Table of Contents
صلیب کا موضوع مسلمانوں میں کسی بھی اَور موضوع کی نسبت زیادہ مواقع بحث کھڑا کرتا ہے۔ اگرچہ قرآن میں مسیح کے رفع سماوی سے قبل آپ کی موت مذکور ہے، تاہم علمائے اسلام سورہ آل عمران آیت 55 کے لفظ "متوفِّیک" کی تفسیر پر اختلاف کرتے ہیں۔
ایک فریق کا کہنا ہے کہ جس وفات کا یہاں ذِکر ہے اُس کا مطلب موت نہیں ہے، جبکہ دوسرا فریق مانتا ہے حقیقت میں مسیح کو موت آئی تھی۔
ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کی اسناد معتبر مسلم علما سے لی گئی ہیں جو طبری، رازی، زمخشری اور کئی دوسرے علما کی تفسیروں پر مبنی ہیں۔
الف- کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اِس لفظ کا مطلب نیند ہے۔ مثنّٰی نے روایت کی ہے "مجھے اسحاق نے بتایا اور اُنہوں نے عبد اللہ ابن جعفر سے سُنا اور اُنہوں نے الربیع سے سُنا کہ "اِنّی متوفِّیک" کا مطلب وفاة النوم ہے، یعنی خدا نے اُنہیں نیند میں اُٹھایا۔
ب- کچھ کہتے ہیں کہ اِس لفظ کا مطلب "الاستیفاء" (پورا ہونا یا تکمیل) ہے۔ مطر وراق سے ابن شوذب نے، اُن سے ضمرة بن ربیعة نے، اُن سے علی بن سہیل نے روایت کی ہے کہ "اِنّی متوفِّیک" کا مطلب موت نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ دُنیا سے اُٹھانے جا رہا ہوں۔
ج- کچھ علما نے اِس سے "القبض" (قبضے میں لینا) مُراد لیا ہے۔ ابن زید سے ابن وھب نے، اور اُن سے یونس نے روایت کی کہ "اِنّی متوفِّیک کا مطلب 'قابضک' تجھ کو قبضے کرنے جا رہا ہوں۔...وہ مرے نہیں، اور اُس وقت تک نہیں مریں گے تاوقتیکہ دجّال کو قتل نہ کر دیں، پھر وہ مر جائیں گے۔"
د- کچھ علما کے نزدیک یہ ایسی بات ہے جس کا معنٰی تاخیر ہے۔ جناب محمد سے حدیث متواتر کی اسناد کے ساتھ ابو جعفر طبری نے روایت کی ہے کہ "عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے اور دجّال کو ختم کریں گے، پھر ایک عرصہ تک زمین پر قیام کریں گے (جس کی مدت کے بارے میں مختلف روایات ہیں)، پھر وہ مر جائیں گے اور مسلمان اُن پر نماز پڑھیں گے۔"
اُس فریق کے لوگ جو مانتے ہیں کہ وفات کا مطلب موت ہے، اُن میں بھی اِس سے متعلق مختلف روایات ہیں:
(1) مثنّٰی کہتے ہیں کہ "ہمیں عبد اللہ بن صالح نے بتایا، اور اُنہوں نے معاویہ سے سُنا، اُنہوں نے علی سے سُنا، اُنہوں نے ابن عباس سے سُنا کہ اِس کا مطلب یہ ہے تجھے موت دینے جا رہا ہوں۔"
(2) ابن حمید کہتے ہیں کہ "ہمیں سلمة نے بتایا، اُنہوں نے ابن سحاق سے سُنا، اُنہوں نے وھب بن منبّہ سے سُنا کہ اللہ نے عیسیٰ کو تین گھنٹے کی موت دی تھی اور پھر اُنہیں اُٹھا لیا" (جامع البیان 3: 289-292)۔
امام رازی کی شرح جس سے ہم مندرجہ ذیل الفاظ مقتبس کر رہے ہیں بیان کرتی ہے کہ جب اللہ نے کہا کہ "اذقال اللہ یا عیسیٰ اِنّی متوفِّیک و رافعک الی" تو اللہ خاص طور پر اِس آیت میں شرفِ عیسیٰ کی بات کرتا ہے۔
سب سے پہلے اِنّی متوفِّیک جس کی نظیر اللہ کا قول اُن کے بارے میں حکایت کرتے ہوئے یہ ہے "فَلَمَّا تَوَفَّیتَنِی کُنتَ اَنتَ الرَّقِیبَ عَلَیھَم" (پھر جب تُو نے مجھے دُنیا سے اُٹھا لیا تو تُو ہی اُن کا نگران تھا)۔ اہلِ تاویل نے اِن دونوں آیات کے بارے میں دو طرح سے اختلاف کیا ہے۔ کچھ نے اِن آیات کو لفظی طور پر قبول کیا ہے کہ اِن میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں۔ جبکہ کچھ نے اِس میں تقدیم و تاخیر فرض کی ہے۔
پہلے یہ کہتے ہیں کہ "متوفِّیک" کا معنٰی ہے "تیری عمر کے ایام پورے کرنے والا ہوں، اور تب تجھے وفات دوں گا، میں اُن لوگوں کو اِس طرح نہ چھوڑوں گا کہ وہ تجھے قتل کر دیں، بلکہ میں تجھے اپنے آسمان کی طرف اُٹھانے جا رہا ہوں، اور تجھے اپنے فرشتوں کا مقرب بنانے جا رہا ہوں، اور میں تجھے اِس طرح بچاﺅں گا کہ تیرے قتل پر وہ متمکن نہ ہو سکیں گے۔"
دوسرے یہ کہتے ہیں کہ "متوفِّیک" کا معنٰی ہے "تجھے موت دینے جا رہا ہوں۔" ابن عباس اور ابن اسحاق کے مطابق "اُس کے دشمن یہودی لوگ اُس کے قتل کی نوبت کو نہ پہنچ سکے سو خدا نے اُن کی اِس طرح عزت افزائی کی کہ اُن کو آسمان کی طرف اُٹھا لیا۔" اِن لوگوں نے بھی تین طرح سے اختلاف کیا ہے:
(1) وھب نے کہا "وہ تین گھنٹے مرے رہے اور پھر اُٹھا لئے گئے۔"
(2) محمد بن اسحاق نے کہا "وہ سات گھنٹے مرے رہے، پھر اللہ نے اُنہیں زندہ کیا، اور اُٹھا لیا۔"
(3) ربیع بن اُنس نے کہا کہ اللہ نے اُنہیں اُس وقت وفات دی جب آسمان کی طرف اُٹھایا تھا۔ خود اللہ نے فرمایا "اللہ یَتَوَفَّی الاَنفُسَ حِینَ مَوتِھَا وَالَّتِی لَم تَمُت فِی مَنَامِھَا" (اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت اُن کی روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں اُن کی روحیں سوتے میں قبض کر لیتا ہے)۔
سو یہ دیکھ کر کہ مسلم فقہا کی آراء میں کتنا ٹکراﺅ ہے اور مسیح کی زندگی کی آخری گھڑی کی بابت قرآنی آیات کی تفسیر میں مفسرین میں کتنا بڑا اختلاف ہے، کسی بھی مخلص جویائے حق کےلئے اِس کے سوا اَور کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ انجیل شریف کے بیان کی طرف رجوع کرے جس کا پیغام واضح ہے اور اُس میں مسیح کی موت، جی اُٹھنے اور صعود کے بارے میں کوئی بھی تضاد نہیں پایا جاتا۔
کرنتھیوں کے نام پہلا خط لکھتے ہوئے پولس رسُول نے پہلے باب میں کہا: "چنانچہ یہودی نشان چاہتے ہیں اور یونانی حکمت تلاش کرتے ہیں۔ مگر ہم اُس مسیح مصلوب کی منادی کرتے ہیں جو یہودیوں کے نزدیک ٹھوکر اور غیر قوموں کے نزدیک بیوقوفی ہے۔ لیکن جو بلائے ہوئے ہیں۔ یہودی ہوں یا یونانی۔ اُن کے نزدیک مسیح خدا کی قدرت اور خدا کی حکمت ہے" (نیا عہدنامہ، 1-کرنتھیوں 1: 22-24)۔
دوسرے باب میں رسول نے لکھا: "اے بھائیو! جب میں تمہارے پاس آیا اور تم میں خدا کے بھید کی منادی کرنے لگا تو اعلےٰ درجہ کی تقریر یا حکمت کے ساتھ نہیں آیا۔ کیونکہ میں نے یہ اِرادہ کر لیا تھا کہ تمہارے درمیان یسوع مسیح بلکہ مسیحِ مصلوب کے سِوا اَور کچھ نہ جانوں گا" (نیا عہدنامہ، 1-کرنتھیوں 2: 1-2)۔
جس انجیل کی رسُولوں نے مسیحیت کے اوّلین ایّام سے بشارت دی اور جسے لوگوں نے قبول کیا اور مخلصی پائی وہ خوشی کی خبر تھی جسے پولس نے 1-کرنتھیوں 15: 1-4 میں اِن الفاظ میں مختصراً بیان کیا: "اب اے بھائیو! میں تمہیں وہی خوشخبری جتائے دیتا ہوں جو پہلے دے چکا ہوں جسے تم نے قبول بھی کر لیا تھا اور جس پر قائم بھی ہو۔ اُسی کے وسیلہ سے تم کو نجات بھی ملتی ہے بشرطیکہ وہ خوشخبری جو میں نے تمہیں دی تھی یاد رکھتے ہو ورنہ تمہارا ایمان لانا بےفائدہ ہوا۔ چنانچہ میں نے سب سے پہلے تم کو وہی بات پہنچا دی جو مجھے پہنچی تھی کہ مسیح کتاب مُقدّس کے مطابق ہمارے گناہوں کےلئے مُوا۔ اور دفن ہوا، اور تیسرے دِن کتاب مُقدّس کے مطابق جی اُٹھا۔"
اِس کے باوجود بھی پولس کے تقریباً پانچ سو سال بعد جب ساری دُنیا میں انجیل کی منادی پھیل چکی تھی کچھ لوگوں نے مسیحیوں سے یہ کہتے ہوئے اِس سچائی پر اعتراض کیا "تم اپنے دین میں غلطی پر ہو۔" شاید اِس طرح کا اعتراض کرنے والوں نے اِس خیال کو اُن بدعتیوں سے لیا جو یہودیوں سے مسیحی بن گئے تھے جن کے آباﺅ اجداد ایسے لوگوں کے پڑوسی تھے جن کا ماننا یہ تھا کہ مسیح مرا نہیں تھا۔ ہم یوحنا انجیل نویس کے انتہائی شکر گزار ہیں جس نے اِس معاملے کا یوحنا 12: 34 میں تب ذِکر کیا جب اُس نے مسیح کے ساتھ بحث کرنے والے فریسیوں کے الفاظ کا ہمارے لئے اندراج کیا، "ہم نے شریعت کی یہ بات سُنی ہے کہ مسیح ابد تک رہے گا۔ پھر تُو کیوں کر کہتا ہے کہ ابنِ آدم کا اُونچے پر چڑھایا جانا ضرور ہے؟ یہ ابنِ آدم کون ہے؟"
مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ بدعت جزیرة العرب کے نصاریٰ میں پھیلی ہوئی تھی کہ مسیح اپنی صورت کو ایک سے دوسری میں بدل سکنے پر قادر تھا، اور جب مسیح کے دشمن اُسے گرفتار کرنے آئے تو اُس نے اپنی شبیہ ایک دوسرے شخص پر ڈال دی جسے اُس کی جگہ مصلوب کر دیا گیا۔ یوں مسیح خود اپنے دشمنوں کا مذاق اڑانے اُس ذات کی طرف اُٹھا لئے گئے جس نے اُنہیں بھیجا تھا۔
چنانچہ قرآنی آیت جو مسیح کے آخری دِنوں پر روشنی ڈالتی ہے اِس خیال سے متفق ہے اور یہود کی روایت کے برعکس ہے۔ سورہ نساء 4: 157، 158 میں لکھا ہے: "یعنی اُن (یہودیوں) کا یہ قول (دعویٰ) کہ ہم نے المسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ اُن کو نہ اُنہوں نے قتل کیا اور نہ صلیب دی تھی۔ ہاں اُن کو ایسا گمان ضرور ہوا تھا۔ دیکھو یہ بھی کہ جو اِس بارے میں اختلاف کرتے ہیں، خود بھی شک میں پڑے ہیں اُنہیں اِس کا کچھ بھی علم نہیں سوائے ظن و گمان کے۔ بےشک اُنہوں نے اُسے قتل کیا ہی نہیں ہے بلکہ اللہ نے اپنے پاس اُنہیں اُٹھا لیا ہے۔"
اُن بدعتیوں کی روایات سے جو مسیحیت سے وابستہ ہو گئے تھے ہم سمجھتے ہیں کہ صلیب اُن کے نزدیک کوئی تاریخی واقعہ یا عقیدہ نہ تھی بلکہ ایک علامت یا نشان تھی جیسے کہ وہ ستارہ تھا جس نے مجوسیوں کی بیت لحم میں بچے کے پالنے کی طرف راہنمائی کی یا جیسے دریائے یردن میں مسیح کے بپتسمہ کے وقت روح کا کبوتر کی صورت میں اُن پر نازل ہونا تھا۔ لیکن اُن کے نزدیک اُس بھاری صلیب کی کوئی اہمیت نہ تھی جس پر مسیح کو لٹکایا گیا جو فدیہ و مخلصی کا مذبح ہے جہاں دُنیا کے گناہ کو اُٹھا لے جانے کےلئے خدا کا برہ قربان ہوا۔ اُنہوں نے اُس سچائی کو ردّ کر دیا جس کا پولس نے گلتیوں 3: 13-14 میں اقوام عالم کےلئے اعلان کیا: "مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے۔ تا کہ مسیح یسوع میں ابرہام کی برکت غیر قوموں تک بھی پہنچے اور ہم ایمان کے وسیلہ سے اُس رُوح کو حاصل کریں جس کا وعدہ ہوا ہے۔"
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اہل اسلام میں صلیب سے یہ نفرت اُنہیں بدعتیوں سے گھس آئی ہے جو عرب میں جو گہوارہ اسلام ہے پھیلے ہوئے تھے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ مسلم فقہاء میں اِس بارے میں اختلاف موجود ہے کہ کس طرح کسی دوسرے پر مسیح کی شبیہ آ گئی، اور اِس بارے میں مختلف روایتیں ملتی ہیں۔
الف- ایک روایت یہ ہے کہ جب یہودی عیسیٰ کے قتل پر کمربستہ ہوئے تو اللہ نے اُنہیں آسمان پر اُٹھا لیا۔ تب یہودی اکابر ڈرے کہ لوگ اُن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے تو اُنہوں نے ایک شخص کو پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا اور مار ڈالا اور لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکا دیا کہ یہی عیسیٰ ہے۔
ب- ایک اَور روایت کے مطابق اللہ نے مسیح کی شبیہ ایک اَور شخص پر ڈال دی جو کہ اُن کے عوض مارا گیا۔ اِس روایت کی کئی صورتیں ہیں:
(1) تیطاﺅس نام کا ایک یہودی اُس گھر میں داخل ہوا جہاں مسیح موجود تھے تا کہ اُنہیں گرفتار کر سکے، لیکن آپ اُسے ملے نہیں۔ اور اللہ نے مسیح کی شبیہ اُس پر ڈال دی اور جب وہ باہر آیا تو لوگ سمجھے کہ یہی عیسیٰ ہے۔ اُنہوں نے اُسے لیا اور صلیب پر چڑھا دیا۔
(2) یہودیوں نے جب عیسیٰ کو گرفتار کیا تو اُن پر ایک نگہبان مقرر کر دیا، لیکن ہوا یہ کہ عیسیٰ کو تو اللہ نے معجزانہ طور پر اُوپر اُٹھا لیا اور عیسیٰ کی شبیہ اُس نگہبان پر ڈال دی، جسے لوگوں نے پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا، حالانکہ وہ برابر یہی چلائے جا رہا تھا کہ میں عیسیٰ نہیں ہوں۔
(3) عیسیٰ کے ایک ساتھی کو جنت کا وعدہ کیا گیا اور اُس نے خود کو عیسیٰ کی جگہ مر جانے کےلئے پیش کر دیا۔ اللہ نے عیسیٰ کی شبیہ اُس پر ڈال دی اور عیسیٰ آسمان پر اُٹھا لئے گئے، لیکن لوگوں نے اُسے لے جا کر صلیب دے دی۔
(4) عیسیٰ کے ایک پیروکار یہوداہ نے اُن کے ساتھ بےوفائی کی اور یہودیوں کے پاس گیا تا کہ عیسیٰ کو پکڑوانے کےلئے اُن کی راہنمائی کرے۔ جب وہ اُن کے ساتھ عیسیٰ کی طرف روانہ ہوا تو اللہ نے اُس کی صورت عیسیٰ کی طرح کی کر دی، وہی پکڑا اور صلیب پر چڑھا دیا گیا۔
ابو جعفر طبری نے اپنی کتاب "جامع البیان" میں کئی روایات اِس ضمن میں بیان کی ہیں:
(1) کچھ نے کہا کہ جب یہودیوں نے عیسیٰ اور حواریوں کو گھیرے میں لے لیا تو عیسیٰ کو پہچاننے میں ناکام ہوئے۔ چونکہ سارے حواریوں کی شکل عیسیٰ کی شکل میں بدل گئی، اِس لئے عیسیٰ کو قتل کر دینا چاہنے والے مشکل میں پڑ گئے۔ اُس وقت جو گھر میں تھے اُن میں سے ایک عیسیٰ کے ساتھ باہر نکلا۔ اُسی کو عیسیٰ سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔
(2) ابن حمیة سے روایت ہے، جنہوں نے یعقوب القمی سے سُنا اور اُنہوں نے وھب بن منبہ سے سُنا کہ عیسیٰ گھر میں تشریف لائے اور اُن کے ساتھ سترہ حواری تھے، اُنہیں لوگوں نے گھیر لیا اور جب اندر آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اللہ نے سب کی صورت عیسیٰ کی صورت پر بدل دی۔ وہ بول اُٹھے، تم لوگوں نے ہم پر جادو کر دیا ہے، تم میں سے عیسیٰ کون ہے، بتا دو، ورنہ سب کو قتل کر دیں گے۔ عیسیٰ نے اپنے ساتھیوں سے کہا، تم میں سے کون اپنی جان کے بدلے میں جنت خریدنے کو تیار ہے۔ تب ایک شخص نے کہا میں تیار ہوں۔ یہ کہہ کر وہ باہر آ گیا اور کہنے لگا کہ میں عیسیٰ ہوں۔ اِس پر اُنہوں نے اُس کو پکڑ لیا اور صلیب دے کر مار ڈالا۔ تب ہی سے وہ اِس شبہ میں گرفتار ہیں کہ ہم نے عیسیٰ کو مار ڈالا ہے حالانکہ اُسی دِن سے اللہ نے عیسیٰ کو اُوپر اُٹھا لیا تھا۔
(3) محمد بن حسین سے روایت ہے، جنہوں نے احمد بن مفصل سے سُنا، اُنہوں نے اسباط سے سُنا، اور اُنہوں نے سدیّ سے سُنا کہ بنی اسرائیل نے عیسیٰ کا محاصرہ کیا اور اُس وقت اُنیس حواری گھر کے اندر تھے۔ عیسیٰ نے ساتھیوں سے کہا جو میری صورت لے لے اور قتل کیا جائے جنت اُس کی ہو گی۔ ایک حواری نے اِسے قبول کیا اور عیسیٰ آسمان پر اُٹھا لئے گئے۔ جب حواری باہر نکلے تو اپنی تعداد اُنیس پائی۔ اُنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ عیسیٰ کو آسمان پر اُٹھا لیا گیا ہے۔ لوگوں نے اُن کو گنا تو شمار میں ایک کم نکلا، اور اُن سب کی صورت عیسیٰ جیسی نظر آ رہی تھی، اِس لئے اُن کو شک ہوا۔ اُنہوں نے اُسی شخص کو پکڑ لیا جس پر اُنہیں یقین ہوا کہ وہ عیسیٰ تھا اور اُسی کو صلیب دے دی۔
(4) ابن حمید سے روایت ہے، جنہوں نے سلمة سے سُنا اور اُنہوں نے اسحاق سے سُنا کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ جس نے حضرت عیسیٰ کے قتل کےلئے اپنی فوج بھیجی تھی، اُس کا نام داﺅد تھا۔ حضرت عیسیٰ اُس وقت سخت گھبراہٹ میں تھے، کوئی شخص اپنی موت سے اِس قدر پریشان، حواس باختہ اور اِس قدر واویلا کرنے والا نہ ہو گا جس قدر آپ نے اُس وقت کیا۔ یہاں تک کہ فرمایا، اے اللہ اگر تُو موت کے پیالے کو کسی سے بھی ٹالنے والا ہے تو مجھ سے ٹال دے، اور یہاں تک کہ گھبراہٹ اور خوف کے مارے اُن کے بدن سے خون پھوٹ کر بہنے لگا۔ پھر وہ اُس دروازہ میں آئے جہاں دشمن لوگ اُن کے اور اُن کے اصحاب کو بھی قتل کر دینے کےلئے داخل ہونے کےلئے اکھٹے ہوئے تھے۔ عیسیٰ کے ساتھ تیرہ افراد تھے، جب عیسیٰ کو یقین ہو گیا کہ اَب وہ ضرور ہی گھس آئیں گے تو اُن میں سے ایک پر عیسیٰ کی شبیہ ڈال دی گئی۔ اُسی کو لوگوں نے جکڑ لیا اور صلیب دے دی۔
(5) سلمة سے روایت ہے کہ ایک مسیحی نے جو مسلمان ہو گیا تھا مجھے یہ بتایا کہ جب عیسیٰ کے پاس اللہ کی طرف سے "انی رافعک الی" (میں تجھے اُٹھانے جا رہا ہوں) کا پیغام پہنچا، تو آپ نے کہا، اے میرے حواریو! تم میں سے کسے یہ بات محبوب ہے کہ میرے ساتھ جنت میں میرا رفیق رہے، اِس شرط پر کہ لوگوں کےلئے اُس کی صورت میری صورت کے مشابہ کر دی جائے گی اور اُسے لوگ میری جگہ قتل کر دیں گے؟ تب سرجس نامی شخص بولا، اے رُوح اللہ میں یہ منظور کرتا ہوں۔ آپ نے کہا میری جگہ پر بیٹھو، تو وہ وہاں بیٹھ گیا اور عیسی کو اُوپر اُٹھا لیا گیا۔ لوگ جب اندر آئے تو اُسے پکڑ کر صلیب دے دی۔ چنانچہ وہی تھا جسے اُنہوں نے صلیب دی اور اُن کو عیسیٰ کا گمان ہوا تھا۔ (جامع البیان 6: 12-14)
تفسیر سنوی کی جلد اوّل میں لکھا ملتا ہے: "مالک سے کہ اِس بات کا بھی احتمال ہے کہ وہ مسیح ہی رہے ہوں اور جو فی الحقیقت مر گئے ہوں، اور زمانہ کے آخر میں پھر زندہ کئے جائیں اور دجّال کو قتل کریں۔"
ابن کثیر کی تفسیر میں ادریس سے روایت ملتی ہے کہ مسیح تین دِن مرے رہے، پھر اللہ نے اُن کو زندہ کیا اور اُوپر اُٹھا لیا۔
اخوان الصفا میں لکھا ملتا ہے کہ: مسیح مرے اور صلیب دی گئی اور پھر اُٹھ کھڑے ہوئے اور اِس کے بعد اپنے خاص الخاص لوگوں پر ظاہر ہوئے اور نظر آئے (اخوان الصفا، جز 4،ص 30)۔
اِسی طرح اُس شخص کے نام کے بارے میں اختلاف ہے جو مصلوب کیا گیا، ایک گروہ نے اُس کا نام یہوداہ بتایا، دوسرے نے تیطاﺅس بتایا، ایک اَور گروہ نے اُس کانام سرجس بتایا، جبکہ کچھ نے کہا کہ وہ حواریوں میں سے کوئی تھا۔
یہی حال قرآن کے مفسروں کا ہے جن میں بہت کم ہیں جن کا اپنی اپنی روایات میں تطابق ہو۔
جلالین نے "ولکن شبّہ لھم" کے سلسلے میں لکھا ہے کہ مقتول وہ تھا جو عیسیٰ کے ساتھ اُن کا ساتھی تھا، اللہ نے عیسیٰ کی مشابہت اُس پر ڈال دی، اُنہوں نے اُسے عیسیٰ ہی سمجھا اور قتل کیا اور صلیب دی۔ اِسی طرح "وانّ الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ای من قتلہ" (اور جو لوگ اُن کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ اُن میں سے جب کچھ نے مقتول کو دیکھا تو کہنے لگے کہ چہرہ تو عیسیٰ کا لگتا ہے لیکن بدن اُس کے بدن جیسا نہیں ہے، جبکہ دوسروں نے کہا، نہیں وہ عیسیٰ ہی ہے۔ (تفسیر الجلالین ص 135)
بیضاوی کا کہنا ہے: یہ روایت ملتی ہے کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے عیسیٰ اور اُن کی ماں کو گرفتار کیا۔ اُن پر بد دُعا کی گئی تو اُن کی شکل بندروں اور سوأروں جیسی ہو گئی۔ تب سب ہی یہودی اُن کے قتل پر تیار ہو گئے، تب اللہ نے عیسیٰ کو خبر دی کہ اُنہیں وہ آسمان کی طرف اُٹھانے والا ہے۔ پھر عیسیٰ نے اپنے حواریوں سے کہا، تم میں سے کسے یہ بات منظور ہے کہ اُس پر میری شبیہ ڈال دی جائے اور اُسے قتل کیا جائے اور صلیب پر چڑھایا جائے اور وہ داخل جنت ہو۔ ایک حواری اِس بات پر تیار ہو گیا، تب اللہ نے عیسیٰ کی شباہت اُس پر ڈال دی، وہی قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا گیا۔
زمخشری کی رائے ہے، "شبہ لھم" کا مطلب ہے "خُیِّلَ الیھم" یعنی اُنہیں ایسا لگا، یا اُنہیں ایسا وہم ہوا کہ اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل کر دیا اور صلیب دے دی، اور اَب وہ مرے ہیں زندہ نہیں۔ لیکن وہ زندہ ہیں کیونکہ اللہ نے اُنہیں اپنی طرف اُٹھا لیا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ روایات کے اِس اختلاف کی وجہ زمین پر مسیح کی زمینی زندگی کے آخری ایّام کے بارے میں قرآن میں کسی نص صریح کا نہ ہونا ہے۔ اِس تبایُن نے لوگوں میں کئی فرق اور مخالف آراء کے دروازے کو کھول دیا ہے۔ اِس لئے امام فخر الدین رازی جیسے باریک بین عالم کےلئے بھی ناگزیر ہو گیا کہ وہ اِس کہانی کو مکمل طور پر رد کر دے۔ سورہ آل عمران 3: 55 "یَا عِیسیٰ انِّی مُتَوفِّیکَ وَ رَافِعُکَ الَیَّ" کی تفسیر کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس مسئلہ شبیہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اِس آیت کے مباحث میں ایک مشکل یہ ہے کہ قرآن نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُٹھایا تو اُس وقت کسی اَور پر اُن کی شبیہ ڈال دی، اور اِس کی بنیاد یہ قرآنی الفاظ ہیں "وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہ لَھُم"، اور ایسی ہی روایتیں ملتی ہیں لیکن اُن میں اختلافات ہیں، کبھی تو یہ روایت ملتی ہے کہ اللہ نے مسیح کی شبیہ اُن کے کسی دشمن پر ڈالی جو یہودیوں کو وہاں راہ بتاتے ہوئے لایا تھا، اور اُسے قتل کیا گیا اور صلیب دی گئی; اور کبھی یہ ملتا ہے کہ اُن کے خاص الخاص کسی حواری ہی نے یہ رغبت دکھائی کہ اُسی پر آپ کی شبیہ ڈال دی جائے تا کہ وہی اُن کی جگہ قتل ہو جائے۔ بہرحال کچھ بھی ہو، غیر پر شبیہ کے ڈالے جانے میں کئی مشکلات درپیش نظر آتی ہیں:
(1) اگر یہ جائز مانا جائے کہ ایک شخص کی شباہت دوسرے پر ڈالی جا سکتی ہے تو یہ دلیل باطل ہے کیونکہ جب میں اپنے بیٹے کو دیکھوں گا اور پھر دوسری بار اُسے دیکھوں گا تب اُس وقت، میں یہ کہنا جائز کرتا ہوں کہ جس کو میں دوبارہ دیکھ رہا ہوں وہ میرا بیٹا نہیں بلکہ وہ کوئی اَور آدمی ہے جس پر اُس کی شبیہ ڈالی گئی ہے، اور اِس طرح تو پھر عام محسوسات پر سے بھروسا اُٹھ جائے گا۔ اور یہ بھی کہ صحابہ کرام جنہوں نے جناب محمد کو اوامر و نواہی کرتے ہوئے دیکھا، تو اگر کسی کی صورت کسی اَور پر ڈالا جانا مان لیا جائے تو اِس کی بنیاد پر اُن کےلئے بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اُنہوں نے نہیں پہچانا کہ وہ محمد ہیں، اور یہ کیفیت تو شریعتوں کے سقوط کا باعث بن جائے گی۔
اور اِسی طرح خبر متواتر میں امر بھی مشکوک ٹھہرتا ہے، جس کی خبر مخبر اوّل نے محسوس کرنے کے بعد دی، اب اگر دیکھی چیزوں میں غلطی کے وقوع کو جائز قرار دیا جائے تو خبر متواتر کا سقوط تو اَور بھی اولیٰ مانا جائے گا۔ چنانچہ اِس طرح سے اوّل تو جھوٹ اور عیارانہ استدلال کا احتمال ہے اور انجام کار نبوتیں باطل ٹھہرتی ہیں۔
(2) اللہ تعالیٰ نے فرشتہ جبرائیل کو حکم دیا کہ عام حالات و واقعات میں وہ اُن کی معیّت کریں کیونکہ "اِذ اَیَّدتُّکَ بِرُوحِ القُدُس" کے تحت مفسروں نے یہی لکھا ہے کہ جب جبرائیل کے پروں میں سے ایک ہی تمام عالم بشر کےلئے کافی ہے تو پھر جب یہودی لوگ مسیح کے پیچھے پڑے تھے تو وہ کیسے منع کرنے پر کافی نہ ہوا؟ اِسی طرح جبکہ مسیح مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر تھے، اور کوڑھیوں اور جنم کے اندھوں پر اُن کو قدرت حاصل تھی تو وہ اُن یہودیوں سے اپنے آپ کو بچا لینے پر کیسے قادر نہ تھے جو آپ کے ساتھ شرارت و بدی کا ارادہ رکھتے تھے؟
(3) جب اللہ دشمنوں سے بچانے کےلئے اُنہیں آسمان پر اُٹھا لینے پر قادر تھا تو کسی دوسرے پر شبیہ ڈالنے میں کیا فائدہ ہوا، سوائے اِس کے کہ کسی اَور غریب کا قتل ہو جائے؟
(4) پہلے تو اُن کی شبیہ کسی اَور پر ڈالی گئی، اِس کے بعد مسیح کا رفع آسمانی ہوا، تو ایسی حالت میں قوم نے یہی اعتقاد کیا کہ عیسٰی ہی تھے جبکہ حقیقت میں وہ عیسٰی نہیں تھے۔ یہ تو سراسر دھوکا ہوا اور خدا تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے۔
(5) نصاریٰ جو مشرق سے مغرب تک بکثرت پھیلے ہوئے ہیں اور مسیح سے بےانتہا محبت کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو غلو تک بھی پہنچ جاتے ہیں، اُنہوں نے اِس بات کی گواہی دی کہ مسیح کو صلیب پر مارا گیا۔ حالانکہ ایسا ماننا اُن کےلئے شرم کی بات ہے نہ کہ فخر کی۔ اگر ہم اُن کی گواہی کا انکار کر دیں تو ہم تواتر کی دھجیاں اُڑانے والے ہوں گے، اور تواتر پر طعن کرنا جناب محمد و عیسٰی اور دیگر انبیا کی نبوت پر طعن بن جائے گا کہ یہ سب باطل باتیں ہیں۔
(6) تواتر سے یہ ثابت ہے کہ مصلوب شخص بہت دنوں تک زندہ رہا۔ اگر وہ عیسٰی نہیں تھے بلکہ کوئی اَور تھا تو ضرور ڈر کا اظہار کرتا اور ضرور کہتا کہ میں عیسٰی نہیں بلکہ کوئی اَور ہوں۔ اور اگر وہ اِس طرح کرتا تو یہ بات بھی خلق خدا کے سامنے مشہور ہو جاتی، لیکن چونکہ اِس طرح کی کوئی بھی بات نہیں ملتی، تو معلوم ہوا کہ بات وہ نہیں ہے جو تم کہتے ہو۔ (تفسیر کبیر 7: 70-71)
اگرچہ قرآنی بیان مسیح کو صلیب پر چڑھائے جانے کا انکار کرتا ہے، لیکن قرآن اُن کے آسمان پر اُٹھائے جانے سے قبل اُن کی موت کی نفی نہیں کرتا۔ جب ہم مسیح کے آخری دِنوں کے بارے میں قرآنٰ میں دیکھتے ہیں تو ہمیں تین ایسی آیات ملتی ہیں جو اُن کی موت پر زور دیتی ہیں، اور دو آیات ایسی ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ اُنہیں قتل کیا گیا۔
"وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَومَ وُلِدتُّ وَ یَومَ اَمُوتُ وَ یَومَ اُبعَثُ حَیًّا۔"
(اور جس دِن میں پیدا ہوا، اور جس دِن مروں گا، اور جس دِن زندہ کر کے اُٹھایا جاﺅں گا مجھ پر سلام ہے)
اِس آیت میں صریح طور پر اعتراف ملتا ہے کہ مسیح نے جسم اختیار کیا، مر گیا اور مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور یہ بات بشکل نبوت اور بطور معجزہ واقع ہوئی۔ اور یہ حقیقت انجیل سے لفظی و معنوی طور پر دونوں طرح سے موافق ہے۔
"اِذ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیسٰٓی اِنِّی مُتَوَفِّیکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوکَ فَوقَ الَّذِینَ کَفَرُوٓا اِلٰی یَومِ القِیٰمَةِ"
(اُس وقت اللہ نے فرمایا کہ اے عیسٰی! میں تم کو وفات دوں گا، اور تم کو اپنی طرف اُٹھا لوں گا اور تم کو کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروﺅں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا)
"وَ اِذ قَالَ اللّٰہُ ٰیعِیسَی ابنَ مَریَمَ ءَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَ اُمِّیَ اِلٰھَینِ مِن دُونِ اللّٰہِ قَالَ سُبحٰنَکَ ... مَا قُلتُ لَھُم اِلَّا مَآ اَمَرتَنِی بِہٓ اَنِ اعبُدُوا اللّٰہَ رَبِّی وَ رَبَّکُم ... فَلَمَّا تَوَفَّیتَنِی کُنتَ اَنتَ الرَّقِیبَ عَلَیھِم وَ اَنتَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ شَھِید’‘۔"
(اور جب اللہ فرمائے گا، اے عیسٰی ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے تُو پاک ہے ... میں نے اُن سے کچھ نہیں کہا بجز اُس کے جس کا تُو نے مجھے حکم دیا وہ یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ اور تمہارا بھی ربّ ہے۔ ... پھر جب تُو نے مجھے اُٹھا لیا تو تُو ہی اُن پر نگاہ رکھتا ہے۔ اور تُو ہر چیز پر خبردار ہے۔)
"وَ لَقَد اٰتَینَا مُوسَی الکِتٰبَ وَ قَفَّینَا مِن م بَعدِہ بِالرُّسُلِ وَ اٰتَینَا عِیسَی ابنَ مَریَمَ البَیِّنٰتِ وَ اَیَّدنٰہُ بِرُوحِ القُدُسِ اَفَکُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُول’‘ م بِمَا لَا تَھوٰٓی اَنفُسُکُمُ استَکبَرتُم فَفَرِیقًا کَذَّبتُم وَ فَرِیقًا تَقتُلُونَ"
(اور ہم نے موسیٰ کو کتاب توراة دی اور اُن کے بعد وقفہ وقفہ سے رسول بھیجتے رہے۔ اور ہم نے عیسٰی ابن مریم کو نبوت کی کُھلی نشانیاں عطا کیں اور ہم نے روح القدس کے ذریعہ اُن کی تائید کی اور جب کبھی کوئی بھی رسول تمہارے پاس ایسے احکام لے کر آیا جن کو تمہارا دِل نہ چاہتا تھا تو تم تکبر کر کے بعضوں کو جھوٹا قرار دیا کرتے۔ اور بعض کو بےدھڑک قتل کر ڈالتے تھے۔)
یہاں لفظ "تقتلون" (قتل کر ڈالتے تھے) غیر واضح نہیں ہے، اور اِس کی تفسیر بغیر قتل کے صحیح نہیں ہے۔ اب اگر قرآن نے اِس بات کا ذِکر نہیں کیا کہ مسیح کس طرح سے قتل ہوئے تو پھر انجیل شریف ہی اِس موضوع پر راہنمائی کرنے والا اوّل و آخر واحد ذریعہ رہ جاتی ہے۔
"اَلَّذِینَ قَالُوٓا اِنَّ اللّٰہَ عَھِدَ اِلَینَآ اَلَّا نُومِنَ لِرَسُولٍ حَتّٰی یَاتِیَنَا بِقُربَانٍ تَاکُلُہُ النَّارُ قُل قَد جَآءَكُمْ رُسُل’‘ مِّن قَبلِی بِالبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِی قُلتُم فَلِمَ قَتَلتُمُوھُم اِن کُنتُم صٰدِقِینَ۔"
(جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ لے کر آئے جسے آگ کھا جائے، آپ فرما دیجئے کہ بےشک بہت سے رسول مجھ سے پہلے بہت سی نشانیاں لے کر تمہارے پاس آئے، اور یہ معجزہ بھی جس کو تم کہتے ہو تو تم نے کیوں اُن کو قتل کیا تھا اگر تم سچے ہو۔)
اب اگر ہم قرآنی واقعات کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک ہی رسول تھا جو قربانی لایا اور وہ مسیح تھے۔ سورہ مائدہ 5: 114 میں لکھا ہے "تب عیسٰی ابن مریم نے کہا، اے ہمارے پروردگار، ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے وہ دِن عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کےلئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو، اور ہمیں رزق دے اور تُو بہترین رزق دینے والا ہے۔"
اب ہم سورہ نسا کی آیت کی طرف آتے ہیں: "وَ مَا قَتَلُوہُ وَ مَا صَلَبُوہُ وَ لَکِن شُبِّہ لَھُم" (نہ اُنہوں نے اُسے قتل کیا، نہ صلیب چڑھایا، بلکہ اُنہیں ایسا لگا کہ اُنہوں نے یہ کیا)۔
سچائی کو سامنے لانے کےلئے اب ہمیں کسی اَور چیز کی ضرورت نہیں سوا اِنجیل کے۔ اب ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ قتل مسیح کے پیچھے یہودی راہنماﺅں کا آخر مقصد کیا تھا؟ انجیل جلیل بمطابق یوحنا 11: 47-50 میں یوحنا رسول نے اِس کا یوں بیان کیا ہے: "پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا، ہم کرتے کیا ہیں؟ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔ اگر ہم اُسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔ اور اُن میں سے کائفا نام ایک شخص نے جو اُس سال سردار کاہن تھا اُن سے کہا تم کچھ نہیں جانتے۔ اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔"
بےشک، جب اُنہوں نے مسیح کو صلیب پر چڑھایا، اور آپ نے اُس پر اپنی جان دی، اور قبر میں دفن ہوئے اور قبر پر رومی حاکم پیلاطس کی مہر لگا کر اُسے بند کر دیا گیا، تو اُنہوں نے یہ سوچ کر بڑی خوشی منائی کہ آخرکار ہم اِس کی تعلیم اور معجزوں سے بچ گئے۔ وہ یہ بھی اُمید کرتے تھے کہ اُس کو دی جانے والی سخت بےرحم موت اُس کے پیروکاروں کو آگے کی کسی سرگرمی سے روک دینے کےلئے کافی تھی۔ لیکن الہٰی مشیئت کی ہوا، یہودی ارادوں کے سفینے کو اُدھر لے گئی جہاں وہ جانا نہیں چاہتے تھے۔ کیونکہ مسیح کی کفارہ بخش موت نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اپنی طرف کھینچا۔ یوں وہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی جو انجیل بمطابق یوحنا 12: 32 میں آپ کے بارے میں مرقوم تھی: "اور میں اگر زمین سے اُونچے پر چڑھایا جاﺅں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا۔"
اِسی طرح مسیح کی بخشی ہوئی قوت کی بدولت عجائب و معجزات رسولوں کے ذریعے بھی ظاہر ہوتے رہے۔ کتاب مُقدّس ہمیں اعمال الرسل 19: 11-12 میں آگاہ کرتی ہے: "اور خدا پولس کے ہاتھوں سے خاص خاص معجزے دکھاتا تھا۔ یہاں تک کہ رومال اور پٹکے اُس کے بدن سے چھوا کر بیماروں پر ڈالے جاتے تھے اور اُن کی بیماریاں جاتی رہتی تھیں اور بُری روحیں اُن میں سے نکل جاتی تھیں۔"
گو کہ اِن ثبوتوں کی بےحد کثرت ہے، اور یہ مختصر سی کتاب اِس تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکتی، اِس لئے چند ثبوتوں پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے:
کتاب مُقدّس میں صلیب پر مسیح کی کفارہ بخش موت کی طرف اشارہ کرنے والی بہت سی نبوتیں ہیں، جن میں سے سب کی سب لفظ بہ لفظ پوری ہوئی ہیں۔
(1) مذکورہ نبوت: مسیح کا تیس چاندی کے سکوں کے عوض بیچا جانا - "اور میں نے اُن سے کہا کہ اگر تمہاری نظر میں ٹھیک ہو تو مزدوری مجھے دو، نہیں تو مت دو، اور اُنہوں نے میری مزدوری کےلئے تیس روپے تول کر دیئے۔" (زکریاہ 11: 12)
نبوت کی تکمیل: "اُس وقت اُن بارہ میں سے ایک نے جس کا نام یہوداہ اسکریوتی تھا، سردار کاہنوں کے پاس جا کر کہا کہ اگر میں اُسے تمہارے حوالے کرا دوں تو مجھے کیا دو گے؟ اُنہوں نے اُسے تیس روپے تول کر دیئے۔" (انجیل بمطابق متی 26: 16)
(2) مذکورہ نبوت: رقم سے کمہار کے کھیت کا خریدا جانا - "اور خداوند نے مجھے حکم دیا کہ اُسے کمہار کے سامنے پھینک دے، یعنی اُس بڑی قیمت کو جو اُنہوں نے میرے لئے ٹھہرائی اور میں نے تیس روپے لے کر خداوند کے گھر میں کمہار کے سامنے پھینک دیئے۔" (زکریاہ 11: 13)
نبوت کی تکمیل: "جب اُس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے یہ دیکھا کہ و ہ مجرم ٹھہرایا گیا تو پچھتایا اور وہ تیس روپے سردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس واپس لا کر کہا۔ میں نے گناہ کیا کہ بےقصور کو قتل کےلئے پکڑوایا۔ اُنہوں نے کہا ہمیں کیا؟ تُو جان۔ اور وہ روپیوں کو مَقدِس میں پھینک کر چلا گیا اور جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی۔ سردار کاہنوں نے روپے لے کر کہا، اِن کو ہیکل کے خرانہ میں ڈالنا روا نہیں کیونکہ یہ خون کی قیمت ہے۔ پس اُنہوں نے مشورہ کر کے اُن روپیوں سے کمہار کا کھیت پردیسیوں کے دفن کرنے کےلئے خریدا۔ اِس سبب سے وہ کھیت آج تک خون کا کھیت کہلاتا ہے۔" (انجیل بمطابق متی 26: 3-4)
(3) مذکورہ نبوت: بُرا سلوک اور مصلوبیت - "کیونکہ کتوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔ بدکاروں کی گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاﺅں چھیدتے ہیں۔ میں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہوں۔ وہ مجھے تاکتے اور گھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالتے ہیں۔" (زبور 22: 16-18)
نبوت کی تکمیل: "اور سپاہی اُس کو اُس صحن میں لے گئے جو پریَتوریُن کہلاتا ہے اور ساری پلٹن کو بُلا لائے۔ اور اُنہوں نے اُسے ارغوانی چوغہ پہنایا اور کانٹوں کا تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھا۔ اور اُسے سلام کرنے لگے کہ اَے یہودیوں کے بادشاہ آداب! اور وہ اُس کے سر پر سرکنڈا مارتے اور اُس پر تھوکتے اور گُھٹنے ٹیک ٹیک کر اُسے سجدہ کرتے رہے۔ اور جب اُسے ٹھٹھوں میں اُڑا چکے تو اُس پر سے ارغوانی چوغہ اُتار کر اُسی کے کپڑے اُسے پہنائے۔ پھر اُسے مصلوب کرنے کو باہر لے گئے۔" (انجیل بمطابق مرقس 15: 16-20)
(4) مذکورہ نبوت: گھایل کیا جانا - "حالانکہ وہ ہماری خطاﺅں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔" (یسعیاہ 53: 3)، "ہلواہوں نے میری پیٹھ پر ہل چلائے اور لمبی لمبی ریگھاریاں بنائیں۔" (زبور 129: 3)
نبوت کی تکمیل: "اور جو آدمی یسوع کو پکڑے ہوئے تھے اُس کو ٹھٹھوں میں اُڑاتے تھے اور مارتے تھے۔ اور اُس کی آنکھیں بند کر کے اُس سے پوچھتے تھے کہ نبوت سے بتا تجھے کس نے مارا؟" (انجیل بمطابق لوقا 22: 63-64)
(5) مذکورہ نبوت: خاموشی سے سب دُکھ سہنا - "وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جس طرح برہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بےزبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔" (یسعیاہ 53: 7)
نبوت کی تکمیل: "نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپُرد کرتا تھا۔ وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تا کہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مر کر راستبازی کے اعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی۔" (نیا عہدنامہ، 1-پطرس 2: 23-24)
(6) مذکورہ نبوت: اُس کے چہرے پر مارا جانا اور تھوکا جانا - "میں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی۔ میں نے اپنا مُنہ رسوائی اور تھوک سے نہیں چھپایا۔" (یسعیاہ 50: 6)
نبوت کی تکمیل: "اور وہ اُس کے سر پر سرکنڈا مارتے اور اُس پر تھوکتے اور گھٹنے ٹیک ٹیک کر اُسے سجدہ کرتے رہے۔" (انجیل بمطابق مرقس 15: 19)، "اِس پر اُنہوں نے اُس کے مُنہ پر تھوکا اور اُس کے مکے مارے اور بعض نے طمانچے مار کر کہا۔ اے مسیح ہمیں نبوت سے بتا کہ تجھے کس نے مارا؟" (انجیل بمطابق متی 26: 67-68)
(7) مذکورہ نبوت: ٹھٹھا - "پر میں تو کیڑا ہوں، انسان نہیں۔ آدمیوں میں انگُشت نما ہوں اور لوگوں میں حقیر۔ وہ سب جو مجھے دیکھتے ہیں میرا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ وہ مُنہ چڑاتے، وہ سر ہلا ہلا کر کہتے ہیں، اپنے کو خداوند کے سپُرد کر دے۔ وہی اُسے چھڑائے۔" (زبور 22: 6-7)
نبوت کی تکمیل: "اور راہ چلنے والے سر ہلا ہلا اُس کو لعن طعن کرتے اور کہتے تھے۔ اے مَقدِس کے ڈھانے والے اور تین دِن میں بنانے والے اپنے تئیں بچا۔ اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اُتر آ۔ اِسی طرح سردار کاہن بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ مل کر ٹھٹھے سے کہتے تھے۔ اِس نے اَوروں کو بچایا۔ اپنے تئیں نہیں بچا سکتا۔ یہ تو اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ اب صلیب پر سے اُتر آئے تو ہم اِس پر ایمان لائیں۔" (انجیل بمطابق متی 27: 39-42)
(8) مذکورہ نبوت: باپ کے چھوڑنے پر تعجب کرنا - "اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ تُو میری مدد اور میرے نالہ و فریاد سے کیوں دُور رہتا ہے؟" (زبور 22: 1)
نبوت کی تکمیل: "اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلّا کر کہا ایلی۔ ایلی۔ لما شبقتنی؟ یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟" (انجیل بمطابق متی 27: 46)
(9) مذکورہ نبوت: سرکہ پینا - "میری پیاس بجھانے کو اُنہوں نے مجھے سرکہ پلایا۔" (زبور 69: 21)
نبوت کی تکمیل: "اِس کے بعد جب یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تا کہ نوِشتہ پُورا ہو تو کہا کہ میں پیاسا ہوں۔ وہاں سرکہ سے بھرا ہوا ایک برتن رکھا تھا۔ پس اُنہوں نے سرکہ میں بھگوئے ہوئے سپنج کو زُوفے کی شاخ پر رکھ کر اُس کے مُنہ سے لگایا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 19: 28-29)
(10) مذکورہ نبوت: سپاہیوں کا آپ کے کپڑوں پر قرعہ ڈالنا "وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قُرعہ ڈالتے ہیں۔" (زبور 22: 18)
نبوت کی تکمیل: "جب سپاہی یسوع کو مصلوب کر چکے تو اُس کے کپڑے لے کر چار حصے کئے۔ ہر سپاہی کےلئے ایک حصہ اور اُس کا کرتہ بھی لیا۔ یہ کرتہ بِن سِلا سرا سر بُنا ہوا تھا۔ اِس لئے اُنہوں نے آپس میں کہا کہ اِسے پھاڑیں نہیں بلکہ اِس پر قُرعہ ڈالیں تا کہ معلوم ہو کہ کس کا نکلتا ہے۔" (انجیل بمطابق یوحنا 19: 23-24)
(11) مذکورہ نبوت: اُس کی کسی ہڈی کا نہ توڑا جانا - "وہ اُس کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اُن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی۔" (زبور 34: 20)
نبوت کی تکمیل: "پس سپاہیوں نے آ کر پہلے اور دوسرے شخص کی ٹانگیں توڑیں جو اُس کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے۔ لیکن جب اُنہوں نے یسوع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اُس کی ٹانگیں نہ توڑیں۔" (انجیل بمطابق یوحنا 19: 32-33)
(12) مذکورہ نبوت: بھالے سے پسلی کا چھیدا جانا - "اور وہ اُس پر جس کو اُنہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے اور اُس کےلئے ماتم کریں گے جیسا کوئی اپنے اکلوتے کےلئے کرتا ہے۔" (زکریاہ 12: 10)
نبوت کی تکمیل: "مگر اُن میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اُس سے خون اور پانی بہ نکلا۔" (انجیل بمطابق یوحنا 19: 34)
(13) مذکورہ نبوت: بدکاروں کے ساتھ مرنا اور موت کے وقت سرفرازی پانا - "اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولتمندوں کے ساتھ ہوا۔" (یسعیاہ 53: 9)
نبوت کی تکمیل: "اُس وقت اُس کے ساتھ دو ڈاکو مصلوب ہوئے۔ ایک دہنے اور ایک بائیں۔ ... جب شام ہوئی تو یُوسُف نام ارِمَتِیاہ کا ایک دولتمند آدمی آیا جو خود بھی یسوع کا شاگرد تھا۔ اُس نے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی اور پیلاطس نے دے دینے کا حکم دیا۔ اور یُوسُف نے لاش کو لے کر صاف مہین چادر میں لپیٹا۔ اور اپنی نئی قبر میں جو اُس نے چٹان میں کُھدوائی تھی رکھا۔ پھر وہ ایک بڑا پتھر قبر کے مُنہ پر لُڑھکا کر چلا گیا۔" (انجیل بمطابق متی 27: 38، 57-60)
مسیح نے اپنے شاگردوں پر یہ بات کئی بار واضح کر دی تھی کہ نجات کے اُس کے کام کےلئے صلیب پر اُس کی موت ضروری ہے۔ اِن میں سے اہم ترین وہ وقت تھا جب اپنے پکڑوائے جانے سے پہلے مسیح نے اپنا الوداعی خطبہ دیا۔ آپ نے اِس میں خوشخبری (انجیل) کے حیرت انگیز کام کی بات کی۔
ذیل میں نسل انسانی کی مخلصی کےلئے صلیب پر اپنی موت کے بارے میں مسیح کے چند خاص بیانات کا اقتباس کیا گیا ہے۔
"اُس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اُسے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جائے اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دُکھ اُٹھائے اور قتل کیا جائے اور تیسرے دِن جی اُٹھے۔" (انجیل بمطابق متی 16: 21)
"اور جب وہ گلیل میں ٹھہرے ہوئے تھے یسوع نے اُن سے کہا ابنِ آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے گا۔ اور وہ اُسے قتل کریں گے اور وہ تیسرے دِن زندہ کیا جائے گا۔ اِس پر وہ بہت ہی غمگین ہوئے۔" (انجیل بمطابق متی 17: 22)
"اور جب یسوع یہ سب باتیں ختم کر چکا تو ایسا ہوا کہ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا۔ تم جانتے ہو کہ دو دِن کے بعد عیدِ فسح ہو گی اور ابنِ آدم مصلوب ہونے کو پکڑوایا جائے گا۔" (انجیل بمطابق متی 26: 1-2)
"پھر وہ اُن کو تعلیم دینے لگا کہ ضرور ہے کہ ابنِ آدم بہت دُکھ اُٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہ اُسے ردّ کریں اور وہ قتل کیا جائے اور تین دِن کے بعد جی اُٹھے۔" (انجیل بمطابق مرقس 8: 31)
"اِس لئے کہ وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتا اور اُن سے کہتا تھا کہ ابنِ آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اُسے قتل کریں گے اور وہ قتل ہونے کے تین دِن بعد جی اُٹھے گا۔" (انجیل بمطابق مرقس 9: 31)
"اور وہ یروشلیم کو جاتے ہوئے راستہ میں تھے اور یسوع اُن کے آگے آگے جا رہا تھا۔ وہ حیران ہونے لگے اور جو پیچھے پیچھے چلتے تھے ڈرنے لگے۔ پس وہ پھر اُن بارہ کو ساتھ لے کر اُن کو وہ باتیں بتانے لگا جو اُس پر آنے والی تھیں۔ کہ دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور ابنِ آدم سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اُس کے قتل کا حکم دیں گے اور اُسے غیر قوموں کے حوالہ کریں گے۔ اور وہ اُسے ٹھٹھوں میں اُڑائیں گے اور اُس پر تھوکیں گے اور اُسے کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے اور تین دِن کے بعد وہ جی اُٹھے گا۔" (انجیل بمطابق مرقس 10: 32-34)
"ضرور ہے کہ ابنِ آدم بہت دُکھ اُٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہ اُسے ردّ کریں اور وہ قتل کیا جائے اور تیسرے دِن جی اُٹھے۔" (انجیل بمطابق لوقا 9: 22)
"اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے تا کہ جو کوئی ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔" (انجیل بمطابق یوحنا 3: 14-15)
جو کوئی بھی کتاب رسولوں کے اعمال اور نئے عہدنامہ کے خطوط پڑھتا ہے، دیکھ سکتا ہے کہ وہ عقیدہ و تعلیم جس کی اُنہوں نے منادی کی اور اُسے تمام دُنیا میں پھیلایا، وہ بنیادی طور پر دُنیا کے گناہوں کےلئے مسیح مصلوب کے پیغام پر مبنی تھا۔ زیرِنظر سطور میں رسولوں کے اقوال کی کچھ مثالیں دی گئیں ہیں جنہیں اِس پیغام کی منادی کے بعد رُوح القدس کی تحریک سے اُنہوں نے تحریر کیا۔
اعمال الرسل میں مرقوم ہے کہ پطرس نے یہودیوں سے کہا: "اے اسرائیلیو! یہ باتیں سُنو کہ یسوع ناصری ایک شخص تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم پر اُن معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا جو خدا نے اُس کی معرفت تم میں دِکھائے۔ چنانچہ تم آپ ہی جانتے ہو جب وہ خدا کے مقررہ انتظام اور علم سابق کے موافق پکڑوایا گیا تو تم نے بےشرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلوب کروا کر مار ڈالا" (نیا عہدنامہ، اعمال الرسل 2: 22-23)۔
پولس نے 1-کرنتھیوں 2: 6-8 میں کہا: "ہم خدا کی وہ پوشیدہ حکمت بھید کے طور پر بیان کرتے ہیں جو خدا نے جہان کے شروع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مقرر کی تھی۔ جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خداوند کو مصلوب نہ کرتے۔"
یوحنا رسُول نے نئے عہدنامہ میں درج اپنے خط 1-یوحنا 1: 7 میں لکھا: "لیکن اگر ہم نور میں چلیں جس طرح کہ وہ نور میں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اُس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے۔"
نئے عہدنامہ میں مزید دیکھئے: اعمال الرسل 2: 36; رومیوں 6: 5 -6 ; 1-کرنتھیوں 1: 17-18 ،22-24; 2: 1-2 ; 2-کرنتھیوں 13: 3-4; گلتیوں 3: 13; فلپیوں 2: 5-8; عبرانیوں 12: 2۔
نئے عہدنامہ میں متی انجیل نویس نے ہمیں انجیل بمطابق متی 27: 50-54 میں خبر دی کہ جب مسیح نے اپنی جان دی تو سورج تاریک ہو گیا اور مَقدِس کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو حصے ہو گیا اور زمین لرزی اور چٹانیں تڑک گئیں اور قبریں کُھل گئیں۔ اِس حقیقت نے اپنا اثر عالم طبعی اور نفوس بشری پر بھی ڈالا۔ یہاں تک کہ بت پرست رومی صوبہ دار جو مسیح کو ختم کرنے کا ذمہ دار بنایا گیا تھا، اپنے ساتھیوں سمیت لرز گیا اور وہ مسیح مصلوب پر یہ کہہ کر ایمان لائے "بےشک یہ خدا کا بیٹا تھا۔" فطرت کے مظاہر میں اِس سے پہلے اور اِس کے بعد کسی آدمی کی موت پر اِس طرح کا مظاہرہ کبھی واقع نہیں ہوا۔
یہ حیرت انگیز واقعہ مسیح کے الفاظ مبارکہ کی تکمیل کے طور پر ہوا جو آپ نے فقیہوں فریسیوں سے کہے تھے کہ "اِس مَقدِس کو ڈھا دو تو میں اُسے تین دِن میں کھڑا کر دوں گا" (انجیل بمطابق یوحنا 2: 19)۔ مسیح کی موت کے تیسرے دِن صبح تڑکے ہفتے کے پہلے دِن سب معجزوں سے بڑا معجزہ واقع ہوا۔ جلال کا خداوند مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ اِس حیرت انگیز واقعے کا اعلان آسمان نے خود کیا۔ وقت فجر سے پہلے ایک بڑا بھونچال آیا کیونکہ خداوند کا فرشتہ آسمان سے اُترا، جس نے قبر کے پتھر کو لُڑھکا دیا۔ اُس کی صورت بجلی کی مانند تھی جسے دیکھ کر پیلاطس کے مقرر کئے ہوئے نگہبان مارے خوف کے کانپ اُٹھے۔ یہ نگہبان اِس لئے مقرر کئے گئے تھے کہ سردار کاہنوں نے یہ کہانی گھڑ کے پھیلا دی تھی کہ یسوع کے شاگردوں نے لاش چرانے کا منصوبہ بنایا ہے تا کہ کہہ سکیں کہ وہ جی اُٹھا ہے۔
اُس جلالی صبح عورتوں کا ایک گروہ یسوع کے جسدِ مبارک کو تعظیم کی غرض سے خوشبودار چیزیں لگانے کےلئے قبر پر آیا۔ سب سے پہلے آنے والی عورتوں میں مریم مگدلینی اور یعقوب کی ماں مریم تھیں۔ جب اُنہوں نے قبر کے ُمنہ پر پتھر کو لُڑھکا ہوا پایا تو وہ بہت حیران ہوئیں۔ اِسی دوران خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ ظاہر ہوا، جس نے اُنہیں کہا "تم نہ ڈرو کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم یسوع کو ڈھونڈتی ہو جو مصلوب ہوا تھا۔ وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابق جی اُٹھا ہے۔ آﺅ یہ جگہ دیکھو جہاں خداوند پڑا تھا۔ اور جلد جا کر اُس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور دیکھو وہ تم سے پہلے گلیل کو جاتا ہے۔ وہاں تم اُسے دیکھو گے۔ دیکھو میں نے تم سے کہہ دیا ہے" (انجیل بمطابق متی 28: 5-7)۔
پھر لکھا ہے: "اور دیکھو یسوع اُن سے ملا اور اُس نے کہا سلام! اُنہوں نے پاس آ کر اُس کے قدم پکڑے اور اُسے سجدہ کیا۔ اِس پر یسوع نے اُن سے کہا ڈرو نہیں۔ جاﺅ میرے بھائیوں سے کہو کہ گلیل کو چلے جائیں۔ وہاں مجھے دیکھیں گے" (انجیل بمطابق متی 28: 9-10)۔
مسیح کے جی اُٹھنے کے دِن یہ واقعہ پیش آیا، یہ واقعہ انجیل مُقدّس میں خداوند تعالیٰ کے الہام کی بدولت لکھا گیا، اور کلمتہ اللہ پر ایمان رکھنے والا کوئی بھی فرد اِس سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اور جو اِس کا انکار کرنے کی جرأت کرے تو گویا کہ اُس نے اللہ، فرشتوں اور مسیح سب کو دھوکا دینے والا مان لیا۔
یہودی اور بت پرست دونوں طرح کے ابتدائی مورخین نے صلیب پر مسیح کی موت کی گواہی دی، اور اِس بارے میں واضح طور پر لکھا۔
(1) ایک بت پرست مورخ ٹیسیٹس نے 55ء میں اپنی تحریروں میں مسیح کی موت اور اُس کے دُکھوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔
(2) یہودی مورخ یوسیفیئس مسیح کی مصلوبیت کے چند سال بعد پیدا ہوا، اور اُس نے اپنے لوگوں کی تاریخ بیس جلدوں میں قلمبند کی۔ اور اپنی تحریروں میں اُس نے پیلاطس کے حکم سے مسیح کی مصلوبیت کا تفصیلی بیان درج کیا ہے۔
(3) لوسیان (100ء) نامی ایک قابل ذِکر یونانی مورخ نے مسیح کی موت اور مسیحیوں کے بارے میں لکھا ہے۔ چونکہ وہ خود اپکوری فلسفہ کا ماننے والا تھا، اِس لئے وہ مسیحیوں کے ایمان اور مسیح کی خاطر ہر دم اُن کے موت کےلئے تیار رہنے کو سمجھ نہ سکا۔ اپنی تحریروں میں اُس نے مسیحیوں کے بقائے رُوح کے عقیدے اور فردوس کےلئے اُن کے متمنی ہونے کا مذاق اُڑایا ہے۔ اُس نے اُنہیں فریب کھائے ہوئے لوگوں میں شمار کیا جو وقتِ حاضر میں زندگی سے لطف اندوز ہونے کی نسبت موت کے بعد کی غیر یقینی باتوں سے لپٹے ہوئے ہیں۔ اُس کی تحریروں میں مسیح کی بابت ایک اہم اشارہ یوں ملتا ہے "مسیحی اُس عظیم انسان کی پرستش کرتے ہیں جسے فلسطین میں اِس لئے مصلوب کیا گیا کہ وہ دُنیا میں ایک نیا مذہب لے کر آیا تھا۔"
اِس ظالم حاکم نے قیصر روم تبریاس کو مسیح کی مصلوبیت، اُس کے دفن کئے جانے، اور پھر اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی ایک مفصل رپورٹ بھیجی جو رومی دستاویزات کا حصہ ہے۔ یہ وہی ماخذ ہے جسے بنیاد بنا کر مسیحی عالم طرطلیان نے مسیحیت کے دفاع پر اپنی مشہور تحریر لکھی۔
یہ ایک ایسی مادی گواہی ہے جس کا انکار تو ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی ممتائز نشان یا علامت ہے، جیسے یہودیوں کے ہاں چھ تکونی ستارہ اور مسلمانوں میں ہلال کا نشان ہے۔ صلیب کا نشان مسیحیت کے ابتدائی دور سے جانا پہچانا ہے۔ ابتدائی مسیحیوں نے صلیب کے نشان کو اپنے مُردوں کی قبروں پر کھودا ہوا ہے۔ اِسی طرح یہ نشان روم میں اُن زمین دوز قبرستانوں میں بھی ملتا ہے جہاں مسیحی ایذارسانی کے وقت آپس میں ایک دوسرے سے ملا کرتے تھے۔
عشائے ربانی کا ضابطہ صلیب پر مسیح کی موت کی یادگاری کےلئے منایا جاتا ہے اور تمام گزرے زمانوں میں ایک زندہ گواہی ہے کہ مسیح نے مصلوب ہو کر اپنی جان دی۔ یہ وہ فریضہ ہے جسے خود مسیح نے اُس رات مقرر کیا جس رات اُسے دھوکا دے کر پکڑوایا گیا، اور اپنے شاگردوں کو اِسے منانے کا حکم دیا۔ یہ اُس کی کفارہ بخش موت کی مسلسل یادگار ہے، اور مسیح کی مصلوبیت کی ایسی مضبوط دلیل ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ رسولوں نے اِس حکم کی سختی سے پابندی کی، اور شروع سے ہی اِسے کلیسیا کے سپرد کیا، جیسے کہ پولس رسول نے نئے عہدنامہ میں 1-کرنتھیوں 11: 23-26 میں لکھا: "کیونکہ یہ بات مجھے خداوند سے پہنچی اور میں نے تم کو بھی پہنچا دی کہ خداوند یسوع نے جس رات وہ پکڑوایا گیا روٹی لی۔ اور شکر کر کے توڑی اور کہا یہ میرا بدن ہے جو تمہارے لئے ہے۔ میری یادگاری کے واسطے یہی کیا کرو۔ اِسی طرح اُس نے کھانے کے بعد پیالہ بھی لیا اور کہا یہ پیالہ میرے خون میں نیا عہد ہے۔ جب کبھی پیو میری یادگاری کےلئے یہی کیا کرو۔ کیونکہ جب کبھی تم یہ روٹی کھاتے اور اِس پیالے میں سے پیتے ہو تو خداوند کی موت کا اظہار کرتے ہو۔ جب تک کہ وہ نہ آئے۔"
یہودیوں کے ہاں تالمود مُقدّس کتاب سمجھی جاتی ہے، یہ بڑی بڑی جلدوں پر مشتمل ہے اور کوئی بھی دلچسپی رکھنے والا فرد اِسے دیکھ سکتا ہے۔ اِس کی ایک نقل جو ایمسٹرڈیم میں 1943ء میں شائع ہوئی اُس کے صفحہ نمبر 42 پر لکھا ہے "یسوع کو فسح سے ایک دِن پہلے مصلوب کیا گیا۔ ہم نے اُسے چالیس دِن تک اِس بارے میں متنبہ کیا کہ اُسے قتل کر دیا جائے گا کیونکہ وہ ایک جادوگر تھا اور اپنے فریبوں سے اُس نے اسرائیل کو گمراہ کیا تھا۔ اِس بات کی بھی پیشکش کی گئی کہ اگر کوئی اُس کی طرف سے دفاع کےلئے آئے تو آ سکتا ہے لیکن جب کوئی بھی نہ آیا تو اُسے فسح کی شام کو مصلوب کر دیا گیا۔ کسی میں کیا مجال تھی کہ اُس کا دفاع کرتا؟ کیا وہ فسادی نہ تھا؟ کتاب اِستثنا 13: 8-9 میں لکھا ہے ’تُو اِس پر اُس کے ساتھ رضامند نہ ہونا اور نہ اُس کی بات سُننا۔ تُو اُس پر ترس بھی نہ کھانا اور نہ اُس کی رعایت کرنا اور نہ اُسے چھپانا۔ بلکہ تُو اُس کو ضرور قتل کرنا۔'"
اِن ایام میں ہمیں یہ سوال اکثر سُننے کو ملتا ہے۔ مسیحی ایمان کے عقیدہ میں ہمیں اِس کا جواب بڑے واضح طور پر ملتا ہے: "وہ ہم آدمیوں کےلئے اور ہماری نجات کے واسطے آسمان پر سے آیا۔ اور رُوح القدس کی قدرت سے کنواری مریم سے مجسم ہوا۔ اور انسان بنا۔ اور پنطیس پیلاطس کے عہد میں ہمارے لئے مصلوب بھی ہوا۔ اُس نے دُکھ اُٹھایا اور دفن ہوا۔ اور تیسرے دِن پاک نوشتوں کے بموجب جی اُٹھا۔ اور آسمان پر چڑھ گیا۔"
آگے صلیب پر مسیح کی کفارہ بخش موت کے لازمی ہونے کے چند ثبوت دیئے جا رہے ہیں:
بلاشک و شبہ تمام انسانوں کو نجات کی احتیاج ہے کیونکہ ہر انسانی دِل گناہ سے متاثر ہے۔ نئے عہدنامہ کی کتاب رومیوں میں لکھا ہے "سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔" یسعیاہ نبی نے اپنے صحیفہ میں 53: 6 میں لکھا ہے "ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا، پر خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔ نئے عہدنامہ میں یوحنا رسول نے 1-یوحنا 1: 8-9 میں کہا "اگر ہم کہیں کہ ہم بےگناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں اور ہم میں سچائی نہیں۔ اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔ اگر ہم کہیں کہ ہم نے گناہ نہیں کیا تو اُسے جھوٹا ٹھہراتے ہیں اور اُس کا کلام ہم میں نہیں۔"
ہر انسان کے دِل میں اِس با ت کا طبعی شعور پایا جاتا ہے کہ صرف توبہ ماضی کے گناہوں کو مٹا نہیں سکتی۔ معافی حاصل کرنے کا بہت زیادہ پُراثر ذریعہ ہونا چاہئے، اور یہ وسیلہ کفارہ ہے۔ بصورت دیگر ہم کیسے زمانہ قدیم سے موجود قربانیوں اور دُنیا کے زیادہ تر ادیان میں اُن کی آگہی کی توجیہہ پیش کر سکتے ہیں؟
کیا یہ اِس لئے نہیں ہے کہ یہ خیال گناہگار کے دِل میں اُس کے گناہوں کے کفارہ کی حاجت کو سیری دیتا ہے۔
سبھی یہ مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ قدّوس ہے جبکہ انسان خاطی و گناہگار ہے۔ گناہ خدا کے نام کی بےعزتی ہے، اور خود انسان کےلئے باعث تباہی و رسوائی ہے جسے خدا نے اپنی صورت و شبیہ پر خلق کیا ہے۔ غرض، گناہ کے باعث انسان خدا تعالیٰ کے قہر و عدالت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جس سے اُس وقت تک چھٹکارا نہیں ہو سکتا جب تک کہ مجرم سزا نہ پائے۔ توبہ کا عمل جو خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کی طرف لوٹ آنے کا نام ہے انسان کو راستباز نہیں ٹھہراتا۔ خدائے قدوس کے عدل و انصاف کا تقاضا محض توبہ کرنے سے پورا نہیں ہوتا۔
الہٰی شریعت عدالت کے تقاضے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی، کیونکہ لکھا ہے "گناہ کی مزدوری موت ہے۔" یہ مجرم سے قصاص کی طالب ہوتی ہے۔ وہ قانون و شریعت جو مجرم کو چھوڑ دے، صحیح قانون یا شریعت نہیں۔ شریعت کی حیثیت اُس اٹارنی جنرل (مختار اعلیٰ وکیل) کی ہے جو شریعت کے اِس تقاضے سے پیچھے نہیں ہٹتا کہ مجرم کو سزا دی جائے، ورنہ اُس کی ہنسی اُڑائی جائے گی کہ عدل الہٰی کا رکھوالا ہو کر وہ اُس کی حفاظت نہ کر سکا۔ مختصر یہ کہ الہٰی شریعت مجرم کی سزا یا اُس کے گناہوں کے کفارے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہاں ہمارے دِل شکرگزاری سے لبریز ہیں کہ مسیح نے انسان کےلئے اِس کفارے کو ادا کیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر وہ فرد جو اُسے نجات دہندہ کے طور پر قبول کرتا ہے اُس کے نام میں اپنی خطاﺅں سے مغفرت حاصل کر لیتا ہے۔
انسان کی کیا ہی خوش بختی ہے کہ مسیح کی طرف سے پیش کردہ کفارہ ایسا جامع ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسیح نے اُس کےلئے جان نہیں دی۔ یسعیاہ نبی نے کیا خوب کہا ہے: "اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطا کاروں کی شفاعت کی" (یسعیاہ 53: 12)۔ پولس نے عبرانیوں 5: 8-9 میں کہا "اور باوجود بیٹا ہونے کے اُس نے دُکھ اُٹھا اُٹھا کر فرمانبرداری سیکھی۔ اور کامل بن کر اپنے سب فرمانبرداروں کےلئے ابدی نجات کا باعث ہوا۔"
یہ تو سب ہی کو معلوم ہے کہ ہر انسان میں اخلاقی طبیعت بھی رکھی گئی ہے اور ضمیر بھی ہے جو عدل اور قدوسیت کو بنظر تحسین دیکھتا ہے۔ اگر وہ اپنے گناہ کو دیکھ کر کوئی کفارہ نہیں پاتا تو وہ اپنی روح میں مضطرب اور اپنے اخلاقی شعور میں پریشان رہتا ہے۔
یہ بھی امرِ مُسلّم ہے کہ انسان گناہ کی حالت میں اپنے ہبوط و سقوط کے باوجود ایک زندہ ضمیر رکھتا ہے، یہ وہ اخلاقی قوت ہے جو بھلے اور بُرے میں امتیاز کر سکتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ کیا باعثِ عتاب ہے اور کیا باعثِ ثواب ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ قوت ہے جو خدا تعالیٰ کی آواز کی صدائے باز گشت ہے جسے اُس نے اِس مناسب طور پر متعین کر رکھا ہے کہ کوہ سینا پر جو الہٰی احکام دیئے گئے اُنہیں قبول کرتی ہے۔ لیکن اِس بڑی اہمیت کی حامل ہونے کے باوجود یہ انسان کو فیصلہ عدل سے نہیں بچا سکتی۔ یہ انسان کے میلان گناہ پر اثر تو ڈال سکتی ہے لیکن اُسے بےخطا سمجھ کر بری نہیں کر سکتی۔ یہ شریعت کو اچھا سمجھتی ہے لیکن شریعت بھی انسان کو بری نہیں کر سکتی۔ پولس رسول نے کہا کہ شریعت تو ہماری مسیح تک راہنمائی کرتی ہے۔
سو، ضمیر کی آواز یا یوں کہیں کہ احساس گناہ ہمارے واسطے ایک درمیانی کو مدد کےلئے پکارتا ہے جو گناہ کا کفارہ دے سکے۔ لیکن اِس سچائی کی اہمیت کے باوجود بھی لوگ ضمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کےلئے ذاتی راستبازی اور اعمال پر بھروسا کرتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ اعمال حسنہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے ہم پلّہ ہیں۔
اگر کفارہ لازمی نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ اُس کا انتظام نہ کرتا۔ انجیل بمطابق متی 20: 28 میں مسیح کے الفاظ مرقوم ہیں: "ابنِ آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔" انجیل بمطابق یوحنا 3: 16 میں یسوع کے الفاظ لکھے ہیں: "کیونکہ خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔"
نئے عہدنامہ کی کتاب گلتیوں 4: 4 میں پولس رسول نے لکھا: "لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا، اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا۔"
یہ جلالی آیات ظاہر کرتی ہیں کہ خداوند تعالیٰ انسان سے رحمت سے بھرپور حیرت انگیز محبت کرتا ہے۔ یہ محبت یسوع میں مجسم ہوئی جسے مسیح نے فدیہ و کفارہ کے ذریعے ظاہر کیا اور صلیب پر تکمیل تک پہنچا دیا تا کہ سب لوگ جان لیں کہ خدا تعالیٰ صرف قدوس و عادل نہیں بلکہ محبت بھی ہے۔ یقیناً فدیہ و کفارہ خطاکار کے ضمیر کو اِس محبت کی وجہ سے جھنجھوڑ دیتا ہے اور اُسے صلیب سے منسلک کرتا ہے، جس کے بغیر خدا تعالیٰ اپنی محبت کو ثابت نہیں کر سکتا تھا۔ اِسی لئے مسیح نے فرمایا: "میں اگر زمین سے اُونچے پر چڑھایا جاﺅں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا۔"
عزیز قاری، ہم ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں ہر طرف یہی صدا ملتی ہے کہ دیکھو یہ نیا نظام ہے، اِس پر عمل کرو۔ یہ ایک نئی اخوت ہے اِسے اپناﺅ، ہم نے اپنا دستِ تعاون بڑھایا ہے۔ لیکن ہر وہ پکار جو مسیح کی صلیب کے بغیر ہے، بیکار ہے۔ صلیب کے بغیر تمام نئے نظام ناکام ہیں، نئی اخوت جھوٹی ہے، اور دستِ تعاون ہتھیار گھما کر وار کرنے والا ہاتھ بن جاتا ہے۔
ہمارے عہد کے لوگ بھی ویسی ہی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں جو یونانیوں اور قدیم یہودیوں نے کی کہ اپنی سوچ و خیالات میں صلیب کو بیوقوفی اور کمزوری، غیر اہم اور ٹھوکر گردانا۔ اپنے غلط اندازے میں وہ لوگ مدد کی پکار بلند کرنا یا یہ کہنا بھول چکے ہیں "دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔" وہ حکمت کے اُس کلام کو بھول چکے ہیں جو امثالِ سلیمان 14: 34 میں لکھا ہے: "صداقت قوم کو سرفرازی بخشتی ہے، پر گناہ سے اُمتوں کی رسوائی ہے۔"
اگر آپ نے اِس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طورپر لکھیں۔
مسیح کی موت کے بارے میں مسلم حضرات میں دو قسم کے خیال پائے جاتے ہیں۔ آپ کو اِن میں سے کون سا زیادہ قرین قیاس نظر آتا ہے؟
مسیح کی زمینی زندگی کے آخری ایام کے بارے میں مکمل سچائی کی واقفیت کےلئے قرآن کے علاوہ جستجو کرنے والے کو کہاں رجوع کرنا چاہئے؟
نئے عہدنامہ میں کتاب 1-کرنتھیوں 15: 1-4 میں پولس رسول نے انجیل کو مختصراً کس طرح بیان کیا؟
جزیرة العرب کے مسیحیوں میں پھیلی ہوئی بدعت پر مبنی غلطی کو مختصر طور پر بیان کیجئے۔
صلیب سے بیزاری کا خیال اسلام کو کہاں سے ورثہ میں ملا؟
شبیہ کے نظریہ پر تبصرہ کیجئے کہ مسیح صرف مصلوب ہوئے لگ رہے تھے۔
مسیح کی مصلوبیت سے متعلق الرازی کے شبیہ کے نظریہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
قرآن کی کوئی ایک آیت بتائیے جو مسیح کی موت کے بارے میں بتاتی ہے۔
قرآن میں یہودیوں کی بابت کہاں لکھا ہے جہاں اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ "ہم نے مسیح کو قتل کر دیا ہے"؟
انجیل مُقدّس میں مسیح کی مصلوبیت کے تعلق سے پیشین گوئیوں میں سے کسی ایک پیشین گوئی اور اُس کے پورا ہونے کے بارے میں متعلقہ آیت کو تحریر کریں۔
کس پیشین گوئی اور اُس کے پورا ہونے نے آپ کو زیادہ متاثر کیا ہے؟
اپنی صلیبی موت کے بارے میں جو مکاشفہ مسیح نے پہلے ہی سے کر دیا تھا، آپ اُس کے بارے میں کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟
مسیح کے بارے میں رسولوں کی گواہی اور پیغام کا خاص موضوع کیا ہے؟
جب مسیح نے صلیب پر اپنی جان دی تو اُس وقت کیا کچھ واقع ہوا؟
کیا آپ مُردوں کی قیامت پر ایمان رکھتے ہیں؟ آپ کی مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بارے میں کیا رائے ہے؟
مسیح کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بارے میں کوئی ایک تاریخی ثبوت لکھئے۔
مسیحیت کا بنیادی نشان کیا ہے؟ اور ایسا کب سے ہے؟
عشاء ربانی کا باطنی و روحانی مقصد کیا ہے؟
کیا یہودی تالمود میں مسیح کی مصلوبیت کا کوئی اشارہ موجود ہے؟
آپ کی رائے میں مسیح کو کیوں صلیب دی گئی؟
انجیل بمطابق یوحنا 3: 16 کا حوالہ لکھئے اور یاد کیجئے۔
The Good Way
P.O.Box 66
CH - 8486
Rikon
Switzerland