Table of Contents
قرآن میں بہت سے ایسے الفاظ ملتے ہیں جن سے گناہ اور خطاﺅں کی تعبیر ہوتی ہے۔ مثلاً الذنب، الفحشا، الوزر، الضلال، الکُفر، الظُلم، الاثم، الفجور، الخطیئہ، الشر، السیّئہ، السوئ، الفساد، الفسق، البہتان، العصیان وغیرہ۔
الف- الذنب:
جرم، بدکاری وغیرہ کے مطلب میں 93 آیاتِ قرآنیہ میں یہ لفظ الذنب استعمال ہوا ہے۔ اِس موضوع و مفہوم میں سب سے زیادہ اہم اور اِس کے خیال و معنٰی کی ترجمانی کرنے والی آیات سورة الفتح 1:48-2 ہیں:
"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًۭا مُّبِينًۭا. لِّيَغْفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَطًۭا مُّسْتَقِيمًۭا"
"(اے محمد) ہم نے تم کو فتح دی۔ فتح بھی صریح اور صاف۔ تا کہ خُدا تیرے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پُوری کر دے اور تم کو سیدھے رستے چلائے۔"
ب- الفحشا:
یہ لفظ بھی بُرے کام، جُرم اور زنا کے مطلب میں آتا ہے خصوصاً حرامکاری کے۔ قرآن اِس سے منع کرتے ہوئے سورة الانعام 151:6 میں کہتا ہے:
"وَلَا تَقْرَبُوا۟ ٱلْفَوَحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ"
"اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ اُن کے پاس نہ پھٹکنا۔"
ج- الوزر:
الوزر اُس گناہ کے جرم میں آتا ہے جو اِنسان پر بوجھ بن جاتا ہے مثلاً سورة الم نشرح 2:94 میں یوں آیا ہے:
أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ. وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ. ٱلَّذِىٓ أَنقَضَ ظَهْرَكَ."
"(اے محمد) کیا ہم نے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ (بیشک کھول دیا)۔ اور تم پر سے بوجھ بھی اُتار دیا۔ جس نے تمہاری پیٹھ توڑ رکھی تھی۔"
امام فخر الدین رازی نے اِس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں یوں لکھا ہے: "حضرت جبرائیل محمد کے پاس آئے اور اُن کے سینہ کو چاک کر کے دل کو باہر نکالا اور اُس کو دھویا اور تمام معاصی (گُناہ و نافرمانیاں) سے اُسے پاک و صاف کیا اور اُس میں ایمان و علم بھر دیا۔"
ابنِ ہشام نے محمد بن اسحاق سے یہ روایت کی ہے کہ محمد کے صحابہ میں سے کُچھ نے یہ سوال کیا کہ اے جناب اپنے کچھ حالات بیان کیجئے۔ تب آپ نے کہا: "دودھ پی کر میں نے پرورش پائی۔ میں اپنے گھروں کے پیچھے اپنے ایک بھائی کے ساتھ تھا اور ہم اپنی بکریوں کے بچوں کو چرا رہے تھے کہ دو شخص سفید کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس برف سے بھرا ہوا ایک سونے کا طشت لے کر آئے۔ اُنہوں نے مجھے پکڑا اور میرا پیٹ چاک کیا اور میرے دل کو نکالا اور اُسے بھی چاک کیا اور اُس میں سے ایک کالا گوشت کا ٹکڑا نکالا اور پھینک دیا۔ پھر اُنہوں نے میرا دِل اور پیٹ اُس برف سے یہاں تک دھویا کہ اُس کو پاک کر دیا فرمایا پھر اُن میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا اِنہیں اِن کی امت کے دس شخصوں کے مقابل تولو۔ پس اُس نے مجھے اُن کے ساتھ تولا تو میں اُن سے وزن میں بڑھ گیا۔ پھر اُس نے کہا اِن کی امت کے سو شخصوں کے ساتھ تولو جب اُس نے مجھے اُن کے ساتھ تولا تو میں اُن سے بھی وزن میں بڑھ گیا پھر اُس نے کہا اُن کی امت کے ہزار افراد کے ساتھ تولو۔ اُس نے مجھے ہزار کے ساتھ وزن کیا تو جب بھی میں وزن میں بڑھ گیا (یہ دیکھ کر) اُس نے کہا اِن کو چھوڑ دو۔ اللہ کی قسم اگر تو اِنہیں اِن کی (پوری) امت کے مقابل بھی تولے گا تو یہ بڑھ جائیں گے۔"
د- الضلال:
الضلال کا معنٰی گمراہی اور بھٹک جانا ہے۔ سورة الضحیٰ 6:93-8 میں یہ لکھا ہے:
"أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًۭا فَـَٔاوَىٰ. وَوَجَدَكَ ضَآلًّۭا فَهَدَىٰ. وَوَجَدَكَ عَآئِلًۭا فَأَغْنَىٰ."
"اور تمہیں پروردگار عنقریب وہ کچھ عطا فرمائیگا کہ تم خوش ہو جاﺅ گے۔ بھلا اُس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ (بیشک دی)۔ اور رستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا رستہ دکھایا۔"
الکلبی نے اِس لفظ کی تفسیر کفر سے کی ہے۔
ہ- الکُفر:
لفظ کُفر کا مطلب ہے چُھپانا اور تاریکی، لیکن یہ عموماً اِلحاد اور لاخُدا پرستی جیسے مطلب میں آتا ہے۔ قرآن میں سورة الحجرٰت 7:49 میں ایمانداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
"وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ ٱلْكُفْرَ وَٱلْفُسُوقَ وَٱلْعِصْيَانَ"
اور (اللہ نے) کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کر دی۔"
علامہ زمخشری نے اِس کی تفسیر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:
یہاں تین باتیں ہیں۔
۱لف- خُدا کا انکار کرنا کُفر ہے۔
ب- فسوق کذب و دروغ ہے۔
ج- اور عصیاں سرکشی و نافرمانی ہے۔
و- الظُلم:
لفظ ظلم غیر منصفانہ طرزعمل کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ لفظ سورة الشُعرآء 10:26 میں مرقوم ہے جہاں موسیٰ نبی کی مصریوں کی طرف رسالت کا ذِکر آیا ہے اور فرعون اور اُس کی قوم کو "الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ" (ظالم لوگوں) کہا گیا ہے۔
ز- الاثم:
لفظ اثم جُرم، گناہ اور بدکرداری کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سورة الانعام 120:6 میں لکھا ہے:
"اور ظاہری اور پوشیدہ (ہر طرح کا) گناہ ترک کر دو۔ جو لوگ گناہ (الاثم) کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے۔"
ح- الفجور:
لفظ فجور بدکرداری اور فحاشی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سورة الانفطار 14:82-15 میں لکھا ہے:
"وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ. يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ."
"اور بدکردار دوزخ میں۔ (یعنی) جزا کے دن اُس میں داخل ہوں گے۔"
ط۔- الخطیئہ:
اِس لفظ کے معنٰی قصور اور جرم کے ہیں۔ سورة النساء 112:4 میں لکھا ہے:
"اور جو شخص کوئی قصور (خَطِيئَةً) یا گناہ تو خود کرے لیکن اُس سے کسی بےگناہ کو متہم کرے تو اُس نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔"
اِس آیت میں گناہ کےلئے تین الفاظ آئے ہیں: الخطیئہ، الاثم اور البہتان۔ امام الرازی نے اِن میں تمیز یوں بیان کی ہے:
الف- الخطیئہ (خطا) گناہ صغیرہ ہے اور الاثم گُناہ کبیرہ ہے۔
ب- الخطیئہ (خطا) کر گزرنے والا مُرتکب بطور خود متاثر ہوتا ہے لیکن الاثم دوسروں کے خلاف جرم ہے جیسے ناانصافی اور قتل۔
ج- الخطیئہ (خطا) ایک ایسا فعل ہے جسے کسی طرح بھی سرزد نہیں ہونا چاہئے، نہ ہی انجانے میں اور نہ ہی جان بُوجھ کر۔ لیکن الاثم وہ گناہ ہے جو قصداً اور عمداً کیا جائے۔
د- تاہم البہتان کسی بے قصور کےلئے قابل نفرت بدگمانی پیدا کرنا ہے۔ بُہتان تراش کےلئے دُنیا میں پھٹکار ہے اور اُسے آخرت میں عذاب شدید کا مُستحق کہا گیا ہے۔
ی- الشر:
اِس لفظ کا مطلب برائی ہے۔ سورة الزلزال 8:99 میں لکھا ہے:
"اور جس نے ذرہ بھر برائی (شَرًّا) کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لیگا۔"
ابو جعفر الطبری نے یونس بن عبد الاعلی سے اور اُنہوں نے ابن وھب سے اور اُنہوں نے یحیی بن عبد اللہ سے اور اُنہوں نے ابی عبد الرحمن الحبلی سے اور اُنہوں نے عبد اللہ بن عمرو ابن العاص سے روایت کرتے ہوئے کہا:
"جب یہ سورة نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر بھی تشریف رکھتے تھے اِس آیت کو سُن کر رو پڑے۔ رسول اللہ نے پوچھا کہ 'اے ابوبکر کس بات نے تمہیں آمادہ بگریہ کیا؟' اور اُنہوں نے جواب دیا 'اِس سورة نے۔' تب رسول اللہ نے کہا 'اگر تم لوگ گناہ اور خطائیں نہ کرتے (تخطﺅن و تذنبون) کہ اللہ اُن کو معاف کر دے تو وہ ایک ایسی اُمّت پیدا کرتا جو خطائیں بھی کرتی اور گناہ بھی اور اللہ اُن کی مغفرت کر دیتا۔'"
ک- السیّئہ:
لفظ السیّئہ کا مطلب جرم اور برائی ہے۔ سورة النمل 90:27 میں لکھا ہے:
"اور جو برائی لے کر آئے گا (وَ مَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ) تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔"
حضرت ابنِ عباس نے اِس آیت کے بارے میں کہا ہے کہ:
"اِس آیت کا نزول تو مُسلمانوں پر بُہت شاق گذرا، اور وہ جناب محمد سے بولے کہ ہم میں ایساکون ہے جو سیئہ (بدیوں) کا مُرتکب نہیں ہوا ہے، پھر فرمائیے کہ جزا اور بدلہ کا کیا عالم ہو گا؟ آپ نے فرمایا اللہ نے اطاعت کے بدلے دس حسنہ (نیکیاں) مُقرر کر دی ہیں، اور سرکشی (معصیت) پر صرف ایک ہی سزا۔ تو اَب جسے ایک بُرائی کا بدلہ ملا تو دس نیکیوں میں سے صرف ایک ہی تو کم ہو گی پھر بھی تو بچی رہیں گی۔"
ل- السوء:
یہ لفظ بدی یا برائی کےلئے استعمال ہوا ہے۔ سورة نساء 123:4 میں لکھا ہے:
"جو شخص برے عمل کرے گا (مَن يَعْمَلْ سُوءاً) اُسے اُسی (طرح) کا بدلہ دیا جائیگا اور وہ خدا کے سوا نہ کسی کو حمایتی پائیگا اور نہ مددگار۔"
م- الفساد:
اِس لفظ کا مطلب خراب یا بگاڑ ہے۔ سورة البقرة 205:2 میں لکھا ہے:"اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تا کہ اُس میں فتنہ انگیزی (لِيُفْسِدَ) کرے۔ اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کر دے اور خدا فتنہ انگیزی (الفَسَاد) کو پسند نہیں کرتا۔"
ن- الفسق:
اِس لفظ کا مطلب خباثت اور بدکرداری ہے۔ سورة البقرة 99:2 میں لکھا ہے:
"اور ہم نے تمہارے پاس سلجھی ہوئی آیتیں ارسال فرمائی ہیں اور اُن سے انکار وہی کرتے ہیں جو بدکردار (الْفَاسِقُونَ) ہیں۔"
مُفسروں کے مطابق فسق کا مطلب اِنسان کا اُس حد سے باہر نکل جانا ہے جو اللہ نے مُقرر کر دی ہے۔ عُلما کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہر فاسق کافر ہوتا ہے۔
ص- البہتان:
اِس لفظ کا مطلب تہمت یا جھوٹ ہے۔ سورة النور 16:24 میں لکھا ہے:
"اور جب تم نے اُسے سُنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ (پروردگار) تُو پاک ہے یہ تو (بہت) بڑا بہتان (بُهْتَانٌ عَظِيمٌ) ہے۔"
ع۔ العصیان:
گناہ کی وضاحت کرنے والے اَور بھی بہت سے قرآنی الفاظ ہیں لیکن یہاں ہم سب کا ذکر نہیں کر سکتے۔ یہاں گناہ پر بحث کو ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ قرآن 'اصل گناہ' کے وجود کے بارے میں سکھاتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ یہ آدم اور حوا اور اُن کی اولاد کی گراوٹ کی وجہ تھا۔ بُہت سی قُرآنی آیات میں سے ہم چند واضح اور سمجھنے کےلئے آسان مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ مثلاً سورة البقرة 35:2 -37 میں لکھا ہے:
"اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاﺅ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہو جاﺅ گے۔ پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش و نشاط) میں تھے اُس سے اُن کو نکلوا دیا تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں سے) چلے جاﺅ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کر دیا گیا) ہے۔ پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اُس نے اُن کا قصور معاف کر دیا بیشک وہ معاف کرنیوالا (اور) صاحبِ رحم ہے۔"
مسلم علما دین اِس بارے میں متفق نہیں کہ آدم اور حوا اِس ہبوط و سقوط سے پہلے کس مقام میں رہتے تھے، اُن کی اِس بارے میں طرح طرح کی آراء ہیں۔ مثلاً ابوقاسم البلخی اور ابو مسلم الاصفہانی کی رائے ہے کہ وہ جنت تھی اور اِسی زمین پر تھی۔ اُنہوں نے گراوٹ (الاھباط) کی تفسیر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا کی ہے، کیونکہ قرآن نقل مکانی کےلئے فعل "اھبط" استعمال کرتا ہے یعنی کسی شہر میں جا اُترنا (سورة البقرة 61:2)۔ امام الجبائی کا کہنا ہے کہ جنت ساتویں آسمان پر تھی کیونکہ کہا گیا ہے کہ وہ وہاں سے گرائے گئے۔
یاد رہے کتاب مُقدّس (بائِبل) اور قرآنی بیان میں اِس بات پر اتفاق ہے کہ آدم کی سرکشی باغ کے وسط میں پائے جانے والے درخت کا پھل کھانا تھی۔ تاہم مسلم علماء کا اِس میں اختلاف ہے کہ اُس درخت کی نوعیت کیا تھی۔ اُن کی مختلف آراء ہیں جن کی بنیاد اسلامی روایات پر ہے۔ مثلاً:
ابنِ اسحاق نے عبد الرزاق سے اقتباس کرتے ہوئے کہا، "ابن عیینة اور ابن المبارک اور الحسن بن عمارہ اور منھال بن عمرو اور سعید بن جبیر اور ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ نے جس درخت سے آدم و حوا کو روکا تھا وہ سنبلہ یا خوشہ تھا۔"
ابن حمید نے بسلسلہ وہب ابن منبہ الیمانی نے یہ کہا کہ وہ گیہوں کا درخت تھا جس کی بالوں کا ایک ایک دانہ گائے کے گردہ کے برابر تھا جو مکھن سے زیادہ نرم اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ ابوبکر صدیق نے بھی رسول اللہ سے اِس بارے میں ایک بار پوچھا تو اُنہیں یہ بتایا گیا کہ وہ شجر مبارک سنبلہ تھا۔
سلمة سے روایت ہے کہ اُس نے محمد بن اسحاق سے سُنا اور اُس نے یعقوب بن عتبة سے سُنا کہ یہ وہ درخت تھا جس سے فرشتے خود کو رگڑتے رہتے ہیں اور اِسی کی بدولت زندہ و جاوید بنے ہوئے ہیں۔
ابن وقیع نے کہا کہ اُس نے عبد اللہ سے سُنا اور اُس نے اسرائیل سے سُنا اور اُس نے السدی سے سُنا اور اُس نے حضرت ابن عباس سے سُنا کہ وہ انگور کا درخت تھا۔
مجاہد اور قتادہ نے اِسے انجیر کا درخت بتایا ہے۔
الربیع ابن اُنس نے اِس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایک درخت تھا جس کا پھل کھانے سے پاخانہ کی حاجت ہوتی تھی اور جنت میں گندگی کی کوئی گنجائش نہیں!
قرآنی بیان کتابِ مُقدّس کی کتاب پیدایش سے اِس ضمن میں ملتا جلتا ہے کہ آدم و حوا نے اللہ کے کہے ہوئے حکم کو توڑنے میں جو قدم اُٹھایا تھا وہ شیطان کے اُکسانے پر ہی اُٹھایا تھا۔ کیونکہ لکھا ہے کہ "شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا۔"
اِبن جریح نے ابنِ عباس کا اقتباس کرتے ہوئے کہا ہے کہ الفاظ "فَاَزَلَھُمَا الشَّیطٰنُ" کا مطلب ہے "اغواھما" یعنی شیطان نے اُن کو بہکایا تھا۔
قرآنی تعلیم کے لحاظ سے حضرت آدم نبیوں میں سے ایک نبی ہیں اور اسلامی تعلیم کے مطابق انبیا معصوم ہوتے ہیں۔ اِس لحاظ سے لوگوں کو اِس حادثہء ہبوط آدم و حوا کی تاویل میں مشکل پیش آتی ہے۔ مُفسّروں نے اِس مشکل سے نکلنے کی ایک کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ جس وقت اُن سے یہ لغزش ہوئی تھی اُس وقت وہ نبی نہیں تھے۔ بعد میں نبی بنائے گئے لیکن اِس رائے کو اجماع حاصل نہیں۔ پھر مُفسّروں کی ایک جماعت نے یہ مانا کہ آدم تھے تو شروع ہی سے نبی، لیکن اُن کی لغزش نتیجہ تھی اُن کے نِسیان اور بھول کا کیونکہ وہ ناسی تھے یعنی نِسیان بھول چوک کا پُتلا تھے۔ اُن لوگوں نے آدم کی مثال اُس روزہ دار سے دی جو بوجہ کثرت مشاغل کے بےخیالی میں کُچھ کھا پی لے، سہواً اور نِسیان کی وجہ سے نہ کہ عمداً و قصداً۔ پھر ایک روایت یہ بھی ہے کہ حوا نے آدم کو خمر (شراب) پلائی تھی اور اُن پر کُچھ نشہ غالب آیا کہ اُس ممنوع درخت کے پھل سے کُچھ کھا لیا چنانچہ یہ غلطی نشہ کے زور میں سرزد ہوئی تھی، جان بوجھ کر نہیں!
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیسے یہ تفسیر کی جاتی ہے جبکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ: "پھرآدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اُس نے اُن کا قصور معاف کر دیا (توبہ قبول کی) بیشک وہ معاف کرنیوالا (اور) صاحبِ رحم ہے۔" (سورة البقرة 37:2)۔ یہاں لفظ "تَابَ" (توبہ) بلا شک و شبہ ظاہر کرتا ہے کہ خطا جان کر بالارادہ ہوئی تھی۔ بائبل مقدس کے مطابق گو آدم نے اُس کی ذمہ داری حوا پر ڈالی کہ اِس عورت نے مُجھے اِس کے کھانے پر اُکسایا تھا۔
دوسری طرف بہت سے علما اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آدم نے جانتے بوجھتے درخت میں سے کھایا تھا۔ آدم کے اللہ سے کلمات سیکھنے کے بارے میں ابو جعفرالطبری نے ابنِ زید کے سلسلہ سے مروی کیا ہے کہ اللہ نے آدم کو یہ الفاظ سکھائے:
"قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ"
"دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تُو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔"
اِس آیت میں اُن کے نفس پر ظلم کرنے کا اقرار ملتا ہے۔
موسیٰ بن ہارون سے السدّی کے سلسلے سے یہ روایت ہے جس میں آدم کے اللہ سے کلمات سیکھنے کی وضاحت ملتی ہے:
"حضرت آدم نے اللہ سے کہا 'کیا آپ نے مُجھے اپنے دست مبارک سے نہیں بنایا؟' فرمایا کیوں نہیں۔ تب آدم نے عرض کی 'کیا آپ نے میرے اندر اپنی طرف سے رُوح نہیں پھونکی؟' فرمایا کیوں نہیں۔ آدم نے پوچھا کہ 'یا رب کیا آپ کے غضب پر آپ کی رحمت سبقت نہیں کرتی؟' اللہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ تب آدم بول اُٹھے 'کیا آپ نے ہی میرے مُقدّر میں یہ (لغزش) نہیں لکھ دی تھی؟' اِس کا جواب بھی اثبات میں ملا۔ آدم نے مِنّت کی کہ 'اے میرے ربّ اگر میں توبہ کر لوں اور اپنی اصلاح کروں تو کیا آپ مجھے جنت کی طرف لوٹا دیں گے؟' اللہ نے کہا ہاں۔ تب آدم کے رب نے اُس کو چُن لیا اُس کی طرف رُخ کیا اور اُسے راہ دکھائی۔"
ایک اَور روایت ہے محمد بن بشار نے عبد الرحمن بن مھدی سے سُنا اور اُسے سفیان سے پتا چلا جس نے عبد العزیز بن رفیع سے سُنا جس نے بتایا کہ اُس نے عبید بن عمیر کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ "آدم نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار اور میرے مالک یہ میری خطا جس کا میں مرتکب ہو گیا ہوں کیا تُو نے ہی پہلے سے میرے ذمّہ نہیں ٹھہرا دی تھی میری تخلیق سے پہلے؟ یا یہ کیا وہ حرکت ہے جو میری ایجاد کردہ ہے؟" اللہ نے فرمایا: "یہ تو تیری تخلیق سے پیشتر ہی میں نے تیرے لیے مُقدر کر دی تھی۔" تب آدم نے کہا: "ا گر تُو نے ہی مُقدر کر دیا تھا تو میری مغفرت کر دے؟" راوی لکھتے ہیں فتلقیٰ والی آیت تب ہی اُنہیں ملی تھی۔
یہ ساری وضاحتیں اِس حقیقت کی انکاری نہیں کہ آدم نے ایک خطائے اختیاری کا ارتکاب کیا تھا۔ یہ وہ خیال ہے جسے الفخر الرازی کی بھی تائید حاصل ہے اُن کے الفاظ میں سُن لیجئے:
"وہ آیتیں جو بندوں کے افعال سے متعلق ہیں اور علماء نے جن کا تمسک کیا ہے بُہت سی ہیں۔ اور اِن میں سے پہلا آدم کا قصہ ہے۔ وہ اِس ضمن میں سات مختلف نکتہ نظر کے حامل ہیں:"
الف- ایک یہ ہے کہ آدم عاصی (نافرمان) تھے، اور نافرمان دو طرح سے مرتکب گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ نص قُرآنی کا مطالبہ اور تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اُسے سزا دی جائے کیونکہ یہ اللہ کا قول ہے کہ "ومن یعصی اللہ ورسولہ فان لہ نار جھنم" ( اللہ و رسول کے عاصی [نافرمان] کےلئے آتشِ دوزخ ہے۔) دوسرا یہ کہ لفظ عاصی ذم کا پہلو لئے ہوئے ایک لفظ ہے، اِسی لئے وہ سوائے مرتکب گناہ کبیرہ کے اَور کسی کو نہیں دیا جاتا۔
ب- آدم کے قصے سے یہ ظاہر ہے کہ وہ بے راہ ہو گئے کیونکہ قرآن میں "فَغَوٰی" لکھا ہے اور "غی" عربی زبان میں "رشد" کی ضد ہے۔
ج- آدم تائب ہوئے اور تائب تو وہی ہوتا ہے جس نے گناہ (ذنب) کیا ہو، ندامت کا شکار اپنے کئے پر تائب ہی ہوتا ہے۔ اب اگر یہ کہیں کہ آدم اِس اخبار و بیان میں جھوٹے ہیں تو اُن پر جھوٹ کے گناہ کا الزام آیا، اور اگر وہ اپنے اقرار میں سچے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ اُنہوں نے گناہ کیا تھا۔
د- آدم اُس عمل کے مرتکب ہوئے جس سے اللہ نے منع فرمایا تھا "وَلَا تَقرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَةَ" (اُس درخت کے پاس نہ جانا)، "اَلَماَنھَکُمَا عَن تِلکُمَا الشَّجَرَةِ" (کیا میں نے تم کو اس درخت [کے پاس جانے] سے منع نہیں کیا تھا)۔ اب کسی منع شدہ کام کو کر ڈالنا خود ہی جرم ہے۔
ہ- "فَتَکُونَا مِنَ الظّٰلِمِینَ" (ورنہ گنہگار ہو جاﺅ گے) کے مطابق آدم ظالم بنے کیوں کہ خود اقرار کیا کہ "رَبَّنَا ظَلَمنَآ اَنفُسَنَا" (پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا)۔ اب کوئی بھی ظالم شخص بقول اللہ ملعون گنا جاتا ہے "اَلَا لَعنَةُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِینَ" (سُن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے) اور جو لعنت کا مستحق ٹھہرے وہ بڑا گنہگار ہے۔
و- آدم نے اِس بات کا اعتراف کیا کہ اگر اللہ کی مغفرت اُنہیں میسر نہ ہو گی تو سراسر گھاٹے (خاسر) میں رہیں گے۔ یوں اُنہوں نے اپنے آپ کو بڑا گنہگار ثابت کیا۔
ز- بوجہ وسوسہ ء شیطان وہ جنت سے بھی نکال دیئے گئے اور یہ بدلہ تھا اِس بات کا کہ اُنہوں نے شیطان کی بات کی اتّباع کی تھی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن سے بڑا گناہ سرزد ہوا۔
اب رہی یہ بات کہ شیطان کس طرح جنت میں گُھس گیا تھا اِس میں بھی عُلماء میں اختلاف موجود ہے۔
مثلاً القصاص نے ابنِ عباس کے سلسلہ سے یہ روایت کی ہے کہ:
"شیطان نے جب جنت میں گُھس جانے کی ٹھانی تو داروغہ جنت نے اُسے روکا۔ تب وہ دوسرے سارے جانوروں کے پاس مدد کےلئے گیا۔ کسی نے اُس کو مدد دینا قبول نہ کیا۔ بالآخر جب سانپ کے پاس گیا جو ان دنوں چوپایوں میں سب سے عمدہ اور خوبصورت چوپایہ تھا۔ تو اُس نے مدد کی درخواست قبول کر لی اور شیطان کو بھی وہاں پُہنچا دیا۔ وہاں شیطان نے وسوسہ اور کانا پھوسی شروع کر دی۔ اِس میں شک نہیں کہ اِس وجہ سے اُسے سزا ملی اور لعنت کے زیر اُس کے چاروں پاﺅں جھڑ گئے اور پیٹ کے بل کھسکنے کی سزا ملی۔ اُس کی خوراک مٹی بنا دی گئی اور فرزندان آدم کا دُشمن بھی بنا دیا گیا۔"
الطبری کی کتاب جامع البیان میں وھب بنِ منبہ سے مروی ہے:
جب اللہ نے آدم اور اُس کی ذریّت کو جنت میں بسا دیا تو اُن کو الشجرة سے دور رہنے کا حکم دیا، یہ الشجرة بُہت سی پرپیچ ڈالیوں والا ایک درخت تھا جس کے پھل کھا کھا کر فرشتوں کو خلود حاصل تھا یعنی وہ امر بن گئے تھے، اسی درخت کے قریب نہ جانے کا حکم اللہ نے دیا تھا۔ جب ابلیس نے اُن کو پھسلانے اور گناہ کے مرتکب کرنے کا ارادہ کیا تو وہ سانپ کے پیٹ میں داخل ہوا، سانپ اُس وقت چار ٹانگوں پر بختی اونٹ کی طرح چلتا تھا اور بہت خوبصورت معلوم ہوتا تھا۔ جب سانپ جنت میں داخل ہو گیا تو ابلیس اُس کے پیٹ سے نکلا اور اُس (ممنوعہ) درخت کا پھل لے کر حوا کے پاس آیا کہنے لگا اِس پھل کی طرف دیکھو، اِس کی خوشبو کتنی اچھی ہے، اِس کا ذائقہ کتنا اچھا اور رنگ کتنا خوبصورت ہے۔ پس حوا نے اُسے کھا لیا پھر حوا آدم کے پاس پہنچیں اور کہنے لگیں "اِس پھل کی طرف دیکھو اِس کی خوشبو کتنی اچھی، اِس کا ذائقہ کتنا عمدہ اور رنگ کیسا دلفریب ہے۔" پس آدم نے بھی کھا لیا۔ اِس کے فوری بعد اُن دونوں کے پوشیدہ اعضا ظاہر ہو گئے جس پر آدم جلدی سے اُس درخت کے تنے میں داخل ہو گئے۔ اللہ نے آواز دی "اے آدم تم کہاں ہو!" آدم نے جواب دیا "اے میرے ربّ! میں یہاں ہوں" فرمایا "باہر کیوں نہیں نکلتے" آدم کہنے لگے "میں آپ سے حیا کرتا ہوں" فرمایا "یہ درخت زمین میں سب سے زیادہ ملعون ہو گا اِس پر لعنت پیدا کر دی گئی ہے۔ اب اِس کے پھل کانٹوں میں تبدیل ہو جائیں گے" نیز فرمایا کہ اُس وقت جنت اور زمین میں کیکر اور بیر کے درخت سے زیادہ افضل کوئی درخت نہ تھا۔ پھر فرمایا "اے حوا! تم نے میرے بندے کو دھوکا دیا لہٰذا حمل کا زمانہ تمہارے لئے (بطور سزا) مقرر کیا گیا اور اُس میں تم بڑی مشقت اور تکالیف اُٹھاﺅ گی اور جب وضع حمل کا وقت ہو گا تو تم درد کی شدت سے اپنے آپ کو موت کے دہانہ پر پاﺅ گی" اور سانپ سے فرمایا: تم نے ابلیس لعین کو اپنے پیٹ میں داخل کیا جس کی وجہ سے وہ میرے بندے کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو گیا لہٰذا تجھ پر لعنت ہو۔ تیری ٹانگیں تیرے پیٹ میں داخل ہو جائیں گی اور تیری خوراک مٹی ہو گی۔ تجھ میں اور اولادِ آدم میں دشمنی ہو گی۔ جہاں بھی تُو اُنہیں نظر آئے گا وہ اپنی ایڑی سے تیرا سر کچل دیں گے اور جہاں وہ تجھے دکھائی دیں گے تُو اپنے جبڑوں سے اُسے ڈسے گا۔
عُلماء کی ایک جماعت نے یہ بھی کہا ہے کہ جب آدم و حوا باب الجنتہ سے گذر رہے تھے تو ابلیس جو کہ پھاٹک پر انتظار میں کھڑا تھا اُس نے اُن میں وسوسے ڈالنا شروع کر دیئے۔
خیر، بات کُچھ بھی ہو! قرآن کی آیات کا قاطع فیصلہ یہی ہے کہ آدم گُنہگار بن گئے تھے جیسا کہ سورة طٰہ 120:20-121 بھی ہم زبانی کر رہی ہیں:
"فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ ٱلشَّيْطَنُ قَالَ يَٓـَٔادَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ ٱلْخُلْدِ وَمُلْكٍۢ لَّا يَبْلَىٰ. فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْءَتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ ٱلْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰٓ ءَادَمُ رَبَّهُۥ فَغَوَىٰ."
"تو شیطان نے اُن کے دِل میں وسوسہ ڈالا (اور) کہا کہ آدم بھلا میں تم کو (ایسا) درخت بتاﺅں جو ہمیشہ کی زندگی کا (ثمرہ دے) اور (ایسی) بادشاہت کہ کبھی زائل نہ ہو۔ تو دونوں نے اُس درخت کا پھل کھا لیا تو اُن پر اُن کی شرم گاہیں ظاہر ہو گئیں اور وہ اپنے( بدنوں) پر بہشت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے ) بے راہ ہو گئے۔"
لفظ "فَغَوٰی" کا مطلب ہے "بے راہ ہو گئے۔" اِس لفظ کی تفسیر کرتے ہوئے الرازی رقمطراز ہیں کہ "الغوایة" کا مترادف "الضلالة" (گُمراہی) ہے، اور یہ "الرشد" (ہدایت یافتہ) کا اُلٹ ہے۔ اِس قسم کا گُناہ سوائے ایسے فاسق شخص کے جو اپنے فسوق میں منہمک رہتا ہے، اَور کسی کےلئے نہیں بولا جاتا۔
ابو امام الباہلی نے کہا ہے کہ آدم کا واقعہ بڑا عجیب و غریب ہے کیونکہ اللہ نے اُن کے اندر اِس خواہش و تمنّا کو پروان چڑھنے دیا کہ اُن کی زندگی ایک دوامی آرام اور جاوید زندگی ہو جیسا کہ سورة طٰہ 117:20 ،119 سے یہ ظاہر ہے : "یہ کہیں تم دونوں کو بہشت سے نکلوا نہ دے۔ پھر تم تکلیف میں پڑ جاﺅ۔ ... اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاﺅ۔" شیطان نے یہ کہتے ہوئے سدا کے آرام سے لُطف اندوز ہونے کی رغبت پیدا کی کہ "بھلا میں تم کو (ایسا) درخت بتاﺅں جو ہمیشہ کی زندگی کا (ثمرہ دے) اور (ایسی) بادشاہت کہ کبھی زائل نہ ہو۔" وہ چیز جس کی خواہش اللہ چاہتا تھا کہ آدم کرے وہی تھی جس کا ذکر ابلیس نے کیا، مگر اللہ نے اُس کےلئے شرط رکھی تھی کہ وہ الشجرة کے قریب نہ جائے۔ لیکن اِبلیس نے اُسے دھوکا دیا کہ وہ اُس کے پھل میں سے کھائے۔ اب آدم کی طرف نظر ڈالیے کہ وہ کمال عقل کا مالک ہوتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ اُس کا اللہ ہر طرح سے اُس کا مربی اور ناصر ہے اور اُس نے شیطان کو اُس کا دُشمن ہونا بھی جتا دیا ہے اور خوب خبردار کر دیا ہے، کس طرح اُس نے شیطان کی ہاں میں ہاں ملائی، اور یہ جان بُوجھ کر کہ وہ اُس کا کُھلا دشمن ہے اللہ کے قول سے روگردانی کی اور شیطان کی بات مان بیٹھا۔
اب دیکھئے کہ ماجرا یہ ہے اور اِس بات پر سارے مُفسّروں کا اتّفاق و اجماع آراء ہے کہ عصیان ذنب (گناہ) ہے اور عاصی ایک مذموم و ناپسندیدہ لقب ہے جس کا اطلاق صرف مُرتکب گناہ کبیرہ پر ہی ہوا کرتا ہے اور کبیرہ گناہ ایک ایسا کام ہوتا ہے جس پر سزا اور عتاب واجب ہے۔
تاریخ اِنسانی پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ ہر جگہ گڑبڑی اور فساد ہے۔ اِنسان نے جب بھی اپنے دِل کو ٹٹولا ہے یا اپنے ساتھی انسانوں کے کردار پر نظر کی ہے تو گناہ کے وجُود کا اقرار کیا ہے۔ گُناہ کی کارفرمائی ہر جگہ نظر آتی ہے حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جن کو کبھی کوئی وحی یا الہام نہیں ملا، گناہ کا اور اُس کے وجود کا ویسا ہی شعور رکھتے ہیں جیسا کہ آسمانی وحی ماننے والے، اور یہ بات بھی مانتے ہیں کہ اخلاقی و سماجی طور پر جن باتوں کے کرنے کی ذمہ داریاں اُن پر عائد تھی اُن پر عمل درآمد سے قاصر اور عاجز رہے ہیں۔
گناہ نہ صرف شرمناک رویے کا نام ہے جیسے بہت سے انسان سمجھتے ہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ سے دوری اختیار کرنے کا نام بھی ہے، حالانکہ خدا ہی ہماری زندگی کا نصب العین ہونا چاہئے۔ خدا سے اِس انحراف کا مطلب صرف گناہ کی طرف میلان نہیں ہے بلکہ یہ بھلائی و نیکی کے چشمہ سے ہمارا ایک طرح کا انقطاع بھی ہو جانا ہے۔
تجربہ نے اِس بات کی بھی بخوبی وضاحت کر دی ہے کہ نفسانی انسان کے بس میں یہ بات نہیں رہ گئی ہے کہ گناہ کی اِنسان کے اندر زبردست قوت اور اُس کے زندگی میں سخت اثرات کا اندازہ لگا سکے۔ ایماندار کے پاس خدا کی شریعت ہوتی ہے جو اُس کی تربیت و ہدایت کرتی ہے اور مسیح تک پہنچا بھی دیتی ہے۔ مسیح نے انسان کو خدا کا فضل بخشا اور انسان گناہ کی حقیقت اور اُس کے اثرات بد کو پہچاننا شروع کر دیتا ہے کہ گناہ میں دلچسپی لینا اِنسان کو بگاڑنے اور اُس کی تخریب کا باعث بنتا ہے۔ اُس وقت اُسے اِلہٰی فضل و مدد اور اپنی راستبازی کےلئے مسیح کے بہائے ہوئے خون کے کفارے کا شدید احساس ہوتا ہے۔
گناہ شرع کی مخالفت ہے ( 1- یوحنا 4:3)۔ یہ مُقررہ حد سے تجاوز کرنے کا نام ہے۔ یہ تعدّی و تجاوز خواہ کتنا ہی معمولی اور ہیچ کیوں نہ ہو اور اِس کا کرنے والا خواہ کوئی بھی عُذر پیش کرے اِس میں شک نہیں کہ خُدا کے خلاف وہ جُرم ہی رہتا ہے۔
الف- دُنیا میں آمدِ گناہ:
اِنجیل شریف (رُومیوں 12:5) میں لکھا ہے کہ:
"ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔"
یہاں ایک آدمی سے اشارہ ہے ہمارے جدِ امجد آدم کی طرف مع حوا کے کیونکہ خدا آدم اور حوا کو ایک جوڑے کے طور پر دیکھتا ہے (پیدایش 2:5)۔ خط کے مصنف نے آدم ابو البشر کے گناہ کو ہر شخص یعنی اُن کی ذرّیت کے گناہ کا سبب مانا ہے۔ مصنف اُس آزمائش کا ذکر نہیں کرتا جو ابلیس نے کی اور نہ ہی حوا کی نافرمانی کا ذکر کرتا ہے کیونکہ اُس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ آدم تمام انسانوں کا نمائندہ ہے۔
دُنیا کے کُچھ فلسفی یہ مانتے ہیں کہ اِنسان طیّب و طاہر پیدا ہوتا ہے اور جب وہ فاسد ماحول میں رہتا ہے تو اُس سے بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور تب گناہ اُس میں سرایت کرتا اور جنم لیتا ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ گناہ اِنسان کی جبلت میں واقع ہے۔ ایک بگڑا ہوا ماحول گناہ کو پھلنے پھولنے کا موقع تو فراہم کرتا ہے لیکن انسان کی سرشت و طبیعت اور اُس کا دل گنہگار ہے۔
ب- گناہ ایک وراثتی امر ہے:
کوئی بھی جاندار خواہ اپنی نوع سے الگ ( مغایر) نہیں ہوتا! کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ ایک بیل نے بھیڑ پیدا کی ہو، یا جیسا کہ خود جناب مسیح فرما گئے ہیں 'کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں (ریگستان میں پیدا ہونے والا ایک کٹیلا پودا) سے انجیر توڑتے ہیں؟' یہی قانونِ فطرت اِنسان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ آدم یعنی اِنسانِ اوّل نے چونکہ اپنے عصیاں و سرکشی کی وجہ سے خُدا کی عطا کی ہوئی حیات طیّبہ مُستقیمہ کو مسخ کر دیا، بدنُما بنا دیا اور سزا اور نتیجہ کے طور پر راندہ ہوئے، فردوسِ بریں سے باہر نکال دیئے گئے اور ایسی زمین کو اُن کا ٹھکانا بنا دیا گیا جو خود اُن کی وجہ سے لعنتی ہوئی۔ اِسی زمین پر اُنہوں نے اولاد پیدا کی جنہیں جنّت کی پاکی کا کوئی علم و تجربہ نہ تھا۔ اِس حالتِ زار کی تصویر کشی داﺅد نبی نے اپنے زبور (5:51) میں یوں کی ہے:
"دیکھ! میں نے بدی میں صُورت پکڑی اور میں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا۔"
پولُس نے بھی رومیوں 10:3-12 میں کہا:
"کوئی راستباز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ کوئی سمجھ دار نہیں۔ کوئی خُدا کا طالب نہیں۔ سب گمراہ ہیں سب کے سب نکمّے بن گئے۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں۔"
وراثتی گناہ اور سقوط و ہبُوطِ آدم کے بارے میں کتابِ مُقدّس کی تعلیم کی آگسٹین نے کُچھ اِس طرح وضاحت کی ہے:
(1) اِنسان کو خداوند تعالیٰ نے اپنی صورت و شبیہ پر خلق کیا یعنی علم و معرفت، نیکی و پاکبازی کی سیرت عطا کی اور اُسے زندہ و جاوید ہستی کے طورپر پیدا کیا، مخلوقات کا حاکم و مُختار بنایا۔ اُس نے آدم کو خیر و شر کی تمیز بخشی اور اُسے اخلاقی طبیعت و مزاج ودیعت کیا۔
(2) آدم کو اپنا راستہ چننے کی اجازت دی گئی۔ جب ابلیس نے اُس کی آزمائش کی تو اُس نے خدا کی مرضی کے خلاف خود اپنی راہ اپنائی اور گناہ کا اِرتکاب کیا۔ یوں وہ اُس مُقدّس و پاک حالت کو کھو بیٹھا جس کےلئے وہ بنایا گیا تھا۔
(3) اِس نافرمانی کے نتیجے میں وہ اِلہٰی سیرت و شباہت جو اُنہیں عطا کی گئی تھی، گناہ آلود ہونے کی وجہ سے مسخ ہو گئی۔ اور رُوحانی طور پر مُردہ ہونے کی وجہ سے وہ نیک کام کرنے کے قابل نہ رہا۔ جسمانی طور پر بھی موت نے تسلّط جما لیا۔ اور اب وہ اِس دُنیا کی تمام بدی اور ابدی ہلاکت کا شکار ہے۔
(4) آدم اور اُن کی نسل و ذریّت میں ایک طرح کا نیابتی رشتہ ہے۔ جو گناہ آدم نے کیا وہ اُن کی نسل میں بھی ہے۔ وہ گناہ میں پیدا ہوتے ہیں، اُن میں خدا کی شبیہ بگڑ گئی ہے، اور اخلاقی طور پر خرابی آ گئی ہے۔
(5) یہ ذاتی اور موروثی فساد گناہ کی فطرت ہے گو کہ یہ عمل میں گناہ نہیں ہے۔
(6) آدم کے گناہ کا نتیجہ اصل راستبازی کے کھو دینے اور فطرت کے بگاڑ کی صورت میں نکلا اور یہ گناہ اوّل کی سزا ہے۔
(7) نئی زندگی اور تخلیق نو رُوحُ القُدس کا زبردست کام ہے۔ اِس میں نفس اِنسانی بطور مفعول کے ہوتا ہے (اِس کی فاعل کی حیثیت نہیں ہوتی)۔ یہ مُطلقاً خدا کے اِرادہ سے متعلق ہے۔ اِسی لئے نجات یا مخلصی فقط خدا تعالیٰ کے فضل پر ہی موقوف ہے اور اُسی کا عمل ہے۔
ج- اِنسان پر گناہ کا اثر
ایک انگریز سائنسدان ہکسلی نے کہا ہے کہ اِنسانی ترقی کےلئے اِنسانی نفس کو جو تربیت و مشق کرنی پڑتی ہے، اُس سے زیادہ سخت اور محنت طلب تربیت اور مشق میں نے اَور کوئی نہیں دیکھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اِنسان ہمیشہ سے ایک ایسے اثر کا غُلام بنا دیا گیا ہے جو اُس پر بُری طرح سے قابض ہے۔ وہ کُچھ ایسے دوافع کا شکار ہے جو اُسے کشاں کشاں تباہی کی طرف کھینچے لیے جا رہے ہیں۔ پھر وہ کُچھ ایسے نہ ختم ہونے والے اوہام کے شکنجہ میں پھنس کر رہ جاتا ہے جو اُسے بالآخر بڑی ذہنی اذیت دیتے اور پریشانیوں میں ڈال دیتے ہیں اور اُس کا جسم غم و فکر کے ازیاد سے گُھل گُھل کر فنا ہو جاتا ہے۔ ہزاروں سال سے اِنسان اِس طرح کی جنگ و جدل میں پھنسا ہے، خود بھی اور اپنے ہم جنسوں کو بھی کبھی ایذا دیتا ہے اور پھر اُن پر ماتم کرتا ہے اور اُن کی قبریں بنا دیتا ہے۔
کیا اب بھی کسی کو اِس سے زیادہ چیختی ہوئی شہادتیں درکار ہیں جو اُسے گناہوں کے اثرات ِبد کا احساس دلانے والی بنیں؟ کیا ایک فرد کےلئے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ اپنے دِل ہی کی گہرائیوں میں جھانکے، اپنے ہی میلانات و رُجحانات کو دیکھے۔ اُسے وہاں بھی گناہ کا بسیرا نظر آئے گا۔ تمام اِنسانوں میں اِس حقیقت کا ادراک کرنے کےلئے ہمیں صرف اِنسانی معاشرے پر نگاہ دوڑانے کی ضرورت ہے۔ زبور 1:14 کا اعلان ہے کہ:
"احمق نے اپنے دِل میں کہا کہ کوئی خدا نہیں۔ وہ بگڑ گئے۔ اُنہوں نے نفرت انگیز کام کئے ہیں۔ کوئی نیکو کار نہیں۔"
اِسی طرح یسعیاہ نبی فرماتے ہیں کہ:
"ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں ہر ایک اپنی راہ کو پھِرا..." (یسعیاہ 6:53)
وہ صورت و شبیہ جو آدم گناہ میں گرنے سے پہلے رکھتا تھا وہ ہم سب میں بگاڑ کا شکار ہے۔ گناہ کا وجود اور اِس کی کارفرمائی تو ہر شخص کی زندگی میں ایک ایسا امر ہے کہ نہ تو جس سے کوئی چشم پوشی کر سکتا ہے اور نہ غفلت۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ بشری مزاج و طبیعت کا فاسد ہونا اظہر من الشمس ہے۔ اِنسان کی بے بسی اور شکست پر شکست دیکھنا ہو تو دیکھئے کہ اپنی اِنتہائی دِلی خواہش کے باوجود اخلاقی قوانین کی پابندی کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسا کرنے کےلئے خدا کے روح کی تائید و مدد کی ضرورت ہے۔ آج کا اِنسان اُس حقیقی نیکی و راستبازی کے لحاظ سے کتنا کھوکھلا ہے جو اِنسان کو اُس کے ہبوط سے پہلے حاصل تھی۔
چند سالوں کی ہی جرائم کی تاریخ اِس بات کو جان لینے کےلئے کافی ہے کہ اِنسان کِس قدر اپنی خُداداد صالح طبیعت کو کھو چکا ہے۔ جب آدم کے بیٹے قائن نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا تو اُسی وقت سے ہم اِنسان میں اِس بُری فطرت کو سر اُٹھاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ کیوں اُس نے اُسے قتل کیا؟ کیا یہ اِس وجہ سے نہیں تھا کہ قائن شریر شخص تھا؟ آپ اپنی ہی مثال لے لیجئے۔ آخر ہم کیوں ایک دوسرے سے لڑتے ہیں؟ کیا ایسا اِس لئے نہیں کہ بدی کی فطرت ہم میں جڑ پکڑے ہوئے ہے؟ کیوں ایک قوم دوسری قوم پر چڑھائی کرتی ہے؟ کیا یہ انسانوں کے گناہ کا مجموعی اثر نہیں ہے؟
د- گناہ کی مزدوری
پیدایش 17:2 میں مرقوم ہے کہ باری تعالیٰ نے آدم کو حکم دیا:
"تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔"
اِسی طرح خدا کے نبی حزقی ایل کے صحیفہ میں ہم پڑھتے ہیں:
"جو جان گناہ کرتی ہے وہی مریگی۔" (حزقی ایل 29:18)
رُومیوں 23:6 میں بھی لکھا ہے کہ:
"گناہ کی مزدوری موت ہے۔"
آدم و حوا جب حُکم خداوندی کی نافرمانی کے گناہ میں گرے تو وہ رُوحانی طورپر مر گئے۔ خداوند تعالیٰ سے اُن کی گہری قُربت و نزدیکی جُدائی میں بدل گئی۔ ہمہ وقت خدا کی حضوری میں رہنے کی تمنا بھی بُجھ گئی اور اپنے تئیں جنت کے درختوں کے درمیان چُھپنے کی جگہ ڈھونڈنے لگے (پیدایش 8:3)۔ اُنہیں اپنے بدن میں ناتوانی کا احساس بھی ہونے لگا۔ اب رہ رہ کر اُنہیں ربّ کائنات کی تنبیہ یاد آنے لگی کہ "جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔"
درحقیقت یہ بات معمولی نہیں بلکہ خبردار اور چوکنّا ہو جانے کی بات تھی۔ گناہ کا نتیجہ سامنے آ چُکا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آدم و حوا کی جنت والی حیثیت اُن کے گناہ کے سبب بالکل ضائع ہو چُکی تھی؟ کیا سارے کا سارا کام و اِستحقاق وہ اب کھو بیٹھے تھے؟ کیا اب اُن کی بحالی کی کوئی صورت اور اُمّید بالکل مُنقطع ہو چکی تھی؟ کیا اب پھر سے جنت الفِردوس کی طرف لوٹنا ناممکن ہو چُکا تھا؟ نہیں بالکل نہیں!
کیونکہ خداوند تعالیٰ محبت ہے اور اُس کی محبت رحمتوں سے معمور و بھر پور ہے، اور اُس کے پاس معافی، بخشش اور مغفرت ہے۔ یوں اُس کی محبت نے شفقت کا اظہار کیا، وہ کسی گناہ گار کی موت سے خوش نہیں ہے۔ اُس خُدائے محبت نے یسوع مسیح کی شخصیت میں جو کہ کلمتہ اللہ ہیں ظاہر ہو کر ایک مُنجّی اور فدیہ دینے والے فادی کی حیثیت اختیار کر لی۔ خدا کی محبت نے پہلا کرم یہ کیا کہ اُس نے سب سے پہلے آدم و حوا کی ستر پوشی کی اور اُن کے عیوب برہنگی کو ڈھانکا (پیدایش 20:3)۔ اِس طرح سے خداوند خدا نے نجات اِنسانی کےلئے کفارہ کے عہد کے اصول کی ابتدا کی۔
کفّارہ کے موضوع پر 14 قرآنی آیات موجود ہیں۔ پہلی نص قرآنی کفارہ کے حوالے سے یہ ہے:
"اگر تم خیرات ظاہر دو تو وہ بھی خوب ہے، اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہلِ حاجت کو تو وہ خوب تر ہے اور (اِس طرح کا دینا) تمہارے گناہوں کو بھی دور کر دے گا (وَ یُکَفِّرُ عَنکُم مِّن سَیِّاٰتِکُم)" (سورة البقرة 2: 271)۔
علما کفّارہ کے معنٰی ڈھانپنے کے بیان کرتے ہیں۔ یہ وضاحت عہد عتیق کے تصور کے قریب تر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام اور یہودیت میں شخصی اعمال گناہوں کے کفارہ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اِن کاموں میں سب سے اہم نماز ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے:
"اور دن کے دونوں سروں (یعنی صبح اور شام کے اوقات میں) اور رات کی چند (پہلی) ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں" (سورة ھود 114:11)۔
الترمذی نے ابی الیسر کا حوالہ دیا کہ اُنہوں نے کہا کہ "ایک عورت مجھ سے کھجوریں خریدنے آئی تو میں اُس کی طرف جھکا اور اُس کا بوسہ لے لیا، اور میں نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوری بات بتائی۔ آپ نے سر جھکا لیا اور آپ دیر تک اِسی طرح رہے اور پھر بولے: 'دن کے دونوں سروں اور رات کی چند ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہے۔' صحابہ نے عرض کیا 'یا رسول اللہ کیا اِس شخص کےلئے خاص ہے یا سب کےلئے عام ہے؟' آپ نے فرمایا 'یہ حکم سب کےلئے ہے۔'"
صحیح مسلم میں عبد اللہ سے مروی ہے کہ "ایک شخص نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا 'یا رسول اللہ میں نے شہر کے کنارے ایک عورت سے بوس و کنار کر لیا اور جماع کے علاوہ سب کچھ کیا۔ اب میں آپ کے سامنے ہوں میرے بارے میں آپ فیصلہ فرمائیں۔' حضرت عمر نے اُس سے کہا کہ 'اللہ تعالیٰ نے تیرا گناہ چھپایا تھا۔ لہٰذا تمہیں بھی چاہئے تھا کہ اُسے پردے میں ہی رہنے دیتے۔' نبی اکرم نے اُسے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپ نے کسی کو بھیج کر بلوایا اور یہ آیت پڑھی: '...نماز قائم کر۔'"
صحیح مسلم میں ابوبکر سے مروی ہے کہ "میں نے رسول اللہ کو کہتے سُنا، 'کوئی ایسا شخص نہیں جو اگر گناہ کرے اور پھر وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طالب ہو تو وہ اُسے معاف نہ کرے۔' تب اُنہوں یہ آیت کہی: 'اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اَور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے۔ (سورة اٰل عمرٰن 135:3)'"
سورة الا عراف 8:7-9 سے بڑھ کر کوئی اَور حوالہ کفارہ کےلئے اعمال کی اثر انگیزی کے بارے میں تائید نہیں کرتا:
"اور اُس روز (اعمال کا) تُلنا برحق ہے۔ تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہونگے وہ تو نجات پانے والے ہیں۔ اور جن لوگوں کے وزن ہلکے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اِس لئے کہ ہماری آیتوں کے بارے میں بے انصافی کرتے تھے۔"
امام الرازی نے اعمال کے تولے جانے کے تعلق سے دو باتیں بیان کی ہیں:
الف- اُنہوں نے بیان کیا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ ایک میزان نصب کریں گے جس کے دو پلڑے ہوں گے، جس پر بندوں کے اعمال تولے جائیں گے، اچھے اور برے۔
ابن عباس سے مروی ہے کہ "مومنوں کے کام بہترین صورت میں نظر آئیں گے اور ترازو کے پلڑے میں رکھے جائیں گے، جو اُس کے برے اعمال سے بھاری ہوں گے۔"
اِس بارے میں کئی آراء ہیں کیسے اعمال کو تولا جائے گا۔ ایک یہ ہے کہ مومنوں کے اعمال اچھی صورت میں ظاہر ہوں گے اور کافروں کے اعمال قبیح صورت میں ہوں گے، اور یہ وہ صورت ہو گی جو تولی جائے گی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ وہ "الصحف" (لکھا ہوا اندراج) تولا جائے گا جس پر بندوں کے اعمال لکھے ہوں گے۔
ب- دوسرا قول مجاھد اور الضحاک اور الاعمش سے مروی ہے کہ تولے جانے کا مقصد عدل و انصاف ہے۔ جناب محمد سے قیامت کے دن تولے جانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا "الصحف" (لکھا ہوا اندراج)۔
جہاں تک تولے جانے کے عمل کی بات ہے تو عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ "رسول اللہ نے کہا 'یوم قیامت انسان میزان کے پاس لایا جائے گا اور اندراج کی ۹۹ کتابیں اُس کے پاس لائی جائیں گی اور حدِ نظر پھیلی ہوں گی، اور وہ ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں گی۔ پھر اُس کے پاس انگلی کے پور کے برابر ایک چھوٹا کاغذ کا ٹکڑا لایا جائے گا اور اُس پر یہ اقرار لکھا ہو گا 'لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ'۔ یہ دوسرے پلڑے پر رکھا جائے گا اور برے اعمال پر بھاری ہو گا۔'"
ایک قرآنی آیت میں اِس تولے جانے کے بارے میں لکھا ہے:
"اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو کھڑی کریں گے تو کسی شخص کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔ اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی (کسی کا عمل) ہو گا تو ہم اُس کو حاضر کریں گے اور ہم حساب کرنے کو کافی ہیں۔" (سورة الانبیآء 47:21)
مفسّرین کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ دل کے ارادوں کےلئے الگ میزان ہو اور بیرونی اعمال کے الگ۔
بلال بن یحییٰ نے حذیفة کا اقتباس کرتے ہوئے کہا "یوم قیامت جبریل تولے جانے کے کام کے ذمہ دار ہوں گے اور اللہ کہے گا، 'اے جبریل اُن کے درمیان تول اور مظلوم کو بدلہ دے، اور اگر ظالم کے پاس اعمال حسنہ نہیں ہیں تو اُس کے پلڑے میں مظلوم کے برے اعمال ڈال دے، تب ظالم کا بوجھ پہاڑوں کی مانند بھاری ہو گا۔'"
ابو جعفر نے بیان کیا کہ محمد نے فرمایا "میزان میں رکھی جانے والی چیزوں میں سے حُسنِ اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز بھاری نہیں ہے۔"
آخر میں مختصراً محمد بن سعد کے الفاظ لکھے جا رہے ہیں جو ابن عباس سے مروی ہیں "جس کے اچھے اعمال برے اعمال کو گھیرے ہوں گے اُس کا میزان بھاری ہو گا، اُس کے اچھے اعمال اُس کے برے اعمال کو مٹا دیں گے۔ اور جس کے برے اعمال اچھے اعمال کو گھیرے ہوں گے تو یقیناً اُس کا میزان ہلکا ہو گا اور جہنم کا فرزند ہے۔ اُس کے برے کاموں نے اُ س کے اچھے کاموں کو مٹا دیا۔"
تقویٰ گناہوں کا کفارہ دیتا ہے۔
قرآن کی سورة الانفال 29:8 میں لکھا ہے:
"مومنو! اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امرِ فارق پیدا کرد ے گا (یعنی تم کو ممتاز کر دے گا) اور تمہارے گناہ مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور خدا بڑے فضل والا ہے۔"
ہم دیکھتے ہیں کہ تقویٰ کے اجر میں تین باتیں شامل ہیں:
الف- وہ تمہیں امتیاز بخشے گا۔ امتیاز کےلئے استعمال ہونے والے لفظ کی وضاحت اسلامی فقہاء نے یوں کی ہے کہ اللہ متقیوں اور کافروں کے مابین فرق کرے گا یعنی اللہ متقیوں کےلئے ہدایت اور آگہی مقرر کرتا ہے، اور وہ اُن کے دِلوں اور سینوں کو خوشی سے بھر دیتا ہے، اور اُن کے دِلوں سے بغض و نفرت دور کرتا ہے۔
ب- وہ تمہارے سب کئے گئے برے کام، گناہ ڈھانپ دے گا۔
ج- وہ تمہیں معاف کر دے گا۔
قرآنی آیات کا بغور مطالعہ کرنے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کفارہ اور مغفرت میں فرق پایا جاتا ہے۔ آئیے اب ہم ذرا قرآن شریف کے نصوص پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ وہاں کفّارہ اور مغفرت کی کیا تعلیم ہے اور کیا فرق ہے؟
مُفسّرین قرآن نے اِس میں امتیاز کیا ہے کہ "التکفیر" کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں بدی ڈھانک دی جائے اور مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ روزِ قیامت بدی کو بالکل ہی زائل کردیا جائے گا۔
الف- اعمال اور گناہ کی مغفرت
اِسلامی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ گناہوں کی معافی و مغفرت اعمال صالحہ پر مبنی قرار دی گئی ہے۔ سورة الرعد 22:13-23 اِسی تصور کو پیش کرتی ہے:
"اور جو پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے (مصائب پر) صبر کرتے ہیں۔ اور نماز پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کےلئے عاقبت کا گھر ہے۔ (یعنی) ہمیشہ رہنے کےلئے باغات جن میں وہ داخل ہونگے اور اُن کے باپ دادا اور بیبیوں اور اولاد میں سے جو نیکو کار ہونگے وہ بھی (بہشت میں جائیں گے)۔"
جناب معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا "اگر تُو نے کوئی برا عمل کیا ہے تو پھر اُس کے ساتھ کوئی نیکی بھی کر تا کہ یہ اُسے مٹا دے۔"
اِسی بارے میں الحسن سے روایت ہے کہ جب تم کو محروم کر دیا جائے تو دو اور جب ظلم کیا جائے تو معاف کر دو۔
الزجاج نے کہا کہ: "اللہ تعالیٰ کے پاس حسب و نسب کی کوئی وقعت نہیں ہے صرف اعمال صالحہ ہوں تو وہ مُفید ہیں۔"
الواحدی اور البخاری نے ابنِ عباس سے روایت کی ہے کہ: "اللہ نے طاعت گذاری کے ثواب سے ہی اُس کے اُس سرور و خوشی کو ترتیب دیا ہے جو جنت میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ کر اُسے حاصل ہو گی۔"
دیکھئے کہ اِس روایت سے اِسی بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ جنت میں اطاعت گذار کے اعمال صالحہ کے احترام کی وجہ سے داخل ہوں گے۔ اب غور کے لائق یہ بات ہے کہ اگر وہ اپنے اچھے اعمال کی بدولت داخلِ جنت ہوں گے تو اطاعت گذار کے احترام کا سوال ہی کہاں رہ گیا۔
ب- روزہ اور مغفرت
قرآن میں سورة الاحزاب 35:33 بیان کرتی ہے کہ روزہ دار مرد و عورت کےلئے اللہ نے ایک زبردست اجر اور مغفرت تیار کر رکھی ہے۔
قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ دو ماہ کا روزہ گناہ قتل کی بخشش میں کارگر ہے۔ سورة النسا 29:4 میں مرقوم ہے کہ:
"اور کسی مومن کو شایاں نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر۔ اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے۔ ہاں اگر وہ معاف کر دیں ( تو اُن کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثانِ مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے یہ (کفارہ خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کیلئے) ہے اور خدا (سب کچھ) جانتا (اور) بڑی حکمت والا ہے۔"
اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں عروة بن الزبیر نے یہ بتایا ہے کہ جنگِ اُحد کے دن حذیفہ بن الیمان رسول اللہ کے ساتھی تھے۔ مُسلمانوں میں یہ غلط فہمی تھی کہ حذیفہ کے والد الیمان کافر ہیں اور کافروں ہی کے ساتھی ہیں اِس لئے مُسلمانوں نے الیمان پر تلواروں سے وار کرنا شروع کردیا حالانکہ حذیفہ یہی چِلّاتے رہے کہ بھائیو یہ تو میرے باپ ہیں۔ جب یہ بات لوگوں کی سمجھ میں آئی تو اُس وقت الیمان مارے جا چکے تھے۔ حذیفہ نے کہا تم سب کو اللہ معاف کرے کیونکہ وہ بڑا رحم والا ہے۔ یہ خبرجب آنحضرت کو معلوم ہوئی تو آپ نے حذیفہ کو اپنا مُقرب خاص بنا لیا۔ اِسی ضمن میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔
ایک دوسری روایت کے مُطابق شانِ نزول یہ ہے کہ ابی الدرداء ایک فوجی ٹکڑی میں تھے اور رفع حاجت کےلئے ایک گھاٹی میں گئے، وہاں ایک آدمی بھیڑیں چراتا ہوا ملا۔ اُنہوں نے اُس پر تلوار سے حملہ کیا۔ اُس نے لا الہ الا اللہ کی ہانک لگائی پھر بھی ابوذر نے ہاتھ نہیں روکا۔ اُسے قتل کر کے ہی دم لیا، بھیڑیں ہانک کر لے گئے۔ بعد ازاں اُن کے دِل میں خلش پیدا ہوئی جسے آپ نے حضور کے سامنے پیش کیا۔ رسول اللہ نے فرمایا "کیا تُو اُس کے دِل کو چیر کر دیکھ سکا تھا کہ آیا وہ مومن ہے یا نہیں؟" ابی الدرداء کو بڑی ندامت ہوئی اور تب یہ آیت نازل ہوئی۔
قرآن میں جھوٹی قسم کے بارے میں بھی آیا ہے جس کی مغفرت کےلئے تین دن کا روزہ مُقرر ہے۔ سورة المائدہ 89:5 میں لکھا ہے:
"خدا تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اُس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا اُن کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اُسے توڑ دو اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اِس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔ تا کہ تم شکر کرو۔"
امام رازی نے لکھا ہے کہ صحابہ کے گروہ نے کھانا کپڑاحرام کر لیا تھا اور راہب بن بیٹھے تھے اور اِس طرح کی زندگی کےلئے قسم کھا لی تھی۔ جب رسول اللہ نے اِس سے منع کیا تو پوچھنے لگے کہ اب کیسے سُبکدوش ہوں تو یہ آیت اُتری۔
ج- حج اور معافی گناہ
سورة البقرة 158:2 میں لکھا ہے:
"بیشک (کوہِ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اُس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے۔"
اِس ضمن میں ابنِ عباس کہتے ہیں کہ: "صفا پر بھی اور مروہ پر بھی ایک ایک بُت تھا اور جاہلیت کے دِنوں میں لوگ اُن کا طواف کیا کرتے تھے اور مس کرتے تھے اور چومتے تھے۔ جب اِسلام آیا تو مومنوں کو یہ طواف ناگوار گُذرنے لگا۔ اِس لئے یہ آیت نازل ہوئی۔"
د- زکوٰة اور گناہ کی بخشش
قرآن میں یہ بھی آیا ہے:
"جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہے اُن کو اُن کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) اُن کو نہ کچھ خوف ہو گا (َلَا خَوف عَلَیھِم) اور نہ وہ غمناک ہونگے (وَلَا ھُم یَحزَنُونَ)۔" (سورة البقرة 277:2)
اِس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں ابن عباس سے مروی ہے کہ: ایسوں کو قیامت کے احوال کے بارے میں کوئی خوف نہ ہو گا اور جو کُچھ اُنہوں نے دُنیا میں ترک کیا اُس پر اُنہیں کوئی رنج و غم نہ ہو گا۔
الاصم نے اِس کی وضاحت یوں کی کہ اِس کا اُنہیں خوف نہ ہو گا کہ اُس دِن وہ دُکھ اُٹھائیں گے اور نہ ہی اِس کا اُنہیں غم ہو گا کہ اُنہیں وہ سعادت اور نعمتیں کیوں نہ ملیں جو دوسروں کو عطا ہوئیں کیونکہ آخرت کی زندگی میں کوئی رقابت نہیں ہے۔
ہ- جہاد اور مغفرتِ گناہ
سورة البقرة 218:2 میں بتایا گیا ہے:
"جو لوگ ایمان لائے اور خدا کےلئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی خدا کی رحمت کے امیدوار ہیں اور خدا بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے۔"
روایت ہے کہ عبد اللہ بن جحش نے رسول اللہ سے پوچھا "یا رسول اللہ اگر فرض کر لیں کہ کوئی سزا اور عذاب اُن کاموں پر نہیں ہو گا جو ہم نے کیا ہے، تو کیا ہم اِس صورت میں اپنے اعمال کے اجر و ثواب کی توقع رکھ سکتے ہیں؟" چونکہ عبد اللہ مہاجر بھی تھے اور مجاہد بھی، اِس لئے یہ آیت نازل ہوئی۔
و- تلاوتِ قرآن اور مغفرت
سورة الاعراف 204:7 میں بتایا گیا ہے کہ:
"جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سُنا کرو اور خاموش رہا کرو۔ تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔"
مُفسّرین کہتے ہیں کہ اِس آیت سے پہلے اللہ نے قرآن کی ساری دُنیا والوں کےلئے ایک رحمت (رحمتہ للعالمین) کی حیثیت کا ذِکر کیا گیا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ حضرت ابوذر غفاری نے رسول اللہ سے کہا "مُجھے ڈر ہے کہ قرآن تو سیکھ لوں مگر اُس پر عمل نہ کر پاﺅں گا۔" آنحضرت نے فرمایا: "ڈرو نہیں، اللہ کسی بھی ایسے دِل کو دُکھی نہیں کرے گا جس میں قُرآن بسا ہو۔"
اِسی طرح انس بن مالک کہتے ہیں کہ "رسول اللہ نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا 'جو قرآن کی سماعت کرتا ہے اُس سے دُنیا کی بلائیں دُور کر دی جاتی ہیں، اور جو قرات کرتا ہے اُس سے آخرت کی بلائیں۔'"
اِبن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا "جو قرآن پڑھتا ہے حتیٰ کہ وہ خوب یاد ہو جاتا ہے اور پھر اُسی طرح برقرار رہتا ہے تو اللہ اُسے داخلِ جنت کرے گا اور اُسے اپنے دس اقارب و اعزّہ کی شفاعت کا حق بھی ملے گا، جن کا دوزخ میں جانا واجب ہے۔"
ز- کلمہ شہادت اور مغفرت
ابوہریرة سے روایت ہے کہ ابوذر غفاری نے آنحضرت سے پوچھا کہ "اے رسول اللہ مُسلم کی نجات کس طرح ہے؟" آپ نے فرمایا 'مُسلم اشھدان لا الہ الا اللہ و اشھدان محمد رسول اللہ کے اقرار سے نجات پائے گا۔'"
ح- اللہ کی مرضی و مشیئت اور مغفرت گناہ
سورة اٰل عمرٰن 129:3 میں لکھا ہے:
"اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب کرے۔"
اِس آیت کی وضاحت میں الرازی نے یہ کہا ہے، "ہمارے گروہ کے لوگ اِس آیت سے یہ احتجاج پکڑتے ہیں کہ اللہ سُبحانہ کے ہاتھوں میں پُورا پُورا اختیار ہے کہ اپنی اِلہٰیّت کے تحت سارے کافروں اور مُشرکوں کو جنّت میں ڈال دے اور سارے مُقربین و راستبازوں کو دوزخ میں، اور اُس کے اِس عمل سے اُس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔"
الرازی اِس مفہوم پر تنقید نہیں کرتے بلکہ اِسی خیال کی توثیق کرتے نظر آتے ہیں جب کہتے ہیں کہ "اِس آیت کے ظاہری معنٰی اِسی خیال پر دلالت کرتے نظر آتے ہیں اور عقلی بُرہان بھی تائید کرتا ہے، کیونکہ بندوں کے افعال اِرادہ پر موقوف ہیں اور اِرادہ کا خالق و محرّک اللہ ہے۔ تو جب اللہ ہی اُس کا پیدا کرنے والا ہو، تب ہی بندہ مطیع ہوتا ہے۔ اطاعت کے ارادہ کے پیدا کئے جانے پر اطاعت اور نافرمانی کے ارادہ کے خلق پر وہ نافرمانی کرتا ہے۔ لہٰذا بندہ کی اطاعت و معصیت دونوں ہی اللہ کی طرف سے ہو گئی، اللہ کا کوئی فعل اللہ پر کسی وجوب کو عاید نہیں کرتا یعنی نہ اطاعت ثواب کی موجب بنتی ہے نہ معصیت سزا و عتاب کی، بلکہ سب کُچھ اللہ کے اور اُس کے اِلہٰی اِرادہ ء قُدرت اور حکم پر موقوف ہے۔"
اِس موقع پر ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اِس طرح کا تصور کتاب مُقدّس (بائِبل) کا نہیں ہے بلکہ اِس میں گناہ کے کفّارہ کےلئے قُربانی اور فدیہ و ایثار پر زور دیا گیا ہے۔ بائِبل میں شروع ہی سے قربانی کے خون کی ایک قرمزی لکیر نظر آتی ہے۔ اور اِس فدیہ و کفّارہ کی ذمّہ داری خود خداوند تعالیٰ نے اپنے کندھوں پر لے رکھی ہے اور عبرانیوں 22:9 میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ "بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی۔"
چونکہ خدا کی ذات کامل ہے اِس لئے اُس کی طرف یا اُس کی مشیئت کی طرف اِس بات کو منسوب کرنا کہ وہ اِنسان کا گناہ اپنے اِلہٰی عدل و انصاف کے حساب میں بخش دے صحیح نہیں کیونکہ اُس کا اٹل حکم ہے "جو جان گُناہ کرے گی وہی مرے گی" (حزقی ایل 18: 20،4)۔ اگر وہ کسی عاصی کو معاف کرتا ہے تو اُس کا کوئی سبب بھی ہونا چاہئے جو اُس کے عدل کے مُطابق ہو اور اُس کے عدل کو تشفّی بھی دے۔ یہ تشفّی ہمیں کتاب مُقدّس کے عہدِ عتیق میں بھیڑ بکروں اور مینڈھوں جیسے جانوروں کی قُربانی میں نظر آتی ہے جنہیں خداوند تعالیٰ نے قبول فرمایا کیونکہ اِن میں مسیح کی قُربانی کا عکس تھا، اور یہ عکس فضل و محبت کے نئے عہد میں حقیقت کی شکل اختیار کر گیا اور اِسی ذبیحہ سے ہم اِلہٰی عدل کو پُورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اُس میں سارے ایماندار کامل و طاہر کئے جاتے ہیں۔ زبور 10:85 کی نبوت بھی اِسی میں پوری ہوتی ہے کہ "شفقت اور راستی باہم مل گئی ہیں۔ صداقت اور سلامتی نے ایک دوسرے کا بوسہ لیا ہے۔"
ط- اِسلام میں ناقابل معافی گناہ
(1) شرک: سورة النسآء 116:4 کے مطابق "اللہ اِس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اُس کا شریک بنایا جائے اور اُس کے سوا (اَور گناہ) جس کو چاہے گا بخش دے گا۔ اور جس نے خدا کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دُور جا پڑا۔" مفسّروں کا کہنا ہے کہ چونکہ شِرک سے بڑی کوئی اَور گُمراہی ہے نہیں اِس لئے مُشرک اللہ کی رحمت سے قطعاً محروم رہے گا۔ کُچھ مُفسّر کہتے ہیں کہ یہ آیت اُن کے حق میں آئی جو فرشتوں کو پُوچتے تھے اور یہ مانتے تھے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ الرازی کا کہنا ہے کہ جو لوگ روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو مونث قسم کا نام دیتے ہیں۔ کُچھ مفسّروں کا کہنا ہے کہ یہ آیت اُن لوگوں کی وجہ سے نازل ہوئی جو صنم پرستی کرتے تھے اور یہ مانتے تھے کہ اُن اصنام میں سے ہر ایک میں سے شیطان بولتا تھا۔
(2) کسی مُسلمان کی قصداً جان لینا: سورة النسآء 93:4 میں لکھا ہے "اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اِس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اُس پر غضبناک ہو گا اور اُس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کےلئے اُس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے۔" اِس ضمن میں امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ "قصداً قتل کرنے کا کفّارہ نہیں ہوتا۔ اِبن عباس کا یہ کہنا ہے کہ "قتل عمد کا اِرتکاب وہ سرکشی ہے جس کی توبہ ناقابل قبول ہے۔"
(3) ارتداد: سورة اٰل عمرٰن 90:3 میں لکھا ہے "جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے پھر کُفر میں بڑھتے گئے۔ ایسوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہو گی اور یہ لوگ گمراہ ہیں۔" مفسّرین کا کہنا ہے کہ مُرتد شخص بےایمانی میں چونکہ اَور بھی زیادتی کرتا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ ارتداد اور اُس پر بضد رہنا ایک ایسی حرکت ہے جو بےایمانی میں کثرت پیدا کرتی ہے اور کُفر پر کُفر بڑھتا چلا جاتا ہے۔
القفال اور اِبن الانباری نے کہا کہ "جو شخص ایک بار توبہ کے بعد دوبارہ کُفر کرے تو پہلی توبہ بھی نامقبول ہو جاتی ہے اور ایسی بن جاتی ہے جیسے رہی ہی نہ ہو۔"
لفظ کفّارہ کا مطلب ڈھانکنا یا چُھپانا ہے۔ مسیحیت میں یہ مسیح کے کام کا اظہار ہے، جس نے اپنی کامل اطاعت کی بدولت اِنسانوں کو اُس سزا سے بچانے کا انتظام کیا جس کی لعنت شریعت نے مقرر کر دی تھی، اور اُس نے صلیب پر اپنا خون بہانے کے وسیلے عابد و معبود میں وہ یگانگت اور قُربت پیدا کی جو باغ عدن میں موجود تھی۔ اِسی مفہوم میں مسیح کے شاگرد پطرس رسول نے فرمایا "مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کےلئے گُناہوں کے باعث ایک بار دُکھ اُٹھایا تا کہ ہم کو خُدا کے پاس پہنچائے۔ وہ جسم کے اعتبار سے تو مارا گیا لیکن رُوح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا" (1۔ پطرس 18:3)۔
آئیے، مسیح کے اِس کفّارہ پر مُختلف زاویوں سے نگاہ ڈالیں۔ پہلے خدا کے تعلق سے، یعنی اُس کی محبت، اُس کے عدل اور پاکیزگی کے تناظر میں نگاہ کریں۔ پھر اِس کا انسان سے تعلق دیکھیں یعنی اُس میں اور اُس کےلئے اِس کا کام کیا ہے۔ دراصل مسیح کی طرف سے دیئے گئے اِس کفّارہ کا یہ اثر ہوتا ہے کہ اِنسان کے گناہوں اور خطاﺅں کی تکفیر ہو جاتی ہے۔ عاصی اپنی بد کرداریوں کے نتائج و سزا سے بری کر دیا جاتا ہے۔ شریعت کی مُقررکردہ لعنت اور سزا دور کر دی جاتی ہے کیونکہ خدائے قدوس کا تقاضائے عدل پورا ہو جاتا ہے۔ اُس کی اِنسان سے نفرت و ناراضی جاتی رہتی ہے۔ اللہ کی قبولیت کی درگاہ تک خاطی و عاصی کی پُہنچ ہوجاتی ہے۔ عاصی و گنہگار سے نہ کوئی بدلہ لیا جاتا ہے اور نہ قصاص۔
مسیح کی قُربانی و فدیہ کے طفیل سارے گناہ رحمتِ اِلہٰی ڈھانپ لیتی ہے۔ قصاص اُٹھ جانے کی وجہ یہ ہے کہ خود گنہگار کو جو بدلہ ملنا تھا اُسے مسیح نے اپنے ذبیحہ کے وسیلے اُٹھا لیا ہے۔ مسیح کے ایک شاگرد یوحنارسول نے فرمایا ہے کہ: "محبت اِس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفّارہ کےلئے اپنے بیٹے (مسیح) کو بھیجا" (1۔ یوحنا 10:4)۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کفّارہ وہ کنجی ہے جس سے وہ درِ قُربت و صُلح کھل جاتا ہے جو اِنسان کے گناہ کی وجہ سے خدا اور اِنسان کے درمیان بند ہو گیا۔ نیز کفّارہ کی وجہ سے خدا کی پاک شریعت سے بے انصافی بھی نہیں ہوتی۔ اِس بات کا ذکر پولُس رسول نے 2۔ کرنتھیوں 19:5 میں کیا ہے:
"خدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذمّہ نہ لگایا، اور اُس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیا ہے۔"
اِنسان نے خدا کی صفات، سیرت و طبیعت اور اُس کی گنہگار مخلوق سے اُس کے رشتہ پر بُہت غور کیا ہے، اُس پر فلسفے کا رنگ چڑھایا ہے لیکن کبھی کسی تسلی بخش جواب تک نہیں پہنچا۔ جہاں دُنیا کے فلسفے ناکام ہو گئے وہاں بائِبل مُقدّس نے اِس گُتھی کو سُلجھایا ہے۔ خدا عادل و قُدوس خدا ہے، اُس کے عدل نے تقاضا کیا کہ گنہگار سزا پائے۔ اِس لئے سوائے فدیہ و کفّارہ کے اِنسان اور خدا کی مصالحت ممکن نہیں دکھائی دیتی۔ گناہوں کو قربانیوں سے ڈھانپنے کا آغاز اِسی حقیقت کے ساتھ ہوا۔ آغاز تخلیق آدم کے وقت سے ہی ہم اِس کی کارفرمائی دیکھتے ہیں۔ اِس کا آغاز باغِ عدن میں ہوا جب خدا نے آدم و حوا کی برہنگی کو چمڑے کے کرتوں سے ڈھانپا۔
بائِبل مُقدّس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جناب ہابل (آدم کے بڑے بیٹے) کی قُربانی خدا نے قبول کی اور وہ آنے والے کفّارہ کا عکس تھی (پیدایش 4:4)۔
اِسی طرح حضرت ابراہیم کو جو مینڈھا مہیا کیا گیا کہ اُن کے بیٹے اضحاق کا فدیہ ہو تا کہ اُن کا بیٹا بچ جائے، وہ اُس کفّارہ کا عکس تھا جو مسیح کی قربانی کے ذریعے خدا کا ازلی منصوبہ تھا (پیدایش 1:22-14)۔
اِسی طرح حضرت موسیٰ کے وقت بنی اِسرائیل کو مُلکِ مصر میں فسح کا برّہ ذبح کرنے کا حکم دیا گیا (خروج 1:12-42) اور وہ نئے عہدنامے میں خدا کے فسح کے برّے کی علامت تھا جس کے بارے میں پولُس رسول نے لکھا:
"ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قُربان ہوا۔ پس آﺅ ہم عید کریں۔ نہ پُرانے خمیر سے اور نہ بدی اور شرارت کے خمیر سے بلکہ صاف دِلی اور سچائی کی بے خمیر روٹی سے۔" (1۔ کرنتھیوں 5: 8،7)
عہد جدید میں اِس کفّارے کی نمائندگی اُس فدیہ سے ہوتی ہے جسے صلیب پر چڑھ کر یسوع المسیح نے پُورا کر دیا تا کہ خدا کی شریعت کے تقاضے اور مقاصد بھی پُورے ہو جائیں اور خاطی و عاصی اِنسان کی نجات و خلاصی بھی ہو جائے۔ چُنانچہ مسیح کی موت ایک عوضی موت ہے تا کہ گناہوں اور خطاﺅں پر جو قصاص واجب آتا ہے اُس کے مقتضیات بھی پُورے ہو جائیں اور اِلہٰی عدل و انصاف کے تقاضے بھی۔
مسیح جو مخلصی و نجات لے کر آیا اُس کا اظہار لفظ 'فضل' میں ہوتا ہے کیونکہ آسمانی باپ (خدا تعالیٰ) نہ تو اِس بات کےلئے مجبور تھا کہ گناہگار اِنسان کےلئے ایک قربانی دے اور نہ ہی بیٹا (مسیح) مضطر تھا کہ ایک فداکار کی خدمت اپنے ذمہ لے لے بلکہ یہ تو اللہ کی الوہیّت کاملہ تھی۔ رحمت و شفقت سے بھرپور، جس نے سزا کو ختم کر دیا اور ایک عوضی اور نیابتی دُکھ کو گلے لگایا جس کو کلمتہ اللہ (مسیح) نے خاطی کے عوض جسم اختیار کر کے مکمل کر دیا۔
نجات و مخلصی دینے والے نے اِس سچائی کا واضح اظہار کیا جب اُس نے کہا "میں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مُجھے جانتی ہیں اور میں بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتا ہوں" (اِنجیل یوحنا 15:10)۔ جب ہم مسیح کے اِس قول کا موازنہ اُن کے اُس قول سے کرتے ہیں جو یوحنا 13:15 میں ہے کہ "اِس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کےلئے دیدے" تو تب ہم پر وجہ ظاہر ہو جاتی ہے کہ قُدّوس خداوند خود کو کیوں خالی کرنے پر راضی ہو گیا، اور بدن اختیار کر لیا، دُکھ اُٹھایا اور ہماری خطاﺅں کےلئے صلیب پر خوشی خوشی چڑھ گیا۔
اِس نیابتی دُکھ و الم کے لزوم کی وضاحت یوں کی گئی ہے:
"اِس لئے کہ جو کام شریعت، جسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خدا نے کیا یعنی اُس (خدا) نے اپنے بیٹے (مسیح) کو گناہ آلودہ جسم کی صورت میں اور گناہ کی قُربانی کےلئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔ تا کہ شریعت کا تقاضا ہم میں پُورا ہو جو جسم کے مُطابق نہیں بلکہ رُوح کے مطابق چلتے ہیں۔" (رُومیوں 8: 4،3)
اور یسعیاہ نبی کی نبوت پوری ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ:
"وہ ہماری خطاﺅں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔" (یسعیاہ 5:53)
یہ مخلصی و کفّارہ دو وجوہات کی بنا پر خداوند تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں کو گناہوں کی معافی کی یقین دہانی اور نجات کی جاری رہنے والی برکات عطا کرتا ہے:
سبب اوّل: مسیح کی اطاعت اور اُن کے دُکھ و الم کو مدنظر رکھتے ہوئے خدا نے مومنین سے مخلصی و نجات کا وعدہ کیا ہے۔ ہم رومیوں 5: 19،18 میں پولُس رسول کے الفاظ پڑھتے ہیں "غرض جیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہوا جس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا ویسا ہی راستبازی کے ایک کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جس سے راستباز ٹھہر کر زندگی پائیں۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بُہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بُہت سے لوگ راستباز ٹھہرینگے۔"
سبب ثانی: اِنسان کےلئے فدیہ نے خدا کے عدل کے تقاضے کو پورا کیا کیونکہ یہ باپ اور بیٹے کے درمیان ابدی عہد پر مبنی ہے۔ اِسی لئے کلام خداوندی میں مرقوم ہے: "قُربانی اور نذر کو تُو پسند نہیں کرتا۔ تُو نے میرے کان کھول دیئے ہیں۔ سوختنی قُربانی اور خطا کی قُربانی تُو نے طلب نہیں کی۔ تب میں نے کہا دیکھ! میں آیا ہوں" (زبور 6:40 ; عبرانیوں 10: 5-7)۔ سو یسوع اِنسان بن گیا تا کہ ایک گناہگار کا فدیہ دے، اور سزا کو اپنے اوپر اُٹھا لے۔
پولُس رسول نے اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے لکھا "خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گُنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا" (رُومیوں 8:5)۔
الف- فدیہ کے لزوم کی وجوہات
(1) نجات کی ضرورت: فدیہ محض اِنسان کی اجتماعی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ ہر فرد بشر کی شخصی ضرورت بھی ہے۔ ہر فرد ہلاکت و موت کی زد میں ہے۔ سیدنا مسیح نے ایک بار سوال پوچھا:
"اگر آدمی ساری دُنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نُقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہو گا؟ یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دیگا؟" (متی 26:16)
اِنسان نہ تو اپنی جان کا فدیہ دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کا۔ داﺅد نبی کی وساطت سے خدا تعالیٰ نے فرمایا:
"اُن میں سے کوئی کسی طرح اپنے بھائی کا فدیہ نہیں دے سکتا نہ خدا کو اُس کا معاوضہ دے سکتا ہے۔" (زبور 7:49)
اگر توبہ کی جہت سے دیکھا جائے تو بھی نجات کےلئے فدیہ کی ضرورت ہے کیونکہ ہر متنفس کے دِل میں بدیہی طور پر یہ شعور کارفرما رہتا ہے کہ اُس کے کئے ہوئے گناہ اور خطائیں مٹا دینے کی اُس میں سکت نہیں تاوقتیکہ اُنہیں مٹانے کےلئے کوئی اَور وسیلہ نہ کام کرے۔ اور یہ وسیلہ سوائے فدیہ کے اَور کیا ہو سکتا ہے؟ ورنہ پھر ہم اُن ذبیحوں اور قُربانیوں کے وجود کی توجیہہ کس طرح کر سکتے ہیں جو نہ معلوم کتنے ہزار سالوں سے نہ صرف ایک دو مذہب میں بلکہ تمام ادیانِ عالم میں مستعمل چلی آ رہی ہیں۔ کیا اِس کی وجہ یہ نہیں کہ قلبِ خاطی کو اِس بات کا برابر احساس رہا ہے کہ فدیہ ایک لا بدی اِنسانی ضرورت ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری اخلاقی طبیعت ہمیں اِس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ تقدس اور پاکی کے طالب ہوں خواہ ہمارا مزاج اور سیرت اُس کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم میں سے ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کے گناہ اور خطاﺅں کے دلدل سے نجات دینے اور نکالنے اور دوبارہ راستباز ٹھہرانے کےلئے فدیہ کتنا ضروری ہے۔ یہ رہائی صرف مخلصی و نجات کی بدولت ملنے والی راستبازی کا نتیجہ ہے۔
(2) اِنسان کی معصیّت-خدا کی پاکیزگی: خدا پاک ہے اور اِنسان گناہگار ہے۔ اِنسان نرا خطا کا پُتلا ہے جو کہ اِلٰہی سیرت کا ضد بن چُکا ہے، اِس لئے سزا کا مُستحق ہے۔ اگر توبہ سے صالح بن جانا ممکن ہوتا، تب بھی اِنسان کی راستبازی اُس کے ماضی کے گناہوں کو نہ مٹا سکتی۔ لیکن اگر بلا فدیہ دیئے بخشا جاتا تو گناہگار کی نظر میں شریعت اور خدا کی پاکیزگی کی کوئی قدر و منزلت نہ ہوتی۔ اِس لئے گناہ کی سزا کو ڈھانپنا فدیہ ہی کے ذریعہ ٹھہرایا گیا اور یہ خدا کے کردار کی حتمی کاملیت کا اظہار ہے۔
(3) فدیہ اِنسان کی اخلاقی ضرورت سے مطابقت رکھتا ہے: اِنسان میں اخلاقی طبیعت موجود ہے، اِس لئے وہ عدل و اِنصاف اور پاکیزگی سے بذریعہ ضمیر مطلع ہوتا رہتا ہے۔ اب اگر وہ گناہ کے باعث اپنی سزا کو دیکھے اور کفّارہ سے واقف نہ ہو تو اُس کا ضمیر ہمیشہ اِس چُبھن سے دُکھ اُٹھاتا رہے گا۔ تاہم فدیہ و کفارہ کی بدولت گناہ کی معافی سے اِنسان کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے اور یہ اُس کی اخلاقی ضرورت کو پُورا کرتا ہے۔
(4) فدیہ شریعت کا تقاضا پورا کرتا ہے: شریعت گناہگار سے قصاص کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ جس شریعت میں قصاص و بدلہ نہ ہو، وہ شریعت بھلا شریعت ہی کیا ہے۔ قصاص و بدلہ شریعت کے مقاصد و غایات کو عز و شرف بخشتے ہیں۔ بلا فدیہ و کفّارہ دیئے گناہ کی معافی ایک طرح سے شریعت کا گلا گھوٹنا ہے اور یہ مسیح کے اُن الفاظ کے برعکس ہے جو اُنہوں نے فرمائے "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نُقطہ یا ایک شوشہ توریت (شریعت) سے ہرگز نہ ٹلیگا، جب تک سب کُچھ پُورا نہ ہو جائے" (اِنجیل متی 18:5)۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ فدیہ و کفّارہ کے بغیر معافی خدا کے عدل و انصاف اور تقذس پر کیچڑ اُچھالنے کے مترادف ہے۔
(5) فدیہ خدا کی کلام میں مرقوم ہے: اگر خلاص و نجات کی ضرورت نہ ہوتی تو خُدا کبھی بھی اِس کا ذِکر اپنے مُقدّس کلام میں نہ کرتا۔ دیکھئے مسیح بھی فرماتے ہیں کہ "جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا (لٹکایا) اُسی طرح ضرور ہے کہ اِبنِ آدم (مسیح) بھی اُونچے پر چڑھایا جائے (یعنی صلیب پر لٹکے) تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے" (اِنجیل یوحنا 14:3)۔
(6) اخلاقی نظام کا تقاضا: خدا چونکہ ایک عادل و مُنصف ہستی ہے، اِس لئے اپنے بنائے ہوئے عدل کے اصولوں پر ضرور چلتا ہے۔ جس اخلاقی دُنیا پر اُس کی بادشاہی ہے اُس میں کسی طرح کی نافرمانی، بددیانتی اور تخریب و اضطراب اُسے گوارا نہیں۔ وہ خود اپنے احکام کو توڑ کر اُنہیں بے وقعت نہیں کرتا بلکہ حد سے تجاوز کرنے والے سے وہ حساب طلب کرتا ہے اور اُس پر فتویٰ صادر کرتا ہے۔ اِلہٰی طریقہ نجات میں، دراصل خدائے قدوس یہ بتاتا اور ظاہر کرتا ہے کہ گناہوں سے اُسے کتنی نفرت ہے اور شرپسندی پر وہ کس قدر غضبناک ہوتا ہے۔ خود اپنے بنائے ہوئے احکام و اصول (شریعت) کو باوقار و باعزّت بنانے کےلئے ہی اُس رحیم خُدا نے گناہگاروں کےلئے ایک درِ معافی و مصالحت بھی کھول رکھّا ہے، یعنی فدیہ و کفّارہ!
(7) فدیہ و کفّارہ کی دوسرے ادیان میں موجودگی: دُنیا کے کئی ادیان و مذاہب بھی کفّارہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور یہ اِس بات پر دلالت ہے کہ اِنسانی دِل محض توبہ سے مطمئن نہیں ہوتا، بلکہ اُس کا ضمیر کفّارہ و فدیہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے یعنی گناہ گار و خاطی کی طرف سے قُربانی کا خون بہایا جائے۔
یہ تمام وجوہات فدیہ و کفّارہ کے لزوم کو ثابت کرتی ہیں۔
اب آئیے ذرا اِن تین باتوں پر غور کریں جن پر گناہوں کی معافی کےلئے بُہت تکیہ کیا جاتا ہے یعنی اعمال حسنہ، نماز اور روزہ۔
ب- اعمال حسنہ اور نجات
(1) بھلے کام کرنا ایک اخلاقی ذمہ داری ہے جنہیں کرنا لازمی ہے۔ اُن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں، لیکن یہ یاد رہے کہ وہ اُن گناہوں کا معاوضہ نہیں ہو سکتے جو ہو چکے ہیں یعنی گزشتہ بدکاریوں کےلئے ذریعہ معافی نہیں بنتے۔ مسیح نے اِس حقیقت کی نشاندہی اِن الفاظ میں کی کہ "تم بھی جب اُن سب باتوں کی جن کا تمہیں حکم ہوا، تعمیل کر چکو تو کہو کہ ہم نکمے نوکر (بندہ اورغلام) ہیں۔ جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کیا ہے" (لوقا 10:17)۔ اور پولُس رسول نے یہ لکھا ہے کہ نجات "تمہاری طرف سے نہیں، خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تا کہ کوئی فخر نہ کرے" (افسیوں 2: 10،9)۔
(2) جہاں تک ہمارے مال و املاک اور صحت و تندرستی کی بات ہے جن سے ہم لُطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، سب کچھ خدا ہی کی دین ہے۔ جب ہم اُن چیزوں کی خیرات کرتے ہیں تو کیا کوئی چیز ہم اپنی طرف سے بطور ایثار و قُربانی کے دیتے ہیں، یا کیا کوئی ایسا کام ہم کر رہے ہوتے ہیں جو جزا اور ثواب کا مُستحق ہو؟ ہرگز نہیں جو فرض تھا وہ ہم نے کیا تھا اُس سے نہ کُچھ کم نہ کُچھ زیادہ؟
جب داﺅد نبی نے ہیکل کی تعمیر کےلئے کثیر تعداد میں مال و دولت پیش کیا تو کہا:
"اے ہمارے خدا ہم تیرا شکر اور تیرے جلالی نام کی تعریف کرتے ہیں۔ پر میں کون اور میرے لوگوں کی حقیقت کیا کہ ہم اِس طرح سے خوشی خوشی نذرانہ دینے کے قابل ہوں؟ کیونکہ سب چیزیں تیری طرف سے ملتی ہیں اور تیری ہی چیزوں میں سے ہم نے تجھے دیا ہے۔" (کتا ب مُقدّس: 1۔ تواریخ 29: 14،13)
(3) اعمال حسنہ جو ہم کر تے ہیں اُس بے احترامی اور توہین کو زائل نہیں کرتے جو ہمارے گناہ نے اُس خدا تعالیٰ کی شان میں کر دیئے ہیں جس کی صداقت و قُدّوسیت کی کوئی اِنتہا نہیں۔ اِس لئے اِنسان کے لنگڑے لولے اعمال حسنہ سے اُن کا ازالہ نہیں ہوتا اور معافی کے حصول کے وہ بالکل لائق نہیں ہوتے۔
(4) خداوند تعالیٰ کی حضوری میں باریابی کی اوّلین شرط تقدّس و پاکیزگی ہے۔ بغیر تقدّس کے خدا کی رویت بھی ممکن نہیں۔ اعمال حسنہ تو ہمیں تقدّس عطا نہیں کر پاتے۔ یہ تقدّس جناب مسیح کی تعلیم کے موافق اُسی ایماندار کو ملتا ہے جو خدا کے پاک رُوح کے وسیلہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اِس لئے خلق جدید کی ضرورت پڑتی ہے۔ سیدنا مسیح نے فرمایا:
"میں تُجھ سے سچ کہتا ہوں جب تک کوئی آدمی پانی اور رُوح سے پیدا نہ ہو، وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جو جسم (یعنی رحم اور نطفہ اِنسانی) سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو رُوح سے پیدا ہوا ہے رُوح ہے۔" (اِنجیل مُقدّس یوحنا 3: 6،5)
ج- صلوٰة و نجات
نماز تو حقیقت میں ایک کڑی ہے جو خدا سے بات چیت اور اُس کی شخصیت پر گیان دھیان کا نام ہے اور خدا اور بندے کے درمیان ایک رابطہ ہے۔
جب کوئی گنہگار بن جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اور بندہ میں علیحدگی اور جُدائی ہو جاتی ہے اور نماز و مناجات قبول نہیں ہوتی، اِسی لئے اُن کا جواب بھی نہیں ملتا۔ یسعیاہ نبی کی معرفت خدا نے فرمایا:
"تمہاری بدکرداری نے تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان جُدائی کر دی ہے اور تمہارے گناہوں نے اُسے تم سے رُوپوش کیا ایسا کہ وہ نہیں سُنتا۔ کیونکہ تمہارے ہاتھ خون سے اور تمہاری اُنگلیاں بدکرداری سے آلودہ ہیں۔ تمہارے لب جھوٹ بولتے اور تمہاری زبان شرارت کی باتیں بکتی ہے۔" (یسعیاہ 59: 3،2)
داﺅد نبی نے بھی فرمایا ہے کہ:
"اگر میں بدی کو اپنے دِل میں رکھتا تو خداوند میری نہ سُنتا۔" (زبور 18:66)
د- صیام و نجات
روزہ بھی نماز ہی کی طرح عبادت کا ایک رُوپ ہے۔ روزہ میں باری تعالیٰ کے سامنے فروتنی، خاکساری اور خود کو شکستہ کر دینے کی دراصل ایک بات پائی جاتی ہے۔ لیکن یاد رہے اِس سے گذشتہ راستبازی کی حالت جو اِنسان کو ہبوط سے پہلے حاصل تھی، پیدا نہیں ہوتی۔
خدائے قدوس کے خلاف گناہ کا روزہ بھی معاوضہ نہیں بن سکتا، چُنانچہ مغفرت کا ذریعہ بننے کی اُس میں صلاحیت نہیں۔ زکریاہ نبی کی معرفت خدا نے فرمایا کہ:
"مملکت کے سب لوگوں اور کاہنوں سے کہہ کہ جب تم نے پانچویں اور ساتویں مہینے میں اِن ستر برس تک روزہ رکھا اور ماتم کیا تو کیا کبھی میرے لئے خاص میرے ہی لئے روزہ رکھّا تھا؟ اور جب تم کھاتے پیتے تھے تو اپنے ہی لئے نہ کھاتے پیتے تھے؟" (زکریاہ 7: 5-6)
جو کُچھ اب تک کہہ آئے ہیں اُس کا نچوڑ بس یہی ہے کہ:
الف- اِنسانی نجات کا دارومدار کفّارہ و فدیہ پر ہے جو کہ صرف ایک عقلی و فکری نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک حقیقت عملی بھی ہے جس کا وجوب و وجود خاطی و ہابط و ساقط انسان کے گناہ کو ختم کرنے کےلئے ضروری ہے۔
ب- ہم سب آدم کا گناہ میں گرنا مانتے ہیں۔ یہ گرنا صرف اُن کا ہی گرنا نہیں بلکہ نیابتی طور پر اُن کی ساری ذرّیت و نسل اِس سے متاثر ہوئی۔ اِس وجہ سے خدا نے اپنی محبت میں اِنسان سے جسے اُس نے اپنی شبیہ پر پیدا کیا، گناہ و بدکرداری کی سزا مٹانے کےلئے ایک عوضی مہیا کرنے سے انتظام کیا۔
اِنسان کی نجات کےلئے لازم تھا کہ یہ عوضی خدا کی قدرت و محبت کا اظہار کرنے کے قابل ہوتا۔ خدا کی محبت کا ایسا اظہار صرف خدا ہی کی طرف سے آ سکتا ہے۔ سو خدا تعالیٰ نے اپنی محبت میں انسانیت کےلئے یہ ارادہ کیا کہ مسیح جنس بشری کے نمائندہ ہو کر اِنسان کےلئے کامل عوضی بن جائیں، اِس لئے اُنہیں آدم ثانی کہا جاتا ہے۔ آدم اوّل گناہ میں گرے تمام اِنسانوں کی نمائندگی کرتا ہے تو آدم ثانی فدیہ و کفّارہ کےلئے تمام اِنسانوں کےلئے عوضی ہے۔
ج- اِس عوضی کےلئے ضروری تھا کہ گناہ کی سزا کو مکمل طور پر ختم کرنے کےلئے مکمل قیمت ادا کرے۔ مسیح نے اِس قیمت کو یوں چکایا کہ صلیب پر اپنی جان دے دی جہاں اُس نے ہمارے گناہوں کو اپنے اوپر اُٹھا لیا۔ صلیب کے ذریعے فدیہ کی ضرورت کے بارے میں عہد عتیق ہماری قائلانہ طور پر اِس طرف نشاندہی کرتا ہے کہ عہد عتیق کی قربانیوں کا خون یسوع خدا کے برّے کا عکس تھا اور اُس کی طرف اشارہ کرتا تھا۔
مسیح کی قربانی کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف اِنسان سے گناہ دور کرتی ہے بلکہ اُسے ایک اخلاقی بیماری سے شفا دیتی ہے۔ ہر وہ فرد جو مسیح مصلوب کو قبول کرتا ہے اُسے حیات نو حاصل ہوتی ہے۔
وہ ایسا مومن بن جاتا ہے جسے گناہ سے نفرت ہوجاتی ہے۔ مسیح کی صلیب خاص طور اُس کی عقل کی بند آنکھیں کھول دیتی ہے کہ وہ گناہ کی تباہی اور سخت سزا کو دیکھ سکے۔
اِسی لئے یوحنا رسول نے لکھا ہے کہ:
"اگر ہم نور میں چلیں جس طرح کہ وہ (خدا) نور میں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اُس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے۔" (1۔ یوحنا 17:1)
عزیز قاری، اب جبکہ آپ نے اِس کتاب کا دھیان سے مطالعہ کیا ہے تو ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ذیل میں دیئے گئے سوالات کے جوابات دے کر اپنے علم کا جائزہ لیں۔
قرآن میں کن کن مُختلف الفاظ سے گناہ یا خطا کی تعبیر ہوتی ہے؟
کیا قرآن، آدم اور حوا کو گنہگار قرار دیتا ہے؟
ہمارے پہلے باپ اور ماں (آدم اور حوا) کے گناہ کی بابت قرآن میں درج تین مختلف آیات لکھئے۔
اِس قرآنی آیت کی وضاحت کیجئے "آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے) بے راہ ہو گئے" (سورة طہ، آیت 120)۔
مسیحیت میں گناہ کی کیا تعریف ہے؟
گناہ کا وجود کس طرح دُنیا میں ظہور پذیر ہوا؟
گناہ موروثی، وراثتی، فطری اور جبلی ہے، اِس حقیقت کو ثابت کیجئے۔
اِنسان پر گناہ کی تاثیر کیا ہے اور یہ کیسے ہوتی ہے؟
گناہ کی مزدوری اور سزا کیا ہے؟ وضاحت کیجئے۔
کتنی قرآنی آیات گناہوں کی مغفرت اور کفّارہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں؟
اسلام میں کفّارہ کا کیا معنٰی ہے؟
اسلام میں گناہوں کے کفارہ کا مفہوم کس طرح آ موجود ہوا؟
اِسلام میں کفّارہ اور مغفرت کے فرق کو بیان کیجئے۔
مغفرت حاصل کرنے کے کون سے ذرائع ہیں؟ اسلام میں کتنے ذرائع پائے جاتے ہیں؟
مسیحیت میں گناہوں سے کفّارہ کا کیا مطلب ہے؟
اِنجیل مُقدّس کے مطابق گناہوں سے کفّارہ کیسے ممکن ہوا؟
کیا فدیہ کی ضرورت ہے؟ ثبوت بیان کیجئے۔
اِنسانوں کا گناہوں سے نجات پانا کیوں ضروری ہے؟
عقلی، شرعی اور اخلاقی لحاظ سے ثابت کیجئے کہ اِنسان کو نجات کی ضرورت ہے؟
اِس کتابچے کے خلاصے کے طور پر بائِبل مُقدّس کی کوئی ایک آیت بیان کیجئے۔
The Good Way
P.O.Box 66
CH - 8486
Rikon
Switzerland