کیا مسیح واقعی مصلوب ہُوا؟

کیا مسیح واقعی مصلوب ہُوا؟

از فارس القیروانی


1۔ تعارف

اِس مطالعہ کا مقصد مسیحیوں اور اہلِ اِسلام کے درمیان ایک ایسی دُنیا میں کسی طرح کی عداوت یا نفرت کی چنگاری بھڑکانا نہیں ہے جو پہلے ہی غضب، نفرت، تفرقوں، تعصُّب، نسلی کشمکش، تشدد اور جنونیت کا شکار ہے۔ بلکہ ہمارا بنیادی مطمع نظر ایک پیچیدہ معاملے یعنی مسیح کی مصلوبیّت کا جائزہ لینا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ دونوں ادیان کے نزدیک تنازعے کی مرکزی وجہ ہے۔ جو بھی تاریخی، مذہبی اور دیگر منطقی مواد ہمیں میسر ہے، اُس کی روشنی میں ہم بائبلی مواد پر بغیر کسی تعصُّب کے توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے تا کہ اِلٰہی سچّائی جیسے اِنجیلی بیانات میں ہم پر منکشف ہوئی ہے، اُسے بیان کیا جائے۔ ہم مدد فراہم کرنا چاہتے ہیں تا کہ شک کے بادِل چھٹ جائیں اور ردّ کرنے کا رویہ موقوف ہو جس نے ہمارے دوستوں اہلِ اِسلام کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لیا ہُوا ہے۔ ہم بنیادی طور پر اہلِ علم افراد سے مخاطب ہیں، لیکن یہ مطالعہ عام مسیحی ایمانداروں کی بڑھوتری میں بھی معاون ثابت ہو گا اور اُن کے ایمان اور اُمید کو مضبوطی بخشے گا۔

بِلا شک و شبہ، صلیب مسیحی ایمان میں مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔ بائبل مُقدّس میں واضح طور پر اِس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انسان کی ابدی نجات کا اِنحصار مکمل طور پر مسیح کی صلیب پر دی گئی کفّارہ بخش موت پر ہے۔ مسیحیت یہی تعلیم دیتی ہے اور ایک مسیحی کا یہی ایمان ہے۔

اِسلام صلیب کے تمام تصور کو ردّ کرتا ہے۔ اہلِ اِسلام کے نزدیک یہ دعویٰ کرنا خلافِ عقل ہے کہ خُدا تعالیٰ جو قادر مُطلق ہے صلیب کے بغیر اِنسان کے گناہوں کو معاف نہیں کرے گا، اور ایسا کہنا تو خُدا تعالیٰ کی قدرت کو محدود کر دینا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ جب توبہ کے ساتھ خُدا کا رحم اور معافی شامل ہو تو ایک تائب گنہگار کےلئے قرآن میں وعدہ کی گئی جنت کی تمام آسائشیں پانا ممکن ہو جاتا ہے۔

اِن دونوں نقطہ ہائے نظر کے مابین پایا جانے والا فرق مشرق اور مغرب کے درمیان پائے جانے والے فرق کی طرح ہے۔ مسیح کے خُدا کا بیٹا ہونے اور آپ کی کفّارہ بخش موت پر ایمان رکھنے والا ایک مسیحی صلیب میں ابدی زندگی کی یقینی ضمانت پاتا ہے۔ خُدا تعالیٰ نے صلیب پر اپنی محبت، فضل، رحم اور عدالت عیاں کی۔ اِس یقین کا مصدر مسیح کے وعدے ہیں۔ یسوع نے کہا "جو کوئی ایمان ایمان لائے ... ہمیشہ کی زندگی پائے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 3: 16)۔ ایک مسیحی مکمل طور پر بھروسا رکھ سکتا ہے کہ اُسے مسیح کے وعدوں کی بنا پر بِلا شک و شبہ ابدی زندگی عنایت ہو گئی ہے۔ "اِن شاء اللّہ" یا "یہ خُدا تعالیٰ کے رحم پر موقوف ہے" کی طرح کے الفاظ ایسے یقین و بھروسے کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ ایسے فقرات ایک ایماندار کی زندگی میں کسی قسم کے تحفظ کا احساس فراہم کرنے میں ناکام ہیں، کیونکہ اِن میں وہ یقین نہیں پایا جاتا جس کی اُسے ایک پھلدار، مستحکم ایمان کےلئے ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک فرد یہ مانتے ہوئے کہ مسیح کی موت نے اُس کی تمام خطاؤں کی پہلے ہی سے مغفرت کو ممکن کر دیا ہے، یہ سوچے کہ اُسے گناہ کرنے کی چھوٹ ہے اور وہ اُن کا اِرتکاب کر سکتا ہے۔ جو کوئی بھی ہمیشہ کی زندگی کا متمنی ہے اُسے مسیحی ایمان کے اخلاقی تقاضوں کو پورا کرنے کےلئے مسیح کی طرح کی زندگی گزارنی ہے۔ ایسا فرد جس کی زندگی اُس کے نئے مخلوق ہونے کی تصدیق نہیں کرتی وہ خُدا تعالیٰ کے غضب کی سزا کے تحت ہی ہے۔

اِسلام میں نجات خُدا تعالیٰ کی حمایت حاصل کرنے کےلئے ایک سعی مسلسل پر موقوف ہے، جو اگر خُدا چاہے تو جنت الفردوس کی برکات، خوشیوں اور عنایات کی صورت میں عطا ہو گی۔ خُدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی اُمید میں اِس کےلئے مسلسل جدوجہد درکار ہے۔ ایک مسلمان کبھی بھی پُریقین نہیں ہو سکتا کہ اُس نے واقعی خُدا کو خوش کر دیا ہے اور اُس کی حمایت حاصل کر لی ہے۔

اِسلام میں اعمال صالح ثواب کےلئے نہایت اہم ہیں کہ خُدا تعالیٰ کی حمایت حاصل کی جائے، جبکہ مسیحیت میں نیک اعمال محبت اور ایمان کا پھل ہیں۔ مسیحیوں کےلئے نیک اعمال حال یا مستقبل کے کسی اجر کو کمانے کا ذریعہ نہیں ہیں۔ صلیب پر مسیح کے فدیہ و مخلصی کے عمل کی بدولت ابدی زندگی کی پہلے ہی ضمانت دے دی گئی ہے۔ یہ ضمانت ہر اُس فرد کےلئے ہے جو یسوع کو اپنا خُداوند، فدیہ دینے والا اور نجات دہندہ تسلیم کرتا ہے۔ یہ ایک ناگزیر شرط ہے۔ جب ایمان کی یہ شرط پوری ہوتی ہے تو مسیحی زندگی فطری طور پر پھل لاتی ہے جو کہ نیک اعمال ہیں۔ اِس اعتبار سے نیک بننے کی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ آپ ایمان لانے کی بدولت پہلے ہی ایک نئی مخلوق، ایک نیا فرد ہیں۔ لیکن اِس امر کی بڑی ضرورت موجود ہوتی ہے کہ ایمان میں ترقی کی جائے اور مسیح کے ایک اچھے گواہ کے طور پر اپنے مسیحی رُوحانی اثر کو وسیع کیا جائے۔

ایک گلاب کا پھول ہوا کو اپنی مہک سے فطری طور پر معطر کرتا ہے۔ اُسے ایسا کرنے کےلئے جدوجہد نہیں کرنی پڑتی۔ یہ اُس کی فطرت میں ہے کہ وہ بھینی خوشبو پیدا کرے، مگر تمام پودے کو مزید خوبصورت گلاب پیدا کرتے رہنے کےلئے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالکل اِسی طرح، حقیقی مسیحی کی نئی زندگی کے فطری اظہار کے طور پر اچھا پھل پیدا کرنا مسیحی فطرت ہے، اور یہ کسی اجر کو حاصل کرنے یا ہمیشہ کی زندگی محفوظ بنانے کےلئے نہیں ہے، وہ تو یسوع مسیح کے خون کے وسیلہ سے پہلے ہی محفوظ کر دی گئی ہوتی ہے۔

اِس مطالعہ میں ہم مسیح کی مصلوبیّت کی تاریخی حقیقت کو جو تقریباً دو ہزار سال پہلے واقع ہُوئی، ثابت کرنے کےلئے دستیاب تمام تاریخی تحریروں اور معترف حوالہ جات کو استعمال کریں گے اور بتائیں گے کہ وہ مصلوب شخصیت سوائے یسوع مسیح کے کوئی اَور نہیں تھی۔ ہمارا ایمان ہے کہ اِس سے ہٹ کر دیگر تمام دعوے باطل اور تاریخی ثبوت کے برعکس ہیں۔

یہ ہماری دِلی خواہش ہے کہ ہمارے مسلمان دوست اِس کتاب کو بغیر کسی تعصب کے کُھلے ذہن، دِل اور رُوح سے پڑھیں، کیونکہ اِس کتاب کو تحریر کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ صلیب کی سچائی کو ایک تاریخی اور رُوحانی واقعہ کے طورپر جانا جا سکے۔ ہم اُنہیں یہ نہیں کہتے کہ وہ ہم سے مُتّفِق ہوں، بلکہ اِس کے برعکس ہم اُن میں مسیحی ایمان و اعتقاد کی صداقت یا بطالت کے بارے میں تحقیق کرنے کے شوق کو پیدا کرنے کی اُمید کرتے ہیں۔ اگر نبی اسلام اپنی قوم اور قبیلہ کے مذہب کی صداقت کے بارے میں سوال نہ کرتے تو وہ اللّہ کے بجائے مکہ کے بتوں کی پرستش کرنے پر قناعت کرنے والے ٹھہرتے۔ اِس لئے، ہم اپنے مسلمان دوستوں کو دعوت دیں گے کہ وہ صلیب کی صداقت کا انکار یا اقرار کرنے سے پہلے اِس مختصر مطالعہ کا اچھی طرح سے جائزہ لیں۔

2۔ باب اوّل: مصلوبیّت کی وجوہات

نسلِ اِنسانی کی نجات کےلئے صلیب پر یسوع مسیح کا فدیہ و مخلصی کا کام مسیحی دین کا ایک لازمی عقیدہ ہے۔ نہ تو یہ اِنسانی ذہن کی منصوبہ بندی تھی اور نہ ہی لوگوں نے اِسے سرانجام دیا، بلکہ یہ خود خُدا تعالیٰ کا کام تھا۔ اِس لئے، اِنسان اِس کو اپنے کھاتے میں نہیں ڈال سکتا۔

مسیح کی صلیب پر موت اور پھر قیامت ساتویں صدی عیسوی میں اِسلام کے آغاز سے مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان متنازعہ معاملات رہے ہیں۔ مسلمان اِس بات کا انکار کرتے ہیں کہ جناب مسیح مصلوب ہوئے تھے یا پھِر اُنہوں نے طبعی موت سہی تھی (اگرچہ اُن کے کچھ علماء نے یہ کہا ہے کہ مسیح ایک طبعی موت مرے اور پھر خُدا نے اُنہیں آسمان کی طرف اُٹھا لیا)۔ دوسری طرف، مسیحی یہ کہتے ہیں کہ اِنسانیت کی نجات کےلئے مسیح مصلوب ہوئے۔ دونوں اطراف اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کےلئے اپنی مُقدّس کتاب کا اقتباس کرتی ہیں، اور دوسروں کی کتاب پر بے اعتقادی کو ظاہر کرتی ہیں۔

مسیح کی مصلوبیّت کا مسلمانوں کی طرف سے انکار کا مقصد کفّارہ کے تمام تصور کی نفی کرنا یا ایک نجات دہندہ کی ضرورت کا انکار کرنا ہے۔ اُن کے نزدیک بغیر خون بہائے نجات ممکن ہو سکتی ہے، یہ بغیر کفّارہ کے عمل کے ممکن ہے جو مسیح کی شخصیت میں صلیب پر اپنی حتمی اور ابدی صورت میں واقع ہُوا ۔ مصلوبیّت کے تعلق سے بائبل مُقدّس کے ایک حوالہ میں یوں لکھا ہے: "بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی" (نیا عہدنامہ، عِبرانیوں 9: 22)۔

یہی وہ امر ہے جس کا تمام مسلمان بڑی شِدّت سے انکار کرتے ہیں۔ مسلمان یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ توبہ اور اعمالِ صالح لوگوں کو اُن کی خطاؤں سے نجات دینے کےلئے کافی ہیں کیونکہ معافی ہمیشہ خُدا تعالیٰ کی رحمت اور مرضی پر موقوف ہے۔ [1] مسلمان یہ ایمان نہیں رکھتے کہ اِنسان اور خُدا تعالیٰ کے درمیان ایک شفاعت کرنے والے کی ضرورت ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ انسان بےگناہ پیدا ہوتا ہے، اور وہ وراثت میں ملی ہوئی گراوٹ کی شکار فطرت کی وجہ سے سیدھے راستہ سے نہیں بھٹکتا بلکہ اپنی کمی کمزوریوں کی وجہ سے سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ میں The Fallen Nature of Man in Islam and Christianity [2] کے ایک مختصر مطالعہ کی نشاندہی کرنا چاہوں گا جس میں مصنف نے اِسلامی اور مسیحی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ایسے دعوؤں کو بڑے استدلال سے غلط ثابت کیا ہے۔

جن وجوہات کی بناء پر مسیحی پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح نے صلیب پر اپنی جان دی اور پھر تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے، اُن کا اِس تحریر میں مختصر طور پر ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

الف۔ مصلوبیّت کےلئے منطقی وجوہات

مسیح کی موت کا مکمل طور پر انکار کرنے کےلئے مسلمان سورۃ النساء 4: 156 ۔ 157 کے قرآنی حوالہ پر اِنحصار کرتے ہیں:

"اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو اللّہ کے رسول ہیں قتل کر دیا ہے، حالانکہ اُنہوں نے نہ اُن کو قتل کیا اور نہ اُن کو سولی پر چڑھایا لیکن اُن کو اِشتباہ ہو گیا۔ اور جو لوگ اُن کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور گمان پر چلنے کے سِوا اُن کو اِس کا مطلق علم نہیں۔ اور اُنہوں نے اُن کو یقینی بات ہے کہ قتل نہیں کیا۔ بلکہ اُن کو اللّہ تعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھا لیا اور اللّہ تعالیٰ بڑے زبردست حکمت والے ہیں۔"

اِس اکیلی آیت 156 کی بناء پر جو مسیح کی موت کا انکار کرتی ہے (اگرچہ اِس آیت کے تعلق سے مختلف متضاد تاویلات موجود ہیں)، مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کی مصلوبیّت واقع نہیں ہُوئی تھی اور مسیح کی موت اور قیامت ابتدائی مسیحیوں کی گھڑی ہُوئی ایک کہانی ہے۔ ایسے الزام نے ہمیں تحریک بخشی ہے کہ مندرجہ ذیل نکات پر توجہ مرکوز کریں:

(1) خود سے فیصلہ کریں

سب سے پہلے فرض کیجئے کہ آپ منصف ہیں اور مسیح کی مصلوبیّت کی طرح کا قضِیّہ آپ کے سامنے پیش ہُوا ہے۔ آپ کیسے اِس قضِیّہ کی جانب ردعمل کا اظہار کریں گے جبکہ اِس کی تصدیق بہت سی مستند تاریخی تحریروں اور مقدمے کے اندراج کے اصل متون سے ہوتی ہے؟ اگر اِن تحریروں میں مسیح اور رومی حکمران پیلاطس کے درمیان پایا جانے والا مکالمہ موجود ہو، صدر عدالت میں یسوع اور یہودی راہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیل دی گئی ہو، آنکھوں دیکھے گواہی کے اقوال موجود ہوں، مقدمے کے دوران موجود افراد کے ناموں کی فہرست دی گئی ہو، اور مصلوبیّت سے پہلے اور بعد میں پیش آنے والے واقعات کا بیان کیا گیا ہو تو آپ کیا کہیں گے؟ آپ کسی ایسے فرد کی جانب کیسے ردعمل کا اظہار کریں گے جو چھ صدیوں کے بعد آئے اور ایک غیر مصدقہ بیان کے ساتھ دعویٰ کرے کہ یسوع کی موت بالکل واقع نہیں ہُوئی تھی اور اِس واقعہ کی بابت جو کچھ اِنجیلی بیانات میں درج ہے وہ ابتدائی کلیسیائی بزرگوں کے تخیل کی پیداوار ہے؟ کیا آپ ایک راست منصف کے طور پر باقی تمام ثابت شدہ حقائق کے خلاف اِس گواہی کو تسلیم کریں گے؟ ہو سکتا ہے کہ کوئی دعویٰ کرے کہ یہ آیت تو اللّہ تعالیٰ نے محمد صاحب پر منکشف کی تھی اور اللّہ جھوٹ نہیں بولتا۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ دعویٰ کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ قطعیت کے ساتھ اِس بات کو ثابت کرے کہ یہ خُدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

یہاں ہمارے سامنے دو حقائق موجود ہیں۔ اوّلاً، ہمارے سامنے دو کتابیں ہیں، قرآن اور بائبل، اور اِن میں سے ہر ایک کتاب کو اِس کے پیروکار خُدا کی طرف سے مکاشفہ مانتے ہیں۔ بظاہر یہ سچ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اپنی بنیادی تعلیم میں ایک دوسرے سے تضاد رکھتی ہیں۔ اِس صورت میں، اِن میں سے ایک کا ماخذ یقیناً خُدا سے ہٹ کر ہے۔ یہ الزام لگانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ اہلِ کتاب (جیسا کہ اِسلام یہودیوں اور مسیحیوں کو مخاطب کرتا ہے) نے کتابِ مُقدّس کو بگاڑ دیا ہے کیونکہ تمام ایسے تحقیقی مطالعوں نے جو قیاس آرائی یا تخیل پر مبنی نہیں ہیں، کتابِ مُقدّس جیسے ہمارے پاس موجود ہے اُس کی صحت کو ثابت کیا ہے۔

دوسری حقیقت، اِنجیلی بیانات کے متن کی تصدیق کرنے والی تاریخی تحریریں ہیں، جبکہ مسیح کی مصلوبیّت کے تعلق سے قرآنی متن کی صداقت کی تصدیق کےلئے کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے۔ جب تاریخ بائبلی متن کی تصدیق کرتی ہے لیکن قرآنی متن کی تصدیق نہیں کرتی تو اِس کا فائدہ بائبل مُقدّس کو ہے نہ کہ قرآن کو۔

مزید برآں، مسیحی ایمان رکھتے ہیں کہ اُن کی کتاب خُدا تعالیٰ کے الہام سے ہے جس میں ہر ایک لفظ خُدا تعالیٰ کا منکشف شدہ ہے۔ جب متن کی تصدیق اُن بہت سی نبوّتوں سے ہوتی ہے جو لفظی طور پر مسیح کی شخصیت میں پوری ہو چُکی ہیں، اور جب مسیح نے خود اُن کا اقتباس کیا ہے اور اُن کا اپنی شخصیت پر اطلاق کیا ہے، تو پھر مسیحی دعوے میں بڑا وزن ہے۔ یوں ایک مسلمان کےلئے لازمی بن جاتا ہے کہ وہ اِن تاریخی، آثار قدیمہ اور بائبلی حقائق کی صداقت کو غلط ثابت کرے۔ ایسا کرنے کےلئے مضبوط تر اور زیادہ فیصلہ کن ثبوت پیش کرنا ہو گا جو مسیحی ثبوت پر غالب آ سکے۔

(2) ایک جھوٹ کےلئے جان دینا؟

دوّم، اگر مسیح کی موت محض کوئی قدیم گھڑی ہُوئی کہانی ہوتی تو کیا یوحنّا رسول کو چھوڑ کر مسیح کے تمام شاگرد آپ کےلئے اپنی جان قربان کرتے؟ قرآن خود مسیح کے شاگردوں کی وفاداری، امانت و تقویٰ کی گواہی دیتا ہے اور اُنہیں ایسے افراد کے طور پر بیان کرتا ہے جن کی مثالوں کی پیروی کی جانی چاہئے۔ ایسے لوگ اپنے خُداوند کے بارے میں کبھی بھی کوئی کہانی نہ گھڑ سکتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شحص کسی اعلیٰ مقصد کےلئے یا پھر ایسے نصب العین کےلئے جس پر ایمان رکھتا ہو، اپنی زندگی قربان کر دے، مگر کوئی بھی جانتے بوجھتے ایک جھوٹ یا گھڑی ہوئی بات کےلئے اپنی جان نہیں دے سکتا۔ یہ خاص طور پر قبول کرنا مشکل ہے کہ شاگردوں نے جو خُدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے افراد تھے ایک جھوٹ کی ترویج کرنے کےلئے اپنے جان دی ہو گی۔

(3) آنکھوں دیکھے گواہ

سوّم، مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک شاگردوں نے نجات کی خوشخبری کی منادی کرنا جاری رکھا۔ اُن کی خدمت کے پہلے عرصہ کے دوران اُن کی منادی زیادہ تر یہودی حلقے میں تھی جنہوں نے مسیح کی مصلوبیّت کو دیکھا تھا اور مسیح کے جی اُٹھنے کے واقعہ کو جانتے تھے۔ لیکن اِس سب کے باوجود، کسی ایک بھی یہودی یا اُن کے مذہبی راہنماؤں میں سے کسی ایک نے بھی جنہوں نے مسیح کے خلاف منصوبہ سازی کی تھی، اُن پر جھوٹ بولنے کا الزام نہیں لگایا۔ مسیح کے صعودِ آسمانی کے دس دِن بعد پطرس رسول نے یروشلیم میں یہودیوں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں بتایا:

"جب وہ خُدا کے مقررہ انتظام اور علمِ سابق کے موافق پکڑوایا گیا تو تم نے بےشرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلوب کروا کر مار ڈالا" (نیا عہدنامہ، اعمال 2: 23)۔

اِسی سے ملتے جلتے ایک اَور موقع پر پطرس نے یہودیوں کے سامنے اعلان کیا:

"تم نے اُس قُدُّوس اور راستباز کا انکار کیا ... زندگی کے مالک کو قتل کیا جسے خُدا نے مُردوں میں سے جِلایا۔ اِس کے ہم گواہ ہیں" (اعمال 3: 14- 15)۔

عہد جدید اِس سے ملتی جُلتی بہت سی شہادتوں سے بھرا ہُوا ہے جو اُن یہودیوں کے ہاتھوں میں مسیح کی مصلوبیّت اور موت کی گواہی دیتی ہیں جو شاگردوں کے ہم عصر تھے۔ اگر یہ الزام بےبنیاد ہوتے تو یہودی اُن کا انکار کرتے اور شاگرد ایک جھوٹ یا کسی قِصّے کہانی کےلئے اپنی زندگی قربان نہ کرتے۔ [3]

(4) منطقی ثبوت

چہارم، بہت سے اَور منطقی ثبوت بھی موجود ہیں جنہیں نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ یہ انتہائی ناقابل تردید تاریخی واقعات میں سے ایک انسانی واقعہ ہے جو یہودی صدر عدالت، پیلاطس کے قلعہ کے صحن جو پرَیتورِیُن کہلاتا تھا، ہیرودیس کے محل اور اُس خوفناک پہاڑی پر پیش آیا جو تاریخ میں گُلگُتا کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اپنی کتاب ?Who Moved The Stone (پتھر کس نے لُڑھکایا؟) میں برطانوی مصنف فرینک موریسن [4] نے مسیح کی مصلوبیّت اور اُن کے جی اُٹھنے کے واقعہ کا ایک ماہر، تجربہ کار وکیل کے تنقیدی ذہن کو مدِنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا ہے جو مسیحی الزامات کو غلط ثابت کرنے کےلئے پُر عزم تھا۔ اُس کے انتہائی گہرے مطالعہ کا نتیجہ غیر متوقع تھا اور وہ موریسن کےلئے حیرت انگیز تھا۔ صلیب کے واقعہ کو غلط ثابت کرنے کےلئے کچھ لکھنے کے بجائے جو اُس کا اِرادہ تھا، اُس نے ایک ایسی تحریر لکھی جو طعن آمیز منکرین کے منہ پر ایک طمانچہ ثابت ہُوئی۔

ہمیں دستیاب تحریریں اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مسیح کا مقدمہ تمام رات اور اگلے دِن کے کچھ حصہ میں جاری رہا۔ یہ کوئی خفیہ مقدمہ نہیں تھا، بلکہ ایسا مقدمہ تھا جس میں عام لوگ، یہودی راہنما اور مسیح کے زمانہ کی اعلیٰ اختیار والی یہودی صدر عدالت کے ارکان شامل تھے۔ یہ حقیقت مسلمانوں کےلئے نہ حل ہونے والی مشکل پیدا کر دیتی ہے جو الزام لگاتے ہیں کہ جسے مصلوب کیا گیا تھا وہ حقیقت میں مسیح نہیں تھا بلکہ کوئی اَور شخص، غالباً یہوداہ اِسکریوتی تھا۔ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اور اِس کا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ یہ واقعات کی نوعیت کے بھی مطابق نہیں ہے۔ کیا مسیح کی جگہ جسے مصلوب کیا جا رہا تھا، بلند آواز سے اپنے عوامی مقدمہ کے دوران یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ مسیح نہیں تھا؟ دراصل مدعا علیہ کا جواب جب اُس نے اعلان کیا کہ وہ خُدا کا بیٹا تھا اُس کی موت کی سزا کےلئے کافی تھا۔ کیا یہ کوئی معقول بات نظر آتی ہے کہ وہ فرد جسے غلطی سے مصلوب ہونے کےلئے گرفتار کیا گیا تھا وہ ایسی صورتحال میں اپنے تعلق سے اتنا بڑا دعویٰ کرتا؟ ہمیں دستیاب تمام تاریخی تحریروں میں اِس بات کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ کسی فرد کی صورت مسیح کی طرح ہو گئی جسے دھوکہ میں جا کر مصلوب کر دیا گیا۔ میں نہیں مانتا کہ یہوداہ اِسکریوتی، مسلمانوں کے دعوے کے مطابق اگر مصلوب ہُوا تھا، تو وہ ایسی بھیانک موت سے اپنے آپ کو بچانے کے سنہری موقع کو استعمال نہ کرتا۔

دوسری طرف، اِنجیل مُقدّس ہمارے لئے نہایت ارفع کردار کا اندراج کرتی ہے جو مسیح سے ہٹ کر کسی اَور شخص کی زندگی میں نہیں ہو سکتا تھا۔ اپنے آخری لمحات میں صلیب پر کیلوں سے جڑے ہُوئے مسیح نے محبت بھرے دِل سے اپنے مصلوب کرنے والوں اور دُشمنوں کو معاف کیا۔ یہ عمل یہوداہ اِسکریوتی کی طرح کے شخص کے دِل سے پیدا نہیں ہو سکتا تھا جس نے اپنے خُداوند کو دھوکے سے پکڑوایا اور اُس کے دُشمنوں کے حوالے کیا۔

مزید برآں ، ہمیں صلیب کے موقع پر یسوع کی ماں مریم اور اُن کے ساتھ موجود باقی خواتین کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جو یسوع کے عزیز شاگرد یوحنّا کے ساتھ وہاں تھیں۔ وہ بھی مصلوبیّت کی آنکھوں دیکھی گواہ تھیں۔ مسیح کے اِن پُرخلوص، وفادار پیروکاروں نے مسیح کی مصلوبیّت اور موت کی حقیقت کی تصدیق کی۔ یہاں تک کہ مُقدّس یوحنّا ہمیں بتاتا ہے کہ انتہائی اذیت ناک تکلیف کے باوجود یسوع مسیح نے اپنا چہرہ اپنی ماں کی طرف کیا اور اُنہیں کہا "اے عورت! دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے۔" اور پھر اپنے وفادار شاگرد کی جانب متوجہ ہو کر کہا "دیکھ تیری ماں یہ ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 19: 25- 27)۔ کیا مُقدّسہ مریم اپنے بیٹے کی آواز اور دھوکا دینے والا جس کی صورت ویسے معلوم ہُوئی کی آواز کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل نہ تھیں؟

ایک اَور اہم قضِیّہ بھی ہے جسے مسلمان مُفسّرین حل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور وہ مسیح کی لاش کا معاملہ ہے۔ مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس شخص کی شبیہ مسیح کی طرح ہو گئی تھی اُس کا صرف چہرہ ہی مسیح کی طرح کا تھا۔ اُنہوں نے کہا "یہ چہرہ تو عیسیٰ کا چہرہ ہے مگر جسم اُس کا جسم نہیں ہے۔" [5] وہ یہ بیان سورۃ النساء 4: 157 کی اپنی تشریح کے تناظر میں پیش کرتے ہیں: "اور جو لوگ اُن کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور گمان پر چلنے کے سِوا اُن کو اِس کا مطلق علم نہیں۔" اگر یہ بیان درست ہے تو پھر کیسے مُقدّسہ مریم اپنے بیٹے کے جسم اور شبیہ کے جسم کے درمیان فرق کو پہچان نہ سکیں؟

علاوہ ازیں، ہمارے پاس ایک اَور واضح ثبوت ہے جو کسی بھی غیر جانبدار محقق کےلئے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ مصلوبیّت کے واقعہ کے تناظر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ارمتیہ کا یُوسُف اور نیکدیمس جو صدر عدالت کا رُکن اور مسیح کا خُفیہ شاگرد تھا، دونوں نے رومی حاکم پینطُس پیلاطُس سے باقاعدہ اجازت حاصل کی کہ مسیح کو اُس قبر میں رکھیں جو یُوسُف نے اپنے لئے تیار کروائی تھی۔ اگر مصلوب ہونے والا شخص مسیح نہیں تھا بلکہ اُس کی صورت والا کوئی اَور شخص تھا تو کیسے یُوسُف اور نیکدیمس دونوں مسیح کے جسم اور ایک دھوکا دینے والے کے جسم میں تمیز کرنے میں ناکام ہوئے؟ یا پھر کیا یہوداہ کا مسیح ہی کا طرح کا قد، وزن اور جلد کا رنگ تھا؟ کیا اُس کے بال اور دیگر نظر آنے والے خدوخال اپنے مُقدّس خداوند ہی کی طرح کے تھے؟ حقیقت میں یُوسُف کا عمل مسیح کی بابت یسعیاہ نبی کی ایک پیشین گوئی کی تکمیل تھی: "اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی، اور وہ اپنی موت میں دولت مندوں کے ساتھ مُوا" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 53: 9)۔

چھ دُشواریاں

سورۃ آلِ عمران 3: 55 کی تفسیر کرتے ہوئے الفخر الرازی نے چھ نکات میں اُن دشواریوں کا خلاصہ بیان کیا ہے جو شبیہ کے نظریہ سے پیدا ہُوئی ہیں۔ یہ چھ نکات بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ مضبوط منطق، بصیرت اور درست مشاہدوں پر مبنی ہیں۔ جب اُس نے اِنہیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کی تو کچھ قائل نہ کرنے والے جوابات پیش کئے جنہوں نے قارئین کےلئے اضافی دشواریاں پیدا کر دیں۔

اِن دشواریوں کی اہمیت اندازہ لگانے کےلئے یہ مناسب ہے کہ اِنہیں ہوبہو بیان کیا جائے۔ اِس سے ہمیں شبیہ کے نظریہ کی دشواریوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ الرازی میں اِن کے تعلق سے قائلیت موجود تھی۔ [6]

پہلی دُشواری: اگر ہم ایک فرد میں دوسرے کی شبیہ کے تصور کو مان لیں تو اِس کا نتیجہ مغالطہ آمیزی کی صورت میں نکلے گا ۔ اِس لئے کہ جب ہم نے اپنے بچے کو دیکھا تو اب اُسے جب دوبارہ دیکھیں گے تو بہت ممکن ہے کہ جس کو ہم دوبارہ دیکھ رہے ہیں وہ ہمارا بچہ نہ ہو بلکہ وہ اُس کے مشابہ کوئی دوسرا بچہ ہو، تو اِس سے اب محسوسات سے اعتماد ہی اُٹھ جائے گا۔ پھر یہ بات بھی لازم آئے گی کہ صحابہ جنہوں نے محمد کو حکم دیتے اور بہت سی باتوں سے منع کرتے دیکھا تھا اِس امکان کی وجہ سے کہ اُن کی صورت ہو سکتا ہے کسی اَور پر ڈال دی گئی ہو پُریقین نہیں ہو سکتے تھے کہ یہ وہی محمد تھے۔ اِس سے تو شریعتوں کا ساقط ہونا لازم آئے گا۔ زبانی روایت کے سلسلے میں انتہائی اہمیت کا حامل موضوع وہ اِدراک پذیر حقیقت ہے جسے پہلے راوی نے بیان کیا ہوتا ہے۔ اگر اِدراک پذیر بصری اشیاء میں غلطی کرنے کا امکان ہے تو پھر ایک واقعہ کو زبانی بیان کرنے میں غلطی کا امکان اَور زیادہ ہوتا ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے دروازہ کا کُھلنا مغالطہ آمیزی کا شروع ہوتا ہے اور اِس کا نتیجہ نبوّتوں کے مکمل ابطال کی صورت میں نکلتا ہے۔

دوسری دُشواری: قادر مُطلق اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو حکم دیا کہ زیادہ تر وقت میں اُن (مسیح) کے ساتھ رہیں۔ سورۃ المائدۃ 5: 110 کے الفاظ "جب میں نے پاک رُوح سے تیری مدد کی" کی تفسیر کرتے ہوئے مُفسّرین کرام نے اِسی بات کی نشاندہی کی ہے۔ پھر اِس بات کا ذِکر بھی ملتا ہے کہ جبریل کے پروں میں سے ایک کا کنارہ تمام جہان کا خیال رکھنے کےلئے کافی ہے، تو پھر کیوں یہ اُن یہود سے بچانے کےلئے کافی نہ ہُوا؟ مزید برآں، چونکہ عیسیٰ علیہ السلام مُردوں کو زندہ کرنے، مادر زاد اندھوں اور برص والوں کو شفا دینے پر قادر تھے، تو وہ اِس پر قادر کیوں نہ ہوئے وہ قتل کا اِرادہ کرنے والے یہود کو موت دیتے، اُن پر بیماری مسلط کرتے جس سے وہ اپاہچ اور فالج زدہ ہو جاتے حتیٰ کہ وہ اُن کے قتل سے عاجز ہو جاتے۔

تیسری دُشواری: قادر مُطلق اللہ تعالیٰ اُن دشمنوں سے عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کےلئے اُنہیں آسمانوں کی طرف اُٹھا سکتا تھا، تو پھر اُن کی شبیہ کو کسی دوسرے پر ڈال دینے میں کیا فائدہ ہے؟ کیا یہ کسی مسکین شخص کی بغیر کسی وجہ کے موت کا باعث نہیں بننا تھا؟

چوتھی دُشواری:اگر وہ اُن کی شبیہ کسی دوسرے فرد پر ڈال دیتا اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھا لیتا، تو لوگ اُس مشابہ کو عیسیٰ سمجھتے جبکہ حقیقت میں وہ نہیں تھے۔ تو یہ اُس قوم کو جہالت اور فریب میں مبتلا کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ہرگز مناسب نہیں ہے۔

پانچویں دُشواری: نصاریٰ مشرق و مغرب میں کثیر تعداد میں موجود ہیں اور اُن کی مسیح علیہ السلام سے محبت اور غلو بھی معروف ہے، اُنہوں نے خبر دی ہے کہ اُنہوں نے مسیح کو مقتول اور مصلوب ہوتے دیکھا۔ اگر ہم اِس بات کا انکار کرتے ہیں تو اُس امر پر بے اعتمادی کا اظہار کرتے ہیں جس کی تصدیق تواتر سے ثابت ہوتی ہے، اور تواتر پر طعن محمد کی نبوت اور عیسیٰ کی نبوت بلکہ اِن دونوں کے وجود اور دیگر انبیاء کے وجود کے بارے میں طعن کا موجب اور سبب ہو گا، اور ایسا کرنا باطل ہے۔

چھٹی دُشواری: تواتر سے ثابت ہے کہ مصلوب کیا گیا شخص کافی وقت زندہ رہا۔ اگر وہ عیسیٰ علیہ السلام نہیں تھے تو وہ خوف کا اظہار کرتے ہوئے یہ ضرور کہتا کہ میں عیسیٰ نہیں ہوں، بلکہ میں تو کوئی اَور آدمی ہوں۔ اور وہ اِس حقیقت کو آشکارا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ اور اگر اُس نے ایسی بات کہی ہوتی تو یہ بات لوگوں میں خوب مشہور ہوتی۔ حالانکہ ایسی کوئی بات ثابت نہیں تو جو کچھ تم کہہ رہے ہو، معاملہ اِس طرح نہیں ہے۔

الرازی کے جوابات

مندرجہ بالا دُشواریوں کا ذِکر کرنے کے بعد الرازی نے اِن کا جواب دینے کی کوشش کی۔ تاہم، اُس کے جوابات مختصر اور غیر منطقی ہیں۔ اعتراضات کی اُسی سطح کو برقرار رکھنے کےلئے اِن جوابات کو لفظی طور پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِس سے قاری کو اِن کی جانچ کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ الرازی نے کہا:

پہلا جواب: جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے قادر مُطلق ہونے پر ایمان رکھتا ہے، مانتا ہے کہ وہ زید کی صورت پر ایک اَور فرد کو خلق کرنے کے قابل ہے۔ اور تصویر مذکور شک کی موجب نہیں ہوتی۔ تم نے جس ابہام کا ذِکر کیا ہے اُس پر بھی یہی بات ہے۔

دوسرا جواب: اگر جبریل علیہ سلام اُن دشمنوں سے عیسیٰ علیہ السلام کا دفاع کر دیتے، یا اگر عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے مخالفوں سے بدلہ لینے کی قدرت دے دیتے تو اُن کا یہ معجزہ جبر تک پہنچا دیتا اوریہ جائز نہیں ہے۔

تیسرا جواب: تیسرے ابہام کا بھی یہی جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ کو آسمان کی طرف اُٹھا لیتا اور کسی دوسرے کو اُن کا مشابہ نہ بناتا تو یہ معجزہ حد جبر تک پہنچنے والا ہو جاتا۔

چوتھا جواب: عیسیٰ علیہ السلام کے شاگرد وہاں موجود تھے، اور وہ اِس واقعہ سے متعلق حالات سے واقف تھے۔ اور وہ اِس جہالت اور تلبیس کا ازالہ کر سکتے تھے۔

پانچواں جواب: اُس موقع پر موجود افراد کی تعداد کم تھی۔ یہ ممکن ہے کہ کُچھ کو دھوکا ہو جائے کیونکہ تواتر کی انتہا اگر آخری طبقہ جماعت قلیل پر ہو تو یقین کا فائدہ نہیں ہوتا۔

چھٹا جواب: ایک امکان یہ ہے کہ وہ جس کی شبیہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ہو گئی ایک مسلمان تھا (یعنی اُن پر ایمان رکھتا تھا) اور اُن کا عوضی ہونے پر رضامند ہُوا اور اِس واقعہ کی حقیقت بیان کرنے سے خاموشی اختیار کی۔ الغرض مذکورہ سوالات جیسے احتمالات کا وارد ہونا یہاں ممکن ہے لیکن جب قطعی معجزہ کے ساتھ ہر خبر میں محمد کا صدق ثابت ہے تو اِس طرح کے مشکوک سوالات نص قطعی کے مقابل نہیں ہو سکتے، البتہ ہدایت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔

یہ ایک ایسے قضِیّہ پر شیخ علّامہ فخر الدین الرازی کے ردعمل ہیں جو مسیحیت اور اِسلام کے مابین مکالمہ میں نظریاتی طور پر ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ردعمل ناسمجھی پر مبنی اور سطحی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ الرازی کو اِن کے رد کرنے میں ناکامی کا پہلے ہی اِدراک ہو گیا تھا۔ اِس لئے اُس کا آخری حتمی اور پُر زور بیان یہ ہے: "جب قطعی معجزہ کے ساتھ ہر خبر میں محمد کا صدق ثابت ہے تو اِس طرح کے مشکوک سوالات نص قطعی کے مقابل نہیں ہو سکتے۔" یہ اُس کا سچ سے بچنے کا واحد راستہ تھا۔

ہم اِس معاملہ میں فخر الدین الرازی کے ردعمل پر غور کریں گے تا کہ اُن شکوک و شُبہات کو دور کیا جا سکے جن کے ذریعہ اُس نے حقیقت کو چُھپانے کی کوشش کی ہے۔

الرازی کی جانب ہمارا ردعمل

اُس کے پہلے جواب کے تعلق سے ہم مُتّفِق ہیں کہ خُدا ایک ہی صورت کے جتنے چاہے، ملتے جُلتے افراد خلق کرنے کے قابل ہے۔ لیکن مسیح کے معاملہ میں، ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ مسیح نے مصلوبیّت سے بچنے کی کوشش نہ کی۔ وہ تو نسلِ انسانی کی مخلصی کی خاطر ہی آئے۔ اُنہوں نے اِس کام کو پورا کرنے کا چُناؤ اپنی ہی مرضی سے کیا۔ اگر مسیح واقعی بُزدِلی یا بےحسی کی وجہ سے مصلوبیّت سے بچنے کی کوشش کرتے تو ایسا کرنا اُس کام سے بچنے کی کوشش کرنا ہونا تھا جو وہ پورا کرنے کےلئے دُنیا میں آئے تھے۔ یہ تو مسیح کی خوبی نہیں ہے جو خُدا کا کلام ہے۔ اِس معاملہ میں خُدا کو شبیہ کا معجزہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

دوسرا، مسیح کو کبھی بھی جبریل فرشتہ کی ضرورت نہ تھی کہ وہ اُنہیں اُن کے دشمنوں سے بچائے۔ آپ لاچار نہیں تھے۔ اپنی موت سے پہلے جو معجزے مسیح نے سرانجام دیئے وہ حیرت انگیز تھے اور آپ کو بچانے والے اِس مبینہ کام سے کہیں بڑے تھے۔ اِنجیل مُقدّس میں مرقوم حقائق آپ کی لامحدود طاقت کی مثالیں ہیں۔ جب آپ کے دُشمن آپ کو گرفتار کرنے آئے تو آپ کے طاقتور کلام کے باعث زمین پر گِر پڑے۔ آپ تو محفوظ طریقے سے اپنے راستہ پر جا سکتے تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب یہودیوں نے آپ کے خلاف سازشیں کی تھیں، لیکن ہر مرتبہ آپ اُن میں سے نکل جاتے اور کوئی بھی آپ کو نقصان نہ پہنچا سکا۔ لیکن جب آپ کا مُقرّرہ وقت آیا تو مسیح نے بہ رضا و رغبت اپنے آپ کو اپنے دُشمنوں کے حوالے کیا تا کہ جس کام کو پورا کرنے کےلئے آپ آئے تھے وہ پورا ہو۔ الرازی اور اُس کی طرح کے دیگر لوگوں کو مسیح کے تجسّم کے مقصد کا مطالعہ کرنا چاہئے تھا۔ اِس سے اُنہیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی کہ مسیح کے تجسّم اور کنواری سے پیدایش کی بنیادی وجہ صلیب پر موت کے ذریعہ سے گناہ کی معافی تھی۔

تیسرا، کیا خُدا کو واقعی مسیح کی شبیہ کسی دوسرے پر ڈالنے کی ضرورت تھی؟ کُچھ نے دعویٰ کیا ہے کہ شیبہ ڈالنے کا مقصد یہوداہ اِسکریوتی کو سزا دینا تھا جس نے اپنے خُداوند کو دھوکے سے پکڑوایا تھا۔ لیکن اِنجیل مُقدّس کا بیان ہمارے سامنے مکروہ یہوداہ کی خودکشی کے تمام حقائق رکھ دیتا ہے۔ اِس کے علاوہ، کیوں کسی دوسرے پر عیسیٰ کی شبیہ ڈال دینے سے باز رہنے کو حد جبر تک پہنچنے والا معجزہ سمجھا جائے؟ یہودیوں کے نگاہوں کے سامنے مسیح کو آسمان پر اُٹھانا آپ کی شخصیت کے تعلق سے کسی بھی شک کو دور کر دیتا۔ مذہبی اور سیاسی یہودی قیادت دونوں کو احساس ہو جاتا کہ اُنہوں نے کلامِ خُدا کے خلاف کتنی سنگین غلطی کی تھی۔

چوتھا، یہ سچ ہے کہ اُس خوفناک رات میں مسیح کے کُچھ شاگرد اور پیروکار موجود تھے اور اپنے خُداوند کے ساتھ پیش آئے واقعات کے گواہ تھے۔ اِس لئے، رُوح القُدس کی راہنمائی سے اُنہوں نے مصلوبیّت کی تفصیل اِنجیلی بیانات کے صفحات میں درستی سے درج کی ہے۔ اِنجیل مُقدّس کا بیان، ٹھوس حوالہ جات اور دستاویزات کی تائید کے ساتھ، قرآنی متن، اسلامی روایت کے کئی قِصّوں اور مسلم مُفسّروں کے خیالی تصوّرات سے مُتّفِق نہیں ہے۔ اِنجیل مُقدّس میں ہمارے لئے اِس اہم واقعہ کی خفیف تفصیلات بھی محفوظ ہیں۔

پانچواں، الرازی کی سوچ اپنی ہی بات سے متصادم ہے، جیسا کہ وہ اپنے چوتھے جواب میں کہتا ہے: "عیسیٰ کے شاگرد وہاں موجود تھے، اور وہ اِس واقعہ سے متعلق حالات سے واقف تھے۔ یوں وہ اِبہام کو دور کر سکتے تھے۔" اب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ شاگرد کم تھے اور چند افراد کا دھوکا کھانا ممکن ہے۔ آخرکار، جب زبانی ترسیل چند افراد کے حوالے کر دی جاتی ہے تو یہ علم کےلئے بیکار ہو جاتی ہے۔ کیا تضاد ہے! جب فخر الرازی نے محسوس کیا کہ شاگردوں کا حوالہ دینا اُس کے مقصد کی تکمیل کرے گا تو اُس نے اُنہیں عینی شاہد بنا دیا جو ابہام کو دُور کر سکتے۔ پھر اچانک وہ عینی شاہد التباس کے اثر کے تابع ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم احادیثِ نبوی میں سے کسی بھی صحیح حدیث کی سند کا جائزہ لیں تو شاذ و نادر ہی کوئی ایسی حدیث پائیں گے جس کی تائید ایک ہی وقت میں بارہ اسناد سے ہُوئی ہو۔ دراصل وہ جنہوں نے مصلوب ہونے کے واقعہ کا مشاہدہ کیا اور وہ جن پر مسیح اپنے جی اُٹھنے کے بعد ظاہر ہُوئے، اور وہ جو آپ کے آسمان پر صعود کے وقت اکھٹے تھے، اُن سب کی تعداد پانچ سو سے زیادہ تھی۔ اِس لئے مصلوبیّت کے بارے میں شاگردوں کا اندراج بلا شک و شبہ مستند ہے۔

چھٹا، سوائے ایک یا دو روایات کے زیادہ تر متضاد اسلامی روایات کے مطابق شبیہ کبھی بھی مسیح کو ماننے والا نہیں تھا۔ زیادہ تر مسلمان مُفسّر یہ ماننے کی طرف مائل ہیں کہ شبیہ عیسیٰ کے مخالفوں میں سے ایک تھا۔ اِس لئے یہ امکان نہیں ہے کہ وہ خاموشی اختیار کرتا اور اپنی پوری طاقت سے یہ نہ کہتا کہ وہ مسیح نہیں تھا، یا یہ کہ وہ اِس معاملہ میں حقیقت کو ظاہر نہ کرتا۔ ایک ایسا شخص جس پر غلط الزام لگایا جائے اور جس کی زندگی خطرے میں پڑی ہو، وہ اپنے آپ کو بچانے کےلئے ہر ممکن کوشش کرے گا سوائے تب کہ جب وہ کسی اچھے مقصد کےلئے جان دے رہا ہو۔ نیز اگر الرازی مصلوبیّت کے واقعہ کے اسلامی بیان کی تائید میں اپنی بیان کی گئی تمام باتوں کےلئے محمد صاحب کی باتوں کو استعمال کرتا ہے، تو ہم بھی اپنی لاخطا اِنجیل میں پائی جانے والی تمام معلومات کےلئے مسیح اور اُس کے شاگردوں کی صداقت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، چھ صدیوں کے بعد کہی گئی قرآن کی ایک آیت ہمارے پاس موجود مستند تاریخی دستاویزات کو جُھٹلا نہیں سکتی۔

مسلمان علماء نے بھی شبیہ کی شناخت پر اختلاف کیا ہے۔ مسلمان راویوں نے ہم سے بہت سی خیالی کہانیاں بیان کی ہیں، اور بہت سے مسلمان مُفسّرین نے اُن کی صحت کی کسی تحقیق کے بغیر اُن کا اقتباس کیا ہے۔ یہ کسی تاریخی دستاویز، آثارِ قدیمہ کے ثبوت یا مستند متن پر مبنی نہیں ہیں۔ کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں تھا جو شبیہ کی بابت اِن خیالی تصورات کی سچائی کو ثابت کرنے کےلئے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کر سکتا۔ اسکندر جدید نے اپنے کتابچہ "اِنجیل اور قرآن میں صلیب" [7] میں اِن کہانیوں کو اِن کے اصل ماخذوں کا حوالہ دیتے ہوئے اکھٹے ایک جگہ بیان کیا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے تفصیلات میں جیسے ناموں، واقعات اور مواقعوں کی ترتیب میں متصادم ہیں۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ ایسے ماخذوں پر مبنی ہیں جنہیں راویوں نے اپنے تخیّل سے گھڑا ہے، جب اُنہوں نے ناقابل تشریح آیت پر تبصرہ کرنے کی کوشش کی یا پھر ایسے معاملہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی جو اِنجیلِ مُقدّس کے بیان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔

تاریخی ذرائع ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ قرآن میں مذکور شبیہ کا قصّہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پہلی چھ صدیوں کے دوران اور اِسلام کی آمد سے پہلے، یہ غلط تعلیم بدعتی مسیحیوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ غناسطی بیسیلدیئس نے دعویٰ کیا کہ شمعون کرینی جس نے مسیح کے ناتواں ہونے پر اُس کی صلیب اُٹھائی تھی، اُس کی جگہ مصلوب ہونے پر رضامند ہُوا، اِس لئے خُدا نے اُس پر مسیح کی شبیہ ڈال دی اور وہ مصلوب ہُوا۔

دوقیّت کے پیروکاروں کا کہنا تھا کہ مسیح کسی طور سے مصلوب نہیں ہُوا تھا بلکہ یہودیوں کو ایسا لگا یا اُن پر ایسا ظاہر ہُوا۔ دراصل لفظ "Docetic" ایک یونانی فعل سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے "لگنا" یا "ظاہر ہونا۔" یہ مصلوبیّت پر اُن کی عمومی تعلیم کا اظہار کرتا ہے۔

کلیسیا کی تمام تاریخ میں شبیہ کی بدعت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ وقتاً فوقتاً یہ مشرق کی مسیحی جماعتوں میں بار بار سامنے آئی، اور بدعتیوں کے بکھرے ہوئے گروہوں نے اِس کا پرچار کیا۔ 185 ء میں تھیبیز کے کاہنوں کی اولاد کے ایک بدعتی گروہ جس نے مسیحیت کو قبول کیا تھا دعویٰ کیا: "خُدا نہ کرے کہ مسیح مصلوب ہُوا ہو۔ وہ بحفاظت آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔" اِس کے علاوہ، 370 ء میں ایک ہرمیسیہ غناسطی گروہ جس نے مسیح کی مصلوبیّت کا اِنکار کیا، سکھایا کہ وہ مصلوب نہیں ہُوا تھا بلکہ مصلوب کرنے والوں کو ایسا لگا۔ اِسی طرح 520 ء میں شام کا بشپ سیویرس اسکندریہ کو بھاگ گیا، وہاں اُس کا سامنا فلسفیوں کے ایسے گروہ سے ہُوا جو سکھاتا تھا کہ مسیح مصلوب نہیں ہُوا تھا بلکہ جن لوگوں نے اُسے کیلوں سے جڑ دیا اُنہیں ایسا معلوم ہُوا۔ 560 ء میں راہب تھیوڈور نے مسیح کی اِنسانی فطرت کا انکار کیا اور یوں اُس کی مصلوبیّت کا اِنکار کیا۔ تقریباً 610 ء میں قبرص کے گورنر کے بیٹے، بشپ جان نے مشہور کرنا شروع کر دیا کہ مسیح مصلوب نہیں ہُوا تھا بلکہ مصلوب کرنے والے افراد کو لگا کہ اُنہوں نے اُسے مصلوب کیا ہے۔ [8]

وہ لوگ جنہوں نے نظریہ شبیہ کا پرچار کیا اُن میں فارس کا خودساختہ نبی مانی بھی شامل ہے (276 ء)۔ اُس نے کہا کہ یسوع ایک بیوہ کا بیٹا تھا، اور جو مصلوب ہُوا وہ نائین کی بیوہ کا بیٹا تھا جسے مسیح نے مُردوں میں سے زندہ کیا تھا۔ ایک اَور مانوی روایت میں ہم پڑھتے ہیں کہ شیطان نے مسیح کو مصلوب کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہُوا اور وہ اُس کی جگہ مصلوب ہُوا۔

اِس مختصر تاریخی جائزہ سے یہ واضح ہے کہ اِسلام نے شبیہ اور یسوع کی مصلوبیّت کے انکار کی تعلیمات کو مسیحی بدعتی فرقوں سے لیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بدعات جزیرہ نما عرب میں غناسطی فرقوں میں ظہور اِسلام کے وقت پھیلی ہوئی تھیں۔ [9] تاریخی کتابیں اور مختلف آپ بیتیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ قسطنطنیہ کی کونسل (380 ء) نے نائیسیہ کے بشپ گریگوری کو مقرر کیا کہ "عرب اور یروشلیم کا دورہ کرے جہاں مختلف تنازعات پیدا ہو گئے تھے اور تقسیم کا خطرہ موجود تھا۔" [10] اِن فرقوں نے اپنے عقائد کو تاریخی ثبوت یا باقاعدہ دستاویزات پر اُستوار نہیں کیا تھا بلکہ اپنے تصورات و تخیّلات کی پیروی کی اور بنیادی طور پر مسیح کے اِنسانی جسم کی نوعیت پر توجہ مرکوز کی۔

(5) خُدا کی بیوفائی

پنجم، اگر ہم دلیل کی خاطر یہ فرض کر لیں کہ شبیہ کا قصّہ درست ہے تو پھر ہم خُدا سے بیوفائی اور دھوکا دہی منسوب کرنے کے مرتکب ٹھہریں گے۔ اِس کے مطابق تو شاگرد جنہوں نے بڑی سرگرمی سے مسیح کی مصلوبیّت اور جی اُٹھنے کی منادی کی، دراصل شبیہ کی موت اور قیامت کی منادی کر رہے تھے۔ اِس کا تو یہ مطلب ہو گا کہ کلیسیا جس نے شاگردوں کے نقشِ قدم کی پیروی کی، چھ صدیوں سے زیادہ دھوکا کا شکار رہی جب تک کہ اِسلام کا ظہور نہ ہُوا۔ اِس معاملے میں کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے؟ اِس دھوکا کا ذریعہ کون ہو گا؟ کیوں قادرِ مُطلق خُدا نے سچائی کو اپنے نبی اور رسول کے شاگردوں پر ظاہر نہیں کیا اور اِس کے برعکس اُنہیں مکمل تاریکی میں رکھا؟ کیوں خُدا کلیسیا کو چھ صدیوں تک ایسے سنگین جھوٹ پر یقین کرنے کی اجازت دیتا؟ کون اُن لاکھوں جانوں کا ذمہ دار ہے جو گمراہ ہوئے اور جنہوں نے جھوٹ پر ایمان رکھا؟ ایسا لگتا ہے کہ اِس تمام اُلجھن کا باعث خُدا ہی تھا۔ وہی ہو گا جس نے مصلوبیّت کی بدعت پیدا کی اور ہر کسی کو یقین دلایا کہ مسیح کو ہی مصلوب کیا گیا تھا۔ اِس معاملہ میں خُدا یونانی دیو مالائی قصّوں کے دیوتاؤں سے بہتر نہیں ہے جو ایک دوسرے کو اور اپنے ہی پیروکاروں کو دھوکا دینے میں محظوظ ہوتے تھے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم اِن میں سے کسی بھی قابل نفرت خصوصیت کو خُدا سے منسوب نہیں کر سکتے۔ وہ ایک پاک خُدا ہے جو کبھی بھی اپنی پاک الٰہی فطرت کے برعکس عمل نہیں کرے گا اور دھوکا دہی سے کام نہیں لے گا۔

(6) قیامت: کلیسیا کی قُدرت

آخری بات یہ ہے کہ قیامت المسیح مسیحی ایمان کا مرکزی نکتہ بن گئی ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا کہ جس نے کلیسیا کی تاریخ اور اُس کے پھیلاؤ پر کوئی نشان نہیں چھوڑا۔ اِس کے برعکس، قیامت کلیسیا کی مستقل طاقت اور اُس کی نشوونما کا راز ہے۔ اگر مصلوبیّت نجات کا جوہر ہے تو قیامت کلیسیا کی فتح کا بھید ہے۔ قیامت کے بغیر مصلوبیّت غیر اہم ہے، اور مصلوبیّت کے بغیر قیامت بےمعنٰی ہے۔

لیکن قیامت، مسیح کی موت کی حقیقت کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ اپنے جی اُٹھنے کے بعد مسیح اپنے شاگردوں اور سیکڑوں وفادار پیروکاروں کے سامنے اُنہیں یہ یقین دلاتے ظاہر ہُوئے کہ وہ واقعی مصلوب ہُوئے تھے اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھے تھے۔ اپنی زمینی زندگی کے آخری چالیس دنوں میں مسیح نے اُنہیں مسلسل اِس رُوحانی اور تاریخی واقعہ کے معنٰی اور اِنسانیت پر اِس کے اثرات کے بارے میں بتایا۔ غالباً اِس ضمن میں سب سے قابل ذِکر واقعہ جس کا ہم حوالہ دے سکتے ہیں توما رسول کا ردعمل ہے، جو اپنے حقیقت پسندانہ انداز اور شکّی ذہن کی وجہ سے مشہور تھا۔ جو کُچھ دوسرے شاگردوں نے اُسے مسیح کے ظاہر ہونے کے بارے میں بتایا اُس نے اُس کا یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں لگتا ہے کہ اُس نے سوچا کہ وہ شاگرد جو اپنے خُداوند کے موت پر ماتم کر رہے تھے اُن کا دماغ اُلٹ گیا ہے۔ اِس لئے اُس نے اُن سے کہا: "... جب تک میں اُس کے ہاتھوں میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لُوں اور میخوں کے سوراخوں میں اپنی اُنگلی نہ ڈال لُوں اور اپنا ہاتھ اُس کی پسلی میں نہ ڈال لُوں ہرگز یقین نہیں کروں گا" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 25)۔

آٹھ دِن بعد شاگرد ایک بار پھِر اکھٹے تھے۔ وہاں کے دروازے یہودیوں کے ڈر کی وجہ سے بند تھے، تب مسیح نے اپنا آپ اُن پر ظاہر کیا اور آپ اُن کے درمیان آ کھڑے ہُوئے۔ آپ نے اُن پر سلامتی بھیجی اور پھر توما سے کہا: "اپنی اُنگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 20: 27)۔

اِس متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کے وفادار دوستوں، شاگردوں نے آپ کی مصلوبیّت کے واقعہ کی انتہائی محتاط جانچ پڑتال اور تفتیش کی۔ لہٰذا، بائبل مُقدّس کے متن کو نظر انداز کرنا اور کسی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کرنا قابل قبول نہیں ہے کہ مسیح کے مصلوب ہونے کا واقعہ ابتدائی مسیحیوں کی اِختراع ہے۔ یہ تو بڑا واضح ہے کہ تاریخی اسناد اِنجیلی بیان کے حق میں ہیں۔

ب۔ مصلوبیّت کےلئے بائبلی وجوہات

بحیثیت مسیحی ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اپنی مُقدّس کتاب کو اپنے عقیدے کا بنیادی ماخذ سمجھیں۔ تاریخی اور آثارِ قدیمہ کے ثبوت دونوں بائبل مُقدّس کے دعوؤں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ یہ ہمیں خاطرخواہ حقائق فراہم کرتے ہیں جو ہمیں ایک ایسے تشکیک پسند یا مسلمان کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے جو صرف ہمارے بائبلی متن کو قبول نہیں کرتا۔ آئیے ہم اِس موضوع سے متعلق چند بائبلی حوالہ جات کا بھی جائزہ لیں۔

(1) کفّارہ

اوّل، عقیدہ کفّارہ کوئی نیا عقیدہ نہیں تھا جسے مسیحیت نے پیش کیا۔ یہ بُت پرست اقوام کے مذہبی طریقوں کا لازمی حصہ رہا ہے۔ پرانے عہدنامہ کے مطابق یہ طریقے بنیادی طور پر خُدا کی طرف سے آدم اور حوا کے گناہ میں گرنے کے بعد دیئے گئے۔ جب اُنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور اُنہیں احساس ہُوا کہ اُنہوں نے خُدا کے حکم کو توڑا ہے، تو خُدا نے ایک جانور لیا، اور اُس کے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُنہیں پہنائے (پرانا عہدنامہ، پیدایش 3: 20)۔ لسانی اعتبار سے، لفظ "کفارہ" کا مطلب ہے "ڈھانپنا یا چھپانا۔" غرض، کلامِ مُقدّس کے مطابق کفارہ کا تمام تصور خُدا کے ساتھ شروع ہُوا جب اِنسان خُدا کے معیار کے مطابق زندگی گزارنے میں ناکام ہُوا۔ ظاہر ہے یوں یہ ضابطہ مذہبی رسومات اور عبادت میں برقرار رہا۔ ہابل اور قائن دونوں نے اپنی قربانی خُدا کے حضور نذر کی، لیکن خُدا نے ہابل کی قربانی قبول کی اور قائن کی قربانی رد کر دی کیونکہ قائن کی قربانی خون پر نہیں بلکہ اُس کے اپنے کام پر مبنی تھی۔ اِسی طرح، نوح، ابرہام، اضحاق اور یعقوب سب نے جانوروں کی قربانیاں گذرانیں جیسے خُدا نے مقرر کیا تھا۔ بعدازاں، موسٰی نبی کے زمانے میں، یہ رسمی قربانیاں ایک تحریری شریعت بن گئیں۔ بائبلی علماء نے تصدیق کی ہے کہ وہ قربانیاں عظیم اور آخری قربانی یعنی مسیح کی مصلوبیّت کی رسمی علامتیں تھیں۔ [11] بُت پرست اقوام نے اِن رسوم کو خُدا کے برگزیدہ لوگوں سے مستعار لیا اور اپنے بتوں کے آگے قربانیاں پیش کرنے لگے۔ اُنہوں نے اِن کے مقصد کو بگاڑ دیا، تاہم یہ بنیادی طور پر کفّارہ کی علامت ہی رہیں۔

اِسلام میں کفّارہ کا تصور نیک اعمال پر مبنی ہے۔ خیرات اور نیک اعمال خطاؤں کو مٹا دیتے ہیں۔ اِسی طرح، اِسلام کے پانچ ستونوں کی پابندی کرنا، اللّہ کی راہ میں جہاد کرنا اور قرآنی آیات کی تلاوت کرنا گناہوں کی معافی کا باعث بنتا ہے۔ [12]

لیکن اِس سے پہلے کہ ہم اپنے مطالعہ کے اِس حصہ کو ختم کریں، اِسلام میں ایک اَور موضوع توجہ طلب ہے، اور وہ فدیہ کا موضوع ہے۔ غالباً اِس موضوع سے متعلق اہم ترین حوالہ سورۃ الصٰفٰت 37: 107 میں ابراہیم اور اُن کے بیٹے کے واقعہ کے تناظر میں پایا جاتا ہے جو قربانی کے طور پر نذر کئے جانے پر راضی تھا: "اور ہم نے ایک بڑے ذبیحہ سے اُس کا فدیہ دیا۔"

البیضاوی اِس آیت کی وضاحت اِن الفاظ میں کرتا ہے: "یعنی اُس کے ذریعہ جو اُس کی جگہ قربان ہُوا، یوں اِس طرح سے یہ عمل پورا ہُوا۔"

اِس آیت کی تشریح کرتے ہوئے الرازی ایک روایت کا حوالہ دیتا ہے: "السدّي نے کہا، ابراہیم نے ایک آواز سُنی، اُس نے اِردگرد دیکھا اور اُسے اچانک سفید اور سیاہ رنگ کا ایک مینڈھا نظر آیا۔ وہ اُس (اپنے بیٹے) کے پاس سے اُٹھا، اُس (مینڈھے) کو لیا، ذبح کیا اور اپنے بیٹے کو کھولا۔ اُس نے کہا: 'میرے بیٹے آج تُو مُجھے تحفہ کے طور پر دیا گیا ہے۔' ۔۔۔ اِس مینڈھے کو اُس کی بڑی حیثیت کی وجہ سے عظیم کہا گیا ہے کیونکہ خُدا نے ۔۔۔ اِسے ابراہیم کے بیٹے کے فدیہ کے طور پر قبول کیا۔"

وہ بیٹا کیسے جناب ابراہیم کو تحفہ کے طور پر دیا گیا؟ وہ سیاہ اور سفید مینڈھا ابراہیم کے بیٹے کے فدیہ کے طور پر ذبح ہُوا۔ یہ عوضی تھا۔ یوں اُسے ایک نئی زندگی دی گئی۔ یہ مینڈھا اِس لئے بھی عظیم تھا کہ اوّل، اِسے خُدا نے تیار کیا تھا، دوّم، یہ عظیم ترین اور حتمی قربانی یعنی تمام اِنسانیت کے نجات دہندہ مسیح کی ایک علامت تھا۔ یہ وہی ہے جس کے بارے میں یوحنّا بپتسمہ دینے والے نے کہا: "دیکھو یہ خُدا کا برہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے" (اِنجیل بمطابق یوحنّا 1: 29)۔

مشہور اسلامی عالم ابو حامد الغزالی اپنی کتاب "إحياء علوم الدين" میں بیان کرتے ہیں: [13] "لیکن یاد رہے کہ قربانی کو ذبح کرنا فرمانبرداری کے ذریعہ سے اللّہ کے نزدیک ہونا ہے۔ لہٰذا قربانی کو سرانجام دیں اور اللّہ سے اُمید رکھیں کہ وہ اِس کے ہر حصہ کی جگہ آپ کے ہر حصّہ کو جہنم سے بچائے گا۔ کیونکہ جیسا کہ وعدہ آیا ہے کہ قربانی جتنی بڑی ہو گی اور جتنے زیادہ اُس کے حصّے ہوں گے، اتنی ہی مکمل طور پر جہنم سے آپ کی مخلصی ہے۔"

اِسی کتاب میں الغزالی نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ جانور کی قربانی کر کے اللّہ کی قربت کو حاصل کریں۔ اُن کا کہنا ہے: "جانور کی قربانی دے کر اللّہ کا قُرب حاصل کریں۔ کسی ایسے جانور کو قربان کرنے کی کوشش کریں جو توانا اور موٹا ہو ۔۔۔ نبی نے کہا، قربانی والے دن اللّہ تعالیٰ کے نزدیک آدمی کا کوئی بھی عمل قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کُھروں کو لے کر آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللّہ کے ہاں قبولیت کے مقام کو پا لیتا ہے۔ سو، قربانی کے ذریعہ سے اپنی جان کو پاک کرو۔ اور حدیث نبوی میں ہے کہ قربانی والے جانور کے ہر بال اور خون کے ہر قطرہ کا اجر ہے، اور یہ خُدا کے سامنے میزان میں رکھا جائے گا۔ اس لئے تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو۔ نبی نے کہا، ایک اچھے جانور کی قربانی دو، یہ قیامت کے دِن تمہاری سواری ہو گا۔" [14]

(2) نبوّتیں

دوّم، پرانا عہدنامہ مسیح کی موت اور قیامت کی بابت نبوّتوں سے بھرا ہُوا ہے۔ یہ سمجھنے کےلئے کہ پرانے عہدنامے کے انبیاء اِس عظیم واقعہ سے واقف تھے اور اِس کے منتظر تھے یسعیاہ نبی کے صحیفہ پر عمومی نگاہ ڈالنا ہی کافی ہے۔ ہمارے پاس مسیح کی موت، اذیت اور قیامت کے بارے میں پیشین گوئی کرنے والے کثیر حوالہ جات کی تفصیل دینے کی یہاں جگہ نہیں ہے، لیکن میں قارئین کے سامنے اِس موضوع سے متعلق چند مددگار ذرائع کا ذِکر کرنا چاہوں گا۔ [15]

(3) مسیح کی گواہی

سوّم، مسیح نے خود اپنی موت اور قیامت کے بارے میں بات کی۔ اِنجیلی بیانات ایسی آیات سے بھرے ہوئے ہیں جہاں مسیح نے اپنی مصلوبیّت اور دُکھوں کے بارے میں پیشین گوئی کی۔ اب جب مسیح نے اپنی موت کے تعلق سے بات کی تو یا تو وہ ایک جھوٹا، پاگل اور اُلجھا ہُوا شخص تھا، یا پھر سچائی کا اعلان کرنے والا ایک دیانتدار شخص تھا۔ درحقیقت، مسیح کے دُشمنوں اور نہ ہی کسی مسلمان نے کبھی اُن پر کذب یا جنون کا الزام لگانے کی جرأت کی یا جرأت کرے گا۔ ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ جناب مسیح اُن سب باتوں میں سچّے تھے جن کی آپ نے منادی اور دعویٰ کیا۔ یہاں یہ دعویٰ کرنا بیکار ہے کہ اِنجیل میں مسیح کی موت کے بارے میں تمام معلومات شاگردوں یا ابتدائی کلیسیا میں کلیسیائی آباء کی ایجاد ہیں۔ مسیح کے شاگردوں کی ایمانداری اور دیانتداری پر کبھی سوال نہیں اُٹھایا گیا یا شک نہیں کیا گیا۔ یوحنّا نے اپنے پہلے خط کے پہلے باب کی پہلی دو آیات میں پُر زور انداز میں کہا ہے: "اُس زندگی کے کلام کی بابت جو اِبتدا سے تھا اور جسے ہم نے سُنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا۔ یہ زندگی ظاہر ہوئی اور ہم نے اُسے دیکھا اور اُس کی گواہی دیتے ہیں اور اِسی ہمیشہ کی زندگی کی تمہیں خبر دیتے ہیں جو باپ کے ساتھ تھی اور ہم پر ظاہر ہوئی۔"

باقی شاگردوں نے بھی، خاص طور پر پطرس رسول نے اِسی گواہی کا اعادہ کیا۔ وہ سب آنکھوں دیکھے دیانتدار گواہ تھے۔ [16] لیکن اِس مطالعہ کے تناظر میں ہم جس سب سے بڑی گواہی کا حوالہ دے سکتے ہیں وہ خود مسیح کی اپنے بارے میں گواہی ہے۔ آپ نے پرانے عہدنامے کی نبوّتوں کا اقتباس کیا اور اُن کا اپنے اوپر اطلاق کیا۔ آپ نے اُن کو اِس انداز سے بیان کیا کہ آپ کے سامعین کے ذہنوں سے شک کے بادل دور ہو جائیں۔ آپ نے ایسی عبارات کا کثرت سے استعمال کیا، "تا کہ نوشتے پورے ہوں" یا "جیسا کہ لکھا ہے" وغیرہ۔ [17] جب آپ نے پرانے عہدنامہ کی نبوّتوں کا اقتباس کیا تو اپنے شاگردوں اور اِس کے ساتھ اپنی باتیں سُننے کےلئے جمع ہونے والے ہجوم پر واضح کیا کہ کیسے یہ نبوّتیں آپ میں پوری ہوئی ہیں۔ مثلاً، ایک موقع پر آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا: "یہ میری وہ باتیں ہیں جو میں نے تم سے اُس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں ... اور اُن سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اُٹھائے گا اور تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا" (اِنجیل بمطابق لوقا 24: 44- 46)۔

اِن آیات میں دو اہم حقائق بیان کئے گئے ہیں۔ اوّل، تمام پرانے عہدنامہ میں پیشین گوئیاں کسی اَور نبی کی طرف نہیں بلکہ مسیح کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جب مسیح نے موسٰی کی شریعت، انبیاء اور مزامیر کی طرف اشارہ کیا تو تمام پرانے عہدنامہ کی طرف اشارہ کیا۔ آپ نے اپنے دعوؤں کے ساتھ اِن واقف نبوّتوں کا ذِکر کیا اور اِنہیں حیرت زدہ شاگردوں کو سمجھایا۔ یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہے کہ کیسے مسلمانوں نے اِن میں سے کُچھ پیشین گوئیوں کو کس طرح سے منتخب کیا، جو مسیح نے یہودیوں پر یہ ثابت کرنے کےلئے اپنے تعلق سے بیان کیں کہ وہ مسیح تھا، اور اُنہیں محمد صاحب پر لاگو کیا۔ مسیح اور شاگردوں کی تشریح کو مدِنظر رکھتے ہوئے مصنف کی رائے میں اِسلامی دعوے باطل اور فریب ہیں۔

دوّم، مسیح نے خود شاگردوں پر یہ واضح کیا کہ لازم ہے کہ وہ مصلوب ہو، مرے اور تیسرے دِن قبر میں سے جی اُٹھے۔ مسیح نے یہاں اپنی مصلوبیّت کی تصدیق کی ہے اور کسی بھی ایسے دوسرے دعوے کو رد کیا ہے جو اِس تاریخی حقیقت کا انکار کرتا ہے۔ ایک شکّی فرد کےلئے مسیح کی آنکھوں میں دیکھ کر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ تم جھوٹے ہو۔



[1] دیکھیں کتاب: Abu Ameeneh, Bilal Philips: Salvation Through Repentance, Tawheed Publications; Riyadh, Saudi Arabia

[2] دیکھیں کتاب: Shahid, Samuel, The Fallen Nature of Man in Islam and Christianity, Al-Nur Publications, Colorado Springs, CO

[3] دیکھیں کتاب: Jadeed, Iskander, The Cross in The Gospel and the Qur'an, The Good Way; Switzerland

[4] دیکھیں کتاب: Morrison, Frank, Who Moved The Stone? Faber and Faber, London, 1978

[5] الرازی، الفخر، التفسیر الکبیر، جلد 11، دار الفکر، بیروت، لُبنان، 1981، ص 102۔ سورۃ النساء 4: 157 کی تشریح کے تعلق سے جلالین اور بیضاوی کی تفاسیر بھی دیکھیں۔

[6] التفسیر الکبیر، جلد 8، ص 77۔ 79

[7] ص 12، 14

[8] سمعان، عوض، قضية الغفران في المسيحية، ص 91، 92۔ عواض سمعان نے اِس معلومات کا اسکندر صیفی کی کتاب "المنارة التاريخية في المسيحية والوثنية" سے اقتباس کیا ہے، ص 102، 153، 189، 197، 201۔ اِس موضوع پر ایک اَور قابل قدر ملاحظہ کریں: Yamauchi, Edwin: The Crucifixion and Docetic Christology, pub. in Concordia Theological Quarterly 46, 1982

[9] دیکھیں کتاب: The Cross in The Gospel and the Qur'an, pp 10 + 11

[10] دیکھیں کتاب: Moyer, Elgin S., Who Was Who in the Church History, Moody Press, Chicago, Il 1962, p. 175

[11] سمعان، عوض، لزوم كفارة المسيح، وكيف تنتفع بكفارة المسيح، نداء الرجاء، شٹوٹگارٹ، جرمنی۔

[12] دیکھیں کتاب: Jadeed, Iskander: Sin and Atonement In Islam and Christianity, The Good Way, Switzerland, pp. 33-41

[13] الغزالی، احیاء العلوم الدین، جلد اوّل، ص 243

[14] احیاء العلوم الدین، ص 250۔ 251۔ ترجمہ مولانا فضل کریم، کتاب بھون، نئی دہلی۔

[15] میخائیل، لبیب، قضيّة الصليب، ص 59۔ 95۔ میرے نزدیک اِس موضوع پر عربی زبان میں لکھی گئی کتابوں میں سے یہ ایک بہترین کتاب ہے۔ مزید دیکھئے: The Cross in The Gospel and the Qur'an, pp. 20-26 انگریزی زبان میں اِس تعلق سے اہم مواد یہ ہے: Josh, McDowell, The Evidence that Demands a Verdict, Chapter 9

[16] دیکھیں کتاب: The Cross in The Gospel and the Qur'an, pp. 10 + 11

[17] متی 2: 5؛ 4: 4، 7، 10؛ 21: 13؛ 26: 24؛ مرقس 7: 6؛ 12: 10؛ لوقا 19: 49؛ 24: 44؛ یوحنّا 2: 17، 22؛ 6: 31؛ 7: 38، 42؛ 10: 34؛ 13: 18 اور 19: 24۔

3۔ باب دوّم: تاریخی دستاویزات

مسیح کی موت کی تصدیق کرنے والی بہت سی تاریخی دستاویزات موجود ہیں۔ آپ کی مصلوبیّت کا ذِکر بُت پرست، یہودی، غناسطی اور مسیحی ادب میں موجود ہے۔ مسیح کی موجودگی اور موت کی بابت ثبوت کثرت سے موجود ہے۔ ہم مسیح کی مصلوبیّت کا جائزہ مختلف تاریخ دانوں کی تحریروں کی روشنی میں کریں گے۔

الف۔ بُت پرستوں کی دستاویزات

مصلوبیّت کے واقعہ کے تعلق سے بُت پرستوں کی دستاویزات اہم کردار کی حامل ہیں، اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اِن کے مصنفین مسیحی دین سے تعلق نہیں رکھتے اور اِس کی طرفداری نہیں کرتے۔ ایسے ادب سے لئے گئے متعلقہ حوالہ جات خصوصاً کلیسیائی تاریخ کے اوّلین دور میں مسیحیت کی تعریف نہیں بلکہ عداوت کو ظاہر کرتے ہیں۔

ہمیں دستیاب زیادہ تر ایسی دستاویزات کا تعلق پہلی دو مسیحی صدیوں سے ہے۔ یہ ہمیں مسیح کی زندگی اور اُس وقت میں رونما ہونے والے واقعات کی تصدیق کرتی ہیں۔

اُس دور کی سیاسی اور مذہبی واقعات کی روشنی میں اِن سیاسی مصنفین اور تاریخ دانوں کی شہادتوں کا تجزیہ کرنا بہت اہم ہے۔

جن نمایاں مصنفین نے مسیح کی مصلوبیّت کی بابت تحریر کیا ہے اور اُس پر روشنی ڈالی ہے اُن کا ذِکر یہاں پر کیا جا رہا ہے۔

کارنیلئس ٹیسیٹس (55 ء ۔ 120 ء)، ایک رومی مؤرخ تھا جو اپنی ایمانداری اور نیکی کےلئے مشہور تھا۔ اُس نے چھ شہنشاہوں کے زمانے دیکھے اور اُسے قدیم روم کا سب سے بڑا مؤرخ کہا گیا ہے۔ اُس کی مشہور ترین کتابیں "واقعات اور تواریخ" ہیں۔ واقعات اٹھارہ کتابوں پر مشتمل ہے، جبکہ تواریخ بارہ کتابوں پر مشتمل ہے۔ ٹیسیٹس نے 88 ء میں پریتور کا عُہدہ سنبھالا، 97 ء میں کونسل اور 122 ء میں پرو کونسل کا عُہدہ سنبھالا۔ [1] ایف ایف بروس نشاندہی کرتا ہے کہ غالباً ٹیسیٹس کو مسیح اور مسیحیوں کی بابت یہ تمام معلومات اُن سرکاری تحریروں سے ملیں جن تک اُس کی رسائی تھی۔ [2] اپنی دونوں تاریخی تحریروں میں ٹیسیٹس نے مسیح اور مسیحیت کے بارے میں تین حوالے دیئے ہیں۔ اِن میں سے سب سے اہم ترین یہ ہے:

"لہٰذا نیرو نے اِس الزام (یعنی روم کو جلا دینے) سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلئے اِس جرم کو ایسے گروہ پر لگا دیا جسے لوگ مسیحیوں کے نام سے پکارتے تھے اور اُس نے اُنہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ نام خرستس سے ماخوذ ہے جسے تبریس کی حکومت کے دوران ہمارے ایک حکمران پینطس پیلاطس کے ہاتھوں انتہائی سخت سزا بھگتنا پڑی۔ یہ فتنہ انگیز توہم پرستی تھوڑی دیر کےلئے رُکی، لیکن پھر نہ صرف یہودیہ میں پھیل گئی جو تمام برائی کا مصدر اوّل ہے، بلکہ روم میں بھی پھیل گئی جہاں دُنیا کے ہر حصہ سے گھناؤنی اور شرمناک چیزیں اپنا مرکز ڈھونڈتی ہیں اور عام ہو جاتی ہیں۔" [3]

اِس تاریخی دستاویز سے یہ عیاں ہے کہ مسیحیت کا نام مسیح سے لیا گیا ہے، اور حاکم پینطس پیلاطس وہی ہے جس نے مسیح کو موت کی سزا سنائی، اور فتنہ انگیز توہم پرستی یا بُری افواہ جس کا ٹیسیٹس نے ذِکر کیا بلا شک و شبہ قیامت تھی۔

تھیلس (52 ء) بھی اُن بڑے قدیم رومی مؤرخین میں سے ایک تھا جس نے مسیح کی موت کی خبر دی۔ اِس مصنف نے بحیرہ روم کے مشرقی دُنیا کی تاریخ کے بارے میں ایک کتاب ٹروجن جنگ سے لے کر اپنے وقت تک لکھی۔ [4] اِس تاریخی کام کے صرف چند حصے ہی دوسرے مصنفین کے اقتباسات میں محفوظ ہیں، جن میں جولیس افریکینس بھی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جولیس، تھیلس کے کام سے واقف تھا۔ جولیس نے مسیح کی مصلوبیّت اور مسیح کے اپنے باپ کے ہاتھوں میں اپنی رُوح سونپنے کے وقت زمین پر تاریکی کے چھا جانے کے بارے میں تھیلس کے ایک بیان کا ذِکر کیا ہے۔ اُس نے کہا: "تھیلس، اپنی تواریخ کی تیسری کتاب میں، اِس تاریکی کو سورج گرہن کے طور پر بیان کرتا ہے ۔۔۔ اور یہ مُجھے بلاجواز سا لگتا ہے۔" [5]

جولیس نے 221 ء میں اِس وضاحت کو اِس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ سورج گرہن "پورے چاند کے وقت میں نہیں ہو سکتا، اور یہ پاسکا کے وقت پورے چاند کے دوران تھا کہ مسیح مصلوب کیا گیا۔" [6]

صرف تھیلس وہ واحد فرد نہیں تھا جس نے ایک تاریکی کا ذِکر کیا۔ کئی دوسرے قدیم مصنفین نے بھی اِس کی اطلاع دی۔ اریوپگس کے رُکن ڈائیونیسیس نے کہا کہ جب اُس نے اِس تاریکی کو دیکھا، تو ایسا تھا کہ "یا تو فطرت کا دیوتا مراقبہ کر رہا تھا یا وہ کسی کے مرنے پر ماتم کر رہا تھا۔" دوسری صدی میں ماہرِ نجوم فلیفون نے اِس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "مسیح کی مصلوبیّت کے وقت جو اندھیرا ہُوا، اُس سے پہلے ویسا کبھی نہیں ہُوا تھا ۔۔۔" اِسلامی مؤرخ الحافظ ابن كثير نے اپنی کتاب "البداية والنهاية" (جلد اوّل، صفحہ 182) میں اِس کا ذِکر کیا ہے۔ [7] اِبن الاثیر نے اپنی تحریر "الكامل في التاريخ‎" میں کئی راویوں کے حوالے سے اِس کے بارے میں لکھا ہے۔ [8]

دوسری صدی کے ممتاز یونانی طنزیہ نگار لوسیان یونانی نے مسیح اور مسیحیوں پر طنزیہ تبصرہ کیا ہے۔ چونکہ وہ اپکوری فلسفہ کا پیروکار تھا، اِس لئے وہ مسیحی ایمان کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے میں ناکام رہا۔ وہ مسیحیوں کے اپنے عقائد کی خاطر مرنے کےلئے تیار رہنے کو نہ سمجھ سکا۔ اُس نے اُنہیں دھوکے کے شکار لوگوں کے طور پر سمجھا جو موجودہ جہان کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے آخرت کی تڑپ میں رہتے تھے۔ اُس نے کہا: "آپ جانتے ہیں کہ مسیحی آج کے دِن تک ایک شخص کی پرستش کرتے ہیں ۔۔۔ ایک مشہور شخصیت کی جس نے انوکھی رسومات متعارف کروائی تھیں، اور اِسی وجہ سے مصلوب کیا گیا تھا ۔۔۔ اور پھر جب وہ تبدیل ہوتے ہیں، یونان کے دیوتاؤں کا اِنکار کرتے ہیں اور اپنے مصلوب کئے گئے راہنما کی عبادت کرتے اور اُس کے قوانین کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ وہ سب اُس لمحے سے بھائی ہیں۔" [9]

اِس اقتباس سے یہ واضح ہے کہ مسیح کی مصلوبیّت بُت پرستوں میں بھی متنازعہ نہیں تھی جنہوں نے مسیحی ایمان کا مذاق اُڑایا۔ اُن کے نزدیک یہ داستان نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اُنہیں اِس بارے میں معمولی سا بھی شک نہ تھا کہ مصلوب کی گئی شخصیت کون تھی۔

پینطس پیلاطس کے اعمال

اپنے پہلے دِفاع میں یوسطین شہید (150 ء) نے پُرزور انداز میں بتایا کہ مسیح کی مصلوبیّت کی تصدیق پیلاطس کے بیان کئے گئے احوال سے بھی ہوتی ہے۔ اُس نے مسیح کے معجزات اور شفا کے کاموں کا حوالہ بھی دیا اور مزید کہا: "اور اُس نے واقعتاً یہ کام کئے، آپ پیلاطس کی تحریر میں بھی اِسے دیکھ سکتے ہیں۔" [10] طرطلیان (200 ء) نے بھی اِسی دستاویز کی طرف اشارہ کیا ہے۔ [11]

ایک اَور قدیم مصنف جس نے مسیح مصلوب کا ذِکر کیا سيتونيوس ہے (120 ء) جو رومی شہنشاہ ہیڈرین (117 ء ۔ 138 ء) کا چیف سیکریٹری تھا۔ اُس کی ملازمت نے اُس کےلئے ممکن کیا کہ وہ سرکاری دستاویزات کا جائزہ لے اور اُن مختلف وجوہ سے اچھی طرح سے واقف ہو جن کی وجہ سے مسیحی جماعتوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا، جن میں خاص طور پر مسیح کی مصلوبیّت، موت اور قیامت پر اُن کا ایمان شامل تھیں۔ [12] جن سرکاری عہدے داروں نے مسیحی جماعت کی حیثیت میں دلچسپی لی اُن میں ایشیائے کوچک میں بتونیہ کا گورنر چھوٹا پلینی بھی شامل تھا۔ اپنی دسویں کتاب (112 ء) میں اُس نے مسیح کو ایک معبود کے طور پر بیان کیا ہے جس کی مسیحی پرستش کرتے تھے۔ [13] ایک اَور اپکوری فلسفی کلسوس (140 ء) نے، جو مسیحیت کا سخت دُشمن تھا، اپنی کتاب "حقیقی بحث" میں مسیح کے مصلوب ہونے کی حقیقت کی تصدیق کی ہے، اگرچہ اُس نے اِس کے مقصد کا مذاق اُڑایا ہے۔ اُس نے کہا، "اِنسانیت کی فلاح و بہبود کےلئے مسیح نے صلیب کی اذیت برداشت کی۔" [14]

مارا بر سیرابیون نے قید سے اپنے بیٹے کے نام لکھے گئے ایک خط میں کہا: "اور یہودیوں کو اپنے عقلمند بادشاہ کے قتل سے کیا فائدہ حاصل ہُوا؟ ۔۔۔ نہ ہی عقلمند بادشاہ اُن قوانین کی وجہ سے جن کا اُس نے پرچار کیا، مرا ہُوا ہے۔" [15]

یوں لگتا ہے کہ یہ خط پہلی صدی کے آخر اور تیسری صدی کے درمیان کسی وقت لکھا گیا تھا۔ فطری طور پر مارا نے مسیح کو فلسفیوں میں سے ایک کے طور پر لیا جیسے سقراط اور افلاطون تھے، جیسے کہ باقی خط ظاہر کرتا ہے۔

اِن تمام دستاویزات میں شبیہ کا کوئی ذِکر نہیں ہے جیسا کہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے، اور اِن سے یہ بات ہمارے لئے واضح ہو جاتی ہے کہ اِن کے مصنفین کو یہ مکمل یقین تھا کہ مصلوب ہونے والا شخص واقعتاً یسوع ناصری تھا۔

ب۔ یہودی دستاویزات

یہودی دستاویزات کی اپنے منفی انداز کے باوجود ایک خاص اہمیت ہے۔ یہ نہایت فطری بات تھی کہ یہودی مذہبی اور سیاسی قیادت مسیح کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے رومی حاکم کو مجبور کیا کہ وہ مسیح کو مصلوب کرے کیونکہ اُنہیں احساس ہُوا کہ اُس کی اِنقلابی تعلیمات نے اُن کی سیاسی اور مذہبی حیثیت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود، یہ دستاویزات اِنجیل مُقدّس میں مرقوم مصلوبیّت کے بیان کے معتبر ہونے کا ثبوت ہیں۔ اپنے مطالعہ کے اِس حصہ میں ہم اِنہیں اِنسانی تاریخ کے سب سے بڑے واقعہ کی صداقت کی تاریخی شہادتوں کے طور پر جانچنا چاہیں گے۔

یوسیفس (37 ء ۔ 97 ء) نے اپنی کتاب "تواریخ" میں جو 90 ء سے 95 ء کے درمیان لکھی گئی، مسیح کی مصلوبیّت کے تعلق سے ایک عبارت درج کی ہے۔ یہ تاریخی تحریر ماہرین قدیم نگارشات کے درمیان گرما گرم بحث کا باعث بنی ہے۔ کُچھ کا خیال ہے کہ پُرجوش مسیحیوں نے کُچھ جملے شامل کر دیئے ہیں جو مسیح کے بارے میں کوئی یہودی نہیں کہہ سکتا تھا۔ لیکن 1972 ء میں ایک اہم عربی نسخہ دریافت ہُوا اور بعد میں شائع ہُوا جس کے بارے میں عُلماء کا خیال ہے کہ وہ اصل تحریر کا بہت قریب تر ترجمہ ہے۔ [16] یوسیفیس نے کہا:

"اُس وقت یسوع نامی ایک عقلمند آدمی تھا جو اپنے اچھے سُلوک اور تقویٰ کےلئے مشہور تھا، اور یہودیوں اور دیگر اقوام میں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اُس کی اِتّباع کی۔ تاہم، پیلاطس نے اُسے صلیب کے ذریعہ سے موت کی سزا دی۔ اور جو لوگ اُس کے شاگرد ہوئے تھے، اُنہوں نے اُس کی پیروی کرنا ترک نہیں کی۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ مصلوب ہونے کے تین دِن بعد وہ اُن پر ظاہر ہُوا اور زندہ تھا۔ اِسی مناسبت سے وہ غالباً مسیحا تھا جس کے تعلق سے انبیاء نے حیران کن باتیں بیان کر رکھی تھیں۔" [17]

یوسیفس کی گواہی زیادہ تر بُت پرست مصنفین کی شہادتوں سے پہلے کی تھی۔ اگرچہ اُس نے یہودی نقطہء نظر سے اِن تمام باتوں کے بارے میں لکھا، لیکن وہ اپنے انداز میں معروضی اور حقیقت پسندانہ ثابت ہُوا۔ جب ہم اِس پر غور کرتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تاریخی ثبوت کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔

تالمود

تالمود کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: مِشنہ اور گیمارا۔ مِشنہ زبانی روایات ہیں جو ایک یہودی نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہیں، یہاں تک کہ دوسری صدی عیسوی میں اِنہیں قلمبند کر دیا گیا۔ گیمارا، مِشنہ پر قدیم تفاسیر کی تالیف شدہ صورت ہے۔ تالمود میں متنازعہ شرعی سوالات سے متعلق مواد کو حلقا کہا جاتا ہے۔ جہاں تک روایتی قوانین کی وضاحت کےلئے استعمال ہونے والے قصّوں، کہانیوں اور اقوال کی بات ہے تو اُنہیں ہگّادہ کہا جاتا ہے۔ [18] تالمود کے حِصّہ، سنہیڈرن میں یہ بتایا گیا ہے: "یسوع کو فسح سے ایک دِن پہلے مصلوب کیا گیا۔ ہم نے اُسے چالیس دن تک مُتنبّہ کیا تھا کہ وہ مارا جائے گا کیونکہ وہ جادوگر تھا اور اُس نے اپنے فریبوں سے اسرائیل کو دھوکا دینے کا منصوبہ بنایا ہُوا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ جو کوئی بھی اِس کا دِفاع کرنا چاہتا ہے کر سکتا ہے۔ جب کسی نے بھی ایسا نہیں کیا، تب اُسے فسح کے موقع پر مصلوب کر دیا گیا۔ کیا کوئی اُس کا دِفاع کرنے کی ہِمّت کر سکتا ہے؟ کیا وہ برائی کا اُبھارنے والا نہیں تھا؟ اِستثنا 13: 8 میں ایسے فرد کی بابت کہا گیا ہے کہ 'نہ اُس کی بات سُننا۔ تُو اُس پر ترس بھی نہ کھانا اور نہ اُس کی رعایت کرنا اور نہ اُسے چھپانا۔ بلکہ تُو اُس کو ضرور قتل کرنا۔'" [19]

بظاہر تالمود مصلوب شخص کی شناخت مسیح کے طور پر کرتی ہے۔ ہمیں اِس گواہی میں اُس کی شناخت کے بارے میں کوئی شُبہ نہیں ملتا۔

ایک اَور مسیحی مخالف یہودی مخطوطہ کا نام تولیدوت جیشو (Toledoth Jeshu) ہے جس میں نہ صرف یسوع کا ذِکر موجود ہے بلکہ یہ ہمارے سامنے موت کے بعد جو کُچھ یسوع کے بدن کے ساتھ ہُوا اُس کے تعلق سے ایک فرضی کہانی بھی بیان کرتا ہے۔ اِس کے مصنف نے دعویٰ کیا کہ یسوع کے شاگردوں نے اُس کے بدن کو چُرانے کی سازش کی، لیکن ایک باغبان نے جس کا نام یہوداہ تھا اِس سازش کا سُراغ لگا لیا۔ وہ چُپکے سے آیا اور لاش کو یُوسُف کی قبر سے نکال کر ایک نئی کُھدی ہوئی قبر میں منتقل کر دیا۔ جب شاگرد اصل قبر پر گئے اور اُسے خالی پایا تو اُنہوں نے اعلان کیا کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ اِس کے فوراً بعد یہودی راہنماؤں نے بھی یُوسُف کی قبر کے پاس پہنچ کر اُسے خالی پایا۔ اِس کے بعد باغبان اُنہیں نئی کُھدی ہُوئی قبر کے پاس لے گیا اور اُنہیں یسوع کی لاش دِکھائی۔ [20]

اگرچہ یہ روایت پانچویں صدی سے پہلے مُرتّب نہیں کی گئی تھی، لیکن اِس میں بلا شک و شبہ پہلی کی یہودی روایت کی بازگشت سُنائی دیتی ہے جو مسیح کے جی اُٹھنے کے بعد یہودی حلقوں میں پھیلی ہُوئی تھی (اِنجیل بمطابق متی 28: 11- 15)۔ یہ مخطوطہ مسیحیت سے اپنی عداوت کے باوجود مسیح کی مصلوبیّت، موت اور جی اُٹھنے کا مضبوط ثبوت ہے، کیونکہ یہ مُنتقّم دُشمن کی گواہی ہے۔

مشہور یہودی ربّی ھلل کے شاگرد یوحنان بن زکّائی نے اپنی کتاب "سیرتِ یسوع ناصری" میں لکھا: "بادشاہ اور یہودی ربّیوں نے یسوع کو موت کی سزا دی تھی کیونکہ وہ اُس وقت خُدا کے خلاف کُفر کا مُرتکب ہُوا جب اُس نے دعویٰ کیا کہ وہ خُدا کا بیٹا ۔۔۔ اور خُدا تھا۔" اِس کے بعد اُس نے لکھا: "جب مسیح موت کے راستہ پر جا رہا تھا تو یہودیوں نے اُس کے سامنے چِلّا کر کہا، 'اے خُداوند، تیرے تمام دُشمن ہلاک ہو جائیں۔'" [21]

ج۔ غناسطی دستاویزات

لفظ "گنوسس" یونانی زبان میں "علم" کےلئے استعمال ہونے والی ایک اِصطلاح ہے۔ غناسطیّت ایک مذہبی فلسفیانہ تحریک ہے جس کے تحت مختلف گروہ شامل ہیں جو متعدد اصولوں پر مُتّفِق یا غیرمُتّفِق ہو سکتے ہیں۔ علم ہی وہ مرکزی تصوّر تھا جس پر اِس تحریک نے اپنی مذہبی عقیدہ استوار کیا۔

ہم پہلے ہی اِس بات کا ذِکر کر چکے ہیں کُچھ غناسطی، ابیونی اور دوقیت کی پیروکار نظریہ شبیہ کی تعلیم دیتے تھے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اُن کی تعلیمات نے مصلوبیّت کے بارے میں اِسلامی نظریہ کی تشکیل پر بہت اثر ڈالا۔ تاہم، غناسطیّت میں شبیہ کا نظریہ مسیح کی دو فطرتوں کی بابت تنازعہ سے پیدا ہُوا۔ غناسطی ایمان رکھتے تھے کہ یسوع خُدائے مُجسّم تھا، اور اِس وجہ سے وہ مصلوب نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ ہمارے بدن کے برعکس اُس کا الٰہی بدن تھا۔ اِس لئے اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ جسے مصلوب کیا گیا تھا وہ مسیح نہیں بلکہ کوئی اَور تھا۔

اِسلام مصلوبیّت کا اِنکار نہیں کرتا بلکہ اِس سے اِنکار کرتا ہے کہ مسیح مصلوب ہُوا تھا، اور اِس کی وجہ اُس کی اِلٰہی فطرت نہیں ہے بلکہ یہ اعتقاد ہے کہ مسیح کو کسی طور پر مصلوب نہیں کیا گیا تھا اور اِس سے پہلے کہ اُس کے دُشمن اُسے گرفتار کرتے اللّہ نے اُسے زندہ آسمان کی طرف اُٹھا لیا، اور پھر اللّہ نے اُس کی شبیہ کسی اَور پر ڈالی جو مسیح کی جگہ مصلوب ہُوا۔

لیکن غناسطیّت کے سارے پیروکار نظریہ شبیہ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ غناسطیّت کے ابتدائی دینی اور ادبی کام نے اِنجیل مُقدّس کی تحریر کی سچائی کی تصدیق کی ہے۔ اِس سے مسیح کی مصلوبیّت اور قیامت کے بارے میں زیادہ مواد میسر آیا، خصوصاً "سچائی کی اِنجیل" (135 ء ۔ 160 ء)، "یوحنّا کی خفیہ تحریر" (120 ء ۔ 130 ء) اور "توما کی اِنجیل" (140 ء ۔ 200 ء)۔ اگرچہ یہ تحریریں الہامی نہیں ہیں لیکن اِن سب میں مسیح کو بطور کلام، خُدا اور ابنِ خُدا کے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً "سچائی کی اِنجیل" میں ہم یہ الفاظ پڑھتے ہیں: "یسوع نے دُکھوں کا سامنا صبر کے ساتھ کیا ۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اُس کی موت دوسروں کےلئے زندگی ہے ۔۔۔ اُسے درخت پر کیلوں سے جڑ دیا گیا، اُس نے باپ کے فیصلے کا صلیب پر اعلان کیا ۔۔۔ وہ اپنے آپ کو موت کے نچلے درجہ میں لے گیا، حالانکہ وہ ابدی زندگی میں مُلبّس ہے۔ اپنے آپ کو اِن فنا ہونے والی چیزوں سے الگ کرنے کے بعد وہ ناقابل فنا سے مُلبّس ہو گیا جسے کوئی بھی ممکنہ طور پر اُس سے نہیں لے سکتا۔" [22]

ہم "یوحنّا کی خفیہ تحریر" میں یہ بھی پڑھتے ہیں: "خُداوند نے جواب دیا اور کہا، میں تم سے سچ کہتا ہوں، جو کوئی میری صلیب پر ایمان نہیں رکھتا نجات نہیں پائے گا، کیونکہ خُدا کی بادشاہی اُن کی ہے جو میری صلیب پر ایمان لاتے ہیں۔" [23]

سو، صلیب اور مصلوبیّت یہاں تک کہ کلیسیا کے ابتدائی مرحلے پر بدعتی فرقوں کے درمیان بھی مسیحی ایمان کا مرکز تھیں۔

د۔ مسیحی دستاویزات

مسیحی مذہبی، ادبی اور تاریخی دستاویزات عموماً درست اندراج پر مشتمل ہیں جو آبائے کلیسیا کے گہرے ایمان کی عکاسی کرتی ہیں۔ اُنہوں نے بلاشبہ اُن تمام تعلیمات اور معلومات کا یقین کیا جو اُنہوں نے شاگردوں سے یا تو دستاویزی منتقلی یا تحریری کلام سے حاصل کیں۔ اُن میں سے بعض شاگردوں کے شاگرد بھی تھے، جیسے کلیمنٹ آف روم (30 ء ۔ 100 ء)، اگنیشئس (35 ء ۔ 107 ء)، پاپیاس (60 ء ۔ 130 ء) اور پولی کارپ (65 ء ۔ 155 ء)۔ ابتدائی کلیسیائی بزرگان دین کی تحریریں اِنجیل مُقدّس کے واقعات اور تعلیمات خاص طور پر جو یسوع کی موت اور قیامت سے متعلق ہیں اُن کی صداقت کا حتمی ثبوت ہیں۔ جس طرح سے نئے عہدنامہ کا ایک بہت بڑا حصہ اِن دو واقعات پر مشتمل ہے، اُسی طرح یہ واقعات ابتدائی کلیسیا کے بزرگوں کی تحریروں کا بھی مرکزی نقطہ تھے۔

درحقیقت یہ تحریریں بائبل مُقدّس کی طرح مسیح کی موت اور اُس کے جی اُٹھنے سے متعلق بہت سی پیشین گوئیوں پر زور دیتی ہیں۔ پہلی صدی عیسوی کی ابتدائی کلیسیائی تحریروں کے مطالعہ کرنے سے اور نئے عہدنامہ میں سے اُن کے اقتباسات کو ایک جگہ اکھٹا کرنے سے صرف سترہ آیات کو چھوڑ کر پورے نئے عہدنامہ کے متن کی تشکیل نو کی جا سکتی ہے۔ [24] اِن کی عبارت خصوصاً مسیح کی الوہیّت، موت اور قیامت سے متعلق حوالہ جات ہمارے پاس موجود نئے عہدنامہ کی تحریر سے مختلف نہیں ہیں۔ مزید برآں، دُنیا میں کوئی اَور کتاب نہیں ہے (حتیٰ کہ قرآن بھی نہیں) جس کی تائید بائبل کی طرح ہزاروں قدیم نسخہ جات سے ہوتی ہے۔ بحیرہ مُردار سے ملنے والے طوماروں نے صحائف کی ساکھ میں مزید اضافہ کیا ہے۔

آبائے کلیسیا کی تحریریں یہ ہیں: کلیمنٹ کے دو خطوط جو بشپ آف روم تھا۔ اگنیشئس کے لکھے ہوئے دو مختصر خطوط، جو اُس نے اپنی شہادت سے پہلے انطاکیہ سے روم کے سفر کے دوران کلیسیاؤں اور مختلف افراد تک پہنچائے۔ مقدّس یوحنّا کے شاگرد پولی کارپ کا فلپیوں کے نام خط۔ "دِدخے" یا "رسولوں کی تعلیم" مسیحی اخلاقیات کلیسیائی نظم و ضبط سے متعلق عملی معاملات پر ایک ابتدائی کتاب ہے۔ ایک خط برنباس کے نام سے بھی موسوم ہے جس میں اُس نے اُن افراد پر تنقید کی ہے جو یہودی شریعت کی تشریح مسیح میں تکمیل کی روشنی میں نہیں کرتے۔ ہرمیس کا چرواہا میں مرکزی کردار دعویٰ کرتا ہے کہ اُسے "خُداوند کے ایک فرشتہ سے رویائیں، مسیحی تعلیمات کے احکام اورتمثیلیں ملی ہیں۔" [25] "دفاعیات یوسطین" میں یوسطین شہید نے بہت سے اِنجیلی حقائق بیان کئے ہیں جن میں خصوصاً مسیح کی شخصیت، اُس کی زمینی زندگی، مصلوبیّت اور قیامت شامل ہیں۔ مؤرخ یوسیبیس نے "دفاع کوادراتُس" (دوسری صدی عیسوی) کے کُچھ حصوں کا اقتباس کیا ہے جب وہ شہنشاہ ہیڈرین سے مخاطب ہُوا تھا جس کی ایک مثال یہ ہے:

"ہمارے نجات دہندہ کے کام ہمیشہ آپ کی نگاہوں کے سامنے تھے، کیونکہ وہ سچے معجزات تھے، وہ جو شفایاب ہوئے، وہ جو مُردوں میں سے جی اُٹھے، وہ نہ صرف اپنی شفایابی اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے وقت دیکھے گئے بلکہ وہ ہم میں موجود تھے۔ وہ ایک طویل عرصہ تک زندہ رہے، نہ صرف اُس وقت جب ہمارا خُداوند زمین پر تھا بلکہ اُس وقت بھی جب وہ زمین سے رُخصت ہُوا۔ یہاں تک کہ اُن میں سے کُچھ ہمارے وقت میں بھی زندہ رہے۔" [26]

ابتدائی کلیسیا سے تعلق رکھنے والے کُچھ مصنفین نے مسیح کے شاگردوں کے زیراہتمام تربیت پائی۔ بلاشبہ اُنہوں نے شاگردوں سے ناقابل تردید حقائق حاصل کئے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسیح کے نام پر شاگردوں کے ذریعہ کئے گئے کُچھ معجزات کا مشاہدہ بھی کیا ہو۔

اِن تمام تحریروں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آبائے کلیسیا جو اپنے ایمان کےلئے اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کرنے کےلئے تیار تھے، کسی افسانہ کے ماننے والے نہیں تھے۔

ہ۔ اضافی ثبوت

جن تحریروں کو ہم زیر بحث لائے ہیں اُن کے علاوہ ابتدائی کلیسیائی تاریخ اور آثار قدیمہ کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ یہ ہمیں پہلی صدی کے مسیحیوں کے مسیح کی مصلوبیّت، موت اور قیامت کے بارے میں اعتقادات کا اَور زیادہ ثبوت فراہم کرے گا۔ روم کی زمین دوز قبروں میں صلیب کی نقاشی اور کندہ کی ہوئی تحریریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ زیرِ زمین مقامات خفیہ ملاقات کی جگہ تھیں جہاں حکومت کے جاسوسوں سے بچنے کےلئے ابتدائی مسیحی عبادت کی غرض سے جمع ہوتے تھے۔

ابتدائی مسیحیوں نے اپنی قبروں پر صلیب کے نشان کو کندہ کرنا شروع کیا تا کہ وہ بُت پرستوں کی قبروں سے فرق نظر آئیں۔ اگر اِن مسیحیوں کو مسیح کی مصلوبیّت کا یقین نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی صلیب کو اپنی مذہبی علامت کے طور پر اختیار نہ کرتے۔ اگرچہ صلیب یہودیوں اور رومیوں دونوں کے نزدیک شرم کی علامت تھی، لیکن راستباز مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد یہ مسیحیوں کےلئے اُمید اور ایمان کی علامت بن گئی۔ اگر صلیب اِن مسیحیوں کے ایمان میں ایک رچی بسی حقیقت نہ ہوتی تو وہ اپنے نجات دہندہ کی خاطر تمام ظلم و ستم یہاں تک کہ موت کو برداشت نہ کرتے۔

اُن شہیدوں میں سے کُچھ مصلوبیّت کے چشم دید گواہ تھے۔ دوسروں نے یہ حقائق شاگردوں سے یا اِنجیلی بیانات یا اُن خطوط کے تحریری الفاظ کے ذریعہ سے جانے جو رُوح القدس کے الہام سے لکھے گئے تھے۔

عشائے ربّانی اور بپتسمہ کے فریضہ کا مقرر کیا جانا (اِنجیل بمطابق متی 28: 19) بھی مسیح کی موت اور قیامت کا تاریخی ثبوت ہے۔ جس رات یہوداہ اِسکریوتی نے مسیح کو دھوکے سے پکڑوایا، آپ نے خود اِسے مقرر کیا اور اپنے شاگردوں کو کہا کہ وہ اُس کی یادگاری میں ایسا ہی کیا کریں۔ اُس وقت سے لے کر آج تک کے تمام عرصہ میں عشائے ربّانی کا کلیسیائی عبادت میں نمایاں مقام ہے۔ اِس کی حقیقی اہمیت، جیسا کہ مسیح نے خود اِس کی وضاحت کی، یہ ہے کہ یہ آپ کی مصلوبیّت اور موت کی علامت ہے۔ جب مسیحی اِس کا انعقاد کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ مسیح کی موت کی یادگاری کرتے ہیں (اِنجیل بمطابق متی 26: 26۔ 29؛ مرقس 14: 22۔ 25؛ لوقا 22: 14۔ 20؛ 1۔ کرنتھیوں 11: 23۔ 27)۔

یہی بات بپتسمہ کے فریضہ کے تعلق سے بھی کہی جا سکتی ہے۔ یہ ایک مسیحی کی پرانی زندگی کے اعتبار سے موت اور یسوع مسیح کے ساتھ جی اُٹھنے کی علامت ہے۔ شاگردوں نے مسیح کے حکم کی تعمیل میں اِن دونوں فرائض کو سرانجام دیا اور آج کے دِن تک کلیسیا اِن پر عمل پیرا ہے۔



[1] دیکھیں کتاب: Funk and Wagnalls New Encyclopedia: vol. 25, p. 95

[2] دیکھیں کتاب: F.F. Bruce, Jesus and Christian Origin Outside the New Testament, Eerdman, 1974, p. 23

[3] دیکھیں کتاب: Habermas, Gary R. The Verdict of History, Thomas Nelson, Nashville, 1982, pp. 87-88

[4] Ibid., pp. 93-94

[5] دیکھیں کتاب: F. F. Bruce: The New Testament Document, IVF and Tyndale Press., London 1960, p. 113

[6] Ibid., 113 مزید دیکھئے، سمعان، عوض، كيف تنتفع بكفارة المسيح، ص 17

[7] كيف تنتفع بكفارة المسيح، ص 17

[8] ابن الاثیر، تاريخه الكامل، جلد اوّل، ص 319۔ دار صادر، بیروت، لبنان، 1965۔

[9] دیکھیں کتاب: The Verdict of History, p. 100

[10] Ibid., p. 107

[11] Ibid., pp. 107-108

[12] Ibid., pp. 89-90

[13] Ibid., p. 95

[14] قضیة الغفران، ص 108، مزید دیکھئے، نقولا یعقوب غبریل، مباحث المجتہدین، ص 76

[15] دیکھیں کتاب: The Verdict of History, p. 101, see also Bruce, The Origin of Christianity, p. 30

[16] Ibid., p. 91

[17] Ibid., pp. 91-92 اِس کتاب کے مُصنّف نے یہ الفاظ اِس کتاب سے مُقتبس کئے ہیں: New Evidence on Jesus' Life Reported, New York Times, February 12, 1972, pp. 1, 24

[18] دیکھیں کتاب: Funk and Wagnalls New Encyclopedia, p. 111; vol. 25

[19] دیکھیں کتاب: The Cross and The Gospel, p. 35. Also Sanhadrin, 43 a, p. 281

[20] دیکھیں کتاب: The Verdict of History, p. 99. See also, Maier, Paul L., First Easter, New York: Harper and Row, publishers, 1973, pp. 117-118

[21] قضیة الغفران، ص 108، مزید دیکھئے، نقولا یعقوب غبریل، مباحث المجتہدین، ص 87۔ 88

[22] دیکھیں کتاب: The Verdict of History, p. 103

[23] دیکھیں کتاب: Meyer, Marvin W., trans.; The Secret Teaching of Jesus, Random House, New York, 1984, p. 6

[24] دیکھیں کتاب: McDowell, Josh, Evidence that Demands a Verdict, Campus Crusade for Christ International, Arrowhead, San Bernardino, CA, 1977, pp. 54-55 مُصنّف نے وقت کے جیّد علماء کی آراء کو اُن کی طویل تحقیق کی بناء پر مُرتّب کیا ہے۔

[25] دیکھیں کتاب: Blomberg, Craig, The Historical Reliability of the Gospel, Inter-Varsity Press, Downers Grove, Il, 1987, pp. 201-218

[26] دیکھیں کتاب: Eusebius, IV: III; as quoted by Habermas, The Verdict of History, p. 144. See also Evidence that Demands a Verdict, pp. 66-67

4۔ باب سوّم: اِسلام میں مسیح کی مصلوبیّت

گذشتہ حصہ میں ہم نے اِسلام میں شبیہ اور کفّارہ کے امور پر بحث کی ہے۔ اِس مطالعہ کے ساتھ اِنصاف کرنے کےلئے یہ ضروری ہے کہ کُچھ قرآنی آیات کا جائزہ لیا جائے جن کی مسلمانوں نے روایتی طور پر غلط تشریح کی ہے اور یوں صلیب اور قیامت کی ناگزیر حقیقت کا اِنکار کیا ہے۔

قرآن اِس سے اِنکار نہیں کرتا کہ کُچھ نبیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ متعدد سورتوں سے اِس امر کی نشاندہی ہوتی ہے:

"تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو اُن میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو۔" (سورۃ البقرہ 2: 87)

"۔۔۔ اور انبیاء کو اُن کا ناحق شہید کرنا، اور فرمائیں گے کہ چکھو آگ کا عذاب۔" (سورۃ آل عمران 3: 181)

"وہ جو کہتے ہیں اللّہ نے ہم سے قرار کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک ایسی قربانی کا حکم نہ لائے جسے آگ کھائے۔ تم فرما دو مُجھ سے پہلے بہت رسول تمہارے پاس کُھلی نشانیاں اور یہ حکم لے کر آئے جو تم کہتے ہو پھر تم نے اُنہیں کیوں شہید کیا اگر سچے ہو۔" (سورۃ آل عمران 3: 183)

"تو اُن کی کیسی بدعہدیوں کے سبب ہم نے اُن پر لعنت کی اور اِس لئے کہ وہ آیاتِ الٰہی کے منکر ہوئے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے اور اُن کے اِس کہنے پر کہ ہمارے دِلوں پر غلاف ہیں بلکہ اللّہ نے اُن کے کفر کے سبب اُن کے دِلوں پر مہر لگا دی ہے تو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے۔" (سورۃ النساء 4: 155)

یہ قرآنی آیات تسلیم کرتی ہیں کہ انبیاء کو کسی نہ کسی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ خُدا نے اپنے کُچھ پیغمبروں کے ساتھ ایسے ہونے دیا۔ اور جبکہ اِنجیل مُقدّس اعلان کرتی ہے کہ جناب مسیح اپنی مرضی سے آسمانی باپ کی خواہش کی فرمانبرداری میں اِنسانیت کی نجات کےلئے آئے تھے تو کیوں پھر اِس قاعدہ کا آپ پر اِطلاق نہیں ہوتا اور کیوں مسلمان آپ کی مصلوبیّت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں؟

قرآن میں تو مسیح کی موت اور آپ کی مصلوبیّت کے تعلق سے کئی حوالہ جات موجود ہیں۔ آئیے، ہم چند آیات کا جائزہ لیں:

"اُس وقت اللّہ نے فرمایا، اے عیسیٰ بیشک میں تُجھے موت دوں گا اور تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔" (سورۃ آل عمران 3: 55)

"اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کے حالات کی خبر رکھتا رہا۔ پھر جب تُو نے مُجھے دُنیا سے اُٹھا لیا تو تُو اُن کا نگراں تھا۔" (سورۃ المائدۃ 5: 117)

"مسیح ابنِ مریم مگر ایک رسول، اس سے پہلے بہت رسول ہو گزرے۔" (سورۃ المائدۃ 5: 75)

مسیح سے متعلق قرآنی حوالہ جات میں سے ایک کے مطابق عیسیٰ نے کہا:

"اور سلامتی مُجھ پر جس دِن میں پیدا ہُوا اور جس دِن مروں گا اور جس دِن زندہ اُٹھایا جاؤں گا۔" (سورۃ مریم 19: 33)

یحییٰ (یوحنّا بپتسمہ دینے والے) کے بارے میں بھی ایسا ہی بیان آیا ہے:

"اور سلامتی ہے اُس پر جس دِن پیدا ہُوا اور جس دِن مرے گا اور جس دِن زندہ اُٹھایا جائے گا۔" (سورۃ مریم 19: 15)

مسلمان مُفسّرین نے اِن آیات کی تاویل اپنے اِس گمان پر کی ہے کہ عیسیٰ کو نہ تو مصلوب کیا گیا تھا اور نہ ہی وہ مرے تھے۔ اُنہوں نے عربی کے لفظ "متوفيك" کی یوں وضاحت کی ہے کہ اِس کا مطلب ہے "تیری مُدّت ختم کروں گا۔" یہ وضاحت اِن آیات کے عمومی سیاق و سباق کے مطابق نہیں ہے۔ بہت سے ایسے مُفسّرین کے نزدیک، جو قرآنی عربی کے نزدیک کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں، اِس کا معنٰی ہے کہ "تُجھے موت دوں گا۔" ہم اِن آیات کا جائزہ لیں گے اور اِصطلاح "وفات" اور اِس سے ماخوذ دیگر الفاظ کا بیان کردہ آیات میں مطالعہ کریں گے۔

الف۔ مسلمان مُفسّرین کی آراء

مسلمان علماء میں اِصطلاح "متوفيك" کے معنٰی پر اِتّفاق نہیں ہے۔ نتیجتاً، وہ دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ الرازی نے سورۃ آل عمران 3: 55 کی تفسیر کے دوران اِن علماء کی مختلف آراء کو ایک ساتھ مرتّب کیا ہے۔ درحقیقت، الرازی نے اِس اِصطلاح کے بارے میں اپنی ذاتی رائے کے اظہار سے گریز کیا ہے، اور اُس نے کسی بھی نقطہ نظر کی حمایت کے بغیر دوسرے کی رائے پیش کرنے پر اِکتفا کیا ہے۔ میری رائے میں الرازی نے اِس لفظ کی پیچیدگی کے باوجود جو موقف اختیار کیا ہے وہ اُس معاشرے میں اُس کےلئے محفوظ تر تھا جہاں معاشرہ اِس طرح کے معاملہ میں اُس جیسے جیّد عالم کو مسلمانوں کے اجماع سے انحراف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یوں، اُس نے مختلف نظریات کی تالیف و تدوین کرنے کا سہارا لیا، اور مسلمان قاری کو اُس رائے کو اپنانے کی آزادی دی جو اُس کے مذہبی پس منظر کے مطابق ہے۔

الرازی نے اِصطلاح "متوفيك" کے تعلق سے جن متضاد آراء کو بطور تشریح پیش کیا، یہ ہیں:

(1) تمہاری مدت پوری کروں گا: یعنی میں تمہیں لے جاؤں گا، سو میں تمہیں تمہارے دُشمن یہودیوں کے پاس نہیں چھوڑوں گا کہ تمہیں قتل کر دیں۔

(2) تمہیں موت دوں گا: یہ قول مُفسّرِ قرآن ابنِ عباس اور محمد بن اسحٰق سے مروی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کے دُشمن یہودی اُسے قتل نہیں کر سکیں گے۔ اِس کے بعد اللہ نے اُسے آسمان کی طرف اُٹھا کر عزت بخشی۔ اِس نقطہ نظر سے مسلمان علماء نے تین طرح سے اختلاف کیا ہے: (الف) وھب نے کہا کہ وہ تین گھنٹے تک مرے رہے اور پھر اُٹھا لئے گئے; (ب) محمد بن اسحٰق نے کہا کہ وہ سات گھنٹے تک مرے رہے اور پھر زندہ کر کے اُٹھا لئے گئے; (ج) الربیع بن اَنس نے کہا کہ اللہ نے اُنہیں آسمانوں کی طرف اُٹھاتے وقت وفات دی، کیونکہ اللہ نے کہا ہے: "اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے اُن کی موت کے وقت اور جو نہ مریں اُنہیں اُن کے سوتے میں" (سورۃ الزمر 39: 44)۔

(3) یہاں واؤ (اور) الفاظ کی ترتیب کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے: چونکہ عیسیٰ زندہ ہیں، اِس کا مطلب ہے کہ اللہ نے اُنہیں پہلے اُٹھایا، پھر وہ نازل ہو کر دجال کو قتل کریں گے اور پھر اِس کے بعد اللہ تعالیٰ اُنہیں وفات دے گا۔

(4) مجازی تاویل: یہ اَبو بکر الواسطی کی رائے ہے۔ (میں تمہیں موت دوں گا) تمہاری شہوتوں اور نفس کی خواہشوں سے۔ پھر اُس نے کہا، (تمہیں اپنی طرف اُٹھا لوں گا) کیونکہ جب تک وہ اللہ کے اعتبار سے باقی چیزوں سے مر نہیں جاتا اللہ کی معرفت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ پھر یہ بھی سامنے رہے جب عیسیٰ کو آسمان پر اُٹھا لیا گیا تو اُن کا حال شہوت، غضب اور بُرے اخلاق کے زوا ل میں ملائکہ کی طرح ہو گیا۔

ظاہر ہے یہ تاویل انبیاء کرام کی عصمت اور اُن کے عمدہ کردار کی اِسلامی تعلیم سے متصادم ہے۔ ہم یہاں پر ابیونی اثر دیکھ سکتے ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ مسیح اپنے صعود میں مُقرّب فرشتہ بن گیا۔

(5) کامل صعود: یعنی عیسیٰ اپنے جسم اور رُوح دونوں میں اُٹھائے گئے، نہ کہ صرف رُوح میں جیسا کہ کُچھ لوگ سوچتے ہیں۔ اِس تشریح کی صداقت کا اِشارہ اللّہ تعالیٰ کے قول میں ملتا ہے: "اور تمہارا کُچھ نہ بگاڑیں گے" (سورۃ النساء 4: 113)۔

(6) میں تمہیں مرے ہوئے شخص کی طرح بنا دوں گا: عیسیٰ کو آسمان کی طرف اُٹھانا، زمین سے اُن کا ہر مادی نشان ختم کرنا اور اُن کی خبر کا ختم ہونا ایسے تھا جیسے اُن کی وفات ہو گئی۔ "اور شے کا اُس چیز پر اِطلاق جائز اور خوبصورت ہوتا ہے جو اُس کے اکثر خواص و صفات میں مشابہ ہو۔"

(7) قبض کرنا: اِس کا مطلب ہے معاوضہ ادا کرنا یا معاوضہ پانا جب آپ واجب الادا رقم کی پوری ادائیگی وصول کریں۔ دونوں طرح سے، زمین سے اُنہیں لے لینا اور آسمان کی طرف اُٹھا لینا اُن کےلئے ایک ادائیگی ہے۔

(8) کام کا معاوضہ: یعنی اللہ نے اُن کی اِطاعت اور اعمال کو قبول کرنے کی بشارت عطا فرمائی ، اور اُس نے اُن پر اُن مصیبتوں اور مشکلات کو ظاہر کیا جن کا سامنا اللہ کے دین اور شریعت کو پھیلانے کے دوران وہ اپنے دشمنوں کی طرف سے کریں گے۔ وہ اُن کا اجر ضائع نہیں کرے گا اور نہ ہی ثواب مٹائے گا۔

اور الرازی نے مزید کہا: "یہ اُن لوگوں کے تمام نظریات ہیں جنہوں نے اِس آیت کی تشریح لفظی معنٰی کے مطابق کی۔"

الرازی نے مزید بتایا کہ "اُن لوگوں کا قول جو آیت میں تقدیم و تاخیر مانتے ہیں حالانکہ تقدیم و تاخیر کی محتاجی نہیں۔ 'اور میں تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا' کے الفاظ بتاتے ہیں کہ عیسیٰ کو زندہ اُٹھا لیا گیا اور واؤ ترتیب کا تقاضا نہیں کرتی اب تقدیم و تاخیر کی بات ہی ہو سکتی ہے۔ اِس طرح معنٰی یہ ہو گا: میں نے تجھے اپنی طرف اُٹھا لیا اور کفار سے محفوظ کر لیا اور دُنیا اُتارنے کے بعد تمہیں موت دوں گا۔ قرآن میں اِس قسم کی تقدیم و تاخیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔"

ایسوں کو الرازی نے جواب دیا: "اور یاد رہے کہ ہم نے جو کثیر معانی بیان کئے ہیں وہ مخالفت ظاہر کے التزام سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے۔" [1]

سورۃ مریم میں مذکور دو آیات جن میں یحییٰ (یوحنّا بپتسمہ دینے والا) اور عیسیٰ پر جس دِن وہ پیدا ہُوئے اور جس دِن وہ مریں گے اور جس دِن وہ مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے اللّہ کی سلامتی کی درخواست کی گئی ہے۔ [2] یہ مسلمان علماء کو مسیح کی موت کے واقعہ کا پوری طرح سے جائزہ لینے کےلئے اُبھارنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ مسلمان یہ خیال کرتے ہیں کہ الفاظ "جس دِن میں مروں گا" مسیح کی دوسری آمد اور دجال کو ختم کرنے کے بعد عیسیٰ کی موت کی طرف اِشارہ ہے۔

دیگر مسلمان مُفسّرین جیسے طبری، ابن كثير، زمخشری اور بيضاوی نے اِن آیات میں پائے جانے والے اِبہام کو سمجھانے کےلئے بہتر معلومات فراہم نہیں کیں۔ سِوائے چند ایک مثالوں کے اُن سب نے زیادہ تر ایک دوسرے پر انحصار کیا ہے۔ [3]

الرازی کی لفظ "متوفيك" کے تعلق سے مُفسّرین کی آراء کے جائزہ سے کیا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے؟

اوّلاً، بظاہر الرازی نے اُن افراد کی آراء کو محض مُرتّب کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اُس نے جان بوجھ کر اِن آراء کے ساتھ تعامل کرنے یا اِن پر ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔ ایک قاری گہرے طور پر دیکھ سکتا ہے کہ یہ عالم مُفسّرین کی تاویلات کا قائل نہیں تھا۔ دوسری طرف، ایک مذہبی مسلمان عالم کے طور پر اُس کےلئے کسی نئی تشریح کی تجویز دینا تقریباً ناممکن ہو گا جو مسیح کی موت کے بارے میں اِسلامی اِلٰہیات کے عمومی اِتّفاق رائے کے برخلاف ہوتی۔

ثانیاً، مسلمان علماء کی متضاد آراء اور تاویلوں نے حقائق کی تلاش کرنے والوں کے ذہن میں مزید اُلجھن اور حیرت پیدا کر دی ہے، اور حقیقت سے پردہ اُٹھانے میں مدد نہیں کی۔ اِن مُفسّروں اور راویوں کو اِسلامی تاریخ میں نمایاں علمی مقام حاصل تھا اور دینی علماء اور محقّقین نے اِن کا کثرت سے اقتباس کیا ہے۔ اِس طرح سے یہ متضاد قیاس آرائیاں صرف ایک مسلمان کی حیرت میں اضافہ کرتی ہیں اور اُس میں تکلیف دہ مایوسی کا باعث بنتی ہیں۔ وہ سوال کر سکتا ہے کہ کون سی تشریح درست ہے؟ کیوں مسلمان علماء ایک عام استعمال ہونے والے لفظ کی تشریح میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں؟ اُسے کس وضاحت کو قبول کرنا اور کسے رد کرنا چاہئے؟

دیگر مسلمان مُفسّرین کے خیالات کا ذِکر کرنے کے بعد الرازی نے اپنی بات کا اختتام "اللّہ بہتر جانتا ہے" کے الفاظ سے کیا ہے۔ ایسا انداز مُصنّف کے ذہن میں بےیقینی کے احساس کو ظاہر کرتا ہے۔

ثالثاً، مسیح کی موت سے متعلق آیات میں اِبہام کا بنیادی مقصد لفظ "متوفيك" کی تشریح پر پردہ ڈالنا ہے۔ اِس اِبہام کی اصل وجہ بنیادی طور پر مسلمان مُفسّرین کا متنازعہ نظریہ ہے جو اِس کے حقیقی معنٰی "موت" کو تسلیم کرنے سے مستقل طور پر اِنحراف کرتے ہیں۔ اِس تشریح پر مسلمانوں کی اکثریت کے اِتّفاق رائے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک نئی روشنی میں مصلوبیّت اور قیامت کے معاملہ کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، لیکن وہ اِسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔

ب۔ درست تشریح

مسلمان علماء لفظ "متوفيك" کی تشریح کے تعلق سے جس غیر ضروری اِبہام کو سامنے لے کر آئے ہیں، اُس کی نسبت واضح تشریح کو جاننے کےلئے اِس لفظ کی معنویت کا مطالعہ کرنا چاہئے جیسے کہ یہ قرآن میں آیا ہے۔

لفظ "متوفيك" اور اِس سے مُشتق الفاظ کا ذِکر قرآن میں تقریباً پچیس مرتبہ آیا ہے۔ [4] صرف دو مقامات کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ اِس لفظ کا مطلب موت یا رُوح کا قبض کیا جانا ہے۔ اِن دو آیات میں سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں علامتی معنٰی نیند مُراد ہے۔ اِن میں سے پہلی آیت میں لکھا ہے: "اور وہی تو ہے جو رات کو تمہاری رُوح قبض کر لیتا ہے اور جو کُچھ تم دِن کو کرتے ہو اُس سے خبر رکھتا ہے" (سورۃ الانعام 6: 60)۔ جبکہ دوسری آیت سورۃ الزمر 39: 42 ہے: "اللّہ لوگوں کے مرنے کے وقت اُن کی رُوحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں سوتے میں۔"

مسیح کی موت سے متعلق دو آیات کا مطالعہ یہ ظاہر کرے گا کہ سیاق و سباق میں اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ نتیجہ نکالا جائے کہ لفظ "متوفيك" کا کوئی مجازی معنٰی ہے۔ اِس لفظ کا مطلب "موت" ہے، قطع نظر اِس سے کہ یہ موت فطری موت تھی یا پھر مصلوبیّت کے ذریعہ۔ دوسری طرف سورۃ المائدۃ 5: 117 "جب تُو نے مُجھے دُنیا سے اُٹھا لیا تو تُو اُن کا نِگران تھا اور تُو ہر چیز سے خبردار ہے" کا جائزہ ظاہر کر دے گا کہ مسیح کے پیروکاروں پر نگاہ رکھنا خُدا کی ذمہ داری میں شامل تھا۔ اِس قرآنی متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کا اپنی موت کے بعد اپنے شاگردوں پر کوئی اختیار نہ تھا۔ تاہم، اگر اِسلامی نقطہ نظر کو قبول کر لیں کہ مسیح کی وفات نہیں ہوئی بلکہ وہ اپنے جسم اور رُوح میں آسمان پر اُٹھا لئے گئے، تب بھی وہ اُن پر نگاہ رکھنے اور اُن کے خلاف یا اُن کے حق میں گواہی دینے کے قابل تھے۔ لیکن مذکورہ آیت کے مطابق جب مسیح نے کہا "اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کی خبر رکھتا رہا" تو وہ اپنی موت کی طرف بالواسطہ اِشارہ کر رہے تھے۔ حقیقت میں وہ کہہ رہے تھے، "اب جب تُو نے موت دی ہے تو میں اُن پر نگاہ رکھنے کے قابل نہیں ہوں۔ اب سب کُچھ تیرے ہاتھ میں ہے کیونکہ تُو زندہ ابدی خُدا ہے۔" اِسی قاعدے کا اِطلاق آپ کے اِس قول پر بھی کیا جا سکتا ہے: "اور جب تک زندہ ہوں مُجھ کو نماز اور زکوٰۃ کا اِرشاد فرمایا ہے" (سورۃ مریم 19: 31)۔ اب جبکہ مسیح آسمان پر خون اور گوشت میں زندہ ہیں تو کیا اب بھی وہ زکوٰۃ ادا کر رہے ہیں جیسے اُنہیں زندگی میں زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا؟ [5]

مُستند حدیث ایک سے زائد جگہوں پر اِس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔ صحیح بُخاری میں ہم پڑھتے ہیں:

"ابنِ عباس نے بیان کیا کہ رسول اللّہ نے فرمایا، 'تم لوگ حشر میں ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بن ختنہ اٹھائے جاؤ گے۔' پھر آپ نے اِس آیت کی تلاوت کی، 'جیسا کہ ہم نے پیدا کیا تھا پہلی مرتبہ، ہم ایسے ہی لوٹائیں گے۔ یہ ہماری طرف سے ایک وعدہ ہے جس کو ہم پورا کر کے رہیں گے' (سورۃ انبیاء 21: 104)۔ پھر فرمایا: 'قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ پھر میرے اصحاب کو دائیں (جنت کی) طرف لے جایا جائے گا۔ لیکن کچھ کو بائیں (جہنم کی) طرف لے جایا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ جب آپ اِن سے جدا ہوئے تو اُسی وقت اِنہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا۔ میں اُس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم نے کہا تھا کہ جب تک میں اُن میں موجود تھا اُن کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تُو نے مجھے اٹھا لیا تو تُو ہی اُن کا نگہبان ہے اور تُو ہر چیز پر نگہبان ہے۔'"

محمد صاحب نے اُس قرآنی آیت کا حوالہ دیا جو مسیح نے سورۃ مائدۃ 5: 117 میں کہی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ محمد صاحب کی وفات ہو گئی، اور کسی بھی مسلمان نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اُنہیں آسمان کی طرف اُٹھا لیا گیا ہے۔ لہٰذا جب اُنہوں نے مذکورہ قرآنی آیت کا حوالہ دیا اور "توفيتني" کا لفظ استعمال کیا تو واقعتاً اُنہوں نے اپنی موت کی طرف اشارہ کیا نہ کہ آسمان پر اُٹھائے جانے کی طرف۔ حق کی قیمت پر اِن اصطلاحات کی تشریح کے ساتھ کھیلنا جائز نہیں ہے۔ اِس لئے لفظ موت کا فطری معنوں میں جیسے محمد صاحب پر اِطلاق ہوتا ہے ویسے ہی جناب عیسیٰ پر بھی اِطلاق ہوتا ہے۔ اِن دونوں کے مابین فرق یہ ہے کہ مسیح تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے اور وہ دوبارہ واپس آئیں گے، مرنے کےلئے نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی مر کر مُردوں میں سے جی اُٹھے ہیں، بلکہ زندوں اور مُردوں کا اِنصاف کرنے کےلئے جیسے کہ اِنجیل مُقدّس میں ہمیں اِس کا ذِکر ملتا ہے۔

قدیم عربوں کے مابین لفظ "وفات" (موت) کا عام مفہوم میں استعمال قرآنی نصوص سے واضح ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ احادیثِ نبوی بھی مُتّفِقہ طور پر اِسی اِصطلاح کو موت کے معنٰی میں استعمال کرتی ہیں۔ انس سے روایت ہے کہ رسول اللّہ نے ارشاد فرمایا کہ "تم میں سے کوئی بھی کسی مصیبت کی وجہ سے موت کی آرزو نہ کرے۔ اگر کبھی موت کی تمنّا کرنا مجبوری بن جائے تو یوں دُعا کرے: 'اے اللّہ، جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے تو مُجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے مرنا بہتر ہو تو مُجھے موت دے دے (تَوَفَّنِي)۔'" [6]

ایک اَور حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے: "ابنِ عبّاس سے روایت ہے کہ جس مرض میں رسول اللّہ کی وفات ہوئی، اُس میں علی بن ابی طالب آپ کے ہاں سے باہر آئے ۔۔۔" [7]

قرآن میں تین آیات ایسی ہیں جن میں اِصطلاح "نتوفينَّك" (ہم تمہیں وفات دے دیں) استعمال ہوئی ہے (سورۃ یونس 10: 46؛ سورۃ الرعد 13: 40؛ اور سورۃ غافر 40: 77)۔ اِن آیات میں اللّہ نے محمد صاحب کو مخاطب کیا ہے۔ اللّہ نے اپنے رسول سے وعدہ کیا کہ وہ اُس کی زندگی کے دوران بےایمانوں کو سزا دے گا، یا وہ اُن کے سامنے اپنے رسول کو اُٹھا لے گا اور اُنہیں آخرت میں سزا دی جائے گی۔ یہ اِصطلاح اپنے استعمال یا معنٰی کے لحاظ سے اُس اِصطلاح سے مختلف نہیں ہے جو مسیح کی موت کےلئے استعمال ہوئی ہے۔ یہ نہایت دلچسپ ہے کہ مسلمان مُفسّرین نے مسیح کی موت سے متعلق آیات کی تشریح کرتے ہوئے جس طرح سے اِصطلاح "متوفيك" پر تبصرہ کیا ہے ویسے اُنہوں نے اِس اِصطلاح پر تبصرہ کرنے کی زحمت نہیں کی، اور اِس اِصطلاح کا مطلب "تُجھے موت دوں گا" سمجھا ہے۔

غرض، اِصطلاح "وفات" کا سِوائے اِس کے کہ سیاق و سباق فرق معنٰی نہ بتاتا ہو عمومی معنٰی "موت" ہے جس کا زیادہ تر قرآنی آیات اور اِسلامی روایات میں اظہار کیا گیا ہے۔ مسلمان علماء نے جس مبالغہ آمیزی کا سہارا لیا ہے وہ مصلوبیّت کی تاریخی حقیقت پر پردہ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔ اِس کے باعث صرف بہت سے مسلمانوں کے ذہنوں میں اُلجھن پیدا ہوئی اور وہ حق کو جاننے سے دُور ہوئے ہیں۔

کُچھ لوگ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ کیسے ہم اِس آیت اور سورۃ النساء 4: 157 کے درمیان فرق کو سمجھ سکتے ہیں: "اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر تھے قتل کر دیا ہے۔ اور اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی پر چڑھایا بلکہ اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ اُن کے بارے میں اِختلاف کرتے ہیں وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور پیروئ ظن کے سِوا اُن کو اُس کا مُطلق علم نہیں۔ اور اُنہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا۔"

اِس آیت کا مفہوم دُھندلا ہُوا ہے۔ حتّٰی کہ دورِ جدید کے مسلمان علماء بھی راویوں اور مُفسّروں کی روایتی تشریحات کے اثر سے اپنے آپ کو آزاد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ میری دانست میں، مسئلہ اِن روایتی تشریحات کےلئے دستاویزات اور تاریخی ثبوت کی عدم موجودگی ہے۔ آئیے ہم اِن میں سے کُچھ اہم حقائق کی جانچ پڑتال کریں:

اِس آیت میں لکھا ہے کہ "اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی پر چڑھایا۔" اِس سے مسیح کی موت یا فطری موت کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اگر ہم اِس آیت کی ظاہری صورت کو دیکھیں تو یہ اِس بات کا اِنکار کرتی ہے کہ مسیح کو قتل یا مصلوب کیا گیا۔ یہ خیال اِصطلاح "متوفيك" کے بارے میں اُس تشریح کے عین مطابق ہے جس کا ہم پہلے اشارہ دے چکے ہیں، خاص کر اگر ہم مُفسّرین کی مبالغہ آمیزی سے اپنے آپ کو آزاد کریں۔ بہت سے مُفسّرین کو اپنی تمام بیان کردہ تشریحات کےلئے مسیح کی موت کی تاریخی حقیقت خطرہ محسوس ہوئی۔ مسیح کی موت بذاتِ خود اِس دعویٰ کی تردید کرتی ہے کہ آپ واپس آنے کے بعد مریں گے۔ چنانچہ قرآنی آیات مسیح کی موت کی بابت مسیحی تعلیم کی تصدیق کرتی ہیں۔ اگر مسیح واقعتاً مر گئے تھے تو وہ دوبارہ نہیں مر سکتے کیونکہ صلیب پر آپ کی موت اِنسان کے فدیہ و مخلصی کی خاطر تھی۔ آپ نے ایک ہی بار پوری طرح سے قیمت ادا کر دی۔

اِن الفاظ میں کہ "اور اُنہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا" مسیح کی مصلوبیّت پر ایک بالواسطہ زور دیا گیا ہے کیونکہ اِس میں اِس سے پہلے والے بیان کی پیروی کی گئی ہے: "اور اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی پر چڑھایا بلکہ اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی۔" اِس یقین کا کیا ذریعہ تھا کہ اُنہوں نے اُسے یقیناً قتل نہیں کیا تھا؟ ہم نے دو ٹوک الفاظ میں ثابت کیا ہے کہ جناب مسیح مصلوب ہوئے تھے۔ مصلوبیّت تو راہِ نجات کا پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرے مرحلہ کو قیامت کا تاج پہنایا گیا۔ اِس یقین کا سرچشمہ وہ قیامت ہے جس نے مسیح کے دُشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ چُنانچہ اپنے جی اُٹھنے میں، مسیح اِس طرح سے ظاہر ہوئے کہ جیسے وہ جنگ میں سے فتحمند ہو کر نکلے۔

مسیح نے فرمایا کہ اُس کی جان اُس سے چھینی نہیں گئی بلکہ اُس نے اُسے آپ ہی دیا ہے (اِنجیل بمطابق یوحنّا 10: 17۔ 18)۔ اِس طرح سے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے مسیح کو مار ڈالا، حقیقت نہیں تھا کیونکہ آپ نے اپنا آپ خود اپنی مرضی سے قربان ہونے کےلئے دے دیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ آپ کو چھونے یا نقصان پہنچانے کے قابل نہ ہوتے۔ شریر لوگوں کے سامنے یہ ظاہر ہُوا ہو گا کہ اُنہوں نے اپنی طاقت سے مسیح کو قتل کیا، لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا تھا، کیونکہ مسیح نے اپنی جان اپنی مرضی سے دی تھی۔

یہاں مسیح کے قتل یا مصلوبیّت کی نفی نہیں کی گئی بلکہ یہ مسیح کے دُشمنوں کے مقاصد کی تکمیل کا اِنکار ہے۔ اُنہوں نے سوچا کہ اُنہوں نے ہمیشہ کےلئے اُس سے چھٹکارا حاصل کر لیا، لیکن جو کُچھ ہُوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ مسیحیت کو فروغ حاصل ہُوا اور وہ اُس دور میں بھی خوب پھیلی جب یہ سازشی منصوبہ بنانے والے زندہ تھے۔ قیامت المسیح اور مسیحیت کا پھیلاؤ وہ تیر تھے جنہوں نے اُنہیں بری طرح سے گھایل کیا۔

یہ الفاظ "اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی" ایسے مفہوم کا حامل ہے جس کی ہمیں اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرنی چاہئے۔ لازم ہے کہ ہم اِس کا دو سطحوں یعنی قرآنی سطح اور تشریحی سطح پر جائزہ لیں، تا کہ اِس کے فکری اور مذہبی تناظر میں اِس کے معانی کو سمجھ سکیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اِس آیت کا مقصد یہودیوں کی سازش کو بےنقاب کرنا اور الٰہی اِرادہ کے سامنے اُن کی بےبسی کو ظاہر کرنا تھا، یہ اِلٰہی اِرادہ اُن کی مرضی کے برعکس تھا۔ سورۃ آل عمران 3: 54 میں لکھا ہے: "اور وہ (یہود) چال چلے اور خُدا بھی چال چلا، اور خُدا خوب چال چلنے والا ہے۔" یہ آیت مسیح کے بارے میں یہودیوں کے رویّہ کو عیاں کرتی ہے۔ یہ اُس کے اِن الفاظ سے پہلے آئی ہے: "اُس وقت [8] اللّہ نے فرمایا، اے عیسیٰ بیشک میں تُجھے موت دوں گا اور تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا" (سورۃ آل عمران 3: 55)۔ لفظ "إذ" (تب) ایک حرفِ ربط ہے جو دونوں آیات کو باہم ملاتا ہے۔ اپنے اختصار کے باوجود یہ الٰہی مرضی اور مسیح کے دشمنوں کی مرضی کے درمیان غیر مساوی کشمکش کو ظاہر کرتی ہیں۔ پروفیسر حداد اپنی انتہائی بیش قدر کتاب "القرآن والمسيحية" میں بیان کرتے ہیں: "متن کی وضاحت اور اِس کے شواہد اِسے مسیحیوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی باقاعدہ شہادت بناتے ہیں کہ یہودیوں نے مسیح کے خلاف تدبیر کی، اُنہیں قتل کیا اور صلیب دی، لیکن اُن کے خلاف خُدا کی تدبیر اُن کی اپنی تدبیر سے بہتر تھی کیونکہ اُس نے عیسیٰ کو قتل اور مصلوب ہونے کے بعد زندہ کیا۔" [9]

یہودیوں نے مسیح کے خلاف سازش کی اور اُنہیں ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا، اور اُن کا منصوبہ تھوڑی دیر کےلئے کامیاب رہا۔ مگر خُدا کی چال اُن کی چال سے بہتر تھی کیونکہ مسیح تیسرے دِن جی اُٹھے اور پھر چالیس دِن کے بعد آسمان کی طرف صعود کر گئے۔ یہودیوں کے خلاف خُدا کی چال یہ نہیں تھی کہ مسیح کو اُن کے ہاتھ سے چُھڑایا جائے اور اُنہیں اپنے پاس اُٹھا لیا جائے۔ اِس طرح کی تشریح تاریخی حقائق، منطقی دلائل اور قرآنی ثبوت سے متصادم ہے جن سے ہم نے ثبوت پیش کئے ہیں۔ خُدا کا منصوبہ تو مسیح کو جی اُٹھانا تھا۔ یوں خُدا نے اُن کے خلاف چال چلی اور اُن کے منصوبہ کو ناکام بنایا، اور "اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی" کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ مسیح کو قتل اور مصلوب کرنے سے اُنہوں نے سوچا کہ اُنہوں نے اُس سے ہمیشہ کےلئے چُھٹکارا پا لیا تھا۔ مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا نہ صرف یہودیوں کے سازش کے خلاف ایک فتح تھی، بلکہ یہ موت پر بھی فتح تھی۔

ابو موسیٰ الحریری نے اپنی کتاب "قس و نبی" (ایک کاہن اور ایک نبی) میں ابیونی فرقہ کی بدعتی تعلیم کا ذِکر کیا ہے جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ: "مسیح اپنی مرضی سے ایک شبیہ سے دوسری شبیہ میں بدل گیا۔ اُس نے اپنی شبیہ شمعون پر ڈال دی جو اُس کی جگہ مصلوب ہُوا، جبکہ وہ زندہ آسمان پر اپنے بھیجنے والے کے پاس چلا گیا، اور اُن سب کے خلاف چال چلی جنہوں نے اُسے گرفتار کرنے کی چال چلی، کیونکہ وہ سب پر پوشیدہ تھا۔" [10]

اِس طرح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تیسرے دِن مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا، جیسا کہ مسیح نے اپنا بارے میں اشارہ دیا تھا، اور جیسے کہ نبوّتوں میں لکھا تھا، یہودیوں کی سازشوں اور منصوبوں کے خلاف ایک مہلک ضرب تھی۔

تشریحی نقطہ نظر سے "اُن کو صورت معلوم ہوئی" کے الفاظ "اُس کی طرح دِکھائی دیا" بن گئے۔ اُس وقت سے ہی مسلمان مُفسّرین کی توجہ کا مرکز شبیہ کی شناخت رہی ہے۔ قرآنی متن اور اُن مُفسّرین کی تشریحوں کے درمیان یہ بنیادی فرق ہے جن کے پاس سِوائے بدعات کا حوالہ دینے کے کوئی اَور ماخذ نہیں ہے۔ اُنہوں نے مسیح اور اُس کی مصلوبیّت کی بابت اپنے تصوّر کی وضاحت کےلئے دوقیّت، ابیونیّت اور غناسطیّت کی تحریروں کا استعمال کیا۔ اُنہوں نے یہ معلومات اُن افراد سے لیں جو کبھی اِن بدعات کے پیروکار تھے اور مسلمان ہو گئے تھے یا پھر اِن بدعات کے پیروکاروں سے براہِ راست لیں۔ مسلمانوں کے پاس دیگر تاریخی، آثارِ قدیمہ کی یا مذہبی دستاویزات نہیں تھیں جن پر وہ اِن آیات کی اپنی تشریح کےلئے بھروسا کر سکیں۔ یہ کھوکھلا دعویٰ نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس اِس نقطہ نظر کی تصدیق کےلئے کافی اِسلامی ذرائع موجود ہیں۔

غالباً اِس کی ایک نمایاں مثال وهب بن منبه (646 ء ۔ 733 ء) نے بیان کی ہے، جو اہلِ کتاب اور تابعین کی بابت اپنے علم کےلئے مشہور تھے۔ [11] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وهب کی معلومات مسیحی بدعتی فرقوں، اپاکرفا کی کتابوں اور تالمود سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ کتابِ مُقدّس کی بابت وهب کا علم یقیناً سطحی نوعیّت کا تھا۔ وهب نے اپنی روایات میں اِن فرقوں کی آراء اور معلومات پر بہت زیادہ اِنحصار کیا ہے، اور یہ بائبلی متون اور بدعتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے علماء کی قیاس آرائیوں کا مجموعہ ہیں۔ عرب مؤرخین نے انبیاء، اقوام اور بنی اِسرائیل کے واقعات کے تعلق سے اِس کا بہت زیادہ حوالہ دیا ہے۔ الثعلبي نے اِن کے حوالے سے جن معلومات کا ذِکر کیا ہے اُن میں اُس تاریکی کا بھی ذِکر ہے جو مسیح کی مصلوبیّت کے وقت زمین پر چھا گئی تھی۔ وھب نے بیان کیا:

"اُنہوں نے اُسے (عیسیٰ کو) پکڑ کر رسی سے باندھ دیا اور گھسیٹتے ہوئے کہا: 'تم تو مُردوں کو زندہ کرتے تھے، اور اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا دیتے تھے، تو اِس رسی سے خود کو کیوں نہیں چھڑا رہے؟' اُنہوں نے اُن پر تھوکا اور سر پر کانٹے رکھ دیئے۔ پھر اُنہوں نے لکڑی نصب کی کہ اُس پر اُنہیں مصلوب کیا جائے۔ اور جب وہ اُنہیں وہاں لے کر آئے تو زمین تاریک ہو گئی اور اللّہ نے اپنے فرشتے بھیجے اور وہ اُن کے اور عیسیٰ کے درمیان آ گئے اور پھر عیسیٰ کی شبیہ اُس پر ڈال دی گئی جس نے اُن (یہودیوں) کو عیسیٰ تک پہنچایا تھا جس کا نام یہوداہ تھا، اُنہوں نے اُسے اُن کی جگہ مصلوب کیا اور یہ سمجھے کہ وہ عیسیٰ ہے۔ اللّہ نے عیسیٰ کو تین گھنٹے کےلئے موت دی اور پھر آسمان کی طرف اُٹھا لیا۔ اللّہ تعالیٰ کا قول ہے: 'بیشک میں تُجھے موت دوں گا اور تُجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا اور تُجھے کافروں سے پاک کر دوں گا۔' جب عیسیٰ سے مشابہت والے کو مصلوب کیا گیا تو عیسیٰ کی والدہ مریم اور ایک اَور خاتون جس کےلئے عیسیٰ نے دُعا کی تھی اور اُس کے جنون سے شفا دی تھی، مصلوب شخص کے پاس آ کر ماتم کرنے لگیں۔ تب عیسیٰ نے اُن کے قریب آ کر اُن سے پوچھا 'تم کیوں رو رہے ہو؟' اُنہوں نے جواب دیا: 'آپ پر۔' آپ نے کہا: 'اللّہ تعالیٰ نے مُجھے اُٹھا لیا ہے اور میرے ساتھ اچھے کے سِوا کُچھ نہیں ہُوا۔ اور یہ آدمی اُنہیں (میرے جیسا) ظاہر ہُوا۔'" [12]

نیز وھب ابن منبہ نے کہا: "میں نے بانوے کتابیں دیکھی ہیں جو سب آسمانی ہیں۔ اُن میں سے بہتّر کلیسیاؤں میں اور لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں، اور بیس صرف چند لوگوں کے پاس ہیں۔" [13] بیشک اِن میں سے چھیاسٹھ کتابیں بائبل مُقدّس کی کتابیں تھیں، لیکن باقی اپاکرفا اور غناسطی کتابیں تھیں، جن سے یوں لگتا ہے کہ وھب اچھی طرح سے واقف تھا۔ یہ کتابیں وھب کی معلومات کی ماخذ تھیں جنہیں اُس نے کُچھ قرآنی آیات کی تشریح کرنے کےلئے استعمال کیا۔

اپنی مشہور تفسیر میں الطبری نے وھب کے حوالہ سے ایسے ہی ایک قصّہ کا ذِکر کیا ہے جس کے متن میں معمولی سا فرق ہے جس میں اُس نے دعویٰ کیا ہے کہ عیسیٰ دونوں خواتین کی آمد سے پہلے سات گھنٹے وہیں رہے۔

اگرچہ صلیب کا مسئلہ مسیحیّت اور اِسلام کے مابین نمایاں نقطہِ اِختلاف ہے، تاہم یہ مقامِ حیرت ہے کہ قرآنی متن کی وضاحت کےلئے شبیہ کے تعلق سے ایک بھی مستند نبوّتی روایت نہیں ہے۔ ہم تک پہنچنے والی تمام خبریں اُن مُفسّرین اور راویوں کے دعوؤں پر مبنی ہیں جو عجیب اور حیرت انگیز باتوں سے مسحور تھے۔ اگر اِن قِصّوں کے مصدر کا سُراغ لگایا جاتا تو یہ سابقہ اقوام کے افسانوں یا اُن تحریروں میں ملتا جو اُس دور میں عام تھیں۔ غالباً اِس حقیقت کے بیان کےلئے سب سے بہترین کتاب ڈبلیو سینٹ کلیئر ٹِسڈل کی کتاب "ینابیع الاسلام" ہے، جو بائبلی واقعات سے متعلق مُفسّروں اور راویوں کے زیادہ تر قِصّوں اور تفسیروں کے اصل ماخذوں کو ڈھونڈنے میں کامیاب رہی۔ تو پھر حدیثِ نبوی میں اِن مبہم آیات کی وضاحت کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ ہم جانتے ہیں کہ سیرت اور احادیث کی کتابوں میں اِن آیات کی نسبت واضح آیات کی تفسیر اور شرح موجود ہے جو محمد صاحب نے اپنے اصحاب تک پہنچائی۔

ہم اِن شواہد سے کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟

اوّلاً، ظہورِ اِسلام کے وقت مسیحی دین کے جن بدعتی فرقوں کو فروغ ملا، اُن کا مُسلمان مُفسّرین کی آراء پر گہرا اثر تھا، جنہوں نے یہودی اور مسیحی عقائد کی بابت اپنی معلومات اُن علماء سے حاصل کیں جن کا علم اِن ادیان کے بدعتی فرقوں تک محدود تھا۔ یہ بڑا واضح ہے کہ وھب دوقیّت، ابیونیّت اور غناسطیّت کی تعلیمات اور عقائد سے اچھی طرح سے واقف تھا۔

ثانیاً، کُچھ راویوں نے اِسلام قبول کیا اور اپنے ساتھ اپنے پہلے کے عقائد کے بیج لے کر گئے، مثلاً وھب ابن منبہ۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے اُن عقائد کو اِسلامی تعلیمات کے ساتھ مطابقت دینے کی کوشش کی۔ وھب کی روایات میں جن واقعات کا ذِکر ہے وہ مسیحی عقائد کے نزدیک ترین معلوم ہوتے ہیں۔ غالباً اُس نے ایک ایسے شعوری اور مفاہمت آمیز عمل کو سرانجام دینے کی کوشش کی جس کا مقصد متضاد نقطہ نظر کے مابین وسیع فرق کو ختم کرنا تھا۔ [14]

ثالثاً، وھب کی روایت میں تاریکی کی بابت اِنجیلی واقعہ کی صداقت کی ایک تاریخی تصدیق ملتی ہے جو براہ راست رفع کے نقطہ نظر سے متصادم ہے جس کا بیان قرآن میں ملتا ہے۔ صحیح مسلم اور صحیح بُخاری دونوں میں درج ایک مُستند حدیث نبوی میں لکھا ہے: "حضرت عبد اللّہ سے روایت ہے۔ اُنہوں نے کہا: 'میں گویا نبی کریم کو اِس وقت دیکھ رہا ہوں۔ آپ انبیاء میں سے کسی ایک نبی کا حال بیان کر رہے تھے کہ اُنہیں اُن کی قوم نے اِس قدر زد و کوب کیا کہ اُنہیں خون آلود کر دیا مگر وہ نبی اپنے چہرے سے خون صاف کرتے جاتے اور کہتے جاتے تھے: اے اللّہ، میری قوم کو بخش دے، کیونکہ یہ لوگ جانتے نہیں۔'" [15]

یہ الفاظ کس نبی کے ہیں؟ کس موقع پر یہ الفاظ بولے گئے تھے؟ بائبل مُقدّس کی تحقیق کرنے والے فرد کو پرانے عہدنامہ میں ایسا نبی کبھی نہیں ملے گا۔ لیکن یقیناً اُسے اِنجیل مُقدّس میں مسیح کی اہانت اور اذیت ناک تکلیف کی بابت کافی مواد ملے گا۔ اِس دُکھ کا سامنا مسیح نے اپنے لوگوں کے ہاتھوں اور اپنی مصلوبیّت میں کیا۔ صلیب پر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں آپ نے کہا: "اے باپ، اِن کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں" (اِنجیل بمطابق لوقا 23: 34)۔

یہ مسیح کی زندگی کے انتہائی تکلیف دہ لمحہ میں صلیب پر کی جانے والی دُعا کے الفاظ ہیں۔ درحقیقت، یہ حدیث بائبل مُقدّس کی صداقت کا ایک اَور بالواسطہ ثبوت ہے۔ یہ براہ راست اُٹھانے کے دعویٰ سے بھی متصادم ہے، جو مسیح کی تکالیف کے کسی بھی ذِکر سے قطعی طور پر مبرا ہے، خواہ قرآن میں ہو یا مُفسّرین کی تاویلوں میں۔

جہاں تک سورۃ مریم کی آیات پندرہ اور تینتیس کی بات ہے تو یحییٰ اور عیسیٰ کے پیدا ہونے، مرنے اور جی اُٹھنے کے دِن سلامتی کا ذِکر کرنا میری رائے میں دو وجوہات کی بناء پر مسیح کی موت کا مزید ثبوت ہے:

اولاً، سب مسلمان علماء اِس بات پر مُتّفِق ہیں کہ یحییٰ کی وفات ہوئی اور آیت "اور سلامتی ہے اُس پر جس دِن پیدا ہُوا اور جس دِن مرے گا اور جس دِن زندہ اُٹھایا جائے گا" (سورۃ مریم 19: 15) جو یحییٰ کے بارے میں کہی گئی، لسانی بناوٹ کے اعتبار سے اُس آیت جیسی ہی ہے جو جناب عیسیٰ نے اپنے بارے میں کہی: "اور سلامتی مُجھ پر جس دِن میں پیدا ہُوا اور جس دِن مروں گا اور جس دِن زندہ اُٹھایا جاؤں گا" (سورۃ مریم 19: 33)۔ تو پھر مسلمان مُفسّرین عیسیٰ پر وہی تشریح لاگو کیوں نہیں کرتے جو وہ یحییٰ پر کرتے ہیں؟ کیوں وہ تعصب سے کام لیتے ہوئے اِن آیات کی تفسیر غلط کرتے ہیں؟ وہ یہ دعویٰ کیوں کرتے ہیں کہ پہلی آیت واقعی یحییٰ کی موت کی طرف اِشارہ کرتی ہے، لیکن دوسری آیت میں لفظ "أموت" مسیح کی آمدِ ثانی کے بعد مستقبل کی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے؟

ثانیاً، تاریخی دستاویزات، قرآنی ثبوت اور منطقی وجوہات سے جن کو مستند ذرائع اور حوالہ جات سے نقل کیا گیا ہے، یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت میں لفظ "أموت" مستقبل قریب میں مسیح کی موت کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، ابنِ عباس جو مُفسّر قرآن کے طور پر جانے جاتے تھے اور دیگر مُفسّرین نے جو اُس وقت کی زبان کے زیادہ نزدیکی عرصہ سے تعلق رکھتے تھے، سمجھ گئے کہ وفات اور متوفيك کے اظہارات مسیح کی مستقبل قریب کی موت کے اشارہ کرتے ہیں، قطع نظر اِس سے کہ وہ موت تین دِن کی تھی یا سات گھنٹوں کی۔

جامعہ الازہر کے سابق ناظم ڈاکٹر محمود شلتوت نے کہا: "اِس آیت میں 'توفيتني' کا لفظ عام موت کے معنٰی رکھتا ہے۔ ۔۔۔ یہاں اِس تشریح کی کوئی راہ نہیں ہے کہ مسیح کے آسمان پر سے واپس آنے کے بعد اُن کی 'موت' ہو گی، کیونکہ یہ آیت بڑے واضح طور پر عیسیٰ کے تعلق کو اپنے ہی زمانے کے اپنے لوگوں کے ساتھ محدود کرتی ہے، اور یہ تعلق اُس وقت رہنے والے لوگوں کے ساتھ نہیں ہے جب مسیح کی آمد ہو گی۔ ۔۔۔ اِس موضوع کی طرف اِشارہ کرنے والی تمام آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللّہ نے مسیح سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُن کی زندگی کی مُدّت پوری کرے گا اور پِھر اُنہیں اپنے پاس اُٹھا لے گا۔" [16]

یا جیسے پارینڈر نے بتایا ہے کہ "قرآن میں سورۃ مریم کی آیت 33 کی گرامر میں مستقبل کے معنٰی شامل نہیں ہیں جو آمدِ ثانی کے بعد موت تجویز کرتے ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس کا آسان مطلب اُن کی زمین پر موجودہ اِنسانی زندگی کے اختتام پر اُن کی جسمانی موت ہے۔" [17]

دورِ جدید کا ایک اَور مسلمان مُصنّف کہتا ہے کہ سورۃ آل عمران 3: 55 میں اللّہ عیسیٰ سے مخاطب ہے اور کہتا ہے، "بیشک میں ہی وہی ہوں جو تمہیں موت کی طرف بلاتا ہوں" یا "یہ میں ہوں جو تُجھے موت دیتا ہوں۔" [18] اِس قرآنی فقرے کی بناوٹ "اسم الفاعل میں ہے جس کے ساتھ ضمیر متصل ہے۔" [19]

Neal Robinson (نیل رابنسن) اپنی کتاب "Christ in Islam and Christianity" میں بیان کرتا ہے: "محمد کی بابت تین آیات اور مسیح کی بابت دو آیات، وہ آیات ہیں جہاں فعل معروف (active voice) کا استعمال ہُوا ہے اور خُدا فاعل ہے، اور اُس کے نبیوں میں سے ایک مفعول ہے۔ علاوہ ازیں، دونوں طرح کی آیات میں اِنسان کے اعمال پر خُدا کے گواہ ہونے اور اِنسان کے اُس کے پاس عدالت کےلئے لوٹ جانے پر زور ہے۔" [20]

اب ہمارے لئے اِن قرآنی الفاظ کی جانچ کرنا ضروری ہے کہ "اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی۔" ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ "کس کو؟" بلاشبہ قرآنی متن میں اِس سے مُراد وہ یہودی اور رومی ہیں جنہوں نے مسیح کو مصلوب کیا۔ لیکن مسیح کے شاگردوں، اُن کی والدہ اور باقی پیروکاروں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا اُنہوں نے واقعی دھوکا کھایا تھا اور اُنہیں بھی اُن کی سی صورت معلوم ہوئی؟ قرآن اِس بارے میں خاموش ہے اور اُن کا تذکرہ نہیں کرتا، کیونکہ یہ واضح ہے کہ وہ اُن لوگوں میں نہیں تھے جنہوں نے دھوکا کھایا۔ باالفاظ دیگر، جو شاگرد وہاں موجود تھے وہ اِس جال میں نہ پھنسے۔ اُنہیں یقین تھا کہ مصلوب ہونے والا کوئی دوسرا نہیں بلکہ مسیح تھا۔ غالباً اِس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ تمام شاگردوں کی تعلیمات اور رُوح القدس کے الہام سے لکھے گئے اُن کے خطوط مسیح کی موت اور اُس کے جی اُٹھنے پر مرکوز ہیں۔ اِس کے ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی تاریخی یا دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ یہودیوں اور رومیوں کو مصلوب ہونے والے کی شناخت کے بارے میں کوئی شک کا شائبہ بھی تھا۔ یہوداہ نے خودکشی کی اور جب اُس کی لاش ملی تو اُسے کمہار کے کھیت میں دفن کر دیا گیا۔ مسیح کی مصلوبیّت کے دوران تمام زمین پر اندھیرا چھا گیا نہ کہ آپ کی مصلوبیّت سے پہلے جیسا کہ کُچھ مسلمان راوی دعویٰ کرتے ہیں۔ جب مسیح کو مصلوب کیا گیا تو اُن کے چند شاگرد اور اُن کی والدہ مریم وہاں موجود تھیں۔ جو مسیح کو اچھی طرح جانتے تھے اُنہوں نے آپ کی لاش کو مسالہ دار سوتی کپڑے سے لپیٹا۔ رومی سپاہی جو مسیح کی مصلوبیّت کی نگرانی کرتے تھے اُنہوں نے آپ کے کپڑے آپس میں بانٹے اور آپ کو بھالے سے چھیدا، اور مصلوب ہونے والی شناخت پر سوال نہیں اُٹھایا۔ اُس تاریکی میں مصلوبیّت کو دیکھنے والوں کو جب زلزلے کی دہشت نے آ دبایا تو صوبہ دار نے جو مسیح کے سامنے کھڑا تھا کہا: "بیشک یہ آدمی خُدا کا بیٹا تھا۔" مزید برآں، خالی قبر مصلوب ہونے والے فرد کی حقیقی شخصیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اگر مصلوب کیا گیا فرد مسیح کے علاوہ کوئی اَور ہوتا تو کیا وہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے قابل ہوتا اور پھر چالیس دِن تک اپنے شاگردوں اور پیروکاروں پر ظاہر ہوتا؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ مستند تاریخی دستاویزات اِس دعویٰ کی سختی سے تردید کرتی ہیں کہ مصلوب ہونے والا فرد شبیہ تھا۔ اب شکوک و شبہات رکھنے والوں کے پاس کیا عُذر باقی ہے؟

سورۃ النساء 4: 157 کے آخری حصہ میں لکھا ہے: "اور وہ جو اِس کے بارے میں اِختلاف کر رہے ہیں ضرور اِس کی طرف سے شُبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ اُنہیں اِس کی کچھ بھی خبر نہیں۔ مگر پیروئی ظن کے سِوا اُن کو اِس کا مطلق علم نہیں، اور بیشک اُنہیں نے اُس کو قتل نہیں کیا۔"

یہ حوالہ اِبہام سے پُر ہے۔ اگر اِس متن کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ واقعہ کے عمومی سیاق و سباق کے مطابق نہیں ہے۔ ہم نے گذشتہ سطور میں بتایا ہے کہ مسیح کے شاگرد شبیہ کے جال میں نہ پھنسے، اور اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ رومی اور یہودی مصلوب ہونے والے فرد کی شناخت کے بارے میں غیریقینی تھے۔ تو پھر وہ کون تھے جنہیں "کُچھ خبر" نہیں تھی؟

اِس کا جواب سادہ سا ہے: جن کو خبر نہیں تھی وہ مختلف مسیحی فرقے تھے جو تمام جزیرہ نما عرب میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ درست ہے کہ قرآن مسیح کے مصلوب ہونے کے بارے میں بات کر رہا تھا، لیکن اِس کے ساتھ ہی یہ اُس زمانے کی بدعتی مذہبی تحریکوں اور الہیاتی رُجحانات کی عکاسی کر رہا تھا۔ دوقیّت، ابیونیّت اور دیگر بدعتی فرقے جنہوں نے شبیہ کا نظریہ سکھایا اور اُس کی تبلیغ کی، بائبلی مسیحیت کے ساتھ مسلسل اختلاف میں تھے جس نے مسیح کے مصلوب ہونے کی حقیقت پر زور دیا اور اور شبیہ کے افسانے کا جو کتابِ مُقدّس کے تعلیم سے متصادم ہے یقین نہ کیا۔ [21]

یہ واضح ہے کہ قرآن نے بدعتی فرقوں کی تعلیمات کی پُرزور تائید کی ہے اور بائبلی مسیحیت کے خلاف اُن کی جدوجہد میں اُن کا ساتھ دیا ہے۔ اِس مصنف کی رائے میں اِس قرآنی رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ محمد صاحب صرف اِن فرقوں کے عقائد سے واقف تھے، جس نے اُن کے ذہن اور مذہبی رجحانات پر نمایاں اثر چھوڑا۔ اِس کے علاوہ، اِن فرقوں کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد نے اِسلام قبول کیا کیونکہ زیادہ تر معاملات میں اُن کے عقائد قرآنی تعلیمات سے متصادم نہیں ہیں۔ مسیحیوں کے خلاف قراٰنی متضاد رویّوں کو اِس دعویٰ کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ جن کی تعریف کی گئی ہے وہ مسیحیوں میں شبیہ کے نظریہ کے ماننے والے تھے، لیکن جن پر ملامت کی گئی ہے اور جن پر حملہ کیا گیا ہے وہ اہلِ اِنجیل تھے جو مسیح کی مصلوبیّت اور موت پر ایمان رکھتے تھے۔ غالباً نجران کے مسیحیوں کے ساتھ محمد صاحب کا مکالمہ اور مسیح کی الوہیت کے بارے میں اُن سے اختلاف اِس حقیقت کا روشن ثبوت ہے۔

یہ کوئی راز نہیں ہے کہ اہلِ کتاب میں سے کُچھ تورات کو عبرانی میں پڑھنے کے عادی تھے اور اہلِ اِسلام کے سامنے عربی میں اُس کی تفسیر کرتے تھے۔ جہاں تک محمد صاحب کے موقف کی بات ہے یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔ بعض اوقات ہم مسلمانوں کو اہلِ کتاب سے پوچھنے کی اجازت دیتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور بعض اوقات اِس پر پابندی عائد ہے۔ [22] تاہم، محمد صاحب خود وقتاً فوقتاً مسیحیوں اور یہودیوں کے ساتھ مذہبی گفتگو کی نشستیں منعقد کرتے تھے، یہاں تک کہ یثرب میں یہودی عبادت گاہ میں بھی گئے۔ [23] سیرت کی اسلامی کتابیں سے اِس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ محمد صاحب کا مکّہ کی ایک مشہور مسیحی شخصیت ورقہ بن نوفل کے ساتھ گہرا تعلق تھا [24] جو محمد صاحب کی پہلی زوجہ بی بی خدیجہ کے چچازاد بھائی تھے۔ سیرت ابنِ ہشام میں یہ مرقوم ہے کہ محمد صاحب ورقہ بن نوفل سے کم عمری سے واقف تھے۔ [25] ورقہ ہی نے آپ کا خدیجہ سے عقد کروایا۔ [26] مزید برآں، جب محمد صاحب نے خدیجہ سے اپنا رویا یا تجربہ بیان کیا تو اُنہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ کے پاس مشورہ کی غرض سے لے گئیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ محمد صاحب جنہوں نے مکّہ کے بتوں کی پرستش کرنے سے انکار کر دیا تھا، ورقہ میں اپنے شکوک و شبہات اور روحانی تجربہ بتانے کےلئے بہترین مشیر پایا۔ جب محمد صاحب نے خدیجہ سے شادی کی تو آپ کی عمر پچیس برس تھی۔ یوں لگتا ہے کہ اگلے پندرہ سالوں کے دوران اور نبوت کے دعویٰ سے پہلے محمد صاحب لگاتار سچ کی تلاش و تحقیق میں تھے۔ اُنہیں ورقہ سے بہتر اَور کون سا شخص مل سکتا تھا جو عبرانی اور عربی دونوں زبانوں اور توحید سے بخوبی واقف تھا؟ اُس نے اِنجیل کا عبرانی حروف میں ترجمہ کیا جسے ابیونی فرقہ نے عربی میں استعمال کیا۔ [27] اِس کے علاوہ کچھ علماء کا خیال ہے کہ ورقہ دراصل مکہ کا ایک بشپ تھا اور اُس کا تعلق ابیونی فرقہ سے تھا۔ [28] اگر یہ بات سچ ہے (اور ٹھوس اِشارے موجود ہیں کہ یہ دعویٰ سچ ہے) تو ورقہ کے مذہبی رجحانات نے محمد صاحب کے مسیح، صلیب اور تجسم کے تصورات پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ [29]

محمد صاحب کے اصحاب میں کئی سابقہ یہودی اور نصاریٰ تھے جنہوں نے کسی نے کسی وجہ سے اِسلام قبول کر لیا تھا، مثلاً عبد الله بن سلام، تميم الداري، عبد الله بن صوريا اور بلال الفارسي جنہوں نے بت پرستی چھوڑ کر پہلے یہودیت پھر مسیحیت اور پھر اِسلام کو قبول کیا۔ اِس کے علاوہ محمد صاحب کی کئی بیویاں اور کنیزیں مسیحی یا یہودی تھیں جنہوں نے یقیناً اُن تک اہلِ کتاب اور اُن کے نبیوں کی بہت سی خبریں پہنچائی ہوں گی۔

کُچھ صحابہ نے اہلِ کتاب سے بغیر کسی بصیرت کے اُن مبہم قصّوں کو مستعار لیا جو عوام میں مشہور تھے۔ اِن صحابہ میں عبد الله بن عباس مُفسّرِ قرآن، عبد الله بن عمرو بن عاص، اور أبو هريرة شامل تھے۔ اُنہوں نے جو معلومات منتقل کیں اُن میں سے زیادہ تر کی بائبل مُقدّس میں کوئی بنیاد نہیں تھی۔

ہمارے پاس موجود کُچھ روایات سے پتا چلتا ہے کہ محمد صاحب نے اکثر اپنے پیروکاروں کو تورات یا اِنجیل شریف پڑھنے سے منع نہیں کیا۔ تاہم، اِن روایات میں یہ تفصیل نہیں بتائی گئی کہ توریت اور اِنجیل شریف کے کِن حصّوں کو پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے اور اُس کی کیا وجوہات ہیں۔ کُچھ روایات ایسی بھی ہیں جن سے اِس بات کی نفی ہوتی ہے کہ محمد صاحب نے مسلمانوں کو قرآن کے علاوہ کسی اَور دین کی کتاب پڑھنے کی اِجازت دی۔ [30]

صحیح بخاری میں امام بخاری نے عبد الله بن عمرو کی سند کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ "نبی کریم نے فرمایا، میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ، اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، اِس میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔" [31]

حافظ الذهبي نے ایک حدیث کا حوالہ دیا جس میں نے اُنہوں نے بیان کیا کہ عبد الله بن سلام نبی کے پاس آئے اور اُن سے کہا: میں نے (گذشتہ رات) تورات اور قرآن کی تلاوت کی ہے۔ آپ نے اُنہیں جواب دیا: ایک رات اِسے پڑھو اور دوسری رات اُسے پڑھو۔ [32]

ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ کا ذِکر صحیح مسلم میں موجود ہے۔ فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ نمازِ جمعہ کے بعد رسول اللّہ نے لوگوں کو ٹھہرنے کےلئے کہا اور پھر فرمایا "بخُدا میں نے تم کو نہ تو مال وغیرہ کی تقسیم کےلئے جمع کیا ہے نہ کسی جہاد کی تیاری کےلئے، بس صرف اِس بات کےلئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری پہلے نصرانی تھا، وہ آیا اور مسلمان ہو گیا اور مُجھ سے ایک قصّہ بیان کرتا ہے کہ جس سے تم کو میرے اُس بیان کی تصدیق ہو جائے گی جو میں نے کبھی دجال کے متعلق تمہارے سامنے ذِکر کیا تھا۔" [33]

اِس حدیث میں محمد صاحب نے حیوان کے بارے میں جو اِشارہ دیا ہے میری رائے میں یہ قدیم قِصّوں سے ماخوذ ہے۔ اِس روایت کے مطابق نبیِ اسلام نے یہ بیان کیا کہ تمیم داری نے اُن سے ذِکر کیا کہ وہ ایک بڑی کشتی میں سوار ہُوا جس میں قبیلہ لخم اور جذام کے تیس لوگ بھی تھے۔ یہ ایک ماہ تک سمندری طوفان میں پھنسے رہے اور آخرکار ایک جزیرے میں اُتر گئے جہاں اُن کی نظر جانور کی شکل کی ایک چیز پر پڑی جس کے پورے جسم پر بال ہی بال تھے۔ جب اُنہوں نے اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا تو اُس نے کہا میں جساسہ ہوں اور اُن سے خانقاہ میں ایک شخص کے پاس جانے کےلئے کہا۔ کہنے لگے کہ جب اُس نے اُس آدمی کا ذِکر کیا تو ہم کو ڈر لگا کہ کہیں کوئی شیطان نہ ہو۔ ہم لپک کر خانقاہ میں پہنچے تو وہاں ایک بڑا قوی ہیکل شخص دیکھا جس کے ہاتھ گردن سے ملا کر اور اُس کے پیر گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے نہایت مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھے۔ اُن ملاحوں اور زنجیروں سے جکڑے ہوئے آدمی کے درمیان ایک طویل مکالمہ ہوتا ہے جس میں اُنہیں پتا چلتا ہے کہ وہ ایک آنکھ والا دجال جھوٹا مسیحا ہے۔

محمد صاحب نے جس قصّہ کا حوالہ دیا ہے وہ غالباً مکاشفہ 13 باب میں بیان کردہ حیوان کے واقعہ کی مسخ شدہ صورت ہے۔ غالباً تمیم کی گواہی کا حوالہ اہلِ کتاب کی حمایت حاصل کرنے میں محمد صاحب کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔

اِن روایات کا ایک بڑا حصہ قرآنی آیات کی تفسیر اور تشریح پر مسیحی اور یہودی قِصّوں کے پڑنے والے گہرے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ تقابلِ ادیان کا مطالعہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ کیسے قرآنی معلومات کا بڑا حصہ اپاکرفا کی کتب اور مسیحی اور یہودی لوک داستانوں سے متاثر ہے۔ [34] پھر اِس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مصلوبیّت کی بابت اِسلامی تفسیر اِن ناقابل یقین قِصّوں نے مسخ کر دی۔

لیکن اِس سے پہلے کہ میں اِس آخری باب میں اپنی بات مکمل کروں، میں دو قرآنی آیات کا ذِکر کرنا چاہوں گا جو میری دانست میں لفظ "متوفيك" کو مزید واضح کرتی ہیں:

"مسیح ابن مریم تو صرف رسول تھے، اُن سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں" (سورۃ المائدۃ 5: 75)

"اور محمد تو ایک رسول ہیں۔ اُن سے پہلے اَور رسول ہو چکے۔ تو کیا اگر وہ اِنتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم اُلٹے پاؤں پھِر جاؤ گے؟" (سورۃ آل عمران 3: 144)

اگر اِن دو آیات کا تمام سابقہ انبیاء کے تعلق سے جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو گا کہ اِن سب میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ سب مر گئے۔ قرآن کے مطابق مسیح اور محمد دونوں نے موت سہی۔ وہ باقی انبیاء کی طرح ہیں جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں، اور اُن سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک محقّق کےلئے یہ فرض کرنا مشکل ہے کہ قرآن جو مسیح کو دیگر وفات پائے ہوئے انبیاء میں شامل کرتا ہے اُن کی موت کے امکان کو خارج کرتا ہے۔

گرامر کے لحاظ سے اِن دونوں آیات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اِن کا معنٰی یکساں ہے۔ محمد صاحب نے وفات پائی، جناب مسیح بھی مر گئے۔ جب الجلالین، البیضاوی اور الرازی جیسے مسلمان علماء نے اِن دونوں آیات کے معنٰی کو بیان کرنے کی کوشش کی تو وہ بہت محتاط تھے کہ مسیح کا اُن کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے گذشتہ انبیاء کی موت کا ذِکر نہ کریں۔ یہ درست ہے کہ قرآن میں اُن نصاریٰ کی سرزنش کی گئی ہے جنہوں نے مسیح اور اُن کی والدہ سے الوہیت منسوب کی، لیکن اِن کا باقی انبیاء سے موازنہ کرنے کے تناظر میں اُن کی انسانیت پر ہر پہلو سے زور دینے کی کوشش کی گئی ہے، خاص طور پر یہ کہ اُن سب نے موت سہی۔ یہ محمد صاحب کے معاملے میں بھی واضح ہے۔ سورۃ آل عمران 3: 144 غزوہ أُحد کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں محمد صاحب تقریباً موت کی مُنہ میں چلے گئے تھے۔ پھِر اِس آیت کا ایک مقصد موت کی حقیقت کی طرف اِشارہ کرنا ہے جو تمام انبیاء یہاں تک کہ تمام انسانوں میں مشترک ہے۔

میں نے اِس مختصر مطالعہ میں ایک پیچیدہ موضوع کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، مُجھے یقین ہے کہ یہ موضوع ہمارے مسیحی ایمان کا سب سے اہم موضوع ہے۔ اگرچہ ہمیں کوئی قابل اعتماد متن، تاریخی شہادت، آثارِ قدیمہ کا ثبوت یا مُصدّقہ دستاویز نہیں ملتی جو مسیح کی مصلوبیّت اور اُن کی موت کے قرآنی انکار کی تصدیق کرتی ہو، لیکن کسی بھی مسیحی کےلئے متنی ثبوت اور اصل دستاویزات کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے جو بائبل مُقدّس کی تحریر کی صداقت کی تصدیق کرتا ہے۔

اِس لئے بطور مسیحی، ہم دیگر ادیان کی مُقدّس کتابوں میں پائے جانے والے کسی بھی متن کو رد کرتے ہیں جو ہماری لاخطا کتابِ مُقدّس کے متن سے متصادم ہے۔ نیز ہم یقینی طور پر اِس بات کی پروا نہیں کرتے کہ بدعتی مسیحی فرقے کیا مانتے یا سکھاتے ہیں۔ جو کُچھ خُدا کے پاک الہام کے ذریعہ ظاہر ہُوا ہم اُس پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ ہر ایک صحیفہ خُدا کے الہام سے ہے۔ کوئی بھی تعلیم جو خُدا تعالیٰ کی کتاب سے متصادم ہو قابل قبول نہیں ہے۔



[1] الرازی، تفسیر الکبیر، جلد 8، ص 74

[2] اِن دو آیات کے مُضمرات پر بعد میں بحث کی جائے گی۔

[3] دیکھیں کتاب: Robinson, Neal, Christ in Islam and Christianity, University of New York Press; Albany, 1991

[4] اِن آیات کو دیکھیں: 2: 234 اور 240؛ 3: 193 اور 55؛ 4: 15 اور 97؛ 5: 117؛ 6: 61؛ 8: 50؛ 10: 46 اور 104؛ 12: 101؛ 13: 40؛ 16: 28، 32 اور 70؛ 22: 5؛ 32: 11؛ 4: 67 اور 77؛ 47: 27

[5] دیکھیں کتاب: The Search of the Diligent, p. 70

[6] النووي، امام یحییٰ بن شرف، ریاض الصالحین، جلد اوّل، حدیث 40 اور 586۔ مزید دیکھئے 687

[7] ریاض الصالحین، جلد دوّم، حدیث 910

[8] اِس کا ترجمہ یہ بھی کیا جا سکتا ہے: جیسے، کیونکہ اور چونکہ۔

[9] الحداد، القرآن والمسیحیة، لبنان، 1969، ص 45

[10] الحریري، ابو موسیٰ، قس و نبي، دار المعرفة، لبنان، 1985، ص 129

[11] محمد صاحب کے اصحاب کے بعد کی اگلی نسل۔

[12] الثعلبي، قصص الأنبياء، دار إحياء الکتب العربیۃ، عیسیٰ البابي الحلبي وشركاه، ص 360۔ 361

[13] ابن سعد، طبقات ابن سعد 5، بیروت، 1957، ص 543

[14] دیکھیں کتاب: Abdul-Haqq, Abdiah Akbar, Sharing your Faith with a Muslim, chapter 11, Bethany House Publichers, 1980

[15] ریاض الصالحین، جلد اوّل، 36

[16] دیکھیں کتاب: Muslim World, xxxlv, pp. 214 ff; as quoted by Parrinder. Geoffrey, Jesus in the Qur'an, Sheldon Press, London, 1965, pp. 115-116

[17] Ibid., p. 105

[18] دیکھیں کتاب: Al-Tafahum, Abd, The Quran and the Holy Communion, pp. 242 ff. In the Muslim World, 1959, as quoted by Parrinder, p. 106

[19] دیکھیں کتاب: Jesus in the Qu'ran, p. 106

[20] دیکھیں کتاب: Robinson, Neal, Christ in Islam and Christianity, pp. 113-114

[21] دیکھیں کتاب: Bernard, L. R., That One Face, Mid-America Baptist Seminary, 1980

[22] صحيح البخاري 6: 25

[23] ابن حنبل، المسند جلد 6، ایڈیٹر احمد شاکر، دار المعارف، مصر، 1948

[24] ابن ہشام، سیرت ابنِ ہشام، جلد 1، ص 223، ایڈیٹر محمد السقا، دار الکتب العلمیة، بیروت۔

[25] ایضاً، ص 167

[26] قس و نبی، ص 37

[27] صحیح مسلم، جلد اوّل، ص 77۔ 78

[28] قس و نبی، ص 73 اور اِس سے آگے۔

[29] ایضاً، باب پانچ

[30] نعناعة، رمزي، الإسرائيليات، دار القلم و دار الضياء، دمشق- بيروت، 1970، ص 86

[31] صحیح بخاری، جلد چہارم

[32] الثعلبي، تذكرة الحفاظ، جلد 1، ہندوستان میں شائع شدہ، ص 27

[33] صحیح مسلم، جلد چہارم

[34] سینٹ کلیر ٹِسڈل، ینابیع الاسلام

سوالات

عزیز قاری، اگر آپ نے کتاب "کیا مسیح واقعی مصلوب ہُوا؟" کا گہرے طور سے مُطالعہ کیا ہے، تو ہم اُمّید کرتے ہیں کہ آپ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اِن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طور پر لکھیں۔

  1. بائبل مُقدّس کے مطابق اِنسان کی ابدی منزل کا اِنحصار کس پر ہے؟

  2. دین اِسلام کے مطابق نجات کا اِنحصار کس پر ہے؟

  3. مسیح کے شاگردوں کی منادی نے مسیح کے مصلوب ہونے کی حقیقت کو کیسے ثابت کیا؟

  4. صلیب پر مسیح کے آخری الفاظ کیسے ثابت کرتے ہیں کہ آپ خود ہی مصلوب ہُوئے تھے، نہ کہ کوئی دوسرا جو آپ کی طرح دِکھائی دیا؟

  5. مسیح کی مصلوبیّت سے مسلمان اِنکار کا مقصد کیا ہے؟

  6. مسلمان کس بنیاد پر مسیح کی موت کا اِنکار کرتے ہیں؟

  7. یہ دعویٰ کس بنا پر غلط ہے کہ یہوداہ اِسکریوتی مسیح کی جگہ مر گیا؟

  8. کیسے موت سے پہلے یسوع کا طرزِ عمل یہوداہ کے رویہ سے متصادم ہے؟

  9. الرازی کی مصلوبیّت کے تعلق سے بیان کی گئی چھ دشواریاں کون سی ہیں؟ اُن کا ذِکر کریں۔

  10. الرازی نے اِن چھ دشواریاں میں سے ہر ایک کا کیسے جواب دیا ہے؟

  11. اِس کتاب کے مُصنّف نے الرازی کے ہر جواب کا کیسے جواب دیا ہے؟

  12. شبیہ کے اِسلامی خیال کا مصدر کیا ہے؟

  13. خُدا تعالیٰ صادق و امین ہے۔ کیسے شبیہ کا نظریہ خُدا کے صادق و امین ہونے سے متصادم ہے؟

  14. کفّارہ کا پہلا عمل کیا تھا؟ اور اُس کا کیا مقصد تھا؟

  15. فدیہ کے اِسلامی تصوّر اور بائبلی کفّارہ میں کیا تعلق ہے؟

  16. غیر اقوام کی دستاویزات میں مسیح کی موت کے بارے میں درج بیانات سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟

  17. مسیح کے بارے میں یہودی دستاویزات کن حقائق پر مُتّفِق ہیں؟

  18. مصلوبیّت کی بابت آبائے کلیسیا کی گواہی کیوں ضروری ہے؟

  19. آبائے کلیسیا کی تحریروں میں درج بائبل مُقدّس کے حوالہ جات سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟

  20. مسیح کے مصلوب ہونے کی تاریخی حقیقت کا اَور کیا ثبوت ہے؟

  21. قرآنی آیات میں انبیاء کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟ کیا مسیح ایک نبی تھے؟

  22. الرازی نے مسلمان مُفسّرین کی آراء کو بغیر کسی تجزیہ کے کیوں مُرتّب کیا؟

  23. سورۃ آل عمران 3: 55 میں درج الفاظ "إنّي متوّفيك" کے معنٰی کے بارے میں قرآن کی مُفسّرین کی آراء کیا ہیں؟ اور اِس سے کیا واضح ہوتا ہے؟

  24. سورۃ المائدۃ 5: 117 میں "فلما توفيتني" کے الفاظ کو نبی اِسلام نے کیسے اپنے بارے میں استعمال کیا؟ اور مسیح کی مصلوبیّت کے تعلق سے اِس کا کیا مطلب ہے؟

  25. الرازی نے اپنی بات کا اختتام "اللّہ بہتر جانتا ہے" کے الفاظ سے کیا ہے۔ اِن سے کِس بات کا اِظہار ہوتا ہے؟

  26. مُصنّف کے نزدیک سورۃ النساء 4: 157 کا کیا مطلب ہے؟

  27. سورۃ النساء 4: 157 کا سورۃ آل عمران 3: 55 کے ساتھ کیا تعلق ہے؟

  28. اِس فقرے کا کہ "اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی" درست معنٰی کیا ہے؟ اور اِسے اِس کی موجودہ غلط تشریح کیسے ملی؟

  29. دوقیّت، ابیونیّت اور دیگر بدعتی مسیحی فرقوں نے کیسے اِسلام کو اُس کے ابتدائی مراحل میں متاثر کیا؟

  30. سورۃ النساء 4: 157 کے مطابق وہ کون ہیں جنہیں اُس کا مُطلق علم نہیں؟ اور اُنہوں نے کیا کیا ہے؟


The Good Way
P.O.Box 66
        CH - 8486 
        Rikon
        Switzerland