیونکہ قرآن کتابِ مُقدّس کی منسوخی کے دعووں کی نفی کرتا ہے، جب یہ کہتا ہے: "تمہارے لئے دین کی وہ راہ ڈالی جِس کا حکم اُس نے نوح کو دیا، اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی، اور جِس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین ٹھیک رکھو اور اِس میں پھوٹ نہ ڈالو ۔۔۔" (سورۃ الشورٰی 42: 13)۔

کیا یہ دعویٰ کرنا مضحکہ خیز نہیں کہ قرآن نے بائبل کو منسوخ کر دیا ہے؟ کیسے ایک مسلمان قرآن کی تعلیم سے آگے جانے کی جرأت کر سکتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ اہلِ کتاب کے احکام کی جانب راہنمائی ہے، کیونکہ وہ کہتا ہے: "اللّہ چاہتا ہے کہ اپنے احکام تمہارے لئے بیان کر دے اور تمہیں اگلوں کی روِشیں بتا دے اور تم پر مہربانی کرے اور اللّہ علم و حکمت والا ہے" (سورۃ النساء 4: 26)۔

قرآن نے تو اہلِ کتاب کو حکم دیا ہے کہ اپنے احکام کے مطابق عمل کریں: "اور جو اللّہ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرماں ہیں" (سورۃ المائدۃ 5: 47)۔

میرے بھائی، کتابِ مُقدّس کا مطالعہ کرنے والا دیکھے گا کہ اِس کی تعلیمات مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں، اور وہ ایک ہی جہت میں بشر کو لے جاتی ہیں کہ اِنسان مقاصدِ الٰہیہ کو جانے۔ اِس کی صریح آیات میں نہ ناسخ ہے نہ منسوخ۔

پرانے عہدنامے کی کتابوں میں ہم سیکھتے ہیں کہ خُدا نے کائنات کو کیسے خلق کیا؟ اِنسان کو کِس طرح بنایا؟ اور کیسے گناہ دُنیا میں داخل ہُوا؟ اِس کے علاوہ، ہم ایک نجات دہندہ کے وعدے کے بارے میں پڑھتے ہیں جو وقت پورا ہونے پر عورت کی نسل سے آئے گا۔ اِس وعدہ کے پورا ہونے کے اِنتظار کا دور شروع ہُوا، اور اِس بیچ خُدا نے ابرہام سے عہد باندھا کہ اِضحاق کی نسل سے وہ مُنجی ہو گا، پِھر اِس وعدہ کی تجدید اِضحاق اور یعقوب سے ہوئی۔ جب موسیٰ تشریف لائے تو اُنہیں شریعت دی گئی جِس میں وہ عظیم اور قیمتی وعدے شامل تھے۔ جناب موسیٰ کے بعد آنے والے انبیاء کو اِس نجات دہندہ کی واضح رویائیں دی گئیں جو خُداوند کے نام پر آنے والا تھا۔ آنے والے دیگر صحائف اور نوِشتے موسیٰ کی کتابوں سے مُتفّق تھے۔ بعض میں تو نجات دہندہ کے آنے کا انداز، وہ شہر جہاں وہ پیدا ہونے کو تھا، اُس کے معجزات، تعلیمات اور کفّارہ کے طور پر اُس کی موت کا ذِکر بھی تھا۔

جہاں تک اِنجیل مُقدّس کا تعلق ہے، اِس نے نجات دہندہ کی زندگی، تعلیمات، موت، جی اُٹھنے اور آسمان پر صعود کے واقعات کو تورات اور زبور میں موجود پیشین گوئیوں کے تسلسل کے طور پر پیش کیا ہے۔ پرانے عہدنامہ کے اِیمان کے سورماؤں نے خُدا کو قبول کیا، اُس کی طرف مائل ہوئے، اُس کی عبادت کی اور آنے والے نجات دہندہ پر یقین کیا، اور اُس میں اپنے دِلوں کےلئے اطمینان پایا۔ عبرانیوں کی کتاب کا مُصنّف اِس بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "یہ سب اِیمان کی حالت میں مرے اور وَعدہ کی ہُوئی چِیزیں نہ پائِیں مگر دُور ہی سے اُنہیں دیکھ کر خُوش ہُوئے اور اِقرار کیا کہ ہم زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں" (نیا عہدنامہ، عبرانیوں 11: 13)۔

انبیاء کے نوِشتوں اور زبور میں نجات دہندہ کے بارے میں خبر زیادہ واضح ہو گئی۔ شروع سے ہی خُدا نے اپنے لئے ایک قوم کو الگ کیا اور اُن کے دِلوں کی سختی اور برائیوں کو برداشت کرتے ہوئے اُن کی تربیّت کی۔ یہ کتابیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ علامتی مناسک اور مذہبی رسوم تو اُس گروہ کےلئے وقتی طور پر دیئے گئے تھے جو خُدا پرستی اور بت پرستی کے درمیان حد فاصل کا کام کرتے تھے جب تک کہ موعودہ نجات دہندہ تمام قوموں کےلئے ایک برکت کے طور پر نہ آ جائے۔ اُنہیں سکھایا گیا تھا کہ یہ علامتیں اور رسومات، اگرچہ خُدا کی طرف سے مُقرّر کی گئی ہیں، مگر اِن کا اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ ایک وقف شدہ مُقدّس زندگی نہ ہو۔

یہ سچّائی میکاہ نبی پر اُس وقت ظاہر ہوئی جب وہ خُدا کی نظر میں لامتناہی قربانیوں اور نذروں کی افادیت کے بارے میں سوچ رہا تھا:

"مَیں کیا لے کر خُداوند کے حضُور آؤُں اور خُدا تعالےٰ کو کیونکر سِجدہ کرُوں؟ کیا سوختنی قُربانِیوں اور یکسالہ بچھڑوں کو لے کر اُس کے حضُور آؤُں؟ کیا خُداوند ہزاروں مینڈھوں سے یا تیل کی دس ہزار نہروں سے خُوش ہو گا؟ کیا مَیں اپنے پہلوٹھے کو اپنے گناہ کے عِوض میں اور اپنی اَولاد کو اپنی جان کی خطا کے بدلہ میں دے دُوں؟ اَے اِنسان اُس نے تُجھ پر نیکی ظاہِر کر دی ہے۔ خُداوند تُجھ سے اِس کے سِوا کیا چاہتا ہے کہ تُو اِنصاف کرے اور رحم دِلی کو عزِیز رکھے اور اپنے خُدا کے حضُور فروتنی سے چلے؟" (پرانا عہدنامہ، میکاہ 6: 6۔ 8)

تمام یہودی رسمی قوانین، چاہے قربانیاں ہوں، سوختنی قربانیاں ہوں، بخور ہوں یا غسولات، نئے عہدنامے کی روح کی بھرپوری میں پوری ہونے والی سچّائی کی علامتیں تھیں، جِس کی مسیح نے ہر اُس شخص کو ضمانت دی ہے جو اُس پر اِیمان لاتا ہے چاہے وہ کِسی قوم، مُلک، زبان یا رنگ کا ہو۔ ہم یسعیاہ نبی کی کتاب میں پڑھتے ہیں: "وہ میرے تمام کوہِ مقدّس پر نہ ضرر پُہنچائیں گے نہ ہلاک کریں گے کیونکہ جِس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین خُداوند کے عرفان سے معمور ہو گی" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 11: 9)۔

چنانچہ پرانے عہدنامہ کو نیا عہدنامہ منسوخ نہیں کرتا، بلکہ ممتاز بناتا ہے اور اُس کے روحانی پہلوؤں کو جو ہر وقت و ہر جگہ کےلئے موزوں ہو کر عالمگیر بن گئے ہیں، اُن پر زور دیتا ہے۔

عزیزم، مَیں چاہتا ہوں کہ یہ بات تمہارے ذہن نشین رہے کہ تورات کے احکام دو قسم کے ہیں، ایک تو رسمی شریعت ہے اور دوسری اخلاقی شریعت۔ اوّل الذِکر یہودیوں کو عارضی طور پر دی گئی تا کہ وہ بت پرست اقوام اور اُن کی ناپاکیوں سے الگ تھلگ نظر آئیں۔ یہ سب فضل کے دور کی تیاری میں تھا۔ عبرانیوں کی کتاب میں لکھا ہے: "غرض پہلے عہد میں بھی عبادت کے احکام تھے اور اَیسا مقدِس جو دُنیَوی تھا ۔۔۔ وہ خَیمہ موجُودہ زمانہ کےلئے ایک مِثال ہے اور اِس کے مطابِق اَیسی نذریں اور قُربانِیاں گُذرانی جاتی تِھیں جو عبادت کرنے والے کو دِل کے اِعتبار سے کامل نہیں کر سکتِیں۔ اِس لِئے کہ وہ صِرف کھانے پِینے اور طرح طرح کے غُسلوں کی بِنا پر جِسمانی احکام ہیں جو اِصلاح کے وقت تک مقرّر کئے گئے ہیں" (عبرانیوں 9: 1۔ 10)۔

پِھر یسعیاہ نبی نے یہ ظاہر کیا کہ جانوروں کی قربانی تو ایک تمثیل ہے خُدا کے برّہ کی جو ساری چیزوں کی طرف رمزی اِشارہ کرتا ہے۔ (یسعیاہ 53 باب کا مکاشفہ 5 باب کے ساتھ موازنہ کریں)۔ وہ عظیم قربانی وقت کے پورا ہونے پر مسیح کے فدیہ میں پوری ہوئی۔ اِس کے بعد مسیحیوں کو اَب اُن قربانیوں کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑی حیرت تو اِس بات پر ہے کہ یہودی قوم جانوروں کی قربانی دینے سے مجبوراً رُک گئی کیونکہ اُن کی ہیکل تباہ ہو گئی۔ تورات اُنہیں یروشلیم میں ہیکل کے دیواروں کے اندر کے علاوہ کہیں بھی قربانی کرنے سے منع کرتی ہے۔

جہاں تک اَخلاقی شریعت کی بات ہے تو یہ ابدی ہے جِس پر ہر حال میں ہر وقت عمل کرنا ہے کیونکہ اِس میں موجود احکام کا تعلق خُدا سے ہے، اِس لئے اُنہیں توڑنا اُس کی توہین ہے۔ مسیح نے اِن احکام کو اپنی اِنجیل سے منسوخ نہیں کیا، بلکہ اُن کی عمدہ شرح کر کے اُنہیں دوام بخشا۔ مثلاً، "تُم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زِنا نہ کرنا۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ جِس کسی نے بُری خواہِش سے کسی عَورت پر نِگاہ کی وہ اپنے دِل میں اُس کے ساتھ زِنا کر چُکا" (اِنجیل بمطابق متّی 5: 27، 28)۔

خلاصہء کلام یہ ہے کہ پرانے اور نئے عہدنامے دونوں میں کتابِ مُقدّس کی تمام تعلیمات طے شدہ ہیں اور اُن میں نسخ نہیں ہے۔ وہ اِنسان کےلئے خُدا تعالیٰ کی صالح اور کامل مرضی کی نمائندگی کرتی ہیں، جو ہمارے لئے اِس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہر نسل اور دور میں نجات کا ایک ہی راستہ ہے، اور جو لوگ مسیح پر اِیمان نہیں لائے اُن کی عدالت کی جائے گی۔ بزرگ ابرہام بھی اُن کے دِن کو دیکھ کر خوش ہوئے: "تمہارا باپ ابرہام میرا دِن دیکھنے کی اُمّید پر بہت خوش تھا، چُنانچہ اُس نے دیکھا اور خوش ہُوا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 8: 56)۔ مسیح نے فرمایا: "جو بیٹے پر اِیمان لاتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زِندگی کو نہ دیکھے گا بلکہ اُس پر خُدا کا غَضب رہتا ہے" (یوحنّا 3: 36)۔

عزیز حسّان، مَیں یہ سطور تمہارے لئے روانہ کر رہا ہوں، مُجھے نہیں معلوم کہ تم اِن سے کیا اثر لو گے۔ میری دانست میں تمہیں اِس میں ایسا بھرپور مواد تو نہیں ملے گا جو اعلیٰ ترین معاملات میں تمہاری بھوک کو مٹا سکے، جِن کی گہرائیوں کا احاطہ میرا معمولی سا علم بھی نہیں کر سکتا۔ تاہم، مَیں اُمّید کرتا ہوں کہ میرے خط میں کلامِ خُدا کے اقتباسات تم میں راست بازی کی تڑپ پیدا کریں گے جو اِیمان کے ساتھ خدا کی طرف سے آتی ہے۔ تب مسیح کے الفاظ کے مطابق تم آسودگی پاؤ گے اور تمہاری تشنگی مٹے گی: "مُبارک ہیں وہ جو راست بازی کے بُھوکے اور پِیاسے ہیں کیونکہ وہ آسُودہ ہوں گے" (اِنجیل بمطابق متّی 5: 6)۔ وہ اچّھا چرواہا ہے جِس نے فرمایا ہے: "جو میرے پاس آئے وہ ہرگِز بُھوکا نہ ہو گا اور جو مُجھ پر اِیمان لائے وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 6: 35)۔

یسّی کے بیٹے داؤُد نبی پر یہ حقیقت روشن ہو چکی تھی۔ وہ لکھتے ہیں: "خُداوند میرا چوپان ہے، مُجھے کمی نہ ہو گی" (پرانا عہدنامہ، زبور 23: 1)۔ یسعیاہ نبی پر بھی یہ بات واضح ہو چکی تھی، کیونکہ اُنہوں نے کہا: "اَے سب پِیاسو پانی کے پاس آؤ اور وہ بھی جِس کے پاس پَیسہ نہ ہو۔ آؤ مول لو اور کھاؤ۔ ہاں آؤ! مَے اوردُودھ بے زر اور بے قِیمت خرِیدو۔ تُم کس لئے اپنا رُوپیہ اُس چِیز کےلئے جو روٹی نہیں اور اپنی محنت اُس چِیز کے واسطے جو آسُودہ نہیں کرتی خرچ کرتے ہو؟ تُم غَور سے میری سُنو اور وہ چِیز جو اچھی ہے کھاؤ اور تُمہاری جان فربَہی سے لذّت اُٹھائے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 55: 1، 2)۔

میرے بھائی، مادی چیزیں خواہ وہ روٹی ہو، علم ہو یا مال، سیری نہیں دیتے۔ یسوع نے فرمایا ہے: "لکھا ہے کہ آدمی صِرف روٹی ہی سے جِیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نِکلتی ہے" (اِنجیل بمطابق متّی 4: 4)۔

مادی اشیاء کی مقدار یا معیار کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، یہ روحانی اِنسان کو مطمئن یا زندہ نہیں کر سکتیں۔ اِنسان ایک زندہ روحانی وجود ہے، جو محض گوشت، خون اور ہڈیوں پر مشتمل نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا ہوتا تو مادی خوراک اُسے مطمئن کرتی، اور اُس کےلئے یہ مناسب ہوتا کہ وہ اُسے محفوظ رکھنے کےلئے اپنی تمام تر قوّت صرف کرتا۔ اِسی طرح اِنسان صرف ایک ذہن نہیں ہے جو سوچتا اور ایجاد کرتا ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو علم، ادب اور فنون کے میدانوں میں پرورش پاتا۔ لیکن محض کھانے پینے والا جسم رکھنے یا علم کا ذخیرہ ہونے پر کون مطمئن ہو گا؟ مُجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی دانا شخص یہ چاہے گا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ سب فہیم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت مادی اشیاء پر توجّہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں، اُسی کو ما حصل حیات ماننے لگے ہیں، اور مادی لحاظ سے ایک دوسرے کی قدر کا جائزہ لیتے ہیں۔ کیا تمہیں وہ الفاظ یاد نہیں جو ہمارا بھائی ابو غُسّان دہرایا کرتا تھا: "اگر تمہارے پاس ایک پیسہ ہے، تو تمہاری قدر ایک پیسہ ہے۔" اِنسان جِسے خُدا نے اپنی صورت اور شبیہ پر پیدا کیا، جِسے اُس نے کائنات کی سب سے قیمتی شے، مسیح کے بیش قیمت خون کے وسیلہ سے اپنے لئے خریدا، اُس کی حالت کِس قدر ابتر ہے۔

درحقیقت، اِنسان کی نہ تو مادی چیزوں سے سیری ہو سکتی ہے، نہ علم، ثقافت یا فنون سے۔ بہت سے لوگوں نے بےتحاشا مال و دولت جمع کر لیا، لیکن اُن کی روح کی تسکین نہ ہوئی، بلکہ اُن کا لالچ اَور بھی بڑھتا گیا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے ذہنوں کو علوم، فلسفے، ادب اور فنون سے بھر دیا ہے، لیکن وہ روحانی طور پر مطمئن نہیں ہیں۔ یہ قول کس قدر درست ہے کہ: "دو لوگ کبھی مطمئن نہیں ہوتے: علم کا متلاشی اور دولت کا متلاشی۔" اَب مَیں تمہاری توجّہ خُدا کے کلمہ کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ متجسّم کلام جو زِندگی کی راہ دِکھاتا ہے اور خُدا کا الہامی کلام جو نجات کے حوالہ سے ہمیں پرکھتا ہے، دونوں کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ مسیح نے فرمایا: "زِندہ کرنے والی تو رُوح ہے۔ جِسم سے کُچھ فائِدہ نہیں۔ جو باتیں مَیں نے تُم سے کہی ہیں وہ رُوح ہیں اور زِندگی بھی ہیں ۔۔۔ اگر تُم مُجھ میں قائِم رہو اور میری باتیں تُم میں قائِم رہیں تو جو چاہو مانگو ۔ وہ تُمہارے لئے ہو جائے گا ۔۔۔ تُم کتابِ مقدّس میں ڈُھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زِندگی تُمہیں مِلتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔ پِھر بھی تُم زِندگی پانے کےلئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 6: 63؛ 15: 7؛ 5: 39، 40)۔

تمہارا مخلص،

توفیق

***

مَیں نے یہ خط حسّان کو کئی سال پہلے بھیجا تھا، اور اَب تک اُس نے مزید تفتیش نہیں کی۔ یوں لگتا ہے کہ اُس نے خُداوند یسوع کی معرفت پا لی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِس بحث نے اُسے کتابِ مُقدّس کے مطالعہ کی طرف اُبھارا ہو۔

اِس طویل عرصہ میں ہماری ملاقات کئی بار ہوئی۔ مَیں نے اُس میں بحث کا کوئی رجحان نہیں پایا، لیکن ایک بات کا مُجھے ضرور احساس ہُوا کہ اُس کی زِندگی اور مقاصد میں تبدیلی آ چکی تھی۔ اِس کے علاوہ لوگوں کے ساتھ اُس کا برتاؤ سنجیدہ اور نرم مزاج ہو گیا تھا۔ اُس کی ہر بات اِس امر کی نشاندہی کرتی تھی کہ شاید وہ تجربات کے دور سے گزر رہا ہو۔ وہ اَب ایک مثالی شوہر اور باپ بن گیا تھا۔ مَیں اُس کے ساتھ بات کر کے، اُس کی زِندگی میں اُمّید اور محبّت کے ساتھ اِیمان کی موجودگی کو محسوس کر کے بےحد خوش ہُوا، اور مُجھے یہ جان کر خاطر خواہ اطمینان ہو گیا کہ اَب حسّان میرے مخالفوں سے میری طرفداری کرتا ہے۔

مَیں آخر میں ذاتِ خُداوندی کا بےحد شکر گزار ہوں جِس نے مُجھ پر رحم کیا، میری توبہ قبول کی اور مُجھے اپنے فضل سے نوازا۔

"یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کےلئے دُنیا میں آیا جن میں سب سے بڑا میں ہوں۔ لیکن مُجھ پر رَحم اِس لئے ہُؤا کہ یسوع مسیح مُجھ بڑے گنہگار میں اپنا کمال تحمل ظاہر کرے تا کہ جو لوگ ہمیشہ کی زندگی کےلئے اُس پر اِیمان لائیں گے اُن کےلئے میں نمونہ بنوں۔" (1۔ تیمتھیس 1: 15۔ 16)

سوالات

عزیز قاری، اگر آپ نے اِس دلچسپ کتاب کا مطالعہ کر لیا ہے تو آپ درج ذیل سوالات کے جوابات بخوبی دے پائیں گے۔ اگر آپ کے پاس اِس کتاب کے بارے میں کوئی سوال یا اِستفسار ہے تو آپ براہ راست ہم سے رابطہ کریں۔

  1. گھر سے نکلتے وقت توفیق پر کون کون سی اخلاق سوز تہمتیں لگائی گئیں؟

  2. توفیق کی زِندگی کی تبدیلی کے پیچھے کون کون سے عوامل کار فرما تھے؟

  3. جب توفیق نے پہلی بار اپنی زندگی کا رخ بدلنا شروع کیا تو مسٹر الف میم کا کیا کردار تھا؟

  4. مارچ 1929ء میں ایک پاسبان نے توفیق کو بپتسمہ دینے سے کیوں انکار کیا؟

  5. توفیق کی فوج میں بھرتی ہو جانے کی کیا وجوہات تھیں؟

  6. غربت کے باوجود توفیق کی شادی خوش گوار کیوں تھی؟

  7. جب توفیق کا مسیحی ہونا زیادہ دِنوں چُھپا نہ رہ سکا تو اُس پر کیا گزری؟

  8. گلتیوں 2: 20 پر مبنی وعظ کا توفیق پر کیا اثر ہُوا؟

  9. توفیق کے یورپ جانے کے منصوبے کو روکنے میں خُدا کا کیا مقصد تھا؟

  10. کاروبار کی دُنیا میں توفیق کو کیا سبق ملا؟

  11. مسیحیوں کی طرف سے توفیق کو کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا؟

  12. کیسے توفیق نے مسیح کا جؤا اُٹھانا سیکھا؟

  13. مالی خسارہ کو اُٹھانے میں توفیق اور اُس کے خاندان نے کِس طرح فتح پائی؟

  14. کِس چیز نے توفیق کو دینی خدمت کی طرف راغب کیا؟

  15. توفیق کے اپنی بھائی حسّان کے ساتھ روابط میں کِس طرح گہرائی پیدا ہوئی؟

  16. حسّان کو توفیق میں کون سی خوبیاں پسند آئیں؟

  17. گناہ کی مزدوری کیا ہے، اور خُدا کی محبّت نے اُس کے نتائج سے نبٹنے کےلئے کِس طرح مداخلت کی؟

  18. مختصر بیان کریں کہ کیسے توفیق نے حسّان کو مسیح کے تجسّم کی وضاحت کی۔

  19. فدیہ و مخلصی کی ضرورت کو ظاہر کرنے والا عقلی برہان کیا ہے؟

  20. فدیہ و مخلصی کی ضرورت کو عیاں کرنے والا شریعت کا تقاضا کیا ہے؟

  21. کیسے فدیہ و مخلصی اِنسان کی اخلاقی ضرورت کے عین مطابق ہے؟

  22. کیسے خُدا نے کفّارہ کے ذریعے نجات کا بندوبست کیا؟

  23. مسیح کی مصلوبیّت کی حقیقت کی بابت کیا کیا تاریخی گواہیاں ہیں؟

  24. کیسے عشائے ربّانی سے مسیح کی مصلوبیّت کی تاریخی صداقت کی گواہی ملتی ہے؟

  25. مسیح کے مصلوبیّت کی حقیقت کی بابت اوّلین مسیحیوں کی کیا گواہی ہے؟

  26. کتنی بار مسیح پر مقدّمہ چلایا گیا؟ اور ہر اجلاس میں کون کون جج تھا؟

  27. رومی قانون کے مطابق مسیح کے بارے میں یہودیوں کا کیا فیصلہ تھا؟

  28. یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟

  29. رومی قانون کے مطابق مسیح کے خلاف اوّل و آخر کیا فتوے دیئے گئے اور کیوں؟

  30. صلیب پر مسیح کے سات آخری کلمات کیا تھے؟ بائبل مُقدّس سے سلسلہ وار حوالے دے کر بتائیے۔

  31. صلیب پر مسیح کے سات آخری کلمات سے یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ یقینی طور پر صلیب پر مسیح ہی تھے؟

  32. مسیح کی مصلوبیّت کے بارے میں پرانے عہدنامے کی پانچ پیشین گوئیوں کا بیان کریں۔ نیز واضح کریں کہ کیسے مسیح نے اُنہیں صلیب پر پورا کیا۔

  33. مسیح کی والدہ مُقدّسہ مریم نے مصلوبیّت کی حقیقت کی گواہی کیسے دی؟

  34. کیسے خالی قبر کی حقیقت نظریہ شبیہ کی تردید کرتی ہے؟

  35. مصلوبیّت کے دوران ہونے والے معجزات اور عجائب کیسے ثابت کرتے ہیں کہ مصلوب شخص جناب مسیح تھے؟

  36. قرآنی آیات (حوالہ جات کے ساتھ) لکھیں جو مسیح کی موت کی تائید کرتی ہیں۔

  37. امام فخر الدین الرازی نے چھ مسائل بیان کئے ہیں جو نظریہ شبیہ پر شک پیدا کرتے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟

  38. آدم اور اُن کی اولاد کو خُدا کیوں بغیر مسیح کی موت کے معاف نہیں کر سکا؟

  39. خُدا اور اِنسان کے مابین درمیانی کی ضروری خصوصیات کیا ہیں، اور وہ مسیح میں کیسے پوری ہوتی ہیں؟

  40. اگر خُدا اِضحاق کو ایک مینڈھے کے ذریعہ جو اِضحاق سے کہیں کم اہمیت کا تھا بچا سکتا ہے تو وہ مسیح جیسی اعلٰی ہستی کے ذریعے بنی نوع اِنسان کو کیوں نہیں بچا سکتا؟

  41. حوالہ جات کے ساتھ پانچ قرآنی آیات لکھیں جو بائبل مُقدّس کی صداقت کی تصدیق کرتی ہیں۔

  42. کتابِ مُقدّس کا اسکندریہ کا نسخہ اور نسخہء واتیکانی کب لکھے گئے؟ کتابِ مُقدّس کی صداقت کے سلسلے میں تحریر کے وقت کی کیا اہمیّت ہے؟

  43. آثارِ قدیمہ کی روشنی میں وہ حقیقتیں بتائیے جو کتابِ مُقدّس کی سچّائی کی گواہ ہیں۔

  44. نسخ کے بارے میں دو قرآنی آیات لکھیں۔ یہ آیات کِن کتابوں کے بارے میں بتاتی ہیں؟

  45. توفیق سے خط و کتابت کے بعد حسّان نے جو کُچھ واقفیّت حاصل کی، اُس نے حسّان کو اِیمان کی کِس گہرائی میں پہنچایا؟

بزرگ مرحوم اِسکندر جدید

مرحوم بزرگ اِسکندر جدید نے اپنی تمام عمر مسیح کی خِدمت میں بسر کر دی۔ اُنہوں نے یہ خِدمت مختلف نہج سے انجام دی۔ آپ مشہور پیشوائے کلیسیا رہے۔ مرحوم اِسکندر جدید انیس دسمبر 1989ء میں بمقام لاس اینجلیس کیلیفورنیا میں خُدا کو پیارے ہو گئے۔ آپ نے اسّی سال کی دراز عمر پائی۔ آپ اپنی زِندگی کے آخری دس سالوں میں پارکنسن کے مرض میں مبتلا رہے۔ اپنے جِسم کے کمزور ہونے کے باوجود وہ رُوح میں مضبوط رہے۔ اُن کی کتابیں دُنیا کے تمام براعظموں میں پُرزور انداز میں رُوحوں سے ہمکلام ہوتی نظر آتی ہیں۔ اُن کی زِندگی میں مسیح کے یہ الفاظ سچّ ثابت ہوئے ہیں: "میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قُدرت کمزوری میں پُوری ہوتی ہے" (2۔ کرنتھیوں 12: 9)۔

اِسکندر جدید آج اپنے نجات دہندہ اور خُداوند کے ساتھ ہیں۔ اُنہوں نے مکاشفہ 3: 7۔ 8 میں درج یسوع کے الفاظ کے ساتھ اپنی گواہی کے اثر کی وضاحت کی: "جو قدُّوس اور بَرحق ہے اور داؤُد کی کُنجی رکھتا ہے جِس کے کھولے ہُوئے کو کوئی بند نہیں کرتا اور بند کئے ہُوئے کو کوئی کھولتا نہیں وہ یہ فرماتا ہے کہ مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہُوں، دیکھ مَیں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھّا ہے۔ کوئی اُسے بند نہیں کر سکتا کہ تُجھ میں تھوڑا سا زور ہے اور تُو نے میرے کلام پر عمل کیا ہے اور میرے نام کا اِنکار نہیں کیا۔" تمام بائبلی حوالہ جات سے بڑھ کر اُنہوں نے 1۔ تیمتھیس 1: 15۔ 16 میں پولس رسول کی گواہی کو ترجیح دی "یہ بات سچّ اور ہر طرح سے قبُول کرنے کے لائِق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کےلئے دُنیا میں آیا جِن میں سب سے بڑا مَیں ہُوں۔ لیکن مُجھ پر رَحم اِس لئے ہُؤا کہ یسوع مسیح مُجھ بڑے گنہگار میں اپنا کمال تحمُّل ظاہِر کرے تا کہ جو لوگ ہمیشہ کی زِندگی کےلئے اُس پر اِیمان لائیں گے اُن کےلئے مَیں نمونہ بنُوں۔" تاہم، اُنہوں نے سب سے بڑے گنہگار کی شناخت کے حوالے سے پولس رسول سے اِختلاف کیا۔ اُنہیں یقین تھا کہ یہ تو اُن کے اپنے بارے میں ہے۔ اپنی خود انکاری والی زِندگی کے ذریعے اسکندر جدید نے اِس بائبلی حوالے میں موجود وعدے کا تجربہ کیا جِس نے اُن کی زِندگی کی مُناسب وضاحت کی۔


The Good Way
P.O. BOX 66
CH-8486 
Rikon
Switzerland