راہِ حق کی جستجو

راہِ حق کی جستجو

از نقولا یعقوب غبریل


1۔ تعارف

میں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی صحبت میں کافی وقت گزارا ہے، جن میں سے زیادہ تر علما ہیں۔ جب بھی ہم نے مذہب کے بارے میں دوستانہ اور مخلصانہ انداز میں گفتگو کی تو ہر پہلو کا جائزہ لیا اور ہر دروازہ کھٹکھٹایا، اِس لئے میں نے مناسب جانا کہ اِس تمام بات چیت کو ایک کتاب کی صورت دوں۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کاوِش آپ کی ہاتھوں میں ہے جو بےتعصبی کے طالب ہیں، جنہوں نے سچائی کو اپنا مطمع نظر بنایا ہے، اور یہ اُمید رکھتے ہیں کہ یہ بےتعصبی اُن کے فائدے کا باعث بنے گی اور راہِ حق کی طرف اُن کی راہنمائی کرے گی۔ جب سچائی آپ پر واضح ہو جائے گی تو اُمید ہے کہ آپ اُسے قبول کر لیں گے، اور اُسے پانے کےلئے اپنا سب کچھ بیچ دیں گے۔ ایسے لوگ برکت پائیں گے اور بارور ہوں گے۔

میں نے اِس تمام بات چیت میں ایک ایسے طریقے کو اپنایا ہے جو کسی بھی صاحب عقل مسلمان کےلئے مناسب ہو، اور کوئی بھی فاضل متلاشی اُسے رد نہ کرے۔ اِس لئے جہاں تک ممکن ہو سکا قرآن و حدیث اور اِس کے ساتھ تاریخ سے ثبوت پیش کئے گئے ہیں، کیونکہ یہ ایک مسلمان کے نفس کےلئے زیادہ پُر وزن ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں۔ غرض، ہم اِس معاملہ کے نتیجہ تک پہنچ جائیں گے۔ بیشک، عُلماء کی تعریفوں کے مطابق سچائی کا تحقیق کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سچائی کا طالب اُسے پانے کےلئے گفت و شنید کے میدان میں اُترنے کے خلاف نہیں ہوتا، اور جس کے پاس پہلے ہی یہ سچائی ہے، وہ گفت و شنید سے باز نہیں آتا کیونکہ یہ اُسے اَور بھی زیادہ استحکام بخشتی ہے۔ اِس لئے، میرے مسلمان بھائی، تقویٰ کی رُوح میں بات چیت کرنے کی میری دعوت سے پریشان نہ ہوں، کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو آپ دوسرے کو فائدہ پہنچائیں گے یا پھر خود مُستفید ہوں گے، دونوں صورتوں میں آپ اِس میدان میں سے ایک فاتح کی صورت میں نکل کر باہر آئیں گے۔ میرے قرآن اور حدیث سے اقتباس کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں نے اُن کی صحت کا اعتراف کر لیا ہے۔ منطقی بحث کے قوانین اور معاشرتی اصول مجھے اِس طریقہ کار کی اِجازت دیتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان بھائی سب سے پہلے میری مُقدّس کتاب (تورات اور اِنجیل شریف) کی صحت کو قبول نہیں کرتا۔ وگرنہ میں اِس تحریر میں تمام باتوں کی صداقت کو بیان کرنے کےلئے اِس میں سے بہت سے ثبوت کا اقتباس کرتا، اور یوں اُس کے دِل میں سے ہر طرح کی بےیقینی دور کرتا اور شک کی جگہ یقین پیدا کرتا۔

میرے مسلمان بھائیو، کیا آپ کا اور ہمارا، دین میں یکساں مقصد نہیں ہے کہ خالقِ کائنات کی عبادت کریں اور موت کے بعد ابدی آرام کی جگہ میں داخلہ پائیں؟ سو، اِس مقصد کے حصول کےلئے آپ ایک خاص طریقہ کار کی پیروی کرتے ہیں اور ہم ایک دوسرے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اگر ہم اِس موضوع پر حلیمی، تقویٰ اور غیر جانبداری کی رُوح میں جامع طریقے سے بحث کرتے ہیں تو ایسی بحث کیسے ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہے؟ کیونکہ سچائی ایک اور غیر منقسم ہے، اِس لئے آئیے ہم صلح و آشتی سے اکھٹے چلیں، اور یوں اپنے خالق کی رضا کو حاصل کریں تا کہ آخرکار باغِ عدن کی سی ابدی برکت سے فیض یاب ہوں۔ یہ صرف خالص محبت ہے جس نے ہمیں یہ پیغام اور دیگر پیغامات کے لکھنے میں راہنمائی بخشی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ساتھ چلیں، اور ہمارے ساتھ اُس نجات میں شریک ہو جائیں جو ہمیں مسیح میں ملی ہے، اور ہمارے ساتھ حیات ابدی پائیں۔ اگر ہم آپ کےلئے خوشی، شادمانی اور نجات کی خواہش کرتے ہیں تو پھر آپ سے نفرت نہیں کر سکتے، بلکہ ہم آپ کے مُخلِص دوست ہیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ اِس لئے ہمارے تعلق سے بدگمانی کا شکار نہ ہوں۔ خُدا تعالیٰ آپ کو صراطِ مُستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

گفتگو میں ایک فرد کو کھوکھلی ملنساری سے احتراز برتنا چاہئے، سو اگر میرے کچھ الفاظ میرے مسلمان بھائی کو ناقابل برداشت لگیں تو میں اُس سے معافی کا طلبگار ہوں گا، کیونکہ یہ میرا اِرادہ نہیں کہ میں اُس کے عقائد کو بدنام کروں۔ لیکن اِس کے ساتھ میں کچھ سچائیوں تک بھی پہنچنا چاہتا ہوں، اور یہ بات مُجھے اِجازت نہیں دیتی کہ میں اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرنے کےلئے اپنی قائلیتوں کو ایک طرف چھوڑ دوں۔ اِسی طرح میں اِس بات کی توقع نہیں کرتا کہ وہ اپنی قائلیتوں کو ایک طرف چھوڑ دے۔ آخر کو یہ بحث کا ایک موقع ہے۔ تاہم، میں اپنے محترم قاری سے وعدہ کروں گا کہ میں کسی بھی اشتعال انگیز گفتگو، تمسخر اور حقارت سے احتراز برتوں گا۔ میں یہاں پر یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اِس کتاب کے لکھنے میں کئی سابقہ تحریروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ خُدا تعالیٰ سے میری دُعا ہے کہ یہ تحریر فائدہ مند ثابت ہو اور اتفاق رائے کا باعث بنے۔ وہ جو صِدق دِل افراد کی دُعا کا جواب دیتا ہے، وہی میرے لئے کافی ہے اور میری تمام مدد کا ذریعہ بھی ہے۔

2۔ باب اوّل: مصلوبیّت کی وجوہات

حِصّہ اوّل: تورات اور اِنجیل شریف کی صحت

ہمارا یہ ایمان ہے کہ کتاب مُقدّس (تورات اور اِنجیل شریف) مسیحی دین کے تمام عقائد کا اہم حِصّہ اور اساس ہے، اور اپنی مشکلات کے حل کےلئے مسیحی اِس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ اُس عادل منصف کی مانند ہے جو مخالفت سے نہیں گھبراتا بلکہ سچائی کو سب کے سامنے لاتا ہے اور جھوٹ کو عیاں کرتا ہے اور شرعی معاملات میں شاھد الامین یعنی دیانتدار گواہ ہے۔

اِس لئے میں نے اِسے تحریر میں سب سے پہلے رکھا ہے تا کہ اِس کی صحت کو قائل کرنے والی دلیل اور منطقی ثبوت کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ یوں ہم اکھٹے ہر معاملے میں اِس کے احکام کو قبول کرتے ہوئے اور اِس کی ہدایت سے مُنوّر ہوتے ہوئے اِسے دیکھ سکتے ہیں، اور ہر اختلاف کے دوران اِس سے رجوع کر سکتے ہیں۔ بیشک، یہ نور ہے اور تمام بنی نوع انسان کےلئے حقیقی ہدایت ہے۔

1۔ قرآن میں سورۃ آل عمران 3: 2 میں ہم یہ الفاظ پڑھتے ہیں: "اُسی نے تورات اور اِنجیل نازل کی تھی۔" یعنی خُدا تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کےلئے تورات اور اِنجیل شریف کو نازل کیا۔

2۔ سورۃ المائدۃ 5: 68 میں لکھا ہے: "اے اہلِ کتاب جب تک تم تورات اور اِنجیل کو اور جو اَور کتابیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کسی بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔" اِس آیت سے تورات اور اِنجیل شریف کی صحت ثابت ہے، وگرنہ محمد صاحب اِس کی تصدیق نہ کرتے۔

3۔ اور پھر سورۃ المائدۃ 5: 47 میں بھی لکھا ہے : "اہلِ اِنجیل کو چاہئے کہ جو اَحکام اللّہ نے اُس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں۔" اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ اِنجیل شریف خُدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اور محمد صاحب نے اِس کے اَحکام کو تسلیم کیا۔

4۔ سورۃ النساء 4: 136 میں لکھا ہے: "مومنو، اللّہ پر اور اُس کے رسول پر اور جو کتاب اُس نے اپنے اِس پیغمبر پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اِس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان رکھو۔ اور جو شخص اللّہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں اور روزِ قیامت سے کفر کرے وہ رستے سے بھٹک کر دُور جا پڑا۔" اِن الفاظ میں اُس مسلمان کے شکوک پر واضح حکم موجود ہے جو تورات اور اِنجیل شریف پر ویسے ایمان نہیں رکھتا جیسے وہ قرآن پر ایمان رکھتا ہے۔

5۔ سورۃ سبا 34: 31 میں لکھا ہے: "اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اِس قرآن کو مانیں گے اور نہ اُن کتابوں کو جو اِس سے پہلے کی ہیں۔" یوں معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ مکہ تورات اور اِنجیل شریف کے بارے میں ویسے ہی جانتے تھے جیسے وہ قرآن کو جانتے تھے۔

6۔ سورۃ القصص 28: 49 میں لکھا ہے: "کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم اللّہ کے پاس سے کوئی اَور کتاب لے آؤ جو اِن دونوں کتابوں (قرآن اور بائبل) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔" یہاں واضح طور سے محمد صاحب نے تورات اور اِنجیل شریف کی صحت کا اقرار کیا ہے اور قرآن کے ساتھ اُس کے مساوی ہونے کا ذِکر کیا ہے۔

7۔ سورۃ المائدۃ 5: 43 میں لکھا ہے: "اور یہ تم سے اپنے مُقدّمات کیوں کر فیصل کرائیں گے۔ جب کہ خود اُن کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللّہ کا حکم لکھا ہُوا ہے۔" یہاں ہمارے سامنے ایک صریح اقرار موجود ہے کہ تورات شریف صحیح ہے، اِس میں خُدا تعالیٰ کے احکام موجود ہیں، اور جو کوئی اِس کی پیروی کرتا ہے اُسے کسی اَور منصف کی ضرورت نہیں۔

اِن بیان کردہ قرآنی آیات کا معنٰی بڑا واضح ہے، اور اِس کےلئے کسی تاویل یا تفسیر کی ضرورت نہیں۔

اِن آیات کا خُلاصہ یہ ہے کہ کتابِ مُقدّس (تورات اور اِنجیل شریف) خُدائے بزرگ و برتر حکیم و علیم نے تمام دُنیا کےلئے نور و ہدایت کے طور پر نازل کیں۔ اِس کے اَحکام کو مان کر اُن پر عمل کیا جانا چاہئے۔ اگر کوئی مسلمان اِس پر ایمان نہیں رکھتا تو اُس کا دین ناقص ہے اور وہ دُور بھٹک جائے گا۔ مزید برآں، اہلِ مکّہ بائبل مُقدّس سے ویسے ہی واقف تھے جیسے قرآن سے واقف تھے۔

میرے مسلمان بھائی، کیا آپ اِن واضح آیات کے باوجود اِس کتاب پر ایمان لانے سے باز رہیں گے اور اِسے اپنے لئے غیر متعلقہ سمجھیں گے؟ یومِ حشر میں جب کتابیں کھلیں گی تو آپ خُدا تعالیٰ کے اَحکام کی نافرمانی کرنے کے بارے میں کیا عُذر پیش کریں گے؟ میری آپ کےلئے یہ نصیحت ہے کہ اِس کتاب (تورات اور اِنجیل شریف) کا مطالعہ کریں، اِس پر ایمان لائیں اور اِس کے اَحکام پر عمل کریں۔ ایسا کرنے کے نتیجہ میں آپ اُس واحد راہ کو جان پائیں گے جہاں خُداوند تعالیٰ کا عدل اور رحمت آپس میں اکھٹے ملتے ہیں۔ اور آپ یسوع مسیح کے وسیلہ سے جو دُنیا اور آخرت میں اہم ترین شخصیت ہے، گناہوں سے دُھل کر ابدی خوشی پائیں گے۔

ہو سکتا ہے کہ کوئی مسلمان بھائی یہ اعتراض کرے: "جن آیات کا آپ نے ذِکر کیا ہے وہ سچی ہیں اور آپ کے نتائج بھی درست ہے۔ تاہم، جس تورات اور اِنجیل پر آپ مجھے ایمان لانے کےلئے کہہ رہے ہیں اور جس کی قرآن نے تصدیق کی ہے اُس میں تغیّر و تبدُّل ہو چکا ہے، کیونکہ تحریف کر دی گئی ہے۔ آج آپ جسے تورات اور اِنجیل کہتے ہیں وہ اُس سے بہت مختلف ہے جس کی صحت کی گواہی قرآن نے دی ہے۔ اِسی وجہ سے مسلمان اِس سے احتراز برتتے ہیں اور اِس کے احکام کو رد کرتے ہیں۔ بیشک، آپ اُنہیں اِس بات پر موردِ الزام نہیں ٹھہرائیں گے۔" میں ایسے معترض اور اُس جیسے دیگر افراد سے کہوں گا کہ وہ میرے جواب پر دھیان سے غور کریں اور کُھلے دِل کے ساتھ اُس کا جائزہ لیں۔

بیان کردہ قرآنی آیات سے آپ نے جان لیا ہے کہ کتابِ مُقدّس (تورات اور اِنجیل شریف) محمد صاحب کے ایّام میں اپنی اصل حالت میں موجود تھی اور قابل بھروسا تھی۔ وگرنہ محمد صاحب اِس کی تصدیق نہ کرتے اور لوگوں سے یہ نہ کہتے کہ اِس کے اَحکام کی پیروی کریں۔ آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ اُس وقت درست حالت میں موجود تھی اور کِسی بھی طرح کے تعیّر و تبدُّل سے پاک تھی۔

میں اَب آپ سے چاہوں گا کہ کچھ اَور آیاتِ قرآنی کا مطالعہ کریں اور خود سے دیکھیں کہ کیا کتابِ مُقدّس میں تغیّر و تبدّل واقع ہونا ممکن تھا، اور کیا اِنسان اِسے تبدیل کر سکتے تھے۔

"اور اپنے پروردگار کی کتاب کو جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اُس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔" (سورۃ الکہف 18: 27)

"اور اللّہ کی باتوں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں۔" (سورۃ الانعام 6: 34)

"اُس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔" (سورۃ الانعام 6: 115)

"اللّہ کی باتیں بدلتی نہیں۔" (سورۃ یونس 10: 64)

"اور تم اللّہ کی عادت میں کبھی تبدیلی نہ پاؤ گے۔" (سورۃ الفتح 48: 23)

"یہ تو ایک عالی رُتبہ کتاب ہے۔ اِس میں جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے۔" (سورۃ فصلٰت 41: 42، 43)

"بیشک یہ کتاب نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور یقیناً ہم اِس کے نگہبان ہیں۔" (سورۃ الحجر 15: 9)

آپ اِن حوالہ جات سے واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کوئی بھی خُدا تعالیٰ کے الفاظ کو بدل نہیں سکتا، کیونکہ خُدا تعالیٰ نے یہ کتاب نازل کی اور اِس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ یہاں جس کتاب کی نگہبانی کی بات ہو رہی ہے وہ تو قرآن ہے، تو میں جواب دوں گا کہ اِس کا مطلب تورات اور اِنجیل شریف بھی ہے۔ مثلاً دلیل کے طور پر یہ قرآنی بیان دیکھئے: "اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں (تورات اور اِنجیل) اُن سے پوچھ لو" (سورۃ الانبیاء 21: 7)۔ درحقیقت تورات کا ویسے ہی ذِکر کیا گیا ہے جیسے قرآن کا، اور اِس کےلئے دیکھئے آیت: "اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو ہدایت اور گمراہی میں فرق کر دینے والی اور سر تا پا روشنی اور نصیحت کی کتاب عطا کی یعنی پرہیزگاروں کےلئے" (سورۃ الانبیاء 21: 49)۔

آپ کہتے ہیں کہ اِن آیات کا اِطلاق صرف قرآن پر ہوتا ہے، جبکہ میں کہتا ہوں کہ وہ سب جس کا اِطلاق قرآن پر ہوتا ہے وہ تورات اور اِنجیل شریف پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ تورات اور اِنجیل شریف خُدا تعالیٰ کا کلام ہیں، اور آپ کے اعتقاد کے مطابق قرآن اللّہ کا کلام ہے۔ اگر آپ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللّہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے کہ اُس کا کلام بدل نہیں سکتا، اُس میں کوئی بگاڑ، کمی بیشی نہیں آ سکتی (جیسا کہ الجلالین میں مذکور ہے)، تو اِس سب کے تناظر میں آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تورات اور اِنجیل شریف میں تبدیلی ہو گئی ہے؟

اگر آپ اِس امکان کو تسلیم کرتے ہیں تو پھِر قرآن میں تغیّر کے امکان کو بھی تسلیم کرنا ہو گا، کیونکہ جو امر تورات اور اِنجیل کےلئے قابلِ قبول ہے وہ قرآن کےلئے بھی قابلِ قبول ہے۔ اگر لوگ خُدا تعالیٰ کے کلام تورات اور اِنجیل شریف کو بدلنے کے قابل ہیں تو لا محالہ یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ قرآن کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں جیسا کہ امام الرازی نے بیان کیا ہے۔ اور آپ یہ امر تسلیم نہیں کرتے کہ قرآن میں تغیّر و تبدُّل ہُوا ہے۔ تو یوں آپ پر یہ تسلیم کرنا واجب ہو جاتا ہے کہ تورات اور اِنجیل شریف میں کوئی تغیّر و تبدُّل نہیں ہُوا۔ اَب لازم ہے کہ آپ اِس کی صحت کا اِقرار کریں، اِس کے اَحکام پر عمل کریں اور مسیح کی جانب رُشد و ہدایت کےلئے اُنہیں اپنائیں جو الطریق، الحق اور الحیاۃ ہے۔ جہاں تک تحریف کا کچھ اِشارہ قرآن کی مدنی سورتوں میں ہے، تو اِس کا تعلق فقط بعض یہود سے ہے۔ اِنجیل شریف پر ایسا کوئی اِلزام نہیں۔ جس تحریف کا یہاں پر ذِکر ہے اُس کا تعلق چند آیات کے معانی سے تھا جیسے اُن کی تفسیر کی جا رہی تھی، کیونکہ یہودی اُن کی تفسیر محمد صاحب کی رائے کے خلاف کر رہے تھے۔ امام الرازی اور البیضاوی نے آیات کی تحریف کی تفسیر میں اِس امر کو ثابت کیا ہے۔ بصورت دیگر مدنی سورتوں میں قرآنی کلام مکّی سورتوں کے کلام سے متناقض ٹھہرتا ہے۔

حصّہ دوّم: تورات اور اِنجیل شریف کی صحت کے عقلی ثبوت

ہر عاقل شخص جانتا ہے کہ خُدا تعالیٰ جس نے اپنی ازلی قُدرت کے کلام سے کائنات بنائی، آسمان و زمین اور تمام مخلوقات کو خلق کیا، قادرِ مُطلق ہستی ہے۔ مزید برآں، اُس کے ہاتھوں کی کاریگری، آفاقی قوانین کی درستی اور ہزاروں سال کے عرصہ میں کسی تغیّر کے نہ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا تعالیٰ حکمت والا ہے۔ چونکہ خُدا تعالیٰ قادِر و حکیم ہے، اِس لئے عقل رکھنے والی اپنی اِنسانی مخلوق کےلئے لازم ہُوا کہ وہ اُن کےلئے ایک دستور وضع کرے، اُنہیں شریعت دے تا کہ وہ اپنے خالق کے ساتھ اپنے تعلق کو پہچان سکیں اور ایک دوسرے کی نسبت اپنے فرائض کو بھی جاننے کے قابل بن سکیں۔ اُنہیں اِنسانوں کے مُقدّر کے بارے میں پتا ہونے کی ضرورت تھی کہ نافرمانوں کےلئے سزا ہے اور ایماندار اور فرمانبردار کےلئے اجر ہے۔ بصورتِ دیگر بغیر کسی حدود و قیود کے بدنظمی و بربادی ہوتی جیس بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں۔ آخرکار اِنسان اپنے ہی طرح کے دیگر اِنسانوں کو ختم کر دیتا، جیسا کہ وحشی قبائل نے کیا جو ختم ہو گئے۔ تب نیکی بھی بُرائی ہی کی طرح ہوتی، اور حقیقت میں اِن کے درمیان کوئی امتیاز نہ رہتا۔ قادرِ مُطلق خُدا کے نزدیک جو حکمت والی ہستی ہے ایسی صورتحال ناقابلِ قیول ہے۔

اگر یہ دستور و شریعت تورات اور اِنجیل شریف نہیں تو پھِر مجھے بتائیے کیا ہے؟ کیا کوئی قدیم مُقدّس کتاب ہے جو تورات اور اِنجیل کی طرح اِس ضرورت کو پورا کرتی ہو؟ بالکل بھی نہیں ہے۔

بیشک، خُدا قادرِ مُطلق حکمت والا جس نے اِنسانیت کےلئے کتاب نازل کی کہ اُن کےلئے دستور و ہدایت ہو، اِس بات کو یقینی بناتا کہ اُسے کسی تبدیلی، کمی بیشی یا نقصان سے محفوظ رکھا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ ہر حملہ آور کا نشانہ ہوتی۔ بہت سی کتابیں ہوتیں، مختلف آراء ہوتیں، اور سچائی انتشار میں کھو گئی ہوتی۔ لیکن ایسا کرنا خُدا سے بعید ہے۔ کیونکہ اُس نے صدیوں سے اپنی کتابوں تورات اور اِنجیل شریف کو کسی تغیّر و تبدُّل سے محفوظ رکھا ہے۔ اُس نے اِنہیں کھوئے ہوؤں کےلئے نور و ہدایت کے طور پر محفوظ رکھا ہے۔

کتابِ مُقدّس (تورات اور اِنجیل شریف) میں تغیّر و تبدُّل کرنے کے منصوبے کےلئے ایک ہونا ناممکن ہے۔ سب سے پہلی بات، مسیحی دین اور یہودیت پہلے ہی مشرق اور مغرب میں پھیل چُکے تھے، جس میں شام، تُرکی، مِصر، ایتھوپیا، ہندوستان اور یورپ شامل ہیں۔ بائبل مُقدّس خاص طور پر اِنجیل شریف اصل عبرانی اور یونانی زُبان سے دُنیا کی زُبانوں میں ترجمہ کی جا چُکی تھی، مثلاً عربی، آرمینی، حبشی، قُبطی اور لاطینی زُبانیں۔ کیا یہ تصوّر کرنا معقول ہے کہ یہ سب قومیں اپنی کتاب میں تحریف کرنے کےلئے ایک جگہ جمع ہوئیں، جب کہ اُن میں زُبانوں اور عقیدہ کے لحاظ سے اختلاف تھا، اور پھِر خاص طور پر مسیحیوں کی بہت سی مختلف جماعتیں موجود تھیں جن میں سے ہر ایک راسخ العتقادی کے اعتبار سے دوسروں کے مقابل تھیں؟

بلا شک و شبہ ایک مسلمان کا یہ دعویٰ کہ کتاب مُقدّس میں تغیّر و تبدُّل ہو چکا ہے، بغیر ثبوت کے ایک الزام ہے۔ وگرنہ وہ اصل متون کہاں ہیں جن میں تبدیلی کر دی گئی ہے؟ وہ کون سی آیات ہیں، اور اصل میں وہ کیا تھیں، اور اُن کے بدلنے کا کیا مقصد تھا؟ اگر اِن سوالات کا کوئی جواب نہیں، اور یہ واضح ہے کہ ایسا ہی ہے تو میں اُن کے سامنے سوال رکھتا ہوں: "کوئی ایسا الزام لگانے کی جرأت کیسے کر سکتا ہے؟ کوئی عقلمند عالم اپنے الزام کی تائید میں ثبوت کے بغیر بات نہیں کرتا۔" اِنجیل شریف، اسلام کے ظہور سے پہلے عربی زُبان میں ترجمہ ہو چُکی تھی، تا کہ مسیحی ہونے والے عرب قبائل اِس سے مُستفید ہو سکیں جن میں حمیر، غسان، ربیعہ، اہلِ نجران، حیرۃ اور دوسرے لوگ شامل تھے۔ وہ اِس کے بغیر مسیحیت کو کیسے سمجھ سکتے تھے؟ اِن حقائق کی تائید ہمیں کتاب "الاغانی" میں ملتی ہے، جس میں ذِکر ہے کہ ورقہ بن نوفل (محمد صاحب کے وقتوں کا مشہور ترین عرب لکھاری) نے اِس کتاب کو تحریر کیا، اور جو کچھ وہ چاہتا تھا اُس نے اِنجیل کے عربی ترجمہ سے اُس میں نقل کیا۔ اَب اگر اِنجیل بعد میں بدل دی گئی تھی تو مسلمان اصل اِنجیل کو سنبھال کر رکھتے تا کہ اُسے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کر سکتے۔

جہاں تک یہودیوں کی بات ہے اپنی کتاب کو محفوظ رکھنے کےلئے اُن کا جوش و خروش مثالی ہے۔ وہ اِس میں پائے جانے والے الفاظ اور حُروف کی تعداد سے واقف ہیں، یوں بائبل مُقدّس مکمل طور پر کسی تغیّر سے پاک ہے اور اِس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی، جیسا کہ اِس امر کی شہادت ہمیں متن کی تاریخی نقول اور عقل سے ملتی ہے۔

جب کتابوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو سچائی چھپی نہیں رہ سکتی۔ آپ اِس امر کی تحقیق کر کے موازنہ کر سکتے ہیں۔ تب آپ حقائق تک پہنچ جائیں گے۔ کیونکہ جو کتاب شہوتوں اور خود غرض میلانات سے منع کرتی ہے، اِنسانوں کے بُرے دِلوں کو بدل دیتی ہے، خُدا تعالیٰ کی نیک خوبیوں کے موافق بناتی ہے، صالح معاشرہ تشکیل دیتی ہے، دُشمنوں سے محبت رکھنے کا حکم دیتی ہے، جس میں بدی کا جواب بدی سے دینا ناپسندیدہ امر ہے اور تمام بنی آدم کو بھائی سمجھنے کا درس دیتی ہے، بیشک وہ کتاب ہے جو خالق کائنات واجب الوجود ہستی نے عطا کی ہے تا کہ تمام روئے زمین پر اُس کے بندے اِس پر عمل کریں۔

حصہ سوّم: کتابِ مُقدّس کی صحت کا تاریخی ثبوت

کتابِ مُقدّس (تورات اور اِنجیل شریف) کی قدامت اور صحت ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ دُنیا کی کوئی اَور کتاب ایسی نہیں جس کی صحت کے اتنے ثبوت موجود ہیں۔ چونکہ تاریخ عادِل گواہ اور صادِق دلیل ہے، اِس لئے میں نے اِسے اِس تمام بحث میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ حقیقت کو واضح طور پر بیان کر سکوں۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کتابِ مُقدّس میں بہت سی نبوّتیں موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر پوری ہو چکی ہیں۔ جبکہ باقی نبوّتیں اپنے وقت پر پوری ہوں گی۔ خُدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام کے مُنہ سے بہت سے واقعات کے ہونے کے بارے میں پہلے سے بتایا جیسے کچھ بادشاہوں کے برپا ہونے اور دوسروں کے زوال کی خبر دی گئی، کچھ عظیم شہروں اور مُتکبّر قوموں کی تباہی کے بارے میں بتایا گیا جنہوں نے اپنی آنے والی تباہی کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا۔

مثلاً، ناحوم نبی نے بڑی صراحت سے اسوریوں کے دارالحکومت نینوہ کی تباہی کے بارے میں نبوّت کی۔ یہ ایک بڑا شہر تھا جس کی دیواریں سو فٹ بُلند تھیں، اور محیط ساٹھ میل کے قریب تھا۔ اِس شہر میں تقریباً پندرہ سو بُرج تھے جو اپنی شان و شوکت کے اعتبار سے دو سو فٹ تک بُلند تھے۔ یہ نبوّت حرف بحرف پوری ہوئی۔

یسعیاہ اور یرمیاہ نبی نے کلدانیوں کے دارالحکومت بابل کی تباہی کی اُس وقت نبوّت کی جب یہ اپنی عظمت اور خوشحالی کے بلندیوں پر تھا۔ اِن انبیاء کرام کی نبوّتوں کے ایک سو ساٹھ سال کے اندر بابل عظیم کی تباہی واقع ہو گئی۔ مؤرخین ہیرودوتس اور زنفون نے اِس شہر کی تباہی کی تفصیلات بیان کی ہیں جو حیرت انگیز طور پر نبیوں کے بیان کے مطابق ہیں۔

کتابِ مُقدّس کی دیگر نبوّتوں میں صور شہر کی بابت حزقی ایل نبی کی نبوّت بھی ہے، جس کے حقائق کا ثبوت اور شہادت ہمیں تاریخ میں ملتی ہے۔

حزقی ایل 26: 8 میں ہم پڑھتے ہیں کہ نبوکدنضر صور کے شہر کو تباہ کر دے گا۔ تیسری آیت میں نبی کہتا ہے کہ بہت سی قومیں اُس کے خلاف چڑھائی کریں گی، چوتھی آیت میں بیان ہے کہ وہ صاف چٹان بن جائے گا، جبکہ پانچویں آیت میں ذِکر ہے کہ وہ سمندر میں جال پھیلانے کی جگہ ہو گا۔ بارہویں آیت میں بیان ہے کہ اُس کی باقیات سمندر میں ڈالی جائیں گی۔ چودہویں آیت کے مطابق یہ پھر تعمیر نہ ہو گا اور اکیسویں آیت بیان کرتی ہے کہ اِس کی نابودگی یقینی ہے۔

حزقی ایل کی نبوّت کے تین برس بعد شاہِ بابل نے صور کا تیرہ برس (585 ۔ 573 ق م) تک محاصرہ کیا جب تک کہ صور نے اُس کی شرائط کے مطابق شکست قبول نہ کر لی۔ جب اُس نے آخرکار شہر پر حملہ کیا تو اُسے پتا چلا کہ شہر کے رہائشی نصف میل کے فاصلہ پر ایک نئے جزیرے میں بھاگ گئے ہیں۔ تب اُس نے شہر کا نشان مٹا کر اُسے میدان بنا دیا جیسا کہ حزقی ایل نبی نے اپنی کتاب کے چھبیسویں باب کی آٹھویں آیت میں نبوت کی تھی۔

پھر اسکندر اعظم آیا جس نے باغی نئے شہر کا محاصرہ کیا، قدیم شہر کی باقیات کو دلدلی علاقے میں ساٹھ میٹر کشادہ راستہ بنانے کےلئے استعمال کیا۔ اُس نے اِس شہر کو ویسے ہی فتح کیا جیسے حزقی ایل 26: 3، 12 میں نبوّت کی گئی تھی، اور پھر چوتھی اور پانچویں آیت کے عین مطابق یہ پھر صاف چٹان بن گیا۔

اگرچہ صور کی تاریخ اسکندر اعظم کے خوفناک حملہ کے بعد ختم نہ ہوئی، تاہم بعد میں انتیخوس (314 ق م) اور پھر اُس کے بعد پتلمیس فِلادلفوس (285 ۔ 247 ق م) کے حملوں سے اِس کی تجارت اور بطور بحری طاقت کے اِس کی اہمیت ختم ہو گئی۔ بعدازاں، 1321 ء میں مسلمانوں نے اِس شہر پر قبضہ کر کے اِسے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ مشہور عرب سیّاح ابنِ بطوطہ کے الفاظ کے مطابق "جو ایک مثال تھا ۔۔۔ اَب مکمل طور پر کھنڈر بن چکا ہے۔" یوں بالکل ویسے ہی ہُوا جیسے حزقی ایل 26: 14 میں بیان کیا گیا تھا۔

اپنے ایّام میں حزقی ایل نبی نے جب صور پر نگاہ ڈالی تو ایک عظیم شہر دیکھا جو عظمت کے اعتبار سے عروج پر تھا، سو جنہوں نے اِس نبوّت کو سُنا اور طاقتور شہر کی دولت اور حشمت دیکھی تو اُنہیں یہ نبوّت ہذیان محسوس ہوئی۔ اِنسانی حکمت کے مطابق کسی اِتفّاق کی بنا پر حزقی ایل نبی کی نبوّتوں کا سات سال کے اندر پورا ہونے کا امکان کروڑوں میں سے ایک تھا۔ لیکن اُس کی تمام نبوّتیں مکمل طور پر پوری ہوئیں۔

"اِس لئے خُداوند خُدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ اَے صور میں تیرا مخالف ہوں اور بہت سی قوموں کو تُجھ پر چڑھا لاؤں گا جس طرح سمندر اپنی موجوں کو چڑھاتا ہے۔ اور وہ صور کی شہرِ پناہ کو توڑ ڈالیں گے اور اُس کے بُرجوں کو ڈھا دیں گے اور میں اُس کی مِٹّی تک کُھرچ پھینکوں گا اور اُسے صاف چٹان بنا دوں گا۔" (حزقی ایل 26: 3، 4)

حِصّہ چہارم: کتابِ مُقدّس کے بارے میں آثار قدیمہ کی گواہی

اگر تاریخ کو اپنی گواہی کے مقابلے میں سوالات اور شکوک کا سامنا ہو سکتا ہے، مگر علمِ آثارِ قدیمہ کی شہادت کو جُھٹلایا نہیں جا سکتا۔

نقّادوں کی جانب سے صحائفِ مُقدّسہ کو پہلے بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اَب بھی ایسا ہو رہا ہے، اور یہ مُلحدوں کے حملوں کا شکار ہے۔ یہ اُن کی شہوانی خواہشات، کم فہمی پر مبنی آراء اور تباہ کُن فلسفوں کے برعکس ہے۔ اِس لئے، اُن میں سے بہت سوں نے فلسطین، بابل، اسور اور مِصر میں موجود آثارِ قدیمہ کی راہ لی اور اُنہیں اُمّید تھی کہ یوں وہ الہامی صحائف کو غیر معتبر ثابت کر سکیں گے۔ وہ دُنیا پر ثابت کرنا چاہتے تھے کہ کتابِ مُقدّس بگڑی ہوئی باتوں اور روایتوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن خُدا تعالیٰ نے اُن کی تمام کاوِشوں کو ناکام بنا دیا، اُن کے تیر نشانے پر نہ لگے اور اُن کی اُمّیدوں پر پانی پھِر گیا۔ اگرچہ آثارِ قدیمہ پر تحقیق و تحریر کرنے والے یہ افراد لامذہب تھے مگر آثارِ قدیمہ پر اُن کی تحقیق کی گواہی صحائفِ مُقدّسہ کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتی تھی۔

جب ہمارے مسلمان بھائیوں نے دیکھا کہ تورات اور اِنجیل شریف بنیادی قرآنی تعلیمات کے برعکس ہیں، تو اُنہوں نے اِن پر تحریف کا الزام لگا دیا اور اِن کی عدمِ صحت کا دعویٰ کیا۔ مگر اُن کے دعویٰ میں حقیقی بُرہان مفقود تھا۔ چونکہ آثارِ قدیمہ کی گواہی نے بہت سے مُلحِد تحقیق کاروں کو قائل کیا ہے اِس لئے میں نے اِس اُمّید پر اِن آثار میں سے کچھ کا ذِکر کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ جیسے اِس سے پہلے کے لوگوں کو مدد ملی ویسے ہی ہمارے مسلمان بھائی بھی اِس سے فائدہ پائیں۔

کتابِ مُقدّس پر بےدینوں کی تنقید اور اُن کی بےاعتقادی کو دو اعتبار سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اِس کی اوّلین وجہ یہ خیال تھا کہ کتابِ مُقدّس کی تحریر بابلی اسیری (تقریباً 540 ق م) سے کچھ پہلے فلستین میں یا تو نامعلوم تھی یا پھِر بہت کم استعمال ہوئی ہے۔ اِس لئے وہ سوچتے ہیں کہ موسیٰ اور دیگر کا اُس وقت تحریر کرنا تو بعید از قیاس ہے۔ ثانیاً، اُن کا خیال تھا کہ ہم عصر مؤرخوں کی نسبت تورات نے شرقِ قدیم کی تہذیب کے بیان میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا۔ مگر حالیہ انکشافات نے، جس میں اُنہوں نے مِصر، بابل اور اسور کی ترقی یافتہ تہذیبوں کی واضح عکاسی کی ہے، کتابِ مُقدّس کے اقوال کی صحت کی تصدیق کی ہے۔ اُس زمانے کی تواریخ نے ہمارے سامنے اُس وقت کی ثقافت اور سینحیرب، تِگلت پلناصر اور نبوکدنضر کی جنگوں کی تصویر کشی کی ہے۔ اَب ہم خود اُن رسم الحروف کو دیکھ سکتے ہیں جو یسعیاہ، یرمیاہ اور موسیٰ نبی نے اپنی تحریروں میں استعمال کئے تھے۔ غرض، خُدا تعالیٰ کے کلام کی گواہی میں پتھر بھی چِلّا اُٹھے ہیں۔ اِن آثار سے یہ حقیقت ثابت ہوئی ہے کہ فنِ تحریر حزقی ایل، موسیٰ اور ابرہام نبی کے وقت میں یہاں تک کہ 2234 ق م میں ویسے ہی مثالی تھا جیسے آج ہمارے پاس ہے۔

میں اَب اُن اہم موضوعات اور بڑے واقعات کا ذِکر کرنے کی طرف بڑھوں گا جو تورات شریف میں مذکور ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ اِن کی تصدیق آثار قدیمہ سے ہوتی ہے۔

برٹش میوزیم میں موجود اصل اسوری تختیاں خلقِ کائنات کے واقعہ کی (جو تورات شریف کے شروع میں بیان کیا گیا ہے) حیرت انگیز طور پر بڑی تفصیل سے تصدیق کرتی ہیں۔ اگر میں نے اختصار سے کام نہ لیا ہوتا تو قاری کےلئے اُن کا ترجمہ ضرور کرتا۔ اگرچہ اِس تحریر میں افسانوی عناصر موجود ہیں، مگر حقیقت واضح طور پر دِکھائی دیتی ہے۔ اِس تحریر میں پہلے اِنسانی جوڑے کے وجود کی تصدیق ملتی ہے، اِس میں لکھا ہے: "کہ دو ہوں جنہیں ربّ ذو الوجہ الشریف نے خلق کیا۔" کوئی بھی فرد اِسی میوزیم میں ایک قدیم بابلی ستون پر ایک تصویر دیکھ سکتا ہے جس میں اِنسانوں کے اوّلین والدین آدم اور حوا دِکھائے گئے ہیں، جو درختوں کے درمیان موجود ہیں اور سانپ حوا کے پیچھے ہے۔ یہ تورات شریف کے پہلے باب میں اِنسانی سقوط کے بیان کے عین مطابق ہے۔

پہلے پہل، غیرایماندار علماء طوفانِ نوح کے بائبلی واقعہ کو محض ایک قِصّہ سمجھتے تھے کہ یہ قدیم داستانوں میں سے ایک داستان ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ علماء کے براہین کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اور سخت تحقیق اِسے جعلسازی ثابت کر دے گی۔ تاہم، طویل تحقیقات کے بعد اُن کی سوچ اُس وقت غلط ثابت ہوئی جب آثارِ قدیمہ کی دریافتوں نے اُن پر حقیقت واضح کر دی۔ اُنہوں نے طوفانِ نوح ہونے کا یقین کیا اور اِس حقیقت کو مانا۔ اُن میں قابلِ ذِکر ماہر ارضیات تھے، کیونکہ اسور سے دریافت ہونے والی چیزوں میں تختیاں بھی تھیں جو اَب برٹش میوزیم میں موجود ہیں، جن میں طوفانِ نوح کی تمام تفصیل موجود ہے، کیونکہ لکھا موجود ہے کہ کیسے کشتی کو تعمیر کیا گیا، کیسے اِنسان اور تمام انواع کے حیوانات محفوظ کئے گئے، کیسے بارش نے زمین (جو جانداروں سے بسی ہوئی تھی) کے چہرے کو چُھپا لیا اور تمام اِنسان اور حیوان ہلاک ہوئے۔

دُنیا کے ہر براعظم میں بڑی مقدار میں سمندری باقیات دریافت ہوئی ہیں جو پہاڑوں اور گہری وادیوں میں زمین کی پرتوں میں اکھٹی یا بکھری ہوئی حالت میں موجود ہیں۔ اُن میں سے بعض مخصوص سمندروں تک محدود ہیں۔ پہاڑی پرتوں میں مچھلیوں اور سمندری نباتات کی باقیات جمی ہوئی ہیں۔ تحقیق کا متمنی کوئی بھی فرد اِن کا جائزہ لے سکتا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر عجائب گھروں میں موجود ہیں۔ اِس سب سے طوفانِ نوح کے بائبلی واقعہ کی صحت کی تصدیق ہوتی ہے۔ وگرنہ سیپیوں والے جانداروں، مچھلیوں اور نباتات کی باقیات ایسی دُور کی جگہوں پر کیسے پہنچیں جو اُن کا وطن نہیں تھا؟

سمِتھ نام کے ایک مُحقِّق نے نینوہ کے کھنڈرات میں ایک تختی دریافت کی، جو اَب برطانوی عجائب گھر میں موجود ہے، جس پر بابل کے بُرج بنانے اور زُبانوں کے اختلاف کا بیان ملتا ہے (پیدایش 11 باب)۔ اِسی مذکورہ شخص نے اسور کے کھنڈرات سے بھی ایک تختی دریافت کی جو آگ اور گندھک سے سدوم اور عمورہ کی تباہی سے متعلق ہے جس کا ذِکر پیدایش 19: 24 میں موجود ہے۔ یہ دریافتیں کنعان پر عیلام کے بادشاہ کِدرلاعمر اور اُس کے حلیفوں کے حملے کی تصدیق کرتی ہیں۔ اِن میں سنعار اور جنوبی بابل کا بادشاہ اَمرافل بھی شامل تھا جس کا ذِکر پیدایش 14 باب میں ہے۔

مؤرخین پلوٹارک اور ہیروڈیٹس نے موسیٰ نبی کی تحریروں کے وقت میں مِصر میں شراب کی موجودگی اور استعمال کا انکار کیا۔ تاہم، مِصری آثارِ قدیمہ کی دریافتوں سے اَب ہم جانتے ہیں کہ یہ مؤرخ اپنے مفروضے میں غلط تھے اور موسیٰ نبی کا بیان درست تھا جس کی معرفت خُدا تعالیٰ نے شریعت دی تھی۔ کئی مِصری قبروں میں ایسی تصویریں موجود ہیں جن میں شراب بنانے کے عمل کو انگوروں کو اکھٹا کرنے سے لے کر اُنہیں کُچلنے، اُن کا رس کشید کرنے اور برتنوں میں محفوظ کرنے تک دِکھایا گیا ہے۔ کچھ بوتلیں بھی دریافت ہوئی ہیں جن پر اِرب لکھا ہے جس کا مطلب شراب ہے۔ آثار یُوسُف نبی کے زمانے میں ایک قحط کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں جس کا بیان تورات میں پیدایش 41: 30 میں موجود ہے۔

مِصری تحریروں نے ظاہر کیا کہ رعمسیس اعظم نے دو شہروں پتوم اور رعمسیس کی تعمیر کےلئے غیر ملکیوں کو کام پر لگایا۔ یہ ذِکر خروج 1: 11 کے مطابق ہے، اور ماہرین علمِ آثارِ قدیمہ نے تھیبس میں ایک قبر میں اِسرائیلیوں اور اُن کی غلامی اور عوامی کاموں میں جبری بھرتی کا ذِکر دریافت کیا ہے۔

کتابِ مُقدّس کی صحت پر ایک خاموش شہادت سنگِ مرمر کے ایک ٹکڑے کی ہے، جسے علماء آثارِ قدیمہ میں موآبی پتھر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اِسے آگستس کلین نامی ایک پادری نے دریافت کیا تھا۔ وہ جرمنی کا رہنے والا تھا اور ایک عرصے سے فلسطین میں رہتا تھا، اور اُس نے قاہرہ میں اِنگلش چرچ مشن کے سیکریٹری کے طور پر بیس برس خدمت کی۔ وہ ایک مشہور عالم تھا اور کئی زُبانیں جانتا تھا۔ یہ دریافت شرقِ اُردن کے علاقے میں ہوئی جو قدیم موآب کا علاقہ تھا اور اِس کا تعلق 890 ق م سے بنتا ہے۔ یہ پتھر اِس وقت پیرس میں لووغ عجائب گھر میں موجود ہے۔ اِس پتھر پر فینیکی رسم الخط میں تیس سطروں پر مشتمل ایک عبارت کندہ ہے جو موآب کے بادشاہ مِیسا، شاہِ اسرائیل عمری اور ادومیوں کے درمیان جنگوں کے بارے میں بتاتی ہے، اِس کا ذِکر ہمیں 2۔ سلاطین 3: 4۔ 27 میں ملتا ہے۔ یہ کچھ مزید تفصیلات کا بھی درست طور پر ذِکر کرتی ہے جو کتابِ مُقدّس کے بیان کے مطابق ہیں، لیکن جگہ کی کمی کی بناء پر اُن کا ذِکر کرنا محال ہے۔

مزید برآں، یروشلیم میں شلوم کی تحریروں کی دریافت نے اُن واقعات کی تصدیق کی ہے جو ہم 2۔ سلاطین 20: 20؛ 2۔ تواریخ 32: 30 اور یسعیاہ 22: 9، 11 میں پڑھتے ہیں، اور پھِر اِس بات کا بھی ذٍکر ملتا ہے کہ حزقیاہ نے جیحون کے پانی کے اوپر کے سوتے کو بند کرایا اور اُسے داؤد کے شہر کے مغرب کی طرف سیدھا پہنچایا۔

اِسی طرح نینوہ کے کھنڈرات سے ایک اسطوان ملا جس پر 722 ق م میں شاہِ اسور سرجون اور شاہِ اشدود اشور کے درمیان حزقیاہ کے دورِ سلطنت کے دوران جنگ کا اندراج کیا گیا ہے (یسعیاہ 2: 1)۔ یہ اسطوان اَب لندن میں موجود ہے۔

ایک اَور اسطوان جو مِلا وہ مُسدّس نما ہے جس پر یروشلیم کے اُس محاصرہ کا بیان موجود ہے جو شاہِ اسور سینحیرب نے 705 ق م میں کیا تھا جس کا ذِکر 2۔ سلاطین 18: 13۔ 16 میں موجود ہے۔ یہ بھی لندن میں ہے۔

ہمارے پاس کتابِ مُقدّس کے بےشمار قدیم نسخہ جات موجود ہیں جو اِس کی صحت کی ناقابلِ تردید گواہی ہے۔ یہ یورپ کی ممتاز لائبریریوں اور عجائب گھروں میں موجود ہیں۔ یہ چمڑے کے بنے بڑے ٹکڑوں طوماروں پر اِنجیل شریف کی اصل یونانی زُبان اور دیگر بہت سی زُبانوں میں لکھے ہوئے ہیں۔ اِن میں سے کچھ مکمل طور پر تورات اور اِنجیل شریف پر مشتمل ہیں۔ جبکہ کچھ کتابِ مُقدّس کی مخصوص کتابوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں پر اِن میں سے بعض کا ذِکر کیا جا رہا ہے:

1۔ نسخہء ویٹیکن۔ یہ آپ کو ویٹیکن روم میں ملے گا۔ یہ ہجری کیلینڈر سے تقریباً 250 سال پہلے لکھا گیا تھا۔

2۔ نسخہء سینا۔ اِسے کوہِ سینا کی مناسبت سے نام دیا گیا جہاں سے یہ دریافت ہُوا تھا۔ اَب یہ لندن میں برطانوی عجائب گھر میں موجود ہے اور تورات اور اِنجیل شریف پر مشتمل ہے۔ یہ ہجری کیلینڈر سے تقریباً 200 سال پہلے تحریر کیا گیا۔

3۔ نسخہ ء اسکندریہ۔ یہ نسخہ لندن میں برطانوی عجائب گھر کے قیمتی خزانے میں موجود ہے۔ یہ بھی ہجری کیلینڈر سے تقریباً 200 سال پہلے لکھا گیا، اور تورات اور اِنجیل شریف پر مشتمل ہے۔

4۔ نسخہء افرائیمی۔ یہ اَب پیرس میں ہے اور ہجری کیلینڈر سے تقریباً 150 سال پہلے لکھا گیا اور اِنجیل شریف پر مشتمل ہے۔

مزید برآں، 1948 ء میں ایک واقعہ اخباروں کی زینت بنا جسے تاریخ میں ایک عظیم لمحہ سمجھا گیا۔ تعامرہ سے تعلق رکھنے والا ایک عرب محمد الدیب بدوی بحیرہ مردار کے نزدیک اپنی بھیڑیں چرا رہا تھا۔ جب ایک بھیڑ ایک پہاڑ پر چڑھ گئی تو اُس نے اُس کی طرف ایک پتھر پھینکا۔ برتن کے ٹوٹنے کی آواز سُن کر اُس نے ایک اَور پتھر پھینکا۔ تب وہ پہاڑ پر چڑھا اور ایک سوراخ سے بڑے محتاط انداز میں ایک غار میں داخل ہُوا اور اُس نے سوچا کہ اُسے کوئی خزانہ ملے گا۔ اور حقیقت میں اُسے خزانہ ہی ملا، یہ صرف اُس کےلئے یا اُس کے قبیلے کےلئے نہیں تھا بلکہ تمام دُنیا کےلئے ایک خزانہ تھا۔

یہ دریافت کتابِ مُقدّس کی تحریروں کے ایک مجموعہ پر مشتمل ہے، جس میں یسعیاہ نبی کی کتاب بھی موجود ہے۔ یسعیاہ نبی کا صحیفہ مسیح سے تقریباً 700 برس پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ کتابِ مُقدّس کی صداقت کی زبردست شہادت ثابت ہوئی کیونکہ آج موجود نسخے اِس کے مطابق ہیں۔ غرض، اِس سے کتاب مُقدّس میں تحریف کر دینے کے الزامات باطل ٹھہرے، اور اُن کا غلط ہونا ثابت ہو گیا۔ یہ طومار اَب "قمران" یا "بحیرہ مُردار کے طومار" کہلاتے ہیں۔

طوماروں کی اِس قیمتی دریافت کے وقت سے یہ بڑا واضح ہو گیا کہ خُدا تعالیٰ کی مُقدّس کتاب کی نقل اور ترسیل مسیح کی کلیسیا جو خُدا تعالیٰ کے بھیدوں کے خزانہ پر مشتمل ہے کی زندگی میں رُوح القدس کی راہنمائی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ مسیحیوں کے پاس کثیر تعداد میں کئی اَور نُسخہ جات بھی موجود ہیں جن میں سے بعض اسلام سے پہلے لکھے گئے اور بعض اسلام کے ہمعصر ہیں۔ ہم نے اختصار کے پیشِ خاطر اُن کا یہاں ذِکر نہیں کیا۔ اگر ہم آج یہودیوں اور مسیحیوں کے ہاتھوں میں موجود کتابِ مُقدّس کی تین سو زُبانوں سے زیادہ کی نقول کا قدیم نُسخہ جات کے ساتھ موازنہ کریں تو ہمیں اُن کے درمیان بڑی مطابقت نظر آئے گی۔ وہ نُسخے موجود ہیں اور کوئی بھی اُن کا جائزہ لے سکتا ہے۔

3۔ دوسری بحث: کیا قرآن نے تورات اور اِنجیل کو منسوخ کر دیا ہے؟

جب مسلمان مناظرہ کے میدان میں شکست کھاتا ہے، کسی برہان و دِلیل کو نہیں پاتا، اور اُس کے سامنے یہ تسلیم کئے بغیرہ چارہ نہیں رہتا کہ تورات اور اِنجیل شریف میں تحریف و تبدیلی نہیں ہوئی اور یہ خُدائے حکیم نے تمام اِنسانوں کی ہدایت اور نور کےلئے نازل کیں تو وہ اِس دعوے کا سہارا لیتا ہے کہ قرآن نے تورات اور اِنجیل کو منسوخ کر دیا ہے۔ تاہم، یہ ایسا الزام ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں اور یہ بڑا بہتان ہے کیونکہ قرآن خود اِس بات کا دعویٰ نہیں کرتا۔ بلکہ اِس کے برعکس، اِس نے واضح عربی میں ہر فرد پر واضح کیا کہ یہ نازل کیا گیا ہے کہ تورات اور اِنجیل کی تصدیق کرے اور اِسے اُن پر نگہبان ٹھہرایا گیا ہے۔ آپ اِن آیات میں اِس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں:

"اے بنی اسرائیل، میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اُس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مُجھ سے کیا تھا، میں اُس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ اور جو کتاب میں نے نازل کی ہے جو تمہاری کتاب کو سچا کہتی ہے اُس پر ایمان لاؤ۔" (سورۃ البقرۃ 2: 40، 41)

"جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے" (سورۃ البقرۃ 2: 97)

"پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے" (سورۃ آلِ عمران 3: 81)

"اُس نے تم پر سچائی کے ساتھ کتاب نازل کی جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے" (سورۃ آلِ عمران 3: 3)

"اے کتاب والو، ہماری نازل فرمائی ہوئی کتاب پر جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے ایمان لے آؤ۔" (سورۃ النساء 4: 48)

"اور یہ قرآن ایسا نہیں کہ اللّہ کے سوا کوئی اِس کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں یہ اللّہ کا کلام ہے جو کتابیں اِس سے پہلے کی ہیں۔ اُن کی تصدیق کرتا ہے۔" (سورۃ یونس 10: 37)

"اور اے پیغمبر ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اُن سب پر نگہبان ہے۔" (سورۃ الماءدۃ 5: 48)

"اے اہلِ کتاب جب تک تم تورات اور اِنجیل کو اور جو اَور کتابیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کسی بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔" (سورۃ المائدۃ 5: 72)

صاحبِ فہم اپنے دعوے کو اُس وقت تک نہیں پیش کرے گا جب تک اُسے اِس بات کا یقین نہ ہو کہ وہ ہزاروں دلائل سے اپنی بات کا ثبوت دینے کے قابل ہے۔ ہمارے بعض مسلمان بھائی اِس معاملے میں بغیر کسی سمجھ سے کام لیتے ہیں۔ جب ہم اُنہیں کہتے ہیں کہ "اگر آپ سچے ہیں تو اپنا ثبوت پیش کریں" تب وہ ہمارے سامنے کھوکھلی اور ناتواں وجوہات پیش کرتے ہیں جیسا کہ "بعد کی کتاب نے پچھلی کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے۔" با الفاظِ دیگر، چونکہ قرآن تورات اور اِنجیل کے بعد آیا ہے اِس لئے اِس نے اُنہیں منسوخ کر دیا ہے۔ جبکہ بعض یہ کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن میں تورات اور اِنجیل موجود ہے، اِس لئے ہمیں اُن کی ضرورت نہیں۔ میں نہایت ہی ادب سے اپنے قاری سے کہوں گا کہ میرا نہیں خیال کہ مجھے ایسے "ناتواں" ثبوتوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب کہ قرآن نے بذاتِ خود مجھے اِس کوشش سے بچایا ہے۔ بیان کردہ سات آیات اَور بہت سی قرآنی آیات کی طرح واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن تورات اور اِنجیل شریف کی صداقت کی گواہی دیتا ہے، اُن کی تصدیق کرتا ہے اور اُن پر نگہبان ہے۔ اِس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اِس نے اِن کے اَحکام کو منسوخ کر دیا اور قرآن میں ایسے کسی بھی دعوے کا کوئی ذِکر نہیں ہے، اور اِس کے برعکس ہی بات سمجھ آتی ہے کیونکہ اِن کی تصدیق و گواہی دینے کے ساتھ یہ یہود و نصاریٰ کو اعلانیہ یہ کہتے ہوئے اُبھارتا ہے: "اے اہلِ کتاب جب تک تم تورات اور اِنجیل کو اور جو اَور کتابیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کسی بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔"

اگر نسخ کا تصور درست ہوتا تو ہمیں جناب محمد یہود و نصاریٰ کو تورات اور اِنجیل شریف کے اَحکام پر عمل کرنے کا حکم دیتے نہ نظر آتے۔ اور نہ ہی وہ مسلمانوں کو اُن پر ایمان لانے کےلئے کہتے۔ قرآن میں کہیں پر بھی اِس بات کا ذِکر نہیں ملتا کہ اِس میں تورات اور اِنجیل موجود ہیں تا کہ ایک مسلمان یہ کہہ سکے کہ اُسے اِن کی ضرورت نہیں ہے۔ درحقیقت، قرآن اِس کے برعکس بیان کرتا ہے، جیسا کہ سورۃ الشعرآء 26: 193 ۔ 196 میں ایک فرد دیکھ سکتا ہے: "اِس کو رُوح الامین لے کر اُترا ہے۔ یعنی اُس نے تمہارے دِل پر اُس کا القا کیا ہے تا کہ لوگوں کو خبردار کرتے رہو۔ اور القا بھی فصیح و بلیغ عربی میں کیا ہے۔ اور یقیناً یہ پہلوں کے صحیفوں میں بھی موجود ہے۔"

سو، یہ آخری اقتباس تصدیق کرتا ہے کہ تورات اور اِنجیل میں قرآن موجود ہے، "یہ پہلوں کے صحیفوں میں بھی موجود ہے۔" اَب یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ہمارے مسلمان دوست کوئی ثبوت دیئے بغیر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ قرآن میں موجود ہیں۔

اب اگر کوئی فرد یہ تصوّر کرتا ہے کہ قرآن تورات اور اِنجیل کی تصدیق کرنے میں ناکام ہُوا ہے، تو ایسا فرد اِس تعلق سے موجود خاموشی کے ہوتے ہوئے یہ استدلال پیش نہیں کر سکتا کہ اِس نے اُنہیں منسوخ کر دیا ہے اور اَب اُن کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن میں تو اللّہ نے اپنے کلام کو اُن کے اختیار پر قائم کرنے کی کوشش کی اور یہ کہتے ہوئے اُسے تورات اور اِنجیل کے ساتھ رکھا: "کہدو کہ اگر سچے ہو تو تم اللّہ کے پاس سے کوئی اَور کتاب لے آؤ جو اِن دونوں کتابوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو" (سورۃ القصص 28: 49)۔ اور بہت مرتبہ قرآن نے عربوں کو کتابِ مُقدّس کے پیغام کی سچائی اور اِس پیغام کی اُن کےلئے ضرورت کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش یہ ذِکر کرنے سے کی کہ تورات اور اِنجیل اجنبی زبانوں میں اجنبی قوم کو دی گئیں "اور ہر ایک قوم کےلئے راہنما ہُوا کرتا ہے" (سورۃ الرعد 13: 8)۔ اور چونکہ عرب اُن زبانوں کو سمجھ نہیں سکتے تھے، قرآن یہ کہتا ہے کہ اللّہ نے تمہاری زبان میں واضح عربی میں قرآن نازل کیا (جیسے تورات اور اِنجیل نازل ہوئیں); "اور اِس سے پہلے موسیٰ کی کتاب تھی لوگوں کےلئے راہنما اور رحمت۔ اور یہ کتاب عربی زبان میں ہے اِس کی تصدیق کرنے والی تا کہ ظالموں کو خبردار کرے۔ اور نیکوکاروں کو خوشخبری سُنائے۔" (سورۃ الاحکاف 46: 12)۔

4۔ تیسری بحث: سب نے بشمول انبیاء خطا کی

خُدا تعالیٰ نے اِنسان کو طاہر خلق کیا، اور اُس کےلئے باغِ عدن میں رہنے کی خوشی بھری جگہ مہیا کی۔ وہاں کوئی بھی ایسی شے نہیں تھی جو اُس کی عبادت میں انتشار کا باعث بنتی۔ تاہم، وہ ممنوعہ پھل کھانے سے اپنے ربّ کے حکم کا نافرمان ہُوا۔ تب وہ سب کچھ کھو بیٹھا۔ آدم اپنی تمام نسل کا نمائندہ تھا، اور اپنی بغاوت سے اُس نے اُس عہد کو توڑ دیا جو خُدا تعالیٰ نے اُس کے ساتھ باندھا تھا۔ نسلِ آدم نے تب سے اِس ترجمانی پر اِس کے اثرات کی وجہ سے افسوس کیا ہے۔ آدم آزمایش کا شکار ہُوا اور گناہ میں گِر گیا۔ چونکہ ہم اِنسان اُس کی نسل سے ہیں اِس لئے ہم نے یہ کمزوری میراث میں پائی ہے اور وراثت کے قانون کے مطابق ویسے ہی رُجحانات میں پیدا ہوئے ہیں۔ مگر، ہم اُس کے گناہ کی وجہ سے سزاوار نہیں ہیں، کیونکہ خُدا تعالیٰ کی نامنظوری کو جاننے کے باوجود ہم بھی نافرمان ہوئے ہیں۔ بالکل آدم کی طرح ہم نے بھی حقیقی گناہوں کا اِرتکاب کیا ہے۔ یہ بیان اِس امر کی تصدیق کرتا ہے: "آدم گناہ میں گر گیا، سو اُس کی نسل بھی گناہ میں گر گئی۔ آدم نسیان کا شکار ہُوا اور درخت کا پھل کھا لیا، اور اُس کی نسل بھی نسیان کا شکار ہوئی۔ آدم نے خطا کی اور اُس کی نسل نے بھی خطا کی۔" یہ قول ترمذی اور چند دیگر افراد سے منسوب ہے، اور یہ مناسب اور صحیح بیان ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جناب آدم کی اپنی نسل کی نمائندگی کرنا مسلمان علماء میں ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ شیخ محی الدین ابن العربی نے اپنی کتاب کے 305 باب میں اِس موضوع پر ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔

اگر آدم نے جسے خُدا تعالیٰ نے طاہر خلق کیا، اپنے ربّ کے اَحکام کی نافرمانی کی، تو اُس کی کمزور نسل کے بارے میں کتنا زیادہ کہا جا سکتا ہے؟ تب ہم دیکھتے ہیں کہ سب نے گناہ کیا اور خُدا تعالیٰ کے جلال سے محروم ہوئے۔

تاریخ اور تجربہ دونوں ہمیں سکھاتے ہیں کہ اِنسانی دِل شریر ہے اور ہمارے دِل ہمیں کہتے ہیں کہ "نفسِ امارہ اِنسان کو بُرائی ہی سکھاتا رہتا ہے" (سورۃ یوسف 12: 53)۔

جب کبھی یہ اپنی شہوتوں کو پورا کرنے کی راہ دیکھتا ہے، یہ اُن کی پیروی کرتا ہے جب تک کہ خالقِ کائنات کی طرف سے کوئی سدِ راہ نہ ہو۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ خطا اور بدی ممنوع ہے، لیکن ہم اپنے ضمیر کے خلاف جاتے ہیں، اپنی بگڑی فطرت کے تابع ہو جاتے ہیں، اور فاسد کاموں کو سرانجام دیتے ہیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شرابی اگرچہ جانتا ہے کہ شراب پینے کی عادت اُس کی صحت، اندازِ زندگی اور دین کو کتنا زیادہ نقصان پہنچاتی ہے مگر اِس کے باوجود وہ ایسا کرتا ہے؟ وہ داخلی عوامل کی وجہ سے ایسا کرتا ہے، اِسی طرح زناکار، چور اور بدگوئی کرنے والا فرد ہے۔

ہمارا شخصی تجربہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارے اندر ایسے رُجحانات اور جذبات ہیں جو قابلِ الزام ہیں۔ یہ اِنسانی فطرت کے بگاڑ کا نتیجہ ہیں، جو ہمارے ضمیر سے جنگ کرتے اور ہمارے صالح اِرادوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ یوں ہم اپنے آپ کو گناہ کی قید میں گرفتار دیکھتے ہیں، اور اپنے خالق خُدا کی مرضی کے برعکس عمل کرتے ہیں۔

ہم سِوائے یسوع کے، عیب سے پاک کسی بھی شخص کو نہیں جانتے۔ سِوائے یسوع کے کسی نے بھی کبھی مکمل طور پر پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہم بعد ازاں اِس کتاب میں اِس پر بات کریں گے۔

سب اِنسانوں کے بگاڑ کی حقیقت کے بارے میں ایک قرآنی آیت یوں نشاندہی کرتی ہے کہ "نفس امارہ اِنسان کو برائی ہی سکھاتا رہتا ہے" (سورۃ یوسف 12: 53)۔ الرازی نے اِس تعلق سے یوں کہا "نفس امارہ اِنسان کو برائی ہی سکھاتا رہتا ہے: با الفاظِ دیگر یہ قبیحات کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، بغاوت کا مُشتاق رہتا ہے، اور ایسی فطرت کا حامل ہے جو لذّتوں کی آرزومند ہے۔ چونکہ مادی دُنیا کی جانب جاذبیت غالب ہے، اور عالمِ بالا کےلئے رُجحان شاذ و نادِر ہے، اِس لئے بدی کی جانب اُبھارنے پر اِس کی عدالت ہوتی ہے۔" یہاں پر یہ بھی واضح ہے کہ لفظ النفس میں ال نوعِ اِنسانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اِس لئے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہر اِنسان کو برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔ عربی کا لفظ "لَاَمَّارَۃ" ایک تاکیدی صورت ہے۔ یوں یہ یقینی ہے کہ ہر اِنسان کا نفس اُسے بدی کرنے پر اُبھارتا ہے اور اُس میں نافرمانی کرنے کی شدید رغبت پائی جاتی ہے۔

سب کے خطا کرنے کا ایک اَور ثبوت اِس آیت میں موجود ہے: "اور تم میں سے کوئی شخص نہیں مگر اُسے اُس پر گزرنا ہو گا۔ یہ تمہارے پروردگار پر لازم ہے اور مقرر ہے۔ پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے۔ اور ظالموں کو اُس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہُوا چھوڑ دیں گے" (سورۃ مریم 19: 71، 72)۔ الرازی نے کہا، "اور ایک فرد کا یہ کہنا روا نہیں کہ 'تب ہم بچ جائیں گے،' جب تک کہ سب اُس (آگ) میں سے نہ گزریں۔" اِس موضوع پر معلومات اِسی سمت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جب جابر سے اِس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب دیا "میں نے رسول اللّہ کو یہ کہتے سُنا ہے کہ 'الورود' اُس میں سے گزرنے کا مطلب داخل ہونا ہے، اور ہر کوئی بغیر کسی اِستثنا کہ چاہے وہ اچھا ہے یا بُرا اُس میں داخل ہو گا۔" جلال الدین نے لفظ "واردھا" (اُس پر گزرنا ہو گا) کی تشریح یوں کی ہے کہ اِس کا مطلب داخل ہونا اور جلنا ہے۔ الرازی نے آیت "تو جن لوگوں کی تولیں بھاری ہوں گی" (سورۃ الاعراف 7 :8) کی تشریح میں اِس بات کی تصدیق کی ہے، "مگر مومنوں کے گناہ معاف کئے جائیں گے۔"

کیا اِس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ ہر کوئی گناہ کرتا ہے، کچھ تھوڑی دیر کےلئے عذاب پائیں گے جبکہ کچھ ہمیشہ کےلئے آگ میں رہیں گے؟ سب کے گناہ کرنے کا ایک اَور ثبوت اِس آیت میں ہے، "اور جو کوئی رحمٰن کی یاد سے آنکھیں بند کر لے یعنی تغافل کرے ہم اُس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہ اُس کا ساتھی ہو جاتا ہے" (سورۃ الزخرف 43: 35)۔ چونکہ ہمیشہ اللّہ کا ذِکر کرنا بشری طاقت سے باہر ہے، اِس لئے یہ حیران کن امر نہیں کہ شیطان ہر اِنسان کے ساتھ مسلسل جنگ میں ہے۔ جب محمد صاحب سے پوچھا گیا کہ افضل جہاد کون سا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا، "اپنی خواہشوں کے خلاف جہاد۔" اِسے جہادِ اکبر کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ "تمہارا بدترین دُشمن تمہارا نفس ہے جو تمہارے اندر ہے۔" اِس سے ایک فرد فطرت کے فساد اور شر کو دیکھتا ہے جو دِل میں گھات لگا کر بیٹھا ہے اور بڑے اور چھوٹے تمام افعال میں گناہ کی طرف میلان نظر آتا ہے۔

اَب حقیقت یہ ہے کہ اِنسان فاسد اور خطا کار ہے، اور خُدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر کوئی بھی فرد پاک نہیں ٹھہرتا۔ مسلمانوں کے نزدیک اِنسان کا اپنے آپ کو خُدا تعالیٰ کے غضب سے محفوظ سمجھنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ ہمارا ناقابلِ تردید ثبوتوں کے ساتھ اخذ کردہ نتیجہ یہ ہے کہ سب نے گناہ کیا ہے۔ اِس لئے اُنہیں اپنے گناہوں کے کفّارہ کےلئے مسیح کی قربانی کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر وہ الٰہی عدل کی تسلی کی خاطر جہنم میں بھیج دیئے جائیں گے۔ اور چونکہ اُن میں وراثتی طور پر ضعف اور گناہ کی طرف رُجحان ہے جو اُنہیں اپنے باپ آدم سے ملا ہے، اِس لئے اُنہیں رُوح القدس یعنی رُوحِ خُدا کی بھی ضرورت ہے کہ اُن کی دِلوں کی تقدیس کرے۔ اِس کی ضرورت اِس لئے بھی ہے کہ بُرے رُجحانات بتدریج ختم کئے جائیں اور باطل افکار اور فاسد جذبات بدل جائیں، اور اِسے کتابِ مُقدّس میں نئی پیدایش یا دوسری پیدایش کہا گیا ہے۔

مسیحی ایمان رکھتے ہیں کہ کتابِ مُقدّس کے مطابق سب نے گناہ کیا ہے، اور تمام نسلِ اِنسانی اِس بگاڑ کا شکار ہوئی ہے۔ چونکہ انبیاء بشر ہیں، اِس لئے وہ بھی خطا کار ہیں۔ وہ یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ یہ انبیاء اور رُسُل جنہیں خُدا نے اِنسانوں کو مُتنبّہ کرنے اور اپنا پیغام پہنچانے کےلئے چُنا، اور چاہے وہ پیغام لفظی یا تحریری تھا اُس ذمہ داری کو پورا کرنے کےلئے وہ خطا سے محفوظ کئے گئے۔ یوں خُدا تعالیٰ نے اُنہیں نسیان اور غلطی سے محفوظ رکھا، اُن کی کوششوں میں اپنے رُوح القدس سے راہنمائی عطا کی اور اِنسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں اُنہیں تحریک بخشی۔ تاہم، وہ (انبیاء اور رُسُل) اپنے اعمال اور عمومی رویّہ میں گناہ سے محفوظ نہ تھے، جو اِنسانی طبیعت میں موروثی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے اور اِس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ صرف خُدا تعالیٰ کی ذات ہی گناہ سے مبرّا اور کامل ہے جسے قدرت اور جلال حاصل ہے۔

مزید برآں، گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، خُدا تعالیٰ کے غضب اور جہنم کی آگ کا مستحق ہے۔ اگرچہ قتل، چوری یا لعن طعن سے مختلف ہے، مگر سب جُرم خُدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ہی سزا کے مستحق ہیں، کیونکہ ہر گناہ خُدا تعالیٰ کی مخالفت اور نافرمانی ہے۔ اِس حقیقت کی تائید تورات اور اِنجیل شریف کی بہت سی آیات سے ہوتی ہے، مثلاً "سب گمراہ ہیں، سب کے سب نکمے بن گئے۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں" (رومیوں 3: 12)، "اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں" (رومیوں 3: 23)۔ ہم حدیث میں بھی اِس بات کی تصدیق پاتے ہیں، لکھا ہے: "جو آدمی کسی کا حق قسم کھا کر مار لے گا تو اللّہ تعالیٰ اُس کےلئے جہنم واجب کر دے گا اور جنت اُس پر حرام کر دے گا۔ ایک شخص نے آپ سے کہا: اگرچہ وہ معمولی سی چیز ہو؟ اللّہ کے رسول۔ آپ نے فرمایا: گرچہ وہ پیلو کی ایک ڈالی ہو۔"

آئیے اَب ہم انبیاء کی خطاؤں کی طرف آئیں۔ اہلِ اسلام میں انبیاء کی بےگناہی کے تعلق سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ نے کہا ہے کہ وہ مکمل طور پر بےگناہ تھے۔ کچھ اَور نے کہا ہے کہ اُنہوں نے بچپن میں تو گناہ کیا مگر جب سنِ بلوغ میں پہنچنے تو لاخطا تھے۔ اِسی طرح کچھ کا یہ کہنا ہے کہ اُن کی بےگناہی الہٰی پیغام پہنچانے میں اُن کی خدمت تک محدود تھی اور اُنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ دوسری باتوں میں گناہ کا اِرتکاب کر سکتے تھے۔ مرحوم شیخ محمد عبدہ اِس آخری رائے کو مانتے تھے۔ قرآن واضح طور پر نشاندہی کرتا ہے کہ زیادہ تر انبیاء نے گناہ کا اِرتکاب کیا، جو صرف چھوٹے نہیں بلکہ بڑے گناہ بھی تھے، اور آپ دیکھ لیں گے کہ اُنہوں نے خود اُن خطاؤں کا اقرار کیا۔

مسلمان علماء کے نزدیک یہ خطائیں دو طرح کی تھیں، کبیرہ اور صغیرہ۔ اللّہ صغیرہ گناہ تو معاف کرتا ہے لیکن کبیرہ گناہ نہیں۔ اُن کے نزدیک سترہ گناہ کبیرہ ہیں:

1۔ کُفر

2۔ صغیرہ گناہوں کا مسلسل اِرتکاب کرتے رہنا

3۔ اللّہ کی رحمت سے مایوسی

4۔ اپنے آپ کو اِلٰہی غضب سے محفوظ سمجھنا

5۔ جھوٹی گواہی

6۔ کسی مسلمان کی توہین کرنا

7۔ جھوٹی گواہی دینا

8۔ جادو

9۔ شراب پینا

10۔ یتیموں کا مال غضب کرنا

11۔ سود خوری

12۔ زِنا

13۔ لواطت

14۔ چوری

15۔ قتل

16۔ جنگ کے دوران کافر کے مقابلے میں بھاگ جانا

17۔ والدین کی نافرمانی

اُن کے اعتقاد کے مطابق ہر مومن جس نے اِن میں سے کسی کبیرہ گناہ کا اِرتکاب کیا اور پھر توبہ نہیں کی وہ جہنم کی آگ میں سزا پائے گا۔ اِن کبیرہ گناہوں کے علاوہ باقی گناہ صغیرہ ہیں۔

سورہ طہ 20: 121 سے ایک فرد نتیجہ نکال سکتا ہے کہ آدم نے خطا کی: "اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو وہ اپنے مقصد سے بےراہ ہو گئے۔" مُفسّرین کا کہنا ہے کہ آدم نے درخت کا پھل کھانے سے اپنے ربّ کے حکم کی نافرمانی کی، "لیکن اِس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں ہو جاؤ گے" (سورۃ البقرۃ 2: 35)۔ بیضاوی نے کہا، "جو کچھ اُس سے مطلوب تھا وہ اُس سے بھٹک گیا اور ابدیت پانے کےلئے درخت کا پھل کھانے سے خطا کا مرتکب ٹھہرا، یا جس کا اُسے حکم دیا گیا تھا یا سیدھے رستہ سے دُشمن سے دھوکا کھا گیا۔" الرازی نے اعتراف کیا ہے کہ آدم نے خطا کی، مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ ایسا اُن کی نبُوّت سے پہلے ہُوا۔ آپ نے مزید کہا کہ آدم کی نافرمانی اور خطا صرف درخت کا پھل کھانے کے تعلق سے تھی۔ چونکہ آدم نے اِس سے توبہ کر لی تھی، اِس لئے یہ خطا آپ کے ذمہ نہ رہی۔ تاہم، الرازی نے ہمارے لئے اِس بات کی تصدیق نہیں کی کہ یہ خطا نبُوّت سے قبل تھی، بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ آپ کو توبہ کی بنا پر معاف کیا گیا۔ ہم اِس آخری بات میں الرازی سے اتفاق کرتے ہیں، مگر اِس سے اِس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ آدم نے نافرمانی کی اور راہ سے بھٹک گیا۔

مزید برآں، نافرمانی تو کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جس کا اظہار ہم اِس آیت میں پاتے ہیں: "اور جو شخص اللّہ اور اُس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے گا تو ایسوں کےلئے جہنم کی آگ ہے" (سورۃ الجن 72: 23)۔ اور پھر اِس قول سے کہ "اُن پر مہربانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی" (سورۃ طہٰ 20: 122)، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور پھر بعد ازاں توبہ کی۔ توبہ کا مطلب اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرنا، اُس کا اقرار کرنا اور پھر سے اُسے نہ کرنے کا عزم ظاہر کرنا ہے۔ اور توبہ نافرمانی کے بناء تو نہیں ہو سکتی، اور آدم نے اپنی نافرمانی سے توبہ کی جس کا اظہار اِن الفاظ سے ہوتا ہے: "دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تُو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے" (سورۃ الاعراف 7: 23)۔

یہاں جناب آدم کی بات ہو رہی ہے جو انبیاء میں سے اوّل ترین تھے، اُنہوں نے شیطان کی اطاعت کی، اُس کی سُنی، اپنے خُداوند تعالیٰ پر شک کیا اور ابدیت کا لالچ کیا۔ ایسا کر کے اُنہوں نے خطا کی اور یہ خطا کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتی ہے۔

جناب نوح نے بھی خطا کی، جیسا کہ ایک فرد سورۃ نوح 71: 24 ۔ 29 میں دیکھ سکتا ہے: "اور تُو اُن ظالموں کو اَور زیادہ گمراہ کر دے۔" اِس کے بعد نوح نے کہا، "میرے پروردگار اِن کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا نہ رہنے دے۔" اور جب واضح ہو گیا کہ اُنہوں نے گناہ کیا تھا تو نوح نے کہا، "اے میرے پروردگار مجھے معاف فرما۔" سو گناہ کبیرہ کے اِرتکاب کے شعور کے نتیجہ میں اِستغفار کی دُعا کی گئی۔ تاہم، مُفسّرین اِس آیت کو نرم انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اِس کا مطلب صرف وہی ہو سکتا ہے جو ہم بیان کر چکے ہیں۔

جناب ابرہام نے بھی خطا کی جس کا ذِکر ہم سورۃ الانعام 6: 76 ۔ 77 میں پڑھتے ہیں: "یعنی جب رات نے اُن کو پردہ تاریکی سے ڈھانپ لیا تو آسمان میں ایک ستارہ نظر پڑا کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہو گیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہو جانے والے تو پسند نہیں۔ پھر جب چاند دیکھا کہ چمک رہا ہے تو کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ لیکن جب وہ بھی چھپ گیا تو بول اُٹھے کہ اگر میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ نہیں دکھائے گا تو میں اُن لوگوں میں ہو جاؤں گا جو بھٹک رہے ہیں۔" ایسا تب ہُوا جب آپ نے سورج دیکھا۔ اگر آپ نے یہ اعتقاد رکھ کر یہ کہا تو پھر شِرک کے مرتکب ہوئے، بصورت دیگر آپ جھوٹ بول رہے تھے۔ دونوں ہی طرح، یہ گناہِ کبیرہ ہے۔

سو، ہم سورۃ ابراہیم 14: 41 میں پڑھتے ہیں: "اے پروردگار حساب کتاب کے دِن میری اور میرے ماں باپ کی اور مومنوں کی مغفرت کیجیو۔" یہاں ابراہام نے صریحاً اپنے لئے، اپنے والدین اور مومنوں کےلئے مغفرت طلب کی۔ اور پھر سورۃ البقرۃ 2: 260 میں بھی ہم پڑھتے ہیں: "اور جب ابراہیم نے اللّہ سے عرض کیا کہ اے پروردگار مجھے دِکھا کہ تُو مُردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ اللّہ نے فرمایا کیا تم نے اِس بات کا یقین نہیں کیا۔ اُنہوں نے کہا کیوں نہیں لیکن میں دیکھنا اِس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دِل اطمینانِ کامل حاصل کر لے۔"

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ابراہیم نے خُدا تعالیٰ کی قدرت پر شک کیا، اور ایسا شک تو گناہِ کبیرہ ہے۔ حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ "ہم شک کے حقدار بہ نسبت ابراہیم کے زیادہ ہیں۔"

اور سورۃ الانبیاء 21: 63 میں ہم پڑھتے ہیں کہ ابراہیم نے کہا: "یہ ان کے ان بڑے بُت نے کیا ہو گا۔" بُت جناب ابراہیم نے توڑے تھے، اور پوچھنے پر یہ کہتے ہوئے جھوٹ کہا کہ بڑے بُت نے چھوٹوں کو توڑ دیا ہو گا۔ ابو ہریرۃ کے مطابق رسول اللّہ نے فرمایا کہ ابراہیم نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا۔ دو اُن میں سے اللّہ کے تعلق سے تھے۔ ایک تو اُن کا فرمانا کہ "میں بیمار ہوں" اور دوسرا یہ کہنا کہ "یہ کام تو ان کے بڑے (بُت) نے کیا ہے،" اور تیسرا یہ کہ "سارہ میری بہن ہے" جب ظالم بادشاہ نے سارہ کو بُلوایا (بخاری اور مسلم میں مذکور حدیث)۔

جناب موسیٰ نے بھی گناہ کیا جس کا ذِکر ہم سورۃ القصص 28: 15 ۔ 17 میں پڑھتے ہیں: "اور وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے کہ وہاں کے باشندے بےخبر ہو رہے تھے تو دیکھا کہ وہاں دو شخص لڑ رہے تھے ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اُن کے دشمنوں میں سے تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اُس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دشمنوں میں سے تھا مدد طلب کی تو موسیٰ نے اُس کو مکا مارا اور اُس کا کام تمام کر دیا، کہنے لگے کہ یہ تو شیطانی کام ہُوا بیشک وہ انسان کا دشمن ہے کُھلا بہکانے والا ہے۔ بولے کہ اے پروردگار میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو تُو مجھے بخش دے تو اللّہ نے اُن کو بخش دیا۔ بیشک وہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔"

سورۃ الشعراء 26: 20 میں بھی لکھا ہے "موسیٰ نے کہا کہ ہاں وہ حرکت مجھی سے ناگہاں سرزد ہوئی تھی اور میں خطاکاروں میں تھا۔" اور سورۃ الاعراف 7: 150 ۔ 151 میں لکھا ہے کہ "اور جب موسیٰ اپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے تو کہنے لگے کہ تم نے میرے بعد بہت ہی بُرا کام کیا۔ کیا تم نے اپنے پروردگار کا حکم جلد چاہا یہ کہا اور شِدّت غضب سے تورات کی تختیاں ڈالدیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔ اُنہوں نے کہا کہ بھائی جان لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے اور قریب تھا کہ قتل کر دیں۔ تو ایسا کام نہ کیجئے کہ دشمن مجھ پر ہنسیں اور مجھے ظالم لوگوں میں شامل نہ سمجھئے۔ اُنہوں نے دُعا کی اے پروردگار مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر، تُو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔"

اِن آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسیٰ نے قتل کا اِرتکاب کیا اور پھر اِس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ بڑی خطا سرزد ہو گئی اپنی خطا کا اعتراف کیا اور مغفرت کے طالب ہوئے۔ اِسی طرح اُس وقت بھی خطا کی جب غصے ہو کر پتھر کی لوحیں توڑ ڈالیں اور اپنے بھائی کو بُرا بھلا کہا۔ اور جب اپنی خطا کا احساس ہُوا تو اپنے اور اپنے بھائی کےلئے مغفرت طلب کی۔ جہاں تک ہارون کی خطا کی بات ہے تو وہ یہ تھی کہ ہارون نے بنی اسرائیل کےلئے سونے کا بچھڑا بنایا جس کی اُنہوں نے پرستش کی۔

جناب یوسف نے بھی خطا کی جس کا ذِکر ہم سورۃ یوسف 12: 24 میں پڑھتے ہیں جب فرعون کے لشکر کے سردار فوطیفار کی بیوی نے اُن کے ساتھ بدی کرنا چاہی: "اور اُس عورت نے اُن کا قصد کیا اور اُنہوں نے اُس کا قصد کیا، اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے تو جو ہوتا سو ہوتا۔ یوں اِس لئے کیا گیا کہ ہم اُن سے برائی اور بےحیائی کو روک دیں۔ بیشک وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں سے تھے۔"

داؤد نبی کی خطا کے بارے میں ہم سورۃ ص 38: 24، 25 میں پڑھتے ہیں: "اور داؤد نے خیال کیا کہ اِس واقعے سے ہم نے اُن کو آزمایا ہے تو اُنہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت مانگی اور جُھک کر سجدے میں گر پڑے اور اللّہ کی طرف رجوع کیا۔ تو ہم نے اُن کو بخش دیا۔ اور بیشک اُن کےلئے ہمارے ہاں قُرب اور عمدہ مقام ہے۔" داؤد نے قتل اور زنا کا اِرتکاب کرنے سے خطا کی جس کا ذِکر عہد عتیق کے صحیفہ 2۔ سموئیل گیارہ اور بارہ باب میں ہے۔ تاہم، جب یہ احساس ہُوا کہ جرم سرزد ہُوا ہے تو اپنے ربّ سے مغفرت طلب کی اور معافی پائی۔ یہ سب واضح طور پر کتابِ مُقدّس میں مرقوم ہے، جس کا دیکھنا آپ کو مُفسّرین کے طویل اور متضاد اقوال کے پڑھنے سے بچا لے گا۔ متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ داؤد خطا کے مرتکب ہوئے، اور پھر بڑے غم کے ساتھ اُن کی توبہ اور ملنے والی معافی بھی عیاں ہے، جس کا ذِکر انس بن مالک، ابن عباس، وھب بن منبہ اور دیگر نے کیا ہے۔

جناب سلیمان سے بھی خطا سرزد ہوئی جس کا ذِکر سورۃ ص 38: 31۔ 33 میں ہے: "جب اُن کے سامنے شام کو اصیل گھوڑے پیش کئے گئے۔ تو کہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہو کر مال کی محبت اختیار کی۔ یہاں تک کہ آفتاب پردے میں چُھپ گیا۔ بولے کہ ان کو میرے پاس واپس لاؤ۔ پھر اُن کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ اور ہم نے سلیمان کی آزمایش کی اور اُن کے تخت پر ایک دھڑ سا ڈال دیا پھر اُنہوں نے اللّہ کی طرف رجوع کیا۔ اور دُعا کی کہ اے پروردگار مجھے معاف فرما اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو۔ بیشک تُو سب کچھ عطا فرمانے والا ہے۔" الکشاف، الرازی اور کچھ دیگر مُفسّرین نے اِن آیات کی تفسیر مختلف انداز سے کی ہے، اور اپنی رائے کو ثابت کرنے کےلئے مختلف واقعات کا اقتباس کیا ہے۔ تاہم، خلاصہ یہ ہے کہ گھوڑوں نے سلیمان کو ذِکرِ الہٰی اور دُعا سے دُور کر دیا تھا۔ اُنہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ سلیمان نے اُنہیں ذبح کر دیا تھا۔

سورۃ ص کی آیت 34 اور 35 عیاں کرتی ہے کہ سلیمان نے واقعتاً خطا کی۔ بصورت دیگر اگر اُنہیں اپنی خطا کا احساس نہ ہوتا تو پھر مغفرت کیوں طلب کرتے؟

یوناہ (یونس) نبی نے بھی خطا کی جس کا ذِکر سورۃ الصٰفٰت 37: 139۔ 144 میں ہے: "اور یونس بھی پیغمبروں میں سے تھے۔ جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے۔ پھر اُنہوں نے قرعہ ڈلوایا تو ٹھہرے پھینکے جانے والے۔ پھر مچھلی نے اُن کو نِگل لیا جبکہ وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے والے تھے۔ پھر اگر وہ اللّہ کی پاکی بیان نہ کر رہے ہوتے، تو اُس روز تک کہ لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اُسی کے پیٹ میں رہتے۔" فعل "رہتے" نشاندہی کرتا ہے کہ یونس نے اپنے ربّ کے خلاف گناہ کیا اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ "پیغمبروں میں سے تھے" اور اِس کے باوجود نافرمانی کی۔ الفاظ "وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے والے تھے" سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ ہمیں اِس امر کی مزید تصدیق اِن الفاظ میں ملتی ہے کہ اِس نافرمانی کےلئے وہ وہیل مچھلی کے پیٹ میں "اُس روز تک کہ لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں" رہنے کے مستحق تھے، "اگر وہ اللّہ کی پاکی بیان نہ کر رہے ہوتے" (یعنی وہ اُن میں تھے جنہوں نے مغفرت طلب کی)۔ وگرنہ اِس مقام پر اللّہ کی پاکی بیان کرنے کی کیا اہمیت ہوتی؟

جناب محمد نے بھی خطا کی، جیسا کہ سورۃ الفتح 48: 2 سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے: "تا کہ اللّہ تمہاری اگلی اور پچھلی کوتاہیاں بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تم کو سیدھے رستے چلاتا رہے۔" اِسی طرح سورۃ محمد 47: 19 سے بھی یہ نتیجہ نکلتا ہے: "اور اپنے قصور کی معافی مانگو اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کےلئے بھی۔" اور سورۃ المومن 40: 55 میں لکھا ہے: "اور اپنی کوتاہی کےلئے معافی مانگو۔" اِسی طرح سورۃ النساء 4: 105 ۔ 106 میں لکھا ہے: "اے پیغمبر ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تا کہ اللّہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات فیصل کرو اور دیکھو دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔ اور اللّہ سے بخشش مانگتے رہو۔ بیشک اللّہ بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔"

پہلی آیت ظاہر کرتی ہے کہ جناب محمد نے اِس آیت سے پہلے گناہ کیا اور یہ کہ وہ بعد میں بھی گناہ کریں گے۔ اگر الرازی، الکشاف اور دوسروں کی طرح کوئی یہ کہے کہ وہ تو اپنے لوگوں کےلئے مغفرت طلب کر رہے ہیں تو پھر دوسری آیت اِس بات کی نفی کرتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ سب سے پہلے آپ سے یہ مطلوب تھا کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، پھر مومن مردوں اور عورتوں دونوں کےلئے معافی طلب کریں۔

بعض مسلمان علماء نے کہا ہے کہ نیک لوگوں کے نیک اعمال اپنے قریب والوں کی برائیوں کو مٹا دیتے ہیں، اور اگر مُتقّی شخص چھوٹے معاملات میں خُدا کی نافرمانی کرتا ہے تو خُدا اِسے کبیرہ گناہوں میں شمار کرے گا۔ اکثر وہ جسے گناہ نہیں سمجھتا وہ اُس کے خلاف گناہ شمار کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ اُس کےلئے معافی نہ مانگے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی جناب محمد کے ساتھ ہُوا۔ لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اِس آیت میں متکلم خُدا تعالیٰ ہے، "اور (محمد) اپنے قصور کی معافی مانگو اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کےلئے بھی۔" اب جو گناہ نہیں، کیا خُدا اُسے گناہ تصور کر رہا ہے، اور چاہتا ہے کہ اُس بات کےلئے مغفرت طلب کی جائے؟

اور سورۃ الاحزاب 33: 37 میں لکھا ہے: "اور جب تم اُس شخص سے جس پر اللّہ نے احسان کیا تھا اور تم نے بھی احسان کیا تھا یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور اللّہ سے ڈر اور تم اپنے دِل میں وہ بات چُھپا رہے تھے جس کو اللّہ ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ اللّہ ہی اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اُس سے ڈرو۔ پھر جب ز ید نے اُس سے تعلق ختم کر لیا یعنی اُس کو طلاق دے دی تو ہم نے اُسے تمہاری زوجیت میں دے دیا تا کہ مومنوں پر اُن کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں جب وہ بیٹے اُن سے اپنا تعلق ختم کر لیں یعنی طلاق دے دیں کچھ تنگی نہ رہے۔ اور اللّہ کا حکم ٹھہر چُکا تھا۔"

واقعہ یہ ہے کہ محمد صاحب نے اپنے غلام زید کو اُس وقت جب وہ ایمان لائے آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا، اور ایک معزز خاتون زینب سے اُن کی شادی کرائی۔ لیکن کچھ عرصہ بعد آپ نے اُن پر اپنے میلان کو اِن الفاظ میں ظاہر کیا: "اللّہ تعالیٰ پاک ہے جو دلوں اور نظروں کو پھیرنے والا ہے۔" تب زینب نے اپنے شوہر سے اِس بات کا بیان کیا۔ وہ محمد صاحب کے ارادے کو جان گئے۔ تب زید خود سے آپ کے پاس آئے اور کہا "میں اُن کو طلاق دے دوں گا۔" محمد نے بظاہر اُنہیں نظر انداز کیا اور پوچھا "کیا وجہ ہوئی؟ کیا اُن کی کسی بات نے آپ کو غیر مطمئن کر دیا ہے؟" اُنہوں نے جواب دیا: "وہ اپنے حسب و نسب کی برتری میں مبتلا ہیں اور مجھ سے ان کا رویہ سخت ہے۔" تب آپ نے زید سے کہا: "اپنی بیوی اپنے ساتھ رکھو۔" (اِس آیت کی بابت الکشاف کی تفسیر میں دیکھئے جلد دوم، صفحہ 213۔ اور جو کچھ بیضاوی نے کہا ہے وہ بھی دیکھئے)۔

یہاں آپ اُس بات کو چُھپاتے نظر آ رہے ہیں جسے اللّہ ظاہر کر رہا تھا۔ آپ نے لوگوں کے سامنے یہ بات ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ آپ نے سِوائے اللّہ کے حکم کی اطاعت کے زید کی بیوی سے شادی کسی اؔور وجہ سے نہیں کی تھی۔ اِن آیات سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ محمد صاحب نے زینب کےلئے اپنے میلان کو چُھپانے اور جو اُن کے دِل میں نہیں تھا اُسے ظاہر کرنے سے خطا کی۔ اِس لئے آپ کو اِن الفاظ میں جھڑکا گیا: "تم اپنے دِل میں وہ بات چُھپا رہے تھے جس کو اللّہ ظاہر کرنے والا تھا۔"

الرازی نے اِس آیت کی تفسیر میں کہا ہے: "کہ تم زینب کو اپنی زوجیت میں لینا چاہتے ہو۔" لیکن الرازی نے یہ کہہ کر اِس قول کا دِفاع کیا ہے: "آپ اللّہ سے ڈرے اور اِنسانوں سے ڈرے جس پر اللّہ نے آپ کو جِھڑکا" اور کہا "اللّہ ہی اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اُس سے ڈرو۔" اِس لئے محمد صاحب نے اِس طرح خطا کی اور اُس بات سے ڈرے جس سے آپ کو ڈرنا نہیں چاہئے تھا۔

ہم سورۃ اسراء 17: 74 میں پڑھتے ہیں: "اور اگر ہم تم کو ثابت قدم نہ رہنے دیتے تو تم کسی قدر اُن کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے۔" الزجاج کے بعد الرازی نے کہا: "اگر ہم تم کو ثابت قدم نہ رہنے دیتے، مطلب یہ ہے کہ سچائی میں، اپنی حفاظت سے ثابت قدم نہ رہنے دیتے تو تم اُن کی طرف 'مائل ہونے ہی لگے تھے،' جو تھوڑی سی مائلیت ہے۔" قتادہ نے کہا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی نے کہا "اے اللّہ تُو مجھے میرے نفس پر (ایک بھی لمحہ یا آنکھ کی ایک جھپکی کےلئے) نہ چھوڑ۔" کیا یہ آیت ظاہر نہیں کرتی کہ محمد صاحب نے خطا کی، اور کم از کم آپ گناہ سے آزاد نہ تھے، کیونکہ آپ نے کہا "تُو مجھے میرے نفس پر (ایک بھی لمحہ یا آنکھ کی ایک جھپکی کےلئے) نہ چھوڑ۔"

مسلم اور بخاری نے احادیث کی اپنی کتابوں میں محمد صاحب کا قول بیان کیا ہے: "بغیر اللّہ کی رحمت کے کوئی بھی انسان جنت میں نہیں جا سکے گا۔" ایک شخص نے کہا "آپ بھی نہیں، اے اللّہ کے نبی۔" آپ نے جواب دیا "میں بھی سوائے اللّہ کی رحمت کے نہیں بچ سکتا۔" ابو ھریرۃ نے بیان کیا ہے کہ "میں نے رسول کو یہ کہتے سُنا 'میں ایک دن میں ستر مرتبہ اللّہ سے توبہ اور استغفار کرتا ہوں۔' اور کچھ روایات میں ستر سے زیادہ مرتبہ کا ذِکر ہے۔" ابنِ خالد اور ابو ھریرۃ سے روایت ہے "رسول یہ کہا کرتے تھے 'اے اللّہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور دوزخ کے عذاب سے'" (صحیح بخاری، حصہ اوّل)۔

مذکورہ حوالوں سے صاحبِ نظر فرد پر یہ واضح ہے کہ ہمارے جدِ امجد جناب آدم گناہ میں گر گئے، اور اُن کے دِل کے خیالات میں بگاڑ پیدا ہو گیا، اور بدی کی طرف رجحان رکھنے لگے۔ اور پھر ہم نے جو اُن کی نسل ہیں فطری طور یہ بگاڑ اور گناہ کی طرف رُجحان ورثہ میں پایا ہے، اور یہ ہمارے شخصی تجربہ سے بھی ثابت ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ عظیم انبیاء نے گناہ کا اِرتکاب کیا، یہاں تک کہ مسلمانوں کے نبی محمد صاحب سے بھی خطا ہوئی۔ سو تمام انسانوں کو اِس بات کی احتیاج ہے کہ ایک نجات دہندہ اُنہیں اُس عذاب سے مخلصی بخشے جو اُن سب کےلئے تیار کیا گیا ہے جو خُدا تعالیٰ کی شریعت کو توڑتے اور گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اُنہیں اپنی جانوں کے کفّارہ و مخلصی کےلئے ایک بےعیب نجات دہندہ کی ضرورت ہے جو خُدا تعالیٰ کے انصاف و رحم کو ظاہر کرے۔ ایسا صرف یسوع مسیح کی مصلوبیّت، تمام انسانوں کےلئے بطور کفّارہ آپ کی موت کی بدولت ہی ممکن ہے تا کہ جو کوئی آپ پر ایمان لائے خُدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی پائے اور اُس کے رُوح القدس سے پاک کیا جائے۔ یوں وہ حیاتِ ابدی اور دائمی سعادت پائے گا۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں ہمارے مسلمان بھائی ہر اُس کتاب کے برعکس جسے وہ نازل کی گئی کتاب سمجھتے ہیں، انبیاء کو بےخطا ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ کسی بھی نبی نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ بےگناہ ہے بلکہ اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ کمزور اور خطا کار تھے۔ سچ مچ خُدا تعالیٰ نے اپنی کتابیں نازل کیں اور اُن میں اپنی بڑی حکمت عطا کی۔ وہ اپنے کاموں میں بڑی حکمت والا ہے اور اِنسانوں کی احتیاجوں کو پوری طرح سے جانتا ہے۔

5۔ چوتھی بحث

الف۔ تعارف

اسلامی شریعت اور شہری قوانین دونوں یہ تجویز کرتے ہیں کہ خطا یا جرم کا اِرتکاب جس کے خلاف کیا گیا ہو اُس تناسب سے سزا زیادہ یا کم ہو سکتی ہے۔ مثلاً، اگر اسکول میں کوئی طالب علم اپنے ساتھی طالب علم کی بےعزتی کرے تو اُسے کم سزا ملتی ہے، لیکن اگر وہ اپنے اُستاد کی بےعزتی کرتا ہے تو اُسے اسکول سے نکال دیا جائے گا۔ اگر قانونی معاملہ میں کوئی اپنے مخالف کی توہین کرے تو اِسے جُرم سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر وہ مُنصِف کی توہین کرے تو اِس کی سزا زیادہ ہو گی۔ اور اگر وہ بادشاہ کی توہین کا مرتکب ہو تو اُس کی سزا اَور زیادہ ہو گی۔ لیکن اگر وہ خُدا تعالیٰ کے خلاف گناہ کرتا ہے جو عظمت اور پاکیزگی کے اعتبار سے سب سے برتر ہے تو اُسے کتنی زیادہ سزا ملے گی۔ بیشک، اُسے کبھی نہ ختم ہونے والے عظیم عذاب کی سزا ملے گی۔

خُدا راست مُنصف ہے، سو وہ معمولی سی خطا کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ ہم پر یہ تسلیم کرنا واجب ہے کہ خُدا تعالیٰ کے حضور سب خطا کار ہیں، "اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں" (رومیوں 3: 23)، اور اپنے گناہوں کی سزا کے طور پر ابدی سزا کے مستحق ہیں۔ ایسے ہونے پر خُدا تعالیٰ کی رحمت کہاں پر ہے؟ اور اگر اللّہ ایسے خطا کاروں پر رحم کرتا ہے، اُن کے گناہ معاف کر کے اُنہیں سزا نہیں دیتا تو اُس کا عدل کہاں پر ہے؟ اِس وجہ سے اُس نے اپنے عدل اور رحم کو پورا کرنے کےلئے ایک وسیلے کا انتظام کیا۔

ب۔ حِصّہ اوّل: مصلوبیّت میں خُدا تعالیٰ کا مقصد: یہ صلح صفائی کیسے ممکن ہوئی؟

اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ آدم نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی (جو اُس کا گناہ تھا) جس کے نتیجہ میں اُسے باغِ عدن سے نکال دیا گیا (پیدایش 3 باب)۔ اِس کی بازگشت ہمیں سورۃ بقرۃ 2: 34 میں بھی سُنائی دیتی ہے: "پھِر شیطان نے دونوں کو اِس طرف کے بارے میں پھسلا دیا اور جس عیش و نشاط میں تھے اُس سے اُن کو نِکلوا دیا۔" اِس لئے وہ ابدی موت کا مستحق ہے۔ شہوانی خواہشات اُس میں پیدا ہوئیں، اور گناہ کو سرانجام دینے کا رُجحان اُس کے دِل میں جڑ پکڑ گیا۔ اُس کی نسل نے اِن رُجحانات کو وِرثہ میں پایا اور وہ اپنے جدِ امجد کے نقشِ قدم پر چلے۔ زمین بدی سے بھر گئی، اور اِنسان کی تباہی ناگزیر ہو گئی تا کہ خُدا تعالیٰ کے عدل کی تسلی ہو سکے، اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اِصلاح کی کوئی راہ نہ پا سکے اور اپنی اصل حالت کی جانب نہ لوٹ سکے جو پاکیزگی کی راہ ہے اور فردوس کے موزوں ہے، جہاں صرف پاک ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، خُدا تعالیٰ اپنے ہی قوانین سے اِنحراف نہیں کر سکتا، کیونکہ اُس کا اِنصاف خطا کار کی موت کا تقاضا کرتا ہے: "جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔ بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔ صادِق کی صداقت اُسے کےلئے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کےلئے" (حزقی ایل 18: 20)۔ اگر قانون ساز اپنے ہی قوانین کا نفاذ نہیں کرتا تو پھر اِنصاف ممکن نہیں۔

خُدا تعالیٰ اپنی ذات میں عادل اور رحیم دونوں ہے۔ عدل و رحمت اُس کی لازمی صفات ہیں، اور اِن کا اُس کی ذات سے ہٹ کر کسی اَور میں اجتماع نظر نہیں آتا۔ صلیب پر مسیح کے فدیہ و مخلصی سے ہٹ کر کچھ اَور اِن کے خُدا کی ذات میں اجتماع کو واضح نہیں کرتا۔ لغوی اعتبار سے عدل بےاِنصافی کے برعکس ہے اور اِس کا مطلب اِنصاف پسندی، اِصلاح اور بدلہ دینا ہے۔ اور رحمت کا لغوی طور پر مطلب دِل کی نرمی، مہربانی، احسان اور معافی ہے۔ کچھ کے نزدیک اِس کا مطلب سزا کے مستحق فرد کو اُس کی سزا دینے سے دستبردار ہو جانا ہے۔ چونکہ خُدا تعالیٰ مہربان ہے، اِس لئے وہ (عدل کو نظرانداز کئے بغیر) اِنسان پر اپنی رحمت نازل کرنا اور اُسے عذاب کی آگ سے بچانا چاہتا تھا۔ اِس لئے، اُس نے ازل سے مخلصی کے کام کو مقرر کیا ہے۔ اِس کا آغاز پہلے اُن قربانیوں سے ہوا جن میں خون بہایا جاتا تھا جو موسوی شریعت میں بہت اہم تھیں۔ آدم کے بیٹوں نے تو تحریری شریعت کے دیئے جانے سے پہلے قربانیاں پیش کیں۔ اُن کے بعد آنے والوں نے بھی ایسا ہی کیا، جب تک کہ خُدا نے اپنے نمائندے موسیٰ کو شریعت نہ دی جس میں ہمیں اِس امر کی تفصیل ملتی ہے۔ اِس میں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح خُدا تعالیٰ نے انسانوں کو گناہ کی بدصورتی اور اُس کے تکلیف دہ نتائج کو عیاں کرنے کےلئے اُنہیں فرزند جان کی تعلیم دی۔ اُس نے جانوروں کو پاک اور ناپاک میں تقسیم کیا اور اُنہیں یہ اصول سکھایا کہ شریعت کا تقاضا ہے کہ ہر چیز کو خون سے پاک کیا جائے، اور بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی (عبرانیوں 9: 22)۔ چُنانچہ اُس نے گنہگار کی راہنمائی کی کہ وہ اپنے گناہ کےلئے ایک پاک جانور کی قربانی دے جو بےعیب ہو۔ اُسے اُس جانور کو ذبح کرنے کے بعد آگ پر رکھنا تھا جو اِس بات کی یاددہانی تھی کہ گنہگار مارے جانے کا مستحق تھا۔ تاہم، وہ عوضی قربانی کے ذریعہ معافی حاصل کر سکتا تھا۔ یہ سب قربانیاں مسیح کی عظیم قربانی کی طرف اشارہ کرتی تھیں، کیونکہ یہ اپنی ذات میں کمتر ہونے کی وجہ سے ایک فرد کو کبھی بھی چُھڑا نہیں سکتی تھیں۔

جب وقت پورا ہو گیا تو خُدا تعالیٰ نے اپنا کلمہ، مسیح بھیجا جس نے اِنسانی صورت اختیار کی اور ہماری طرح انسان بن گیا۔ اُس نے بہت سی چیزوں میں ہمارے ساتھ شرکت کی، لیکن اُس نے کبھی گناہ نہ کیا اور نہ ہی اُس کے مُنہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔ (اِس کتاب کی پانچویں گفتگو میں مسیح کی بےگناہی کے بارے میں بحث دیکھئے)۔ اِس کلام یعنی مسیح نے انسانوں جانوں کے فدیہ کے طور پر اپنا آپ صلیب پر قربان ہونے کےلئے پیش کر دیا۔ اِس طرح سے اِلٰہی عدل کی تسلی ہوئی کیونکہ خُدا نے سب جانوں کےلئے اِس قربانی کو قبول کر لیا۔ اُس نے خُدا کے عدل اور اُس کی رحمت کے تقاضے کو باہم پورا کیا، اور داؤد نبی کے اِس قول کو پورا کیا کہ "شفقت اور راستی باہم مل گئی ہیں۔ صداقت اور سلامتی نے ایک دوسرے کا بوسہ لیا ہے" (زبور 85: 10)۔ مسیح کی صلیبی موت پر ایمان رکھنے والے تمام افراد اِس نجات کو حاصل کرتے ہیں، اور جو اِس پر ایمان لائیں گے وہ بھی نجات پائیں گے، بشرطیکہ وہ احکامِ خُداوندی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ غرض، مسیح ایک انسان کے طور پر مصلوب ہُوا، نہ کہ خُدا کے طور پر، جیسے ہمارے کچھ مسلمان بھائی سمجھتے ہیں، اور اِس معاملے میں حقیقی مسیحی اعتقاد کو سمجھنے سے پہلے بڑے اعتراضات اُٹھاتے ہیں۔

میرا نہیں خیال کہ یہاں مجھے دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں قربانیوں کو دیئے گئے مقام کی تفصیل دینے کی ضرورت ہے جس میں یہ گناہوں کی معافی اور خُدا کے حضور قبولیت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر جانوروں کو ذبح کرنا کھانے کےلئے نہیں ہوتا، بلکہ وہ اِسے خُدا کے کرم اور برکات کے حصول کےلئے ایک کفّارہ سمجھتے ہیں۔ اِسی طرح جو مینڈھا ابراہام نے قربان کیا وہ اُن کے بیٹے کا عوضی تھا: "اور ہم نے ایک بڑی قربانی سے اُن کا فدیہ دیا" (سورہ صافات 37: 107)۔ غرض، ہر قربانی کو پیش کرنے والے کا متبادل اور معافی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ محمد صاحب نے خود قربانیوں کے خون کو گناہوں کےلئے کفّارہ اور مغفرت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا، جیسا کہ ہم اِس حدیث میں دیکھ سکتے ہیں: "اے فاطمہ! تم کھڑی ہو اور اپنی قربانی (کے جانور) کا مشاہدہ کرو کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے تمہارے گناہ جو تم نے کئے ہیں معاف ہو جائیں گے۔" اور محمد صاحب سے منسوب ایک اَور حدیث کی بنیاد پر مسلمان سمجھتے ہیں کہ یومِ حساب کو وہ اُن جانوروں پر بیٹھ کر جنت کی طرف لے کر جانے والے پل صراط کو پار کریں گے جنہیں اُنہوں نے اپنی زندگی میں قربان کیا ہو گا۔ یہ قربانیاں اُن روحوں کے مساوی نہیں ہیں جن کےلئے اِنہیں پیش کیا گیا تھا۔ درحقیقت قربان کئے گئے تمام جانور کسی ایک انسان کے مساوی نہیں ہیں۔ وہ گناہ کا کفّارہ دینے کےلئے کافی نہیں ہیں، بلکہ صرف مسیح کی عظیم ترین قربانی کی علامت ہیں جس کی طرف تورات شریف میں اشارہ دیا گیا ہے اور جس کی تکمیل ہم اِنجیل مُقدّس میں صلیب پر دیکھتے ہیں۔ یہ وہ قربانی ہے جسے خُدا تمام نسلِ انسانی کی جانوں کے برابر سمجھتا ہے، کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (یوحنا 3: 16)۔

ج۔ حصہ دوّم: صرف مسیح اِس کام کے لائق تھا

جی ہاں، صرف مسیح ہی اِن وجوہات کی بناء پر اِس کارِ عظیم کو سرانجام دینے کے قابل تھا:

1۔ قربانی کو پاک اور بےعیب ہونا چاہئے تھا۔

2۔ قربانی کو اِس قدر قیمتی ہونا چاہئے تھا کہ اِس کی قدر چُھڑائی جانے والے جانوں کے مساوی ہوتی۔

3۔ اِسے اِنسان جیسا ہی ہونا چاہئے تھا۔

4۔ اِسے خُدا کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل ہونا چاہئے تھا تا کہ یہ خُدا اور اِنسان کے درمیان رابطہ کا کام کر سکتی۔

اگر ایک فرد اِنسانوں میں اِن تمام خوبیوں کو ڈھونڈے تو اُسے سِوائے مسیح کے کوئی اَور اِن شرائط کو پورا کرتا ہُوا نہیں ملے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ سب نے یہاں تک کہ انبیاء نے بھی گناہ کیا ہے اور اُنہیں اپنے چُھڑائے جانے کےلئے کسی کی مدد کی ضرورت ہے۔ خُدا کو مطلوب یہ قیمت سِوائے خُدا کے کلمہ مسیح کے کسی کے پاس نہیں ہے۔

رُوح میری میرے طبیب، تباہ و بدحال ہے

بوسیلہء صلیب، تیرے ہاتھ میں شفا ہے

اے صُلح کے درمیانی، تری صلیب پناہ ہے

باپ کے حضور پیش کر، مری یہ دُعا ہے

د۔ حصّہ سوّم: کیا مسیح نے بہ رضا و رغبت مصلوبیّت کو قبول کیا؟

اگر آپ کسی مسلمان سے پوچھیں کہ وہ اِس بات پر کیوں ایمان نہیں رکھتا کہ مسیح کو واقعی مصلوب کیا گیا تھا، تو وہ جواب دے گا: چونکہ وہ ممتاز ترین انبیا میں سے تھے اِس لئے یہ خُدا کے نزدیک ناممکن تھا کہ وہ اپنے نبی کریم کو شریر یہودیوں کے ہاتھوں میں دے دیتا کہ وہ اُسے خوفناک انداز میں صلیب پر مار ڈالتے۔ ایسا فرد اپنے قرآن کی اُس آیت کو بھول جاتا ہے جس کے مطابق خُدا نے ایسا ہونے کی اجازت دی تھی، جیسا کہ سورۃ نساء 4: 155 میں یہودیوں کے "عہد کو توڑ دینے اور اللّہ کی آیتوں سے کفر کرنے اور انبیاء کو ناحق مار ڈالنے" کا ذِکر موجود ہے۔

اِسی طرح سورۃ البقرۃ 2: 87 میں لکھا ہے: "تو جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا تو تم سرکش ہو جاتے رہے اور ایک گروہ (انبیاء) کو تو تم جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔" حتیٰ کہ محمد صاحب نے خود یہ اقرار کیا کہ ایک یہودی خاتون نے اُنہیں دھوکے سے زہر دیا تھا جس سے بعد ازاں اُن کی وفات ہوئی (جس کا ذِکر ہمیں تاريخ المغازي، سیرت ابن اسحاق اور احادیث میں ملتا ہے)۔ اِس کے علاوہ تورات شریف، زبور اور اِنجیل شریف نے اعلان کیا ہے کہ مسیح کی مصلوبیّت رضاکارانہ تھی، جیسا کہ خُدا نے ابتدا ہی سے مقرر کیا تھا۔ مسیح نے خود واضح طور پر کہا کہ اُس کے آنے کا مقصد مخلصی کے کام کو پُورا کرنا تھا، یعنی اپنے آپ کو صلیب پر قربانی کے طور پر پیش کرنا۔ جب یسوع کے شاگردوں میں سے ایک نے آپ سے کہا، "اے خُداوند خُدا نہ کرے۔ یہ تُجھ پر ہرگز نہیں آنے کا" یسوع نے اُسے جھڑکتے ہوئے کہا "اے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو۔ تُو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تُو خُدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے" (متی 16: 23)۔ نیز جب آپ کے شاگردوں میں سے ایک نے آپ کو اُن یہودیوں سے بچانے کی کوشش کی جو آپ کو گرفتار کرنے آئے تھے تو یسوع نے کہا، "اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔ کیا تُو نہیں سمجھتا کہ میں اپنے باپ سے مِنّت کر سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تُمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا؟ مگر وہ نوِشتے کہ یونہی پُورا ہونا ضرور ہے کیونکر پُورے ہوں گے؟"

ہمارے کُچھ مسلمان بھائی کہتے ہیں کہ کیسے خُدا دوسروں کے گناہوں کی سزا کےلئے مسیح کو مصلوب کر سکتا تھا کیونکہ 2۔ سلاطین 14: 6 میں لکھا ہے: "پر اُس نے اُن خونیوں کے بچوں کو جان سے نہ مارا کیونکہ موسٰی کی شریعت کی کتاب میں جیسا خُداوند نے فرمایا لکھا ہے کہ بیٹوں کے بدلے باپ نہ مارے جائیں اور نہ باپ کے بدلے بیٹے مارے جائیں بلکہ ہر شخص اپنے ہی گناہ کے سبب سے مرے۔" میں اِس کا یہ جواب دوں گا کہ خُدا نے مسیح کو دُنیا کے گناہوں کےلئے موت کی سزا نہیں دی بلکہ مسیح نے ہم سے محبت کی بناء پر ہماری جگہ اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کر دیا۔ یہ بےانتہا محبت کا اظہار تعظیم کے لائق ہے۔

جب یہودیوں نے مسیح کو مصلوب کرنے کےلئے پکڑا تو آپ نے اُن سے کہا، "کیا تم تلواریں اور لاٹھیاں لے کر مُجھے ڈاکو کی طرح پکڑنے نکلے ہو؟ میں ہر روز ہیکل میں بیٹھ کر تعلیم دیتا تھا اور تم نے مُجھے نہیں پکڑا۔ مگر یہ سب کچھ اِس لئے ہُوا ہے کہ نبیوں کے نوِشتے پُورے ہوں۔ اِس پر سب شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے" (متی 26: 55، 56)۔ یسوع مسیح اِس لئے مصلوب نہیں ہوئے تھے کہ آپ نے کوئی جرم کیا تھا۔ یہودی نہ تو آپ کے کردار اور نہ ہی اعمال میں کوئی عیب پا سکے، لیکن آپ ہماری قربانی کے طور پر مصلوب ہوئے، اور عدالت میں آپ نے ہماری جگہ لے لی۔ یوں آپ ہمارے لئے لعنتی بن گئے، اِس لئے نہیں کہ آپ اِس کے مستحق تھے بلکہ اِس لئے کہ آپ نے مجرم گنہگار کی جگہ جو لعنت کا مستحق تھا اپنی جان بہ رضا و رغبت قربان کرنے کےلئے پیش کر دی۔ سو آپ گذشتہ سطور میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ خُدا نے اعلٰی ترین مقاصد کےلئے اپنے انبیاء کے قتل کرنے کی اجازت دی، اور یسوع مسیح نے ہم سے اپنی محبت کے سبب اپنی مرضی سے موت کو سہا تا کہ آپ ہمیں شریعت کی لعنت سے آزاد کریں، الٰہی عدل کا تقاضہ پورا ہو اور ہمیں نجات اور ابدی زندگی عنایت کریں۔ اِس لئے یسوع مسیح سے ہٹ کر خُدا ایک گنہگار کو معاف نہیں کرتا یا اُس پر رحم نہیں کرتا۔

یہ وہ واحد راہ ہے جسے خُدا تعالیٰ نے ایمانداروں کی نجات کےلئے مقرر کیا ہے، جس میں وہ اپنے عدل و رحمت دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جہاں تک اسلامی شریعت کی بات ہے، یہ الٰہی عدل اور رحمت کو ہم آہنگ نہیں کرتی اور نہ ہی قرآن اور احادیث میں ہم عدالت، حساب اور مغفرت کے تعلق سے کوئی مؤثر طریقہ دیکھتے ہیں۔ اِس موضوع کے تعلق سے ہمارے مسلمان بھائی اِس قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہیں، "تم اپنے دِلوں کی بات کو ظاہر کرو گے اور چُھپاؤ گے تو اللّہ تم سے اُس کا حساب لے گا۔ پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے" (سورہ البقرۃ 2: 284)۔

اگر خُدا اِس آیت کے مطابق انسانوں کا حساب کرے تو یہ اُس کے عدل اور رحمت دونوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ جیسا چاہے کر سکتا ہے، تاہم وہ اُس کام کو نہیں کرے گا جس سے اُس کی اپنی صفات اور الٰہی شریعت کا انکار ہو۔ فرض کریں کہ قاضی درگزر سے کام لیتا ہے اور آپ کے بھائی کے قاتل کو اُس کا جُرم ثابت ہونے کے بعد معاف کر دیتا ہے۔ کیا آپ اُسے انصاف پسند سمجھیں گے؟ نہیں، بالکل بھی نہیں۔ آپ اُسے بےانصاف تصور کریں گے کیونکہ اُس نے شریعت کی خلاف ورزی کی۔ یہ خُدا تعالیٰ کے تعلق سے ناقابل تصور ہے کیونکہ یہ اُس کے احکام کے مطابق نہیں ہے۔ مزید برآں، یہ عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہے۔

"اور اُس روز اعمال کا تُلنا برحق ہے۔ تو جن لوگوں کی تولیں بھاری ہوں گی وہ تو کامیاب ہیں۔ اور جن کی تولیں ہلکی ہوں گی تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا" (سورۃ الاعراف 7: 8، 9)۔ یہ آیت طریقہ حساب کو بہت سادہ سا بتاتی ہے، یہ وہی طریقہ ہے جسے قدیم مصری یا مجوسی استعمال کرتے تھے، جو یہ ہے کہ خُدا انسان کے نیک اعمال ترازو کے ایک پلڑے میں اور اُس کے گناہ دوسرے پلڑے میں رکھتا ہے۔ اگر نیک اعمال والی طرف بھاری ہے تو وہ نجات اور خوشحالی پائے گا، لیکن اگر بُرے اعمال ترازو میں بھاری ہوں گے تو اُس کا شمار خسارے والوں میں ہو گا جو جہنم میں ابدیت گزاریں گے۔ یہ سچ نہیں ہو سکتا کیونکہ جنت یا فردوس، جس میں انسان داخلے کی خواہش رکھتا ہے، ایک پاک جگہ ہے جہاں صرف پاک اور راستباز ٹھہرائے گئے افراد ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ غرض جس کسی نے ایک بھی گناہ کیا ہو وہ خطا کار ہے اور ناپاک ہو گیا ہے۔ اور ایسی حالت میں اُس کےلئے فردوس میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ میں اِس بات کو واضح کرنے کےلئے ایک مثال پیش کروں گا۔

فرض کیجئے ایک مسلمان شخص سفید لباس پہنے نماز ادا کرنے کےلئے جا رہا ہے، اور اِس دوران اُس کے لباس پر گندگی کا ایک داغ پڑ جاتا ہے۔ کیا اُسے ناپاک نہیں سمجھا جائے گا؟ اگر اُس کی ایسی حالت ہو تو کیا وہ واپس آ کر اپنے آپ کو پاک نہیں کرے گا کہ نماز پڑھنے کے قابل ہو سکے؟ پاکیزگی اور نجاست کے تعلق سے خُدا کی طرف انسان کی یہی حالت ہے۔ اِس لئے ایک مومن کےلئے مکمل پاکیزگی اور تجدیدِ قلب کے بغیر فردوس میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ کیونکہ اگر وہ اپنے گناہوں سے پاک ہو جائے اور اُس کی خطائیں معاف کی جائیں، لیکن اُس کے دِل میں بدی کا جراثیم موجود ہو تو وہ پھر بھی شریر تصور ہو گا جو فردوس کے لائق نہیں۔ اور پھر اگر مسلمان یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ جہنم میں وہ اپنے گناہوں کا کفّارہ دے سکتا ہے تو لکھا ہے: "اور تم میں کوئی شخص نہیں مگر اُسے اِس پر گزرنا ہو گا۔ یہ تمہارے پروردگار پر لازم ہے مقرر ہے۔ پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اُس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہُوا چھوڑ دیں گے" (سورۃ مریم 19: 71، 72)۔ یوں اگر ایک انسان کا بگڑا دِل اور رُجحانات تبدیل نہ ہوں تو نہ وہ فردوس کے لائق ہے اور نہ فردوس اُس کے لائق ہے۔ اِسی طرح چور کو قید کی سزا دینے یا اُس کا ہاتھ کاٹنے سے اور نہ ہی زانی کو کوڑے مارنے سے اوّل الذّکر میں چوری کا رُجحان اور مؤخر الذّکر میں زنا کا رُجحان ختم ہو سکتا ہے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ سزا اُن کو بھڑکائے اور وہ اَور بگڑ جائیں، جیسا کہ سورۃ یُوسُف 12: 53 میں لکھا ہے، "کیونکہ نفس امارہ اِنسان کو برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔" مسیحی دین یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ بائبل مُقدّس (تورات اور اِنجیل) نے ایک ایسا طریقہ بتایا ہے جس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اِس کا انتظام خُدا نے کیا ہے، جس میں ایک مومن کےلئے پاکیزگی اور معافی کا حصول مسیح کی قربانی کے ذریعہ ممکن ہُوا ہے اور وہ رُوح القُدس کے ذریعہ دِل کی تبدیلی حاصل کر سکتا ہے۔ اِس طرح سے ایک ایماندار فردوس میں خوشی سے داخل ہونے کے قابل ہو جاتا ہے۔

"اللّہ کسی کی ذرا بھر بھی حق تلفی نہیں کرتا اور اگر کسی نے نیکی کی ہو گی تو اُس کو کئی گُنا کر دے گا" (سورۃ النساء 4: 40)۔ اِس آیت میں خُدا کی حمایت کو تصور کیا گیا ہے، کیونکہ اِس میں مذکور ہے کہ وہ انسان کی نیکیوں کو کئی گنا کر دے گا، لیکن آپ خود جانتے ہیں کہ نیکیوں کا بڑھا دینا عدل نہیں ہے۔

"اور ہم نے ہر اِنسان کے اعمال نامے کو بصورتِ کتاب اُس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز وہ کتاب اُسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کُھلا ہُوا دیکھے گا۔ کہا جائے گا کہ اپنی کتاب پڑھ لے۔ تو آج اپنا آپ ہی حساب کرنے والا کافی ہے" (سورۃ الاسراء 17: 13، 14)۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ روزِ قیامت ہر انسان کےلئے ایک کتاب کُھلے گی۔ وہ اِسے پڑھے گا اور اپنا حساب کرے گا۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ اِس کتاب کے لکھنے کا طریقہ کیا ہے، اور نہ ہی یہ کہ کیسے انسان اپنا حساب کرے گا اور کِس قاعدہ کے تحت کرے گا۔

"کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دُور کر دیتی ہیں۔ یہ اُن کےلئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں" (سورۃ ھود 11: 114)۔ یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ ایک نیک کام بُرے کام کو منسوخ کر دیتا ہے۔ اگر نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہو جائیں تو ایک فرد نجات پائے گا ورنہ تباہی ناگزیر ہے۔ مسلم علما نے کہا ہے کہ کوئی بھی یہ شکایت نہیں کر سکتا کہ خُدا نے اُسے نیک اعمال کا بدلہ نہیں دیا کیونکہ شریر جس کے بُرے اعمال بھاری ہیں زمین پر اپنے نیک کاموں کا بدلہ پاتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر حساب کتاب کیا جائے اور ہر انسان کے اعمال کو انصاف کے ساتھ تولا جائے تو سبھی اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے ہوں گے۔ اور ہر مظلوم شخص اپنے اوپر ظلم کرنے والے سے ازالہ وصول کرے گا۔ فرشتے ظالموں کی نیکیاں لے کر مظلوموں کے اچھے اعمال میں شامل کر دیں گے۔ اگر کسی کی نیکیاں اُس کی بدیوں سے اناج کے ایک دانے کے برابر بھی زیادہ ہو جائیں تو خُدا اپنی رحمت سے اُنہیں دُگنا کر دے گا، تا کہ وہ جنت میں جا سکے۔ اگر کسی کی نیکیاں منسوخ ہو جاتی ہیں اور وہ گناہوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، تو خُدا اُس پر اُس کے گناہوں کے برابر اُن مظلوموں کے گناہوں کا بوجھ ڈالے گا جن کے خلاف اُس نے گناہ کیا تھا۔ وہ اُسے اُس کے اپنے اور اُن کے گناہوں کی سزا دینے کےلئے جہنم میں ڈال دے گا۔ یہ سب اِنصاف نہیں ہے۔

کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب چیزیں غرض مطلوب کو حاصل نہیں کرتیں، یعنی گناہ کی آلودگی سے دِل کو پاک نہیں کرتیں اور نہ ہی اِس میں سے ناپاک خواہشات کے جراثیم کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکتی ہیں کہ اُسے پاک آسمان میں خُدا کی پاک حضوری کے لائق بنائیں؟

اِس میں کوئی شک نہیں کہ خُدا تعالیٰ نے انسانوں کی نجات کےلئے تورات اور اِنجیل میں جو راہ فراہم اور مقرر کی ہے وہ ایک مثالی طریقہ ہے۔ ہمیں اِس راہ کی پیروی کرنی ہے تا کہ معافی اور دِل کی پاکیزگی حاصل کریں اور فردوس میں داخل ہوں تا کہ ہمیشہ وہاں رہیں۔

ہ۔ حصّہ چہارم: قرآن میں مصلوبیّت

اسلامی اعتقاد یہ ہے کہ مصلوبیّت واقع ہوئی تھی، لیکن یہ جناب مسیح نہ تھے بلکہ کسی ایسے شخص کو مصلوب کیا گیا تھا جس پر مسیح ہونے کا شُبہ ہُوا، جیسا کہ سورۃ النساء 4: 157, 158 میں لکھا ہے کہ "اور اُنہوں نے اُسے قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی چڑھایا، لیکن اُن لوگوں کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ اُن کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور گمان کے سِوا اُن کو اُس کا مطلق علم نہیں۔ اور اُنہوں نے اُنہیں یقیناً قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللّہ نے اُن کو اپنی طرف اُٹھا لیا۔" یہ قرآنی بیان غیر واضح اور مبہم ہے اور اِس بناء پر کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔ میرے نزدیک یہ ایسا ہے کہ گویا قرآن قطعی طور پر مصلوبیّت کی نفی نہیں کرتا اور بیان کرتا ہے کہ میں نے نہیں دیکھا۔

اِس قرآنی آیت کی اِس انداز سے تفسیر کرنا جائز ہے کہ "یقیناً اُنہوں نے اُسے قتل نہیں کیا" یعنی یہ کہ وہ آپ کی ذات کو نقصان نہ پہنچا سکے کیونکہ یہودیوں نے سوچا کہ یسوع کو مصلوب کرنے سے وہ آپ کی یاد کو ختم کر دیں گے اور لوگوں کے درمیان آپ کے نام کی تضحیک کریں گے۔ یہ آیت یہودیوں کو دِکھاتی ہے کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوئے۔ کیونکہ آپ کی موت آپ کے نام کو پھیلانے اور آپ کے مقصد کو جلال دینے کا ذریعہ بن گئی۔ مزید یہ کہ، صلیب آپ کو ختم نہ کر سکی کیونکہ جسمانی موت نہ معدومیت ہے اور نہ ہی تباہی۔ اگرچہ مسیح نے موت سہی، لیکن خُدا نے آپ کو زندہ کیا اور یہ موت ہی آپ کے جی اُٹھنے کا سبب تھی۔ اِس بات کی وضاحت کےلئے میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کروں گا۔ فرض کیجئے میں آپ کو لعن طعن کرتا اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں، لیکن آپ نیک مزاج ہیں اور مُجھ سے ویسا برتاؤ نہیں کرتے۔ کیا آپ مُجھے یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے کہ "آپ نے اپنے اوچھے پن سے میری بےعزتی یا توہین نہیں کی ہے بلکہ میری برداشت کے باعث مُجھے لوگوں کی نگاہ میں رفعت و عظمت بخشی ہے۔" حقیقت تو یہ ہے کہ مصلوبیّت رومی حاکم پیلاطس سے منسوب ہے جس نے اُس کا حکم دیا تھا نہ کہ یہودیوں سے۔

اب یہ الفاظ کہ "اُن لوگوں کو ۔۔۔ صورت معلوم ہوئی" کس طرف اشارہ کرتے ہیں؟ یہ الفاظ مسیح کی طرف اشارہ نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ کے ساتھ تو تشبیہ دی گئی ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیت غیر واضح ہے۔ اگر خُدا نے مسیح کو صلیب پر مرنے سے بچانے کا اِرادہ کیا ہوتا تو کیا وہ اُسے ایک واضح معجزے سے سرانجام دیتا تا کہ یہودیوں پر اپنے نبی اور رسول کو نقصان پہنچانے کی عدم قُدرت کو ظاہر کرتا۔ تاہم، مسیح کے بچاؤ کےلئے مسلمان جس معجزے کو تصور کرتے ہیں وہ مطلوبہ فائدہ حاصل نہیں کر سکا، اور یہ دھوکا تو خُدا کی پاک ذات کو روا نہیں ہے، اور اِس نے یہودیوں پر خُدا کی قدرت اور اُن کی اپنی کمزوری کو ظاہر نہیں کیا۔ اگر خُدا مصلوبیّت کو اپنی قُدُّوسیّت کو کمتر کرنے کے طور پر دیکھتا، تو پھر کیا یہ ممکن تھا کہ وہ ایک ایسا معجزہ کرتا جس سے اُس کی توہین ہوتی؟ لیکن خُدا نے اِس تحقیر سے اپنے آپ کو بچانے کےلئے مسیح کو اپنے پاس اُٹھا لیا، جیسا کہ زیادہ تر مسلمان مانتے ہیں۔

ہمیں قرآن میں ایسی آیات ملتی ہیں جن میں اگرچہ واضح طور پر ذِکر نہیں مگر اِشارہ ضرور ملتا ہے کہ مسیح نے واقعتاً اپنی جان دی۔ اِن سے سابقہ دیکھی گئی آیت کے ابہام کی وضاحت ہوتی ہے، جیسا کہ آپ سورۃ آل عمران 3: 55 میں دیکھ سکتے ہیں "اُس وقت اللّہ نے فرمایا، اے عیسیٰ بیشک میں تُجھے قبض کر لوں گا اور تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔" بعض مُفسّرین کے نزدیک لفظ "متوفيك" (تُجھے قبض کر لوں گا) کا معنٰی تُجھے نیند دے دوں گا ہے۔ اب اُٹھانے سے پہلے نیند دے دینے میں بالکل بھی کوئی حکمت نظر نہیں آتی۔ کاش کہ کوئی اہل علم اِس پر روشنی ڈال سکے جہاں پہلے کے علما ناکام ہوئے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ لفظ "متوفيك" (تُجھے قبض کر لوں گا) کا معنٰی موت ہے، اور ابنِ عباس اور محمد بن اسحاق سے یہی روایت ہے۔ لیکن موت کی مُدّت پر اختلاف ہے۔ وھب کا کہنا ہے کہ مسیح تین گھنٹوں تک مرے رہے اور پھر اُٹھائے گئے۔ محمد ابن اسحاق نے کہا کہ وہ سات گھنٹے تک مرے رہے پھر خُدا نے اُنہیں اُٹھا لیا۔ اور ربیع بن انس کا کہنا ہے کہ خُدا نے اُنہیں اُس وقت موت دی جب اُس نے اُنہیں آسمان کی طرف اُٹھایا۔ جبکہ امام بیضاوی کا اعتقاد تھا کہ مسیح حقیقت میں تین گھنٹوں تک مرے رہے۔ لُغت کے مطابق فعل "توفاہ" کے معانی ہیں، "اللّہ نے اُسے موت دی، اُس کی رُوح قبض کی، اُس کی رُوح لے لی گئی اور وہ مر گیا۔"

لفظ "متوفیک" اور اِس فعل سے مشتق الفاظ قرآن میں اِن معنٰی میں تیئیس مرتبہ آئے ہیں۔ سوائے دو جگہوں کے باقی تمام مقامات پر اِس کا مطلب مُطلق موت ہے۔ دو جگہوں پر سیاق و سباق نیند کے دوران مجازی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے: "اور وہی تو ہے جو رات کو سونے کی حالت میں تمہاری رُوح قبض کر لیتا ہے اور جو کُچھ تم دِن میں کرتے ہو اُس سے خبر رکھتا ہے" (سورۃ الانعام 6: 60)، "اللّہ لوگوں کے مرنے کے وقت اُن کی رُوحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں اُن کی رُوحیں سوتے میں قبض کر لیتا ہے" (سورۃ الزمر 39: 42)۔

کچھ مُفسّرین کا یہ کہنا ہے کہ الفاظ "متوفيك و رافعك" میں واؤ کا استعمال ذومعنٰی ہے جو قاری کو چکرا دیتا ہے۔ اُن کے خیال میں اِس کے اصل معنٰی یہ ہیں کہ مسیح دوبارہ آئے گا اور مرے گا۔ اے ہمارے ربّ، ہمیں دھوکے کے شر سے محفوظ رکھ۔ اگر وہ اِن الفاظ کو اِن کے حقیقی معنوں میں لیں تو کیا تکلیف ہو گی؟ اگر قرآن کا قصد اُن کے اِرادہ کے مطابق ہوتا، تو یقیناً یہ بیان ایک مبہم صورت میں نہ ہوتا۔

جیسا کہ آپ سورۃ مریم 19: 15 میں دیکھتے ہیں، "اور جس دِن وہ پیدا ہُوئے اور جس دِن وفات پائیں گے اور جس دِن زندہ کر کے اُٹھائے جائیں گے اُن پر سلام ہے" (یہ یوحنّا کی طرف اشارہ ہے)۔ اور سورۃ مریم 19: 33 میں لکھا ہے، "اور جس دِن میں (عیسیٰ) پیدا ہُوا اور جس دِن مروں گا اور جس دِن زندہ کر کے اُٹھایا جاؤں گا مُجھ پر سلام ہے۔"

اِس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تمام مسلمان یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ پہلی آیت یحیٰی (یوحنّا) کے پیدا ہونے اور مرنے کی بات کرتی ہے۔ تو پھر دوسری آیت میں یہی بات عیسیٰ مسیح کے تعلق سے کیوں نہیں مانی جا سکتی؟ کیونکہ اِن دونوں آیات میں الفاظ اور اُن کی ترتیب تقریباً ایک جیسی ہے۔ دوسری آیت کے سیاق و سباق میں یہی معنٰی مراد ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم سورۃ مریم 19: 31 میں دیکھتے ہیں، "اور جب تک زندہ ہوں مُجھ کو نماز اور زکوٰۃ کا ارشاد فرمایا ہے۔" شرعی طور پر زکوٰۃ ایک مخصوص رقم ہے جو ایک مسلمان کی جانب سے اللّہ کی راہ کےلئے غیر ہاشمی مسلمان کو دینی ہوتی ہے جو اُس کا غلام نہ ہو۔ علماء کے نزدیک زکوٰۃ کا لفظ قرآن میں جہاں کہیں آیا ہے اُس کا اشارہ رقم کی طرف ہے سِوائے سورۃ مریم 19: 13 کے جہاں پاکیزگی مطمع نظر ہے: "اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی دی تھی۔"

اب اگر مسیح مرے بغیر آسمان پر اُٹھا لئے گئے، جیسے کہ ہمارے زیادہ تر مسلمان بھائی اعتقاد رکھتے ہیں، تو پھر اِس حکم کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنا مسیح پر واجب تھا۔ اور میں سوچتا ہوں کہ کیا آسمان پر غریب مسلمان موجود ہیں جنہیں اُن کی زکوٰۃ دی جائے گی؟ اور اگر جناب مسیح اب بھی زمین پر موجود ہیں تو کہاں ہیں اور اُن کی زکوٰۃ کے وصول کنندگان کون ہیں؟

جب ہمیں یہ علم ہے کہ وہ اِس زمین پر نہیں ہیں اور وہ زکوٰۃ نہیں دے رہے، تو ہم یقیناً یہ جان جاتے ہیں کہ جناب مسیح مر گئے اور اِس لئے اُن کی زکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری ختم ہو گئی۔

ہم سورۃ المائدۃ 5: 117 میں پڑھتے ہیں، "اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کے حالات کی خبر رکھتا رہا۔ پھر جب تُو نے مُجھے دُنیا سے اُٹھا لیا تو تُو اُن کا نگراں تھا۔" اور اِس کے بارے میں الرازی اور الجلالین نے کہا: "یہ وہ آیت ہے جسے مسیح عیسیٰ یومِ حشر خُدا کے سامنے کہیں گے۔" اگرچہ الرازی نے "توفيتني" کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ صعود ہے، لیکن وہ بھول گیا ہے کہ اُس نے پہلے اِس کی وضاحت "میں اُسے نیند دوں گا" کے طور پر کی تھی جس کا ذِکر سورۃ آل عمران 3: 55 میں ہے: "اے عیسیٰ بیشک میں تُجھے قبض کر لوں گا اور تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔" اِس لئے اگر ہم الرازی اور دیگر مُفسّروں کے ساتھ اِتّفاق کریں کہ "التوفي" سے مُراد صرف "رفع" ہے، تو پھر یہ الفاظ آخر میں یومِ حساب کو ادا کئے جائیں گے جس کا مطلب ہے کہ مسیح کبھی نہیں مرے گا۔ اور یہ واضح طور پر قرآنی آیات کے خلاف ہے: "جو مخلوق زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے۔ اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات جو صاحبِ جلال و کرم ہے باقی رہے گی" (سورۃ الرحمٰن 55: 26، 27)، "اُس کی ذات پاک کے سِوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے" (سورۃ القصص 28: 88)۔

یہ بہت سے مسلمان علماء کے اعتقاد کے بھی خلاف ہے جو مانتے ہیں کہ حقیقت میں مسیح کی موت واقع ہوئی ہے جو اُن بہت سے علماء کے برعکس ہے جو سمجھتے ہیں کہ یومِ حشر سے پہلے مسیح کو اِس دُنیا میں مرنا ہے۔ اب اِس سے کیا نقصان پہنچتا کہ اگر وہ مانتے کہ یہاں پر "التوفي" سے مُراد موت ہے، اور یہ قرآن سے پہلے کہا گیا ہے جس کی اِس آیت کے آغاز سے نشاندہی ہوتی ہے، جہاں الفاظ "اُس وقت اللّہ نے فرمایا" فعل ماضی کو ظاہر کرتے ہیں نہ کہ مستقبل کو۔ اِس طرح سے یہ قرآنی آیت تورات اور اِنجیل، اور مسیح کی مصلوبیّت اور موت کے مسیحی اعتقاد کے عین مطابق ہے۔

اے خُدا، میں تُجھ سے اِلتجا کرتا ہوں کہ تُو اُن لوگوں پر حق کو ظاہر کر جو اُس کی تلاش کرتے ہیں، اور اُن لوگوں کو نور عنایت کر جنہیں اُس کی ضرورت ہے۔ تُو جو سب دینے والوں سے زیادہ فراخ دِل ہے، صرف تُو ہی پُکارے جانے کے لائق ہے۔

و۔ حصّہ پنجم: تاریخ میں مصلوبیّت

صلیب کا واقعہ اِنسان کی اختراع نہیں ہے۔ بصورتِ دیگر مسیحی کبھی بھی اپنے قائد، نبی، نجات دہندہ اور خُداوند سے اِس بڑی رُسوائی کو منسوب کرنے پر راضی نہ ہوتے۔ موسیٰ کی شریعت یہ کہتی ہے کہ "۔۔۔ کیونکہ جسے پھانسی ملتی ہے وہ خُدا کی طرف سے ملعون ہے" (اِستثنا 21: 23)۔ جبکہ اِنجیل مُقدّس کہتی ہے "مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چُھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے" (گلتیوں 3: 13)۔ نہ صرف مسیحیوں نے مصلوبیّت کی حقیقت کا اقرار کیا ہے بلکہ اُنہوں نے بڑے فخر کے ساتھ اِسے اپنی اور اُن سب کی بھلائی اور آسمانی برکات کے منبع اور تمام نجات کے سرچشمہ کے طور پر سمجھا ہے جو مسیح مصلوب اور آپ کی یادگار موت کے ذریعہ حاصل کئے گئے فدیہ و مخلصی پر ایمان رکھتے ہیں۔ مجھے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ مسیح کی مصلوبیّت کا موضوع کچھ لحاظ سے ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اِس لئے میں اب اِس پر تاریخی اعتبار سے روشنی ڈالوں گا۔

قدیم انبیاء داؤد، یسعیاہ، دانی ایل اور دیگر نے مسیح کی زندگی کے ہر پہلو، خاص طور پر مسیح کی موت اور جی اُٹھنے کے بارے میں نبوتیں کی ہیں۔ اِن نبوتوں کا آغاز اِس واقعہ کے رونما ہونے سے پندرہ سو سال پہلے ہُوا۔ بلکہ بعض نے تو قدرتی نشانات کا حوالہ دیتے ہوئے صلیب کی جگہ اور وقت کا ذِکر تک کیا جیسے سورج کا تاریک ہو جانا اور زلزلہ۔ کچھ نشانات تاریخی تھے جیسے قربانیوں کا حتمی خاتمہ، کیونکہ یہ مسیح کی عظیم تر قربانی کی طرف اشارہ تھا۔

جب یسوع مسیح آئے تو آپ نے یہودیوں کے سامنے واضح اعلان کیا کہ آپ کی موت کی بابت جو کچھ اُن کی شریعت میں لکھا تھا پورا ہونے کو ہے اور آپ دُنیا کے گناہوں کا کفّارہ دینے کےلئے مصلوب ہونے کو ہیں۔ اِس کے بعد رسولوں نے اِس مصلوبیّت پر فخر کیا، اور ایک نے تو یہ کہا، "کیونکہ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ تمہارے درمیان یسوع مسیح بلکہ مسیح مصلوب کے سِوا اَور کچھ نہ جانوں گا" (1۔ کرنتھیوں 2: 2)۔ یسوع کی مصلوبیّت کے چند دِن بعد ایک اَور رسول نے یہودیوں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا، "تم نے بےشرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلوب کروا کر مار ڈالا" (اعمال 2: 23)۔ اُس کے وعظ کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہاں موجود تین ہزار افراد مسیح مصلوب پر ایمان لائے۔

مصلوبیّت شاگردوں اور رسولوں کی منادی کا موضوع، اُن کے تمام وعظوں کا محور، اور گناہوں کی معافی حاصل کرنے کا واحد راستہ بن گیا۔ مسیح مصلوب کے پیروکار ہوتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ "خُدا نہ کرے کہ میں کسی چیز پر فخر کروں سِوا اپنے خُداوند یسوع مسیح کی صلیب کے۔" تب سے لے کر اَب تک ہر صدی کی مسیحی کلیسیا نے مسیح کی مصلوبیّت کو ابتدائی شاگردوں کی طرح ہی لیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ تورات اور اِنجیل میں کچھ بھی اِس حقیقت سے زیادہ واضح نہیں ہے۔

مشہور یہودی مؤرخ یوسیفیس نے یہ کہتے ہوئے مسیح کی مصلوبیّت کا ذِکر کیا، "پیلاطُس نے ہمارے درمیان سردار کاہنوں کی درخواست کو پورا کرنے کےلئے مسیح کو مصلوب ہونے کی سزا سُنائی، اور مسیح سے شروع سے محبت رکھنے والے افراد نے اُسے چھوڑ نہیں دیا اور اب بھی اُس کے پیروکار ہیں۔ اُنہیں اُس کے نام کی نسبت سے مسیحی کہا جاتا ہے۔" حتّٰی کہ آج بھی یہودی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ مسیح مصلوب ہُوا تھا اور قرآن خود اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہودی یہ مانتے ہیں کہ اُنہوں نے یسوع کو قتل کیا تھا، جیسا کہ آپ سورۃ النساء 4: 157 میں دیکھ سکتے ہیں، "اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو اللّہ کے پیغمبر کہلاتے تھے قتل کر دیا ہے۔" مشہور یہودی عالم ھِلل کے شاگرد ربّی یوحنان بن زکا نے عبرانی زبان میں ایک کتاب تحریر کی جس میں اُس نے یہودیوں کے فیصلہ کا ذِکر کیا کہ خُدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے اُنہوں نے مسیح کو صلیب کی سزا دی اور اُسے بادشاہ اور یہودی سرداروں کے حکم کے مطابق یروشلیم سے باہر ایک درخت پر لٹکا دیا۔

تالمود میں بھی یسوع مسیح کی مصلوبیّت کا ذِکر موجود ہے، اور بُت پرست مؤرخ ٹیسیٹس نے مسیح کے تقریباً چالیس سال بعد لکھی گئی اپنی کتاب کے پندرھویں باب میں ذِکر کیا ہے کہ مسیح کو تبریاس کے دورِ حکومت کے دوران مقامی حاکم پینطُس پیلاطُس کے حکم سے قتل کیا گیا۔

اِس مؤرخ نے اُن لوگوں کےلئے لکھا جو مسیح کے زمانے میں رہتے تھے اور ممکنہ طور پر کچھ لوگ مسیح کی موت کے عینی شاہد تھے۔ اُسے رومی دستاویزات تک رسائی حاصل تھی، جہاں مختلف گورنروں کی سرکاری تواریخ رکھی تھیں۔ اُن میں فلستین کے گورنروں کی تواریخ بھی شامل تھیں جہاں مسیح کو مصلوب کیا گیا تھا۔ لہٰذا اِس مصنف کی تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ اِن کا تعلق سرکاری واقعات اور عوامی معلومات سے تھا۔

اہم حقیقت یہ ہے کہ پیلاطُس نے مسیح کی مصلوبیّت اور موت کے بارے میں روم کو ایک اطلاع بھیجی جسے روم کی دستاویزات میں محفوظ کیا گیا تھا جیسا کہ اُس زمانے کی مہذب سلطنتوں میں رواج تھا۔ ٹیسیٹس دیگر عوامی ذرائع کے علاوہ اِس قانونی تحریر سے اپنی معلومات حاصل کرنے کے قابل تھا۔ اِس تحریر کا حوالہ فلسفی فلاوِیس جسٹینس نے 139 ء میں شہنشاہ انطونیس پائیس کے نام تحریر میں کیا ہے، اور اِسی طرح عالم طرطلیان نے 199 ء میں کارتھیج سے اپنی تحریر میں بھی اِس کا ذِکر کیا ہے۔

اِس طرح سے آپ دیکھتے ہیں کہ مسیح کی مصلوبیّت کا واقعہ پہلے سے مقرر تھا اور یہ بُت پرست، یہودی اور مسیحیوں میں ایک قابل ذِکر واقعہ تھا جس سے نہ صرف عام لوگ بلکہ اشرافیہ بھی 600 برس تک بخوبی واقف تھے، جب تک کہ قرآن نہ آیا اور اُس نے مسیح کے مصلوب ہونے کا انکار کیا، اگرچہ یہ غیر صریح ہے لیکن مبہم بیانات اور مختلف متون نے مسلمانوں کےلئے بےیقینی کی صورتحال پیدا کی ہے، جس کی وجہ سے کُچھ اُس کا سختی سے انکار کرتے ہیں اور کُچھ اِس کا یقین کرتے ہیں جیسا کہ آپ نے گذشتہ حصّہ میں دیکھا ہے۔

اب صاحبِ فکر قاری، ایک لمحہ کےلئے فرض کریں کہ پچاس دیانتدار اشخاص نے واضح طور پر گواہی دی کہ زید نے عمر کو قتل کیا ہے، اور عینی شاہدین قاتل اور مقتول دونوں کو بخوبی جانتے تھے۔ پھر فرض کیجئے کہ قاتل نے اپنے بُرے کام کا سب کے سامنے اعتراف کیا۔ تقریباً چھ سو سال تک یہ عام عقیدہ غیرمتنازعہ حقیقت ہے کہ زید نے عمر کو قتل کیا۔ لیکن پھر اِس طویل عرصہ کے بعد ایک متنازعہ گواہ اپنے آپ کو قاضی کی عدالت میں پیش کرتا ہے، جو ظاہر ہے عینی شاہد نہیں ہے۔ آئیے ہم فرض کریں کہ وہ ایک غیرجانبدار گواہ تھا اور اُس نے کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ قتل ہُوا تھا، لیکن جو قتل ہُوا وہ عمر نہیں بلکہ بکر تھا۔ آپ کیا سوچتے ہیں کہ قاضی کیا فیصلہ کرے گا؟ کیا وہ اِس بات کی تصدیق کرے گا کہ عمر قتل ہُوا تھا، یا پھر وہ بعد کی الگ تھلگ گواہی کی بنا پر یہ فیصلہ کرے گا کہ مارے جانے والا بکر تھا؟ اِس میں کوئی شک نہیں کہ عادِل مُنصِف بہت سے گواہوں اور قاتل کے اعتراف کی بنا پر اِس امر کی تصدیق کرے گا کہ عمر کا قتل ہُوا تھا۔ اِس سے ہٹ کر فیصلہ کرنے والا فرد شرعی اور دیوانی قوانین سے اپنی لاعلمی کا مظاہرہ کرتا ہے، اور دوسروں کے سامنے صرف اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ انصاف سے عاری ہے۔

مُجھے آپ کو متنبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ مثال مسیح کی مصلوبیّت کے معاملہ سے متعلق ہے اور اِس کا ہر طرح سے اِس پر اِطلاق ہوتا ہے۔

اے مسلم بھائی، آپ جو حق کے متلاشی ہیں، اِس کے بعد آپ کیا کہیں گے؟ میرا آپ کےلئے یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے نظریاتی رُجحان کو ایک طرف چھوڑ کر اور اِنصاف اور دیانتداری سے عقل کے مطابق ایک آزاد آدمی کی حیثیت سے اِس معاملہ کا فیصلہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ معاملہ بڑا آسان ہے، اور اِس کےلئے اتنی زحمت آزما جُستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ تب آپ جان لیں گے کہ مسیح (عیسیٰ) دُنیا کے فدیہ و مخلصی کےلئے مصلوب ہوئے۔ لیکن پھر آپ مرنے کے بعد قبر میں سے جی اُٹھے اور فتحمندی کے ساتھ آسمان پر صعود کر گئے۔ اُس کے بعد موت کا آپ پر کوئی اختیار نہیں ہو گا۔

6۔ پانچویں بحث: مسیح کی بےگناہی، اُلُوہیّت اور ابنِیَّت

خُدا تعالیٰ نے اپنی کتابِ کریم میں جو کُچھ منکشف کیا ہے اُس کے مطابق ہم مسیحی ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح خطا سے پاک ہیں کیونکہ آپ بگڑی ہوئی اِنسانی فطرت کے تخم سے نہیں ہیں، جیسا کہ الہامی کتب نے اِس امر کی تصدیق کی ہے۔ ہمارے پاس قرآن اور حدیث میں بائبل مُقدّس کے الہامی ہونے کی بنیاد موجود ہے۔

ہم اِنجیل مُقدّس میں الٰہی الہام کی روشنی میں مسیح کے ایک ہی وقت میں خُدا اور اِنسان دونوں ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ اِس سچائی کے اظہار کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ : خُدائے واحد اِنسان یسوع مسیح میں اپنی اُلُوہیّت کی معموری کے ساتھ ظاہر ہُوا، "کیونکہ اُلُوہیّت کی ساری معموری اُسی میں مجسّم ہو کر سکُونت کرتی ہے" (کُلُسّیوں 2: 9)، "اگلے زمانے میں خُدا نے باپ دادا سے حصّہ بہ حصّہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارِث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کئے۔ وہ اُس کے جلال کا پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔ وہ گناہوں کو دھو کر عالمِ بالا پر کبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا" (عبرانیوں 1: 1۔ 3)۔ اِس لئے یہ کہنا درست ہے کہ مسیح ایک ہی وقت میں خُدا اور اِنسان ہے۔ کیونکہ اِنسان خُدا نہیں بلکہ خُدا ہی خُدا ہے اور اِنسان اِنسان ہے۔ وہ دو خُدا نہیں ہے جیسا کہ مسلمان مسیح کے بارے میں تصور کرتے ہیں۔ مسیح نے اپنی الٰہی قدرت سے معجزات اور مافوق الفطرت کام سرانجام دیئے جو نبیوں سے اِس اعتبار سے فرق تھے کہ نبیوں نے معجزے خُدا کی قدرت سے کئے نہ کہ اپنی طاقت سے۔ ایک اِنسان کے طور پر مسیح نے کھایا، پیا اور دیگر اِنسانوں کی طرح سویا۔ بعض اوقات آپ نے اپنے بارے میں بطور خُدا کے بات کی اور بعض اوقات بطور اِنسان۔ جیسا کہ ہم نے بتایا کہ یہ اِس وجہ سے تھا کہ وہ خُدا اور اِنسان دونوں تھا۔ ہمارے مسلمان بھائی اور کُچھ مسیحی، اِنجیل مُقدّس میں ایسے حوالہ جات کی وجہ سے جن میں مسیح کو اِنسان کے طور پر بیان کیا گیا ہے، مسیح کی اُلُوہیّت کی بابت شکوک و شُبہات رکھتے ہیں۔ تاہم، اگر وہ نہایت باریک بینی کے ساتھ اُن بہت سے متون کا جائزہ لیں جو مسیح کی اُلُوہیّت کی طرف اِشارہ کرتے ہیں تو شکوک و شُبہات کے بادل جو اُن کی بصارت کو دُھندلاتے ہیں چھٹ جائیں گے۔ "یسوع نے اُس سے کہا، تُو نے خود کہہ دیا بلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اِس کے بعد تم ابنِ آدم کو قادرِ مُطلِق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے" (متی 26: 64)۔ "یسوع نے اُس سے کہا، اے فِلپُّس میں اتنی مُدّت سے تمہارے ساتھ ہوں۔ کیا تُو مُجھے نہیں جانتا؟ جس نے مُجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیوں کر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا؟" (یوحنّا 14: 9)۔

مزید برآں، مسیح بحیثیت اِنسان زمین پر کُچھ عرصہ رہے، مصلوب ہوئے، مر گئے اور پھِر جی اُٹھے، لیکن یہ مادہ جسم تھا جو مصلوب ہُوا اور مرا۔

جہاں تک مسیح کی اُلُوہیّت کا تعلق ہے، تو یہ تورات شریف اور اِنجیل مُقدّس میں، نبوتوں، مسیح کے الفاظ اور رسولوں کی تعلیمات سے بڑی واضح ہے۔ یہ سورۃ آل عمران 3: 45 سے بھی واضح ہے، "اے مریم، اللّہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابنِ مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مُقرّبین میں سے ہو گا۔" اگر مُفسّرین دعویٰ کریں کہ دیگر متون میں "کلمہ" کے معنٰی فعل "ہو جا" (کُن) یا گفتگو کے ہیں تو کوئی ایسی راہ نہیں کہ وہ دعویٰ کر سکیں کہ اِس مثال میں یہی معنٰی ہے۔ الفاظ "ایک کلمہ ۔۔۔ جس کا نام مسیح عیسیٰ ابنِ مریم ہو گا" ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں پر کلمہ ایک شخصیت ہے نہ کہ بولنے کا عمل یا حکم، جو تھوڑا سا دھیان دینے سے واضح ہو جائے گا۔ اِس سے تقریباً یہ مُراد ہے کہ "اُس کی طرف سے ایک وجود۔" ملاحظہ کیجئے کہ عربی "اسمہ" (اُس کا نام) مذکر ہے جو کلمہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو صوتی اعتبار سے مونث ہے لیکن معنٰی کے اعتبار سے مذکر ہے، بصورت دیگر یہ جائز نہیں ہو گا۔

مسلمان علماء نے بیان کیا ہے کہ خُدا کی تمام مخلوقات کو خُدا کے کلمات کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایک کلمہ کے ذریعہ سے خلق کی گئی تھیں۔ میں یہ کہوں گا کہ یہ غلط ہے کیونکہ بصورت دیگر کوئی ایک فرد عِلّت کو معلول کہہ سکتا ہے، ایک کتاب کو قلم کہہ سکتا ہے کیونکہ قلم وہ ذریعہ ہے جس نے کتاب تحریر کی نہ کہ کتاب نے خود کتاب تحریر کی۔ اگر خُدا نے عیسیٰ مسیح کو حکمیہ کلمہ کُن کہنے سے خلق کیا جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں، تو وہ کلمہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ کلمہ نہیں بلکہ کلمہ کا اثر ہے۔ اگر میں اپنے ذہن سے ایک کتاب لکھتا ہوں، تو اُس کتاب کو ذہن (یا میرا ذہن) نہیں کہا جائے گا بلکہ ذہن کا مفعول کہا جائے گا۔ بصورتِ دیگر حق کا باطل کے ساتھ اختلاط ہو جائے گا، اور جوہر کو علامات کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔

دیگر آیات سے جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ مسیح خُدا کی رُوح ہے۔ اِس لئے خُدا کا کلام ابدی خُدا ہے، اور رُوح خُدا ابدی و ازلی خُدا ہے۔ یہ مُقدّس یوحنّا کی معرفت لکھی گئی اِنجیل کی شروع کی آیات کے عین مطابق ہے: "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا۔ یہی ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کُچھ پیدا ہُوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔ اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔ اور نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے قبول نہ کیا" (یوحنا 1: 1۔ 5)۔

جہاں تک مسیح کے خُدا کا بیٹا ہونے کی بات ہے تو یہ ممکن ہے اور کُفر نہیں۔ ایک حدیث کے مطابق اللّہ کہتا ہے کہ "فقراء میرا عیال ہیں۔" یہ ناممکن نہیں ہے جیسا کہ سورۃ الزمر 39: 4 سے واضح ہے، "اگر اللّہ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا انتخاب کر لیتا۔" کتابِ مُقدّس کے اِس اعلان میں کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ مسیح خُدا کا بیٹا ہے، اور ایسا طریقہ تناسل کے ذریعہ سے نہیں ہے جیسا کہ بعض مسلمان سوچتے ہیں کیونکہ "بیٹا" ایک ایسا اظہار ہے جو کہ پیدا ہونے والے نر بچہ کےلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ مجازی طور پر بھی استعمال ہوتا ہے، مثلاً علم کے بیٹے، سمندر کے بیٹے، ابن السبیل (راہ کا بیٹا) وغیرہ۔ ہم اِس اظہار کا استعمال استعاراتی طور پر گود لئے ہوئے بچہ کےلئے بھی کرتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا ہے۔ خُدا نے ایمانداروں کو اپنے فرزند کہا ہے۔ تاہم، اُس نے یسوع کو اپنا "اِکلوتا بیٹا" کہا ہے۔ با الفاظِ دیگر مؤخر الذّکر اوّل الذّکر سے مختلف بیٹا ہے۔

ہم اِس فرزندیت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے کیونکہ یہ اِنسانی فہم سے بالاتر ہے۔ اور جیسے مسیح کو اُس کی اُلُوہیّت کی وجہ سے اِنسانوں سے بالاتر بتانے کےلئے خُدا کا بیٹا کہا گیا ہے، اُسی طرح اُس کی اِنسانیت کے اظہار کےلئے اُسے ابنِ آدم کہا گیا ہے۔ دانی ایل 7: 13، 14 کی نبوت کا یہی مقصد ہے جو مسیح کے خُدا اور اِنسان ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

"اِس میں کلام نہیں کہ دینداری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جسم میں ظاہر ہُوا اور رُوح میں راستباز ٹھہرا اور فرشتوں کو دِکھائی دیا اور غیر قوموں میں اُس کی منادی ہوئی اور دُنیا میں اُس پر ایمان لائے اور جلال میں اُوپر اُٹھایا گیا۔" (1۔ تیمتھیس 3: 16)

"اُس زندگی کے کلام کی بابت جو ابتدا سے تھا اور جسے ہم نے سُنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چُھوا۔" (1۔ یوحنّا 1: 1)

تورات، زبور اور اِنجیل شریف میں انبیاء کے گناہوں کا ذِکر موجود ہے (اور قرآن اِس امر کی تصدیق کرتا ہے)۔ تمام نسلِ اِنسانی کے بگاڑ کا ذِکر بھی موجود ہے جیسا کہ آپ دیکھ چُکے ہیں۔ تاہم، اِن کتابوں میں سے کوئی بھی یسوع مسیح کے کسی گناہ کا ذِکر نہیں کرتی۔ لیکن اِس کے برعکس یہ سب کسی بھی اِنسان سے بڑھ کر آپ کی پاکیزگی کی گواہی دیتی ہیں اور گناہ کے تعلق سے آپ کے لاخطا ہونے کا ذِکر کرتی ہیں۔ مسیح اِس تعلق سے اِنسانوں میں بےمثل ہیں، اور آپ آنے والی بحث میں مسیح کی فضیلت کے بارے میں دیکھ لیں گے۔

کسی بھی نبی یا رسول نے چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اپنے لئے معصومیت کا دعویٰ کرنے کی جسارت نہیں کی کیونکہ اِنسانی مخلوق میں بےگناہی ناممکن ہے۔ صرف خُدا تعالیٰ ہی کی ذات لاخطا اور کامل ہے۔ جہاں تک جناب مسیح کی بات ہے جو اپنی اُلُوہیّت اور اِنسانیّت کی بناء پر سب پر فوقیّت رکھتے ہیں اپنی بڑی کاملیّت اور پاکیزگی کی بناء پر ہی یہ کہہ سکے کہ "تم میں کون مُجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے؟ اگر میں سچ بولتا ہوں تو میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟" (یوحنّا 8: 46)۔ "اِس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دُنیا کا سردار آتا ہے اور مُجھ میں اُس کا کُچھ نہیں" (یوحنّا 14: 30)۔ کتابِ مُقدّس میں موجود متعدد شہادتیں مسیح کی بےگناہی کی تصدیق کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے دُشمنوں کو بھی آپ کے کردار میں کوئی عیب نہ مل سکا۔

جب رُومی حاکم پیلاطُس نے یہودیوں کے الزامات کی تحقیق کی تو اُس نے اعلان کیا کہ اُسے مسیح میں کوئی عیب نہیں ملا جس کے نتیجہ میں موت کی سزا دی جائے (یوحنّا 18: 38 اور 19: 4، 6)۔ پیلاطُس کی بیوی نے مُقدّمہ کے دوران اپنے شوہر کو پیغام بھیج کر مشورہ دیا، "تُو اِس راستباز سے کُچھ کام نہ رکھ کیونکہ میں نے آج خواب میں اِس کے سبب سے بہت دُکھ اُٹھایا ہے" (متی 27: 19)۔ اِس کے بعد پیلاطُس نے اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا، "میں اِس راستباز کے خون سے بری ہوں۔ تم جانو" (متی 27: 24)۔

تب یہودیوں نے کہا، "اِس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر۔" اور پھِر مسیح کو مصلوب کرنے کےلئے حوالے کر دیا گیا۔ مسیح کی تمام سیرت اور چال چلن سے آپ کی مکمل پاکیزگی، دیانتداری اور بےگناہی کی گواہی ملتی ہے جو باقی تمام اِنسانوں بشمول نبیوں اور رسولوں کے طرزِعمل سے فرق ہے جو عُیوب، بےربطیوں، بےانصافی اور فسادِ قلب سے بھرا ہُوا ہے۔

مسیح کی یہ پاکیزگی اور بےگناہی اِس لئے ضروری تھی تا کہ وہ اپنے آپ کو گنہگار اِنسانوں کی رُوحوں کےلئے ایک کفّارہ اور پاک اور بےعیب قربانی کےلئے پیش کر سکتے۔

7۔ چھٹی بحث: قرآن میں تمام انبیاء اور بشر پر مسیح کی فضیلت

انبیاء اور رسولوں کو مختلف لقب دیئے گئے ہیں اور اُنہوں نے بہت سے کام سرانجام دیئے ہیں، لیکن مسیح نے اُن سب پر سبقت پائی۔ آئیے اَب ہم دیکھیں کہ اِس موضوع پر قرآن کے بیانات کیا کہتے ہیں۔

1۔ آپ خُدا کا کلمہ اور اُس کی رُوح تھے جیسا کہ ہم سورۃ النساء 4: 171 میں دیکھتے ہیں، "مسیح عیسیٰ ابنِ مریم صرف اللّہ کا رسول اور اُس کا کلمہ تھے جو مریم کی طرف بھیجا تھا اور اُس کی طرف سے رُوح تھے۔" اور سورۃ آل عمران 3: 45 میں لکھا ہے کہ "اے مریم، اللّہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابنِ مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مُقرّبین میں سے ہو گا۔"

میرے دوست، مجھے بتائیے کہ نبیوں یا اِنسانوں میں سے کس کے بارے میں قرآن نے کہا کہ وہ خُدا کا کلمہ یا رُوح تھے؟

خُدا نے بعض لوگوں کو رسول، بعض کو نبی، بعض کو متنبہ کرنے والے اور بعض کو منادی کرنے والا کہا ہے۔ لیکن یہ سب یسوع کو دیئے گئے نام "کلمتہ اللّہ" یا "رُوح اللّہ" سے کم ہیں۔ اِس طرح وہ بلاشبہ سب سے عظیم ہے، خاص کر جب رُوح رسول سے بڑی ہے کیونکہ خُدا کی رُوح کا مطلب خود خُدا ہے جبکہ رسول تو صرف ایک انسان ہے۔

الرازی اور الجلالین اور دیگر مُفسّرین نے کہا ہے کہ مسیح کو خُدا کا کلمہ اِس لئے کہا گیا کیونکہ وہ بغیر باپ کے ایک کلمہ کے ذریعہ وجود میں آیا تھا، اِس لئے اُسے کلمہ کہا جاتا ہے۔ تاہم، ہم یہ کہیں گے کہ اگر ایسا ہے تو آدم جو حکم کے ذریعہ خلق ہُوا، کیوں اُسے خُدا کا کلمہ اور اُس کی رُوح نہیں کہا گیا؟

کیا یہ نام ایک مسلمان عالم سے اِس امر کا تقاضا نہیں کرتے کہ گذشتہ دو آیات میں مذکور الفاظ "کلمہ" اور "رُوح" کی تحقیق کریں جن میں مسیح کی فضیلت اور اُلُوہیّت کا اِشارہ ملتا ہے۔

2۔ آپ نے خلق کیا، جیسا کہ ہم سورۃ آل عمران 3: 49 میں پڑھتے ہیں، "بیشک میں تمہارے سامنے مِٹّی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں، پھر اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللّہ کے حکم سے پرندہ ہو جاتا ہے۔"

خُدا تعالیٰ نے اِس بات کی اجازت دی ہے کہ اُس کی مخلوق کی کُچھ صفات اُس کے ساتھ مشترک ہوں جیسے کرم، عدل، رحمت اور احسان وغیرہ۔ اُس نے اپنے انبیاء کو قوت عنایت کی تا کہ مافوق الفطرت معجزات کریں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی پیشگوئی کریں۔ یہ اختیار لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور آسمانی پیغام کی صداقت کا ثبوت تھا۔ لیکن خُدا نے کُچھ چیزیں اپنے لئے رکھ چھوڑی ہیں جن میں وہ کسی کو شریک نہیں کرتا۔

سب سے پہلے، ہمہ جا ہونا یعنی ہر جگہ موجود ہونے کا وصف (ناقابل اِدراک حضوری جس کی کوئی حد نہیں) جس کی بناء پر وہ مکمل طور پر اختیار رکھتا ہے اور ایک ہی وقت میں ہر جیتی جان کو سُن سکتا ہے۔ لیکن مخلوق ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص یا بادشاہ ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتا، بصورتِ دیگر وہ تو خُدا بن جائے۔

دوّم، ہر شے پر قُدرت اصل قُدرت ہے نہ کہ اِکتسابی۔ انبیاء نے حیرت انگیز اعمال اور زبردست معجزات انجام دیئے جو اِنسان کرنے سے قاصر ہے، لیکن یہ اُن کی اپنی طاقت سے نہیں بلکہ خُدا کی قُدرت سے تھے۔ کیونکہ خُدا ہی واحد وجہ اور تمام طاقت کا سرچشمہ ہے۔ لیکن اگر کسی کی ذات میں اصل طاقت موجود ہے تو وہ خُدا کی طرح ہو جائے گا اور یہ ظاہر ہے کہ باطل ہے۔

سوّم، خلق کرنا اور رُوح کو وجود میں لانا۔ لفظ خلق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی چیز کو نیست سے بنانا یا وجود بخشنا، اور لُغت کی رُو سے اِس کی تعریف یہ ہے کہ اُس چیز کو بنانا یا وجود بخشنا جو پہلے موجود نہ ہو۔

خُدا تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کو مُردے زندے کرنے، گونگوں کو شفا دینے، بہت سی بیماریوں کو ٹھیک کرنے اور واقعات کے ہونے سے پہلے اُن کی پیشگوئی کرنے کی طاقت دی۔ لیکن اُس نے سوائے یسوع مسیح کے کسی اَور کو خلق کرنے یا رُوح بخشنے کی اجازت نہیں دی۔ کیوں؟ صرف اِس لئے کہ مسیح انبیاء اور رسولوں سے بڑا ہے اور مختلف مقام پر فائز ہے۔ قرآن میں اَور کس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُس نے اپنے ربّ کی اجازت سے خلق کیا؟ یہ کسی اَور کے بارے میں نہیں کہا گیا، کیونکہ جو کوئی بھی قرآن سے واقف ہے اِس کی تصدیق کرے گا۔

گذشتہ قرآنی آیت میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ مسیح بالکل اُسی طرح پرندے خلق کرتا تھا جیسے خُدا نے آدم کو خلق کیا کیونکہ اُس نے اُسے زمین کی مٹی سے بنایا اور اُس میں زندگی کا دم پھونکا اور وہ جیتی جان ہُوا۔

3۔ آپ کی معجزانہ پیدایش کے بارے میں ہم سورۃ النساء 4: 171 میں پڑھتے ہیں، "مسیح عیسیٰ ابنِ مریم صرف اللّہ کا رسول اور اُس کا کلمہ تھے جو مریم کی طرف بھیجا تھا اور اُس کی طرف سے رُوح تھے۔" اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسیح ایک باپ کے بغیر مافوق الفطرت طریقہ سے رُوح القدس کے وسیلہ سے پیدا ہوئے تھے۔ یہ سچ ہے کہ آدم کا کوئی باپ نہیں تھا، لیکن ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ آدم سے پہلے کوئی اِنسان نہیں تھا۔ لیکن جہاں تک مسیح کی پیدایش کی بات ہے تو اِس کی ضرورت نہ تھی بلکہ یہ خُدا کے مقصد سے جہانوں کےلئے ایک نشان تھا: "اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہلِ عالم کےلئے نشانی بنا دیا" (سورۃ الانبیاء 21: 91)۔ "تا کہ میں اُسے لوگوں کےلئے ایک نشانی اور اپنی طرف سے رحمت بناؤں" (سورۃ مریم 19: 21)۔

کیا مسیح کی غیرمعمولی پیدایش ایک صادِق مسلمان کی توجہ اِس حقیقت کی جانب مبذول نہیں کرتی اور اُسے اِس اعتقاد کی جانب نہیں لے کر آتی کہ اِنسانوں میں مسیح کے مساوی کوئی بھی نہیں ہے، اور آپ اعلٰی ترین درجے پر فائز ہیں؟

4۔ اِس جہان اور آنے والے جہان میں مسیح کی بزرگی کی بابت ہم سورۃ آل عمران 3: 45 میں پڑھتے ہیں، "جب فرشتوں نے کہا، اے مریم، اللّہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابنِ مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مُقرّبین میں سے ہو گا۔"

الکشاف نے کہا ہے کہ اِس دُنیا میں آبرومند ہونے کا مطلب نبُوّت اور آدمیوں پر فوقیّت ہے، جبکہ آخرت میں آبرومند ہونے کا مطلب شفاعت کرنا اور جنت الفردوس میں بلند درجہ کا ہونا ہے۔ الرازی اور جلال الدین سیوطی نے بھی اِسی طرح سے اِس آیت کی وضاحت کی ہے۔

موسیٰ کی بزرگی کی بابت سورۃ الاحزاب 33: 49 میں لکھا ہے، "۔۔۔ اور وہ اللّہ کے نزدیک آبرو والے تھے۔" الرازی نے اِس کی تفسیر معرفت کے طور پر کی ہے۔ اُس نے الفاظ "مقربین میں" کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا: "ہر آبرومند مقربین میں نہیں ہو گا کیونکہ جنت میں لوگوں کی مختلف منازل اور درجات ہیں، اِسی لئے خُدا نے کہا ہے، 'اور تم تین قسم کے گروہ ہو جاؤ گے ۔۔۔ سبقت لے جانے والے۔ یہی لوگ مُقرّبین ہیں'" (سورۃ الواقعۃ 56: 7، 10، 11)۔

جس کسی نے بھی قرآن کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ عیسیٰ مسیح کے علاوہ کسی کو بھی دُنیا اور آخرت میں آبرومند نہیں کہا گیا، اور انبیاء اور رسولوں میں سے سوائے مسیح کے کسی کو بھی یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ اِس کی تحقیق کریں اور دیکھیں، اور پھر مُجھے بتائیں کہ ایسا کیوں ہے؟ اِس کے سبب کی تحقیق کریں، آپ حیران ہو جائیں گے۔

5۔ مسیح کے تعلق سے کسی بھی گناہ کا ذِکر نہیں ہے (پانچویں بحث کا جائزہ لیں)۔

6۔ خُدا نے مسیح کو آسمان کی جانب اُٹھا لیا، جیسا کہ ہم سورۃ آل عمران 3: 55 میں پڑھتے ہیں: "اُس وقت اللّہ نے فرمایا، اے عیسیٰ بیشک میں تُجھے قبض کر لوں گا اور تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں کی صحبت سے پاک کر دوں گا۔"

ہم پہلے اِس سوال پر بحث کر چُکے ہیں کہ لفظ "متوفيك" (تُجھے قبض کر لوں گا) کا معنٰی کیا ہے، لہٰذا اِسے دُہرانے کی ضرورت نہیں، لیکن ہم رفع کے معنٰی کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ الرازی نے کہا ہے کہ رفع سے مُراد یہ ہے کہ خُدا کے جلال کے درجے تک لے کر جانا، اور اُس نے الفاظ "اپنی طرف" کا استعمال تعظیم و تکریم کے مقاصد کےلئے کیا ہے۔ اور "بمطهرك" استعمال کرنے سے اُس کا مطلب ہے کہ تُجھے کافروں کے درمیان سے دُور کر دوں گا۔ جیسے اُس نے "اُٹھا لوں گا" کے الفاظ سے اُس کی بڑی عظمت بیان کی ہے، ویسے ہی اُس نے لفظ "تطہیر" سے "خلاصی" کا اظہار کیا ہے۔

الکشاف نے "تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، میں تُجھے اپنے آسمان اور اپنے فرشتوں کی جگہ پر لے جاؤں گا۔ قرآن میں مسیح کا رفع (مقربین میں) آپ کی تعظیم کا اظہار ہے۔ اِنجیلِ جلیل ہمیں مسیح کی عظمت کی وجہ سے یوں آگاہ کرتی ہے: "اُس نے اگرچہ خُدا کی صورت پر تھا خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ اِسی واسطے خُدا نے بھی اُسے بہت سربلند کیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گُٹھنا جُھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خُدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خُداوند ہے" (فلپیوں 2: 6۔ 11)۔

کیا یہ موضوع ہمیں دعوت نہیں دیتا کہ اِس وجہ پر غور و فکر کریں؟ اے معزز قاری، اگر آپ اِس وجہ کے بارے میں مُجھ سے جواب چاہتے ہیں تو میں آپ کو اِنجیل مُقدّس کی ایک ایسی آیت کے ساتھ جواب دوں گا جس نے اِس سچائی کو واضح طور پر بیان کیا ہے: "کیونکہ خُدا کا کلام زندہ اور موثّر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور رُوح اور بند بند اور گُودے کو جُدا کر کے گُزر جاتا ہے اور دِل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانچتا ہے" (عبرانیوں 4: 12)۔

8۔ ساتویں بحث: تثلیث فی التّوحید

اب میں قاری کو خُدا تعالیٰ کی ذات میں تثلیث فی التّوحید کی مسیحی تعلیم سے اچھی طرح سے آگاہ کرنے کےلئے مسیحی ایمان کے اِس اہم ترین عقیدے کی تفصیل پیش کروں گا۔

"کوئی معبود نہیں سوائے خُدائے واحد کے جو زندہ، سچا، ازلی و ابدی ہے، جو بغیر کسی جسم کے ہے، جس کے کوئی حصّے نہیں۔ جس کی قُدرت، حکمت اور بھلائی کی کوئی حد نہیں، جو سب دیکھی اور ان دیکھی چیزوں کا خالق ہے۔ اِس واحد خُدا میں ایک ہی جوہر، ایک کی قدرت اور ایک ہی ازلی وجود کے حامل تین اقانیم ہیں، جو باپ، بیٹا اور رُوح القُدس ہیں۔

یہ عقیدہ تورات اور اِنجیل کی واضح آیات سے ثابت ہے۔ اِس لئے یہ مسیحیوں کی ایجاد نہیں ہے۔ تاہم، ذیل کی سطور میں اِس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا یہ قابلِ ادراک ہے یا اِسے منطقی بحث کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔

اِسے پوری طرح سے سمجھا نہیں جا سکا کیونکہ یہ بنی آدم کی سمجھ سے بالا ہے۔ تاہم، یہ ایک سچائی اور مسلِّمہ حقیقت ہے، باوجود کہ مسلم تحقیق کرنے والوں کی اکثریت اِسلامی عقیدہ کی بنیاد پر اِسے سمجھنے میں ناکام ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "خُدا کی ذات پر بحث کُفر ہے" (حدیث)۔

میں یہاں پر کسی ایسی تعلیم کی وضاحت کرنے کی کوشش نہیں کروں گا جس کی قدیم لوگ وضاحت کرنے میں ناکام ہوئے، اور جسے دورِ جدید کے لوگ نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ یہ تو تمام مخلوقات کے خالق خُدا کی فطرت کی تحقیق ہے۔ چونکہ علما اِس کائنات کی ادنٰی چیزوں کے بھید سے بھی واقف نہیں ہیں، تو وہ موجدِ اوّل خالق کی بابت کیسے جان سکتے ہیں؟ اِس لئے میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ ہمارے ذہن اِسے سمجھ نہیں پاتے لیکن ہمیں اِس تصوّر کو ایمان کے ساتھ اپنے دِل سے قبول کرنا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اِس کا تفصیلی ذِکر خُدا کی الہامی کتاب یعنی تورات اور اِنجیل میں دیا گیا ہے جو اِنسانوں کی ہدایت کےلئے ہے۔ دوّم، میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ خود بہت سے ایسے بُنیادی عقائد رکھتے ہیں جو منطقی نہیں ہیں۔ اِن میں سے سب سے اہم خُدا پر اعتقاد ہے۔ تو ہمیں کیوں وہ ثابت کرنے کو کہتے ہیں جو وہ خود ثابت کرنے سے قاصر ہیں؟

سب سے پہلی بات یہ کہ خُدا پر ایمان رکھنے والے تمام یہودی، مسیحی اور مسلمان خُدا کے بارے میں کُچھ نہیں جانتے سِوائے اُس کے جو خود خُدا نے اپنے بارے میں منکشف کیا ہے۔ اِس سے ہٹ کر کُچھ بھی ہو، اہلِ علم کا تخیُّل یا قیاس ہے۔ خوفِ خُدا رکھنے والے اِس پر بھروسا نہیں کر سکتے اور نہ ہی اِسے منکرین کو قائل کرنے کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہماری اپنی ہی سمجھ اپنے خالق کا مکمل اِدراک کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اگر ہم ایسا کر سکتے تو پھر وہ خُدا نہ رہتا۔ صرف خُدا ہی خُدا کو سمجھ سکتا ہے۔ خُدا کی ہستی باقی سب سے مختلف ہے کیونکہ آسمان اور زمین تمام کائنات میں وہ ہر جگہ موجود ہے اور اُس کی لمبائی، چوڑائی، اونچائی، گہرائی شمار سے باہر ہے اور اُس کا کوئی آغاز نہیں۔ اب چونکہ وہ لامحدود ہے اور اُس کا پورے طور پر اِدراک نہیں کیا جا سکتا، اِس لئے وہ کسی بھی تشبیہ و تمثیل سے بالا ہے۔ جو کُچھ ہمارا ذہن تصور کر سکتا ہے خُدا اُس سے فرق ہے۔ اِس لئے، ہم اُن باتوں میں نہ پڑیں جنہیں ہمارے ذہن سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آئیے، اِس کے برعکس جو کُچھ خُدا نے اپنے بارے میں ہم پر ظاہر کیا ہے ہم اُسے بغیر کسی بحث کے قبول کریں۔ یہ تقویٰ کے قریب تر ہے۔

اہم معاملہ یہ جانچنا ہے کہ کیا کتابِ مُقدّس (تورات اور اِنجیل) خُدا کی طرف سے ہے یا نہیں؟ اگر ہم اِس کا ہاں میں جواب دیتے ہیں (اور خُدا کا شُکر ہو کہ ایسا ہی ہے)، تو پھر ہمیں اِس میں پڑھنے والی تمام باتوں پر ایمان رکھنا ہے چاہے یہ ہماری رائے سے مطابقت رکھتی ہوں یا نہ رکھتی ہوں۔ کیونکہ ہمیں یہ اجازت نہیں ہے کہ ہم اِس کتاب کے کُچھ حصہ پر تو ایمان رکھیں جسے ہم سمجھتے ہیں اور باقی حصوں کو سمجھ کے فُقدان کی وجہ سے نہ مانیں۔ قرآن میں ایسے لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے جیسا کہ ہم سورۃ البقرۃ 2: 85 میں دیکھتے ہیں، "یہ کیا بات ہے کہ تم کتاب اللّہ کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں اُن کی سزا اِس کے سِوا اَور کیا ہو سکتی ہے کہ دُنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دِن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں۔"

ہمارے مسلمان بھائی اکثر یہ کہتے ہوئے تورات اور اِنجیل کی مذمّت کرتے ہیں کہ اِس میں خُدا کے تعلق سے اُس کے بات کرنے، سُننے، اپنی اُنگلی سے لکھنے، غمگین ہونے، افسوس کرنے اور دیگر اِنسانی اظہارات کا ذِکر ملتا ہے۔

اُن کے دِلوں میں سے کسی قسم کے شُبہات کو دُور کرنے کےلئے ہم اُنہیں یاد دِلاتے ہیں کہ قرآن بھی اِسی طرح کے بیانات استعمال کرتا ہے، اور اُن میں سے کُچھ یہ ہیں:

"اور کیا تمہیں موسیٰ کے حال کی خبر ملی ہے۔ جب اُنہوں نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو۔ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں جاتا ہوں شاید اُس میں سے میں تمہارے پاس انگارا لاؤں یا آگ کے مقام سے اپنا رستہ معلوم کر سکوں۔ پھر جب وہاں پہنچے تو آواز آئی کہ اے موسیٰ۔ میں تو تمہارا پروردگار ہوں۔" (سورۃ طٰہٰ 20: 9۔ 12)

"اللّہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اُس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں ایک چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل ایسی صاف شفاف ہے کہ گویا موتی کا سا چمکتا ہُوا تارا ہے۔" (سورۃ النور 24: 35)

"اللّہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے۔" (سورۃ الفتح 48: 10)

"اور (ابرہام) بولے کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں، وہ مُجھے رستہ دکھائے گا۔" (سورۃ الصافات 37: 99)

"اور جو شخص اللّہ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے۔" (سورۃ النساء 4: 100)

"بلکہ اللّہ نے اُن کو اپنی طرف اُٹھا لیا۔" (سورۃ النساء 4: 158)

"اور سب کاموں کا رجوع اللّہ ہی کی طرف ہے۔" (سورۃ البقرۃ 2: 210)

"پھر عرش پر جلوہ افروز ہُوا۔" (سورۃ الاعراف 7: 54)

"پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہُوا۔" (سورۃ البقرۃ 2: 29)

"وہی جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کُچھ اُن دونوں کے درمیان ہے چھ دِن میں پیدا کیا، پھر عرش پر جلوہ افروز ہُوا۔" (سورۃ الفرقان 25: 59)

"بیشک میں تُجھے قبض کر لوں گا اور تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔" (سورۃ آل عمران 3: 55)

"اور تمہارے پروردگار ہی کا چہرہ جو صاحبِ جلال و کرم ہے باقی رہے گا۔" (سورۃ الرحمان 55: 27)

"اُس کے چہرے کے سِوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔" (سورۃ القصص 28: 88)

"تو آج کے دِن ہم اُنہیں بُھلا دیں گے۔" (سورۃ الاعراف 7: 51)

اگر آپ مذکورہ بالا آیات کو جیسی ہیں ویسے ہی قبول کرتے ہیں تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ خُدا کی نمائندگی آگ سے ہوئی یا پھر وہ اُس میں موجود تھا۔ لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ آگ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اُس میں تھا بلکہ اِس کا مقصد موسیٰ کی کسی جانب راہنمائی کرنا تھا، تو میں جواب دوں گا کہ آیت کا آخری حصہ "تُو اپنے جوتے اُتار ڈال، بیشک تُو پاک وادی طوٰی میں ہے" آپ کی سوچ سے متصادم ہے اور مُجھے صحیح ثابت کرتا ہے۔ اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خُدا نُور ہے اور یہ نُور ایک طاق کی طرح ہے جس میں ایک چراغ ہے، تب آپ یہ ماننے کے پابند ہوں گے کہ خُدا کا ایک مقام اور ایک چہرہ ہے، اور کوئی مسلمان اِسے قبول نہیں کرے گا۔

دوّم، میرے مسلمان بھائی آپ کہتے ہیں کہ آپ عقیدہ تثلیث (یعنی واحد خُدا جس میں تین اقانیم ہیں) کو نہیں مانتے، کیونکہ آپ اِسے سمجھنے کے قابل نہیں ہیں اور کوئی بھی اِسے آپ کے سامنے ثابت نہیں کر سکتا۔ جو بات آپ بھول گئے ہیں وہ یہ ہے کہ بطور ایک مسلمان آپ بہت سی ایسی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو یہودیوں اور مسیحیوں کے ساتھ مشترک ہیں۔ تاہم، اگر الہام کے منکرین آپ سے اِن عقائد میں سے کسی ایک کو ثابت کرنے کےلئے کہیں تو آپ اور قابل ترین علماء ایسا نہیں کر سکتے اور نہ ہی ثبوت کے ساتھ کوئی جواب پیش کر سکتے ہیں۔

خُدا پر ایمان رکھنے والا ہر مومن یہ مانتا ہے کہ اُس نے آسمانوں کو اور جو کُچھ اُن میں ہے تمام سورج، چاند، سیّاروں اور ستاروں سب کو خلق کیا ہے۔ اُس نے زمین کو اور اُس کی تمام نباتاتی اور حیواناتی زندگی کو چھ دِنوں میں بنایا اور اپنے مُنہ کے کلام سے زندہ عقلی اِنسان بنایا۔ اب ہر مومن یہ مانتا ہے کہ انبیائے کرام اور صالح رسولوں نے مُردوں کو زندہ کرنے، گونگوں اور مفلوجوں کو شفا دینے جیسے معجزے کئے۔ ہر مومن قیامت پر ایمان رکھتا ہے، یعنی یہ کہ آدم سے لے کر زمین کے آخری اِنسان تک ہر فرد کو زندہ کیا جائے گا، جس میں فطری موت کے شکار افراد بھی شامل ہیں اور وہ بھی جنہیں مچھلیوں نے کھا لیا۔ اِسی طرح جنہیں جانوروں نے کھا لیا اُن کی رُوحیں بھی اُن کے جسموں میں لوٹ آئیں گی جو گل سڑ کر زمین، پودوں، جانوروں اور مادے کا حصہ بن گئے ہیں، اور یہ سب حساب کتاب اور عدالت کے مقصد کے تحت ہو گا۔

فرض کیجئے ایک غیر ایماندار شخص اِن حقائق کی بابت آپ سے مُتّفِق نہیں بلکہ اِن کا اِنکار کرتا ہے۔ تو کیا آپ اپنے عقائد کا الہامی کُتُب کے بغیر منطقی بُرہان، مضبوط دلیل اور عقلی حُجّت کے ساتھ دِفاع کرنے کے قابل ہوں گے؟ آپ مُجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ آپ مذکورہ عقائد کو قائم کرنے کے ثبوت پیش نہیں کر سکیں گے۔

آپ خُدا پر ایمان رکھتے اور اُس پر بھروسا کرتے ہیں۔ لیکن اگر میں آپ سے پوچھوں کہ خُدا کیا ہے، اور وہ کہاں ہے؟ تو آپ ایک قائل کرنے والا جواب دینے میں ناکام رہیں گے۔ اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ ایک رُوح رکھتے ہیں اور آپ کو اِس کا یقین ہے۔ تاہم، آپ اِس بات سے لاعلم ہیں کہ رُوح کیا ہے اور یہ کہاں ہے۔ مزید برآں، آپ یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک ذہن اور فکری صلاحیتیں ہیں لیکن آپ اُن کی نوعیت کو نہیں سمجھتے۔ یہاں تک کہ آپ محسوس کی جانے والی زیادہ تر اشیاء کے بارے میں بھی فہم نہیں رکھتے۔ علماء کے نزدیک ہم تو مادی اشیاء کے جوہر کو بھی نہیں سمجھتے، بلکہ فقط اُن کی صفات اور خواص کے بارے میں جانتے ہیں۔ اب غیر محسوس اشیاء کے تعلق سے اِس سے کتنا زیادہ کہا جا سکتا ہے۔

میں اور آپ، یہودی، مسیحی اور مسلمان سب جانتے ہیں کہ ہم اور وہ تخلیق، معجزات، قیامت، عدالت اور رُوح کی ابدیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم خُدا پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اِس لئے نہیں کہ ہم اِن عقائد کو ثابت کرنے کے اہل ہیں بلکہ اِس لئے کہ اِن کا تذکرہ اُن کُتُب میں موجود ہے جن کو ہم خُدا کی طرف سے نازل شُدہ اور صحیح مانتے ہیں۔ غرض یہودی اپنی کتاب تورات کی فرمانبرداری پر ایمان رکھتے ہیں، اور مسیحی توریت اور اِنجیل شریف کے اختیار پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان قرآن کی اِطاعت پر یقین رکھتے ہیں۔

اگر اِس بناء پر تثلیث کو رد کرنا جائز ہے کہ ہمارے پاس اِسے ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، تو ہمیں دیگر تمام عقائد کا بھی انکار کر دینا چاہئے، درحقیقت اُن تمام مکاشفات کو رد کر دینا چاہئے جنہیں ہم ثابت نہیں کر سکتے، مثلاً خُدا کا شخصی وجود اور ازلی فطرت، اُس کے وجود کا ہر شے کا سببِ اوّل ہونا، ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود ہونا اور ہمہ دان ہونا یعنی وہ وقت کے ہر لمحے میں ازل سے ابد تک ہونے والی سبھی چیزوں سے واقف ہے اور اُس کا علم کسی اضافے یا گھاٹے کی اجازت نہیں دیتا۔

خُدا اپنے جوہر میں ایک، جبکہ اقانیم میں تین ہے۔ چونکہ وہ کائنات میں اپنی فطرت اور صفات کے اعتبار سے لاثانی ہے، اِس لئے اِس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے باقی سب سے برتر ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی اعلٰی ترین صفات کے اعتبار سے بھی سب سے برتر ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ایک جوہر میں تین اقانیم کا ہونا محال ہے۔ ہم کہیں گے کہ یہ دعویٰ بغیر دلیل کے ہے اور ہمارے محدود ذہن اِس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کیا ممکن ہے اور کیا اِس کے اِدراک کی حدّ سے پرے نہیں ہے۔ پاک تثلیث کے اقانیم اپنے جوہر میں ایک ہیں، اور یہ جنسی یا نوعی جوہر نہیں ہے۔ اِس لئے تثلیث میں کثرت جوہر کو متاثر نہیں کرتی، اور نہ ہی اِس میں جوہر کی تقسیم ہوتی ہے کیونکہ خُدا کا جوہر مادی نہیں بلکہ رُوحانی ہے۔ رُوح کسی بھی حالت میں تقسیم کی اجازت نہیں دیتی۔ غرض باپ، بیٹا اور رُوح القُدس اپنے اقانیم کے اعتبار سے ایک ہی جوہر کے حامل ہیں۔ اِن میں سے ہر ایک تقسیم یا علیحدگی کے بغیر الوہیت کے ایک ہی جوہر کا حامل ہے۔ ہماری زُبان میں اقنوم کے معنٰی کو سمجھنے کےلئے کوئی مترادف لفظ نہیں ہے کہ جس کی مدد سے پاک تثلیث کو آسانی سے بیان کیا جا سکے۔

جو کُچھ میں بیان کر چُکا ہوں، کیا اُس کے بعد آپ اَب بھی اِصرار کریں گے کہ ایک مسیحی کا تثلیث پر اعتقاد لاعلمی ہے؟ کیا آپ اِن تمام مثالوں کے بعد بھی اِصرار کریں گے کہ آپ تثلیث کو قبول نہیں کرتے کیونکہ آپ کو اِس کی کوئی عقلی دلیل نہیں ملی؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہر امر کا ایک خاص قسم کا ثبوت ہوتا ہے؟ مثال کے طور پر، تاریخی واقعات کی بات کی جائے تو آپ مقدونیہ کے اسکندر اور اُس کی مصر، شام، فارس اور ہندوستان اور دیگر علاقوں میں تمام مہمات کو کسی کیمیائی، ہندسی یا منطقی ثبوت کے ذریعہ سے ثابت نہیں کر سکتے۔ اور ایسا اِس لئے ہے کہ اِن واقعات کا تعلق تاریخ سے ہے نہ کہ کسی اَور چیز کے ساتھ۔ یا کیا آپ کسی کیمیائی طریقہ سے مُجھے دِکھا سکتے ہیں کہ کُل جُز سے زیادہ بڑا ہے؟ اگر یہ اصول درست ہے تو ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کسی بھی شے کا اِظہار اُسی نوعیت کی شے سے ہوتا ہے۔ اِسی طرح مذہبی اشیاء کا اظہار منکشف یا الہامی کُتُب سے ہوتا ہے، ریاضی کے مسائل کا علوم ریاضی کے حساب، الجبرا اور جیومیٹری سے تعلق ہے، اور فلکیاتی معاملات کا تعلق علم فلکیات سے ہے، وغیرہ۔ اِس لئے، میرے مسلمان بھائی، مذہبی عقائد کو سائنسی ثبوتوں کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ گمراہ ہو جائیں۔ اور تثلیث کے مسئلہ پر کیوں آپ مُجھ سے متفق نہیں ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ہم بنیادی طور پر ایک ہی بات کہہ رہے ہوں۔ کیونکہ آپ کہتے ہیں: خُدا اور اُس کا کلمہ اور اُس کی رُوح تثلیث ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ باپ، بیٹا اور رُوح القُدس تثلیث ہیں۔ "تو اللّہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور یہ نہ کہو کہ خُدا تین ہیں، اِس اعتقاد سے باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اللّہ ہی معبودِ واحد ہے" (سورۃ النساء 4: 171)۔ ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ خُدا کا ایک کلمہ اور رُوح ہے، اور وہ اپنے کلمہ اور رُوح کے ساتھ واحد ہے۔ آپ کے نزدیک جو کُچھ بھی خُدا میں ہے وہ خُدا ہے۔ اِس لئے، خُدا کا کلام خُدا ہے جو الہٰی وجود اور الہٰی صفات کا حامل ہے۔ اِسی طرح خُدا کا رُوح خُدا ہے اور ازل سے ابد تک الٰہی ذات کا حصہ ہے۔

میں آخر میں خُدا کے حضور التجا کرتا ہوں جو اپنے جوہر میں ایک ہے اور اقانیم میں تین، کہ وہ آپ کو اپنا رُوح القُدس بخشے اور اِس عقیدے کی سچائی قبول کرنے کےلئے آپ کے دِل کو قائل کرے، تا کہ آپ اِس کا بھی یقین کر لیں جیسے کہ آپ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ سب کُچھ کرنے پر قادر ہے۔ یاد رکھئے، خُدا تعالیٰ اِس لائق ہے کہ آپ اُس کی جانب مثبت ردعمل ظاہر کریں۔

9۔ آٹھویں بحث: فارقلیط اور محمد

ہمارے مسلمان بھائی سورۃ الصّفّ 61: 6 کے الفاظ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے نبی محمد کا نام اِنجیل مُقدّس میں مرقوم ہے، "اور جب کہا عیسیٰ ابنِ مریم نے کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللّہ کا بھیجا ہُوا آیا ہوں جو کتاب مُجھ سے پہلے آ چکی ہے یعنی تورات اُس کی تصدیق کرتا ہوں اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا۔"

یہ کہا جاتا ہے کہ اِنجیل مُقدّس میں یونانی لفظ فارقلیط کا مطلب احمد (حمد کیا ہُوا) ہے، اور احمد اور محمد ایک ہی ہیں۔ کُچھ یہ الزام لگاتے ہیں کہ چونکہ اِنجیل کو بدل دیا گیا ہے اِس لئے محمد صاحب کا ذِکر اِنجیل میں موجود نہیں ہے۔ اِس لفظ کے تعلق سے قرآنی سمجھ غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ یونانی زُبان میں یہ لفظ "پیراکلَیتاس" ہے نہ کہ "پیری کلِیتاس۔" یوں اِس کے درست لاطینی ہِجّے "PARACLETOS" ہیں نہ کہ "PERICLUTOS۔" پہلے لفظ کا مطلب ہے "مددگار" جبکہ دوسرے لفظ کا مطلب ہے "مشہور و محمود۔"

یہ آیت اَب بھی اِنجیل مُقدّس میں موجود ہے، اور ثابت کرتی ہے کہ اِس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ آئیے اَب ہم اُن آیات کا جائزہ لیں جہاں لفظ "پیراکلَیتاس" موجود ہے تا کہ اِس کے معنٰی کو سمجھ سکیں اور دیکھیں کہ کیا اِن الفاظ کو محمد صاحب سے منسوب کرنا درست ہے جیسے ہمارے مسلمان بھائیوں کا دعویٰ ہے۔

1۔ "اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ یعنی رُوحِ حق جسے دُنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے۔ تُم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔" (یوحنّا 14: 16، 17)

2۔ "لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی رُوحِ حق جو باپ سے صادِر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔" (یوحنّا 15: 26)

3۔ "لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آ کر دُنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے گا۔" (یوحنّا 16: 7، 8)

4۔ "اور اُن سے مل کر اُن کو حکم دیا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اُس وعدہ کے پُورا ہونے کے منتظر رہو جس کا ذِکر تُم مُجھ سے سُن چُکے ہو۔ کیونکہ یوحنّا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تُم تھوڑے دِنوں کے بعد رُوح القُدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔" (اعمال 1: 4، 5)

5۔ "جب عیدِ پنتِکُست کا دِن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے کہ یکایک آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سنّاٹا ہوتا ہے اور اُس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا۔ اور اُنہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دِکھائی دیں اور اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں۔ اور وہ سب رُوح القُدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح رُوح نے اُنہیں بولنے کی طاقت بخشی۔" (اعمال 2: 1۔ 4)

یہ واضح ہے کہ جب مسیح اپنے شاگردوں کے درمیان تھا اُن کا اُستاد تھا۔ وہ اُن کےلئے راہنما، مددگار اور محافظ تھا، یہاں تک کہ اُن کے دِلوں میں مسیح کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہو گیا۔ وہ اپنے علمِ سابق کے مطابق جانتا تھا کہ موت کے بعد اُس کا رُخصت ہو جانا اُن کے دِلوں کو توڑ دے گا۔ اُسے یہ علم تھا کہ اُس کے جانے کے بعد اُنہیں تقویت، راہنمائی اور تسلی کےلئے آسمانی مدد کی ضرورت ہو گی۔ اِس بناء پر اُس نے اُن کےلئے رُوح القُدّس بھیجنے کا وعدہ کیا کہ وہ اُنہیں تسلی بخشے، اور گذشتہ آیات میں آپ نے یہی دیکھا ہے۔

اِن آیات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ بات ہم پر واضح ہو جاتی ہے کہ جس شخصیت کا یہاں پر وعدہ کیا گیا تھا وہ نبیِ اسلام محمد صاحب کی شخصیت نہیں ہو سکتی، کیونکہ اِن آیات میں ہمارے سامنے اِس کی بہت سی وجوہات ہیں۔

1۔ جس کا وعدہ کیا گیا تھا وہ جسمانی نہیں تھا بلکہ اُسے "رُوحِ حق" کہا گیا ہے، لہٰذا دُنیا اِسے حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اِسے دیکھ نہیں سکتی۔ یہ بیان محمد صاحب کے بارے میں صحیح نہیں ہے کیونکہ اُن کا ایک بدن تھا اور اُنہیں اُن پر ایمان لانے والوں اور رد کرنے والوں دونوں نے دیکھا۔

2۔ جس کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ہمیشہ کےلئے شاگردوں کے ساتھ رہنے کےلئے آیا۔ اِس کا بھی محمد صاحب پر اِطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مسیح کے شاگردوں کے وقت میں نہیں آئے تھے اور پھر ہمیشہ کےلئے دُنیا میں نہیں رہے۔

3۔ جس کا وعدہ کیا گیا وہ شاگردوں کے ساتھ تھا۔ اِس کا اِطلاق محمد صاحب پر نہیں ہوتا کیونکہ وہ مسیح کے شاگردوں کے ساتھ نہیں تھے۔

4۔ مسیح نے شاگردوں کو ہدایت کی کہ "یروشلیم سے باہر نہ جاؤ" بلکہ مددگار رُوح القُدس کا انتظار کریں۔ اپنے آقا کی اطاعت میں (اور مسلمان یہ مانتے ہیں کہ شاگرد فرمانبردار تھے) اُنہوں نے یروشلیم میں دس دِن تک انتظار کیا جب تک کہ مددگار نہ آ گیا اور تب اُن میں سے ہر ایک رُوح القُدس سے بھر گیا۔ اِس کا بھی محمد صاحب پر اِطلاق نہیں ہو سکتا۔ بصورتِ دیگر یہ ضروری ہوتا کہ شاگرد محمد صاحب کی آمد تک یروشلیم میں چھ سو سال تک اِنتظار کرتے۔ لیکن اُن کی عمر اتنی نہ تھی۔ پھر مسیح نے خاص طور پر اُن سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مددگار رُوح کو بھیجے گا۔ ورنہ مرنے کے بعد اُنہیں مدد و تسلی دینے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ اِس لئے، اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کےلئے مسیح نے اُن سے کہا، "کیونکہ یوحنّا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تُم تھوڑے دِنوں کے بعد رُوح القُدس سے بپتسمہ پاؤ گے" (اعمال 1: 5)۔

مُجھے نہیں لگتا کہ مسلمان بھائی یہ ماننا چاہے گا کہ مسیح ہی وہ شخص تھے جنہوں نے محمد کو بھیجا تھا، کیونکہ مذکور آیات سے پتا چلتا ہے کہ مسیح ہی وہ شخص تھے جنہوں نے مددگار رُوح کو بھیجا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ بالکل فرق معاملہ ہو گا، کہ اُسے بھیجنے والے (مسیح) کی اُلُوہیّت پر راضی ہونا پڑے گا، کیونکہ محمد صاحب نے اللّہ کا رسول ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لہٰذا غور کریں۔ میں خُدا سے گزارش کرتا ہوں کہ جیسے اُس نے یہ رُوح القُدس اُن شاگردوں کو دیا وہ میرے مسلمان بھائی کو بھی عطا کرے، وہ اُس کی حق کی جانب راہنمائی کرے اور اُس کے ذہن کو روشن کرے تا کہ وہ بیکار اور قابلِ قدر میں تمیز کر سکے۔

10۔ نتیجہ

گذشتہ تمام تحریر میں آپ نے دیکھ لیا ہے کہ گناہوں کی معافی اور دِل کی پاکیزگی حاصل کرنے کا سِوائے مسیح کے کوئی اَور راستہ نہیں ہے، اور سِوائے بائبل مُقدّس کے کوئی اَور ایسی کتاب نہیں ہے جو اِس نجات کی راہ کو دِکھاتی ہے۔ اِسی طرح سِوائے دین مسیحیت کے کوئی اَور مذہب ایسا نہیں ہے جس میں خُدا کے انصاف اور رَحم کا تقاضا پُورا ہوتا ہو جو ہمیں اِنسان کےلئے خُدا کی محبت دِکھاتا ہے۔ میرے بھائی، اِس موقع سے فائدہ اُٹھائیں کیونکہ یہ وقتِ نجات ہے اور آج فضل و قبولیت کا دِن ہے۔

اِن تمام بحثوں اور اِن کے مطالعہ کا مقصد حق تک پہنچنا اور اِس حق کی پیروی کر کے خوشی حاصل کرنا ہے۔ اختتام پر میں خُدا سے دُعاگو ہوں کہ میرے مسلمان بھائی وہ آپ کو اپنا رُوح القُدس بخشے اور حق کی تلاش میں آپ کے ذہن کو تنویر بخشے۔ جب آپ مسیح میں نجات پانے اور فردوس میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کےلئے دُعا کرتے ہیں تو خُدا آپ کی سیدھے رستہ کی طرف راہنمائی کرے۔

سوالات

عزیز قاری، اگر آپ نے کتاب "راہِ حق کی جستجو" کا گہرے طور سے مُطالعہ کیا ہے، تو ہم اُمّید کرتے ہیں کہ آپ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اِن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. مسیحی دین میں بائبل مُقدّس کو کیا مقام حاصل ہے؟

  2. قرآن اُن مسلمانوں کے بارے میں کیا کہتا ہے جو بائبل مُقدّس پر ایمان نہیں رکھتے؟

  3. کسی ایک ایسی قرآنی آیت کا ذِکر کریں جو محمد صاحب کے زمانہ اور بعد میں تورات اور اِنجیل شریف کی سچائی کی تصدیق کرتی ہے؟

  4. کیسے تورات اور اِنجیل شریف کی صحت عقلی طور پر ثابت ہوتی ہے؟

  5. کیا وہ لوگ جو کتابِ مُقدّس میں تبدیلی یا تحریف کی بات کرتے ہیں، ایسی تحریف شُدہ آیات کی نشاندہی کر کے اِس مقصد کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟

  6. ناحوم نبی نے کس بارے میں پیشین گوئی کی تھی؟ کیا ناحوم اور دیگر انبیاء کی پیشین گوئیاں پوری ہوئیں؟

  7. آثارِ قدیمہ کے کسی ایک ایسے ثبوت کا ذِکر کریں جو تورات اور اِنجیل شریف کی صحت کی گواہی دیتا ہے۔

  8. سمتھ نام کے عالم کو نینوا کے کھنڈرات میں کیا ملا؟

  9. کتابِ مُقدّس کے قدیم نسخہ جات کے نام بتائیں۔

  10. کسی ایک ایسی قرآنی آیت کا ذِکر کریں جو نسخ کے نظریہ کی تردید کرتی ہے۔

  11. خُدا نے آدم اور حوا کو کس حالت میں خلق کیا تھا؟ کیا وہ اُس حالت میں باقی رہے؟

  12. کتابِ مُقدّس کی کسی ایک ایسی آیت کا ذِکر کریں جس کی تائید کوئی قرآنی حوالہ کرتا ہو جس میں تمام انسانیت کے بگاڑ اور گمراہی کی بات کی گئی ہے۔

  13. کیا انبیاء کے گناہ کا ارتکاب کرنے کا کوئی ثبوت موجود ہے؟

  14. الہٰی عدل کے مطابق تمام گنہگار کس کے مستحق ہیں؟

  15. قربانیوں نے کس کی طرف اشارہ کیا؟

  16. آپ قرآن سے کیسے مسیح کی موت کو ثابت کر سکتے ہیں؟

  17. کیا مسیح کی مصلوبیّت کا کوئی تاریخی ثبوت موجود ہے؟

  18. جناب مسیح کیسے تمام انبیاء اور بنی نوع اِنسان سے برتر ہیں؟

  19. اعمال 3: 13 کا حوالہ یسوع مسیح کے بارے میں کیا کہتا ہے؟

  20. اگر آپ سے پوچھا جائے تو آپ تثلیث کے عقیدہ کی وضاحت کیسے کریں گے؟

  21. اِس کتاب کے بارے میں اپنی سمجھ کو دو سطور میں بیان کریں۔


The Good Way
P.O.Box 66
        CH - 8486 
        Rikon
        Switzerland