Table of Contents
کمسن بچوں کےلئے مشکل حقائق عام فہم سادہ طریقہ سے مہیا کئے جاتے ہیں۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اور اُس کی سوچ و سمجھ پختگی تک پہنچتی ہے تو وہ سادہ اور سرسری معلومات سے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ وہ معاملات میں صداقت و وضاحت حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کرتا ہے کیونکہ اُس شخص کا شعور اَب مشکل حقائق کی جاذبیت کےلئے آمادہ و تیار ہوتا ہے۔
تمام انسانیت بھی اِسی صورتحال سے گُزر رہی ہے۔ جب انسانیت ابھی اپنی کم عمری کی حالت میں تھی تو خدا تعالیٰ نے اپنی ذات کی بابت ایسا سادہ و عام فہم تصور عطا کیا جو وہ سمجھ سکتی۔ اِسی لئے پولس رسول نے فرمایا کہ "اور اَے بھائیو! میں تم سے اُس طرح کلام نہ کر سکا جس طرح رُوحانیوں سے بلکہ جیسے جسمانیوں سے اور اُن سے جو مسیح میں بچّے ہیں۔ میں نے تمہیں دُودھ پلایا اور کھانا نہ کھلایا کیونکہ تم کو اُس کی برداشت نہ تھی بلکہ اَب بھی برداشت نہیں" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 3: 1-2)۔
جب مناسب وقت آیا اور ایمانداروں کی ذہنی قابلیت پروان چڑھی تو خداوند تعالیٰ نے بتانا شروع کیا کہ وہ اپنی لاثانی تثلیث میں واحد ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسانوں سے پوشیدہ اپنے اُس عظیم بھید کو آشکارا کیا جسے انسانیت سے اُس کی اِدراکی و رُوحانی کمزوری کے باعث مخفی رکھا گیا تھا۔ جب خداوند کریم نے رُوح القدس کی بخشش ہمیں ودیعت کی تو اُس نے ہم پر اپنی زندگی اور الہٰی حیثیت کا اِظہار کیا جس کے بارے میں پولس رسول نے کہا کہ "لیکن ہم پر خدا نے اُن کو رُوح کے وسیلہ سے ظاہر کیا کیونکہ رُوح سب باتیں بلکہ خدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 2: 10)۔
یہ عقیدہ نفسانی انسان کےلئے اَب بھی ایک بھید ہے، جو سچے ایمان کے حقائق اور خدا تعالیٰ کی بابت پوشیدہ بھیدوں کا اِدراک نہ ہونے کے سبب سے اِس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔
خداوند کریم نے مجھے یہ توفیق عطا کی کہ سمجھنے کےلئے ناممکن اور شعور کےلئے مشکل حقائق کو سادگی سے واضح کر سکوں۔ یہ کتاب اِس لئے تحریر کی گئی ہے کہ جو کوئی بھی اِسے پڑھے وہ اِس الہٰی بھید پر ایمان لا سکے اور جان سکے کہ یہ عقیدہ خلاف از عقل نہیں بلکہ اِس کی پوری تسلی و تشفی کرتا ہے۔ نیز قاری یہ بھی دیکھ سکے گا کہ جو لوگ علم و شعور کی کمی کے باعث تثلیث فی التوحید کے عقیدہ کے خلاف گویا حالت جنگ میں ہیں اُن کی اپنی کتابیں واضح طور پر اِس عقیدہ کے حق میں گواہی دیتی ہیں۔
اپنے پاک ترین ایمان کی وضاحت کی خاطر جب میں یہ کتاب آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تو خداوند تعالیٰ کے حضور میری دِلی دُعا ہے کہ یہ بہت سے لوگوں کےلئے برکت کا سبب بنے اور اُن کےلئے سچے ایمان کا دروازہ کھول دے۔ اِس سچے ایمان کی بدولت ہی وہ خدا باپ کی محبت، اُس کے اکلوتے بیٹے کی برکات اور رُوح القدس کی رفاقت و بخشش سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہ واحد خدا میں ثالوث اقدس ہے اور تمام ابدی جلال ہمیشہ اُسی کا ہے۔ آمین
آرچ پریسٹ زکریاہ بطروس، مصر
"جو کوئی تم سے تمہاری اُمید کی وجہ دریافت کرے اُس کو جواب دینے کےلئے ہر وقت مستعد رہو مگر حِلم اور خوف کے ساتھ" (نیا عہدنامہ، 1- پطرس 3: 15)۔
ہم مسیحی خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ لامحدود ہستی ہے جس سے آسمان و زمین معمور ہیں۔ وہ سب کا خالق ہے جو ازلی و ابدی ہے اور جس کی بادشاہی کا کوئی آخر نہیں۔
پاک انجیل میں یہ مسیحی عقیدہ بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:
(1) خداوند یسوع نے خود اِس اعتقاد کے بارے میں اُس وقت سکھایا جب ایک یہودی فقیہ آپ کے پاس یہ سوال لے کر آیا کہ "سب حکموں میں اوّل کون سا ہے؟" آپ نے اُسے جواب دیا: "اے اسرائیل سُن۔ خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ اور تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ" (انجیل بمطابق مرقس 12: 29-30)۔ یہ حکمِ اوّل ہے، جو واضح طور پر ذاتِ الہٰی کے بارے میں یہ مفہوم ہمارے سامنے رکھتا ہے کہ خدا، ہمارا خدا، خدائے واحد، ازلی و ابدی خدا ہے۔
(2) پولس رسول نے خدائے واحد کے تعلق سے یوں وضاحت کی ہے "کیا خدا صرف یہودیوں ہی کا ہے غیرقوموں کا نہیں؟ بےشک غیرقوموں کا بھی ہے۔ کیونکہ ایک ہی خدا ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 3: 29-30)۔
(3) اِسی ایمان کا اظہار مُقدّس یعقوب نے اِن الفاظ میں کیا ہے: "تُو اِس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ خدا ایک ہی ہے۔ خیر، اچھا کرتا ہے" (نیا عہدنامہ، یعقوب 2: 19)۔
(4) مسیحی عقیدہ بائبل مُقدّس کی اِن اور اِن سے ملتی جلتی دیگر آیات کے عین مطابق ہے۔ نسل در نسل کلیسیا نے اِسی ایمان کا اقرار یہ کہتے ہوئے کیا ہے "ہم ایمان رکھتے ہیں ایک خدا ... پر جو آسمان و زمین سب دیکھی اور اندیکھی چیزوں کا خالق ہے۔" سو، میرے عزیز آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم تین علیحدہ خداﺅں پر نہیں بلکہ ایک ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اَب ہم مسیحی عقیدہ تثلیث فی التوحید پر بحث کرتے ہوئے باپ، بیٹے اور رُوح القدس کی بابت وضاحت بیان کریں گے۔
پاک تثلیث کی تعلیم کسی بھی لحاظ سے تین مختلف خداﺅں کے وجود کی تعلیم نہیں دیتی جیسا کہ بعض لوگ غلط فہمی کے باعث خیال کرتے ہیں۔ اِس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ خدا ایک ہے، جو قائم بالذّات ہے اِس لئے اُس نے اپنے آپ کو باپ کے طور پر ظاہر کیا، پھِر اُس نے اپنا کلام صادر فرماتے ہوئے اپنے آپ کو بیٹے یعنی کلمہ کے طور پر بیان کیا، اور پھِر وہ اپنی ذات میں زندہ رُوح ہے اِس لئے اُس نے اپنے آپ کو رُوح القدس کے طور پر بھی بیان کیا۔
باپ، بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہئے کہ انسانی رشتوں کی طرح یہ کسی جسمانی تعلق کی بات ہے بلکہ اِس کا ایک رُوحانی معنٰی ہے۔
یہ نام کسی انسان کے گھڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ کتاب اَقدس میں الہٰی تحریک پر مبنی کلام کے الفاظ ہیں۔ اِس حقیقت کو آپ اِن حوالہ جات میں دیکھ سکتے ہیں:
(1) خداوند یسوع نے اپنے شاگردوں سے فرمایا "پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناﺅ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو" (انجیل بمطابق متی 28: 19)۔ خداوند یسوع کے اِن الفاظ میں خدائے واحد کا اعلان بالکل واضح ہے۔ آپ نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے "ناموں" سے بپتسمہ دو۔ بلکہ آپ نے یہ کہا کہ "باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔"
(2) مُقدّس یوحنا رسول نے اِس حقیقت کی صاف الفاظ میں یوں تصدیق کی: "یہی ہے وہ جو پانی اور خون کے وسیلہ سے آیا تھا یعنی یسوع مسیح۔ وہ نہ فقط پانی کے وسیلہ سے بلکہ پانی اور خون دونوں کے وسیلہ سے آیا تھا۔ اور جو گواہی دیتا ہے وہ رُوح ہے کیونکہ رُوح سچائی ہے۔ اور گواہی دینے والے تین ہیں۔ رُوح اور پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں۔ جب ہم آدمیوں کی گواہی قبول کر لیتے ہیں تو خدا کی گواہی تو اُس سے بڑھ کر ہے اور خدا کی گواہی یہ ہے کہ اُس نے اپنے بیٹے کے حق میں گواہی دی ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 5: 6-9)
اِن دونوں حوالہ جات کے موازنہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اِن میں ثالوث اَقدس: باپ، بیٹے اور رُوح القدس کے ناموں کا ذِکر موجود ہے۔ یہی تثلیث فی التوحید ہے جس پر ہمارا ایمان ہے۔
بیان کئے گئے حوالہ جات اور تمام بحث سے واحدانیتِ خداوندی میں ضرورتِ تثلیث صاف عیاں ہے۔ خدائے واحد جو تمام اشیا کا خالق ہے اُس کا اپنی ہی ذات میں شخصی وجود رکھنا ضرور ہے۔ خدائے واحد جس نے انسان کو بولنے کی صلاحیت کے ساتھ خلق کیا لازم ہے کہ اُس سے کلام صادر ہو۔ خدائے واحد جس نے ہر ایک جاندار میں زندگی کو پیدا کیا لازم ہے کہ وہ اپنے آپ میں رُوح میں زندہ ہو۔
اِس لئے، یہ امر یقینی ہے کہ ثالوث اقدس واحد خدا میں موجود ہو جس کا بیان ہم کر چکے ہیں۔ یہی ہمارا سچا ایمان ہے کہ خدا ثالوث اَقدس میں واحد خدا ہے نہ کہ تین علیحدہ خداﺅں کی صورت میں موجود ہے۔
مسیحیوں کے بارے میں قرآن شہادت دیتا ہے کہ وہ خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں اور مشرک نہیں ہیں۔ اِس گواہی کی چند مثالیں یہ ہیں:
(1) سورہ عنکبوت 29: 46 "اور اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو، مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو۔ ... اور کہہ دو کہ جو کتاب ہم پر اُتری اور جو کتابیں تم پر اُتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار ہیں۔" یوں قرآن شہادت فراہم کرتا ہے کہ ہم مسیحی "اہلِ کتاب" خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں۔
(2) سورہ آلِ عمران 3: 113-114 "اُن اہلِ کتاب میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں۔ جو رات کے وقت اللہ کی آیتیں پڑھتے اور اُس کے آگے سجدے کرتے ہیں۔ وہ اللہ پر اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے اور اچھے کام کرنے کو کہتے ... ہیں۔" یہ قرآنی حوالہ بڑے وثوق سے بیان کرتا ہے کہ مسیحی یعنی "اہلِ کتاب" خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں، اُس کے کلام کی تلاوت کرتے ہیں جو جناب محمد کے زمانہ میں اُن کے ہاتھوں میں موجود تھا، اور وہ اپنی عبادتوں اور دُعاﺅں میں خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں۔
(3) سورہ المائدہ 5: 82 "تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دُشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں۔ اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر اُن لوگوں کو پاﺅ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اِس لئے کہ اُن میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور یہ کہ یہ تکبر نہیں کرتے۔" یہ قرآنی آیت واضح کرتی ہے کہ نصاریٰ مشرک نہیں ہیں، کیونکہ مشرکین اور یہودی مسلمانوں کے سب سے سخت دُشمن ہیں لیکن نصاریٰ دوستی میں مومنوں کے قریب ترین ہیں۔
(4) سورہ آلِ عمران 3: 55 "اُس وقت اللہ نے فرمایا کہ عیسیٰ! میں تم کو وفات دوں گا اور تم کو اپنی طرف اُٹھا لوں گا اور تم کو کافروں سے پاک کر دوں گا۔ اور تیرے پیروﺅں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا۔" اِس قرآنی آیت سے بھی آپ پر صاف عیاں ہے کہ مسیح کے ماننے والے یعنی مسیحی لوگ کافر و مشرک نہیں ہیں۔ بلکہ اِس کے برعکس خدا مسیحیوں کو کافروں سے علیحدہ دیکھتا ہے اور اُنہیں کافروں منکروں پر قیامت تک غلبہ عطا کرے گا۔
مسیحیوں کی بابت اِن قرآنی شہادتوں نے انتہائی یقین کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ مسیحی لوگ خدائے واحد کی عبادت و پرستش کرتے ہیں اور وہ ہرگز مشرک و کافر نہیں ہیں۔
میرے عزیز دوست، شاید آپ متعجب ہوں گے کہ قرآن خدائے واحد میں تثلیث کا بیان ویسے ہی کرتا ہے جیسے مسیحی پاک تثلیث کے عقیدہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ سچے مسیحی دین میں پاک تثلیث خدا کی ذات، اُس کے کلمہ اور اُس کی رُوح پر مشتمل ہے۔ یہ وہی تثلیث ہے جس کا ذِکر قرآن کرتا ہے: "مسیح مریم کے بیٹے عیسیٰ خدا کے رسول اور اُس کا کلمہ تھے جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اُس کی طرف سے ایک رُوح تھے" (سورہ النساء 4: 171)۔ اِس قرآنی آیت میں یہ صاف واضح ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی ذات کو "رسول" کے تعلق سے بیان کرتی ہے، پھِر یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ ایک کلمہ رکھتا ہے جسے "اُس کا کلمہ" کہا گیا ہے، اور ایک رُوح رکھتا ہے جسے "اُس کی طرف سے ایک رُوح" کہا گیا ہے۔ تثلیث سے متعلق یہ قرآنی گواہی اُسی عقیدے کو سامنے لے کر آتی ہے جس پر ہم مسیحیوں کا اعتقاد ہے۔ یہ آیت ایک سے زائد خداﺅں کا پرچار نہیں کرتی بلکہ یہ بتاتی ہے کہ صرف ایک ہی خدا ہے اور اُس کے سِوا اَور کوئی نہیں ہے۔
قرآن بڑی وضاحت سے گواہی دیتا ہے کہ مسیح کلمتہ اللہ ہیں۔ اِس کے ثبوت میں قرآنی حوالہ جات یہ ہیں:
(1) سورہ النسا 4: 171 "مسیح مریم کے بیٹے عیسیٰ خدا کے رسول اور اُس کا کلمہ تھے۔"
(2) سورہ آلِ عمران 3: 39 "زکریاہ، اللہ تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمتہ اللہ یعنی عیسیٰ کی تصدیق کریں گے۔" امام ابو السعود نے یحییٰ کی جانب سے خدا کے کلمہ مسیح کی تصدیق کرنے کی بابت لکھا کہ "یحییٰ (یوحنا بپتسمہ دینے والا) آپ (عیسیٰ) پر ایمان لانے والوں میں مقدم ٹھہرے جنہوں نے تائید و تصدیق کی کہ آپ کلمتہ اللہ اور اُس کی طرف سے رُوح ہیں۔" السدی نے کہا "جب یحییٰ (یوحنا) کی والدہ نے عیسیٰ (یسوع) کی والدہ سے ملاقات کی تو پوچھا کہ "مریم، کیا تم نے محسوس کیا کہ میں حاملہ ہوں؟" مریم نے جواب دیا "میں بھی اُمید سے ہوں۔" تب اُس (یوحنا کی والدہ) نے کہا "جو بچہ میرے بطن میں ہے وہ تیرے شکن میں موجود بچہ کو سجدہ کرتا ہے۔" اِس بیان کی روشنی میں 'کلمتہ اللہ کی تصدیق' کی بابت یہ آیت واضح ہو جاتی ہے۔" (تفسیر ابی السعود محمد بن محمد العمادی، ص 233)۔
(3) سورہ آلِ عمران 3: 45 "فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسیٰ ابنِ مریم ہو گا۔" یہاں آنے والا لفظ "جس" عربی لُغت میں ایک مذکر شخص کی ذات کی طرف اشارہ کرنے والا اسم ضمیر ہے۔ اِس سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ یہاں "کلمہ" سے مُراد بولنے والی زبان کا لفظ نہیں ہے بلکہ ایک شخصیت ہے۔ اِس حقیقت کی وضاحت ہم ایک مسلمان عالم شیخ محی الدین العربی کے الفاظ میں بھی پاتے ہیں جنہوں نے کہا "کلمہ اللہ کا ظہور ہے ... اور یہ واحد ذاتِ الہٰی ہے اور اِس کے علاوہ کوئی اَور نہیں" (کتاب فصوص الحکم، حصہ دوئم، ص 35)۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ "کلمہ الہٰی ذات ہے" (ص 13)۔ کیا خداوند یسوع کے بارے میں بالکل یہی یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل میں تحریر نہیں ہے؟ "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا۔ ... اور کلام مجسم ہُوا" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 1، 14)۔ جب ہم بائبل مُقدّس کی اِس آیت کو عربی زبان میں پڑھتے ہیں (جو یُونانی متن کے عین مطابق ہے) تو ہمیں لفظ "کلمہ" کی طرف اشارہ کرنے والے اسم ضمیر کا وہی استعمال ملتا ہے جسے ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔ کلمہ ایک شخصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یوحنا انجیل نویس کی تحریر سے یہ واضح ہے "کلام خدا تھا" اور "کلام مجسم ہُوا۔"
کئی قرآنی آیات یہ بیان کرتی ہیں کہ رُوح القدس خدا کا رُوح ہے اور اُس نے سیدنا مسیح کو اِس سے تقویت بخشی۔ مثلاً سورہ المائدہ 5: 110 "جب اللہ عیسیٰ سے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابنِ مریم! میرے اُن احسانوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے جب میں نے رُوح القدس سے تمہاری مدد کی۔ تم گود میں اور جوان ہو کر بھی ایک ہی نسق پر لوگوں سے گفتگو کرتے تھے۔"
شیخ محمد الحریری البیونی نے کہا "رُوح القدس اللہ کی رُوح ہے" (کتاب الروح و ماھیّتھا، ص 53)۔
عزیز دوست، تثلیث فی التوحید کا عقیدہ جس پر ہم مسیحیوں کا ایمان ہے، قرآن اور علما اسلام کی شہادت کی روشنی میں واضح ہے۔
پچھلی تمام بحث کی روشنی میں ہم نے سیکھا کہ مسیحیت ثالوث میں خدائے واحد پر ایمان رکھتی ہے جو ذاتِ الہٰی، اُس کے کلام اور اُس کی رُوح پر مشتمل ہے۔ اِس پاک تثلیث فی التوحید کے دیگر نام یہ ہیں: باپ (ذات اللہ)، بیٹا (کلمتہ اللہ)، اور رُوح القدس (رُوح اللہ)۔
فہم و فراست سے بےبہرہ کچھ لوگ اِن ناموں پر اعتراض کرتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک اِن الفاظ کے استعمال کرنے سے تولیدگی یا جنسی تعلقات کا خیال اُبھرتا ہے۔ اِس لئے اَب ہم اِن کے مفہوم کی وضاحت پیش کریں گے۔
مسیحیوں کے نزدیک خدا کےلئے لفظ باپ کا مطلب ہرگز جسمانی باپ نہیں ہے۔ بلکہ
(1) سب سے پہلے یہ مجازی معنٰی میں استعمال ہُوا ہے۔ خدا تمام کائنات کا مصدر اور خالق ہے۔ اِس لئے اُسے تمام مخلوقات خاص طور پر عقل و شعور رکھنے والی مخلوقات کا باپ کہا گیا ہے۔ جیسے کہ موسیٰ نبی نے کہا "کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا ہے؟ اُس ہی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا" (پرانا عہدنامہ، اِستثنا 32: 6)، یا پھِر جیسا یسعیاہ نبی نے کہا کہ "اے خداوند تُو ہمارا باپ ہے" (پرانا عہدنامہ، یسعیاہ 64: 8)۔ عہدنامہ جدید میں پولس رسول نے اِس کی بابت یوں لکھا کہ "لیکن ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ جس کی طرف سے سب چیزیں ہیں اور ہم اُسی کے ہیں" (1- کرنتھیوں 8: 6)۔ اِس سیاق و سباق میں لفظ باپ بالکل ویسے ہی استعمال کیا گیا ہے جس طرح عربی زبان میں "ابو الخیر، ابو البرکات" (برکت کا باپ) اور "ابو الفضل" (فضل کا باپ) اور اِس طرح کی دیگر مثالیں موجود ہیں۔ اِن اِصطلاحات کو تولیدی یا اصل ولدیت کے نکتہ نظر سے نہیں لیا جاتا اور نہ لیا جانا چاہئے کیونکہ اِن کے مجازی معنٰی ہیں۔
(2) ثانیاً اِس اصطلاح کے قانونی معنٰی بھی ہیں۔ کسی بچہ کو گود لینے کے معاملے میں لفظ باپ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گود لینے والے شخص نے لےپالک بیٹے کو جنم دیا ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص نے اُس بچہ کو ایک بیٹے کے طور پر قبول کیا ہے اور تمام قانونی حقوق عطا کئے ہیں۔ ایسا شخص لےپالک بچے کی ذمہ داری ایک حقیقی باپ کے طور پر اپنے اُوپر لیتا ہے۔ پولس رسول نے باپ کے اِس مفہوم کو یوں اُجاگر کیا "کیونکہ تم کو غلامی کی رُوح نہیں ملی جس سے پھِر ڈر پیدا ہو بلکہ لےپالک ہونے کی رُوح ملی جس سے ہم ابّا یعنی اے باپ کہہ کر پکارتے ہیں" (نیا عہدنامہ، رومیوں 8: 15)۔ اور اِسی طرح گلتیوں 4: 5 میں بھی وہ "لےپالک" کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ سو، ہماری لےپالک فرزندیت میں خدا کی باپ والی حیثیت اُس کے الہٰی قانونی حقوق پر مبنی ہے۔
(3) ثالثاً، اِس کا ایک اَور خاص مطلب بھی ہے جو کہ صرف الہٰی ثالوث اقدس کےلئے ہی موزوں و مناسب ہے۔ اُس قادر خدا کی تمجید ابدالآباد ہوتی رہے۔ جس طرح کوئی لفظ مُنہ سے نکلتا ہے، ویسے ہی بیٹا تمام زمانوں سے پہلے باپ سے صادر ہے۔ یسوع جو بیٹا ہے اُس نے مبارک کنواری مریم کے رحم میں انسانی جسم اختیار کیا، اور وہ ابتدا ہی سے خدا سے رُوح ہے جو کہ خود رُوح ہے۔ یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل میں مرقوم ہے: "اور کلام مجسم ہُوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 14)۔ یسوع نے اِس بےمثال انداز میں خدا کو باپ کہہ کر پکارا، اور اِس کا کسی دوسرے پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔ "کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سِوا باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سِوا بیٹے کے اور اُس کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے" (انجیل بمطابق متی 11: 27)۔
(4) رابعاً، اِس کے رُوحانی معنٰی ہیں۔ جب خدا تعالیٰ نے تمام ایمانداروں کے باطن میں اپنے بیٹے کے وسیلہ سے اپنا پاک رُوح انڈیلا ہے تو اُنہیں نئی پیدایش کا تجربہ ملا جسے رُوحانی پیدایش کہا جاتا ہے۔ یہ ایماندار "نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے اِرادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے" (انجیل بمطابق یوحنا 1: 13)۔ اِس لئے یسوع نے ہمیں یہ کہنا سکھایا ہے کہ "اے ہمارے باپ، تُو جو آسمان پر ہے، تیرا نام پاک مانا جائے۔" جب تک کوئی شخص خدا کا لےپالک فرزند نہیں بن جاتا تب تک اُسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہے اور خدا کو اپنا باپ کہہ کر پکارے۔ رُوح القدس کا مسح ہم پر خدا باپ کے نام کے بھید کو آشکارا کرتا ہے۔ ہم خدا تعالیٰ کی پدریت پر جسمانی نکتہ نظر سے نہیں بلکہ رُوحانی پاکیزگی کے اعتبار سے ایمان رکھتے ہیں، ہم مسیح کی پیدایش اور ایمانداروں کی زندگیوں میں رُوح القدس کے نزول اور سکونت پر ایمان رکھتے ہیں۔
جب ہم یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسیح نے ازواجی تعلق کے باعث وجود پایا ہے۔ بیٹا ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جسمانی تعلق سے ہے یا اُس کی پیدایش عملِ تولید سے ہوئی ہے۔ جب ہم مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو اِس سے صرف مُراد یہ ہے کہ مسیح خدا سے آیا۔ اُس کا تعلق کسی جسمانی باپ سے نہیں ہے بلکہ اُس کا تعلق خدا سے ہے۔ جس طرح لفظ بیٹے کا استعمال روزمرہ کی زبان، قرآن اور حدیث میں ہُوا ہے وہ ہمیشہ جسمانی تولید کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔
(1) روزمرہ زبان میں لفظ بیٹے کا استعمال:
روزمرہ زبان کے کئی اظہاروں میں لفظ بیٹا جسمانی تولید کے معنٰی کے بغیر استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ہم طلبا کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ "علم کے فرزند" ہیں، شہریوں کو "وطن کے بیٹے" کہا جاتا ہے، ایک مصری "نیل کا فرزند" کہلاتا ہے، اور ایک عربی کو "صحرا کا بیٹا" کہا جاتا ہے۔
(2) قرآن میں لفظ بیٹے کا استعمال:
قرآن میں کبھی کبھار لفظ بیٹے کا استعمال جسمانی معنٰی کے بغیر آیا ہے۔ مثلاً "جو چاہو خرچ کرو لیکن جو مال خرچ کرنا چاہو وہ درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ کو اور قریب کے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو سب کو دو" (سورہ البقرہ 2: 215 )۔ مفسروں کا کہنا ہے کہ عربی الفاظ "ابن السبیل" کا مطلب "مسافر" ہے۔ امام نسفی اور شیخ حسنین مخلوف نے کہا کہ "اِس آیت میں مسافر کو 'ابن السبیل' اِس لئے کہا گیا ہے کیونکہ اُس کا زیادہ تر وقت راستہ پر گزرتا ہے" (تفسیر النسفی، حصہ اوّل، ص 86; صفوة البیان لمعانی القرآن، الشیخ حسنین مخلوف، حصہ اوّل، ص 80)۔
(3) احادیث میں لفظ بیٹے کا استعمال:
حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا قول یوں مرقوم ہے "اُمرا میری جانب سے نمائندہ کے طور پر ہیں، جبکہ غُربا میرے خاندان کے لوگ میری اولاد ہیں۔" کیا ہم اِس سے یہ مُراد لیں کہ اللہ نے ایک بیوی سے شادی کر کے اُن بچوں کو جنم دیا جو غُربا ہیں؟ ہر گز نہیں۔
اِس لئے خدا کے بیٹے کی اِصطلاح کا مطلب بشری طور پر تولید ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کُفر یا شرک ہے بلکہ اِس کا مقصد مسیح کی خدا سے نسبت کو عیاں کرنا تھا۔ کیونکہ مسیح کی فرزندیت خدا کی رُوحانی پدریت میں پائی جاتی ہے۔ خدا باپ ہے اور مسیح خاص اور بےمثال معنوں میں بیٹا ہے جس کا کسی دوسرے پر اِطلاق نہیں ہو سکتا۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ رُوح القدس سے مُراد خدا کا رُوح ہے، اور اِس کا ذِکر قرآنی متن میں کئی جگہوں پر آیا ہے۔ مثلاً
سورہ یوسف 12: 87 "اللہ کی رُوح سے نااُمید نہ ہو، بےشک کافر ہی اللہ کی رُوح سے نااُمید ہُوا کرتے ہیں۔"
سورہ البقرہ 2: 87، 153 "اور ہم نے ... عیسیٰ ابنِ مریم کو کھلے نشانات بخشے اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔"
امام نسفی نے کہا کہ "رُوح القدس سے مُراد پاک رُوح ہے ... یا خدائے عظیم کا نام" (تفسیر النسفی، حصہ اوّل، ص 56)۔
سورہ المائدہ 5: 110 "اے عیسیٰ ابنِ مریم! میرے اُن احسانوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے جب میں نے رُوح القدس سے تمہاری مدد کی۔"
سید عبد الکریم الجبلی نے رُوح القدس کی بابت کہا کہ وہ غیرمخلوق ہے اور جو غیرمخلوق ہے وہ ازلی ہے اور ازلی صرف خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے (مجلّة کلیة الآداب، 1934)۔
اِسی طرح شیخ محمد الحریری البیومی نے کہا "رُوح القدس رُوح خدا ہے، اور رُوح خدا غیرمخلوق ہے (الروح و ماھیّتھا، ص 53)۔
خدائے واحد کی پاک تثلیث یہی ہے جس پر ہمارا ایمان ہے، اور یہی اِسے باپ، بیٹے اور رُوح القدس کا نام دینے کا بھید بھی ہے۔ باپ خدا تعالیٰ کی لازمی پدریت کو ظاہر کرنے والا لقب ہے۔ بیٹا متجسد کلمتہ اللہ کا لقب ہے اور رُوح القدس اپنی ذات میں خدا کا رُوح ہے۔
اِسلام سے قبل پانچویں صدی میں ایک بدعتی تعلیم سامنے آئی (ایسی تعلیم باطل اورعجیب ہوتی ہے جس میں کافرانہ تعلیم کا اثر پایا جاتا ہے)۔ اِس تعلیم کے پیروکار پہلے بت پرست غیراقوام تھے جو اپنے باطل عقائد کے ساتھ مسیحی ہو گئے تھے۔ بت پرست ہوتے ہوئے یہ لوگ سیارہ وینس کی پرستش کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ "آسمان کی ملکہ" تھی۔ مسیحیت کو قبول کرنے کے بعد اِن لوگوں نے اپنے پہلے ملحد عقائد کو مسیحی تعلیم کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی، اور وینس کی جگہ مُقدّسہ مریم کو "آسمان کی ملکہ" یا "آسمان کی دیوی" تصور کرنا شروع کر دیا۔ آخرکار اِنہوں نے اپنے آپ کو "مریمیّہ" کہنا شروع کر دیا۔ اِن کا ماننا تھا کہ تین خدا ہیں: اللہ، مریم اور مسیح۔
جونہی یہ بدعتی تعلیم سامنے آئی تو مسیحی کلیسیا نے اِس کے خلاف عَلم بلند کیا، اُن کی تعلیم کی مخالفت کی اور اُنہیں ایمانی شراکت و رفاقت سے روک کر اُن کے تمام پیروکاروں سے قطع تعلق کر لیا۔ اور پھِر ساتویں صدی کے آخر تک یہ بدعتی تعلیم اپنے تمام پیروکاروں سمیت ختم ہو گئی۔ کلیسیا نے اپنے پاک ترین ایمان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مُقدّسہ مریم کوئی دیوی نہیں بلکہ ایک انسان ہیں۔ کلیسیا ثابت قدمی سے اِس بات کا اقرار کرتی رہی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے جوہر میں ایک ہے، جو اپنے کلام کی معرفت ہمکلام ہوتا اور رُوح میں ابدی بقا رکھتا ہے۔ کلام خدا مسیح ہے جس نے انسانی جسم اختیار کیا۔ اِسی لئے لکھا ہے کہ "دینداری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جسم میں ظاہر ہُوا" (نیا عہدنامہ، 1- تیمتھیس 3: 16)۔
جب ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کا ظہور ہُوا تو مریمیّہ فرقہ کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے جو باطل تثلیث (مسیحی تثلیث فی التوحید نہیں) کے پیروکار تھے۔ یہ حقیقت اِن قرآنی آیات سے عیاں ہو جاتی ہے:
سورہ المائدہ 5: 116 "تب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟" یہاں واضح ہے کہ یہ اعتراض مریمیّہ فرقہ کے خلاف ہے جنہوں نے مریم کو دیوی کا درجہ دیا ہُوا تھا، اور سچا مسیحی دین بھی اِس کی مخالفت کرتا ہے۔
سورہ الانعام 6: 101 "وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اُس کے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اُس کی بیوی ہی نہیں۔" یہ قرآنی آیت بھی مریمیّہ فرقہ کے اِس عقیدہ کی مخالفت کرتی ہے کہ مریم ایک دیوی ہے جو خدا کی بیوی بن گئی جس سے اُس کے بچہ کی پیدایش ہوئی (نعوذ باللہ)۔
سورہ اخلاص 112 "کہو اللہ ایک ہے۔ اللہ بےنیاز ہے۔ وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اُس کا ہمسر نہیں۔" یہ مریمیّہ بدعت کا جواب ہے جن کا عقیدہ تھا کہ "تین خدا ہیں، باپ، ماں اور بیٹا، اور بیٹا عمل تولید کے باعث وجود میں آیا۔"
سورہ المائدہ 5: 73 "وہ لوگ (بھی) کافر ہیں جو اِس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ حالانکہ اُس معبود یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔" یہ آیت بھی بیان کی گئی باتوں کی تائید کرتی اور مریمیّہ فرقہ کے تین خداﺅں کے عقیدے کی تردید کرتی ہے۔
اِس تمام بحث سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلام نے خدائے واحد کے مسیحی ایمان کی مخالفت نہیں کی، جو ذاتِ واحدہ، ناطق کلام اور زندہ رُوح ہے جیسا کہ قرآن میں لکھا ہے "مسیح مریم کے بیٹے عیسیٰ خدا کے رسول اور اُس کا کلمہ تھے ... اور اُس کی طرف سے ایک رُوح تھے" (سورہ النساء 4: 171)۔ تاہم اسلام نے مریمیّہ عقیدہ والی بناوٹی و گمراہ کن تثلیث کی مخالفت کی ہے جس نے مُقدّسہ مریم کو دیوی کا درجہ دیا اور مانا کہ خدا سے شادی کے بعد مسیح کی پیدایش ہوئی۔
سچے مسیحی دین نے مریمیّہ کے اِس باطل عقیدے کو ہرگز قبول نہ کیا بلکہ اُس کے پیروکاروں کو مسیحی کلیسیا سے نکال باہر کیا۔ جہاں تک مسیحی ایمان کی بات ہے تو یہ اِس عقیدے پر مبنی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی پاک تثلیث میں ذات واحد ہے جو باپ، کلام اور رُوح القدس پر مشتمل ہے۔
عزیز قاری، اَب تک کی جانے والی بحث میں پاک مسیحی تثلیث کی سچائی اور مسیحی ایمان میں خدائے واحد کی بابت عقلی و منطقی شہادتوں کو پیش کیا گیا ہے۔ یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی حکمت پر اِس بحث کے سلسلہ کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ تاہم، پولس رسول کی معرفت ہم کلام مُقدّس میں سیکھتے ہیں کہ ایمان انسانی حکمت پر نہیں بلکہ رُوح القدس کے ثبوت اور قوت و قدرت پر منحصر ہے۔ آپ نے فرمایا "اور میری تقریر اور میری منادی میں حکمت کی لُبھانے والی باتیں نہ تھیں بلکہ وہ رُوح اور قدرت سے ثابت ہوتی تھی۔ تا کہ تمہارا ایمان انسان کی حکمت پر نہیں بلکہ خدا کی قدرت پر موقوف ہو" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 2: 4، 5)۔ سو عزیز دوست، انسانی حکمت کا حوالہ دینے پر معذرت، مگر اَب میں رُوح اور قوت و قدرت کے ثبوت کے بارے میں بات کروں گا۔
رُوح کی بابت ثبوت محض عقل میں نہیں بلکہ انسانی دِل میں بھی ہے۔ "کیونکہ راستبازی کےلئے ایمان لانا دِل سے ہوتا ہے" (نیا عہدنامہ، رومیوں 10: 10)۔ فضلِ خداوندی کے وسیلہ جب اِنسانی دِل میں حقیقی ایمان چمک اُٹھتا ہے تو اِس کے باعث انسان پر ایمان کا بھید، خدا کی محبت اور انسان کےلئے خدا کے تمام تعجب انگیز کام ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اِس وجہ سے کلام خدا نے انسانی روپ لے کر کلوری کی صلیبی راہ کو اختیار کیا، اور مجھ جیسے گنہگاروں کو مخلصی دینے کےلئے صلیب کی انتہائی شرمندگی کو برداشت کیا۔ عزیز دوست، جان لیجئے کہ خداوند تعالیٰ آپ کے دِل میں اپنے نُور کو چمکانے کےلئے تیار ہے تا کہ اپنے جلال کو آپ پر ظاہر کرے کیونکہ وہ آپ کے بےشمار گناہوں اور اپنے خلاف آپ کے کُفر کے باوجود آپ سے شخصی طور پر محبت رکھتا ہے۔ وہ آپ کو معاف کرنے اور آپ کی تمام خطاﺅں کو بھول جانے کےلئے تیار ہے۔ بس اُس کے حضور توبہ اور اِنکساری کی حالت میں آئیے۔ اپنے دِل کو اور زندگی کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کیجئے۔ آپ مکمل اطمینان رکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کو قبول کرنے میں ہرگز انکار نہیں کرے گا۔ اپنے سچے وعدے کے مطابق اُس نے فرمایا "جو کوئی میرے پاس آئے گا اُسے میں ہرگز نکال نہ دوں گا (نیا عہدنامہ، انجیل بمطابق یوحنا 6: 37)۔ ابھی یسوع مسیح کے پاس آئیے، اور اُس کے حضور اپنے گناہوں کے بوجھ کو ڈال دیجئے، اور وہ آپ کو ہر طرح کے گناہ سے پاک صاف کرے گا۔ "اور اُس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 1: 7)۔ اُس کے حضور دُعا کیجئے "اے خداوند! میرے دِل کی تاریکی کو دُور فرما۔ میرے راستہ کو روشن کر اور مجھے اپنی راہ دِکھا۔ شریر سے میری حفاظت فرما کہ وہ مجھے نہ ستائے۔"
اَب آپ کے سامنے عزیز دوست، کچھ رُوحانی حقائق پیش کئے جائیں گے، اور اُمید ہے کہ خدا تعالیٰ اُنہیں آپ کی رُوح کو بچانے کےلئے استعمال کرے گا اور اُن کے وسیلہ آپ کی زندگی کو برکت دے گا۔ آمین
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ایمانی حقائق کے اِدراک کےلئے محض عقل پر بھروسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ خدا کی پاک رُوح نے ایُّوب نبی کی معرفت فرمایا ہے کہ "کیا تُو تلاش سے خدا کو پا سکتا ہے؟ کیا تُو قادرِ مطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کر سکتا ہے؟ وہ آسمان کی طرح اونچا ہے۔ تُو کیا کر سکتا ہے؟ وہ پاتال سے گہرا ہے۔ تُو کیا جان سکتا ہے؟" (پرانا عہدنامہ، ایُّوب 11: 7-8)۔
اَب کیسے ایک محدود انسانی ذہن لامحدود خدا کو جان سکتا ہے؟ کسی دانا شخص کا قول ہے "آپ تمام اشیا کو سنبھالنے والے خداوند خدا کی کھوج کرتے ہیں، مگر آپ اُس کی حکمت کے بھید کو ہرگز نہیں جان سکیں گے کیونکہ آپ اِنسانی دِل کی گہرائی کو کبھی نہیں جان سکتے۔ سو جب آپ انسان کے دِلی خیالات سے بےبہرہ ہیں تو آپ کائنات کے خالق کی کیسے تلاش کر سکتے ہیں اور اُس کے ذہن اور خیالات کو کیسے پا سکتے ہیں؟" پولس رسول نے اِن باتوں کی تصدیق یوں کی کہ "واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں! خداوند کی عقل کو کس نے جانا ہے؟ یا کون اُس کا صلاح کار ہُوا؟" (نیا عہدنامہ، رومیوں 11: 33-34)۔ اگر بعض لوگ اِس حقیقت سے ناآشنا رہ جائیں تو وہ ایمان سے گمراہ ہو کر ظلمت کی تاریکی میں گم ہو جائیں گے۔ اَب ہم فلسفہ، مسیحیت اور اسلام سے کچھ مثالوں کو دیکھیں گے۔
(1) فلسفہ:
فلسفہ میں انسانی تفکرات اور عقل مجرد پر انحصار کیا جاتا ہے، اِس لئے ہم صدیوں سے مختلف فلسفہ دانوں کی کاوشوں اور خیالات میں تضادات و اختلافات پاتے ہیں۔ فلسفیوں میں ایماندار اور بےایمان دونوں قسم کے فلسفی پائے جاتے ہیں۔ انگریز فلسفی کارلیل (1795-1881) ایسے شخص کی مثال ہے جو انسانی فکروں کی تاریکی میں ٹٹولتا نظر آتا ہے۔ اپنی زندگی کے ایک وقت میں کارلیل مسیحی ایماندار تھا۔ پھِر اُس نے ھیوم اور دیگر شکی مزاج فلسفیوں کی تحریروں کو پڑھا اور اُن کے نظریات کا قائل ہو گیا اور یوں اُس کا ایمان جاتا رہا۔ تاہم جانچ پڑتال اور جستجو کی اپنی اِسی دُھن میں کارلیل نے جب شِلر، گوئٹے اور فختی کی تحریریں پڑھیں تو اِن فلسفہ دانوں کے دلائل نے کارلیل کے دِل کو ملحد ہونے سے روکا، یوں اُس کا رویہ تبدیل ہُوا، اور وہ پھِر سے مسیحی ایماندار بن گیا۔ یوں فلسفی کارلیل خدا کی ابدی حقیقت کا یقینی طور پر قائل ہو گیا۔ اپنے عرصہ دراز کی تحقیق اور گہرے مطالعہ کے بعد اُس نے کہا کہ "عقلِ انسانی حقیقی معرفت کا مصدر نہیں ہے بلکہ اِس کا مصدر دِل ہے۔"
(2) مسیحیت:
مسیحی ایمان کو ترک کرنے والے کئی بدعتیوں نے ایمانی حقائق کو عقلِ بشری کے تابع کرنا چاہا۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو انتہائی خطرناک صورتحال میں ڈال دیا۔ ایسے لوگوں میں ایرئیس، مقدونیس اور نسطور شامل تھے۔ ایرئیس نے خدا تعالیٰ کے جسدِ انسانی میں ظاہر ہونے کے امکان کو قبول نہ کیا اور اُس نے مسیح کی اُلُوہیّت کا انکار کیا۔ تب دُنیا بھر کے مسیحی علما اور اُسقفوں نے ایک اجلاس منعقد کیا اور بائبل مُقدّس کی تعلیمات کی روشنی میں اِس موضوع پر بحث کی۔ اُنہوں نے ایرئیس کے خیالات کی مذمّت کی، اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا اور اُس کی تعلیمات کو رد کر دیا جو سچے مسیحی ایمان کے منافی تھیں۔
(3) اسلام:
دین اسلام میں مختلف عقائد کے حامل کئی فرقے ظاہر ہوئے ہیں۔ مثلاً خوارج اور نصیریہ علی بن ابی طالب کی ذات کے حوالے سے مبالغہ آمیزی سے کام لیتے تھے۔ اِسی طرح فرقہ جبریہ، معتزلہ اور قدریہ اللہ کی صفات کا انکار کرتے تھے۔ اور الاشاعرة المتریدیہ، الامامیہ اور اسماعیلیہ کے نزدیک دُنیا میں دو طرح کے ہدایت کار موجود ہیں، ایک تو اللہ اور دوسرا نفسِ انسانی، اور یہ غیر شرعی واقعات رونما ہونے دیتے ہیں۔ جبکہ بہائی فرقہ اپنے راہنما بہاء اللہ کے حوالہ سے مبالغہ آمیزی سے کام لیتا ہے، اور دروز حاکم باِمر اللہ فاطمی کے حوالہ سے بڑھا چڑھا کر مبالغہ آمیزی کرتے ہیں۔ کیا اِن تمام مثالوں سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اِنسانی ذہن کو آسمانی فضل اور ایمانی نُور کی ضرورت ہے؟
کوئی بھی شخص اپنی طاقت یا انسانی عقل کے وسیلہ سے خدا کو جاننے کے لائق نہیں ہے۔ اِس مسئلہ کے حل کی خاطر کلام خداوندی کی ضرورت ہے تا کہ انسان اپنی فکری تاریکی میں اُس بھید کو جان سکے جو محدود انسانی ذہنوں سے مخفی ہے۔ کچھ فلسفی فضلِ خداوندی کی اہمیت سے واقف تھے اِس لئے اُنہوں نے اِسے رُوحانی بصیرت کا نام دیا۔ ایک فلسفہ دان نے ایک بار یوں کہا "صرف نُورِ خداوندی ہی کے باعث خدا کو جاننا ممکن ہے۔ خدا تعالیٰ باطنی معلم ہے۔ وہ نُور حقیقی ہے جو اِس دُنیا میں ہر شخص کو روشن کرتا ہے۔"
بائبل مُقدّس انسانی ناقابلیت اور الہٰی مکاشفہ کی ضرورت کے دونوں اہم موضوعات کے بارے میں بیان کرتی ہے۔
ایُّوب نبی کی معرفت بائبل مُقدّس بیان کرتی ہے کہ بشری عقل الہٰی اُمور کا اِدراک کرنے کے قابل نہیں ہے "وہ آسمان کی طرح اونچا ہے۔ تُو کیا کر سکتا ہے؟ وہ پاتال سے گہرا ہے۔ تُو کیا جان سکتا ہے؟ اُس کی ناپ زمین سے لمبی اور سمندر سے چوڑی ہے" (پرانا عہدنامہ، ایُّوب 11: 8-9)۔ پولس رسول نے کہا کہ "واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں! خداوند کی عقل کو کس نے جانا ہے؟ یا کون اُس کا صلاح کار ہُوا؟" (نیا عہدنامہ، رومیوں 11: 33-34)۔ یوں یہ بات واضح ہے کہ انسان خدا کے تعلق سے معاملات کو جاننے کے قابل نہیں ہے۔
ہمیں واقعی خدا تعالیٰ کے مکاشفہ کے فضل یا "الہٰی نُور" کی ضرورت ہے جس کے باعث ہم پرخداوند تعالیٰ کی حکمت کے بھید ظاہر ہوں، جیسا کہ بائبل مُقدّس میں لکھا ہے کہ "حکمت کے اسرار تجھے دِکھائے" (ایُّوب 11: 6)۔
اے عزیز دوست، خدا آپ پر اپنا آپ ظاہر کرنے کےلئے تیار ہے۔ آپ اِس حقیقت کو خداوند مسیح کی دُعا میں دیکھ سکتے ہیں: "اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تُو نے یہ باتیں داناﺅں اور عقلمندوں سے چُھپائیں اور بچوں پر ظاہر کیں" (انجیل بمطابق متی 11: 25)۔ ممکن ہے آپ اِس دُعا سے احساس کریں کہ فضل کی روشنی سادہ لوگوں پر ظاہر کی گئی ہے جنہیں "بچے" کہہ کر پکارا گیا ہے۔ جو لوگ انسانی عقل و حکمت سے خدا کے بھیدوں کو جاننا چاہتے ہیں وہ اُن سے بےبہرہ رہ جائیں گے۔ خدا باپ نے ایمان کا بھید پطرس رسول پر ظاہر کیا جس نے کہا "تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔" اور یسوع نے اُسے جواب دیا: "مبارک ہے تُو شمعون بر یوناہ کیونکہ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے" (انجیل بمطابق متی 16: 16-17)۔
میرے بھائی، یسوع مسیح خود تیار ہے کہ اپنی پاک ذات اور ایمان کا بھید آپ پر آشکارا کرے۔ آپ نے فرمایا: "اور کوئی نہیں جانتا کہ بیٹا کون ہے سِوا باپ کے اور کوئی نہیں جانتا کہ باپ کون ہے سِوا بیٹے کے اور اُس شخص کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے" (انجیل بمطابق لوقا 10: 22)۔ اپنے بڑے رحم و کرم میں خدا کے بیٹے نے اپنا بھید پولس رسول پر منکشف کیا۔ پولس رسول نے کہا کہ "کیونکہ وہ مجھے انسان کی طرف سے نہیں پہنچی اور نہ مجھے سکھائی گئی بلکہ یسوع مسیح کی طرف سے مجھے اُس کا مکاشفہ ہُوا" (نیا عہدنامہ، گلتیوں 1: 12)۔
اپنے کامل فضل کے ساتھ آج رُوح القدس دُنیا کے ہر ایک فرد پر حقیقی ایمان کو ظاہر کرنے کےلئے سرگرم ہے تا کہ انسان فضل کی رُوحانی برکت سے آسودہ ہو اور خداوند کی معرفت حاصل کر سکے۔ اِس خیال کی وضاحت پولس رسول نے یہ کہتے ہوئے کی ہے:
"پھِر بھی کاملوں میں ہم حکمت کی باتیں کہتے ہیں لیکن اِس جہان کی اور اِس جہان کے نیست ہونے والے سرداروں کی حکمت نہیں۔ بلکہ ہم خدا کی وہ پوشیدہ حکمت بھید کے طور پر بیان کرتے ہیں جو خدا نے جہان کے شروع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مقرر کی تھی۔ جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خداوند کو مصلوب نہ کرتے۔ بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہُوا کہ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں نہ آدمی کے دِل میں آئیں۔ وہ سب خدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کےلئے تیار کر دیں۔ لیکن ہم پر خدا نے اُن کو رُوح کے وسیلہ سے ظاہر کیا کیونکہ رُوح سب باتیں بلکہ خدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے۔ کیونکہ انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتا ہے سِوا انسان کی اپنی رُوح کے جو اُس میں ہے؟ اِسی طرح خدا کے رُوح کے سِوا کوئی خدا کی باتیں نہیں جانتا۔ مگر ہم نے نہ دُنیا کی رُوح بلکہ وہ رُوح پایا جو خدا کی طرف سے ہے تا کہ اُن باتوں کو جانیں جو خدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔ اور ہم اُن باتوں کو اُن الفاظ میں نہیں بیان کرتے جو انسانی حکمت نے ہم کو سکھائے ہوں بلکہ اُن الفاظ میں جو رُوح نے سکھائے ہیں اور رُوحانی باتوں کا رُوحانی باتوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔ مگر نفسانی آدمی خدا کے رُوح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ رُوحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں۔ لیکن رُوحانی شخص سب باتوں کو پرکھ لیتا ہے مگر خود کسی سے پرکھا نہیں جاتا۔ خداوند کی عقل کو کس نے جانا کہ اُس کو تعلیم دے سکے؟ مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے۔" (نیا عہدنامہ، 1- کرنتھیوں 2: 6-16)
یہ آیات آپ پر انتہائی اہم نکتہ کو واضح کرتی ہیں۔ ضرور ہے کہ نفسانی آدمی رُوحانی شخص میں بدلے تا کہ وہ خدا سے متعلقہ معاملات کو قبول کر سکے اور جان سکے۔ خداوند سے دُعا کیجئے کہ وہ آپ کو توبہ کے وسیلہ سے بدل کر نیا انسان بنا ڈالے اور آپ پر اپنے آپ کو ظاہر کرے۔ یقیناً خداوند آپ کی دُعا کا جواب دے گا کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔
ایک مشہور فلسفی نے کہا کہ "انسان اپنی طبعی قوت میں خدا کی فطرت کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے، مگر خدا تعالیٰ وہ ہستی ہے جو انسان کو اپنی جانب راغب کر کے اُسے وہ مقام عطا کرتا ہے جس کا اِدراک عقل نہیں کر سکتی۔" درحقیقت خدا کی طرف سے بلائے جانے کے بغیر کوئی بھی اُس کے پاس نہیں آ سکتا۔ مبارک و جلالی خداوند یسوع نے فرمایا کہ "کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے" (انجیل بمطابق یوحنا 6: 44)۔ جب سلیمان نبی کی دُلہن نے اِس بھید کو پا لیا تو پکار اُٹھی: "مجھے کھینچ لے۔ ہم تیرے پیچھے دوڑیں گی" (غزل الغزلات 1: 4)۔ خداوند ہمیں اپنی اُلفت و محبت کے باعث اپنی جانب کھینچتا ہے۔ جب انسانی رُوح اپنے لئے خدا کی محبت کی معموری کو یاد کرتی ہے تو انسان اُلفتِ خداوندی سے مسحور و گرویدہ ہو جاتا ہے۔ یوحنا رسول نے اِس بارے میں کہا: "ہم اِس لئے محبت رکھتے ہیں کہ پہلے اُس نے ہم سے محبت رکھی" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 4: 19)۔
کیا آپ نہیں جانتے کہ خدا کی محبت نے آپ کےلئے کیا کچھ کیا ہے؟ پولس رسول نے اِس ضمن میں فرمایا: "لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُوا" (نیا عہدنامہ، رومیوں 5: 8)۔ محبت نے خدا کو جسدِ انسانی اختیار کرنے، انسان بننے کے بعد راہِ کلوری پر چلنے، صلیب اُٹھانے اور میرے اور آپ کے گناہوں کا قرض ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ گناہ کی جس سزا کے ہم مستحق ہیں وہ موت ہے۔ عجیب طور پر ہماری خاطر مسیح قبر میں دفن ہُوا، اور اُس نے جہنم کے آتشی شعلوں کو بجھا کر ہمارے لئے ابدی اُمید کے دروازہ اور جلالی راہ کو کھول دیا ہے۔ جب آ پ نے مُردوں میں سے زندہ ہو کر موت کی قدرت اور گناہ کی زنجیروں کو پاش پاش کر دیا، تو آپ اپنی اِسی محبت میں آسمان کو صعود کر گئے تا کہ ہمارے لئے اپنی بادشاہی میں جگہ تیارکریں جسے ہمیں عنایت کرنے میں آپ کی خوشی ہے (انجیل بمطابق لوقا 12: 32)۔ ہم سے پیار کرنے والا خداوند جلد ہمیں لینے واپس آنے کو ہے، جس کے بارے میں اُس نے فرمایا تا کہ "جہاں میں ہوں تم بھی ہو" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 2-3)۔
اے اُلفتِ ربّانی! تُو نے ہمیں کیسا استحقاق عطا کیا ہے اور ہم پر اپنا کرم کیا ہے، اور کتنی بڑی محبت و شفقت سے تُو نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ عزیز بھائی، آپ خدا تعالیٰ کو بغیر محبت کے نہیں جان سکتے۔ عبادت و پرستش محض تعلیمات و عقائد، نظریات و فرائض ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اپنی ارفع ترین حالت میں خدا کے ساتھ انتہائی محبت ہے۔ خدا کی ذات کسی تصویر کی مانند نہیں جو انسانی تخیل کی کاریگری ہو۔ خدا تعالیٰ کی ذات کی حتمی تعریف کو قائم کرنا مذہبی لوگوں کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی مذہبی علما اور فلسفیوں کے مفروضوں کی بناپر اپنی ذاتی آراء اور مفاہیم سے خدا کی ذات کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر کلام خداوندی میں یوحنا رسول کی معرفت لکھا ہے: "خدا محبت ہے اور جو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خدا میں قائم رہتا ہے اور خدا اُس میں قائم رہتا ہے" (نیا عہدنامہ، 1- یوحنا 4: 16)۔
کیا آپ کا دِل خدا کی محبت کی گرفت میں آ چکا ہے؟ میرے عزیز دوست، انسانی نظریات اور بحثوں سے پریشان ہو کر گھبرا نہ جائیں۔ خدا کے ایک بندہ آگستین کے مطابق ہمیں بس یہ کرنا کافی ہے "جو کچھ آپ نے کرنا ہے اُس میں محبت کو ملحوظِ خاطر رکھیں کیونکہ خدا محبت ہے۔"
جب خداوند کا فضل انسانی دِل پر طالع ہوتا ہے تو وہ انسان ایمان کے نُور سے منور ہو جاتا ہے۔ فضلِ خداوندی کے بغیر انسان کےلئے سچے ایمان کو پانا ممکن نہیں ہے، اور اِس بارے میں ہم یسعیاہ 60: 1-3 میں یوں پڑھتے ہیں کہ "اُٹھ منور ہو کیونکہ تیرا نُور آ گیا اور خداوند کا جلال تجھ پر ظاہر ہُوا۔ کیونکہ دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی اُمتوں پر، لیکن خداوند تجھ پر طالع ہو گا اور اُس کا جلال تجھ پر نمایاں ہو گا۔ اور قومیں تیری روشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطین تیرے طلوع کی تجلی میں چلیں گے۔"
اور پولس رسول نے لکھا: "اِس لئے کہ خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نُور چمکے اور وہی ہمارے دِلوں میں چمکا تا کہ خدا کے جلال کی پہچان کا نُور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہ گر ہو" (نیا عہدنامہ، 2- کرنتھیوں 4: 6)۔
خدا کے فضل نے کئی لوگوں کی زندگیوں کو منور کیا جن میں ترسیس کا ساﺅل اور شیخ میخائیل منصور جیسے لوگ شامل ہیں۔
ترسیس کا ساﺅل ایک متعصب یہودی تھا۔ اُس نے مسیحیوں کو اذیتیں دیں اور اُن کو باندھ کر قیدخانوں میں ڈالا۔ اُس نے اپنی بابت بیان کرتے ہوئے کہا:
"میں نے بھی سمجھا تھا کہ یسوع ناصری کے نام کی طرح طرح سے مخالفت کرنا مجھ پر فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یروشلیم میں ایسا ہی کیا اور سردار کاہنوں کی طرف سے اختیار پا کر بہت سے مُقدّسوں کو قید میں ڈالا اور جب وہ قتل کئے جاتے تھے تو میں بھی یہی رائے دیتا تھا۔ اور ہر عبادتخانہ میں اُنہیں سزا دِلا دِلا کر زبردستی اُن سے کُفر کہلواتا تھا بلکہ اُن کی مخالفت میں ایسا دیوانہ بنا کہ غیرقوموں میں بھی جا کر اُنہیں ستاتا تھا۔ اِسی حال میں سردار کاہنوں سے اِختیار اور پروانے لے کر دمشق کو جاتا تھا۔ تو اَے بادشاہ میں نے دوپہر کے وقت راہ میں یہ دیکھا کہ سورج کے نُور سے زیادہ ایک نُور آسمان سے میرے اور میرے ہم سفروں کے گِردا گِرد آ چمکا۔ جب ہم سب زمین پر گِر پڑے تو میں نے عبرانی زُبان میں یہ آواز سُنی کہ اَے ساﺅل اَے ساﺅل! تُو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ پینے کی آر پر لات مارنا تیرے لئے مشکل ہے۔ میں نے کہا اَے خداوند تُو کون ہے؟ خداوند نے فرمایا میں یسوع ہوں جسے تُو ستاتا ہے۔ لیکن اُٹھ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو کیونکہ میں اِس لئے تجھ پر ظاہر ہُوا ہوں کہ تجھے اُن چیزوں کا بھی خادم اور گواہ مقرر کروں جن کی گواہی کےلئے تُو نے مجھے دیکھا ہے اور اُن کا بھی جن کی گواہی کےلئے میں تجھ پر ظاہر ہُوا کروں گا۔ اور میں تجھے اِس اُمت اور غیرقوموں سے بچاتا رہوں گا جن کے پاس تجھے اِس لئے بھیجتا ہوں کہ تُو اُن کی آنکھیں کھول دے تا کہ اندھیرے سے روشنی کی طرف اور شیطان کے اِختیار سے خدا کی طرف رجوع لائیں اور مجھ پر ایمان لانے کے باعث گناہوں کی معافی اور مُقدّسوں میں شریک ہو کر میراث پائیں۔" (نیا عہدنامہ، رسولوں کے اعمال 26: 9-18)
یوں خدا کا فضل ساﺅل پر چمکا اور وہ ایمان کے نُور سے منور ہو گیا، اور بعد میں یہی شخص مسیحیت کی ایک نمایاں ہستی پولس رسول بنا۔
فضلِ خداوندی شیخ میخائیل منصور کی زندگی پر بھی چمکا۔ یہاں اُن کی زندگی کا ایک خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے جو اُن کے بھائی شیخ کمال نے اُن کے بارے میں تحریر کیا۔ منصور کا فرزند میخائیل مارچ 1871ء میں سوہاج کے شہر میں پیدا ہُوا۔ اُس نے مذہبی راہنماﺅں سے دینی تعلیم حاصل کی۔ مذہبی تعلیمات کو سیکھنے کے بعد اُس نے ذات الٰہی کے بھیدوں کی گہری تلاش میں اپنی راتیں جاگ جاگ کر گزاریں۔
1893ء میں اُس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ وہ مسیحی دین پر بحث کرے، سو اُس نے مسیحیوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے کےلئے اپنے اُستاد سے اجازت طلب کی، جس نے اِس ڈر کے باعث اجازت نہ دی کہ اُس کا طالب علم کہیں مغرور نہ ہو جائے۔ پھر بھی اُس نے مذہبی لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنا شروع کر دیا اور یہ بات چیت اکثر طویل اور بےمعنٰی تھی۔ ایک دِن کسی نے اُس سے کہا "ہر کسی کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے خدا سے راہنمائی مانگے، اور میرا آپ کےلئے یہ مشورہ ہے کہ آپ آسمان کے سچے خدا سے دُعا کریں کہ وہ سچائی تک آپ کی راہنمائی کرے۔" مگر اُس نے اِس تجویز کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا "معاذ اللہ، کیا میں اپنے عقیدے پر شک کروں؟" جب وہ شخص چلا گیا تو اُس نے اُس شخص کے کہے ہوئے اِن الفاظ پر سوچ بچار کرنا شروع کیا کہ "میرا آپ کےلئے یہ مشورہ ہے کہ آپ آسمان کے سچے خدا سے دُعا کریں کہ وہ سچائی تک آپ کی راہنمائی کرے۔" تب رُوح القدس کے فضل نے اُس کی زندگی میں کام کرنا شروع کیا۔ اُس کے شکوک بہت زیادہ بڑھتے گئے اور یوں دِکھائی دیتا تھا کہ گویا وہ ایک ذہنی مریض ہے۔ اُس کے چہرے کا رنگ زرد پڑنے لگا۔ اور پھِر اُس نے الہٰی سچائی کی تلاش میں کتاب مُقدّس کو پڑھنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد اُ س کے چہرہ پر اطمینان و خوشی کے آثار نظر آنے لگے کیونکہ نجات دہندہ مسیحا کا نُور اُس پر چمکا اور آفتابِ صداقت نے اُس کی رُوح کو منور کر دیا۔
مسیحا اُس پر اپنی عظیم ترین محبت، اعلیٰ ترین اُصولوں اور اپنی تعلیمات کی خوبصورتی کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔ اور اُس نے سیکھا کہ صرف یسوع مسیح ہی راہ، حق اور زندگی ہیں، اور انسان گنہگار، جاہل و غلام ہے اور بغیر مسیح کے نجات نہیں پا سکتا۔ اگرچہ اَب بہت سی باتیں مجھے یاد نہیں رہیں، تاہم میں اُس عظیم شادمانی کو نہ تو بُھولا ہوں اور نہ ہی بُھلا سکوں گا جب میں نے پہلی بار اُس سے انجیل مُقدّس مانگی تو اُس کا دِل بڑی خوشی سے معمور ہو گیا، اُس کے چہرے پر جلالی شادمانی نظر آئی، اور اُس بےانتہا خوشی کے باعث آنسوﺅں نے اُس کے لباس کو تر کر ڈالا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ بھائی ہونے کے ناطے شروع میں مجھے اُس کی بابت شرمندگی محسوس ہوتی تھی اور بعض اوقات میں لوگوں سے کہتا تھا کہ وہ اُس کےلئے دُعا کریں تا کہ وہ اپنا ذہن بدل کر واپس آ جائے۔ کبھی میں ذہین ترین مشہور علما کو کہتا کہ وہ اُسے واپس لانے میں مدد کریں، اور کبھی میں شریر قسم کے لوگوں سے کہتا کہ وہ اُسے ڈرائیں دھمکائیں۔ لیکن تب میں نے دیکھا کہ وہ یسوع مسیح میں ایک مضبوط چٹان کی مانند تھا جس کی محبت کی خاطر اُس نے ہر قسم کی مصیبت کو برداشت کیا۔ اور پھِر میں نے خوب سوچ بچار کی کہ آخر اِس فیصلہ کا کیا سبب تھا۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ اُس کے مسیحی ہونے میں کوئی دُنیوی مفاد نہ تھا۔ مسیحا کی جانب اُس کی وفاداری مجھ پر واضح تھی، اِس لئے مجھ میں یہ جذبہ بیدار ہُوا کہ میں اُس سے اپنے مطالعہ کےلئے پاک انجیل کی ایک جلد حاصل کروں، اور جب میں نے اُس سے یہ درخواست کی تو اُس کی خوشی دیدنی تھی۔ میں خدا تعالیٰ کا شکرگزار ہوں کہ نجات دہندہ مسیحا کے جلال کی خاطر میرا بھائی بہت سے گنہگاروں کی راہنمائی کا سبب بنا جن میں سب سے پہلا شخص میں ہوں۔
جب کوئی فرد فضل کی قوت و قدرت کی بدولت ایمان کی جانب کھِنچا جاتا ہے تو اُسے ایمانی سچائیوں کی تصدیق کی خاطر کسی قسم کے منطقی ثبوت یا دلیل کی طلب ہرگز نہیں رہتی، بلکہ اَب اُس کا اپنا دِل سچے ایمان کی گواہی دیتا ہے کیونکہ وہ پکا احساس رکھتا ہے کہ خدا اُس میں رہتا ہے جس نے اُس کے اندر رُوحانی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ اَب وہ اپنے وجود کے علاوہ خدا کی تلاش کہیں اَور نہیں کرتا۔ ایک مشہور مسیحی عالم آگستین نے مسیحی ایمان کو قبول کر کے یہ کہا "دیکھ میں نے تجھے جان لیا اور تیری بابت سمجھ کو پا لیا۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں اور میرے نصیب کتنے عظیم ہیں۔ میں تجھے خارجی اشیا میں ڈھونڈتا رہا مگر یہ لاحاصل تھا، کیونکہ اے خدا میں نے تجھے اپنی جان اپنی رُوح میں پا لیا اور اَب میں تجھے محسوس کر سکتا ہوں تجھے دیکھ سکتا ہوں۔"
ایماندار وہ ہے جو خداوند کو دیکھتا ہے اور اُس کی راستبازی سے ملبس ہے اور جسے خداوند نے مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ ایسے شخص کو خداوند گناہ آلودہ نفسانی خواہشات اور گناہ کی غلامی سے نکال کر رُوحانی، پاکیزہ محبت کرنے والا شخص بنا دیتا ہے۔ ایماندار اَب اپنے دِل میں خداوند کو پاتا ہے کیونکہ اُس کا دِل گناہ کی ناپاکی سے پاک صاف ہو چکا ہوتا ہے، "مبارک ہیں وہ جو پاک دِل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے" (انجیل بمطابق متی 5: 8)۔ فضل کے عظیم کام کے بعد ایمان اَب عقلی عقیدہ کے طور پر نہیں ہوتا جو کسی اندیکھی چیز پر تکیہ کرتا ہو جہاں کوئی شہادت اور ثبوت نہیں، بلکہ یہ ایمان تجربہ سے معمور ہوتا ہے جو ایک بھیڑیئے کو بےضرر بھیڑ میں تبدیل کرتا ہے، اور یہ ایمانی سچائی کی ایک زبردست گواہی اور ثبوت ہے۔
موسیٰ الاسود ایک وحشیانہ قاتل اور ڈاکوﺅں کے ایک گروہ کا سرغُنہ تھا۔ فضلِ خداوندی نے اُس کے دِل کو روشن کرنا شروع کیا۔ چنانچہ وہ ایک بزرگ اور دانا مسیحی ایماندار کے پاس گیا اور اُسے کہا کہ "میں نے سُنا ہے کہ آپ خدا کے عبادت گزار راستباز بندے ہیں، اِسی لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں تا کہ خدا جس نے آپ کو بچایا ہے وہ مجھے بھی بچائے۔ مجھے خدا کے بارے میں کچھ جانکاری دیجئے۔" اُس بزرگ و راستباز شخص نے جواب میں پوچھا "کون تمہارا خدا تھا؟" موسیٰ الاسود نے جواب دیا "میں بس سورج کو خدا سمجھتا تھا کیونکہ جب میں سورج کو دیکھتا تو یہی محسوس کرتا کہ جب یہ چمکتا ہے تو اپنی روشنی سے دُنیا کو منور کرتا ہے، اِسی طرح اپنے اندر عجیب راز لئے ہوئے چاند، ستارے، سمندر اور اُس کا زور ہے، لیکن اِن میں سے کسی ایک چیز نے بھی میری رُوح کو اطمینان نہیں بخشا اور میرے اندر یہ قائلیت ہے کہ کوئی اَور خدا ہے جو اِن سب اشیاء سے بہت ہی عظیم ہے جسے میں نہیں جانتا۔ اِس لئے میں نے یہ دُعا مانگی کہ 'اے خداوند! تُو جو آسمان پر سکونت کرتا ہے اور تمام مخلوقات کا راہنما ہے، میری راہنمائی اپنی طرف فرما اور مجھ پر ظاہر کر کہ تجھے کیا پسند ہے۔' اِسی لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں تا کہ آپ مجھے آگاہی بخشیں اور میری بابت خدا سے التجا کریں کہ وہ مجھ پر اپنا غضب نازل نہ کرے جو میرے بُرے اعمال کاواجبی نتیجہ ہے۔"
اُس بزرگ مسیحی خادم نے موسیٰ الاسود کو خدا کا کلام بیان کرنا شروع کیا، اور اُس سے عدالت، نجات اور گنہگاروں کےلئے خدا کی محبت کے بارے میں بات کی۔ خدا کے فضل کا کام اُس کے دِل میں کامل ہُوا، اور خداوند اُس کی زندگی میں چمکا، اور گناہوں سے توبہ کرنے کی خوشی میں اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اُس کا چہرہ ایمانی نُور سے روشن ہو گیا۔ یوں موسیٰ ایک وحشی سے بدل کر ایمان کے بڑے سورماﺅں میں شامل ہو کر ایک راستباز بندہ بن گیا۔
کس نے اِس بھیڑیئے کو بےضرر بھیڑ میں تبدیل کر دیا؟ بےشک یہ فضل کے عجیب کام کا نتیجہ ہے۔ خدا نے اُسے ایمانی سمجھ دی اور اُس کی زندگی میں داخل ہو کر اُسے چُھوا اور مکمل طور پر بدل دیا۔
جبران کی پرورش ایک متعصب مذہبی خاندان میں ہوئی۔ اُس کے والد اُسے دین کے اصولوں کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد اِس نوجوان شخص نے تمام مذہبی پابندیوں کو توڑ ڈالا اور جرم کی دُنیا میں داخل ہو گیا۔ اِس مسئلہ کے حل کےلئے اُس کے خاندان نے اُسے ایک بورڈنگ اسکول (ہوسٹل) میں داخل کرا دیا۔ وہاں مائیکل نام کا ایک طالب تھا جسے جبران خوب تنگ کیا کرتا تھا۔ جب اسکول میں تقریبات کا دِن آیا تو جبران نے مائیکل کو کرسیاں اُٹھوانے کی صورت میں تنگ کرنے کا منصوبہ بنایا، اور اِس منصوبہ کو پورا کرنے کےلئے جبران نے اسکول انتظامیہ سے اِس بارے میں ایک حکم نامہ بھی جاری کروا لیا۔ پھِر وہ مائیکل پر نظر رکھنے کی غرض سے اُس کے پیچھے گیا اور دیکھا کہ مائیکل اسکول کی دیوار پھاند کر نزدیک واقع ایک جنگل میں چلا گیا۔ یہ دیکھ کر اُس نے خیال کیا کہ شاید اِس طرح مائیکل اپنی ذمہ داری سے بچنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اُس نے مائیکل کا پیچھا کیا اور اُسے شاخوں سے بنی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں داخل ہوتے دیکھا۔
جبران جھونپڑی کا جائزہ لینے کےلئے چالاکی سے قریبی درخت کے پیچھے چُھپ گیا۔ تب اُس نے دیکھا کہ مائیکل نے ایک موم بتی روشن کی، اور پھِر اپنے گھٹنوں کے بل ہو گیا۔ جبران نے اُسے دھیمی آواز میں کچھ بولتے سُنا، اور دیکھا کہ اُس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی کتاب نکالی اور اُسے پڑھنے لگا۔ کتاب پڑھنے کے بعد اُس نے اپنا چہرہ آسمان کی جانب بلند کیا تو اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور اُس کی آواز رونے کے باعث بیٹھ سی گئی۔ پھِر مائیکل نے موم بتی بُجھائی اور اسکول کی جانب چل دیا۔ جبران بھی ایک فاصلہ سے اُس کے پیچھے چلتا گیا۔
جب مائیکل اسکول میں داخل ہُوا تو جبران نے اُسے اُس کے کندھوں سے پکڑ کر پوچھا "بتاﺅ، تُم کہاں تھے؟" مائیکل نے جواب دیا "میں اپنے خداوند کی عبادت و پرستش کر رہا تھا۔" جبران نے اُس سے کہا "تم جھوٹے ہو۔ میں اُس لمحے سے تمہیں دیکھ رہا ہوں اور تمہارا پیچھا کر رہا ہوں جب تم نے اسکول کی دیوار پھلانگ کر جنگل کی راہ لی، پھِر تم ایک جھونپڑی میں داخل ہو گئے اور گانے لگے اور ایک چھوٹی سی کتاب کو پڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ یہ سب باتیں تو دیوانگی کی علامات ہیں۔" مائیکل نے اُسے فوراً جواب دیا "میں دیوانہ نہیں ہوں، بلکہ میں خداوند کی تمجید کر رہا تھا اور جو کچھ میں نے پڑھا وہ انجیل مُقدّس تھی۔ بعد ازاں میں نے اپنے خداوند سے دُعا کی کہ وہ میری خطاﺅں کو معاف کر دے اور میری زندگی میں میری مدد فرمائے۔" جبران نے اُسے کہا "کیا میں انجیل کو دیکھ سکتا ہوں؟" اور مائیکل نے انجیل جبران کو دے دی، مگر جبران کو اپنے والد کی بات یاد آ گئی کہ جو کوئی نصاریٰ کی انجیل کو ہاتھ لگاتا ہے تو اِس کے نتیجہ میں اُس کا ہاتھ سوکھ جائے گا یا پھِر ایسا شخص اپنے حواس کھو بیٹھے گا۔ لیکن جنگل میں جبران نے جو منظر دیکھا تھا اُس نے اُسے مجبور کر دیا کہ اِس عقیدت کے بھید کو جاننے کی کوشش کرے جس نے مائیکل کو جنگل میں جانے اور عبادت و بندگی کرنے کی ترغیب دی۔ اِس ڈر کے پیشِ نظر کہ کہیں انجیل کو ہاتھ لگانے کی وجہ سے اُس کا ہاتھ فالج کا شکار نہ ہو جائے، جبران نے اپنے ہاتھ کی اُنگلیوں میں انجیل کو پکڑا کہ اگر اُس کے ہاتھ کو کچھ ہُوا تو وہ فوراً انجیل کو زمین پر گرا دے گا تا کہ اِس طرح کے خطرے سے محفوظ رہے۔ مگر جو خطرات اُس کے والد نے انجیل کو ہاتھ لگانے کے تعلق سے بتائے تھے، اُن میں سے کوئی بھی واقع نہ ہُوا۔ تب جبران نے انجیل کو اپنے ہاتھوں میں اچھی طرح سے پکڑ لیا اور مائیکل سے اُسے پڑھنے کی اجازت طلب کی۔ ساری رات تنہائی میں جبران انجیل کا مطالعہ کرتا رہا لیکن وہ باتیں اُسے پوری طرح سمجھ نہ آئیں۔
اگلے دِن صبح سویرے وہ مائیکل کے پاس گیا اور اُسے جگا کر وہ سب باتیں اُس سے دریافت کیں جو وہ رات کو سمجھ نہ سکا تھا۔ مائیکل نے جبران کو وہ باتیں سمجھانا شروع کیں مگر جبران پھِر بھی اُن باتوں کو سمجھ نہ سکا۔ تب مائیکل نے انجیل مُقدّس کی جلد بند کر کے جبران سے کہا "میں چند الفاظ میں انجیل کا خلاصہ تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں۔"
٭پہلی سچائی یہ ہے کہ انسان گنہگار ہے۔ تم اور میں، ہم سب گنہگار ہیں۔
٭دوسری سچائی یہ ہے کہ ہمارے گناہوں کی سزا جہنم میں ابدی عذاب ہے۔
٭تیسری سچائی یہ ہے کہ اپنی محبت میں خدا تعالیٰ نے مسیح کو ہماری نجات کےلئے بھیجا تا کہ ہم ابدی سزا سے بچ جائیں، اِس لئے مسیح ہماری خاطر صلیب پر قربان ہوئے۔
٭چوتھی سچائی یہ ہے کہ اگر تم اِس حقیقت پر ایمان لا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہو تو خداوند تعالیٰ تمہیں قبول کرے گا اور جہنم کی ابدی آگ سے بچا لے گا۔
یہ الفاظ اگرچہ بڑے سادہ تھے، مگر فضل سے معمور اور تجربہ کی باتیں تھیں۔ عین اُسی وقت خداوند نے جبران کے دِل میں گہرا کام کیا اور ایک معجزہ ظہور پذیر ہُوا۔ اُس نوجوان کا چہرہ دمک اُٹھا اور اُس نے کہا "میں ایمان لاتا ہوں۔" پھِر دونوں نے مل کر دُعا مانگی۔ ماضی کے اِس بےاَدب اور بدتمیز نوجوان جبران کی زندگی میں مختلف واقعات اور تجربات پیش آتے رہے جنہوں نے اُسے ایک نیک دِل اور خدا کے تاکستان میں کام کرنے والا مبارک خادم بنا ڈالا۔ وہ مسیحی ایمانداروں اور بہت سی اَور زندگیوں کےلئے برکات کا سبب بن گیا۔
یہ خدا کے فضل کے معجزانہ کام اور ہمارے پاک ایمان کی سچائی کا عظیم ترین ثبوت ہے۔ اے عزیز قاری، میری آرزو ہے کہ خدا کا یہی نجات بخش کام آپ کی زندگی میں بھی ظاہر ہو، تا کہ آپ اُس کے فرزند بن جائیں اور خداوند خدا کے وفادار گواہ بن جائیں جس نے ہم سے محبت رکھی اور اپنے پاک صلیبی خون سے ہمارا فدیہ و کفارہ دیا۔
اے عزیز بھائی/ بہن، ممکن ہے آپ نے اِدراک کر لیا ہو کہ ہم مسیحیوں کےلئے پاک تثلیث کی کیا حقیقت ہے۔ شاید اَب آپ کو یقین ہُوا ہو کہ ہم تین خداﺅں کی پرستش نہیں کرتے۔ ہم مسیحی تو صرف خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں جو اپنی پاک ذات میں وجود رکھتا، اپنے کلام کے وسیلہ سے ہمکلام ہوتا اور اپنی رُوح میں زندگی رکھتا ہے۔ خدا کا یہی آسمانی کلام مبارک کنواری مریم کے رحم میں متجسد ہُوا، جو خداوند مسیح ہے، جس نے ہماری زمین پر قیام کیا اور ہماری نجات کے کام کو سرانجام دیا۔
میرے عزیز بھائی، خداوند کے حضور میری یہ دُعا ہے کہ وہ آپ کے دِل میں آسمانی نُور چمکائے اور اپنی معجزانہ قدرت کا بھید آپ پر عیاں کرے کیونکہ خدا کے بھید صرف رُوحِ خدا ہی کی بدولت سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ کیا آپ خدا سے دُعا کریں گے کہ وہ پہلے آپ کی زندگی میں تبدیلی لائے اور آپ کو نجات بخش فضل کے کام کو قبول کرنے کے لائق بنائے تا کہ آپ خدا کے فرزند بن جائیں۔ تب آپ رُوح القدس کے وسیلہ وہ سب برکات پا سکیں گے جو انسانی ذہن حاصل کرنے کے لائق نہیں ہے۔ خدائے کریم آپ کی سلامتی ہو، اور ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے۔
کتاب "خُدائے واحد کا پاک تثلیث میں وجود" کے سوالات کے جوابات تحریر کیجئے۔
اگر آپ نے اِس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے، تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اَب آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے درست جوابات دینے کے قابل ہوں گے۔ آپ اپنے جوابات ہمیں روانہ کریں، اور اُن کے ساتھ اپنا مکمل نام اور پتہ واضح طورپر لکھیں۔
کن معنوں میں مسیحی لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ "خدا ایک ہے"؟ وضاحت کیجئے۔
کن معنوں میں خدا کی پدریت رُوحانی طور پر خدا کا باپ ہونا ظاہر کرتی ہے اور اِس حقیقت کا بشری تولیدی عمل سے کوئی تعلق نہیں؟
قرآنی متن کیسے مسیحی ایمان میں پائی جانے والی الٰہی واحدانیت کی تصدیق کرتا ہے؟
اُن قرآنی آیات کی وضاحت کیجئے جو خدائے واحد میں حقیقت ثالوث کی طرف اشارہ کرتی ہیں؟
لفظ "باپ" کا مسیحی مفہوم کیا ہے؟
"خدا کا بیٹا" سے کیا مُراد ہے؟
مسیحی اعتقاد کے مطابق رُوح القدس کون ہے؟
کس قسم کی تثلیث کو انجیل و قرآن دونوں رد کرتے ہیں؟
ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ انسانی ذہن آسمانی بھیدوں کا اِدراک کرنے کے لائق نہیں ہے؟
وہ کون سے ذرائع اور طریقے ہیں جن کے باعث ہم خدا کی فطرت کو جان سکتے ہیں؟
کیوں خدا اپنے آپ کو انسان پر ظاہر کرتا ہے؟
خدا کے کلمہ کےلئے جسمِ انسانی میں ظاہر ہونا کیوں ضروری ہُوا؟
خدا نے اپنا آپ شیخ منصور پر کس طرح ظاہر کیا؟
کس طرح ایک ایماندار خدا پر اپنے ایمان اور زندگی میں خدا کے نجات بخش کاموں کے بارے میں یقین و بھروسے کا حامل ہوتا ہے؟
آپ کے خیال میں موسیٰ الاسود کی زندگی میں سب سے اہم تجربہ کون سا تھا؟
جبران کے تجربہ کی چار اہم سچائیوں کا ذِکر کیجئے۔
پاک تثلیث میں خدائے واحد کے بارے میں اپنی شخصی رائے بیان کریں؟
The Good Way
P.O.Box 66
CH - 8486
Rikon
Switzerland