Table of Contents
سیدنا مسیح کا اِسم گرامی اورآپ کی صفات و تعلیمات کا کوئی نہ کوئی پہلو قرآن میں قریباً ترانوے مرتبہ آیات میں مذکور ہوا ہے۔ یہ تعداد کم نہیں ہے، اِسی سے آپ کی اہمیت واضح ہے۔ چنانچہ اِسلام میں جب کبھی بھی حضرت مسیح کے بارے میں کچھ غور و فکر کرنا ہوتا ہے تو اِنہی آیات کو بُنیاد بنایا جاتا ہے۔
بارہا یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مُسلم مُفکّروں اور مُفسّروں نے بائبل مُقدّس کی آیتوں کو اِن قرآنی آیات کی تفسیر کےلئے ماخذ اور بُنیاد بنایا ہے۔ تاہم اُنہوں نے بائِبل مُقدّس میں سے وہی عبارتیں تسلیم کی ہیں جو مُسلم خیالات سے میل کھاتی ہیں اور ایسی ساری کوششوں کو ٹُھکرا دیتے ہیں جن سے کسی طرح کا قرآن اور اِنجیل کے درمیان تطابق دکھایا جا سکتا ہے، اور اِس کی بڑی وجہ سوا اِس کے اَور کوئی نہیں ہے کہ دونوں کتابوں میں وارد بیانات اور بنیادی عقائد میں فرق پایا جاتا ہے۔
اب چونکہ ایسے لوگوں کی دلچسپی صرف اِس معاملہ میں رہتی ہے کہ صرف قرآن شریف کے بیان کی ہی صحت پر بھروسا کیا جائے اور باقی دیگر ماخذ کو رد کر دیا جائے۔ لہٰذا اِنجیل کی تحریف کا شوشہ ہر اُس موقع پر تیار رہتا ہے جب کتاب مُقدّس کا متن قرآنی متن سے ٹکراتا ہے۔
میں اِس مضمون میں قرآنی فکر کو اُس کے تدریجی ارتقاء میں دکھانے کی کوشش کروں گا کہ جب وہ مسیحی تعلیمات کی مخالفت کرتی ہے۔
اِس ابتدائی مرحلے پر اتنا بتاتا چلوں کہ جو بھی قرآن کے متن کو سمجھنے کوشش کرے گا، اُسے یہ بات ضرور نظر آئے گی کہ مکہ میں نازل ہونے والی آیتوں میں مسیح کی تعظیم اور مسیحیت، مسیح کے شاگردوں، مسیحی علما اور راہبوں کا پاس و لحاظ ملتا ہے۔
لیکن نبی اسلام کے مدینہ کے آخری ایام میں قرآنی آیات کافی سخت ہوتی گئیں اور مسیحیوں کے خلاف مخالفت اُبھرتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ مسیح کی الوہیت کا تو قطعی رد اور کھلم کھلا انکار نظر آتا ہے۔ سبب یہاں بھی محض عقیدہ ہی ہے کیونکہ آنحضرت نے یہ دیکھا کہ تثلیث فی التوحید کا عقیدہ اور وحدانیت کا عقیدہ باہم ٹکراتا ہے۔
نیز یہ کہ توحید کی منادی اور وحدانیت کی دعوت دینا ہی اسلام کا مشن تھا۔ کئی قرآنی آیات میں عقیدہ ثالوث کے اِس موضوع پر نکتہ چینی کی ہے، حتیٰ کہ کئی آیتوں میں نصاریٰ یعنی عرب کے مسیحیوں پر شرک کا الزام بھی لگایا ہے۔
شاید آنحضرت کو اُس ثالوث والے عقیدہ نے پریشان کر دیا تھا جو بدعتی نصاریٰ سے ماخوذ تھا اور بدعتی سرزمین عرب میں ہر طرف پھیلے ہوئے تھے، یہ تثلیث مرکب تھی اللہ سے، اُس کی صاحبہ مریم سے اور اُن کے بیٹے عیسیٰ سے۔
یاد رہے سچے مسیحیوں نے ایسے عقیدے کا کبھی بھی اظہار نہیں کیا اور نہ مانا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اِس سے ایک بڑا تنازع کھڑا کر دیا اور اُسے ایسے پکڑے ہوئے ہیں کہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتے، حالانکہ مسیحیوں نے موقع بہ موقع ہمیشہ وضاحت کی کوشش کی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ ایک اَور بھی مسئلہ ہے جس کی جڑ بڑی گہری ہے اور اُس کی بنیاد ایک آیتِ قرآنیہ ہے:
"اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) مجھ سے پہلے آ چکی ہے (یعنی) تورات اُس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہو گا اُن کی بشارت سُناتا ہوں۔ (پھر) جب وہ اُن لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لیکر آئے تو کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادُو ہے۔" ( سورة الصف 6:61)
ابو جعفر الطبری سے روایت ہے کہ اُس نے معاویہ بن صالح سے سُنا اور اُس نے سعید بن سوید سے سُنا اور اُس نے الاعلی بن ھلال السلمی سے سُنا اور اُس نے عرباض بن ساریة سے سُنا، "میں نے رسول اللہ کو کہتے سُنا 'اللہ کے نزدیک میں خاتم النبیین مکتوب و مقررہوں اُس وقت سے کہ آدم سَنی ہوئی مٹی کی شکل میں تھے۔ اور میں تم کو پہلے یہ بھی بتا دوں کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دُعا ہوں، اور میں عیسیٰ کی بشارت ہوں، اپنی والدہ کی رویا ہوں، اور جیسا کہ انبیا کی ماﺅں نے رویا دیکھی ویسی ہی رویا میری ماں نے اُس وقت دیکھی جب اُنہوں نے مجھے جنم دیا اور وہ یہ تھی کہ ایک نور اُن میں سے ایسا نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔'"
مُسلم حضرات اِس حدیث کے بیان کو لفظی طور پر لیتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ اِنجیل جناب محمد کے بارے میں کسی طرح کی نشاندہی نہیں کرتی اور نہ ہی مسیح نے کوئی اِس بارے میں بات کی ہے تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ اِنجیل محرّف ہے۔
پھر ایک تیسری مشکل ہے جسے مسیحیوں نے مانا ہے یعنی مسیح کا دُکھ و آلام اُٹھا کر صلیب پر چڑھایا جانا، جو کہ بنیادی مسیحی عقیدہ ہے اور اِنجیل مُقدّس کی تعلیم پر مبنی ہے۔ اِس واقعہ صلیب کی قرآن نے نفی کی ہے کیونکہ یہ یہودیوں کے بارے میں کہتا ہے:
"اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر (کہلاتے) تھے قتل کر دیا ہے (خدا نے اُن کو ملعون کر دیا) اور اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ اُنہیں سولی پر چڑھایا بلکہ اُن کو اُن کی سی صورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ اُن کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اُن کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور پیروی ظن کے سوا اُن کو اُس کا مطلق علم نہیں۔ اور اُنہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا۔ بلکہ خدا نے اُن کو اپنی طرف اُٹھا لیا۔ اور خدا غالب (اور) حکمت والا ہے۔" (سورة النسآء 4: 157-158)
چوتھی دِقّت مسیحیوں کا عقیدہ "ابن اللہ" ہے جسے قرآن نے رد کیا ہے۔ اِس موضوع پر ہم آگے چل کر غور کریں گے اور فقہاء و علماء کی آراء اور تعلیقات بھی تب ہی پیش کر دیں گے۔
بنیادی مسیحی عقائد کی مخالفت کے باوجود قرآن نے مسیح کی اعلیٰ صفات و کرامات کا اعتراف کیا ہے جو اُنہیں بشریت کی سطح سے اوپر درجہ دیتے ہیں۔ یہ ممتاز اوصاف آپ کی زندگی، کردار، پیغام اور شخصیت میں ظاہر ہوئے۔ جب ہم اِن اوصاف کا موازنہ قرآن میں مذکور دیگر انبیا اور رسولوں سے کرتے ہیں تو ہمیں آگاہی ہوتی ہے کہ یہ تو ایسے ہیں کہ کسی نبی کو بھی نہیں دیئے گئے، حتیٰ کہ جناب محمد کو بھی نہیں۔
الف- اُن کا عجیب و غریب اور لامثال حمل
ہم قرآن میں پڑھتے ہیں:
"اور عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُس میں اپنی رُوح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اُس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرمانبرداروں میں سے تھیں۔" (سورة التحریم 12:66،اور سورة الانبیآء 91:21)۔
الفخر الرازی کہتے ہیں کہ "نفخنا فیہ من روحنا" کا مطلب ہے ہم (اللہ) نے عیسیٰ میں اپنی رُوح میں سے پھونکا کیونکہ عیسیٰ مریم کے شکم میں تھے۔ کس نے پھونک ماری اِس معاملہ میں مفسّروں میں اختلاف ہے، کسی نے "من روحنا" کی بنیاد پر یہ کہا کہ پھونکنے والا اللہ تھا۔ ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ "نافخ" (پھونکنے والا) جبریل تھے کیونکہ اُن کے نزدیک حضرت جبریل کے قول "لاھب لک غلاماً زکیاً" (کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں) سے یہی ظاہر ہے۔
مفسّرین میں اِس نفخ کی کیفیت میں اختلاف ہے، اور چار قسم کی آرا ہیں۔
(1) وھب کا کہنا یہ ہے کہ جبریل نے مریم کے گریبان میں پھونک ماری تو وہ مریم کے رحم تک جا پہنچی۔
(2) ایک رائے یہ ہے کہ دامن میں پھونکا تو رحم میں وہ حاملہ ہوئیں۔
(3) السدی کا کہنا یہ ہے کہ آستین کو پکڑ کر درع کے پہلو میں پھُونکا تو یہ پھُونک سینہ تک جا پہنچی تو وہ حاملہ ہو گئیں۔ تب اُن کی بہن یعنی زکریا کی بیوی اُن کے پاس آئیں اور اُنہیں یہ معلوم ہو گیا کہ حاملہ ہے تو پوچھا، تب مریم نے سارا ماجرا کہہ سُنایا۔ اِس پر زکریا کی بیوی بول اُٹھیں "جو میرے پیٹ میں ہے (حضرت یحییٰ) اُسے میں اُس کو جو تیرے پیٹ میں ہے (عیسیٰ) سجدہ کرتے ہوئے محسوس کرتی ہیں۔" السدی کہتے ہیں یہی "مصدقاً بکلمة من اللہ" کا مطلب ہے۔
(4) نفخ مریم کے منہ میں پھُونکا گیا تھا جو شکم و رحم تک جا پہنچا تو وہ حاملہ ہو گئیں۔
ابن عباس سے مروی ہے کہ "جبریل نے اپنی انگلیوں سے کپڑا ہٹایا اور اُس میں پھونک دیا۔" اور کہا 'احصنت' کا مطلب ہے کہ مریم نے اپنی عفت و آبرو کی خوب حفاظت کی تھی اور 'محصنة' کا مطلب ہے عفیفہ یعنی پاک دامن، 'و نفخنا فیہ میں روحنا' میں فیہ سے مراد 'فیہ فرج ثوبہا' ہے یعنی چاک گریبان میں ہم نے پھونک ماری۔ پھر یہ بھی رائے دی ہے کہ اِس میں ہم (اللہ) نے وہ چیز پیدا کی جو اُس (رحم مریم) میں ظاہر ہوئی۔
مقاتل نے الفاظ "وصدقت بکلمات ربھا" کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے "یعنی عیسیٰ پر" جس کی قرات بھی تائید کرتی ہے جس میں "کلمات ربھا" کے بجائے "بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا" ہے اور عیسیٰ کےلئے کلمة اللہ تو قُرآن میں کئی جگہ آیا ہے۔
ب- مسیح کی عجیب و غریب ولادت
قرآن میں اُس گفتگو کا ذکر ملتا ہے جو حضرت مریم اور خدا کے فرشتے کے درمیان ہوئی جب وہ مسیح کی ولادت کی خوشخبری دینے کےلئے آ موجود ہوا۔
"اُنہوں (جبریل) نے کہا میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا (یعنی فرشتہ) ہوں (اور اِس لئے آیا ہوں) کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں۔ مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہو گا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں۔ (فرشتے نے) کہا کہ یونہی (ہو گا) تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے اور (میں اُسے اِسی طریق پر پیدا کروں گا) تا کہ اُس کو لوگوں کےلئے اپنی طرف سے نشانی اور (ذریعہ) رحمت (و مہربانی) بناﺅں اور یہ کام مقرر ہو چکا ہے۔" (سورة مریم 19: 19-21)
البیضاوی نے یسوع کی معجزانہ پیدایش پر تفسیر کرتے ہوئے یہ لکھا "اِس امتیاز نے مسیح کو دوسرے بنی نوع اِنسان سے اور سارے نبیوں سے ممتاز کر دیا ہے کیونکہ وہ بغیر کسی اِنسانی رشتے اور میل جول کے پیدا ہوئے تھے۔"
لیکن الفخر الرازی نے اِس موضوع پر یہ رائے ظاہر کی ہے:
(1) الفاظ "لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا" کے بارے میں اُس نے کہا 'پاکیزہ' کے تین مطلب ہیں: پہلا، یعنی وہ گناہ کے بغیر ہے; دوسرا، وہ تزکیہ میں بڑھتے گئے جیسے وہ شخص جو بےگناہ ہو اُس کے حق میں یہ لفظ بولا جاتا ہے اور وہ اعلیٰ قسم کی کھیتی کی پیداوار جو ہر طرح سے پاک ہو اور لہلا رہی ہو اُسے زکی کہا جاتا ہے; تیسرا، وہ ملامت سے بالا پاک تھے۔
(2) "وَلِنَجعَلَہٓ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحمَةً" کا مطلب ہے کہ اُس کی پیدایش تمام بنی نوع اِنسان کےلئے ایک نشان ہے کیونکہ بغیر والد کے پیدا ہوئے۔ "رَحمَةً مِّنَّا" کا مطلب یہ ہے کہ تمام بنی نوع اِنسان اُن سے برکت حاصل کریں گے، نیز یہ کہ مسیح کے صدق کے دلائل اَور زیادہ واضح ہو جائیں گے اور آپ کے اقوال اور آپ کی باتیں زیادہ لائقِ قبول بن جائیں گی۔
امام ابو جعفر الطبری نے "پاکیزہ لڑکا" کی تفسیر میں لکھا ہے "الغلام الزکی ھو الطاہر من الذنوب"، محاورہ میں لفظ زکی اُس لڑکے کےلئے بولا جاتا ہے جو گناہ سے بری، معصوم و پاک ہو۔ یہ بھی عرب استعمال کرتے ہیں: 'غلام زاکِ و زکی و عالِ وعلی' یعنی خالص و پاک، بے مثال و بلند پایہ لڑکا۔
ج- مسیح کا خدا کی طرف سے مبارک ہونا
ہم سورة مریم 31:19 میں یہ الفاظ پڑھتے ہیں:
"اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحبِ برکت کیا ہے۔"
الطبری نے یونس بن عبد الاعلی اور سفیان کی روایت کی بنیاد پر کہا ہے کہ "وَّ جَعَلَنِی مُبٰرَکًا" کا مطلب ہے 'اُس نے مجھے خیر کا معلم بنا کر بھیجا ہے۔'"
سلیمان بن عبد الجبار نے محمد بن یزید بن خنیس مخزومی سے روایت کی ہے "میں نے ابن الورد کو جو بنی مخزوم کے غلام تھے یہ کہتے سُنا 'ایک عالم کی اپنے سے زیادہ بڑے عالم کے ساتھ ملاقات ہوئی اور سلام کے بعد اُس سے کہا: میرے علم سے کیا ظاہر ہونا چاہئے؟ اُس نے جواب دیا 'الامر بالمعروف و النھی عن المنکر' (بھلائی کرنے کی زیادہ سے زیادہ تعلیم دینا اور برائی سے بچنا) کیونکہ یہی اللہ کا دین ہے جو اُس نے اپنے نبیوں کے ذریعے اپنے بندوں کی طرف بھیجا ہے۔'"
فقہاء کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ جہاں بھی ہوں مبارک ہوں گے یعنی اُن کی ذات باعثِ برکت ہے۔
د- مسیح کو روح القدس کی مدد حاصل تھی
سورة البقرة 253:2 میں لکھا ہے:
"اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کُھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں۔ اور روح القدس سے اُن کو مدد دی۔"
ابن عباس کہتے ہیں "روح القدس وہ نام ہے جس کے وسیلے عیسیٰ مردے زندہ کرتے تھے۔"
ابو مسلم کا کہنا ہے کہ "روح القدس جس کے ذریعے اُنہیں تائید و مدد حاصل تھی غالباً وہ طاہر روح تھی جسے اللہ تعالیٰ نے اُن میں پھونک دیا تھا اور جس کے ذریعے سے اللہ نے اُنہیں اُن سب سے ممتاز بنا دیا جنہیں اُس نے عام طریقے سے یعنی مرد و عورت کے نطفے کے اجتماع سے خلق کیا تھا۔"
سورة النسآء 171:4 میں لکھا ہے:
"مسیح مریم کے بیٹے عیسیٰ خدا کے رسول اور اُس کا کلمہ تھے جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ تو خدا اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاﺅ۔"
اِس آیت کا نچوڑ یہ ہے کہ اللہ نے عیسیٰ کو اُنہی کی ذات میں ایک روح عطا کر دی تھی جو اُن کی شخصیت میں اُن کی مدد کرتی رہتی تھی۔ لیکن علماء اسلام روح القدس جس سے مسیح کو مدد و تائید حاصل تھی کی تفسیر میں متفق نہیں ہیں۔
ابن انس کا کہنا ہے کہ "روح القدس وہ روح تھی جو مسیح میں پھونک دی گئی تھی، اللہ نے اپنی ذات کے ساتھ اِس لئے اُسے متعلق کیا ہے کیونکہ مسیح کی تکریم و تخصیص مقصود تھی۔ 'القدس' اللہ ہے اور قول 'فنفخنا فیہ من روحنا' اِس کی نشاندہی کرتا ہے۔"
السدی اور کعب کی رائے یہ ہے کہ "روح القدس جبریل ہیں، اور جبریل کی مسیح کی تائید اِس طرح پر تھی کہ وہ آپ کے رفیق تھے، وہی مدد کرتے اور جہاں جہاں وہ جاتے تھے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتے تھے اور یہ کیفیت اُس وقت تک رہی تا آنکہ مسیح آسمان پر اٹھا لئے گئے۔"
اور ابن جبیر نے اِس بارے میں کہا ہے "روح القدس اللہ کا اسم اعظم ہے جس سے مردے زندہ کر دیا کرتے تھے۔"
القاشانی نے کہا "اللہ نے جسم عیسیٰ کو جسمانی ناپاکیوں اور کدورتوں سے پاک کیا اور آپ ایک روحانی و مثالی بدن میں روح متجسد تھے۔ اللہ نے مسیح کی روح کو ماحول اور مادی اثرات اور سماجی اثرات سے پاک و صاف بنائے رکھا تا کہ روح القدس کی تائید و معاونت ملتی رہے جس کی صورت پر آپ ڈھال دیئے گئے تھے۔"
ابن عطا کا کہنا ہے کہ "عمدہ ترین پودے وہ ہیں جن کے پھل ویسے ہی ہوں جیسے عیسیٰ روح اللہ۔"
اور ابن عباس نے یہ کہا کہ "یہ روح وہ ہے جو پھُونکی گئی تھی، اور القدس سے مراد خود اللہ ہے، سو وہ روح اللہ ہیں۔"
ہ- مسیح کی وفات کے وقت اُن کا صعود
ہم سورة اٰل عمرٰن 55:3 میں پڑھتے ہیں:
"اِذقَالَ اللّٰہُ یٰعِیسٰٓی اِنِّی مُتَوَفِّیکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُو"
"اُس وقت خدا نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دینے اور اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں اور کافروں سے تجھے پاک بھی کرنے جا رہا ہوں۔"
امام الفخر الرازی کا کہنا ہے کہ 'اِس آیت کی کئی وضاحتیں ہیں' جن میں سے ہم دو کا ذکر کر رہے ہیں:
(1) 'رَافِعُکَ اِلَیّ' (اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں) کا مطلب ہے کہ 'الی محلّ کرامتی' (اپنے مقام عزت کی جگہ پر رکھوں گا)۔ یہ رفعت و عظمت اُن کی شان کےلئے، اور یہ آپ کے قول سے ملتا جلتا ہے جو اِنجیل سے مستعار لیا گیا ہے کہ 'میں اپنے ربّ کی طرف جا رہا ہوں۔'
(2) الفاظ 'رَافِعُکَ اِلَیّ' کی تاویل یہ ہے کہ اللہ اُنہیں ایک ایسی جگہ اُٹھا کر لے جانے والا تھا جہاں اُن پر نہ کسی کا زور چلے گا نہ حکم، کیونکہ زمین پر اِنسان ایک دوسرے پر طرح طرح کے حکم اور فتوے لگاتے ہیں، لیکن آسمان پر تو درحقیقت اللہ ہی کا حکم چلتا ہے۔
و- مسیح کی رسالت و سیرت کی عصمت
کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رسالت و پیغمبری میں بےگناہی یا عصمت، چال چلن یا سیرت سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ خیال اِس لئے بےاساس ہے کیونکہ کئی قرآنی آیات اِس کی تردید کرتی ہیں۔ ہم بہت سی ایسی آیتیں پڑھتے ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ انبیاء کرام کی زندگیاں نہ قبل رسالت اور نہ بعد رسالت، بےعیب و بےملامت تھیں۔
لیکن قرآن میں صرف مسیح کی ذات مبارکہ ایسی ہے جو رسالت میں اور سیرت کے لحاظ سے بھی پاک و بےعیب نظر آتی ہے۔ اِس بات کی گواہی فرشتے نے بھی دی جب اُن کی والدہ سے کہا 'میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں۔' البیضاوی نے لفظ "زَکِی" کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ عیسیٰ سال بہ سال اعلیٰ اور بلند ہوتے چلے گئے۔
ز- مسیح کی لاثانی رسالت کے نشانات
جس طرح سے تائید روح القدس کے سبب مسیح کی رسالت منفرد و لامثال تھی ویسے ہی آپ کے معجزات کی گوناگونی ایسی تھی کہ کسی اَور نبی یا رسول میں نہیں ملتی۔ قرآن میں ہم پڑھتے ہیں: "اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کُھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں۔ اور روح القدس سے اُن کو مدد دی" (سورة البقرة 253:2)۔ یہ نشانات معجزات تھے۔
البیضاوی نے کہا کہ "اللہ نے اُن کے سپرد خاص خدمت کی اور اُن کے معجزات کو دیگر رسل کے معجزات پر تفضیل کا سبب ٹھہرایا۔ وہ معجزات بڑے نمایاں اور بے حد عظیم قسم کے تھے، تعداد کی کثرت بھی ایسی تھی کہ کسی اَور نبی میں نہ تھی۔"
ح- مسیح کا علم غیب
سورة الزخرف 43: 61،57 میں لکھا ہے:
"اور جب ابن مریم کو بطور مثل پیش کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اِس سے چِلاّ اُٹھے ... اور وہ قیامت کی نشانی ہیں۔"
الجلالان "وَاِنَّہ لَعِلم’‘ لِّلسَّاعَةِ" کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں "عیسیٰ قیامت کی گھڑی کا علم تھے، وہ جانتے ہیں کہ یہ کب آئے گی۔ لوگ عموماً خیال کرتے ہیں کہ اللہ اپنی مخلوق سے منفرد ہے کہ اُسی کو فقط قیامت کی گھڑی کا علم ہے، اِس خیال کی روشنی میں عیسیٰ کے اِس امتیاز خصوصی کا پتا چلتا ہے جو قرآن آپ کو دیتا ہے۔"
ط- مسیح کا اللہ سے تقرب اور شفیع ہونا
قرآن شفاعت کے اختیار کو اللہ تک محدود کرتا ہے جب کہتا ہے:
"شفاعت تو سب خدا ہی کے اختیار میں ہے۔" (سورة الزمر 44:39)
اور پھر قرآن کی ایک آیت میں شفاعت کو مسیح کا ایک امتیاز خصوصی بیان کیا گیا ہے:
"(وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم خدا تم کو اپنی طرف سے ایک فیض کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح (اور مشہور) عیسیٰ ابن مریم ہو گا (اور جو) دُنیا اور آخرت میں باآبرو اور (خدا کے) خاصوں میں ہو گا۔" (سورة اٰل عمرٰن 45:3)
الجلالان نے اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا "وجیھا دو اعتبارات کا حامل ہے، دُنیا میں آپ کی نبوت اور آخرت میں اللہ کی نزدیکی و تقرّب میں آ پ کا شفاعت کے اختیارات رکھنا۔"
الطبری نے ابن حمید اور سلمة اور ابن اسحاق اور محمد بن جعفر کے سلسلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "وَجِیھًا فِی الدُّنیَا" کا مطلب ہے عزت و وقار کا حامل اور دُنیا میں اللہ کی قربت میں زندگی بسر کرنا۔ اور الفاظ "وَالاٰخِرَةِ وَمِنَ المُقَرَّبِین" کا مطلب ہے کہ مسیح اُن میں ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ روز قیامت اپنی قربت عطا کرے گا اور اپنے جوار میں جگہ دے گا۔
الرازی نے عیسیٰ کے بارے میں لکھا ہے "وہ دُنیا میں عزت و وقار کے حامل اِس لئے تھے کہ آپ کی دعائیں مستجاب تھیں قبول کر لی جاتی تھی، آپ نے مُردے زندہ کئے، اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا بخشی اور روز آخرت اللہ اُن کو شفیع امت بنائے گا۔"
تاہم الفاظ "وَمِنَ المُقَرَّبِین" کے بارے میں کئی نکتہ نظر ہیں۔
پہلا یہ کہ اللہ نے مسیح کو اپنی قربت عطا کر کے آپ کو ایک استحقاق عظیم بخشا اور صفت حمد میں ملائکہ کے درجات اعلیٰ تک پہنچا دیا ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ بیان ایک اعلان ہے کہ وہ آسمان پر اُٹھائے جائیں گے اور فرشتوں کے ساتھ ہوں گے۔
تیسرا یہ کہ آئندہ جہان میں ہر عزت و وقار کی حامل شخصیت مقرّب بارگاہ الہٰی نہ ہو سکے گی کیونکہ اہلِ جنت الگ الگ مراتب و درجات میں تقسیم ہوں گے۔
الف- خلق کرنے کی قدرت
سورة المآئدة 110:5 میں لکھا ہے:
"جب خدا (عیسیٰ سے) فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! میرے اُن احسانوں کو یاد کرو ... جب میں نے تم کو کتاب اور دانائی اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کا جانور بنا کر اُس میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتا تھا۔"
ابن العربی نے اِس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:
"اللہ نے عیسیٰ کو اُن کے رُوح ہونے کی وجہ سے اِس قسم کی خصوصیت دی تھی اور اُن کے مٹی لے کر تخلیق (پرند) میں نفخ یعنی پھونکنے کو مضاف کیا۔ زندگی بخشنے کے معاملہ میں سوائے عیسیٰ کے اِس طرح کا نفخ اَور کسی کے ساتھ منسوب نہیں کیا گیا۔ ہاں خود اللہ تعالیٰ کی ذات سے ضرور منسوب کیا گیا۔"
ب- بوقت ولادت آپ کا گفتگو کرنا
جب مریم نے اپنے بیٹے کو جنم دیا تو اُن کی قوم والوں نے اُن کی خوب لعنت ملامت کی، کیونکہ وہ یہی خیال کرتے تھے کہ بچہ بدچلنی کا نتیجہ ہے۔ تب قرآنی بیان کے مطابق:
"مریم نے اُس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اِس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں۔ بچے نے کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔" (سورة مریم 19: 30،29)
السدی کا کہنا ہے کہ:
"جب مریم نے قوم کے اُن افراد کی طرف اِس طرح کا اشارہ کیا تو اُن لوگوں کو بڑا غصہ آیا اور بولے 'اِس کا تمسخر تو اِس کے زنا سے بھی زیادہ سنگین ہے۔'"
ایک اَور روایت بتاتی ہے کہ "عیسیٰ دودھ پی رہے تھے، جب اُنہوں نے یہ گفتگو سُنی تو دودھ چھوڑ دیا اور اُن لوگوں کی طرف رُخ پھیرا، اور اپنے بائیں طرف کے پہلو کو ٹیکا اور اپنے کلمہ کی اُنگلی اُٹھائی، تب اُن لوگوں کو جواب دیا۔"
الرازی نے ایک اَور روایت بیان کی ہے کہ "حضرت زکریا اِس موقع پر حضرت مریم کی طرف سے یہودیوں سے مناظرہ کرنے آ موجود ہوئے تھے اور اُنہوں نے ہی عیسیٰ سے کہا تھا کہ 'اب تم اپنی حُجّت پیش کرو، اگر تم کو اُس کا حکم مل چکا ہے۔' تب عیسیٰ نے کہا 'میں خدا کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے حکمت دی ہے اور مجھے نبی بنایاہے۔'"
ج- مردے زندہ کرنا، جنم کے اندھوں کو بینائی عطا کرنا اور کوڑھیوں کو شفا دینا
مسیح کی ہی زبان سے قرآن نے یہ کہا ہے:
"اور (میں) اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں۔ اور خدا کے حکم سے مُردے میں جان ڈال دیتا ہوں۔" (سورة اٰل عمرٰن 49:3)
سب ہی جانتے ہیں کہ "الاکمہ" کا مطلب وہ شخص ہے جو مادر زاد بینائی سے محروم ہو۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوڑھ ایک خطرناک بیماری ہے اور دونوں ہی امراض اِنسان کے بس سے باہر اور لاعلاج تھے۔
مثنیٰ کی ایک روایت جس کا سلسلہ ابن اسحاق، حفص بن عمر اور عکرمة سے ملتا ہے یہ بتاتی ہے کہ: "اللہ عز و جل نے عیسیٰ سے کہا کہ یہی الفاظ وہ بنی اسرائیل کے سامنے بطور احتجاج اپنی نبوت کی نشانی کے طور پر کہیں کیونکہ یہ دونوں امراض لاعلاج ہیں۔"
الفاظ "وَ اُحیِ المَوتٰی" (مُردے زندہ کر دیتا ہوں) کے بارے میں وھب بن منبہ نے بیان کیا ہے کہ: "حضرت عیسٰی بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو اچانک ایک لڑکا ایک چھوٹے لڑکے پر ٹوٹ پڑا اور اُس کو لاتیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔ پھر اُسے خون میں لتھڑا ہوا عیسیٰ کے قدموں پر پھینک دیا، جب لوگوں کو خبر ہوئی تو اُس کا الزام عیسیٰ پر ہی لگایا گیا اور اُن کو پکڑ کر مصر کے قاضی کے پاس لے گئے اور یہ الزام لگایا کہ اِسی نے قتل کیا ہے۔ قاضی نے آپ سے پوچھا اور عیسیٰ نے جواب دیا 'مجھے نہیں معلوم کہ اِسے کس نے قتل کیا ہے اور نہ میں اِس کا ساتھی ہوں۔' پھر اُنہوں نے عیسیٰ کو مارنے کا ارادہ کیا تو آپ نے اُن سے کہا 'اچھا لڑکے کو میرے پاس لاﺅ ۔' وہ بولے 'مطلب کیا ہے تمہارا؟' آپ نے فرمایا 'لڑکے سے پوچھ لوں گا کہ کس نے اُسے قتل کیا ہے؟' وہ کہنے لگے 'بھلا مُردے سے کیسے بات کر کے پوچھ لے گا؟' پھر وہ آپ کو مقتول لڑکے کے پاس لے گئے۔ عیسیٰ نے دُعا کرنی شروع کی تو اللہ نے اُس لڑکے کو زندہ کر دیا۔"
وھب ہی کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ "کبھی کبھی تو عیسیٰ کے پاس بیماروں کی اتنی بھیڑ لگ جاتی تھی حتیٰ کہ ایک ایک مجمع پچاس پچاس ہزار کا ہو جاتا تھا۔ جس مریض میں اتنی سکت ہوتی وہ آپ کے پاس پہنچ جاتا، اور جس میں آپ تک پہنچنے کی طاقت نہیں ہوتی تھی اُس کے پاس آپ خود چلے جاتے تھے اور آپ دُعا کے ذریعے اُن لوگوں کا علاج کرتے تھے۔"
الکلبی سے روایت ہے کہ: "حضرت عیسیٰ یا حیّ یا قیّوم کی مدد سے مُردے جِلا دیتے تھے۔ آپ نے عاذر (لعزر) اپنے ایک دوست کو بھی زندہ کیا۔ آپ نے نوح کے بیٹے سام کو بھی قبر سے نکالا اور وہ زندہ ہو گیا۔ ایک بار ایک بڑھیا کے مُردہ بچے کے پاس سے گذر ہوا تو اُس کےلئے دُعا کی اور چارپائی سے اُتر آیا اور اپنے لوگوں کے پاس جا کر زندگی گزارنے لگا اور بال بچے دار بھی ہوا۔"
د- غیب کا علم
مسیح کی زبانی قرآن نے یہ بھی کہا: "اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں" (سورة اٰل عمرٰن 49:3)۔
اِس تعلق سے علما دو باتیں بیان کرتے ہیں۔
٭پہلی یہ کہ وہ شروع ہی سے غیب کی باتوں کی خبر دے دیا کرتے تھے۔ السدی نے روایت کی ہے کہ "وہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اُن کے ماں باپ کے کام بتا دیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے ایک بچہ کو یہاں تک بتا دیا کہ تیری ماں نے تیرے لئے فلاں چیز فلاں جگہ چھپا رکھی ہے اور جب وہ بچہ گھر پہنچا تو اُس چیز کےلئے روتا رہا یہاں تک کہ اُسے حاصل کر کے ہی چھوڑا۔ اِس کا یہ اثر ہوا کہ لوگ اپنے بچوں کو مسیح کے ساتھ کھیلنے سے یہ کہہ کر روکنے لگے کہ یہ جادوگر ہے اور اُنہیں گھر ہی میں رکھنے لگے اور باہر نہ نکلنے دیتے تھے۔ جب عیسیٰ اُن کی تلاش میں اُن کے پاس جاتے تو لوگ کہہ دیتے کہ گھر ہی میں نہیں ہیں۔ ایک بار مسیح نے پوچھ لیا کہ 'اگر گھر میں نہیں ہیں تو گھر میں کون ہے؟' جواب ملا 'وہ تو خنزیر ہیں۔' عیسیٰ نے کہا 'تب تو وہ ویسے ہی ہو جائیں گے۔' بعد میں لوگوں نے کیا دیکھا کہ وہ ویسے ہی بن چکے تھے۔"
٭اور دوسری بات یہ کہ اِس طرح سے تو غیب کی خبر دینا معجزہ ہوا۔ نجومی لوگ جو غیب کی خبر بتانے کا دعویٰ کرتے ہیں اُن کےلئے بغیر سوال پوچھے بتانا مشکل ہوتا ہے۔ پھر اُنہیں تو یہ اعتراف بھی رہتا ہے کہ اُن سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی رہتی ہیں، اور غیب کی خبر بلا کسی آلہ کی مدد کے اور بغیر پوچھ گچھ کے سوا وحی کے اَور کسی طریقہ سے ممکن نہیں۔
ہ- آسمان سے دسترخوان اُتارنا
قرآن میں کہا گیا ہے کہ:
"(وہ قصہ بھی یاد کرو) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تمہارا پروردگار ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (طعام کا) خوان نازل کرے؟ اُنہوں نے کہا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو۔ وہ بولے کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم اُس میں سے کھائیں اور ہمارے دِل تسلی پائیں اور ہم جان لیں کہ تم نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اُس (خوان کے نزول) پر گواہ رہیں۔ (تب) عیسیٰ ابن مریم نے دُعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کےلئے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تُو بہتر رزق دینے والا ہے۔" (سورة المآ ئدة 5: 112-114)
نزول مائدہ کے بارے میں علما اختلاف رائے کا شکار ہیں کہ کس طرح وہ خوان آسمان سے اُترا اور اُس کی کیا کیفیت تھی اور اُس میں کیا کیا چیز تھی۔
قتادہ نے جابر، یاسر بن عمار، محمد کے سلسلہ کی روایت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ "خوان اُترا اور اُس میں روٹی اور گوشت تھا۔ اِس لئے کہ اُنہوں نے عیسیٰ سے ایسی خوراک کی درخواست کی تھی جسے وہ کھائیں اور وہ ختم ہونے کا نام نہ لے۔ تب آپ نے فرمایا 'اچھا میں یہ درخواست منظور کرتا ہوں اور وہاں تمہارے درمیان اُس وقت تک موجود رہے گی جب تک تم اُسے چھپاﺅ گے نہیں اور اُس میں خیانت نہیں کرو گے، اور اگر تم نے ایسا کیا تو تمہیں عذاب دیا جائیگا۔' ایک دن نہ گزرا تھا کہ اُنہوں نے خیانت بھی کی اور چھپا بھی دیا، اِس لئے خوان اوپر اُٹھا لیا گیا اور اُن کی صورتیں بگڑ گئیں کہ بندر اور خنزیر بن گئے۔"
ابن عباس سے یہ روایت ہے کہ: "عیسیٰ نے بنی اسرائیل سے (اِس درخواست کے بعد) یہ کہا 'تیس دن روزے رکھو اور بعد میں اللہ سے جو چاہتے ہو مانگو۔' چنانچہ اُنہوں نے تیس دن روزے رکھے اور جب روزوں کا اختتام ہوا تو کہنے لگے 'اے عیسیٰ روزے تو ہم نے رکھ لئے اب سخت بھوک لگی ہے، اللہ سے دُعا کیجئے تا کہ آسمان سے اللہ مائدہ نازل فرمائے۔' یہ سُن کر حضرت عیسیٰ ٹاٹ اوڑھ کر اور راکھ بچھا کر بیٹھ گئے اور دُعا میں مشغول ہو گئے، اور فرشتے آسمانی خوان لے کر اُترے جس میں سات روٹیاں اور سات مچھلیاں تھیں۔ اُنہوں نے اُس خوان کو اُن کے سامنے لا کر رکھ دیا، پھر کیا تھا سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور ایک بھی بھوکا نہ رہا۔"
قرآن کی تعلیم کی روشنی میں شخصیت المسیح پر غور و خوض کرنے والے کےلئے مسیح کی ابنیت ایک ایسا موضوع ہے جس نے بحث و تمحیص کو جنم دیا ہے اور اِس ضمن میں پانچ نظریات پائے جاتے ہیں۔
الف- پہلا نظریہ کفر کا ہے:
قرآن میں لکھا ہے: "خدا کو سزاوار نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے وہ پاک ہے جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کو یہی کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے" (سورة مریم 35:19)۔
اِس میں یہ بھی لکھا ہے کہ:
"اور کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے۔ (ایسا کہنے والو یہ تو) تم بری بات (زبان پر) لائے ہو۔ قریب ہے کہ اِس سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں۔ کہ اُنہوں نے خدا کےلئے بیٹا تجویز کیا۔ اور خدا کو شایاں نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔ تمام شخص جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب خدا کے روبرو بندے ہو کر آئیں گے۔" (سورة مریم 19: 88-93)
الفخر الرازی کی تفسیر میں آیا ہے کہ "میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بت پرستوں کی تردید کرنے کے بعد اب اُن لوگوں کی تردید کر رہے ہیں جو اُس کےلئے بیٹا ثابت کرتے ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں اور عرب نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا ہے۔ اِس آیت میں یہ سب شامل ہیں۔"
الفاظ "لَقَد جِئتُم شَیئًا اِدًّا" (تم بری بات لائے ہو) کا مطلب ہے سچائی کا بہت بڑا انکار۔ اِس لئے زمین کے پھٹ جانے اور پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اُس پر اللہ کا غضب ہے جو یہ کہتا ہے کہ "خدا بیٹا رکھتا ہے۔"
ب- دوسرا نظریہ خالق کو مخلوق سے ملا دینے کا نظریہ ہے:
قرآن میں لکھا ہے: "اور اُنہوں نے اُس کے بندوں میں سے اُس کےلئے اولاد مقرر کی۔ بےشک انسان صریح ناشکرا ہے۔ کیا اُس نے اپنی مخلوقات میں سے خود تو بیٹیاں لیں اور تم کو چن کر بیٹے دیئے" (سورة الزخرف 43: 16،15)۔
یہاں ایک سوال اُٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ خالق اور مخلوق میں وہ کون سا رشتہ ہے کہ ایک جزو مخلوق اپنے خالق سے مل جائے؟ یہ فطرتاً اور عقلاً ناممکن ہے۔ ایسے لوگوں نے اللہ کے اِس قول کو پیش کیا ہے "تمام شخص جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب خدا کے روبرو بندے ہو کر آئیں گے" (سورة مریم 93:19)، اور کہا ہے کہ "عبد" (بندے) کا ربّ بن جانا ممکن نہیں، اور الفاظ "بدیع السموات والارض" (یعنی اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے) کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی مخلوق کا خالق بن جانا ممکن نہیں ہے۔
ہم مسیحی بھی اِس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی ایک حصہ یا جزو کا اپنے خالق میں ضم ہو جانا جائز نہیں ہے لیکن ہمارے عقیدہ میں یہ بات باپ اور بیٹے کے تعلقات پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ ابن باپ کے ساتھ جوہر میں ایک ہی ہے، اور قرآن خود یہ کہتا ہے کہ مسیح کلمة اللہ اور اُس کی طرف سے رُوح ہیں۔ سو خدا کی مخلوق کا اپنے خالق میں ضم ہو جانے کا مسیح کی ابنیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ج- بیٹا تو نر و مادہ سے مل کر ہی بذریعہ ولادت پیدا ہوتا ہے:
یہاں ابنیت کے تعلق سے اسلامی مفہوم میں ایک مشکل درپیش ہے: "اُس کے اولاد کہاں سے ہو جب کہ اُس کی بیوی ہی نہیں" (سورة الانعام 101:6)۔
البیضاوی نے اِس آیت پر اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے "عقل جس بات کو تسلیم کرتی ہے ولد کے معاملہ میں وہ یہ ہے کہ وہ دو ہم جنس نر و مادہ کے ملاپ سے ہی جنم لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسی باتوں سے پاک و بری ہے۔"
اسلام کا یہی نظریہ ہے جو اللہ کےلئے کسی جنمے ہوئے بیٹے یعنی ولد کو ناممکن ٹھہراتا ہے کیونکہ اللہ کی کوئی اہلیہ نہیں اور اللہ کےلئے ایسا ماننا بھی ناممکن ہے۔ اللہ کےلئے مسیح کے باپ ہونے کو منکر اور عجیب سی بات ماننے میں یہی ایک راز ہے کیونکہ قرآنی فکر میں کوئی بیٹا ہو ہی نہیں سکتا سوا اِس کے کہ جسمانی تعلق واقع ہو۔
طبری کی تفسیر جامع البیان میں اِسی کی تائید ملتی ہے۔ وھب اور ابی زید سے روایت ہے کہ "بیٹا نر و مادہ کے ملاپ کا نتیجہ ہوتا ہے اور اللہ کےلئے کسی ساتھی عورت یا بیوی کا تصور ہی محال ہے اِس لئے بیٹا (ولد) کہاں سے آئے گا، نیز یہ کہ اُسی نے تو ساری چیزیں خلق کی ہیں اور جب یہ بات ہو کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اللہ نے خلق نہ کیا ہو تو اُس کے بیٹا کیسے ہو گا؟"
محققین نے یہ لکھا ہے کہ یہ مذکورہ آیت اُن لوگوں کے حق میں اُتری جو بدعتی تھے اور جن کی جڑیں بت پرستی میں گڑی ہوئی تھیں، یہ لوگ کلیسیا میں شامل ہو گئے اور اُس میں بدعتی تعلیم پھیلانے کی کوشش کی کہ مقدسہ مریم خدا ہیں۔ اُن کے اندر یہ خیال اُس وقت سے تھا جب کہ وہ بت پرستی کا شکار تھے کہ زہرہ ستارہ جس کی وہ پوجا کیا کرتے تھے خدا ہے۔ اِسی فاسد عقیدہ نے زہرہ کی جگہ مریم کو رکھ دیا۔
علامہ احمد المقریزی نے اپنی کتاب "القول الابریزی" کے صفحہ 26 پر اِس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور ابن حزم نے اپنی کتاب "الملل والاھواء والنحل" کے صفحہ 48 پر اِس بدعت پر بحث کی ہے۔ یہ بدعتی لوگ یہ مانتے تھے کہ اللہ کے بیوی ہے اور اُس سے بچہ بھی ہے۔ اب واضح ہو گیا کہ قرآن نے اِسی نظریہ کا ردّ کیا ہے اور مسیحیت کا اِس خیال سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ چنانچہ ایک بھی مسیحی ایسا نہیں ملے گا جو ایسی بات پر اعتقاد رکھتا ہو۔ یہ تو اللہ ذوالجلال و قدوس کی ذات کی توہین ہے جو ہر طرح کے جسمانی خصائص سے پاک و منزہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مسیحیوں کا وہ عقیدہ جو اِنجیل شریف پر مبنی ہے، اُس پر غور و فکر کرنے والے پر یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ جناب مسیح کا ابن اللہ ہونا اللہ کی کسی بیوی کے ذریعہ پیدا ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مومنوں کا یہ ایمان ہے کہ مسیح کا ابن اللہ ہونا وجود و ذات الہٰی سے اُن کے صدور کی وجہ سے ہے جس کی صفت بتائی گئی کہ مسیح خدا کا وہ کلمہ ہیں جو ابتدا سے خدا کے ساتھ تھا اور رُوح القدس کی معرفت وہ مریم میں حمل کی شکل اختیار کر گیا۔
پولُس رسول نے اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا جب رومیوں 1:1-4 میں لکھا:
"پولُس کی طرف سے جو یسوع مسیح کا بندہ ہے اور رسول ہونے کےلئے بُلایا گیا اور خدا کی اُس خوشخبری کےلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ جس کا اُس نے پیشتر سے اپنے نبیوں کی معرفت کتاب مُقدّس میں اپنے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا۔ جسم کے اعتبار سے تو داﺅد کی نسل سے پیدا ہوا لیکن پاکیزگی کی رُوح کے اعتبار سے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب سے قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ٹھہرا۔"
د- چوتھا نظریہ ہے کہ مسیح کھاتا تھا:
سورة المآئدة 75:5 میں لکھا ہے:
"مسیح ابن مریم تو صرف (خدا) کے پیغمبر تھے اُن سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے اور اُن کی والدہ (مریم خدا کی) ولی اور سچی فرمانبردار تھیں دونوں (انسان تھے اور) کھانا کھاتے تھے دیکھو ہم اُن لوگوں کےلیے اپنی آیتیں کس طرح کھول کھول کر بیان کرتے ہیں پھر (یہ) دیکھو کہ یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔"
اب اِسلامی فکر کا کہنا یہ ہے کہ مسیح کو الوہی صفات سے متصف کرنا غیر ممکن ہے کیونکہ یہ بات اُن کی بشریت سے واضح ہے، جو کھانا کھاتا ہو وہ کیسے خدا بن سکتا ہے؟
الرازی نے اپنی تفسیر میں اِس آیت کے بارے میں لکھا ہے:
(1) "جس کسی شخص کی بھی ماں ہو وہ ایسا حادث اور نوپید ہے جو پہلے نہیں تھا، اور جو اِس طرح ہو وہ مخلوق ہوا نہ کہ خدا۔"
(2) "دونوں (عیسیٰ اور مریم) کو خوراک کی اشد حاجت تھی اور خدا تو وہ ہستی ہے جو اِن ساری چیزوں سے بےپروا اور غنی ہے، اِس لئے مسیح کیسے خدا ہو سکتے ہیں؟"
(3) "الفاظ 'دونوں کھانا کھاتے تھے' اُن کی اِنسانیت کا اظہار ہیں کیونکہ ہر کوئی جو خوراک کھاتا ہے وہ فانی ہے۔" (لیکن الرازی نے اِس نکتہ نظر کو ضعیف قرار دیا ہے۔ )
ہ- پانچواں نظریہ مخلوق کا نفع و نقصان پہنچانے سے عاجز ہونا ہے:
سورة المآئدة 76:5 میں لکھا ہے:
"کہو کہ تم خدا کے سوا ایسی چیز کی کیوں پرستش کرتے ہو جس کو تمہارے نفع اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں؟ اور خدا ہی (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔
مفسّروں نے اِس آیت کو نصاریٰ کے قول کے فاسد ہونے پر دلیل ٹھہرایا ہے کیونکہ اُن کے خیال میں اِس سے کئی طرح کی حُجّت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔
(1) یہودی لوگ مسیح سے دشمنی کرتے اور ہر وقت اُن کے خلاف ریشہ دوانی کرتے رہتے تھے لیکن مسیح اُن کو کسی طرح کا بھی نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے تھے۔ اُن کے حواری و مددگار اُن سے بڑی محبت کرتے تھے لیکن وہ اُنہیں کسی طرح کا دنیوی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ اب جو نفع و نقصان پہنچانے پر قدرت نہ رکھے اُسے کس طرح خدا تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے البیضاوی نے لکھا ہے: "عیسیٰ کو کہ گویا یہ امتیاز حاصل تھا کیونکہ اللہ نے اُنہیں اِس کا مالک تو بنایا تھا لیکن یہ تملیک اُن کی ذاتی نہ تھی۔"
لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر یسوع محض قرآن کے ہی عیسیٰ ہوتے (یعنی قرآن نے جیسے اُنہیں پیش کیا ہے) یعنی بندہ و غلام عیسیٰ تو ہم ضرور یہ مان لیتے کہ اُن کی اپنی ذات میں نہ نفع پہنچانے کی سکت تھی نہ نقصان پہنچانے کی قدرت۔ لیکن جیسا یسعیاہ نبی نے بیان کیا ہے یسوع "قادر خدا" ہے۔ اور ہم تو اِس کےلئے شکر گزار ہیں کیونکہ مسیح کی رسالت نقصان اور مادی نفع سے بالاتر تھی، بلکہ اُن کی رسالت خلاص عاصیاں تھی اور قرآن نے اِسی حقیقت کا اظہار اِس طرح کیا ہے کہ مسیح رحمت للعالمین بن کر آئے تھے۔
(2) دوسری حُجّت یہ پیش کی جاتی ہے کہ مسیحی مذہب یہ مانتا ہے کہ یہودیوں نے مسیح کو صلیب پر لٹکا دیا تھا اور اُن کی پسلیاں چھید دی گئی تھیں اور جب وہ پیاسے ہوئے اور پانی مانگا تو اُنہوں نے اُن کے حلق میں سرکہ اُنڈیل دیا تھا۔ ایسی کمزوری اور بےبسی کی حالت رکھنے والے کو کیسے خدا مانا جا سکتا ہے؟
(3) تیسری بات یہ کہ کائنات کے مالک خدا کو اپنے سوا ہر چیز سے بےنیاز ہونا چاہئے اور اُس کے ماسوا ساری چیزوں کو اُس کا محتاج۔ اگر عیسیٰ بےنیاز ہوتے تو اللہ کی عبادت میں مشغول ہونے سے بھی بےنیاز ہوتے کیونکہ اللہ تو کسی کی عبادت نہیں کرتا۔ یہ تو اِنسان ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ بطریق تواتر یہ بات ثابت ہے کہ عیسیٰ طاعت و عبادت میں مصروف رہتے تھے اور ایسا خود نفع حاصل کرنے کےلئے اور دوسرے کی طرف دفع مضرّت کےلئے کرتے تھے۔ پھر جس کی یہ حالت ہو وہ بندوں کی طرف فوائد کیسے پہنچائے اور اُنہیں برائی سے کیسے بچائے؟ وہ ایسے ہی تھے، دوسرے عاجز بندوں کی طرح ایک بندہ تھے۔
اسلام اور مسیحیت کے درمیان مذاکرہ اور گفت و شنید کے بیچ جو چیز سب سے زیادہ آڑے آتی ہے وہ ہے مسیح میں الوہیت کا مسیحی عقیدہ، جسے اسلام میں کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کی مخالفت میں بہت سی قرآنی آیتیں ملتی ہیں جن میں سے چار بہت صریح ہیں جو سورة المآئدة میں ہیں، اور ایک سورة النساء میں واقع ہے۔
الف- پہلی آیت
"جو لوگ اِس بات کے قائل ہیں کہ عیسیٰ بن مریم خدا ہیں وہ بےشک کافر ہیں (ان سے) کہہ دو کہ اگر خدا عیسیٰ بن مریم کو اور اُن کی والدہ کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو اُس کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے؟" (سورة المآئدة 17:5)
اِس آیت کی شرح کرتے ہوئے الرازی کہتے ہیں کہ یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے کہ اگر مسیحیوں میں کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہیں تو پھر اِس طرح کی بات اللہ نے کیوں کہی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ 'حلولیہ' گروہ کے لوگ یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی اِنسان خاص کے بدن میں یا اُس کی رُوح میں حلول کر جاتا یا سما جاتا ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو یہ ماننا کچھ بعید بھی نہیں ہے کہ شاید نصاریٰ میں کچھ لوگ ایسی بات کہتے اور مانتے رہے ہوں گے۔ اور پھر مسیحی یہ مانتے ہیں کہ اقنوم الکلمة عیسیٰ کے ساتھ متحد تھا۔
اب اقنوم الکلمة یا تو ذات ہو گا یا صفت ہو گا۔ اگر ذات مانیں تو یہ ماننا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عیسیٰ میں اُتری اور سما گئی۔ تب تو عیسیٰ اللہ ہو گئے۔ اور اگر ہم اقنوم کو صفت سے تعبیر کریں تو پھر صفت کا ایک ذات سے دوسری ذات میں منتقل ہو جانا غیر معقول بات ہے۔
پھر ذات الہٰی سے عیسیٰ کی طرف اگر اقنوم علم کے انتقال کو تسلیم کریں تو خدا کی ذات کا علم سے خالی ہونا لازم آئے گا اور اِس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ جو عالم نہیں وہ اللہ نہیں۔ پھر تو نصاریٰ ہی کی بات کے مطابق عیسیٰ خدا ہو گئے۔ پس اِس سے ثابت ہے کہ نصاریٰ اگرچہ ایسی بات کُھل کر نہیں کہتے لیکن اُن کے مذہب کا نچوڑ یہی ہے۔
پھر اللہ سبحانہ نے اِس مذہب و عقیدہ کے فساد پر یہ کہہ کر حُجّت پیش کی ہے کہ اگر اللہ عیسیٰ بن مریم کو اور اُن کی والدہ کو ہلاک کرنا چاہے تو اُس کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے؟ اِن الفاظ سے مفسّروں نے یہ مُراد لیا ہے کہ عیسیٰ بھی شکل و صورت، بدن، صفات و احوال کے اعتبار سے اُن ہی لوگوں کی طرح ہیں جنہیں "لمن فی الارض" یعنی زمین والے کہا گیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
ب- دوسری آیت
"وہ لوگ بےشبہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ مریم کے بیٹے (عیسیٰ) مسیح خدا ہیں۔ حالانکہ مسیح یہود سے یہ کہا کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی (اور جان رکھو کہ) جو شخص خدا کے ساتھ شرک کرے گا۔ خدا اُس پر بہشت کو حرام کر دے گا۔ اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔" (سورة المآئدة 72:5)
امام الرازی کی اِس آیت پر شرح یہ ہے کہ: "اللہ نے جب یہودیوں کے ساتھ استقصاء کیا اور جہاں تک بات جاتی تھی کر چکا تو اِس آیت میں نصاریٰ کے معاملہ پر گفتگو کی اور اُن کے ایک گروہ کی حکایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کی ذات میں حلول کیا اور اُن کے ساتھ مل کر ایک ہو گیا۔"
ج- تیسری آیت
"وہ لوگ (بھی) کافر ہیں جو اِس بات کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے۔ حالانکہ اُس معبود یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اگر یہ لوگ ایسے اقوال (و عقائد) سے باز نہیں آئیں گے تو اُن میں جو کافر ہوئے ہیں وہ تکلیف دینے والا عذاب پائیں گے۔" (سورة المآئدة 73:5)
مسلمانوں نے اِس آیت کو لے کر مسیحیوں پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ تین خداﺅں یعنی اللہ، عیسیٰ اور مریم کی عبادت کرتے ہیں۔
الرازی نے مسیحیوں کے اِس عقیدہ کے بارے میں یہ بیان کیا ہے "نصاریٰ کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 'اللہ جوہر واحد اور تین اقانیم والا ہے یعنی باپ،بیٹا اور روح القدس۔ یہ تینوں ایک ہی خدا ہیں، مثلاً جیسے سورج میں قرص، شعاع اور حرارت (ٹکیا، کرن، گرمی) پائی جاتی ہے۔ مسیحی لوگ باپ سے مُراد ذات لیتے ہیں اور بیٹے سے مُراد الکلمہ اور رُوح سے مُراد زندگی لیتے ہیں۔ اُنہوں نے ذات، کلمہ اور زندگی کو اِس طرح ثابت کیا ہے کہ الکلمہ جو کہ اللہ کا کلام ہے عیسیٰ کے جسد میں جا کر گُھل مل کر ایک ہو گیا جیسے پانی اور شراب کا یا پانی اور دودھ کا اختلاط ہو جاتا ہے۔ مسیحیوں کا بھی یہی خیال ہے کہ باپ خدا ہے، اور بیٹا خدا ہے اور رُوح خدا ہے۔" پھر الرازی نے اِس تعلیق سے یہ شرح ختم کر دی کہ "معلوم ہونا چاہئے کہ یہ خیال بطلان اور خلاف عقل ہے کیونکہ تین ایک نہیں ہو سکتے اور ایک تین نہیں ہو سکتا۔"
د- چوتھی آیت
"اور (اُس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تُو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا ہو گا تو تجھ کو معلوم ہو گا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تُو اُسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اُسے میں نہیں جانتا بےشک تُو علاّم الغیوب ہے۔" (سورة المآئدة 116:5)
الرازی کو اِس آیت میں کئی باتیں نظر آئی ہیں:
پہلی تو یہ کہ اِس کا تعلق اللہ کے بیان "اے عیسیٰ ابن مریم ! میرے اُن احسانوں کو یاد کر جو میں نے تم پر کئے" سے ہے۔ وہ اِسے اُس شان و وجاہت سے ملاتا ہے جو عیسیٰ کو روزِ قیامت ہو گی۔
دوسری بات یہ کہ اللہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے۔ اور یہ جانتا ہے کہ عیسیٰ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی اور علام الغیوب کو اِس طرح کا سوال بھی زیبا نہیں دیتا تو پھر اِس طرح کا حضرت عیسیٰ سے خطاب کیوں؟ اِس کا اگر یہ جواب دیا جائے کہ اِس خطاب سے یہ غرض تھی کہ نصاریٰ کو ملامت اور برا بھلا کہا جائے تو ہم کہیں گے کہ کسی مسیحی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اللہ کے علاوہ عیسیٰ اور مریم دو خدا تھے۔ تو پھر ایسی بات کو اُن کی طرف منسوب کرنا جو اُنہوں نے کبھی کہی ہی نہیں کیسے جائز ہے؟
پہلا نکتہ کہ "کیوں وہ اُن سے مخاطب ہوا؟" کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ آیت استفہام انکاری کے طور پر لائی گئی یعنی اُنہوں نے اِس بارے میں کوئی تعلیم نہیں سکھائی۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے۔ حالانکہ مسیحی یہ مانتے ہیں کہ عیسیٰ اور مریم کے ہاتھوں جو معجزے ظاہر ہوئے اُن کے خالق یا کرنیوالے خود عیسیٰ تھے اور اللہ نے اُنہیں نہیں کیا تھا۔ اب ایسی بات ہوئی تو مسیحیوں نے کہا کہ اِن سارے معجزات کے خالق عیسیٰ و مریم تھے، اللہ نہیں تھا۔ سو کسی حد تک اُنہوں نے اِس بات کو مان لیا کہ عیسیٰ اور مریم اُس کے علاوہ دو خدا ہیں، ساتھ یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ خدا نہیں تھا۔ الرازی کا ماننا ہے کہ بہت سی حکایات اور روایات اِس تاویل کے ساتھ متفق ہیں۔
تاہم قرآن کے مُفسّروں کے درمیان اِس بات میں اختلاف رائے ہے کہ عیسیٰ سے اِس طرح کا سوال آخر اللہ نے کس وقت کیا؟
السدی کہتے ہیں کہ "جب اللہ نے عیسیٰ کو اپنی طرف اُٹھایا تھا تب یہ سوال کیا تھا کہ 'کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟'
لیکن قتادہ کی رائے ہے کہ "یہ سوال ابھی اُن سے کیا ہی نہیں گیا، قیامت کے دن کیا جائے گا۔" اِس رائے سے اتفاق کرنے والوں میں ابن جریح اور میسرة بھی ہیں۔
ہ- پانچویں آیت
"اے اہل کتاب اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ) خدا کے رسول اور اُس کا کلمہ (بشارت) تھے جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ تو خدا اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور (یہ) نہ کہو (کہ خدا) تین (ہیں۔ اِس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ خدا ہی معبود واحد ہے۔" (سورة النسآء 171:4)
ابو جعفر الطبری نے اِس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ "اے اہل انجیل یعنی نصاریٰ تم دین میں سچی بات سے تجاوز نہ کرو تا کہ افراط و تفریط کے مرتکب نہ بنو اور عیسیٰ کے حق میں سچی بات کے علاوہ اَور کچھ نہ کہو۔ اللہ کو ثالث ثلثہ (تین میں کا تیسرا) کہنے سے بچو کہ یہ اللہ پر جھوٹ اور اُس کے ساتھ شرک کرنے کی بات ہوئی۔ اِس سے بچتے رہو تو تمہاری اِس میں بھلائی ہے کیونکہ اِس طرح کی بات کہنے والے کےلئے جلد آنے والا عذاب ہے کہ اگر اپنی بات پر اڑے رہو گے اور سچی اور حق بات کی طرف رجوع نہ کرو گے۔
اسلام میں اِس اُلجھی ہوئی مشکل کی وجہ یہ اعتقاد ہے کہ تثلیث سے مراد تین خدا یعنی اللہ، عیسیٰ اور مریم ہیں۔ حالانکہ مسیحیت نے ایک عرصہ دراز سے یعنی اسلام سے پہلے کے زمانے میں اور بعد میں بھی پکار پکار کر کہا ہے کہ لفظ تثلیت کا تصور جو تین علیحدہ خداﺅں کو ظاہر کرتا ہو ہمارے ہاں موجود نہیں ہے۔ یہ تو بدعتی اور غلط تعلیم رکھنے والوں کے اوہام ہیں جنہیں مسیحی کلیسیا نے اپنی جماعت سے نکال باہر کیا تھا اور اُن کی اِس بدعت کو سختی سے کچلا گیا تھا۔ قبل از اسلام جاہلیت کے زمانے میں عرب میں ایسے بدعتی موجود تھے۔ اُنہی سے اسلام نے مسیحیت کا بگڑا ہوا تصور لیا اور اُسے حقیقی مسیحیت سمجھا۔
اِسلام میں مسیح کے اِنسانی پہلو پر بڑا زور دیا جاتا ہے اور اِس ضمن میں دو باتیں اہم ہیں: مسیح عبد ہیں ربّ نہیں، اور مسیح مثل آدم ہیں۔
الف- مسیح عبد ہیں، ربّ نہیں
قرآن نے مسیح کی زبان سے کہا: "میں خدا کا بندہ ہوں اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے۔ اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔" (سورة مریم 19: 30-32)
امام الرازی اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "عبد اللہ کے چار فوائد ہیں":
(1) پہلا فائدہ: یہ مسیحیوں کے اِس وہم کو دُور کرتا ہے کہ عیسیٰ خدا ہیں۔
(2) دوسرا فائدہ: مسیح نے جو اپنی بندگی اور عبودیت کا اقرار کیا ہے تو اگر وہ اپنی بات میں سچے تھے تو ہمارا مقصد پورا ہو گیا اور اگر اپنے قول میں سچے نہیں ہیں تو جو اُن میں قوت تھی وہ الٰہی قوت نہیں تھی بلکہ شیطانی قوت ہو گئی، چنانچہ دونوں صورتوں میں مسیح کا خدا ہونا باطل ہو گیا۔
(3) تیسرا فائدہ: اُس وقت کا اہم تقاضا یہ تھا کہ مریم کی ذات پاک سے زنا کی تہمت کا رد کیا جائے۔ پھر یہ کہ عیسیٰ نے اِس پر نص نہیں کیا بلکہ خود اپنی بندگی کے اثبات پر نص کیا ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ پر تہمت کو ہٹانا اُنہوں نے اپنی ماں پر لگائی گئی تہمت کو ہٹانے سے زیادہ ضروری سمجھا، اِس لئے خود کو خدا کا بندہ کہا۔
(4) چوتھا فائدہ: اللہ کی ذات پاک پر لگائی ہوئی تہمت کے ازالہ کی بات سے یہ فائدہ پہنچا کہ والدہ پر کی تہمت بھی زائل ہو گئی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی گری ہوئی فاجرہ عورت کو اِس عالی مرتبت اور عظمت والے بچہ یعنی مسیح عیسیٰ کی ماں بننے کےلئے مخصوص نہیں کر سکتا۔
اِس کے بعد وہ لاہوتیت مسیح کے مسیحی عقیدہ پر رائے زنی کرتے ہیں کہ "نصاریٰ کا مذہب خبط سے بھرا ہوا ہے یعنی ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نہ جسم ہے اور نہ حیّز ہے، اِس کے باوجود ہم اُن کی ایک ایسی تقسیم کا ذکر کرتے ہیں جو اُن کے مذہب کے بطلان کےلئے کافی ہے۔ چنانچہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر وہ اللہ کو کسی حیّز میں مانیں تو اجسام کے حدوث پر اُن کے قول کو ہم نے باطل کر دیا۔ اگر وہ مانیں کہ اللہ کو کوئی حیّز نہیں تو اُن کے یہ کہنے سے اُن کی اِس بات کا بُطلان ہو گا کہ اللہ کا کلمہ اِنسانیت سے اِس طرح مخلوط ہو گیا جیسے پانی شراب میں یا آگ انگارہ میں، کیونکہ ایسی بات کا ہونا جسم میں ہی سمجھ میں آ سکتا ہے۔"
راقم الحروف کا خیال ہے کہ مسیح کی شخصیت پر قرآن کی رائے زنی اور غور و فکر دو حقیقتوں پر منحصر معلوم ہوتی ہے اور اُن میں ایک ایسا بھید ہے جسے فطری اِنسان سمجھ نہیں پاتا۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ مسیح ابن مریم ہونے کے ناطے عبد اللہ (خدا کے بندے) ہیں۔ اِس حقیقت کا اظہار انبیاء کرام نے اپنی زبان سے ادا کیا، مثلاً یسعیاہ نبی کے صحیفے 53 باب کی تیرھویں آیت ملاحظہ ہو جہاں لکھا ہے کہ: "دیکھو میرا خاد م اقبالمند ہو گا۔ وہ اعلیٰ و برتر اور نہایت بلند ہو گا۔"
پھر اِسی صحیفے کے 53 باب کی گیارھویں آیت میں لکھا ہے کہ: "اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راستباز ٹھہرائیگا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خو د اُٹھا لیگا۔"
دوسری حقیقت یہ ہے کہ مسیح کے بندہ ہونے کی صفت کی قرآن کی اُس آیت سے نفی نہیں ہوتی جس میں اُنہیں اللہ کا کلمہ اور اُس کی رُوح کہا گیا ہے۔
اِس نص قرآنی میں جو کہ دو پہلو کی حامل ہے جو شخص گہرائی سے غور و فکر کرے گا اُس پر پولُس رسول کا یہ اعلان خوب ظاہر جائے گا جس کا ذکر رومیوں 4: 1-4 میں ملتا ہے کہ: " (یسوع مسیح) جسم کے اعتبار سے تو داﺅد کی نسل سے پیدا ہوا۔ لیکن پاکیزگی کی رُوح کے اعتبار سے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب سے قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ٹھہرا۔"
ب- مسیح مثلِ آدم ہیں
سورة اٰل عمرٰن 59:3 میں لکھا ہے کہ: "عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اُس نے (پہلے) مٹی سے اُن کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے۔"
ابی جعفر الطبری کی کتاب جامع البیان میں لکھا ہے کہ "اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد نجران سے آئے ہوئے نصاریٰ کو بتا دو کہ میرا عیسیٰ کو بلا کسی مرد کے پیدا کر دینا ویسا ہی ہے جیسا میں نے آدم سے کہا تھا کہ ہو جا تو وہ بلا کسی نر و مادہ کے وجود میں آ گیا۔ چنانچہ بلا کسی مرد کے اُن کی ماں سے عیسیٰ کو خلق کرنا میرے آدم کو خلق کر دینے سے زیادہ عجیب نہیں ہے۔"
محمد بن سعد نے اپنے باپ سے اور اُن کے باپ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ "شہر نجران سے ایک جماعت آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی، اُن میں سید اور عاقب تھے۔ اُنہوں نے محمد سے پوچھا 'آپ ہمارے صاحب کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟' اُنہوں نے جواباً پوچھا 'تمہارے صاحب کون ہیں؟' کہا گیا 'عیسیٰ جن کو آپ اللہ کا بندہ کہتے ہیں۔' حضرت محمد نے جواب دیا 'ہاں ہاں وہ تو اللہ کے بندے تھے۔' اِس پر وہ لوگ بولے 'کیا آپ نے عیسیٰ کی طرح کسی اَور کو بھی دیکھا ہے یا اُن جیسے کسی اَور کے بارے میں آپ کو خبر ہے؟' یہ کہہ کر وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔ پھر اللہ سمیع علیم کی طرف سے جبریل یہ پیغام لے کر آئے کہ 'جب دوبارہ وہ لوگ آئیں تو اُن سے کہو ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم۔'"
ایک اَور روایت ہے جو محمد بن الحسین، احمد بن المفضل کے سلسلہ میں السدی نے کی ہے کہ "جب محمد مبعوث ہوئے اور نجران کے لوگوں کو آپ کی خبر ہوئی تو نجرانیوں کی طرف سے چار ایسے اشخاص آپ کے پاس بھیجے گئے جو قوم میں اعلیٰ مرتبہ کے حامل تھے، یعنی العاقب، السید، ماسرجس اور ماریجز۔ جب یہ آئے تو آنحضرت سے پوچھا کہ آپ کا خیال عیسیٰ کے بارے میں کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا 'وہ اللہ کے بندے اور اللہ کی رُوح اور اللہ کا کلمہ ہیں۔' اِس پر وہ بولے 'نہیں، وہ تو اللہ ہیں جو اپنی بادشاہی چھوڑ کر نیچے اُترے اور مریم کے بطن میں چلے گئے، پھر وہاں سے پیدا ہوئے اور ہم پر ظاہر ہوئے۔ کیا آپ نے کبھی ایسا بھی آدمی دیکھا ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا ہو؟' اِس پر اللہ نے آیت نازل کی کہ 'ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم۔'"
ایک تیسری روایت بسلسلہ القسام، ابن جریج اور عکرمة بیان کی جاتی ہے کہ "ہمیں پتا چلا کہ نجران کے نصاریٰ کا ایک وفد آنحضرت کے پاس آیا جس میں عاقب اور سید بھی تھے جنہوں نے پوچھا 'اے محمد آپ ہمارے صاحب کو کیوں برا بولتے ہیں؟' آپ نے فرمایا 'تمہارے صاحب کون ہیں؟' اُنہوں نے کہا مریم کے بیٹے عیسیٰ جنہیں آپ بندہ اور خادم بتاتے ہیں۔' آپ نے فرمایا 'ہاں اللہ کے بندہ بھی تھے اور وہ اللہ کا کلمہ بھی تھے جو مریم کی طرف پہنچایا گیا تھا اور اللہ کی طرف سے بھیجی گئی رُوح بھی تھے۔' آپ کے اِن الفاظ پر اُنہیں غصہ آ گیا اور وہ بولے 'اگر آپ سچ کہتے ہیں تو ہمیں کوئی ایسا بندہ دکھائیے جو مُردے زندہ کر دیا کرتا ہو، جنم کے اندھوں کو بینائی عطا کر دیتا ہو اور کوڑھیوں کو صحت عطا کرتا ہو، اور جو سَنی ہوئی مٹی سے پرند جیسی چیز بنا کر اُس میں پھونک دیتا ہو اور وہ زندہ پرند بن جاتا ہو؟' اِس پر آنحضرت خاموش رہے حتیٰ کہ جبریل آئے اور کہا 'اے محمد کفر بکا اِن لوگوں نے جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ تو مسیح ابن مریم ہی ہے۔' آنحضرت نے کہا 'جبریل اُنہوں نے تو یہ پوچھا ہے کہ عیسیٰ جیسا اَور کون ہے؟' تب جبریل بولے 'عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے۔'"
الف- مسیح کی الوہیت
اِس میں شک نہیں کہ جو شخص مسیحیت کی باتوں کو جاننے میں دلچسپی رکھے گا اُسے کئی اہم اور سنجیدہ مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا اور شاید اُن سب میں سخت مسئلہ مسیح کی طرف الوہیت کی منسوبی کا مسئلہ ہے۔
اِس سے میری مُراد مسیحیوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ یسوع جس نے فلسطین میں جنم لیا ایک کنواری مریم نام کی عورت سے پیدا ہو کر اُس نے اِسی سرزمین پر کچھ عرصہ زندگی گزاری، وہ ابن اللہ بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ خدا بیٹا بھی ہے۔
یہ اعتقاد اکثر بڑا مشکل نظر آتا ہے، لیکن یاد رہے کہ کسی سوال کا مشکل ہونا مسیحی مذہب کو واحد سچا دین ہونے سے روک نہیں دیتا۔ ذاتِ باری واحد میں تین اقانیم کے وجود کا مسیحی عقیدہ اِس بات کو ضروری قرار نہیں دیتا کہ ایک دوسرے سے وقت میں مقدم ہے یا یہ کہ ایک دوسرے سے کسی بھی طرح سے بڑا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اُس نے اِن تین اسماء کے ذریعے اپنے ظہور کا اعلان کیا ہے تا کہ اِنسان کے فدیہ کا الہٰی انتظام آشکارا ہو جائے۔
ب- خدا کی ابوّت
مسیح کی الوہیت پر غور کرنے سے پہلے آئیے ہم اُن بیانات اور مشہور اعلانات کو پڑھیں جو کتاب مُقدّس (بائِبل) میں مسیح کے تعلق سے خدا کی ابوت کے بارے میں ہیں:
اِنجیل مُقدّس لوقا 1: 32،31 میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتہ نے مُقدّسہ مریم سے کہا: "دیکھ تُو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا۔ اُس کا نام یسوع رکھنا۔ وہ بزرگ ہو گا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔"
جب یسوع کی پیدایش ہوئی تو یسعیاہ نبی کی نبوت پوری ہوئی: "دیکھو ایک کُنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمّانوایل (خدا ہمارے ساتھ) رکھے گی" (یسعیاہ 14:7;متی 23:1)۔
پھر ہم یسوع کے بپتسمہ کے وقت کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ: "اور یسوع بپتسمہ لے کر فی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اُس کےلئے آسمان کُھل گیا اور اُس نے خدا کے رُوح کو کبوتر کی مانند اُترتے اور اپنے اُوپر آتے دیکھا۔ اور آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں" (متی 3: 17،16)۔
مزید برآں ہم پڑھتے ہیں کہ جب یسوع پہاڑ پر اپنے تین شاگردوں کے ساتھ تھے تو آپ نے موسیٰ اور ایلیاہ سے کلام کیا اور ابھی مصروف تکلم ہی تھے کہ "ایک نورانی بادل نے اُن پر سایہ کر لیا اور اُس بادل میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں اِس کی سُنو" (متی 5:17)۔
ج- مسیح کے بیان
آئیے اب اُن اعلانوں کو دیکھیں جو مسیح نے خود اپنی طرف کئے ہیں۔
مسیح نے اپنی ایک تمثیل میں بیان کیا ہے کہ: "انگور کا حقیقی درخت میں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے" (یوحنا 1:15)۔
پھر یوحنا 10: 27-29 میں لکھا ہے کہ: "میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور میں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔ اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہونگی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔ ... کوئی اُنہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔"
پھر اپنے الوداعی پیغام میں مسیح نے فرمایا: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مُجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کریگا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کریگا کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے میں وہی کرونگا تا کہ باپ بیٹے میں جلال پائے" (یوحنا 14: 13،12)۔
ایک مو قع پر یہودی لوگ فخریہ کہنے لگے کہ موسیٰ نے تو اُنہیں من و سلویٰ بیابان میں دیا تھا تو مسیح نے اُنہیں فرمایا: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ موسیٰ نے تو وہ روٹی آسمان سے تمہیں نہ دی لیکن میرا باپ تمہیں آسمان سے حقیقی روٹی دیتا ہے" (یوحنا 32:6)۔
ایک اَور موقع پر دوسرے لوگوں سے مسیح نے فرمایا: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوا اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے۔ اِس لئے کہ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خود کرتا ہے اُسے دکھاتا ہے ... جس طرح باپ مُردوں کو اُٹھاتا اور زندہ کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔ کیونکہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔ تا کہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ ... میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ ابھی ہے کہ مُردے خدا کے بیٹے کی آواز سُنیں گے اور جو سُنیں گے وہ جئیں گے" (یوحنا 5: 19-25)۔
بعد ازاں لوگوں کو تعلیم دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی گناہ کرتا ہے گناہ کا غلام ہے۔ اور غلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا بیٹا ابد تک رہتا ہے۔ پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کریگا تو تم واقعی آزاد ہو گے" (یوحنا 8: 34-36)۔
لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار آپ نے فرمایا: "میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں۔ اِس سبب سے یہودی اَور بھی زیادہ اُسے قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ نہ فقط سبت کا حکم توڑتا ہے بلکہ خدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بناتا ہے" (یوحنا 5: 17-18)۔
اِسی طرح ایک مرتبہ اپنے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: "میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سوا باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سوا بیٹے کے اور اُس کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے۔ اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آﺅ۔ میں تم کو آرام دُوں گا" (متی 11: 27-28)۔
اب اِن سارے اعلانوں پر غور کریں تو لگتا ہے کہ نہ کوئی انسان، نہ کوئی نبی اور رسول، نہ آسمان کا کوئی فرشتہ، نہ کوئی فرشتوں کا سردار یسوع مسیح کی عجیب و غریب شخصیت کے بھید کا ادراک کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اِسی نکتہ کی طرف یسعیاہ نبی نے بھی اشارہ کیا تھا۔ اِس سے اِس بات کی بھی بخوبی صراحت ہو جاتی ہے کہ یسوع مسیح کی ذات و شخصیت ایسی غیر محدود ہے کہ سوا باپ کے اَور کسی کو مقدور نہیں کہ اُسے پورے طور پر سمجھ سکے۔ اگر یسوع ایک عام اِنسان ہوتے تو اِس قسم کا بیان نہ دیا گیا ہوتا۔ بلاشک و شبہ یہ عظیم اعلان باپ کے ساتھ اُس کی وحدت ازلیہ کے اعتبار سے مسیح کی رسالت و خدمت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اُس باپ کو جو اندیکھا ہے لوگوں پر ظاہر و منکشف کرے۔
یہ مکاشفہ جس کا اعلان مسیح نے کیا ایک ناقابل فہم معمہ نظر آ سکتا ہے، لیکن رُوح القدس نے انجیل یوحنا کے مصنف کو اِس کا الہام کر دیا تا کہ وہ آیتوں کے ایک سلسلے کے ذریعے اِس کی وضاحت کر سکے، جس میں سے واضح تر یہ ہے کہ "خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے ظاہر کیا" (یوحنا 18:1)۔ یہ آیت ہمیں یقین دلاتی ہے کہ نہ کسی بشر نے، نہ کسی فرشتہ نے ہی کبھی خدا کو دیکھا ہے، نہ اُس کی شایان شان کماحقہ علم سے جانا ہے یا ادراک کیا ہے یعنی اُس کی الوہی صفات کے ساتھ کبھی کسی نے خدا کو نہ دیکھا نہ جانا ہے اور جو کچھ بھی منکشف ہوا تو وہ الہام سے یا رویا سے ہی حاصل ہوا ہے۔ چنانچہ نہ کبھی موسیٰ نے نہ کسی اَور نبی نے کبھی خدا کو دیکھا ہے، ہاں جو کچھ خدا کے بارے میں معرفت ملی ہے وہ الہام یا رویا کی بدولت ملی ہے جس کا ذریعہ اقنوم ثانی یسوع مسیح تھا کیونکہ تنہا وہی ایک ایسی شخصیت ہے جو ذات باری کے اقانیم ثلثہ کے افکار کو جانتا ہے اور عالم کےلئے الٰہی مقاصد کا حکم رکھتا ہے اور وہی جسد اِنسانی میں ظاہر ہوا (1۔ تیمتھیس 16:3)۔
جب مسیح نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ میں اور باپ ایک ہی ہیں، جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا، میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے; تو وہ اُنہیں یقین دلا رہے تھے کہ اُن کے اور باپ کے درمیان ایک وحدت ہے کہ ارادہ و مشیئت میں، مقام و مرتبت و قدرت میں اور مجد و عظمت میں باعتبار جوہر وہ اور باپ ایک ہیں۔
د- رسولوں کی گواہی
(1) مسیح کے شاگرد پطرس رسول نے آپ کے بارے میں اُس وقت بڑی صاف گواہی دی جب مسیح نے اپنے شاگردوں سے پوچھا کہ "تم مجھے کیا کہتے ہو؟ شمعون پطرس نے جواب دیا تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے" (متی 16: 16،15)۔
(2) مسیح کے ایک دوسرے شاگرد یوحنا نے آپ کے بارے میں یہ شہادت دی: "(ہم) یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آ گیا ہے اور اُس نے ہمیں سمجھ بخشی ہے تا کہ اُس کو جو حقیقی ہے جانیں اور ہم اُس میں جو حقیقی ہے یعنی اُس کے بیٹے یسوع مسیح میں ہیں۔ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے" (1۔ یوحنا 20:6)۔
(3) مسیح کے شاگرد پولُس نے گلتیوں 4:4 میں یہ گواہی دی ہے کہ: "لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا۔ تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لیکر چھڑا لے اور ہم کو لےپالک ہونے کا درجہ ملے۔"
ہ- انبیاء کی گواہی
(1) حضرت سلیمان نے فرمایا: "کون آسمان پر چڑھا اور پھر نیچے اُترا؟ کس نے ہوا کو مٹھی میں جمع کیا؟ کس نے پانی کو چادر میں باندھا؟ کس نے زمین کی حدود ٹھہرائیں؟ اگر تُو جانتا ہے تو بتا اُس کا نام کیا ہے اور اُس کے بیٹے کا کیا نام ہے؟ خدا کا ہر ایک سُخن پاک ہے۔ وہ اُن کی سپر ہے جن کا توکل اُس پر ہے" (امثال 30: 5،4)۔
(2) حضرت دانی ایل (دانیال) نے فرمایا: "میں نے رات کو رویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدمزاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدیم الایّام (خدا) تک پہنچا۔ وہ اُسے اُس کے حضور لائے۔ اور سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تا کہ سب لوگ اور اُمّتیں اور اہلِ لُغت اُس کی خدمت گزاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہو گی" (دانی ایل 7: 14،13)۔
(3) حضرت یحییٰ (یوحنا بپتسمہ دینے والے) نے فرمایا: "تم خود میرے گواہ ہو کہ میں نے کہا میں مسیح نہیں مگر اُس کے آگے بھیجا گیا ہوں۔ ... جو اُوپر سے آتا ہے وہ سب سے اُوپر ہے۔ ... جو کچھ اُس نے دیکھا اور سُنا اُسی کی گواہی دیتا ہے اور کوئی اُس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ ... باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے اور اُس نے سب چیزیں اُس کے ہاتھ میں دے دی ہیں۔ جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھے گا بلکہ اُس پر خدا کا غضب رہتا ہے" (یوحنا 3: 28-36)۔
یہ ساری آیتیں پیش کرنے کے بعد یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مسیح کو جو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے وہ ذاتِ الہٰی کے اقنوم ثانی ہونے کی حیثیت سے کہا گیا ہے۔ چنانچہ لفظ باپ اور بیٹا مسیحی عقیدہ میں اُس قسم کے تصور سے جو اِنسان کے ہاں باپ بیٹے کا ہے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔
کتاب مُقدّس بائِبل میں الابن (بیٹا) الکلمہ کو کہا گیا ہے جو نادیدہ خدا کی صورت ہے، اُس کے جلال کا پرتو اور اُس کی ذات کا نقش اور عمانوایل (خدا ہمارے ساتھ) ہے۔ اِس سب سے لفظ ابن کا اظہار ہوتا ہے۔ بالکل جس طرح کلمہ (بات) ذہن کے خیالات کی وضاحت کا وسیلہ ہوتا ہے اور جو کچھ عقل میں ہے اُس کا ظاہری طور پر اعلان کرتا ہے اُسی طرح جب کلمہ نے جسم اختیار کیا تو اُس نے خدا اور اُس کے خیالات کو اِنسانیت پر ظاہر کیا۔ جس طرح نقش کسی ہئیت و صورت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یسوع مسیح خدا تعالیٰ کی ترجمانی کرتے ہیں، جس طرح سورج کی روشنی جو کہ خود سورج کا جوہر ہی ہوتی ہے اُس کی شان و شوکت کو ظاہر کرتی ہے اُسی طرح یسوع کے ذریعہ خدا کے مجد و عزت، شان و جلال اور الوہیت کی روحانی ماہیت کی شان و عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ بس ہوا یہ ہے کہ اُس نے اپنی محبت کی زیادتی کے باعث اُسے بدن کی چادر میں لپیٹ کر چھپا دیا ہے، اور وہ ہماری دُنیا میں رہا تا کہ ہم خدا کو دیکھ اور سُن سکیں۔
اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اُس سے یہ معلوم ہوا کہ الابن (بیٹا) وہ ہستی ہے جس نے الوہیت کو ظاہر کیا اور وہ اِنسانوں پر خدائے نادیدہ کو منکشف کرنے کا بھی ذریعہ تھا۔ اِسی طرح رُوح القدس جو اقنوم ثالثہ ہے اِنسان کے ضمیر تک خدا کی آواز پہنچانے کا ذریعہ ہے، کیونکہ ہم رُوح القدس کے کام کے بغیر مکاشفہ کی حقیقی نوعیت کو سمجھ نہیں سکتے، جو اعلانات الہٰیہ کے اسرار و غوامض کو اِنسان پر ظاہر کرتا ہے اور اُس کے ادراک کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اِسی حقیقت کو جان لینے کے بعد پولُس رسول نے یہ کہا کہ "نہ کوئی رُوح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خداوند ہے" (1۔ کرنتھیوں 3:12)۔
اِس کا بڑا امکان رہتا ہے کہ لفظ "بیٹا" (ابن) کچھ لوگوں کے دماغ میں اضطراب و بےچینی کا باعث بن جائے، کیونکہ وہ لفظ "باپ" کے ساتھ اِس کے تعلق سے فوراً تصور کرتے ہیں کہ باپ تو زمانی لحاظ سے بیٹے سے پہلے ہوتا ہے، اِس لئے دونوں ہستیوں میں زمانہ اور فرق مراتب کی وجہ سے بڑا فرق پڑنا ضروری ہے۔ لیکن اِس مقام پر ہم یہ بتاتے چلیں کہ لفظ بیٹا بوجہ مضافین ہونے کے کسی طرح بھی نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ یعنی عدم مساوات اور تقدیم کے معنٰی کی طرف اشارہ ہی نہیں کرتا، کیونکہ لفظ باپ کا جب خدا پر اطلاق کیا جائے تو یہ اُس وقت تک بےمعنٰی ہو گا جب تک ایک بیٹا نہ پایا جائے، اور لفظ بیٹا بھی اِسی طرح باپ کے وجود کا محتاج ہوتا ہے۔ کتاب مُقدّس کی تعلیم یہی ہے کہ ازل سے باپ ہے اور باپ کا لقب خود ہی بالضرورة ازل سے ہی ابن کا وجود چاہے گا اور شاید اِسی خیال نے مساوات و برابری کے موضوع پر عقلی پراگندگی کو جنم دیا ہے اور یہ پراگندگی عموماً ذہن اِنسانی کو لاحق ہوتی ہے اور اُنہیں باپ کے وجود کی سبقت کی طرف لے جاتی ہے اور دونوں (باپ بیٹے) کی ہستیوں کے درمیان فارق زمنی کے تصور کی بنیاد ڈالتی ہے۔ لیکن حقیقی تعبیر یہی ہے کہ بلا تقدم و تاخر اُس وقت تک باپ کا وجود نہیں جب تک کہ بیٹا نہ ہو، اِس لئے خدا تعالیٰ اور اُس کے بیٹے مسیح کے ساتھ زمانہ کے فرق کو منسوب کرنا محض ایک خیالی اور موہومی بات ہے خصوصاً اُس وقت تو اَور بھی جبکہ اُس کے ساتھ یہ بھی جوڑ دیا جائے کہ اللہ تو وہ ذات ہے جو نہ جنما گیا نہ جنم دیتا ہے (عام لوگ دُنیا میں ولادت کے معنٰی یہی لیتے ہیں کہ جنم ہونا نر و مادہ کے اختلاط سے ہے)۔ لیکن جنم کی نسبت خدا کی طرف کرنا بڑی نیچ سی بات ہے، اِس خیال سے ہر مسیحی پناہ مانگتا ہے اور اِسے کفر مان کر رد کرتا ہے۔ ہاں رُوحانی ولادت کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف کرنا عقل سے زیادہ قریب ہے۔
ہم ایسی تعبیروں، عبارتوں اور الفاظ کا بکثرت استعمال کرتے ہیں جیسے ابن الحق (سچائی کا بیٹا) یا ابن النُّور (نور کا بیٹا)، جو کہ اِس خیال کی ترجمانی کرتے ہیں کہ اِن کے اور سچائی اور نور کے درمیان تماثل تام ہے۔ اِسی معنٰی میں مسیح بھی ابن اللہ کہے گئے ہیں کیونکہ خدا میں اور بیٹے میں ایک مکمل مماثلت ہے اور باہمی مشابہت و رفاقت ہے، مسیح کو ایسا اِس لئے کہا گیا ہے کیونکہ وہ خدا کی شخصیت کے ایک ازلی، مکمل اور واحد مکاشفہ ہیں، جیسا کہ ہم عبرانیوں کے خط 1: 2،1 میں بھی پڑھتے ہیں کہ: "اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصّہ بہ حصّہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلے سے اُس نے عالم بھی پیدا کئے۔"
"لوگ مجھے کیا کہتے ہیں؟" یہ ایک سوال ہے جو مسیح نے دو ہزار سال پہلے اپنے شاگردوں کے سامنے رکھا تھا۔ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے جس کی صدائے بازگشت تب سے آج تک عالم میں گونج رہی ہے اور آج بھی یہ ہر شخص سے پوچھا جا رہا ہے۔ شاید اِس سوال سے زیادہ اہم اور بڑا سوال تاریخ میں کبھی پوچھا ہی نہیں گیا۔ اِس کی اہمیت اِس لئے ہے کہ اِس سوال میں ساری اِنسانیت سے تعلق رکھنے والا مسئلہ نہاں ہے۔ یہ سوال جب تک دُنیا قائم ہے جُوں کا تُوں بنا رہے گا۔ مذاہب و اعتقاد کے بیچ اِس سوال نے ایک خط فاصل کھینچ دیا ہے، اِسی کے جواب پر ہر شخص کا انجام منحصر ہے۔
مسیحیت کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ جو کچھ سیدنا مسیح کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ اُس سے خوفزدہ نہیں۔ مسیح نے خود ہی اِس مذہب کی تعمیر اُس قوت پر کی ہے جس پر جہنم کے دروازے کبھی غالب نہیں آ سکتے۔ مسیح نے خود آزادی رائے کو بڑھایا اور سراہا ہے، اور کہیں پر بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ آپ نے زبردستی کسی بات کو کسی پر تھوپا ہو۔ مسیحیت کی تاریخ کے کسی بھی دور میں مسیح کی ذات و شخصیت کے بارے میں کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ اُس ایمان کو اہمیت دی گئی ہے جو یقین کامل پر قائم ہو اور جسے دل و دماغ دونوں تسلیم کریں۔ اِسی بنیاد پر ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ لوگ مسیح کی الوہیت کو زبردستی کیوں منظور کریں؟ یا ایسی رائے پیش کی ہی کیوں جائے اور لوگ ایسے اٹل ہو جائیں کہ اگر کوئی اُس کے خلاف کبھی کچھ کہہ بھی دے تو غیظ و غضب میں آ جائیں۔ اِس لئے ہم وہ تمام مختلف آرا قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں جو مسیح کے بارے میں رکھی گئی ہیں۔
الف- مسیح میں صرف کامل الوہیت تھی:
غناسطی فرقہ نے عام مسیحیوں کے عقیدہ کے خلاف یہ مانا کہ مسیح صرف ایک الوہی وجود تھے۔ یہ لوگ عقیدہ تجسم کے بھی قائل نہ تھے، جبکہ عام مسیحی یہ مانتے ہیں کہ مسیح میں الوہیت بھی تھی اور اِنسانیت بھی، لیکن غناسطی لوگوں نے اُن کی اِنسانیت کا انکار کیا۔ اُن لوگوں کا کہنا تھا کہ مسیح اِنسان کی شکل میں تو ضرور ظاہر ہوئے لیکن وہ اِنسانی جسم کوئی حقیقی جسم نہ تھا، نہ ہی اُن کی ولادت ہوئی، نہ اُنہوں نے دُکھ اُٹھایا، اور نہ حقیقی موت کا مزہ چکھا کیونکہ جو جسم اُن کے ساتھ نظر آ رہا تھا وہ اصل میں ایک ظل یا چھایا تھا۔ پھر بعد میں اِس فرقہ میں ایک اَور جماعت پیدا ہوئی جس نے یہ مانا کہ مسیح کا بدن اِنسانوں کے بدن کی طرح مادی نہ تھا بلکہ وہ ایک خاص آسمانی جوہر تھا۔
تاہم یہ رائے خدا کے الہامی کلام کی سچائی کی روشنی میں باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ ہم 1۔ یوحنا 4: 1 -3 میں پڑھتے ہیں کہ:
"اے عزیزو! ہر ایک رُوح کا یقین نہ کرو بلکہ رُوحوں کو آزماﺅ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں یا نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے نبی دُنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ خدا کے رُوح کو تم اِس طرح پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی رُوح اقرار کرے کہ یسوع مسیح مجسم ہو کر آیا ہے وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اور جو کوئی رُوح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے نہیں اور یہی مخالفِ مسیح کی رُوح ہے جس کی خبر تم سُن چکے ہو کہ وہ آنے والی ہے بلکہ اب بھی دُنیا میں موجود ہے۔"
ب- مسیح صرف اِنسان تھے:
یہ عقیدہ بھی غناسطی عقیدہ سے کم تعجب خیز نہیں کیونکہ اِس خیال کے پیرو مسیح میں الوہیت کو نہیں مانتے اور صرف اُن کی اِنسانیت پر یقین کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسیح ایک کامل ترین اِنسان تھے، یعنی زمین پر پائے جانے والے سارے لوگوں میں سے سب سے اعلیٰ اِنسان تھے۔ اِس لئے اُن کی عظمت و بزرگی کو ایک عظیم رہنما اور سورما اور شہید کے طور پر ماننا چاہئے۔ غالباً اِس کا سب سے عمدہ جواب وہ ہے جو ڈاکٹر کونراڈ نے دیا ہے کہ: "جو لوگ اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں بڑی غلطی پر ہیں کیونکہ اُن کےلئے مسیح کو کوئی رہنما یا ہیرو ماننا مشکل ہے، وجہ یہ ہے کہ جو کچھ خود مسیح نے اپنے بارے میں کہا ہے اُسی کو اِن لوگوں نے رد کر دیا ہے! ایسی حالت میں مسیح کی دو ہی حیثیتیں ہو سکتی تھیں یعنی یا تو وہ خود سب سے بڑے دھوکہ باز تھے اور یا وہ خود دھوکے میں تھے، اور اِن صورتوں میں وہ خود ایک بڑی قابلِ رحم ہستی ہوئے، پھر اُنہیں عزت و شرف دینا بےوقوفی ہے۔ حقیقت میں بات تو یہ ہے کہ اگر مسیح قابلِ پرستش نہیں تو اُنہیں عزت کا کوئی مقام دینے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ جس چیز کے متقاضی تھے یعنی عبادت و اجلال وہ تو اُنہیں دیا ہی نہیں جا سکا۔"
ج- مسیح کی شخصیت میں الوہیت اور اِنسانیت کی یگانگت:
یہ وہ رائے ہے جو مسیحی اُمّت یا کلیسیا میں شروع سے رائج ہے، اِس لئے اِسے قبولیت عام حاصل ہے اور اِسی کی منادی و بشارت کی جاتی ہے۔ اِس رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح میں دو کامل طبیعتیں تھیں، کیونکہ وہ کامل خدا اور کامل انسان ہے۔
شاید پوچھنے والا پوچھ بیٹھے کہ آخر کلیسیائی کونسلوں اور لوگوں کے سامنے آخر وہ کیا مجبوری تھی جس نے الوہیت مسیح کو تسلیم کرنے پر آمادہ کیا؟ اور یہ اعتقاد ایسا جڑ پکڑ گیا کہ لاتعداد اِنسانوں نے اِس کی حفاظت میں اپنی جان عزیز کو داﺅ پر لگا دیا اور شہادت حاصل کی؟ کیوں اِس اعتقاد کے ماننے والوں میں بڑے بڑے مفکّرین تھے جو ہر زمانہ میں رہے ہیں، اور آخر اُن کے پاس ایسی کون سی حُجّت اور دلیل قاطع تھی جس پر اُن کا تکیہ تھا؟
ایسے سوالات کے جوابات دینے ضروری ہیں۔ آئیے وہ ثبوت دیکھیں:
(1) نبوتوں پر مبنی ثبوت:
آغازِ تاریخ سے کتاب مُقدّس کی آخری کتاب کے قریباً چار ہزار سال کے درمیانی عرصے میں ہمیں نبوتوں اور پیشینگوئیوں کی متواتر اور مسلسل کڑیاں نظر آتی ہیں۔ اِن پیشینگوئیوں کو مسیحیوں کی ایجاد کہہ کر ٹال دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ مسیحیت کے جنم لینے سے بہت پہلے یہ نبوتیں الہامی کتابوں کے طوماروں پر لکھی تھیں۔ اِن میں سے آخری کتاب کا تعلق تقریباً مسیح کی آمد سے چار سو سال پہلے کے عرصے سے ہے۔ اِن نبوتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمان سے اِنسانی صورت میں ایک الہٰی شخص ظاہر ہو گا تا کہ دُنیا کا نجات دینے والابن سکے۔ یہ ہستی ابراہیم کی نسل سے اور عورت کے پیٹ سے جنم لے گی، یہاں تک کہہ دیا گیا کہ وہ یہوداہ کے قبیلے اور داﺅد کے گھرانے سے ہو گا۔ ایک کنواری سے پیدا ہو گا جس میں کسی قسم کا عیب یا گندگی نہ ہو گی، اور وہ شہر بیت لحم یعنی داﺅد کے شہر میں پیدا ہو گا۔ اِس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ہستی خدائے قادر ابدی و سرمدی ہو گی۔ اب دیکھئے یہ باتیں اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک تجسم واقع نہ ہو اور لاہوت ناسوت کو لپیٹ میں نہ لے اور اُن کا اتحاد عمل میں نہ آئے۔ اِن باتوں کی تائید کرنے والی آیتیں یہ ہیں:
"ہمارے لئے ایک لڑکا تولُّد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مشیر خدای قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہو گا۔" (یسعیاہ 6:9)
"خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کُنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمّانُوایل رکھے گی۔" (یسعیاہ 14:7)
متی 23:1 میں بتایا گیا ہے کہ عمّانُوایل کا مطلب ہے 'خدا ہمارے ساتھ '۔
"یہواہ نے میرے خداوند سے کہا تُو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ میں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاﺅں کی چوکی نہ کر دوں۔" (زبور 1:110)
یہ عبارت بڑی اہمیت کی حامل ہے جس کی تفسیر ہمیں سوائے ایمان کے اَور کوئی نہیں مل سکتی کہ یہ مانا جائے کہ یہ باپ اور بیٹے کے درمیان ایک مکالمہ ہے اور اِس میں متکلم خود خدا ہے۔
"لیکن اے بیت لحم اِفراتاہ اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اِسرائیل کا حاکم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایّام سے ہے۔" (میکاہ 2:5)
(2) مسیح کے اقوال پر مبنی ثبوت:
سپرجن نام کے ایک مردِ خدا جو ایک مشہور واعظ تھے فرماتے ہیں کہ "مسیح دُنیا کی تاریخ میں ایسی مرکزی حقیقت ہیں کہ تاریخ کے سارے فیضان اور بہاﺅ آپ ہی کے دستِ قدرت کے تحت ہو کر بہتے ہیں اور زندگی کے سارے عظیم مقاصد اُن کی شخصیت ہی میں آ کر مکمل ہوتے ہیں۔"
اِس پر مستزاد یہ کہ آپ کے سارے معجزات، حیرت انگیز کام، آپ کے بولے ہوئے الفاظ کی تصدیق کرتے اور گواہ بنتے نظر آتے ہیں۔ مسیح نے بیسیوں حقائق اپنے بارے میں بتائے ہیں جو سوائے خدا کے کسی اَور کے ساتھ منسوب کئے ہی نہیں جا سکتے۔ کچھ اہم حقائق یہ ہیں:
(الف) آپ کا ازلی وجود
غالباً آپ کی زبان مبارکہ سے نکلا ہوا وہ جملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جو آپ نے یہودی مذہبی رہنماﺅں کے سامنے فرمایا تھا:
"میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اُس سے کہ ابرہام پیدا ہوا میں ہوں۔" (یوحنا 58:8)
"میں ہو ں" وہی الفاظ ہیں جو خدا نے خود اپنے لئے اور اپنی ذات کےلئے اُس وقت فرمائے جب موسیٰ نبی نے اُن سے پوچھا تھا کہ: "جب میں بنی اسرائیل کے پاس جا کر اُن کو کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مجھے کہیں کہ اُس کا نام کیا ہے؟ تو میں اُن کو کیا بتاﺅں؟ خدا نے موسیٰ سے کہا میں جو ہوں سو میں ہوں۔ سو تُو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ میں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے" (خروج 3: 14،13)۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اپنی ذات میں اُسی خدا کو ظاہر کیا جو حضرت موسیٰ پر کوہ حورب پر جلتی جھاڑی میں ظاہر ہوا تھا۔
اِنجیل مُقدّس یوحنا 5:17 میں یہ لکھا ہے کہ مسیح نے اپنی شفاعتی دُعا میں کہا: "اور اب اے باپ! تُو اُس جلال سے جو میں دُنیا کی پیدایش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے"۔
اور پھر آیت 24 میں لکھا ہے کہ: "اے باپ! میں چاہتا ہوں کہ جنہیں تُو نے مجھے دیا ہے جہاں میں ہوں وہ بھی تیرے ساتھ ہوں تا کہ میرے اُس جلال کو دیکھیں جو تُو نے مجھے دیا ہے کیونکہ تُو نے بنایِ عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی"۔
یہ الفاظ مسیح کے ازلی وجود کا یقین دلاتے ہیں اور مسیح کو حادث یا نوپید اب کون سی زبان کہہ سکتی ہے۔
(ب) آپ کا آسمان سے آنا
یہودیوں کے ساتھ ایک اَور گفتگو کے دوران مسیح نے کہا: "تم نیچے کے ہو۔ میں اُوپر کا ہوں۔ تم دُنیا کے ہو۔ میں دُنیا کا نہیں ہوں" (یوحنا 23:8)۔
پھر نیکدیمس نام ایک یہودی مذہبی رہنما سے دورانِ گفتگو مسیح نے فرمایا: "آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اُس کے جو آسمان سے اُترا یعنی ابن آدم (خود مسیح) جو آسمان میں ہے" (یوحنا 13:3)۔
مزید برآں مکاشفہ 13:22 میں ہم پڑھتے ہیں کہ: "میں الفا اور اومیگا، اوّل و آخر، ابتدا و انتہا ہوں۔"
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے آسمان سے نہ صرف اپنی آمد کے بارے میں بتایا ہے بلکہ یہ بھی کہ اُن کا وجود اور حضوری آسمان میں اُس وقت بھی برقرار تھی جب وہ اِس روئے زمین پر موجود تھے۔
(ج) آپ کی تمام جگہوں اور تمام زمانوں میں موجودگی
متی 20:18 میں آیا ہے کہ: "جہاں دو یا تین میرے نام پر اکھٹے ہیں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں"۔
اور مسیح نے اپنے جی اُٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کو یہ حکم دیا کہ: "پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناﺅ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا میں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں" (متی 28: 19-20)۔
(د) آپ کا غیرمحدود اختیار
مسیح جب پتمس کے جزیرہ میں یوحنا پر رویا میں ظاہر ہوئے تو کہا: "خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادر مُطلق فرماتا ہے کہ میں الفا اور اومیگا ہوں" (مکاشفہ 8:1)۔
(3) مسیح کے القابات اور الہٰی افعال پر مبنی ثبوت:
(الف) آپ کاخالق ہونا
مندرجہ ذیل آیات اِس حقیقت کو واضح کرتی ہیں:
"سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔ اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔" (یوحنا 1: 4،3)
"کیونکہ اُسی میں سب چیزیں پیدا کی گئیں۔ آسمان کی ہوں یا زمین کی۔ دیکھی ہوں یا اندیکھی۔ تخت ہوں یا ریاستیں یا حکومتیں یا اختیارات۔ سب چیزیں اُسی کے وسیلہ سے اور اُسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں۔" (کلسیوں 16:1)
"سب پر یہ بات روشن کروں کہ جو بھید ازل سے سب چیزوں کے پیدا کرنے والے خدا میں پوشیدہ رہا اُسکا کیا انتظام ہے۔" (افسیوں 9:3)
(ب) آپ کا مُردوں کو زندہ کر دینا
"جب وہ (یسوع) شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مُردہ کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اُسکے ساتھ تھے۔ اُسے دیکھ کر خداوند (مسیح) کو ترس آیا اور اُس سے کہا مت رو۔ پھر اُس نے پاس آ کر جنازہ کو چھوا اور اُٹھانے والے کھڑے ہو گئے اور اُس (مسیح) نے کہا اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ (قُم)۔ وہ مُردہ اُٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اُس نے اُسے اُس کی ماں کو سونپ دیا۔" (لوقا 7: 12-15)
"اُس نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔ جو مر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاﺅں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُسکا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا اُسے کھول کر جانے دو۔" (یوحنا 11: 44،43)
(ج) آپ منصف عالم ہوں گے
"جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا اور سب قومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے۔" (متی 25: 32،31)
"باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔" (یوحنا 22:5)
(د) آپ لائق پرستش ہیں
"تا کہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزت نہیں کرتا۔" (یوحنا 23:5)
یاد رہے باپ کی ساتھ بیٹے کی عبادت و پرستش مردانِ خدا کے بیچ عہد عتیق کے زمانے میں بھی رائج تھی۔ مثلاً داﺅد نبی نے کہا: "ڈرتے ہوئے خداوند کی عبادت کرو۔ کانپتے ہوئے خوشی مناﺅ۔ بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آئے اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاﺅ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جنکا توکل اُس پر ہے" (زبور 2: 12،11)۔
(ہ) آپ غافر الذنوب ہیں (گناہ بخشتے ہیں)
یہودی ہمیشہ یہ مانتے تھے کہ گناہوں کی معافی کا اختیار صرف خدا ہی کو ہے اور جب اُنہوں نے مسیح کو ایک معجزہ کرتے وقت مفلوج کو یہ خطاب کرتے سُنا کہ "بیٹا تیرے گناہ معاف ہوئے" (مرقس 5:2)۔ یہودی آپ کے اِس عمل و سلوک سے نہایت ہی مضطرب و پریشان ہو رہے تھے تو مسیح نے فرمایا "تم کیوں اپنے دِلوں میں یہ باتیں سوچتے ہو؟ آسان کیا ہے؟ مفلوج سے یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پھر؟ لیکن اِس لئے کہ تم جانو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (اُس نے اُس مفلوج سے کہا) میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا۔ اور وہ اُٹھا اور فی الفور چارپائی اُٹھا کر اُن سب کے سامنے باہر چلا گیا۔ چنانچہ وہ سب حیران ہو گئے اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا" (مرقس 2: 8-12)۔
(و) آپ حیاتِ ابدی بخشتے ہیں
آپ نے فرمایا: "میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور میں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔ اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا" (یوحنا 10: 27-28)۔
(ز) آپ باپ کے مساوی ہیں
آپ نے فرمایا:
"میں اور باپ ایک ہیں۔" (یوحنا 30:10)
"جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟ کیا تُو یقین نہیں کرتا کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو میں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔ میرا یقین کرو کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔" (یوحنا 14: 8-11)
(ح) آپ نے سجود و تعبد قبول کیا
اِس میں تو شک ہی نہیں کہ یسوع نے پرستش و سجدہ کو قبول کیا جو کسی بھی بشر کےلئے جائز نہیں۔ یہ بات اُس وقت واقع ہوئی جب ایک جنم کے اندھے سے جناب مسیح نے پوچھا: "کیا تُو خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا اے خداوند وہ کون ہے کہ میں اُس پر ایمان لاﺅں؟ یسوع نے اُس سے کہا تُو نے تو اُسے دیکھا ہے اور جو تجھ سے باتیں کرتا ہے وہی ہے۔ اُس نے کہا اے خداوند میں ایمان لاتا ہوں اور اُسے سجدہ کیا" (یوحنا 9: 35-38)۔
(4) مسیح کے شاگردوں کی گواہی پر مبنی ثبوت:
یہ گواہی اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے مسیح کی عظمت اور شان کو اعلانیہ طور پر دیکھا۔ یہ ساری شہادتیں مکمل اور سارے شکوک سے پاک ہیں۔ مثلاً کچھ آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہیں:
(الف) توما کی گواہی
اِس شاگرد (توما) نے مسیح کے جی اُٹھنے کے بعد جب اُن کے ہاتھوں میں کیلوں سے چھیدے جانے کے نشان دیکھے اور پہلو پر اُس زخم کو دیکھا جسے چھیدا گیا تھا تو ایمان لایا اور پکار اُٹھا "اے میرے خداوند! اے میرے خدا!" (یوحنا 28:20)۔
(ب) یوحنا کی گواہی
اِس شاگرد نے خدا کے الہام سے کہا: "ہم اُس میں جو حقیقی ہے یعنی اُس کے بیٹے یسوع مسیح میں ہیں۔ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے" (1۔ یوحنا 20:5)۔
(ج) پولُس کی گواہی
پولُس رسول نے گواہی دی کہ: "جسم کے رو سے مسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا جو سب کے اُوپر اور ابد تک خدای محمود ہے۔ آمین" (رومیوں 5:9)۔
مسیحیت کا یہ ماننا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک رُوح ہے جو مادی جسم نہیں رکھتا کہ جسے دیکھا یا چھوا جا سکے یا جو حواس سے معلوم کیا جا سکے، جیسا کہ مسیح نے خود بتا دیا ہے: "خدا رُوح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچائی سے پرستش کریں" (یوحنا 24:4)۔
ایک جگہ خدا کو رُوحوں کا باپ بھی کہا گیا ہے کہ اُس نے اُنہیں اپنی صورت اور شبیہ پر پیدا کیا ہے، جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں: "پھر خدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں" (پیدایش 26:1)۔
خدا واحد ہے اور تین اقانیم باپ، بیٹا اور رُوح القدس کا حامل ہے۔
ایمان کے اِس رکن پر یعنی عقیدہ ثالوث پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ ہم ایک ایسے بڑے راز یا بھید سے دوچار ہو رہے ہیں جو زندگی اور وجود کے بےحد گہرے بھیدوں میں سے ایک ہے۔
مُقدّس اگستین نے بھی اپنے زمانہ میں اور اُس کے بعد ایک عظیم مصلح کیلون نے بھی یہی مانا ہے کہ لاطینی زبان گو کہ مفردات اور لغات کے اور حسن و جمال کے معاملات کے بیان کرنے میں بڑی مالدار ہے پھر بھی وہ اِس بھید کی گہرائی کی تعبیر میں پورے طور پر لاچار ہے۔
یہ بات یقینی اور واضح ہے کہ مسیحیوں نے تثلیث فی التوحید کا عقیدہ کسی اِنسان سے نہیں سیکھا تھا، نہ ہی یہ کسی اِنسانی دماغ کی پیداوار ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا خداوند تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوا ہے اور بائِبل مُقدّس میں شروع سے آخر تک ملتا ہے۔ اِس موضوع پر کچھ اَور لکھنے سے بہتر ہے کہ ہم وہ سب جمع کریں جو کلیسیا یا مسیحی جماعت کا مسیح کے بارے میں تاریخی حیثیت سے عقیدہ رہا ہے اور اب ایک حرف آخر کی صورت میں دُنیا کے سامنے موجود ہے۔
مسیح کے شاگردوں اور رسولوں کے زمانہ میں حتیٰ کہ دوسری مسیحی صدی تک بھی مسیحیوں نے کوئی بندھا ٹکا مسیحی عقیدہ تشکیل نہیں دیا تھا بلکہ اِس طرف نہ کبھی دھیان دیا اور نہ سوچا تھا کیونکہ وہ اِس بات سے مطمئن تھے کہ سارے لوگ اُنہی باتوں اور تعلیم پر کاربند ہیں جو بائِبل مُقدّس میں مرقوم ہیں۔ اگر کبھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ رسولوں اور اُن کے شاگردانِ رشید کی طرف رجوع کرتے یا اُن کی طرف جو اُن کے جانشین تھے۔
تاہم بعد کے دور میں جب کچھ غلط سلط اور غیر مسلمہ تعلیم رواج پانے لگی تو اُس نے اختلافات کو جنم دینا شروع کیا۔ سب سے اہم نقطہ جس پر اختلافات نے سر اُٹھانا شروع کیا وہ "حیثیتِ مسیح" یا "ذاتِ الوہیت میں سے صدور رُوح القدس" کا مسئلہ تھا۔ ایسی صورتحال میں کلیسیا یا اُمّت مسیحی نے اُن مباحث پر اپنے نقطہائے نظر کا اظہار کیا۔ یہ اظہار اُس وقت تو خاص طور پر کیا گیا جب سبَیلِئس اور ایرئیس کی آرا انتشار پکڑنے لگیں۔ سبَیلِئس نے یہ تعلیم دی کہ خدا کی وحدانیت میں کوئی ثالوث نہیں اور رہے ایسے الفاظ جیسے باپ، بیٹا اور رُوح القدس وغیرہ تو یہ سب خدا کے مختلف مظاہرات اور تجلیات ہیں۔ جبکہ ایرئیس کا ماننا یہ تھا کہ باپ اور بیٹے اور رُوح القدس میں کسی قسم کی مساوات یا برابری نہیں ہے کیونکہ بیٹا اور رُوح القدس دونوں مخلوق ہیں اور باپ سے کمتر ہیں اور باپ نے اُن دونوں کو الہٰی فطرت کے مشابہ بنایا ہے۔
کلیسیائے جامع نے اِن خیالات کو رد کیا کیونکہ یہ بائِبل مُقدّس کے نصوص اور تعلیم سے میل نہیں کھاتے جو واضح طور پر سکھاتی ہے کہ کبھی کوئی ایسا وقت نہیں تھا جب تثلیث فی التوحید کے تینوں اقانیم اکھٹے موجود نہ تھے۔ باپ بیٹے کے ساتھ ہمیشہ سے موجود ہے جیسا کہ ہم زبور 1:110 میں پڑھتے ہیں: "یہوواہ نے میرے خداوند سے کہا تُو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ"۔
اِسی طرح زبور 8:16 کو اعمال 25:2 میں بیٹے کے تعلق سے بیان کیا گیا ہے: "میں خداوند کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھتا رہا۔ کیونکہ وہ میری دہنی طرف ہے تا کہ مجھے جنبش نہ ہو۔"
مُقدّس اتھناسیس اسکندریہ کا بشپ اُن عظیم لوگوں میں سے ہے جنہوں نے کلیسیا کی طرف سے بدعتوں کا مقابلہ کیا اور اپنے ایمان کا دفاع کیا، اُس نے اتھناسیس کا عقیدہ جاری کیا جس کے خاص اجزا یہ ہیں:
(1) طالبِ نجات ہر چیز سے پہلے مسیحی کلیسیا کے جامع ایمان کا یقین کرے۔
(2) وہ عالمگیر ایمان جامع یہ ہے کہ ثالوث میں خدا واحد کی پرستش اور توحید میں ثالوث کی پرستش کی جائے۔
(3) نہ اقانیم مخلوط کئے جائیں نہ جوہر میں فصل پیدا کی جائے۔
(4) باپ کا ایک اقنوم ہے، بیٹے کا ایک اقنوم ہے، رُوح القدس کا ایک اقنوم ہے۔ لیکن باپ بیٹا اور رُوح القدس لاہوت واحد ہے یعنی وہ الوہیت میں واحد، مجد میں مساوی اور جلال و بزرگی میں ابدی ہیں۔
(5) جیسا باپ ہے، ویسا ہی بیٹا اور ویسا ہی رُوح القدس ہے۔
(6) باپ غیر مخلوق، بیٹا غیر مخلوق، رُوح القدس غیر مخلوق ہے۔ لیکن تین غیر مخلوق ہستیاں نہیں بلکہ واحد غیر مخلوق ہے۔
(7) باپ غیرمحدود، بیٹا غیرمحدود، رُوح القدس غیرمحدود، لیکن تین لامحدود ہستیاں نہیں بلکہ واحد لامحدود ہے۔
(8) باپ ازلی، بیٹا ازلی، رُوح القدس ازلی، پھر بھی تین سرمدی و ازلی ہستیاں نہیں بلکہ واحد ازلی ہستی ہے۔
(9) باپ نے ہر شے کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھا ہے، بیٹا بھی ضابط الکل ہے اور رُوح القدس بھی منتظم الکل ہے، لیکن تین ضابط و منتظم نہیں بلکہ ایک ہی ضابط الکل ہے۔
(10) باپ خدا ہے، بیٹا خدا ہے، رُوح القدس خدا ہے لیکن تین خدا نہیں بلکہ ایک ہی خدا ہے۔
(11) باپ ربّ (خداوند) ہے، بیٹا ربّ ہے، رُوح القدس ربّ ہے لیکن تین ارباب نہیں بلکہ ربّ واحد ہے۔
(12) مسیحی سچائی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم یہ اعتراف نہ کریں کہ ہر اقنوم بذاتہ خدا اور ربّ ہے، دین جامع بھی ہمیں منع کرتا ہے کہ ہم تین خداﺅں اور تین ارباب کو مانیں۔
(13) ہمارا تو ایک ہی باپ ہے، تین باپ نہیں، ایک بیٹا ہے، تین بیٹے نہیں، ایک ہی رُوح القدس ہے، تین رُوح القدس نہیں۔
(14) اِن تین ثالوث میں ایک بھی ایسا نہیں جو ایک دوسرے سے بڑا ہے یا چھوٹا ہے بلکہ سارے اقانیم ساتھ ساتھ ازلی ہیں اور برابر ہیں۔
(15) چنانچہ اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اُس سے یہ مستنبط ہے کہ ثالوث میں وحدانیت کی اور وحدانیت میں ثالوث کی عبادت کی جائے۔
(16) سچا اور سیدھا ایمان مسیحی یہ ہے کہ یسوع مسیح باپ کے جوہر سے قبل الدہور مولود ہے اور خدا ہے۔ وہ ماں کے جوہر سے اِنسان بنا اور ایک عصر (دھر یا زمانہ) میں مولود ہے۔
(17) گو کہ یسوع مسیح الٰہ اور اِنسان ہے، پھر بھی وہ ایک ہی مسیح ہے دو نہیں۔ مسیح جسم میں الوہیت کو تبدیل کر کے اِنسان نہیں بنا۔ بلکہ اِنسانیت اور الوہیت کے اتحاد و امتزاج سے اِنسان ہو گیا۔
اب کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ اِس حقیقت کی کیا اساس ہے؟ اِس کی صحت و ثبات کےلئے کیا بُرہان ہے؟ کیسے یہ حقیقت رسوخ و استقرار کے اِس درجہ تک پہنچی؟
جواب یہ ہے کہ اِس حقیقت کی واحد اساس کتاب مُقدّس ہے۔ کیونکہ اِنسان خواہ کتنا ہی بڑا اور مفکّر اعظم ہی کیوں نہ بن جائے یہ اُس کے بس اور اختیار میں نہیں ہے کہ ذات الٰہی کی طبیعت اور کنہ کو پا سکے تاوقتیکہ خدا تعالیٰ خود اُس پر اپنی ذات کو منکشف نہ کر لے اور معرفت و اعلان نہ عطا کرے۔ کتاب مُقدّس سے ہٹ کر جو کچھ ثالوث کے بارے میں ملتا ہے، خواہ وہ فلسفیانہ تفکر سے حاصل ہے یا منطقی دلائل سے، وہ سب کی سب تشریح و قیاسی توضیحات ہیں۔
اِس میں تو گنجایش شبہ نہیں کہ کتاب مُقدّس کے صحائف نے خدا کی ذات و طبیعت میں وحدانیت کی ہی تعلیم دی ہے، اِس موقف پر نہ کسی مسیحی کو اختلاف ہے نہ بحث۔ لیکن کیا وہ وحدانیت مجرّد و بسیط ہے؟ نہیں! بلکہ وہ وحدانیت کاملہ و شاملہ ہے اور اِسی بات کی تعلیم سے کتاب مُقدّس بھری ہوئی ہے، عہد عتیق بھی اور عہد جدید بھی۔ یہی وحدانیت کاملہ و شاملہ ہے جو ثالوث اقدس کی طبیعت اور ذات کو کماحقہ منکشف کرتی ہے۔ یہی مسیحیوں کا ایمان ہے۔
بائِبل مُقدّس کے علما نے اِسی کو مانا ہے اور اِسی کی کلیسیائی قانون میں صورت گری کی گئی ہے۔ اِن کلیسیائی عقیدوں میں سب سے اہم نقایہ کا عقیدہ ہے جس کا متن یہ ہے:
"میں ایمان رکھتا ہوں ایک خدا قادر مطلق باپ پر جو آسمان و زمین اور سب دیکھی اور اندیکھی چیزوں کاخالق ہے۔
اور ایک خداوند یسوع مسیح پر جو خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ کُل عالموں سے پیشتر اپنے باپ سے مولود، خدا سے خدا، نور سے نور، حقیقی خدا سے حقیقی خدا، مصنوع نہیں بلکہ باپ سے مولود، اُس کا اور باپ کا ایک ہی جوہر ہے۔ اُس کے وسیلے سے کُل چیزیں بنیں۔ وہ ہم آدمیوں کےلئے اور ہماری نجات کے واسطے آسمان پر سے اُتر آیا۔ اور رُوح القدس کی قدرت سے کُنواری مریم سے مجسم ہوا۔ اور اِنسان بنا۔ اور پُنطیس پیلاطس کے عہد میں ہمارے لئے مصلوب بھی ہوا۔ اُس نے دُکھ اُٹھایا اور دفن ہوا۔ اور تیسرے دِن پاک نوشتوں کے بموجب جی اُٹھا۔ اور آسمان پر چڑھ گیا۔ اور باپ کے دہنے بیٹھا ہے۔ وہ جلال کے ساتھ زندوں اور مُردوں کی عدالت کےلئے پھر آئے گا۔ اُس کی سلطنت ختم نہ ہو گی۔
اور میں ایمان رکھتا ہوں روح القدس پر جو خداوند ہے اور زندگی بخشنے والا ہے۔ وہ باپ اور بیٹے سے صادر ہے۔ اُس کی باپ اور بیٹے کے ساتھ پرستش و تعظیم ہوتی ہے۔ وہ نبیوں کی زبانی بولا۔ میں ایک پاک کیتھلک (جامع، عالمگیر) رسولی کلیسیا پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں ایک بپتسمہ کا جو گناہوں کی معافی کےلئے ہے اقرار کرتا ہوں۔ اور مُردوں کی قیامت اور آیندہ جہان کی حیات کا انتظار کرتا ہوں۔ آمین!"
یہ بات سچ ہے اور کتاب مُقدّس نے کہا کہ "خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے"، "یہوواہ (خداوند) میں ہوں۔ یہی میرا نام ہے۔ میں اپنا جلال کسی دوسرے کےلئے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مُورتوں کےلئے روا نہ رکھونگا۔"
لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ کتاب مُقدّس میں بےشمار ایسی آیات ہیں جو اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خدا کی ذات میں وحدانیت جامعہ و شاملہ ہے اور خدا تعالیٰ کئی صفات سے متصف ہے جیسے سمع، بصر، کلام، علم، ارادہ اور محبت وغیرہ کیونکہ اُس ذات باری کا اپنی مخلوقات سے ربط و رشتہ ہے جسے یہ صفتیں ظاہر کرتی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ صفتیں کبھی بھی ازلیت میں معطل نہیں تھیں یعنی اِس کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی عامل تھیں۔ جس یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا اپنی صفتوں کا استعمال کرتا رہا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب قبل کائنات کوئی اَور بھی شخصیت ہو۔ اب دیکھئے یہیں سے وحدانیت میں اقانیم کا وجود لازم آتا ہے۔
اور کوئی شک نہیں کہ جو مسیحیت کے عقیدہ پر گہرائی سے نظر کرتا ہو تو اُس کے سامنے یہ حقائق واضح ہوتے ہیں:
الف- باپ بیٹے اور رُوح القدس میں سے ہر اقنوم کو الٰہی القاب و خطاب حاصل ہیں اور سب قابلِ تعظیم اور لائق عبادت ہیں۔
ب- کتاب مُقدّس سے بیٹے کی الوہیت اِسی طرح واضح ہے جیسے باپ کی الوہیت، جیسا کہ مسیح نے خود فرمایا "تا کہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں" (یوحنا 23:5)۔
ج- جس طرح باپ اور بیٹے کی الوہیت کتاب مُقدّس سے ثابت ہے، اُسی طرح رُوح القدس کی الوہیت بھی ثابت ہے۔ خود مسیح نے فرمایا کہ: "خدا رُوح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچائی سے پرستش کریں" (یوحنا 24:4)۔
جب ہم مسیحی عقیدے کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ثالوث اقدس کے نام یعنی باپ، بیٹا، اور رُوح القدس خدا اور اُس کی مخلوقات کے درمیان کسی نسبت مختلفہ سے کنایہ نہیں ہے یعنی ویسا امتیاز نہیں ہے جیسا خالق، حافظ اور منعم جیسی اصطلاحات سے ہوتا ہے۔ گو کہ کچھ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں لیکن مندرجہ ذیل نکات اِس کو غلط ثابت کرتے ہیں:
الف- باپ، بیٹا اور رُوح القدس ہر ایک اپنی ذات کے بارے میں "میں" کا استعمال کرتے ہیں۔
ب- اِن میں سے ہر ایک جب دوسرے سے خطاب کرتا ہے تو گفتگو میں "تُو" کا اور صیغہ غائب کے طور پر "وہ" کا استعمال کرتا ہے۔
ج- باپ بیٹے سے محبت کرتا ہے، بیٹا باپ سے محبت کرتا ہے اور رُوح القدس بیٹے کی گواہی دیتا اور اُسے جلال دیتا ہے۔
اِن تمام حقائق اور بائِبلی سچائیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ مسیحی لوگ ساری دُنیا میں اِسی عقیدہ تثلیث فی التوحید کو لے کر پھیل گئے۔
کچھ حضرات یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تعلیم ہمارے ادراک سے پرے ہے۔ لیکن ایسا بیان مسیحی عقیدہ کی توضیح تو نہیں ہوا، بہت سی سائنس کی حقیقتیں ہمارے ادراک سے باہر ہوتے ہوئے بھی جانی اور مانی جاتی ہیں۔ ہمیں ماننا چاہئے کہ ہمارے محدود ذہن اِس طرح خلق نہیں کئے گئے جو ممکن و لاممکن کا اُن امور سے متعلق معیار بن سکیں جو ہمارے حواس، فہم اور ادراک سے باہر ہیں۔
الف- اقانیم کی الوہیت
کتاب مُقدّس میں جو خداوند تعالیٰ کا الہامی کلام ہے، یہ حقائق ملتے ہیں:
(1) باپ کے بارے میں یہ کہ خدا ہمارا باپ ہے:
"اب ہمارا خداوند یسوع مسیح خود اور ہمارا باپ خدا جس نے ہم سے محبت رکھی اور فضل سے ابدی تسلی اور اچھی اُمّید بخشی۔" (2۔ تھسلُنیکیوں 16:2)
(2) بیٹے کے بارے میں لکھا ہے:
"مگر بیٹے کی بابت کہتا ہے کہ اے خدا تیرا تخت ابدالآباد رہے گا اور تیری بادشاہی کا عصا راستی کا عصا ہے۔" (عبرانیوں 8:1)
(3) رُوح القدس کی بابت کہا گیا ہے:
"اے حننیاہ! کیوں شیطان نے تیرے دِل میں یہ بات ڈالی کہ تُو رُوح القدس سے جھوٹ بولے ... تُو آدمیوں سے نہیں بلکہ خدا سے جھوٹ بولا۔" (اعمال 5: 3-4)
ب- ربوبیت اقانیم
(1) باپ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خداوند ہے:
"اُسی گھڑی وہ (یسوع مسیح) رُوح القدس سے خوشی سے بھر گیا اور کہنے لگا اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند! میں تیری حمد کرتا ہوں۔" (لوقا 21:10)
(2) بیٹے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خداوند ہے:
"جو کلام اُس نے بنی اسرائیل کے پاس بھیجا جبکہ یسوع مسیح کی معرفت جو سب کا خداوند ہے صلح کی خوشخبری دی۔" (اعمال 36:10)
(3) رُوح القدس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خداوند ہے:
"اور خداوند رُوح ہے اور جہاں کہیں خداوند کا رُوح ہے وہاں آزادی ہے۔" (2۔ کرنتھیوں 17:3)
ج- ازلیتِ اقانیم
(1) باپ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ازلی ہے:
"دانی ایل کے خدا کے حضور ترسان و لرزان ہوں کیونکہ وہی زندہ خدا ہے اور ہمیشہ قائم ہے اور اُس کی سلطنت لازوال ہے اور اُس کی مملکت ابد تک رہے گی۔" (دانی ایل 26:6)
(2) بیٹے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ازلی ہے:
"خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادر مُطلق فرماتا ہے کہ میں الفا اور اومیگا ہوں۔" (مکاشفہ 8:1)
(3) رُوح القدس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ازلی ہے:
"تو مسیح کا خون جس نے اپنے آپ کو ازلی رُوح کے وسیلہ سے خدا کے سامنے بےعیب قربان کر دیا تمہارے دِلوں کو مُردہ کاموں سے کیوں نہ پاک کریگا تا کہ زندہ خدا کی عبادت کریں۔" (عبرانیوں 14:9)
د- اقانیم کی ہمہ جائی
(1) باپ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے:
"سب کا خدا اور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اُوپر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے۔" (افسیوں 6:4)
(2) بیٹے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے:
"کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اکھٹے ہیں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں۔" (متی 20:18)
(3) رُوح القدس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے:
"میں تیری رُوح سے بچ کر کہاں جاﺅں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ اگر آسمان پر چڑھ جاﺅں تو تُو وہاں ہے۔ اگر میں پاتال میں بستر بچھاﺅں تو دیکھ ! تُو وہاں بھی ہے۔ اگر میں صبح کے پر لگا کر سمندر کی انتہا میں جا بسوں تو وہاں بھی تیرا ہاتھ میری راہنمائی کریگا اور تیر ادہنا ہاتھ مجھے سنبھالیگا۔" (زبور 139: 7-10)
ہ- سجدہ کا استحقاق
(1) باپ کی بابت انجیل یوحنا 23:4 میں لکھا ہے کہ:
"مگر وہ وقت آتا ہے کہ بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔"
(2) بیٹے کی بابت فلپیوں 2: 10-11 میں لکھا ہے:
"تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا جُھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خداوند ہے۔"
(3) رُوح القدس ایمانداروں کو پرستش و عباد ت کےلئے تیار کرتا ہے:
"اِسی طرح رُوح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہے کیونکہ جس طور سے ہم کو دُعا کرنا چاہئے ہم نہیں جانتے مگر رُوح خود ایسی آہیں بھر بھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے جن کا بیان نہیں ہو سکتا۔" (رومیوں 26:8)
و- صفت حق
(1) باپ حق ہے:
"اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدای واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔" (یوحنا 3:17)
(2) بیٹا حق ہے:
"یسوع نے اُس سے کہا کہ راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔" (یوحنا 6:14)
(3) رُوح القدس حق ہے:
"اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی رُوحِ حق جسے دُنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے۔ تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔" (یوحنا 14: 16-17)
ز- صفت محبت
(1) باپ محبت ہے۔ یسوع نے کہا:
"باپ تو آپ ہی تم کو عزیز رکھتا ہے کیونکہ تم نے مجھ کو عزیز رکھا ہے اور ایمان لائے ہو کہ میں باپ کی طرف سے نکلا ہوں۔" (یوحنا 27:16)
(2) بیٹا محبت ہے:
"جو کچھ میں تم کو حکم دیتا ہوں اگر تم اُسے کرو تو میرے دوست ہو۔ اب سے میں تمہیں نوکر نہ کہوں گا کیونکہ نوکر نہیں جانتا کہ اُس کا مالک کیا کرتا ہے بلکہ تمہیں میں نے دوست کہا ہے۔ اِس لئے کہ جو باتیں میں نے اپنے باپ سے سُنیں وہ سب تم کو بتا دیں۔" (یوحنا 14: 15،14)
(3) رُوح القدس محبت ہے:
"کیونکہ خدا نے ہمیں دہشت کی رُوح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی رُوح دی ہے۔" (2۔ تیمتھیس 7:1)
ح- قدوسیت
(1) باپ قدوس ہے۔ یسوع مسیح نے اپنی شفاعتی دُعا میں کہا:
"اے قدوس باپ! اپنے اُس نام کے وسیلہ سے جو تُو نے مجھے بخشا ہے اُن کی حفاظت کر تا کہ وہ ہماری طرح ایک ہوں۔" (یوحنا 11:17)
(2) بیٹا قدوس ہے:
"اور فرشتہ نے جواب میں اُس سے کہا کہ رُوح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مولودِ مُقدّس خدا کا بیٹا کہلائے گا۔" (لوقا 35:1)
(3) رُوح القدس قدوس ہے:
"اور خدا کے پاک رُوح کو رنجیدہ نہ کرو جس سے تم پر مخلصی کے دِن کےلئے مہر ہوئی۔" (افسیوں 30:4)
الف- مسیح کی الوہیت پر اعتراض
شاید کوئی مسیح کی الوہیت پر اعتراض کرے اور تائید میں مسیح کا یہ قول پیش کر دے کہ: "میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا ... کیونکہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں" (یوحنا 30:5)، یا پھر یہ قول بیان کرے "باپ مجھ سے بڑا ہے" (یوحنا 28:14)۔
اِس اعتراض پر ہم یہ کہیں گے کہ یہ بیانات تثلیث فی التوحید میں باپ کی طرف سے نسبت ہونے کے اعتبار سے مسیح کی الوہیت کی نفی نہیں کرتے، کیونکہ اِنسان کے فدیے اور مخلصی کےلئے یہ لازم تھا کہ خداوند تعالیٰ کا اقنوم ثانی جسد اِنسانی اختیار کر لے اور اپنے آپ کو کفّارہ میں پیش کر کے الٰہی مرضی پوری کر دے۔
جب اِس الہٰی کام کو مسیح نے مکمل کر لیا تو آسمان پر صعود کیا اور خدا کے دہنے ہاتھ اعلےٰ ترین عظمت کے ساتھ بیٹھ گیا "اور ہر طرح کی حکومت اور اختیار اور قدرت اور ریاست اور ہر ایک نام سے بہت بُلند کیا جو نہ صرف اِس جہان میں بلکہ آنے والے جہان میں بھی لیا جائیگا۔ اور سب کچھ اُس کے پاﺅں تلے کر دیا اور اُس کو سب چیزوں کا سردار بنا کر کلیسیا کو دے دیا۔ یہ اُس کا بدن ہے اور اُسی کی معموری جو ہر طرح سے سب کا معمور کرنے والا ہے" (افسیوں 1: 21-23)۔
رسولوں کی تعلیم ہم پر واضح کر دیتی ہے کہ مخلصی کے کام کےلئے نجات دہندہ کو ایک بشر ہونا لازمی تھا تا کہ وہ اُن کی طبیعت و فطرت میں حصہ دار اور شریک بن سکے جن کو بچانے کےلئے آیا تھا۔ یہ بھی ضروری تھا کہ وہ خدا بھی ہو تا کہ اقتدار اعلیٰ کا حامل ہو، گناہ پر اُس کا غلبہ ہو اور جو ایمان لائیں اُن سب کو گناہ کی گرفت و اختیار سے آزاد کر دے۔
کتاب مُقدّس کا مطالعہ کرنے والوں کو اِس کی سطور میں پیدایش کی کتاب سے مکاشفہ کی کتاب تک منجی کا عکس نظر آتا ہے۔ کبھی تو وہ ایک اِنسان کی شکل میں نظر آتا ہے "جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چُھڑا لے اور ہم کو لےپالک ہونے کا درجہ ملے" (گلتیوں 4:4)۔ اور کبھی وہ خدائے بزرگ و برتر کی صورت میں نظر آتا ہے تا کہ عابدوں کا مرکزِ ایمان اور نقطہ عبادت بن جائے۔
مسیح کی شخصیت حیرت انگیز ہے جو الٰہ بھی ہے اور اِنسان بھی ہے جس نے قبل تجسد انبیاء کرام کی رﺅیتوں کو ہر دور میں معموری بخشی۔ یسعیاہ نبی نے اُن کے خدا کی عظیم ترین نشانی کے طور پر تجسد اختیار کرنے کی بشارت دی "خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کُنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمّانُو ایل (خدا ہمارے ساتھ) رکھے گی" (یسعیاہ 14:7;متی 1: 22-23)۔ یسعیا ہ نبی نے مسیح کے بارے میں یہ بھی بیان کیا "اُسکا نام عجیب مشیر خدای قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہو گا" (یسعیاہ 6:9)۔
ب- رُوح القدس کی الوہیت پر اعتراض
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رُوح القدس تثلیث فی التوحید کا اقنوم نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی قوت و قدرت ہے جو کائنات میں سرگرم عمل اور قلوب اِنسانی میں تاثیر کرتی رہتی ہے۔ لیکن کتاب مُقدّس کے متن اور نصوص سے یہ عیاں ہے کہ رُوح القدس بھی ایک اقنوم ہے، وہ محض خدا کی قوت فعالہ ہی نہیں ہے جو ہم میں کام کرتی رہتی ہے بلکہ اُس میں شخصیت ہے۔ محض قوت کو پاکیزگی سچائی، حکمت یا ارادہ کی حامل نہیں کہا جا سکتا، اور نہ ہی وہ متکلم ہو سکتی ہے اور نہ ہی اُس سے کلام کیا جا سکتا ہے۔
کتاب مُقدّس بائِبل میں مرقوم ہے کہ مسیح کے بپتسمہ کے وقت رُوح القدس جسمانی صورت میں کبوتر کی مانند اُن پر نازل ہوا اور آسمان سے ایک آواز آئی "تُو میرا پیارا بیٹا ہے۔ تجھ سے میں خوش ہوں" (لوقا 22:3)۔ یہ بات بھی تین اقانیم کے وجود پر دلالت کرتی ہے کہ باپ نے آسمان سے کلام کیا، رُوح القدس آسمان سے بیٹے پر جو زمین پر تھا نازل ہوا۔
اِسی طرح مسیح نے اپنے شاگردوں کو مددگار یعنی رُوح حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے بھیجنے کا وعدہ کیا (یوحنا 26:15)۔ رسولوں کے کلمات برکات بھی اِسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی "خداوند یسوع مسیح کا فضل، خدا کی محبت اور رُوح القدس کی شراکت تم سب کے ساتھ ہوتی رہے" (2۔ کرنتھیوں 14:13)۔ اور پولُس رسول کے اعلان "اُسی کے وسیلہ سے ہم دونوں کی ایک ہی رُوح میں باپ کے پاس رسائی ہوتی ہے" (افسیوں 18:2) کا تعلق بھی اِسی بات سے ہے۔
رُوح القدس کے قوت الہٰیہ کے دعویٰ کی عدم صداقت کتاب مُقدّس کے ہر قاری پر عیاں ہے۔ ایسا ہی ایک حوالہ 1۔ کرنتھیوں 12: 4-11 ہے جس میں پولُس رسول کا یہ بیان ملتا ہے کہ رُوح القدس کے وسیلے کلیسیا کو کئی نعمتیں دی گئیں، جن میں سے ایک معجزہ کرنے کی نعمت ہے۔ اگر رُوح القدس محض ایک قوت ہے تو اِس کا یہ مطلب ہوا کہ رُوح محض نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
اِس کے علاوہ اَور بھی کئی حوالہ جات ہیں جہاں رُوح القدس ایک شخصیت نظر آتی ہے نہ کہ محض ایک قوت یا نعمت۔ دیکھئے:
"پھر یسوع رُوح کی قوت سے بھرا ہوا گلیل کو لوٹا۔" (لوقا 14:4)
"خدا نے یسوع ناصری کو رُوح القدس اور قدرت سے کس طرح مسح کیا۔" (اعمال 38:10)
"تا کہ رُوح القدس کی قدرت سے تمہاری اُمید زیادہ ہوتی جائے۔" (رومیوں 13:15)
"نشانوں اور معجزوں کی طاقت سے اور رُوح القدس کی قدرت سے۔" (رومیوں 18:15)
اب اگر معترض کا خیال (یعنی یہ کہ رُوح القدس خدا کی ایک قوت کا نام ہے) صحیح مانا جائے تو اِن آیات کی تفسیر یوں ہو گی کہ "یسوع قوت کی قوت سے بھرا ہوا" یا "قدوس قوت کی قوت سے" وغیرہ وغیرہ۔ کیا اِس طرح کی تفسیر کوئی شخص پسند کرے گا؟
ج- تثلیث فی التوحید کے عقیدہ پر اعتراض
اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ "خدائے واحد کی ذات میں تین اقانیم یا شخصیات ہیں۔ اِس پر تمہاری کیا دلیل ہے؟"
جواب میں ہم کہیں گے کہ خدا کی وحدانیت تو کتاب مُقدّس میں سنہری لفظوں میں بڑے اُجلے طور پر نظر آتی ہی ہے، لیکن یہ اقرار کر لینا کہ خداوند تعالیٰ جیسا کوئی اَور ہے ہی نہیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ جوہر واحد میں تین شخصیات ہوں۔
آئیے کتاب مُقدّس کو ہی حکم بنائیں اور اِسی کے نصوص و متن سے استدلال پکڑیں۔ عہد عتیق میں خدا کےلئے استعمال ہونے والا اظہار اکثر جمع کے صیغے میں آیا ہے "ایلوہیم" اور اِس کےلئے اِسم ضمیر "ہم" استعمال ہوا ہے۔ ایسا اہم ترین حوالہ استثنا 4:6 میں آیا ہے: "سُن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا (ایلوہیم) ایک ہی خداوند ہے۔"
اِس آیت میں قصد تو یہ ہے کہ وحدانیت کی تعلیم دی جائے اور اُس کا بیان ہو لیکن خدا جمع میں آیا ہے یعنی الوہ کی جمع "ایلوہیم۔" اَور بھی بہت سی آیات ہیں جہاں خدا کا نام آیا ہے۔ مثلاً:
"پھر خدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔" (پیدایش 26:1)
"اور خداوند خدا نے کہا دیکھو اِنسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔" (پیدایش 22:3)
"آﺅ ہم وہاں جا کر اُن کی زبان میں اختلاف ڈالیں۔" (پیدایش 7:11)
"میں کس کو بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائے گا؟" (یسعیاہ 8:6)
کوئی شخص اِس موقع پر یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا کا مقصد یہاں خود کو صاحب تعظیم و جلالت کے طور پر پیش کرنا ہے جیسا کہ بادشاہ لوگ کیا کرتے ہیں اور اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں، لیکن پیدایش 22:3 میں جو الفاظ خدا نے کہے "اِنسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا" اِس اعتراض کو رد کرتے ہیں، کیونکہ یہ بیان مخاطب کرنے والے اور سامع کے وجود کی نشاندہی کرتا ہے۔
اگرچہ تثلیث فی التوحید کا بھید ہماری سمجھ سے باہر ہے، لیکن اِس کو محض اِس لئے رد کر دینا کہ یہ ہماری محدود سمجھ میں نہیں آ رہا، صحیح نہیں ہے۔
بہت سے الٰہی اعلانات اور مظاہر و ظہورات ہیں جن کا کماحقہ ادراک ہماری استطاعت و استعداد سے باہر ہے۔ مثلاً باری تعالیٰ کا وجود بالذات، اُس کا ازلی وجود، اُس کا ہر شے کےلئے علّت اولیٰ ہونا، ساتھ ہی ساتھ ازل سے ابد تک اور سارے زمانوں میں اُس کی ہمہ جائی اور ہمہ دان ہونے کی خوبی۔
ہم یہ پہلے ہی کہہ آئے ہیں کہ تثلیث فی التوحید کی بات گو ہماری سمجھ اور ادراک سے ماورا ہے، پھر بھی وحدانیت کے منافی نہیں ہے اور نہ اِس میں کوئی ایسی بات ہے کہ ہم اِس کے رد کرنے پر مجبور ہوں، نہ اِس میں کوئی ایسی بات ہے جو ہمارے دین و ایمان کو محال بناتی ہے کیونکہ اِس میں تین خداﺅں کا وجود ہرگز مُراد نہیں ہے۔
یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ عقیدہ تثلیث فی التوحید مسیحی مذہب میں کیا کوئی خاص فائدہ دیتا ہے؟
ہاں! اِس کا فائدہ یہ ہے کہ ہم اِس کو اساس بنا کر دیگر اہم الہٰی تعلیمات کی توضیح کر سکتے ہیں۔ مثلاً:
(1) عقیدہ تثلیث فی التوحید شان الوہیت کو بلند کرتا اور الٰہی کمالات کی وضاحت کرتا ہے۔ تثلیث فی التوحید کے بغیر وحدانیت الہٰی شان و کمالات کو محدود کر دیتی ہے اور ذات باری کو سعادت و محبت کے ہر پہلو سے محروم رکھتی ہے۔ ہم تثلیث فی التوحید کے اقانیم میں باہمی محبت پاتے ہیں اور محبت اِس کی الوہیت کو ہر طرح کی ازلی خوشی اور سعادت کے تمام مقتضیات سے معمور رکھتی ہے۔
(2) تثلیث فی التوحید ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے خدا خود کو اپنی مخلوقات پر ظاہر کرتا ہے۔
باپ، بیٹا اور رُوح القدس ہر ایک کا ایک ہی جوہر ہے۔ بیٹا ہی باپ کے بارے میں معرفت تامہ رکھتا ہے اور وہی اُسے ظاہر کرتا ہے۔ رُوح القدس بنی نوع اِنسان کو الوہیت سے متعارف کراتا اور ظاہر کرتا ہے۔
اپنے تین اقانیم کے ذریعے خدا اپنی مخلوقات کے نزدیک آتا ہے۔ لیکن اِس کے بغیر وہ ہم سے دُور رہ جاتا، اور ہماری عقل و سمجھ پر پردہ پڑ جاتا اور ہمارے تجربات منقطع ہو جاتے۔
(3) تثلیث فی التوحید وہ ذریعہ ہے جس سے نجات کے کُل تقاضے پورے ہوئے۔ اقنوم ثانی نے جسم اختیار کیا اور ہمارے گناہوں کا کفّارہ دیا۔ وہ ہمارے لئے درمیانی بن گیا اور نجات، صلح، مصالحت اور راستبازی کا وسیلہ مہیا کیا۔ پولُس رسول نے کہا "خدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذمّہ نہ لگایا اور اُس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیا ہے" (2۔ کرنتھیوں 19:5)۔
اقنوم ثالث کے عمل کے بارے میں یہ تعلیم ملتی ہے کہ وہ ہمارے دِلوں کو نیا بنا دیتا ہے، اور ہماری عقلوں کو روشن کرتا ہے اور خدا کے حضور حاضر ہونے کے لائق بنانے کےلئے ہماری تقدیس کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تثلیث فی التوحید کے بغیر خدا کو منجی اور فدیہ دینے والا، تقدیس کرنے والا اور منصف کہنا صحیح نہ ہو گا، کیونکہ گناہوں کی وجہ سے شریعت کی جو لعنت اِنسان پر پڑتی ہے اُس سے چھٹکارا دلانے کےلئے وہ گناہگاروں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
(4) تثلیث فی التوحید خدا تعالیٰ کو اِنسانی زندگی میں ایک مثال و نمونہ کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ خاندانی ہم آہنگی اور سماجی محبت میں ہم اقنوم اوّل میں پدریت کی صحیح اور سچی صفت دیکھتے ہیں، اور اقنوم ثانی میں ابنیت کی حقیقی صفت دیکھتے ہیں۔ یہ اِنسان میں تصور پدریت اور فرزندیت کو مثل اعلیٰ کے طور پر پیش کرتی ہے۔
اگر بالفرض الوہیت خداوندی میں سے تمام احساسِ محبت کو اُس سے منزہ کر دیں تو خدا صرف ایک سخت و جابر خدا بن کر رہ جائے گا، جس کی سختی و جبر ہمیں روز بروز اُس سے دور کرتی جائے گی حتیٰ کہ ہم اُس سے جدا ہو کر رہ جائیں گے۔
عزیز قاری، اب جبکہ آپ نے اِس کتاب کا دھیان سے مطالعہ کیا ہے تو ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ذیل میں دیئے گئے سوالات کے جوابات دے کر اپنے علم کا جائزہ لیں۔
وہ کون کون سی باتیں ہیں جن میں مسیح کی شخصیت کے بارے میں اِسلام و مسیحیت ہم خیال نظر آتے ہیں؟
وہ کون سے اسباب ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو مسیحیت کی تثلیث کی تعلیم کو رد کرنے پر آمادہ کیا ہے؟
آپ کی رائے میں مسلم حضرات کیا اپنے اِس قول کی تائید میں کافی دلیل رکھتے ہیں کہ اِنجیل محرف ہے کیونکہ وہ آنحضرت کو نبی کی حیثیت سے پیش نہیں کرتی؟
قرآن میں مسیح کی کون کون سی ممتاز خصوصیات ہیں؟
وہ کون سا معجزہ ہے جسے اسلام نے مسیح سے منسوب تو کیا ہے لیکن اِنجیل اِس بارے میں خاموش ہے؟
قرآن کے متن میں کیا کوئی شخص مسیح کی الوہیت کی جھلک دیکھ سکتا ہے؟
آپ کی رائے میں وہ کون سے اسباب ہیں جنہوں نے اسلام کو اِس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ خدا کی پدریت کا انکار کرتا ہے؟
مسیح کی الوہیت کے بارے میں اسلام نے کیا نتائج اخذ کئے ہیں؟
مسیح کی تعلیم کے انکار میں امام رازی نے جو کہا ہے اُس کا آپ کس طرح جواب دے سکتے ہیں؟
اسلام کے اِس بیان کی کہ مسیح صرف ایک بندہ تھے، آپ کس طرح تردید کریں گے؟
کتاب مُقدّس سے مسیح کی الوہیت کی دلیل مختصراً پیش کیجئے۔
کیا مسیح نے خدا کی ذات سے اپنا تعلق اِنجیل میں بیان کیا ہے؟ حوالے دیجئے۔
پرانے عہدنامہ کے نبیوں اور نئے عہدنامہ کے رسولوں نے مسیح کی الوہیت پر کیا دلیلیں دی ہیں؟
کیا مسیح نے اُسی طرح اپنی تعظیم کا حکم دیا ہے جس طرح باپ کی تعظیم کا؟
غناسطیوں نے اور ایرئیس کے ماننے والوں نے شخصیت مسیح کا جو انکار پیش کیا ہے اُس کی آپ کس طرح تخصیص کریں گے؟
کیا کوئی ایسا زبور بھی ہے جس میں مسیح کی الوہیت نظر آتی ہے؟
آپ اِس سچائی کو شخصی طور پر کس طرح بیان کریں گے کہ خدا تثلیث فی التوحید ہے؟
آپ اُن لوگوں کو کیا جواب دیں گے جو تثلیث فی التوحید کا مطلب تین خدا لیتے ہیں؟
کیا تثلیث فی التوحید کی بنیاد کتب مُقدّسہ میں ہے؟
کتاب مُقدّس کی کوئی ایسی عبارت پیش کیجئے جو تثلیث فی التوحید کی بےنظیری دکھاتی ہو۔
The Good Way
P.O.Box 66
CH - 8486
Rikon
Switzerland