کیا خدا جسم میں ظاہر ہوا؟

کیا خدا جسم میں ظاہر ہوا؟

اسکندر جدید


سوال 1

"جب آپ کہتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح خدا ہیں جو انسانی جسم میں ظاہر ہوئے تو آپ کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں تو بتائیے کہ کیوں تجسم ضروری تھا؟" (ایف۔ کے۔، طرابلس، لبنان)

جواب 1

الف- پہلی حقیقت جس کا ہمیں سامنا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کاملیت کی اُس حالت کو حاصل نہیں کر سکتا جو وہ اپنی ذات پر بھروسا رکھتے ہوئے حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے کیونکہ قانونِ گناہ ایک راستے کے پتھر کے طور پر عمل کرتا ہے۔

پولُس رسول اِس سچائی کو ہم پر یوں عیاں کرتے ہیں:

"کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔ چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں۔ پس اگر میں وہ کرتا جس کا ارادہ نہیں کرتا تو اُس کا کرنے والا میں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے۔ غرض میں ایسی شریعت پاتا ہوں کہ جب نیکی کا ارادہ کرتا ہوں تو بدی میرے پاس آ موجود ہوتی ہے۔ کیونکہ باطنی انسانیت کی رو سے تو میں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔ مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے" (رومیوں7: 18-23)۔

ب- رسول کے الفاظ یہاں پر اُس کشمکش کو واضح کرتے ہیں جو انسانی جان میں فضل اور بگاڑ کے درمیان ہے، خدا کی شریعت جس میں انسان خوش ہوتا اور جس کے مطابق ڈھلنا چاہتا ہے اُس کے اور گناہ کی شریعت کے درمیان ہے جو انسان کو اپنی جانب راغب کرتی، اپنا غلام بناتی اور اُسے وہ کرنے پر مجبور کرتی ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتا۔ تاہم رسول خود گناہ اور موت کی شریعت سے آزاد ہونے کےلئے بےچین ہے اور عرشِ الہٰی کی طرف اپنی مشہور پکار بلند کرتا ہے: "ہائے میں کیسا کمبخت آدمی ہوں! اِس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا؟" (رومیوں 7: 24)۔ جب وہ مجسم کلام کی شخصیت میں نجات دہندہ کو دیکھتا ہے تو خوشی سے کہتا ہے: "اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا شکر کرتا ہوں" (رومیوں 7: 25)۔

یہ بھید مردِ خدا ایوب نبی پر بھی پہلے ظاہر ہو چکا تھا جب وہ مسلسل دکھوں اور مصیبتوں سے نڈھال تھے۔ اپنے اور خدا کے مابین ایک درمیانی کی بڑی ضرورت کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے شکوہ کا اظہار یوں کرتے ہیں:

"ہمارے درمیان کوئی ثالث نہیں

جو ہم دونوں پر اپنا ہاتھ رکھے۔

وہ اپنا عصا مجھ سے ہٹا لے

اور اُس کی ڈراﺅنی بات مجھے ہراسان نہ کرے۔

تب میں کچھ کہوں گا اور اُس سے ڈرنے کا نہیں

کیونکہ اپنے آپ میں تو میں ایسا نہیں ہوں۔" (ایوب 9: 33-35)

اِس لئے خدا تعالیٰ کی ذات کے دوسرے اقنوم نے جسم اختیار کیا۔ اُس نے انسان کی نجات کی بڑی ضرورت کو پورا کیا تا کہ اُسے بحال کرے اور خدا کے ساتھ اُس کی مصالحت کروائے۔

ج- تمام انسان شخصی تجربے سے جانتے ہیں کہ بگڑے ہوئے رجحانات اُن میں بستے ہیں جن کے ہاتھوں وہ افسوسناک طور پر مغلوب ہوتے ہیں۔ یہاں ہمیں رسولی قول یاد آتا ہے: "اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں" (رومیوں 3: 23)، "اگر ہم کہیں کہ ہم بےگناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں اور ہم میں سچائی نہیں" (1۔ یوحنا 1: 8)۔ اِسلام اِس حقیقت کا اقرار کرتا ہے، کیونکہ قرآن کہتا ہے: "اور اگر خدا لوگوں کو اُن کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے۔" (سورة النحل 16: 61)

اب یہ ہم پر نہ صرف تاریخی طور پر بلکہ عقلی لحاظ سے بھی واضح ہے کہ انسان اِس روحانی معراج تک اُس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اُس شخصیت کے ساتھ پیوست نہ ہو اور اُس سے راہنمائی نہ پائے جو اُس سے برتر ہے اور اپنی ذات میں انسان سے بڑھ کر ہے۔

د- اِس لئے ہم نے اپنے مطالعے کو انسان کی خطاﺅں اور اُس کے اُس درجے تک پہنچنے میں جو آدم گناہ میں گراوٹ سے پہلے رکھتا تھا ناکامی کی وضاحت تک محدود کیا ہے۔ یہاں توقف کرنا شکست کے مترادف ہو گا۔ ہم ہرگز یہ تصور نہیں کر سکتے کہ ایسی شکست قادر مطلق خدا کا مقصد ہے۔ اِس کے برعکس خداوند خدا بھلا ہے اور اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اپنی بھلائی میں خدا تعالیٰ انسان کو جسے اُس نے اپنی صورت پر پیدا کیا ایسی تکلیف دہ صورت میں اکیلا نہ چھوڑے گا کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ چونکہ انسان خدا کے مقصد کو پورا کرنے میں ناکام ہوا اِس لئے خدا نے اُسے کامل کرنے کےلئے ایک شخصیت کو پہلے سے مقرر کیا۔ وہ شخصیت کون ہے؟ کیا وہ ایک مخلوق ہے جس نے مکمل پاکیزگی حاصل کی؟ یا وہ خدا خود ہے؟

ہ- آئیے مضبوط اساس کو تھامے رہنے کی کوشش کریں اور اپنے ہی نظریات سے چاہے وہ مختلف مذاہب کے اصولوں پر مبنی کیوں نہ ہوں ہماری توجہ نہ بٹے۔ آئیے ہم یہ حقیقت بھی یاد رکھیں کہ کوئی بھی مذہب انسان کی خدا کے ساتھ براہ راست تعلق کی ایک خواہش رکھنے کا انکار نہیں کرتا۔ یہ خدا ہے جس سے لوگ دعا مانگتے ہیں، اُس سے وہ مدد اور راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔ یقیناً وہ جواُس پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اُن کی مدد کرتا اور اُن کے قدموں کی اطمینان کی راہوں پر راہنمائی کرتا ہے۔ مزید برآں، ہم یہ جان جائیں گے کہ علامتیں جنہیں اکثر بھید کہا جاتا ہے اُن کے پیچھے مقصد روح کی خدا کے ساتھ مکمل پیوستگی ہے۔ مردِ خدا آگستین نے اپنی دعا میں کہا "اے خداوند تُو نے ہمیں اپنے لئے خلق کیا اور ہماری روحیں اُس وقت تک بےآرام ہیں جب تک کہ وہ تجھ میں آرام نہ پا لیں۔"

اِس لئے یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں کہ خدا اور انسان کے درمیان ایک تخلیق شدہ درمیانی موجود ہے جسے فوق البشری فطرت دی گئی ہے۔ درحقیقت اِس کی نفی کرنے والے ثبوت بکثرت موجود ہیں۔ اگر مخلوق کو وہ کاملیت حاصل کرنی تھی جس کا خدا نے اُس کےلئے ارادہ کیا، اور اگر انسان کو مخلصی پانی ہے تو یہ اشد ضروری بن جاتا ہے کہ یہ خدا کے اپنے کام کے ذریعے پورا کیا جائے جس کی حمد و تمجید ابدالآباد ہوتی رہے۔

اِس مقصد کو حاصل کرنے کےلئے یہ پہلے ہی سے مقرر کیا گیا کہ الوہیت تین بنیادی اقانیم پر مشتمل ہو، تا کہ تجسم ممکن ہو سکے۔ یہ الہٰی خوشی تھی: کہ خداوند ہماری گری اور ترک کی ہوئی نسل کو مخلصی بخشے کیونکہ جو نجات کےلئے درکار ہے وہ اکیلا ہی اُسے کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے اعتبار سےتجسم کا مطلب ذاتِ الہٰی کے اقانیم میں سے ایک اقنوم کا انسانی جسم اختیار کرنا ہے۔

میں کسی بھی طرح سے یہاں پر اِس سوال کا جواب دینے کی کوشش نہیں کر رہا: کہ کیا خدا تجسم کے بغیر گری ہوئی انسانیت کو بچانے کے قابل نہ تھا؟ لیکن میں خدا کے کلام کی روشنی میں تصدیق کرتا ہوں کہ تجسم ایک لائق و مناسب طریقہ ہے، اور درکار مقصد کو پورا کرنے کےلئے حکمت میں لاثانی ہے۔ یہ حقیقت کہ تجسم واقع ہوا اِس بات کو بہت ممکن بناتی ہے کہ خدا کے مقصد کو مخلصی کے کام میں مکمل طور پر پورا کرنے کےلئے یہ ضروری تھا اور یہ کہ گری ہوئی انسانیت کی حالت کا یہ تقاضا تھا اور یہ اُس کی ضرورت تھی۔

و- مجھے یہ ذِکر کرتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ خدا، جس کی تمجید ہو، اپنی مخلوق کو کسی طرح اپنے ساتھ منسلک ہونے سے کمال کی بلندی تک پہنچانے کی خواہش کرتا ہے، اور وہ ایسا محض ایک بیرونی الہٰی حکم کے ذریعے نہیں کرنے کو تھا کہ "ہو جا اور وہ ہو گیا" بلکہ ایک کامل انسان کی صورت میں خود سے ظاہر ہونے سے کرنے کو تھا۔

ز- جب ہم فدا و مخلصی کی تعلیم پر غور کرتے ہیں جیسا کہ پاک صحائف میں موجود ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ خدا اور انسانوں کے مابین درمیانی میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہونی ضروری ہیں:

(1) وہ لازماً انسان ہو۔ رسول وضاحت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں اقنوم ثانی نے انسانی صورت اختیار کی نہ کہ فرشتوں کی صورت کیونکہ وہ انسانوں کے فدیہ و مخلصی کےلئے آیا۔ یہ ضروری تھا کہ وہ شریعت جسے ہم نے توڑ دیا کے ماتحت پیدا ہو تا کہ ساری راستبازی پوری ہو، تا کہ وہ ہمارے گناہوں کا فدیہ دینے کےلئے ایک قربانی کے طور پر دُکھ اُٹھاتا اور مرتا، تا کہ وہ ہماری انسانی زندگی میں شریک ہو کہ ہماری کمزوری کو محسوس کرے (عبرانیوں 2: 14)۔

(2) وہ لازماً گناہ کے بغیر ہو۔ وہ قربانی جو مذبح پر پیش کی جاتی تھی، شریعت کے مطابق اُس کےلئے ضروری تھا کہ وہ بےعیب ہو۔ باالفاظِ دیگر، گناہ سے نجات دینے والے کےلئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود گناہگار ہو، وگرنہ اُس کی خدا کے پاس پہنچ نہ ہو گی; نہ ہی وہ اپنے لوگوں کےلئے پاکیزگی اور ابدی زندگی کا منبع ہو سکتا ہے کہ اگر وہ خود راستباز اور پاک نہیں ہے۔ اِس لئے یہ ناگزیر تھا کہ ہمارا سردار کاہن پاک اور بےریا اور بیداغ ہو اور گنہگاروں سے جدا ہونا چاہئے (عبرانیوں 7: 26)۔

(3) وہ لازماً خدا ہو، کیونکہ کوئی بھی چیز گناہ کو دور نہیں کر سکتی سوائے اُس کے خون کے جو محض ایک مخلوق سے بڑا ہو۔ اِس لئے مسیح نے خدا ہونے کے ناطے اپنا آپ ایک ہی بار ایک ہی قربانی کے طور پر چڑھانے سے اُن کو ہمیشہ کےلئے کامل کر دیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں (عبرانیوں 7: 27 اور 10: 14)۔ اِسی طرح کوئی اَور نہیں بلکہ الہٰی شخصیت ہی شیطان کی قوت کو تباہ کر سکتی ہے اور جنہیں شیطان نے اپنا قیدی بنا لیا ہے اُنہیں بچا سکتی ہے۔ کوئی بھی مخلصی کے بڑے کام کو پورا نہیں کر سکتا، لیکن وہی کرسکتا ہے جو قادر مطلق ہے اور جس کی حکمت و معرفت کی کوئی حد نہیں، تا کہ اپنی کلیسیا کا سردار کاہن اور سب کا منصف ہو۔ کوئی بھی مخلصی یافتہ لوگوں کےلئے روحانی زندگی کا منبع نہیں ہو سکتا سوائے اُس کے جس کے جسد میں الوہیت کی تمام معموری سکونت کرتی ہے۔

ح- یہ تمام صفات، جنہیں کتاب مُقدّس خدا اور نسل انسانی کے مابین مصالحت کے کام میں درمیانی ہونے کےلئے ضروری ٹھہراتی ہے، مسیح میں اُس کام کی مناسبت سے یکجا ہیں جسے وہ مکمل کرنے کےلئے آیا۔

جناب مسیح میں اِن صفات کے فرض کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی مصالحت، جس میں وہ سب شامل ہے جو اُس نے انسانیت کی نجات کےلئے کیا اور کرنا جاری رکھتا ہے، الہٰی شخصیت کا کام ہے۔ مسیح کے تمام کام اور دُکھ اُس کے درمیانی کے کام میں ایک الہٰی شخصیت کے کام اور دُکھ ہیں۔ وہ جو مصلوب ہوا جلال کا خداوند ہے; وہ جس نے اپنا آپ موت کےلئے قربان کر دیا خدا کی ذات میں اقنوم ثانی ہے۔

تاریخی ثبوت

ط- تاریخ کا ایک جائزہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ایک شخص اِس زمین پر ایسا رہا جس کی تمام زندگی اُن دو عناصر کا واضح ثبوت ہے جن پر انسانیت کی کامل بھلائی مبنی ہے۔ یہ دو عناصر ہیں: خدا کے ساتھ ایک دائمی تعلق اور اپنے ساتھی انسانوں کےلئے ایک بےمثل محبت۔ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ خدا کی بادشاہی کی منادی کرتا پھرا، بھلائی کرتا رہا اور جو بدروح گرفتہ تھے اُنہیں شفا دیتا رہا۔ اُس نے انسانیت پر خدا کی بابت ایک نئی آگہی ظاہر کی کہ جیسے باپ اپنے بچوں کےلئے فکرمند ہوتا ہے ویسے ہی خدا ہر فرد کی شخصی طور پر فکر کرتا ہے۔ خدا ہر تائب گنہگار کو اُس باپ کی طرح گرمجوشی سے ویسے قبول کرتا ہے جو اپنے کھوئے ہوئے بیٹے کو واپس اپنے پاس لوٹنے پر خوش آمدید کہتا ہے۔

ی اور ک- اپنی محبت کی تعلیمات اور اپنے رحم کے کاموں کے ساتھ ساتھ اُس نے شاگردوں کے ایک گروہ کو چُنا کہ اُس کے ساتھ رہیں اور اُس کی تعلیمات اور اُس کی مثال سے سیکھیں۔ روز بروز یہ شاگرد اُس کی بابت اپنی آگہی میں ترقی کرتے گئے، اور اُس کے سوچنے کے انداز اور اُس کی تمثیلوں کے گہرے معنٰی کے بارے میں اُن کی بصیرت گہری ہوتی گئی۔ اُنہوں نے اُس کی روح کی برکات کو حاصل کیا، اُس کے بھروسے سے سیکھا، اور خدا کے ساتھ اُس کی رفاقت میں شریک ہوئے۔ تاہم بُری دُنیا اُس کے خوف سے کانپ اُٹھی۔ وہ جنہوں نے سچائی کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنی ہی راستبازی پر تکیہ کیا اُنہوں نے اُس کے خلاف بغاوت کی، مقدمہ کےلئے اُسے گھسیٹ کر لے گئے، اُس پر کفر اور شریعت کے توڑنے کا الزام لگایا۔ وہ اُس کے خلاف موت کا پروانہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن اُس نے کیسے ردعمل ظاہر کیا؟ اُس نے اپنا دفاع کرنے سے انکار کیا، لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر وہ محض ایک لفظ کہے تو اُس کے دشمنوں کو ختم کرنے کےلئے آسمان سے فرشتوں کے بارہ تُمّن آ سکتے تھے۔ اُس کے بچ جانے کےلئے جو وسائل دستیاب تھے اُس نے اُن کا چناﺅ نہیں کیا اور اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹا۔ خدا تعالیٰ کی محبت کے معنٰی کا اعلان کرنے کےلئے اُس نے اپنا آپ مکمل طور پر دے دیا۔ خدا گناہ کی زیادتی اور سخت بھیانک پن کو جس نگاہ سے دیکھتا ہے اُسے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کےلئے اُس نے گناہ کو اجازت دی کہ وہ اُس کے کامل انسانی جسم پر سزا کا حکم عائد کرے۔ بدی کو فتح کرنے کےلئے اُس نے اُس کے حملوں کے خلاف موت تک مزاحمت کی، اِس طرح سے وہ تمام انسانیت کی جدوجہد میں اپنی حتمی فتح کےلئے راستہ بناتے ہوئے شریک ہوا۔

ل- تیسرے دن وہ جی اُٹھا۔ اُس نے پہلے ہی اِس بارے میں بتایا تھا: "باپ مجھ سے اِس لئے محبت رکھتا ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تا کہ اُسے پھر لے لوں۔ کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ میں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا" (یوحنا 10: 18،17)۔ اور بالکل اُس نے ایسے ہی کیا۔ اُس نے کام پورا کیا اور الہٰی مکاشفہ مکمل ہوا۔ محبت اپنی بھرپوری میں ظاہر ہوئی، اور گناہ کی زبردست قوت کے ساتھ جنگ لڑی گئی جسے شکست ہوئی۔ خدا نے بدی پر زبردست فتح حاصل کی۔

م- اب اِس کا نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ اُس کے شاگردوں میں بہت نمایاں تھا، جنہوں نے اُس کی بابت گہری آگہی و قائلیت حاصل کی جو اُس کے ساتھ اُن کی رفاقت سے مضبوط ہوئی۔ اور یہ اُس وقت واضح ہوئی جب وہ اپنے جی اُٹھنے کے بعد اُن پر ظاہر ہوا۔ اُن کےلئے وہ محض ایک انسان یا انسانوں سے بڑھ کر کسی نوع کا ایک فرد نہیں تھا۔ اُنہوں نے اُس میں خود خدا کی صفات دیکھیں۔ اُس نے اُن باتوں کا دعویٰ کیا جو خدا سے ہٹ کر کسی بھی فرد کےلئے کفر تھیں۔ ہر وہ دعویٰ جو اُس نے کیا وہ بشمول اِس حقیقت کے ثابت ہوا کہ وہ اُن کی پرستش کے لائق تھا، اور درحقیقت خدا تھا جو انسان کی زندگی بسر کر رہا تھا اور ٹھیک اُسی وقت آسمان پر اپنے تخت سے کائنات پر سلطنت بھی کر رہا تھا۔

ن- یہ صرف خداوند یسوع کے اُن شاگردوں کا تجربہ نہیں تھا جو براہ راست اُس کے ساتھ تعلق رکھتے تھے، بلکہ جیسے شاگردوں نے جنہیں اُس نے اپنی جگہ بھیجا اُس کے روح کی قوت میں خوشخبری کو پھیلایا، تو یہ اَور بہت سے لوگوں تک تیزی سے پھیلا۔

اُن شاگردوں کی موت کے ساتھ جنہوں نے اُسے جسم میں دیکھا تھا یہ قائلیت ختم نہ ہوئی کہ یسوع ناصری خدا اور انسان دونوں تھا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ کسی دینی بدعت پر نہیں بلکہ زمانوں پر پھیلے ہوئے مسیحیوں کے شخصی تجربے اور اِس یقین پر مبنی تھی کہ یسوع اب بھی زندہ ہے اور اُن سب کے ساتھ ایک شخصی تعلق قائم رکھتا ہے جو اُس کے طالب ہوتے ہیں۔ یہ تعلق اُن کے اور خدا کے درمیان ایک رکاوٹ کے طور پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ حقیقت میں یہ خود خدا کے ساتھ رفاقت ہے۔

س- یہ الہٰی اقنوم یسوع مسیح جامد و غیرکامل شخصیت نہیں ہے، وہ تمام کائنات میں موجود ہے; وہ یہاں ہے، وہ وہاں ہے، وہ ہر جگہ ہے۔ وہ انسان کو چھوتا ہے اور کہتا ہے "میری پیروی کرو۔" اور انسان استعجاب کی حالت میں جواب دیتا ہے: "اے مالک آپ کی خدمت سخت محنت طلب ہے اور میں اُسے برداشت نہیں کر سکتا، اور میں آپ کے نقش قدم کی پیروی کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ اے مالک مجھے اکیلا چھوڑ دیجیئے کیونکہ میں ایک گنہگار ہوں۔" یسوع جواب دیتا ہے: "اپنی زندگی مجھے دو، اُسے میرے حوالے کرو، مجھ پر ایمان و یقین رکھو کیونکہ میرا فضل تمہارے لئے کافی ہے۔" آدمی اُس کی بلاہٹ کا جواب دیتے ہوئے اُس کا شاگرد بن سکتا ہے۔ مسیح راستہ کے ساتھ ساتھ یہ پکار کر کہتا ہے: "اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آﺅ۔ میں تم کو آرام دونگا۔ ... اے انتہائی زمین کے سب رہنے والو! تم میری طرف متوجہ ہو اور نجات پاﺅ" (متی 11: 28 اور یسعیاہ 45: 22)۔ بہت سے اُس کی الہٰی شخصیت کے فضل کی بدولت اُس کی آواز سُنتے اور اُس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ آج وہ افریقہ کے کالوں میں ایک مشہور و معروف شخصیت ہے جہاں لوگوں کے بڑے بڑے گروہ اُس کی پیروی کر رہے ہیں اور بدروحوں کے اثر اور جادوگروں کے چنگل سے رہائی پا رہے ہیں۔ ہر قوم، قبیلے اور طبقے میں ایسے لوگ ہیں جنہیں یسوع نے بدل دیا ہے۔ پہلے وہ گناہ، شہوت اور غرور میں زندگی بسر کرتے تھے مگر اب وہ اُس کی انجیل کے لائق راستی اور سچائی کی پاکیزگی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر آپ اُن سے ایسی تبدیلی کی بنیادی وجہ کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ جواب دیں گے "یہ سب کچھ ہمارے خداوند یسوع کی معرفت ہی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔"

اِس لئے ہم پورے بھروسے کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یسوع ناصری کی زندگی نے مخلوق میں خدا کے کام کو خوب زینت بخشی ہے اور اِسے رفعت و کاملیت کی بلندی تک پہنچایا ہے۔ اُس میں یہ کام پوری تکمیل کو پہنچا۔ اُس میں زندگی اور روح نے خدا کا مقصد حاصل کیا; وہ سب جو اُسے محبت میں قبول کرتے ہیں وہ خدا کی معموری تک قائم و معمور ہوتے ہیں۔ باالفاظ دیگر وہ جان جو اُس پر ایمان لاتی ہے وہ اپنے وجود کے سب سے بڑے مقصد تک پہنچ جاتی ہے، جو یہ ہے کہ ہماری خدا کے ساتھ یگانگت ہو اور مخلوق اپنے خالق خدا کو جلال دے۔

ع- یہ تاریخ کا فیصلہ و نتیجہ ہے۔ تاہم یسوع مسیح کے تعلق سے "کامل انسان" کا مفہوم محض الہٰی جوہر سے ہونا، اُس جوہر کا محض عکس ہونا یا خدا اور مخلوق کے درمیان محض ایک رابطہ کار ہونا نہیں ہے۔ وہ اِس لئے ایک کامل انسان ہے کیونکہ وہ اُسی وقت کامل خدا بھی ہے "کیونکہ الوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم خدا ہو کر سکونت کرتی ہے" (کلسیوں 2: 9)۔ وہ نہ صرف ایک انسانی زندگی کے ذریعے الہٰی جوہر کو زبردست طریقے سے منعکس کرتا ہے بلکہ "وہ اُس کے جلال کا پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔ وہ گناہوں کو دھو کر عالمِ بالا پر کِبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا" (عبرانیوں 1: 3)۔ "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی" (یوحنا 1: 1-3)۔ اِس لئے وہ تمام قوت، بادشاہی، حکمت، قدرت، تعظیم، جلال و ستایش حاصل کرنے کے لائق ہے۔ آمین!

سوال 2

"یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ خدا دُنیا یا اُس میں بسنے والوں کا محتاج نہیں، اور ہر وہ تعلق جو وہ اپنی مخلوق سے رکھے وہ اُس قادر مطلق کو جیسا وہ ہے زمان و مکان کی قید میں محدود کرتا ہے، اور نتیجہ کے طور پر اُس سے مفعولی حالت منسوب کرتا ہے جو ایک کفر ہو گا۔ کیا تجسم کا جس پر مسیحیت اعتقاد رکھتی ہے مطلب خدا کے ایک حصہ کا مسیح کے جسم میں نقل مکانی کر لینا ہے؟" (اے۔ ایس۔، بیروت، لبنان)

جواب 2

الف- اے عزیز قاری اگر آپ ایک لمحے کےلئے توقف کریں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ اسلام جس پر آپ قائم ہیں وہ بھی خدا کو اپنی مخلوقات کے ساتھ تعلق سے زمان و مکان میں دیکھتا ہے۔ آپ ایمان رکھتے ہیں کہ خدا نے اپنا رسول انسانوں کےلئے بھیجا۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے اپنی مخلوقات کے ساتھ ایک تعلق قائم کیا ہے۔ قرآن میں لکھا ہے:

"جس طرح ہم نے فرعون کے پاس موسیٰ کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا اُسی طرح تمہارے پاس بھی ایک رسول بھیجے ہیں جو تمہارے مقابلے میں گواہ ہوں گے۔ سو فرعون نے ہمارے پیغمبر کا کہا نہ مانا تو ہم نے اُس کو بڑے دردناک انداز سے پکڑ لیا۔" (سورة المزمل 73: 15-16)

مزید برآں قرآن انسان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق قائم کرے، اور بیان کرتا ہے کہ خدا کو یہ پسند ہے جیسا کہ سورة آل عمران 3: 159 میں لکھا ہے:

"اور جب کسی کام کا پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بیشک اللہ بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔"

آپ یہ بحث کر سکتے ہیں کہ ایسے بیانات مجازی ہیں، لیکن ایسا کرنا تشریح کی طرف جانا ہو گا اور حقائق کی روشنی میں یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ اِس قسم کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں اُن اشخاص کا ذِکر ملتا ہے جو خدا کی طرف سے خاص کام کرنے کےلئے مقرر ہوئے، مثلاً قرآن میں لکھا ہے:

"ہم نے نوح کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا۔ تو اُنہوں نے اُن سے کہا اے میری برادری کے لوگو اللہ کی عبادت کرو اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں مجھے تمہارے بارے میں بڑے دِن کے عذاب کا بہت ہی ڈر ہے۔ تو جو اُن کی قوم میں سردار تھے وہ کہنے لگے کہ ہم تمہیں کُھلی گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ فرمایا اے قوم مجھ میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے بلکہ میں پروردگار عالم کا پیغمبر ہوں۔ تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی کرتا ہوں اور مجھ کو اللہ کی طرف سے ایسی باتیں معلوم ہیں جن سے تم بےخبر ہو۔" (سورة الاعراف 7: 59-62)

ایسی آیات مجازی طور پر نہیں لی جا سکتیں کیونکہ یہ خاص واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ب- آپ اُس خاص حدیث نبوی کے بارے میں کیا کہیں گے جس میں مسلمانوں پر نماز فرض کی گئی؟

ابن اسحق نے کہا کہ مجھے عبد اللہ بن مسعود کے ذریعے رسول اللہ سے روایت پہنچی کہ معراج کی رات "جبریل نے آخرکار مجھے میرے پروردگار کی حضوری میں پہنچایا جس نے مجھ پر روزانہ پچاس نمازیں فرض کیں۔ پھر میں واپس آیا اور موسیٰ بن عمران کے پاس سے گزرا۔ اور وہ تمہارے لئے بڑے اچھے شخص نکلے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ پر کتنی نمازیں فرض کی گئیں تو میں نے کہا 'روزانہ پچاس نمازیں۔' اُنہوں نے کہا 'نماز بڑی بوجھل چیز ہے اور آپ کی امت کمزور ہے اِس لئے آپ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر جائیے اور اُس سے درخواست کیجیے کہ آپ پر سے اور آپ کی امت پر سے (اس) بوجھ کو کم کر دے۔' پس میں واپس گیا اور اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ 'مجھ پر سے اور میری امت پر سے بوجھ کم کرے' تو اُس نے دس (نمازیں) کم کر دیں۔ پھر میں لوٹا اور موسیٰ کے پاس سے گزرا۔ اُنہوں نے مجھ سے پھر ویسا ہی کہا۔ تو پھر میں لوٹ کر گیا اور اُس سے درخواست کی تو اُس نے اَور دس کم کر دیں۔ پھر جب میں اُن کی طرف لوٹا تو اُسی طرح مجھ سے کہتے رہے کہ 'آپ لوٹ جائیے اور اپنے پروردگار سے درخواست کیجیے' یہاں تک کہ یہ تخفیف روزانہ پانچ نمازوں تک پہنچ گئی۔ پھر میں لوٹا اور موسیٰ کے پاس سے گزرا۔ پھر اُنہوں نے مجھ سے ویسا ہی کہا تو میں نے کہا: 'میں اپنے پروردگار کے پاس بار بار گیا اور اُس سے درخواست کی حتیٰ کہ مجھے اِس سے شرم آنے لگی ہے۔ پس اب تو میں ایسا نہیں کروں گا پس اُن نمازوں کو تم میں سے جو شخص ایمانداری کے ساتھ ثواب سمجھ کر ادا کرے گا اُس کو پچاس فرض نمازوں کا اجر ملے گا۔' " (سیرت النبی از ابن ہشام)

ج- میں یہاں اِس حدیث نبوی کے ساتھ آپ کو کچھ دیر کےلئے چھوڑتا ہوں تا کہ اِس کی روشنی میں آپ دیکھ سکیں کہ کیا خدا اپنی مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یا نہیں جو اِسی طرح اُس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔

مزید برآں محبت کی رو سے اِسے میں آپ کے سامنے یوں بیان کروں گا: اگر آپ "خدا کے تصور سے تجسیمی عناصر کے حتمی اخراج" کے عقیدے کو مانتے ہیں تو آپ ایسے خدا پر ایمان رکھ رہے ہیں جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے اور نتیجتاً جس سے آپ مکمل طور پر جدا ہیں۔ یوں آپ پوری طرح سے نبوت اور قرآن کا انکار کر رہے ہیں۔ ایک فرد اُس وقت تک نبی نہیں کہلاتا جب تک کہ وہ الہام یافتہ نہ ہو اور خدا اور اُس کی مخلوق کے درمیان ایک تعلق قائم کرنے کےلئے نہ بھیجا جائے۔

د- حدیث نبوی میں یوں لکھا ہے:

"خدا تعالیٰ کے نام کی تعریف و تمجید ہو، جو رات کی پچھلے پہر میں ہر رات نچلے آسمان پر اُترتا ہے اور پکارتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دُعا کر رہا ہے اور میں اُسے جواب دوں گا؟ جو کوئی مجھ سے معافی کا طلب گار ہو اور میں اُسے معاف کروں؟" (صحیح بخاری حدیث)

میرا ایمان ہے کہ "خدا کے تصور سے تجسیمی عناصر کے حتمی اخراج" کا عقیدہ جو تخلیق شدہ چیزوں سے خدا کی مکمل علیحدگی پر زور دیتا ہے، اُسے ایک تنہا خدا بنا دیتا ہے۔ یہ روحانی معاملات کو اپنی جگہ سے ہلا دینے کے برابر ہے۔ خدا سے علیحدگی میں انسان نہ تو توبہ کر سکتا ہے اور نہ پیدایش نو کا تجربہ کر سکتا ہے۔

اگر انسان کا خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو انسان کی اپنے آپ کو گناہ کی حالت سے راستبازی کی حالت میں لے کر آنے کی تمام کاوشیں بےفائدہ ثابت ہوتی ہیں۔ مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں کہا "تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟" (متی 6: 27)۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ "خدا کے تصور سے تجسیمی عناصر کے حتمی اخراج" کا عقیدہ بہت سوں کےلئے تجسم کے تصور کو قبول کرنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ غرض ایسے لوگوں نے اپنے آپ کو نجات کے فوائد سے دور کر رکھا ہے۔ تجسم کی تعلیم کو رد کرنے کے دفاع میں وہ بہت سے اعتراضات پیش کرتے ہیں جن میں درج ذیل شامل ہیں:

ہ- وہ بحث کرتے ہیں کہ الہٰی تجسم خدا کو معین زمان و مکان میں اُس کے الہٰی جوہر میں تبدیلی کے خطرے میں ڈالتا ہے، غرض خدا کو ناکامل ذھنوں کے معیار کے ساتھ دیکھنا ہے۔ درحقیقت وہ بالواسطہ طور پر خدا سے بےبسی منسوب کر رہے ہوتے ہیں، کہ وہ مجسم ہونے اور اپنے جوہرمیں ہرگز تبدیل ہوئے بغیر ظاہر ہونے کے ناقابل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تجسم میں لازمی طور پر الہٰی فطرت میں تبدیلی شامل نہیں ہے۔ اِس بارے میں ہمارا ثبوت یہ ہے کہ جب خدا کی ذات میں دوسرے اقنوم نے انسانی فطرت اختیار کی تو اُس نے اپنی الوہیت چھوڑ نہیں دی، بلکہ وہی قادر خدا رہا جس نے مردے زندہ کئے، اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا بخشی، گناہوں کو معاف کیا اور اپنے حکم سے طوفانوں اور لہروں کو تھما دیا۔ انجیل مُقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ وہ جسم میں ایک مافوق الفطرت طریقے سے ظاہر ہوا کیونکہ وہ تمام اجسام اور انسانی فطرت کا خالق ہے اور اُسے اُن کے ساتھ ایک ہونے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اِس سے ہٹ کر کوئی عقیدہ اِس بات کا اعتراف ہے کہ تمام اجسام اور فطرت کا خالق خدا نہیں بلکہ کوئی اَور وجود ہے۔

و- ہم تجربہ سے جانتے ہیں کہ کوئی بھی عقلمند اور سمجھدار شخص اپنے ماحول اور حالات کے مطابق بن سکتا ہے۔ اب کتنا زیادہ اِس بات کا امکان ہے کہ خدا تعالیٰ جوعقل کُل رکھتا اور ہر شے پر قادر ہے اپنے جوہر میں کسی تبدیلی کے آئے بغیر تجسم کے قابل ہو گا؟

یاد رکھیں، سورج زمین پر اپنی کرنیں اور حرارت بھیجتا ہے جو زمین پر بسنے والوں پر پڑتی ہیں اور سورج کی ماہیت میں کوئی تبدیلی آئے بغیر اُنہیں زندگی فراہم کرتی اور نشوونما میں مدد کرتی ہیں۔ اب کیا یہ معقول بات ہے کہ سورج تو دوسرے عناصر کے ساتھ ایک ہونے کی صلاحیت رکھے اور خود متاثر ہوئے بغیر اُن پر اثر ڈالے، جبکہ خدا جو سورج اور دیگر عناصر کا خالق ہے وہ ایسی قابلیت نہ رکھے؟

آپ ایمان رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے "انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا" (سورة الرحمن 55: 14)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ایک خاص زمان و مکان میں کھڑا ہوا کیونکہ اُس نے ایک خاص جگہ سے اپنے ہاتھوں میں مٹی لی اور جسے اُس نے ایک خاص وقت میں انسان بنایا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ایک خاص جگہ اور ایک خاص وقت میں اُس کا کھڑا ہونا اُسے محدود نہیں کرتا کیونکہ وہ قادر مطلق ہے، تو میں آپ کے سامنے یہ بات رکھوں گا کہ ایک خاص وقت اور ایک خاص جگہ پر اُس کا تجسم بھی اُسے محدود نہیں کرتا کیونکہ وہ قادر مطلق ہے۔ اِسی لئے حضرت مسیح نے فرمایا "جو انسان سے نہیں ہو سکتا وہ خدا سے ہو سکتا ہے" (لوقا 18: 27)۔

ز- ایک حدیث یوں ہے کہ جناب محمد نے فرمایا:

"جب مومنین روز قیامت اپنے رب کی شفاعت کے طالب ہوں گے تو وہ میرے پاس آئیں گے میں اُن کے ساتھ جاﺅں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی۔ پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا۔" (حدیث بخاری جلد ششم صفحہ نمبر66)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے: "جب ایک مسیحی یہ کہتا ہے کہ خدا جسم میں ظاہر ہوا تو اُس پر کفر کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے، جبکہ ایسا الزام اُس فرد پر نہیں لگایا جاتا جو کہتا ہے کہ خدا ایک جگہ پر موجود ہے؟"

سورة الحدید 57: 29 میں لکھا ہے:

"فضل اللہ ہی کے ہاتھ ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔"

سورة الفتح 48: 10 میں لکھا ہے:

"وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کاہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے۔"

سورة الملک 67: 1 میں لکھا ہے:

"وہ کہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔"

سورة ہود 11: 37 میں لکھا ہے کہ خدا نے نوح سے کہا:

"اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے سامنے بناﺅ۔"

سورة الطور 52: 48 میں لکھا ہے کہ خدا نے محمد سے کہا:

"اور تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو۔ تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔"

سورة الطہ 20: 39 میں لکھا ہے کہ خدا نے موسیٰ سے کہا:

"جب ہم نے تمہاری والدہ کو الہام کیا تھا ... اِسے صندوق میں رکھو ... میرا اور اس کا دشمن اسے اُٹھا لے گا اور میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پرورش پاﺅ۔"

ابوہریرة سے روایت ہے کہ محمد نے فرمایا:

"جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو پیدا کرنے سے فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہوا اور اپنے پروردگار کا دامن تھام لیا" (صحیح بخاری حدیث)۔

مندرجہ بالا تمام اقتباسات بتاتے ہیں کہ خدا چہرہ، ہاتھ، آنکھ اورکلائی رکھتا ہے جو انسانی جسم کے حصے ہیں۔ اگر خدا کا تجسم ایک کفر ہے تو مقتبس بالا آیات کی کیسے وضاحت کی جا سکتی ہے؟

ح- کیسے ایک پاک خدا عورت کے رحم میں، خون میں اور حمل اور بچے کی پیدایش میں ناپاکی میں رہ سکتا ہے؟ اور کیسے وہ انسانی جسم میں بھوکا پیاسا، کھاتے پیتے اور جسم سے پیشاب و براز خارج کرتے ہوئے رہ سکتا ہے؟

غالباً جو یہ کہتے ہیں اُنہوں نے خدا کے فرشتہ کے بیان کو سمجھا نہیں: "کیونکہ جو اُس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے۔" اگر خدا ایک عورت کے خون کے ساتھ رابطہ میں آنے سے پاک ہے، تو وہ کیسے یقین کرتے ہیں کہ خدا نے آدم کی ایک پسلی لی اور اُس سے عورت کو بنایا؟ وہ کیسے اُس روایتی حدیث کی وضاحت کریں گے جس کا ذِکر بی بی عائشہ نے کیا جب کہا "نبی کریم میری گود میں سر رکھ کر قرآن مجید پڑھتے، حالانکہ میں اُس وقت حیض والی ہوتی تھی" (صحیح بخاری، جلد اوّل، صفحہ 391)؟

اگر خون ناپاک تھا اور قرآن خدا کے جوہر سے اُس کا ازلی کلمہ اور اُس سے ناقابل جدا تھا، تو جناب محمد کیسے اپنے لئے یہ جائز بنا سکتے ہیں کہ اُسے بی بی عائشہ کی گود میں لیٹے ہوئے اُن کے حیض کے دوران اِسے پڑھیں، جبکہ مُقدّسہ مریم کے بطن میں کلام کا مجسم ہونا غیرقانونی ہے۔ سورة الحجر 15: 28 میں لکھا ہے:

"جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے بشر کو بنانے والا ہوں۔"

الجلالان نے اِس قسم کے گارے کی وضاحت "کالے گارے" کے طور پر کی ہے۔ اگر کالے گارے کے ساتھ چھو جانا خدا کی پاکیزگی کی تنزلی نہیں ہے اور اُسے ناپاک نہیں کرتا، تو کتنا زیادہ یہ مناسب ہے، کہ جب خدا نے انسان کو اِس سے بنایا اور اِس کے بعد اُسے اپنی مخلوق پر فضیلت بخشی، تو وہ اُس میں رہنے سے وہ ناپاک نہیں ہو گا؟

خدا کی تمجید اُس کلام کےلئے ہو جو مُقدّس پولُس رسول کے ذریعے ہم تک پہنچا کہ:

"کیا تم نہیں جانتے کہ تم خدا کا مقدِس ہو اور خدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے؟" (1۔ کرنتھیوں 3: 16)۔

اگر پاک خدا ایک ایماندار میں اپنے روح کے ذریعے سکونت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھتا، تو کتنا زیادہ یسوع کے جسم کے تعلق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے جو گناہ سے واقف نہ تھا اور انسانی تخم سے پیدا نہیں ہوا؟

ط- سورة القصص 28: 29-30 میں لکھا ہے:

"پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کر دی اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے تو طور کی طرف سے آگ دکھائی دی وہ اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ تم یہاں ٹھہرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے شاید میں وہاں سے رستے کا کچھ پتہ لاﺅں یا آگ کا انگارہ لے آﺅں تا کہ تم آگ تاپو۔ سو جب اُس کے پاس پہنچے تو میدان کے دائیں کنارے سے ایک مبارک جگہ میں ایک درخت میں سے آواز آئی کہ اے موسیٰ یہ میں ہوں اللہ تمام جہانوں کا پروردگار۔"

یہی واقعہ سورة طہ 20: 9-13 میں بھی لکھا ہے:

"اور کیا تمہیں موسیٰ کے حال کی خبر ملی ہے۔ جب اُنہوں نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو۔ میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں جاتا ہوں شاید اِس میں سے میں تمہارے پاس انگارہ لاﺅں یا آگ کے مقام سے اپنا رستہ معلوم کر سکوں۔ پھر جب وہ وہاں پہنچے تو آواز آئی کہ اے موسیٰ۔ میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنے جوتے اتار دو تم یہاں پاک میدان یعنی طوٰی میں ہو۔ اور میں نے تم کو منتخب کر لیا تو جو حکم دیا جائے اُسے سنو۔"

اِس سارے واقعہ کی وضاحت امام فخر الدین الرازی نے یوں کی ہے:

"موسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ کے پاس آنے کےلئے شعیب سے رخصت لی اور وہ اُنہیں مل گئی۔ جب وہ وہاں سے چل دیئے تو راہ کے کنارے ایک جمعہ کی سرد رات کو اُن کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ وہ اُس راہ پر بھٹک گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے آگ جلانی چاہی لیکن چقماق کے پتھر سے کوئی شعلہ نہ نکلا۔ جب وہ مزید کوشش کر ہی رہے تھے تو آپ نے راہ کی بائیں طرف ایک فاصلے پر کچھ آگ دیکھی۔" السدی کا کہنا ہے کہ "جناب موسیٰ نے سوچا کہ یہ چرواہوں کی لگائی ہوئی آگ ہے۔" کچھ دوسرے افراد جنہوں نے اِس واقعے کی وضاحت کی اُن کا کہنا ہے کہ موسیٰ نے اِسے ایک درخت پر دیکھا۔ "جب آپ نے اُسے دیکھا تو آپ نے اپنے اہل خانہ سے کہا ذرا ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔" جب آپ اُس تک پہنچے تو ابن عباس بیان کرتے ہیں "آپ نے ایک سرسبز و شاداب درخت تنے سے اوپر تک دیکھا اور وہ سفید آگ کی مانند تھا۔ وہ آگ کی چمکدار روشنی اور درخت کے سامنے حیرت میں کھڑے تھے۔ نہ ہی آگ نے سبز و شاداب درخت کو تبدیل کیا اور نہ ہی آگ میں درخت میں موجود پانی کی بدولت کوئی تبدیلی آئی۔ موسیٰ نے ملائکہ کو تسبیح کرتے ہوئے سُنا اور ایک بڑا نور دیکھا۔ حضرت موسیٰ نے نور کی تیزی کی وجہ سے اپنے چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور آپ کو نام سے پکارا گیا 'اے موسیٰ بلاشبہ میں تیرا رب ہوں۔' آپ نے فرمانبرداری سے جواب دیا 'آپ کہاں ہیں؟ میں آپ کی آواز سُنتا ہوں پر دیکھ نہیں سکتا۔' آواز آئی 'میں تیرے ساتھ ہوں، تیرے سامنے ہوں، تیرے پیچھے ہوں، تیرے چوگرد ہوں اور تیرے انتہائی نزدیک ہوں ... اپنے جوتے اُتار لے کیونکہ تُو مُقدّس وادی میں ہے۔' " (التفسیر الکبیر ، جز 22، صفحہ 14، 15)۔

بائبل مُقدّس میں یہ واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے:

"اور خداوند کا فرشتہ ایک جھاڑی میں سے آگ کے شعلہ میں اُس پر ظاہر ہوا۔ اُس نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی میں آگ لگی ہوئی ہے پر وہ جھاڑی بھسم نہیں ہوتی۔ تب موسیٰ نے کہا میں اب ذرا اُدھر کترا کر اِس بڑے منظر کو دیکھوں کہ یہ جھاڑی کیوں نہیں جل جاتی۔ جب خداوند نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو کترا کر آ رہا ہے تو خدا نے اُسے جھاڑی میں سے پکارا اور کہا اے موسیٰ! اے موسیٰ! اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔ تب اُس نے کہا اِدھر پاس مت آ۔ اپنے پاﺅں سے جوتا اُتار کیونکہ جس جگہ تُو کھڑا ہے وہ مُقدّس زمین ہے" (خروج 3: 2-5)۔

میرے محترم دوست، اگر خدا حضرت موسیٰ سے ہمکلام ہونے اور انسانیت تک ایک پیغام لے کر جانے کےلئے اُنہیں مقرر کرنے کی خاطر ایک جھاڑی میں آنے کا چناﺅ کرتا ہے اور آگ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، تو کیا مسیحیوں پر اِس بات کےلئے کفر کا الزام لگانا نامناسب نہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ خدا اپنے آپ کو محبت میں ظاہر کرنے کےلئے یسوع مسیح میں ظاہر ہوا؟ کیا وہ جھاڑی جس میں خدا ظاہر ہوا مسیح سے زیادہ افضل ہے؟

ی- اب میں آپ کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ اگر یسوع نے جسم میں کھایا، پیا اور ہضم کیا تو اِس سے الوہیت کی معموری جو اُس میں موجود تھی کم تر نہیں ہو تی۔ اِس کی وضاحت بائبل مُقدّس میں یوں کی گئی ہے:

"مجھے معلوم ہے بلکہ خداوند یسوع میں مجھے یقین ہے کہ کوئی چیز بذاتہ حرام نہیں بلکہ جو اُس کو حرام سمجھتا ہے اُس کےلئے حرام ہے" (رومیوں 14:14)۔

ک- عزیز قاری، جو بھی فرد کتاب مُقدّس پر گہری غور و فکر کرتا ہے یہ دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ طریقہ جس کے ذریعے خدا نے اپنا آپ ظاہر کرنے اور اپنے مقاصد پہنچانے کا چناﺅ کیا، وہ ظہور اور تجسم ہے۔

اِس سے فرق نہیں پڑتا کہ ایسا ظہور و تجسد بادل میں ہوا یا آگ میں، عہد کے فرشتے کے ذریعے ہوا یا مسیح کے بدن مبارک کے ذریعے جس میں وہ پوری طرح سے روح اور سچائی سے ظاہر ہوا۔

عبرانیوں کے نام خط 1:1-2 میں ہم مندرجہ ذیل بیان پڑھتے ہیں جو انسانیت کے ساتھ خدا کے تعلق کے بارے میں ایک کلیدی حوالہ ہے:

"اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حصہ بہ حصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا جسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کئے۔"

خدا تعالیٰ کے ظہور اور انسانیت کے ساتھ اُس کے کلام کرنے کی چند اَور مثالیں بھی یہاں دی جا رہی ہیں جو بائبل مُقدّس میں مرقوم ہیں:

٭پیدایش 18: 1-5 میں لکھا ہے:

"پھر خداوند ممرے کے بلوطوں میں اُسے نظر آیا اور وہ دن کو گرمی کے وقت اپنے خیمہ کے دروازہ پر بیٹھا تھا۔ اور اُس نے اپنی آنکھیں اُٹھا کر نظر کی اور کیا دیکھتا ہے کہ تین مرد اُس کے سامنے کھڑے ہیں۔ وہ اُن کو دیکھ کر خیمہ کے دروازہ سے اُن سے ملنے کو دوڑا اور زمین تک جُھکا۔ اور کہنے لگا کہ اے میرے خداوند اگر مجھ پر آپ نے کرم کی نظر کی ہے تو اپنے خادم کے پاس سے چلے نہ جائیں۔ بلکہ تھوڑا سا پانی لایا جائے اور آپ اپنے پاﺅں دھو کر اُس درخت کے نیچے آرام کریں۔ میں کچھ روٹی لاتا ہوں۔ آپ تازہ دم ہو جائیں۔ تب آگے بڑھیں کیونکہ آپ اِسی لئے اپنے خادم کے ہاں آئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا جیسا تُو نے کہا ہے ویسا ہی کر۔"

یہاں خدا ابرہام پر ایک آدمی کی صورت میں ظاہر ہوا جو بیٹھا، جس نے کھایا اور پیا۔

٭پیدایش 32: 22-30 کا حوالہ بیان کرتا ہے کہ خدا یعقوب پر ایک آدمی کی صورت میں ظاہر ہوا اور اُس کے ساتھ پَو پھٹنے کے وقت تک کُشتی کرتا رہا اور جب اُس نے یعقوب سے کہا مجھے جانے دے، یعقوب نے کہا "جب تک تُو مجھے برکت نہ دے میں تجھے جانے نہیں دُوں گا۔" اُس شخص نے اُسے برکت دی اور کہا:

"... کیونکہ تُو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔"

اِس لئے یعقوب نے اُس جگہ کا نام فنی ایل رکھا اور کہا:

"میں نے خدا کو روبرو دیکھا تو بھی میری جان بچی رہی۔"

خروج 24: 9-11 میں لکھا ہے:

"تب موسیٰ اور ہارون اور ندب اور ابیہو اور بنی اسرائیل کے ستر بزرگ اُوپر گئے۔ اور اُنہوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا اور اُس کے پاﺅں کے نیچے نیلم کے پتھر کا چبوترا سا تھا جو آسمان کی مانند شفاف تھا۔ اور اُس نے بنی اسرائیل کے شُرفا پر اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔"

یہاں خدا کا ظہور ایک آدمی کی صورت میں نظر آیا جس کے ہاتھ اور پاﺅں ہیں، لیکن اُس نے اُن شرفا پر اپنا ہاتھ نہ رکھا کیونکہ وہ گنہگار تھے اور اُنہیں ایک ایسے درمیانی کی ضرورت تھی جو خدا اور انسان کی فطرت رکھتا ہو۔

سوال 3

"کیا خدا جو رحمان و رحیم ہے اِس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے بیٹے کو بھیجے بغیر انسانیت کو نجات بخشے، جس میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ جیسے آپ کا دعویٰ ہے کہ خدا کا ایک بیٹا ہے کہ وہ انسانی بدن لے، ہماری طرح آزمایا جائے اور شریر لوگوں کے ہاتھوں میں مارا جائے ؟" (ایس۔ اے۔، دمشق، شام)

جواب 3

الف- بائبل مُقدّس تعلیم دیتی ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنایا (پیدایش 1: 26)۔ اور خدا تعالیٰ جس کے نام کی تمجید ہو، اُس نے ارادہ کیا کہ انسان بغیر بگڑی حالت میں رہے۔ لیکن انسان خدا کے حکم کو توڑنے کی طرف اپنی غرور کی وجہ سے راغب ہوا اور جانتے بوجھتے نافرمانی کی اور راہ سے بھٹک گیا۔ یوں وہ گنہگار بن گیا اور خدا کی عدالت کا سزاوار بن گیا جس نے اعلان کیا ہے "جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرتی ہے" (حزقی ایل 18: 20)۔ پولُس رسول نے اِس حقیقت کی جانب اُس وقت اشارہ کیا جب یہ کہا "پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا" (رومیوں 5: 12)۔

کلامِ خدا تعلیم دیتا ہے کہ انسان خدا کو اپنی آگہی و معرفت کا مرکز بنانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے پہلے والدین کی طرح نافرمانی میں گر گئے۔ اُنہوں نے راستبازی اور پاکیزگی کی صورت کھو دی جس پر خدا نے اُنہیں تخلیق کیا تھا۔ وہ بگڑ گئے جیسا کہ سلیمان نبی نے لکھا ہے:

"لو میں نے صرف اتنا پایا کہ خدا نے انسان کو راست بنایا پر اُنہوں نے بہت سی بندشیں تجویز کیں" (واعظ 7: 29)۔

پولُس رسول نے فرمایا:

"اِس لئے کہ اگرچہ اُنہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اُس کی خدائی کے لائق اُس کی تمجید اور شکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور اُن کے بےسمجھ دِلوں پر اندھیرا چھا گیا۔ وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے" (رومیوں 1: 22،21)۔

انسان جو خدا کی صورت پر تخلیق کیا گیا اُس کےلئے یہ ممکن تھا کہ خدا کی فرمانبرداری کرنے کی صورت میں بگاڑ اور تنزلی سے بچتا اور پاکیزگی میں زندگی بسر کر سکتا۔ خدا نے نہ صرف ہمیں نیست سے تخلیق کیا اور زندگی کا دم بخشا بلکہ اُس نے ہمیں اپنے ساتھ رفاقت میں زندگی بسر کرنے کا بھی امکان بخشا۔ لیکن جیسے انسان خدا کی زندگی سے دور ہوئے اور شیطان کی آزمائش کو قبول کیا تو وہ اپنے انحطاط کو اپنے اوپر لے کر آئے۔

ب- کیا یہ خدا کےلئے مناسب ہے کہ انسان کو جسے اُس نے اپنی صورت و شبیہ پر پیدا کیا، ہمیشہ تباہ ہونے کےلئے مقرر کر دے؟ خالق جو راست ہے اور جس کی شفقت ابدی ہے وہ کیا کرتا؟ کیا اُس کی بھرپور شفیق محبت انسانیت سے اُس کی صورت و شبیہ کو ختم کرنے کےلئے بگاڑ کی اجازت دیتی؟ کیا اُس کی جلالی الوہیت انسانی معاشرہ کے تباہ ہونے پر خوش ہوتی جسے اُس نے کامل تخلیق کیا تھا؟ اگر وہ اُنہیں ایسی بری حالت میں چھوڑ دیتا تو کیا یہ تغافل نہ ٹھہرتا؟ لیکن کیا تغافل ایک پاک خدا کے جلال کے شایان شان ہے؟ کیا اُس نے نہیں کہا؟

"خداوند خدا فرماتا ہے مجھے اپنی حیات کی قسم شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اِس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے۔ اے بنی اسرائیل باز آﺅ۔ تم اپنی بری روش سے باز آﺅ۔ تم کیوں مرو گے؟" (حزقی ایل 33: 11)۔

ج- یہ سچ ہے کہ خدا نے اپنی فیاض محبت کی بدولت یہ ارادہ کیا کہ انسان کو نجات دے۔ لیکن کیسے؟ کیا یہ توبہ کے ذریعے ہے؟ لیکن محض توبہ عدالت کے آنے کو روک نہیں سکتی اور نتیجتاً نہ ہی سزا کو موقوف کر سکتی ہے کیونکہ اِس سے خدا کی عدالت کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ توبہ تائب فرد اور مزید گناہ کرنے کے درمیان کھڑی ہوتی ہے لیکن یہ سابقہ گناہ کے اثرات اور اُس میں خدا کی عدالت کے اثر کو ختم نہیں کرتی۔ اِس پریشان کن صورتحال کے تناظر میں ایک فرد پھر کہہ سکتا ہے: خدا کےلئے اب کون سا ممکن راستہ بچتا ہے؟ "جو چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں" (1۔ تیمتھیس 2: 4)۔ خدا انسان کو ایسی بگڑی ہوئی حالت میں سے درستی کی حالت میں بحال کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ الہٰی انصاف کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا چاہتا ہے۔ اِس لئے صرف لوگاس (کلام) ہی ہے جو "ابتدا میں ... خدا کے ساتھ تھا اور ... خدا تھا" انسانی جسم اختیار کرنے سے اور الہٰی منصف کی طرف سے مقررہ سزا کو انسان کی جگہ برداشت کرنے سے تمام چیزوں کو نیا بنانے کے قابل ہے۔ بالکل یہی وہ بات ہے جس کےلئے وہ ہماری دُنیا میں اُتر آیا اور مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا کہ باپ کے اکلوتے کا جلال" (یوحنا 1: 14)۔

د- بلاشبہ، ابتدا ہی سے کلام اپنے آپ کو جسم کےلئے تیار کر رہا تھا۔ مردِ خدا طرطلیان کا کہنا ہے کہ مسیح اپنے ظہور سے پہلے زمانوں سے تجسد کےلئے خود تیاری کر رہا تھا۔ سچ یہ ہے کہ جو کوئی بھی بائبل مُقدّس کی باتوں پر گیان دھیان کرتا ہے دیکھ سکتا ہے کہ فدیہ دینے والے ربّ کے بارے میں پرانے عہدنامہ کے نبیوں کو الہام دیا گیا۔ یسعیاہ نبی کی معرفت آپ کے بارے میں نبوت کی گئی "لیکن خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کُنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمّانوایل رکھے گی۔ ... جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ" (یسعیاہ 7: 14 اور متی 1: 23)۔

یہ الہامی کلام ہمیں بتاتا ہے کہ "لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا۔ تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چھُڑا لے اور ہم کو لےپالک ہونے کا درجہ ملے" (گلتیوں 4: 5،4)۔

مخلصی کی انجیل ہم پر عیاں کرتی ہے کہ سب موت کی سزا کے نیچے آ گئے ہیں جو ایک راستباز کی موت کے سوائے جو گناہ سے واقف نہ تھا ختم نہیں ہو سکتی۔ کلام نے رضاکارانہ طور پر انسانی جسم اختیار کیا تا کہ موت کی سزا اُن سب کے ایما پر جو ایمان لاتے ہیں اُس میں پوری ہو۔ یہ بھید ہم پر پولُس رسول کی معرفت عیاں کیا گیا ہے جنہوں نے فرمایا "پس اب جو مسیح یسوع میں ہیں اُن پر سزا کا حکم نہیں۔ کیونکہ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا ہے۔ اِس لئے کہ جو کام شریعت جسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خدا نے کیا یعنی اُس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلودہ جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کےلئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔ تا کہ شریعت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں" (رومیوں 8: 1-4)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند اور نجات دہندہ نے، وہ جسم جو اُس نے اختیار کیا اُسے ایک سوختنی اور بےعیب قربانی کے طور پر نذر کر دینے سے، اُن سب پر سے موت کی سزا کو ختم کر دیا جن کی جگہ اُس نے ایسا کیا۔ اِس لئے وہ الہٰی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل تھا کیونکہ وہ سب سے بلند مقام کا حامل اور بےگناہ ہے۔

ہ- ممکن ہے آپ نجات کے بھید کو سمجھنے میں کچھ دشواری محسوس کریں۔ لیکن جب آپ خدا کی محبت اور اُس کی شفقت کی بھرپوری کی انجیل مُقدّس کی تعلیم پر غور کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ایسا کام اُس شفقت کے بالکل عین مطابق ہے جو خدا کی ذات سے منسوب ہے۔ ذیل کی سطور میں نئے عہدنامہ میں سے چند حوالہ جات آپ کی آگہی کےلئے درج کئے گئے ہیں۔ اِنہیں پڑھنے سے آپ دیکھ سکیں گے کہ آپ کی اپنی نجات کی خاطر کس حد تک خدا کی محبت نے کام کیا:

"پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا تا کہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔" (عبرانیوں 2: 14)

"مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مُفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُسے خدا نے اُس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو تا کہ جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔" (رومیوں 3: 24-25)

"لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔ پس جب ہم اُس کے خون کے باعث اب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضبِ الہٰی سے ضرور ہی بچیں گے۔" (رومیوں 5: 8-9)

"جس نے اپنے بیٹے ہی کو دریغ نہ کیا بلکہ ہم سب کی خاطر اُسے حوالہ کر دیا وہ اُس کے ساتھ اَور سب چیزیں بھی ہمیں کس طرح نہ بخشے گا؟" (رومیوں 8: 32)

الہٰی تجسم کے نبوتانہ ثبوت

"جو میرے طالب نہ تھے میں اُن کی طرف متوجہ ہوا۔ جنہوں نے مجھے ڈھونڈا نہ تھا مجھے پا لیا۔ میں نے ایک قوم سے جو میرے نام سے نہیں کہلاتی تھی فرمایا دیکھ میں حاضر ہوں۔ میں نے سرکش لوگوں کی طرف جو اپنی فکروں کی پیروی میں بری راہ پر چلتے تھے ہمیشہ ہاتھ پھیلائے۔" (یسعیاہ 65: 1-2)

یہ آیت یسوع مسیح کے تجسم کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ پولُس نے اِسے اُس وقت مقتبس کیا جب اِس موضوع پر بات کی:

"پھر یسعیاہ جو بڑا دلیر ہو کر یہ کہتا ہے کہ

جنہوں نے مجھے نہیں ڈھونڈا اُنہوں نے مجھے پا لیا۔

جنہوں نے مجھ سے نہیں پوچھا اُن پر میں ظاہر ہو گیا۔

لیکن اسرائیل کے حق میں یوں کہتا ہے کہ میں دن بھر ایک نافرمان اور حُجّتی اُمت کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے رہا۔"

(رومیوں 10: 20-21)

یہ یسوع تھا جس نے بلاشبہ صلیب پر اپنے ہاتھ پھیلا دیئے۔

"اُس میں کثرت سے کلیاں نکلیں گی۔ وہ شادمانی سے گا کر خوشی کرے گا۔ لُبنان کی شوکت اور کرمِل اور شارون کی زینت اُسے دی جائے گی۔ وہ خداوند کا جلال اور ہمارے خدا کی حشمت دیکھیں گے۔ کمزور ہاتھوں کو زور اور ناتوان گھٹنوں کو توانائی دو۔ اُن کو جو کچدِلے ہیں کہو ہمّت باندھو مت ڈرو۔ دیکھو تمہارا خدا سزا اور جزا لئے آتا ہے۔ ہاں خدا ہی آئے گا اور تم کو بچائے گا۔ اُس وقت اندھوں کی آنکھیں وا کی جائیں گی اور بہروں کے کان کھولے جائیں گے۔" (یسعیاہ 35: 2-5)

یہ نبوت نہ صرف یہ وضاحت کرتی ہے کہ خدا یہاں سکونت کرتا ہے بلکہ اُس کے آنے کے نشانات کا اعلان کرتی ہے اور اُس کے کاموں کو بیان کرتی ہے جو بالکل ایسے ہی انجیل مُقدّس میں مرقوم ہیں:

"یوحنا نے اپنے شاگردوں میں سے دو کو بُلا کر خداوند کے پاس یہ پوچھنے کو بھیجا کہ آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟ اُنہوں نے اُس کے پاس آ کر کہا یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ہمیں تیرے پاس یہ پوچھنے کو بھیجا ہے کہ آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟ اُسی گھڑی اُس نے بہتوں کو بیماریوں اور آفتوں اور بری روحوں سے نجات بخشی اور بہت سے اندھوں کو بینائی عطا کی۔ اُس نے جواب میں اُن سے کہا کہ جو کچھ تم نے دیکھا اور سُنا ہے جا کر یوحنا سے بیان کر دو کہ اندھے دیکھتے ہیں، لنگڑے چلتے پھرتے ہیں، کوڑھی پاک صاف کئے جاتے ہیں، بہرے سُنتے ہیں، مردے زندہ کئے جاتے ہیں، غریبوں کو خوشخبری سُنائی جاتی ہے۔ اور مبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔ جب یوحنا کے قاصد چلے گئے تو یسوع یوحنا کے حق میں لوگوں سے کہنے لگا کہ تم بیابان میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ہوا سے ہلتے ہوئے سرکنڈے کو؟" (لوقا 7: 19-24)۔

"تیرے لوگوں اور تیرے مُقدّس شہر کےلئے ستر ہفتے مقرر کئے گئے کہ خطا کاری اور گناہ کا خاتمہ ہو جائے۔ بد کرداری کا کفارہ دیا جائے۔ ابدی راستبازی قائم ہو۔ رویا و نبوت پر مہر ہو اور پاکترین مقام ممسوح کیا جائے۔ پس تُو معلوم کر اور سمجھ لے کہ یروشلیم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے سے ممسوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہوں گے۔ تب پھر بازار تعمیر کئے جائیں گے اور فصیل بنائی جائے گی مگر مصیبت کے ایام میں" (دانی ایل 9: 24-25)۔

اِس نبوت میں ہمیں نہ صرف مسیح کا ایک ذِکر بلکہ ایک واضح اعلان ملتا ہے کہ وہ جو ممسوح ہو گا نہ صرف انسان ہے بلکہ پاکترین بھی ہے۔ درحقیقت جب مسیح تشریف لائے تو مکاشفہ اور نبوت یہودی لوگوں پر مرکوز ہوا جن میں بادشاہت ختم ہو چکی تھی۔ یہ توقع کی جاتی تھی کہ پاکترین شخصیت کے مسح کے وقت تک اُن کے بادشاہ مسح ہوتے رہیں گے۔ یعقوب نبی نے نبوت کی تھی کہ یہودیوں میں بادشاہ اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک کہ مسیح آ نہیں جاتا:

"یہوداہ سے سلطنت نہیں چھُوٹے گی۔

اور نہ اُس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہو گا۔

جب تک کہ شیلوہ نہ آئے

اور قومیں اُس کی مطیع ہوں گی۔" (پیدایش 49: 10)

"قربانی اور نذر کو تُو پسند نہیں کرتا۔

تُو نے میرے کان کھول دیئے ہیں۔

سوختنی قربانی اور خطا کی قربانی تُو نے طلب نہیں کی۔

تب میں نے کہا دیکھ! میں آیا ہوں۔

کتاب کے طُومار میں میری بابت لکھا ہے۔

اے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پُوری کرنے میں ہے

بلکہ تیری شریعت میرے دِل میں ہے۔" (زبور 40: 6-8)

جب اِن آیات کا عبرانیوں 10: 6-10 کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جلالی زبور پوری طرح سے یسوع کی شخصیت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ ہمارے جلالی خداوند نے پرانے عہدنامہ کی قربانی اور نذروں کو سوختنی قربانیوں، خطا کی قربانیوں کے طور پر ظاہر کیا اور اُن کا جائزہ لینے کے بعد حکمت سے اعلان کیا کہ یہ وہ نہیں تھیں جو قادر مطلق کو درکار تھیں۔

کتاب مُقدّس ہم پر ظاہر کرتی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی ابدی مشورت میں تھا کہ ایک افضل قربانی تیار کرے۔ جب ہم تعظیم میں اپنے سر جھُکاتے ہیں، تو روح القدس ہمیں ازلی ماضی میں لے جاتا ہے جسے ہم اپنی انسانی محدودیت کی وجہ سے پوری طرح سے سمجھ نہیں سکتے، لیکن جسے ہم خدا کی مُقدّس کتاب میں اُس کے مکاشفوں سے سمجھتے ہیں اور تصور میں لاتے ہیں کہ خدا کی ذات کے تین اقانیم ہماری انسانی نسل پر نگاہ کرتے ہیں جو وجود میں آنے کو تھی اور گناہ پر نگاہ کرتے ہیں جو دُنیا میں داخل ہونے کو تھا، اور اِس کے ساتھ موت پر بھی، اور اِس بات کو مقرر کیا کہ نجات واقع ہو۔ ہم تصور میں لاتے ہیں کہ خدا بیٹا قربانی کے کام کےلئے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ "میں اُس دُنیا کے کفارہ کےلئے جاتا ہوں جو گراوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔"

نسل انسانی کے فائدے کےلئے مجسم خداوند اِس بات سے قانع نہیں تھا کہ خدا کی نجات ایک قوم تک جو اکیلی اپنے آپ کو خدا کے وعدوں کی وارث سمجھتی تھی محدود رہے، بلکہ اُس نے خواہش کی کہ تمام دنیا اُس نجات کو قبول کرے۔

ایک شخص یہ سوال بھی کر سکتا ہے: کیوں نجات کا کام کسی اَور ذریعے کے بجائے صلیب کی بدولت حاصل ہوا؟ اِس کے جواب میں میں یہ کہوں گا کہ یہ خدا کی خوشی تھی کہ خود ہمیں نجات دیتا اور ہمارے لئے کوئی اَور بہتر، اور خداوند کےلئے کوئی اَور شایانِ شان طریقہ نہ تھا۔ یہ خوب تھا کہ مجسم خداوند نے ہماری خاطر اِس قسم کی موت برداشت کی۔ کیونکہ اگر اُس نے ہمیں گناہ سے چھڑانا تھا جس کے تابع ہم شریعت کے توڑنے والے ٹھہرے، تو صلیب پر ہمارے گناہوں کو اُٹھائے ہوئے اُس کے مرے بغیر کیسے اُس کےلئے ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ ہمارے لئے گناہ ہو؟

اور مجسم خداوند کی موت سب کےلئے فدیہ بن گئی اور اُس کی موت کے وسیلہ سے جدائی یعنی دشمنی کی درمیانی دیوار ٹوٹ گئی (افسیوں 2: 14) تا کہ سب قوموں کو بلایا جا سکے، لیکن اگر وہ مصلوب نہ ہوتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ ہمیں خدا کے ساتھ صلح صفائی کےلئے بلایا جاتا؟ اُس کا شکر ہو کہ یہ اُس کی خوشی تھی اور اُس نے اِس تضحیک آمیز موت کو برداشت کرنا مناسب سمجھا اور صلیب پر دونوں ہاتھ پھیلا دیئے تا کہ ایک ہاتھ سے پرانے عہد کے مُقدّسین کو اپنی طرف کھینچے اور دوسرے ہاتھ سے اُنہیں جو غیر اقوام سے ہیں تا کہ سب اُس کی جلالی شخصیت میں ایک ہوں جیسا کہ اُس نے فرمایا "اور میں اگر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاﺅں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا" (یوحنا 12: 32)۔

سوالات

کتاب "کیا خدا جسم میں ظاہر ہوا؟" کے سوالات حل کیجئے۔ عزیز قاری، اگر آپ اِس کتاب کے بارے میں اپنی آگہی کا جائزہ لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو برائے مہربانی اِن سوالات کے جواب دیں۔ سوالات کے جوابات الگ کاغذ پر لِکھ کر اِدارہ ہذٰا کو روانہ کیجیئے تا کہ اِنعام کے طور پر ایک کتاب آپ کو ارسال کی جا سکے۔ شکریہ

  1. انسان خود سے کیوں نیک اور کامل ہونے کے قابل نہیں ہے؟

  2. خدا کے ساتھ صلح صفائی کا واحد راستہ کون سا ہے؟

  3. اِس حقیقت کے بارے میں کہ انسان مکمل طور پر گنہگار ہے، کون سے تین ثبوت دیئے گئے ہیں؟

  4. کیا یہ ہمارے لئے خدا کی مرضی ہے کہ ہم گنہگار رہیں؟ ہماری نجات کا ذریعہ کیا ہے؟

  5. انسان کے دِل کی بڑی گہری خواہش کون سی ہے؟

  6. انسان کن ذرائع سے کمال کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے؟

  7. ہمارے اور خدا کے مابین ایک درمیانی میں کون سی لازمی خصوصیات ہونی چاہئیں؟

  8. کیسے مسیح میں ایک الہٰی درمیانی کےلئے درکار لازمی خصوصیات پوری ہوتی ہیں؟

  9. کون سے دو عناصر انسانیت کی کامل بھلائی کا اشارہ کرتے ہیں؟

  10. جناب مسیح نے شاگردوں کو اپنے ساتھ رہنے کےلئے کیوں چُنا؟

  11. جناب مسیح کو جب آپ کے دشمنوں نے گرفتار کیا تو آپ نے کس ردعمل کا مظاہرہ کیا؟

  12. جناب مسیح کی فتح کیسے واضح ہوئی؟

  13. مسیح کی موت اور جی اُٹھنے کا نتیجہ کیا ہے؟

  14. مسیح کی الوہیت کے بارے میں دنیا کیسے قائل ہوئی؟

  15. انسان کی زندگی مکمل طور پر کیسے بدل سکتی ہے؟

  16. بائبل مُقدّس میں جناب مسیح کو کون سی صفات کا حامل قرار دیا گیا ہے؟

  17. کیا اسلام خالق اور اُس کی مخلوق کے درمیان ایک تعلق کے قائم ہونے کی بات کرتا ہے؟

  18. کیسے حدیث نبوی خدا اور انسانوں کے درمیان ایک تعلق کی نشاندہی کرتی ہے؟

  19. "خدا کے تصور سے تجسیمی عناصر کے حتمی اخراج" سے کیا مراد ہے؟

  20. حدیث نبوی ہر رات خدا کے نیچے اُترنے کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

  21. آپ کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ خدا کا تجسم خدا کی قدرت کے جوہر کو تبدیل نہیں کرتا؟

  22. کیا خدا مجسم ہونے اور اپنی مرضی پہچاننے کے قابل تھا؟

  23. اُس حدیث نبوی کے متن سے کیا مراد ہے جس میں خدا کے حضور جانے کا ذِکر ملتا ہے؟

  24. کیسے پاک خدا ایک عورت کے رحم میں رہا؟

  25. حضرت موسیٰ پر جلتی جھاڑی میں خدا کے ظاہر ہونے کا کیا مطلب ہے؟

  26. ناپاک کیا ہے؟

  27. خدا کا کلام خدا کے ناپاک ہوئے بغیر دنیا کے ساتھ اُس کے تعلق کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیا یہ اِس بات کی نشاندہی نہیں ہے کہ خدا بغیر کسی نقصان کے مجسم ہونے کے قابل تھا؟

  28. انسان کیسے خدا کی صورت کھو بیٹھا؟

  29. کیایہ سوچنا معقولیت پر مبنی ہے کہ خدا اپنی مخلوق کو بگڑا ہوا ہی رہنے دے گا؟

  30. کیوں صرف توبہ انسان کی نجات کےلئے کافی نہیں؟

  31. الہٰی مکاشفہ سے مسیح کے تجسم کے کیا ثبوت ہیں؟

  32. خداوند مسیح کے تجسم کے نبوتانہ ثبوت کون سے ہیں؟

  33. خدا تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے قیمتی ترین قربانی کون سی ہے؟

  34. کیا یسوع مسیح کا مقصد تمام انسانیت کی مخلصی ہے یا صرف یہودیوں کی مخلصی؟


The Good Way
P.O.Box 66
        CH - 8486 
        Rikon
        Switzerland