میں کیوں مسیحی ہو گیا؟

میں کیوں مسیحی ہو گیا؟

از سلطان محمد پال


گزارش

قارئین کرام کی خدمت میں میری یہ التماس ہے کہ اِس رسالہ کو پڑھتے وقت امورِ ذیل کا خیال رکھیں:

1۔ انسان کا روحانی اقتضاء کیا ہے؟

2۔ کون سا مذہب اِس روحانی اقتضاء کو پورا کر سکتا ہے؟

3۔ بائبل مُقدّس کو کس طرح پڑھنا مناسب ہے؟

تعارف

اِس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا ترقی یافتہ دور کا انسان خاندانی، اجتماعی اور قومی عروج کی تگ و دو میں گمراہ کن اصولوں کے بوجھ تلے دبا پڑا ہے۔ یہ تمام گمراہ کن اصول جو ہر قسم کے انسانوں اور معاشروں میں باآسانی دیکھے جا سکتے ہیں اِن کی ابتدا خودغرضی ہے جسے دینی اصطلاح میں ہبوط انسانی یا روحانی گمراہی کہتے ہیں۔ اِس گمراہی کی دراصل جڑ انسان کا دِل ہے۔ اِس کا اظہار اِس طرح سے ہوتا ہے کہ یہ تمام انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کے مخالف کام کرتی ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ یہ گمراہی پاک ربّ العالمین کے خلاف بغاوت و سرکشی میں ظاہر ہوتی ہے۔ گناہ کے زہریلے اثرات انسانی دِل میں اِس قدر سرائت کر چکے ہیں کہ بدی اور گناہ کا احساس ہونے کے باوجود انسان گناہ سے لطف اندوز ہونے اور بلاتامل اِس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گناہ کا یہی بنیادی پہلو اور اِس کے قصور اور غلامی سے آزادی کی تلاش کا جنون تھا جس نے علامہ سلطان محمد پال کو بیقرار کر رکھا تھا۔

یہ سچ ہے کہ بہت سے افراد ایسے ہیں جو خواہش کرتے ہیں کہ اے کاش وہ کسی طرح گناہ کی حقیقت و وجود اور راہِ نجات کو نظرانداز کر سکیں۔ وہ اپنے آپ سے اور دوسروں سے اپنے دِل کی حقیقت کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ اُنہیں واضح طور پر علم ہے کہ دِل کی پوشیدہ باتیں پروردگارِ عالم کی نظروں کے سامنے کُھلی ہیں۔ ایسے لوگوں کو تحریر ہٰذا غیر مفید محسوس ہو گی۔

لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں اپنی اور دوسروں کی زندگی میں گناہ اور نجات کی گہری فکر ہے۔ ایسے ہی لوگوں کےلئے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے تا کہ وہ علامہ سلطان محمد پال کے تجربات کی روشنی میں اپنی زندگی کا جائزہ لے سکیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کریں کہ یہ کتابچہ اُن تمام اصحاب کی زندگی میں زندہ خدا تعالیٰ کی برکت کا باعث ٹھہرے جو اِس کے نفسِ مضمون پر غور و خوص کرتے ہیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

میرا وطن مولوف جس پر مجھ کو بہت ناز ہے افغانسان جنت نشان ہے۔ میرے والد مرحوم علاقہ لوگر کے صدر یعنی دارالخلافہ کے باشندہ تھے جو کہ دارالسلطنت کابل سے بیس پچیس کوس جانبِ جنوب میں واقع ہے۔

میرے والد مرحوم کا نام پایندہ خان تھا۔ فوجی عہدے کے اعتبار سے کرنیل تھے اور اُن کا خطاب بہادر خان تھا لیکن سرزمین افغانستان میں اِس طرح مشہور تھے "بہادر خان کرنیل ماماہ محمد خان جرنیل۔" میرے والد کی دو بیویاں تھیں۔ پہلی بیوی میرے والد کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھیں۔ اُن سے بجز تین لڑکیوں کے کوئی فرزند نرینہ پیدا نہیں ہوا۔ پس بدیں خیال کہ نسل منقطع نہ ہو جائے اُن کی سید محمود آقا کی لڑکی سے سیادت و امارت کے لحاظ سے خطہ کابل کے چند معروف اشخاص میں تھے شادی ہوئی۔ اُس کے بطن سے میں اور میرا چھوٹا بھائی تاج محمد خان پیدا ہوئے۔ میں 1881ء میں پیدا ہوا۔

امیر عبد الرحمن خان مرحوم جب روس سے آ کر تخت کابل پر متمکن ہوئے تو کچھ عرصہ کے بعد میرے والد مرحوم اور محمد جان خان غازی اور فیض محمد خان جرنیل وغیرہ چھ سربرآوردہ اشخاص کو جو افغانستان کے رُکن اور مایہ ناز اور ایک ہی خاندان کے تھے گرفتار کروا کر ایک نامعلوم مقام میں پہنچوا کر سب کو قتل کروا دیا۔

ایک اَور آفت یہ آئی کہ میرے دو ماموں صاحبان گرفتار کئے گئے اور کابل میں بھیج دیئے گئے اور بعد ازاں ہندوستان کی طرف جلاوطن کر دیا۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد میرے تیسرے ماموں صاحب والدہ اور ملازمین کے ہمراہ امیر عبد الرحمن کی اجازت سے ہندوستان میں آ گئے لیکن باقی تمام اعزا و اقارب کابل میں مقیم رہے۔ ہندوستان آنے کے بعد وہ حسن ابدال میں مقیم ہوئے۔

سیاسی مشکلات زیادہ ہونے کے باعث ہمارا تمام خاندان حسن ابدال آ گیا۔ کئی ماہ کے بعد میری والدہ ماجدہ انتقال کر گئیں۔ لیکن چند سال کے بعد امیر عبد الرحمن خان مرحوم اور ہمارے خاندان کے درمیان مصالحت ہو گئی اور ہمارے کل خاندان کو واپس کابل آنے کی اجازت مل گئی۔ سو بجز میرے اور میرے تین ماموں صاحبان کے سب کے سب اپنے ملک کو رجعت کر گئے۔

بعد ازاں، میں دہلی چلا گیا اور مدرسہ فتح پوری میں عربی کی تکمیل کی غرض سے داخل ہوا۔ اُس وقت وہاں رئیس مدرسہ مولانا عبد الجلیل تھے جو ضلع نوشہرہ کے ایک خالص پٹھان تھے۔ دوسرے مولوی صاحب مولانا فتح محمد خان تھے جو قندھار سے تھے۔ اِن دو شریف آدمیوں کی خاص مہربانی کی وجہ سے، میں نے جلد ہی منطق کی تعلیم مکمل کی اور احادیث و تفاسیر سیکھنے لگ گیا۔ دن کے وقت تو میں اپنے ساتھی طلبا کے ساتھ پڑھتا لیکن شام میں میں نے مولانا عبد الجلیل سے خاص راہنمائی پائی اور خدا کے فضل سے میں نے اِن مضامین پر عبور حاصل کیا۔

مسیحیوں کے ساتھ میرا پہلا مباحثہ

اُن ہی ایام میں ایک روز میں اپنے دوستوں کے ساتھ چاندنی چوک (دہلی) کی سیر کر کے مدرسہ کی طرف واپس آ رہا تھا کہ مدرسہ سے کچھ فاصلے پر بہت بھیڑ لگی دیکھی۔ بھیڑ کو دیکھ کر ہم بھی روانہ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مسیحی مناد تثلیث پر قرآن شریف کی اِس آیت سے استدلال کر رہا تھا "وَنَحنُ اَقرَبُ اِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِید" (سورة ق 50: 16) اور کہتا تھا کہ"نَحنُ" ضمیر جمع متکلم ہے جس کے معنٰی ہیں "ہم"، پس اگر خدا واحد مطلق ہوتا تو "ہم" نہ کہتا بلکہ "انا" یعنی "میں" کہتا۔ ہمارا ساتھی طالب علم کچھ مہمل سا جواب دے رہا تھا۔ میرے دوستوں نے مجھ کو جواب دینے کا اشارہ کیا۔ آگے بڑھ کر میں نے کہا "نَحنُ" اِس مقام پر محاورہ عرب کے مطابق صرف تعظیم و تحسین کلام کےلئے استعمال ہوا ہے۔

میری زندگی میں مسیحیوں کے ساتھ مباحثہ کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ اُسی دن سے میرے دِل میں مسیحیوں کے ساتھ مباحثہ کرنے کا اِس قدر شوق پیدا ہوا جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ یہ صرف شوق ہی شوق نہ تھا بلکہ حمیت و غیرت مذہبی اِس کے اجزائے اوّلین تھے۔ غرضیکہ مجھ سے جہاں تک ہو سکا میں نے اُن مشہور و معروف کتابوں کو جو مسیحیوں کے رد میں لکھی گئی ہیں جمع کرنا شروع کیا۔ میں نے کئی کتابوں کا محتاط مطالعہ کیا اور مقررہ دنوں پر میں فوارہ کے پاس جاتا تا کہ مسیحی منادوں کے ساتھ بحث کر سکوں۔

ایک دن ایک انگریز پادری صاحب نے جو منادوں کے ساتھ آیا کرتے تھے مجھ کو اپنا وزٹنگ کارڈ دے کر اپنے بنگلہ پر مدعو کیا۔ اور مجھے اپنے دوستوں کو بھی ہمراہ لانے کی اجازت دی۔ چنانچہ میں اپنے دو یا تین دوستوں کو ساتھ لے کر پادری صاحب موصوف کے بنگلہ پر گیا۔ چائے پیتے وقت ایک دلچسپ مذہبی گفتگو چھڑ گئی۔ پادری صاحب نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا "آپ بائبل پڑھتے ہیں؟" میں نے کہا "میں بائبل کو پڑھ کر کیا کروں گا؟ ایسی محرّف کتاب کو کون پڑھے گا جس کو آپ لوگ ہر سال بدلتے رہتے ہیں؟" میرے اِس جواب پر پادری صاحب کے چہرہ سے افسوس کے آثار ظاہر ہوئے اور ایک دزدیدہ تبسم کے ساتھ کہنے لگے "کیا آپ سوچتے ہیں کہ ہم مسیحی لوگ سب کے سب بےایمان ہیں یا خدا سے نہیں ڈرتے جو خدا کے کلام پاک میں تبدیلی کرتے اور دنیا کو دھوکا دیتے ہیں؟ جب مسلمان لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسیحی تورات و انجیل شریف میں تحریف کرتے ہیں تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ کُل مسیحی لوگ بےایمان اور لوگوں کو گمراہ کرنے والے ہیں۔ مسیحی بائبل مُقدّس کو خدا کا کلام بالکل ویسے ہی مانتے ہیں جیسے مسلمان قرآن کو مانتے ہیں۔ پس اگر کوئی مسلمان قرآن کے متن کو تبدیل نہیں کر سکتا، تو کیسے ممکن ہے کہ ایک مسیحی خدا کی کتاب بائبل مُقدّس کے متن کو تبدیل کر سکتا ہے؟ اگر کوئی فتنہ انگیز مسلمان قرآن کی کسی آیت کے متن کو تبدیل کرتا تو کیا تمام مسلمان اُسے دائرہ اسلام سے خارج تصور نہ کرتے اور اُس کی بابت حقائق شائع نہ کرتے؟ بالکل اِسی طرح اگر کوئی فتنہ انگیز مسیحی صحائف کی کسی آیت کو تبدیل کرتا تو کیا باقی تمام سچے مسیحی اُسے اپنے مذہب کے دائرہ سے باہر نہ سمجھتے اور اُس کی بابت حقائق مشہور نہ کرتے؟ یقیناً وہ ایسا کرتے! پس مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ پاک کلام محرّف ہے سراسر غلط اور باطل ہے اور میں جانتا ہوں کہ اِس قسم کا دعویٰ اُن مسلمانوں کا ہے جو بائبل مُقدّس اور مسیحیوں کے عقیدے اور ایمان سے ناواقف ہیں۔"

میں اِس غرض اور نیت سے بائبل پڑھا کرتا تھا کہ جس سے مسیحیوں اور خود بائبل پر اعتراض اور نکتہ چینی کر سکوں۔ نہ ہی میں بائبل مُقدّس کو سلسلہ وار پڑھتا تھا بلکہ اُن ہی مقامات کو جن کا حوالہ مسلمان مباحثین اپنی اپنی تصانیف میں دیتے تھے۔ قصہ کوتاہ جب تک دہلی میں رہا مسیحیوں کے ساتھ مباحثہ کا معرکہ گرم رہا۔

مزید مطالعہ

اِسی عرصے میں میں نے بمبئی جانے کا قصد کیا۔ مجھ کو وہاں جناب مولوی ہدایت اللہ صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مولوی صاحب بمبئی میں کیا عزت اور کیا علمیت اور کیا وجاہت کے لحاظ سے آفتاب کی طرح مشہور تھے۔ اُن کا گھر کابل میں تھا اور وہ میرے خاندان سے اچھی طرح واقف تھے۔ جیسے ہی بمبئی میں ہماری ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی، اُنہوں نے بخوشی مجھے ہدایت و راہنمائی دینے کا وعدہ کیا۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ میری باقاعدہ تعلیم ختم ہونے کو تھی اور مجھے نصیحت کی کہ میں ادب کے مطالعہ پر زیادہ توجہ دوں۔ اُنہوں نے مجھے اپنی شاندار لائبریری کے استعمال کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ یوں میں نے اُن کے زیرسایہ اپنا مطالعہ شروع کیا ۔ اِن مولوی صاحب نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ استنبول (ترکی)، مصر اور عرب میں گزارا تھا اور ادبی لحاظ سے انتہائی ذہین تھے۔ وہ فارسی میں تعلیم دیتے تھے جو میری اور اُن کی مادری زبان تھی اور اِس سے مجھے بڑی سہولت ملی۔

اُنہی ایام میں مصر سے ایک اَور زبردست عالم جو منطق اور فلسفہ میں ماہر تھے آ کر مدرسہ زکریا میں مدرس مقرر ہوئے۔ آپ کا نام مولوی عبد الاحد صاحب تھا اور افغانستان کے صوبہ جلال آباد کے باشندہ تھے۔ جب آپ کی شہرت ہوئی تو میں بھی مدرسہ زکریا میں داخل ہو کر آپ سے منطق اور فلسفہ کی انتہائی کتابیں پڑھنے لگا۔ آپ مجھ سے بےحد پدرانہ نظرِ شفقت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے کمرے کے پاس ہی مجھ کو ایک کمرہ دیا تا کہ ہر وقت میں آپ سے مدد لے سکوں۔

مسیحیوں کے ساتھ مزید مباحثے

ایک دن میں اور مدرسہ کے چند طالب علم سیر کرتے کرتے دھوبی تالاب پہنچ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ چند مسیحی مناد وعظ کر رہے ہیں۔ اُن کو دیکھتے ہی میرا پرانا زخم پھر تازہ ہو گیا اور دہلی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ میں آگے بڑھنے ہی کو تھا کہ ایک طالب علم نے مجھ سے کہا "مولوی صاحب جانے بھی دیجئے اِن لوگوں سے بحث کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ یہ بیچارے نہ بحث کرنا جانتے ہیں اور نہ آداب مباحثہ سے واقف ہوتے ہیں۔ اِن کو اِسی بات کی تنخواہ ملتی ہے سو اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ پس اِن سے مباحثہ کرنے میں بجز نقصان کے فائدہ کچھ بھی نہیں۔" میں نے کہا "آپ نہیں جانتے ہیں پر میں اِن لوگوں سے خوب واقف ہوں اگرچہ یہ لوگ مباحثہ اور مباحثہ کے آداب نہیں جانتے۔ لیکن لوگوں کو گمراہ کرنے کے طریقے خوب جانتے ہیں۔ پس ہر ایک مسلمان پر فرض ہے کہ اِن کے مکر اور فریب کے جال سے بھولے بھٹکے مسلمانوں کو بچائے۔" یہ کہہ کر میں آگے ہوا اور اعتراض پر اعتراض کرنا شروع کیا۔ اُس طرف سے بھی اعتراضوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ بہت دیر تک سلسلہ جاری رہا۔ لیکن وقت نہ ہونے کے سبب سے اُس روز بحث بند ہو گئی۔

مدرسہ کے طلبا میں اِس بات کا خوب چرچا ہوا اور اُن میں بھی مباحثہ کا شوق پیدا ہونے لگا۔ ہفتہ میں دو بار بلاناغہ مسیحیوں سے مباحثہ کرتے تھے۔ جب پادری صاحبان نے دیکھا کہ ہم بلاناغہ مباحثہ کےلئے آیا کرتے ہیں تو چرچ مشنری سوسائٹی کے دو مشنری صاحبان نے جوزف بہاری لعل صاحب کی معرفت جو ہیڈ کیٹیکسٹ تھے اپنے بنگلہ میں ہماری دعوت کی اور اثنائے گفتگو میں کہنے لگے کہ "دھوبی تالاب بہت دور ہے اور آنے جانے میں آپ لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہو گی۔ اگر آپ سچ مچ تحقیق کرناچاہتے ہیں تو ہم آپ لوگوں کے قریب ایک کتب خانہ کھول دیں گے جس میں ہفتہ میں ایک بار شام سے لے کر جب تک آپ چاہیں مذہبی باتوں پر بحث کریں۔" میں نے شکریہ کے ساتھ اُن کی اِس رائے کو منظور کیا۔ جب کتب خانہ کُھل گیا تو مقررہ وقت کے مطابق ہماری وہاں ملاقات ہوئی۔

جب میں نے دیکھا کہ ہمارے مدرسہ کے طلبہ اور باہر کے رفقاء مسیحی مذہب سے ناواقف ہیں اور فن تقریر میں ناتجربہ کار ہیں تو جناب مولوی عباس خان صاحب کے مشورے سے ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر ایک انجمن بنام ندوة المتکلمین جاری کی۔ اُس کا مقصد یہ تھا کہ مخالفین اسلام اور خاص کر مسیحیوں کے ساتھ مباحثہ کرنے کےلئے مباحثین تیار کئے جائیں۔

جب میرے اُستاد نے یہ دیکھا کہ میں بحث مباحثہ میں شب و روز مستغرق رہا کرتا ہوں اور بجز اِس کے اَور کچھ فکر ہی نہیں تو ایک رات بعد نماز عشاء میرے کمرے میں تشریف لائے۔ میں اُس وقت انجیل کا مطالعہ کر رہا تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگے "تمہارے ہاتھ میں کونسی کتاب ہے؟" میں نے اُنہیں بتایا تو وہ چیں بچیں ہو کر فرمانے لگے "مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں تم مسیحی نہ ہو جاﺅ۔" اِس جملہ کو سُن کر میں سخت بیتاب ہو گیا۔ اگرچہ میں ادب کے لحاظ سے کچھ نہ کہنا چاہتا تھا تو بھی میرے منہ سے نکل ہی گیا کہ "میں کس طرح مسیحی ہو جاﺅں گا؟ کیا انجیل پڑھنے سے کوئی مسیحی ہو جاتا ہے؟ میں انجیل اِس لئے پڑھتا ہوں کہ مسیحیوں کی جڑ اُکھیڑ دوں نہ کہ خود مسیحی ہو جاﺅں۔ مناسب تھا کہ آپ میری تعریف کرتے تو میرا دِل بڑھاتے نہ کہ میرا دِل توڑتے یا میرا حوصلہ پست کرتے۔" اِس پر آپ نے کہا "یہ میں نے اِس لئے کہا کہ میں نے سُنا ہے کہ جو شخص انجیل پڑھتا ہے وہ مسیحی ہو جاتا ہے۔ کیا تم نے نہیں سُنا جو ایک شاعر نے کہا کہ 'جب تُو انجیل پڑھتا ہے تو مسلمانوں کا دِل اسلام سے پھر جاتا ہے۔' " میں نے کہا "جس نے بھی یہ کہا ہے برا کہا ہے۔" خیر مجھے کچھ مزید نصیحت کر کے مولوی صاحب اپنے کمرہ کو واپس چلے گئے۔

عرب کا سفر

غرضیکہ یہ دلچسپ اور روحانی جنگ کچھ سال تک جاری رہی۔ پھر مجھے یکایک حج ادا کرنے کا شوق آیا اور فی الفور سارا انتظام کر کے شاہ نور پر سوار ہو کر جدہ اور جدہ سے مکہ پہنچ گیا اور مکہ سے جناب مولوی حسام الدین صاحب مرحوم ایڈیٹر کشف الحقائق بمبئی کے ساتھ خط و کتابت کرتا رہا۔ جب حج کا دن آ پہنچا تو احرام باندھ کر عرفات گیا۔ عرفات کا دن عجیب و دلچسپ نظارہ کا دن ہوتا ہے۔ امیر و غریب، شریف اور وضیع سب کے سب ایک ہی سفید چادر اور تہ بند میں لپٹے ہوئے ننگے سر اور ننگے پاﺅں یوں معلوم ہوتے تھے کہ قیامت کا دن ہے اور سب مردے اپنے اپنے کفنوں سمیت قبروں سے اپنے اعمال کا حساب کتاب دینے کےلئے نکلے ہیں۔ میری دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے مگر ساتھ ہی یہ خیال پیدا ہوا کہ "اگر اسلام سچا مذہب نہیں ہے تو قیامت میں میری کیا حالت ہو گی؟ اُسی وقت میں نے خدا سے یوں دعا مانگی کہ "الہٰی تُو اپنا سچا مذہب اور سچا راستہ مجھے بتلا۔ اگر اسلام سچا مذہب ہے تو مجھ کو اِس پر قائم رکھ اور مجھ کو توفیق دے کہ اسلام کے مخالفین کے منہ بند کر سکوں اور اگر مسیحی مذہب سچا ہے تو تُو اُس کی سچائی مجھ پر ظاہر کر۔ آمین۔"

مدینہ کی مختصر زیارت کے بعد میں بمبئی واپس آیا۔ میری اِس غیرحاضری کے زمانہ میں ندوة المتکلمین بند ہو گیا تھا۔ اِس لئے واپس آ کر سب سے پہلا کام جو میں نے کیا یہ تھا کہ ندوة المتکلمین کے عوض ایک اَور انجمن جاری کی۔ اُس انجمن کا میں صدر تھا اور سیکرٹری عبد الرﺅف صاحب تھے۔ عبد الرﺅف صاحب کے مکان پر ہی جو گرینڈ روڈ کے قریب واقع تھا اُس کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ اُس کے قوانین میں سے ایک قانون یہ تھا کہ مخالفین اسلام میں سے ہفتہ میں سے ایک بار ایک شخص کو دعوت دیں کہ وہ آ کر اسلام کے خلاف لیکچر دے اور ہم میں سے کوئی صاحب جس کو صدر چُنے اُس کو جواب دے۔ مسیحیوں کی طرف سے منشی منصور مسیح صاحب بلاناغہ آ کر اسلام کے خلاف لیکچر دیتے تھے۔ اِسی طرح آریہ سماج کی طرف سے بھی کوئی نہ کوئی صاحب تشریف لاتے تھے۔

ایک بڑا مسئلہ

ایک روز منشی منصور مسیح صاحب نے ہماری انجمن میں اِس موضوع پر کہ "اسلام میں نجات نہیں ہے" ایک زبردست لیکچر دیا۔ انجمن کے اراکین نے مجھے کہا کہ میں جواب دوں۔ میں جواب دینے کےلئے کھڑا ہوا اور اپنے علم کے زور سے یہ ثابت کرنا چاہا کہ اسلام میں پوری اور کامل نجات ہے لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اگرچہ سامعین نے میرے لیکچر کی داد دی اور چاروں طرف سے واہ واہ ہونے لگی لیکن خود مجھ کو میرے دلائل سے اطمینان نہ تھا۔ میں دوران لیکچر اپنی کمزوری کو خود محسوس کر رہا تھا۔ اگرچہ میری آواز کے سامنے منصور مسیح صاحب کی آواز دھیمی ہو گئی تھی لیکن میرے دِل میں اُن کی آواز اِس زور و شور سے گونج رہی تھی کہ جس کا بیان میں نہیں کر سکتا۔

تقریباً 11 بجے رات یہ بحث ختم ہوئی۔ میں گھر آ گیا اور بیٹھ کر جو کچھ منشی منصور مسیح صاحب نے کہا تھا اُس پر غور کرنے لگا۔ جتنا زیادہ میں نے سوچا اُتنا زیادہ مجھ پر واضح ہو گیا کہ نجات مذہب کی بنیادی روح اور اُس کی لازمی بنیاد ہے۔ اِس کے بغیر ایک مذہب مذہب نہیں۔ مزید برآں، میں نے دیکھا کہ انسان بھلکڑ پن، نافرمانی اور خطاﺅں سے بھرا پڑا ہے۔ اُس کی زندگی کبھی بھی اتنی پاکیزہ نہیں کہ اُسے گناہ کے دھبوں سے مکمل طور پر آزاد کہا جائے۔ گناہ انسان کی دوسری فطرت بن گئی ہے۔ یہ درست کہاوت ہے کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ اب ناگزیر سوال یہ ہے: کیسے ایک فرد مواخذہ اور سزا سے بچ سکتا ہے؟ کیسے ایک فرد نجات پا سکتا ہے؟ اب یہ میرا فرض بن گیا تھا کہ اِس سارے معاملے کی دیانتداری سے اور بغیر تعصب کے تفتیش کرتا۔ اگر مجھے پتا چلتا کہ نجات واقعی اسلام میں موجود ہے تو میں خدا کا شکر ادا کرتا۔ میری آنکھیں کس قدر روشن ہوتیں اور میرا دِل کس قدر خوش ہوتا۔ لیکن اگر اسلام ایسی کوئی تسلی نہ دیتا تو میں اُس مذہب کا پیرو ہونے میں جو نجات کا تسلی بخش منصوبہ پیش کرتا مجبور ہو جاتا۔ جب میں نے یہ فیصلہ کیا تو میں خدا کے حضور دعا میں گھٹنوں کے بل ہو گیا اور زار زار رونے لگا اور یہ وعدہ کیا کہ اب میں بائبل کو اُس طرح سے نہیں پڑھوں گا جیسے پہلے پڑھا کرتا تھا۔ میں اُسے پڑھوں گا تا کہ مجھ جیسا بدنصیب گنہگار اِس میں راہ نجات کو دریافت کر سکے۔

نجات کی تڑپ

اُس دن سے آگے میں نے اپنے رویہ کو بدلا اور سچائی کے ایک حقیقی متلاشی کی طرح بائبل کا مطالعہ کرنا اور قرآن سے اُس کا موازنہ کرنا شروع کیا۔ اپنے مزید ذہنی سکون کی خاطر میں نے ایک پارسی سے اوستا (زرتشتوں کی مُقدّس تحریرات کی کتاب) کی ایک جلد حاصل کی، اور سیتارتھ پرکاش کی ایک جلد خریدی۔ پھر میں نے اِن کتابوں کا موازنہ شروع کیا۔ اوستا کا دھیان سے مطالعہ کرنے اور پارسی علما سے گفتگو کرنے کے بعد میں راہ نجات کے بارے میں مزید غمزدہ ہو گیا، کیونکہ اِس مذہب میں نجات کا کوئی معقول طریقہ نہیں ہے۔

پھر میں نے سوامی دیانند سرسوَتی کی لکھی ہوئی سیتارتھ پرکاش کا مطالعہ کیا جسے آریا سماج کی تعلیمات کے بارے میں سب سے زیادہ مستند کام تصور کیا جاتا ہے۔ میں نے اِس کا مطالعہ اِس امید کے ساتھ کیا کہ شاید مجھے اِس میں وہ چیز مل سکے جس کی میں تلاش میں تھا۔ لیکن اِس کے برعکس مجھے اِس میں عجیب و غریب تعلیم نظر آئی جس سے میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ اِس میں میں نے دیکھا کہ خدا گناہ معاف نہیں کر سکتا۔ میں اِس پر بڑا حیران ہوا اور نتیجہ نکالا کہ نجات پانے کی امید میں آریہ سماج میں شامل ہونا ایک فرد کےلئے بالکل بےفائدہ ہے۔ آریہ سماج کے مطابق خدا ایک فرد کے گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا چاہے وہ آریہ سماج میں آنے سے پہلے کئے ہوں یا بعد میں کئے ہوں۔ غرض کہ سزا ناگزیر ہے۔

مزید برآں میں نے دیکھا کہ آریہ سماج نجات کو ابدی تصور نہیں کرتا۔ یہ مجھ پر عیاں ہو گیا کہ آریہ سماج میں کوئی نجات نہیں، اور اگر نجات کسی ایک طرح سے حاصل ہو بھی جائے تو وہ ابدی نہیں ہے۔ اِس میں چونکہ نجات عارضی ہے اِس لئے کیا ایک فرد مسلسل خوف نہیں کھاتا رہے گا کہ کسی بھی وقت مزید خوشی سے اُس سے انکار ہو سکتا ہے؟ جب میں اِس نکتہ پر پہنچا اور دیکھا کہ مجھ جیسے گنہگار کےلئے کوئی نجات نہیں تو میں نے سیتارتھ پرکاش کا مطالعہ کرنا ترک کر دیا۔

سب سے زیادہ عمیق اور قابل غور بات جو اب تک باقی تھی وہ قرآن شریف اور مستند و صحیح احادیث کی تحقیق و تفتیش تھی۔ پیشتر اِس کے کہ میں نجات کی تلاش کرتا خدا کے سامنے اپنے دونوں ہاتھوں کو اُٹھا کر یوں دعا کی:

"الہٰی تُو جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان پیدا ہوا ہوں۔ میرے آباﺅ اجداد سینکڑوں پشتوں سے اِسی مذہب میں پیدا ہوئے اور اِسی میں فوت ہوئے۔ اِسی میں میں نے تعلیم و تربیت پائی اور اِسی میں میری پرورش ہوئی۔ پس تُو اِن تمام باتوں کو جو تیری سچی راہ کی تحقیق کرنے سے مجھے روکتی ہیں ایک مجھ سے دُور کر۔ تُو اپنی نجات کا راستہ مجھ کو بتا تا کہ جب میں اِس دارِ فانی سے چل بسوں تو تیرے آگے قابل نفرین نہ ٹھہروں۔ آمین!"

قرآن شریف کا مطالعہ کرنے سے جو بات مجھ کو اِس سے قبل معلوم تھی وہی بات اب بھی ثابت ہوئی یعنی یہ کہ نجات کا ملنا صرف اعمالِ صالح پر موقوف ہے۔ مجھے اِس بارے میں بہت سی آیات مِلیں، لیکن اُن میں سے میں صرف دو ہی کا اقتباس یہاں کروں گا:

"اَمَّا الَّذِینَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُم جَنّٰتُ المَاوٰی نُزُلًا م بِمَا کَانُوا یَعمَلُونَ وَاَمَّا الَّذِینَ فَسَقُوا فَمَاوٰئھُمُ النَّارُ۔ کُلَّمَآ اَرَادُوٓا اَن یَّخرُجُوا مِنھَآ اُعِیدُوا فِیھَا وَقِیلَ لَھُم ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِی کُنتُم بِہ تُکَذِّبُون" (سورة السجدة 32: 19-20)

(جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اُن کے رہنے کےلئے باغ ہیں۔ یہ مہمانی اُن کاموں کی جزا ہے جو وہ کرتے تھے۔ اور جنہوں نے نافرمانی کی اُن کے رہنے کےلئے دوزخ ہے جب چاہیں گے کہ اُس میں سے نکل جائیں تو اُس میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور اُن سے کہا جائے گا کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے اُس کے مزے چکھو۔)

"فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیرًا یَّرَہ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَہ" (سورة الزلزال 99: 7-8)

(تو جس نے ذرّہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اُس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرّہ بھر برائی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا۔)

اِس قسم کی آیات کو پڑھ کر جو بادی النظر میں مرغوب اور تسلی بخش معلوم ہوتی ہیں میرے دِل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ "کیا یہ ممکن ہے کہ ہم سے نیکی ہی سرزد ہوتی جائے اور کسی قسم کی بدی ہم سے سرزد نہ ہو؟ کیا انسان میں ایسی طاقت ہے؟" جب بہ نظر امعان و تدفین اِس سوال پر غور و خوص کیا اور ساتھ ہی اِس کے انسانی قوی اور جذبات کا اندازہ کیا تو معلوم ہوا کہ انسان کےلئے سراسر معصوم رہنا ناممکن ہے۔

عرب کے فلسفیوں کا دعویٰ ہے کہ انسان میں چار عقلی قابلیتیں پائی جاتی ہیں جو اُس کے تمام افعال کا باعث ہوتی ہیں۔ اِن چار میں سے تین اُس کی روحانی دلچسپی کی ضد ہیں۔ صرف ایک فرشتوں کی قابلیت انسان کی توجہ خدا کی جانب لگاتی ہے اور اُس کی مدد کرتی ہے کہ وہ خدا کے احکام کی فرمانبرداری کرے، لیکن اُس کے اثرات انسان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف تین قابلیتوں کی مشترکہ مضبوطی ہے، جن کے اثرات انسان کو خوش کرتے اور فوراً تحریک بخشتے ہیں۔ اِس لئے انسان کا ذہن صرف وہ دیکھتا ہے جو سطحی ہوتا ہے، وہ صرف حال کی فکر کرتا ہے، دنیاوی چیزوں پر زیادہ توجہ دیتا ہے، اور روحانی معاملات اور خدا کے تعلق سے بےفکر ہو جاتا ہے۔ ایک نامور مسلم اِسے یوں بیان کرتا ہے:

"میں چار چیزوں میں پھنسا ہوا ہوں، جن کا غلبہ مجھ میں غم اور دُکھ کا باعث بنتا ہے۔ یہ چار چیزیں شیطان، دنیا، شہوت اور حرص ہیں۔ میں اِن چاروں سے کیسے رہائی پا سکتا ہوں کہ جب یہ چاروں میرے دشمن ہیں؟ بری خواہشیں مجھے رغبت دلاتی ہے اور حسیات اور لذتوں کی تاریکی میں پھینک دیتی ہیں۔"

عرب فلسفیوں کے نزدیک تین قابلیتیں فرشتوں کی قابلیت پر غالب آئیں اور آدم نے وہ کیا جو خدا نے اُسے کرنے سے منع کیا تھا۔ ایک حدیث کے مطابق:

حضرت ابوہریرة سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اُن کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ پھر اُن کی پیٹھ سے قیامت تک آنے والی اُن کی نسل کی روحیں نکل آئیں۔ پھر ہر انسان کی پیشانی پر نور کی چمک رکھ دی۔ پھر اُنہیں آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا تو اُنہوں نے پوچھا اے ربّ یہ کون ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ آپ کی اولاد ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے اُن میں سے ایک شخص کو دیکھا جس کی آنکھوں کے درمیان چمک اُنہیں بہت پسند آئی تو اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے ربّ یہ کون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ آپ کی اولاد میں سے آخری امتوں کا ایک فرد ہے۔ اِس کا نام داﺅد ہے۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا اے اللہ اِس کی عمر کتنی رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ساٹھ سال۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا اے اللہ اِس کی عمر مجھ سے چالیس سال زیادہ کر دیجئے۔ پھر جب آدم علیہ السلام کی عمر پوری ہو گئی تو موت کا فرشتہ حاضر ہوا۔ آدم علیہ السلام نے اُن سے پوچھا کہ کیا میری عمر کے چالیس سال باقی نہیں ہیں۔ فرشتے نے کہا کہ وہ تو آپ اپنے بیٹے داﺅد علیہ السلام کو دے چکے ہیں۔ نبی اکرم نے فرمایا کہ پھر آدم علیہ السلام نے انکار کر دیا لہٰذا اُن کی اولاد بھی انکار کرنے لگی۔ آدم علیہ السلام بھول گئے اور اُن کی اولاد بھی بھولنے لگی۔ پھر آدم علیہ السلام نے غلطی کی لہٰذا اُن کی اولاد بھی غلطی کرنے لگی۔" (ترمذی)

اِس حدیث سے یہ واضح ہے کہ تمام نسل آدم یقیناً گنہگار ہے کیونکہ آدم کا گناہ سب میں منتقل ہوا۔ اِسی لئے مُقدّسین اور مذہبی راہنماﺅں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا ہے۔ اِسی لئے انبیا میں سے اوّل ترین آدم اور حوا نے کہا:

"قَالَا رَبَّنَا ظَلَمنَآ اَنفُسَنَا وَاِن لَّم تَغفِرلَنَا وَتَرحَمنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الخٰسِرِینَ۔" (سورة الاعراف 7: 23)

(دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تُو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔)

اِسی طرح ابراہیم نبی نے فرمایا:

"رَبَّنَا اغفِرلِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلمُومِنِینَ یَومَ یَقُومُ الحِسَابُ۔" (سورة ابراہیم 14: 41)

(اے پروردگار حساب کتاب کے دن میری اور میرے ماں باپ کی اور مومنوں کی مغفرت کیجیو۔)

نبی اسلام یہ دعا کیا کرتے تھے:

"اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال۔" (بخاری)

ابوبکر خلیفہ اوّل نے اپنی مشہور نظم میں کہا:

"اے اللہ! میں کیسے نجات پا سکتا ہوں کیونکہ مجھ میں کوئی نیکی نہیں؟ میں گناہوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں، لیکن نیکی مجھے مطلوب ہے۔"

اِن تمام ثبوتوں کے علاوہ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت عیاں کرتی ہے کہ سب انسان گنہگار ہیں:

"اِنَّ الاِنسَانَ لِرَبِّہ لَکَنُود’‘ وَاِنَّہ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِید’‘۔" (سورة العٰدیٰت 100: 6-7)

(کہ انسان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور وہ اِس بات سے آگاہ بھی ہے۔)

آخر اِسی ضمن میں میرے دِل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آخر حضرت عیسیٰ بھی تو انسان ہیں۔ جہاں قرآن شریف میں اَور انبیا کے گناہ کا ذِکر ہے حضرت عیسیٰ کے گناہ کا ذِکر کیوں مرقوم نہیں؟ چونکہ قرآن میں حضرت عیسیٰ کی معصومیت کے سوا اَور کسی بات کا ذِکر نہیں ملا، اِس لئے میں نے انجیل شریف کی طرف رجوع کیا اور ذیل کی آیات مل گئیں:

"تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے؟" (انجیل بمطابق یوحنا 8: 46)

"جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تا کہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں۔" (انجیل شریف خط 2۔ کرنتھیوں 5: 21)

"کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا مددگار نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بیگناہ رہا۔" (انجیل شریف خط عبرانیوں 4: 15)

"نہ اُس نے گناہ کیا اور نہ اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی۔" (انجیل شریف خط 1۔ پطرس 2: 22)

"اور تم جانتے ہو کہ وہ اِس لئے ظاہر ہوا تھا کہ گناہوں کو اُٹھا لے جائے اور اُس کی ذات میں کوئی گناہ نہیں۔" (انجیل شریف خط 1۔ یوحنا 3: 5)

پس کافی اور شافی دلائل سے ثابت ہوا کہ بجز حضرت عیسیٰ کے اَور سب بنی نوع انسان درحقیقت گنہگار ہیں۔ پس میں کون اور میری حقیقت کیا جو یہ کہہ سکوں کہ اعمالِ صالح سے نجات پا سکتا ہوں جب کہ بڑے بڑے مصلحان دین، بڑے بڑے فیلسوف، متقی اِس میدان بے پایاں میں دوڑ کر ہار گئے؟

خیر پھر بھی میں نے قرآن شریف کی طرف رجوع کیا کہ مسئلہ بالا کی نسبت قرآن شریف کی کیا تعلیم ہے؟

قرآن شریف کی رو سے کوئی انسان نجات نہیں پا سکتا۔ منجملہ اُن آیات کے جو اِس امر کی تائید میں ہیں دو آیتیں یہاں نقل کرتا ہوں جو واقعی فیصلہ کرتی ہیں کہ کوئی فرد بشر خواہ وہ کیسی ہی حیثیت اور درجہ کا ہو نجات نہیں پا سکتا ہے۔

"وَاِن مِّنکُم اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتمًا مَّقضِیًّا۔ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِینَ فِیھَا جِثِیًّا۔"

(یہ بات پروردگار پر واجب ہو چکی ہے کہ تم میں سے ہر ایک انسان دوزخ میں وارد ہو گا۔ پھر ہم متقین کو دوزخ سے چھٹکارا دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اِس میں پڑے رہنے دیں گے۔)

اِس آیت کو پڑھنے سے جس قدر خوف، دہشت اور مایوسی مجھ پر طاری ہوئی میں ہی جانتا ہوں اور میرا دِل جانتا ہے۔ میں ایک روحانی بیمار تھا اور قرآن شریف کو اِس نیت سے پڑھتا تھا کہ وہ ایک روحانی ڈاکٹر کی حیثیت سے میری بیماری کا علاج بتائے گا، لیکن بجائے علاج بتانے کے مجھ کو صاف صاف سنایا کہ "تم سے ہر شخص جہنم میں جائے گا کیونکہ تیرے ربّ پر یہ قطعی فرض ہو چکا ہے۔"

لیکن جو محبت اور الفت مجھ کو اسلام کے ساتھ تھی اُس نے مجھ کو ذاتی فیصلہ کرنے اور عجلت سے کام لینے سے روک دیا اور میں نے مناسب سمجھا کہ احادیث میں اِس آیت کی تفسیر تلاش کروں اور دیکھوں کہ خود آنحضرت اِس کے تعلق سے کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ چنانچہ تلاش کرتے کرتے مجھ کو ذیل کی حدیت مشکوٰة مل گئی:

"ابن مسعود کہتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا کہ سب لوگ دوزخ میں داخل ہوں گے۔ پھر اپنے اعمال کے بموجب اِس سے نکلیں گے۔ اُن کے اعمال بجلی کی چمک کی طرح جلدی نکلیں ہیں پھر ہوا کی طرح، پھر گھوڑے کی دوڑ کی طرح، پھر انسان کے پاپیادہ کی طرح۔" ( اِس حدیث کو ترمذی اور دارمی نے روائت کیا ہے)۔

اب مذکورہ آیت کا مطلع صاف ہو گیا کہ کل افراد انسان کا ایک دفعہ جہنم میں جانا لابدی ہے پھر اپنے اپنے اعمال کے بموجب اِس سے نکلتے رہیں گے، گو کہ قرآن شریف کا مطلب آئینہ ہو گیا اور خود آنحضرت نے بھی اِس کی تصدیق کی۔ اگرچہ میں چاہتا تو میں اپنی تحقیقات کو بند کرتا لیکن میں یہ نہیں کیا بلکہ میں نے یہ بہتر سمجھا کہ قرآن شریف کی آیت مذکورہ کی تفسیر خود قرآن سے ہی تلاش کروں۔ چنانچہ ڈھونڈتے ہوئے مجھے یہ آیت مل گئی:

"وَلَو شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا یَزَالُونَ مُختَلِفِینَ۔ اِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُم وَتَمَّت کَلِمَتُ رَبِّکَ لَاَملَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجمَعِینَ۔" (سورة ہود 11: 119،118)

(اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کر دیتا، وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے۔ مگراُن کے جن پر آپ کا ربّ رحم فرمائے اُنہیں تو اِسی لئے پیدا کیا ہے، اور آپ کے ربّ کی یہ بات پوری ہو کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔)

اِس آیت کو پڑھ کر جو صدمہ میرے دِل کو پہنچا اُس سے میں یہاں تک متاثر ہو گیا کہ قرآن شریف کو آہستہ سے بند کر دیا اور اُسی جگہ رکھ کر تفکرات میں مستغرق ہو گیا۔ خواب میں بھی چین نہ ملا کیونکہ بیداری کے خیالات نیند میں مجسم ہو کر چھیڑ رہے تھے، میرا دِل بہت ہی مضطرب اور سیماب کی طرح بیقرار تھا لیکن اسلام کا ترک کرنا میرے لئے از بس مشکل تھا۔ جان دینا مجھ کو منظور تھا لیکن اسلام چھوڑنا نامنظور۔ لہٰذا کچھ عرصہ تک سوچتا رہا اور اِس جستجو میں رہا کہ اگر کوئی بھی حیلہ یا سہارا مجھ کو مل جائے تو میں اسلام کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ اِسی نیت سے احادیث کا سہارا ڈھونڈنے لگا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ احادیث کی چھ کتابیں ضخیم جلدوں پر مشتمل ہیں۔ مزید یہ کہ علم الحدیث کے اصولوں کا ہر حدیث پراطلاق انتہائی مشکل کام ہے۔ لیکن اِن مشکلات کے باوجود میں نے خدا کی مدد سے اِس کام کو مکمل کیا۔

احادیث کی رو سے نجات کے تین طریقے ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ اعمال اور نجات کے درمیان مطلق کوئی تعلق نہیں۔ انتہائی گنہگار شخص جس نے اپنی تمام زندگی خدا کی شریعت توڑنے میں گزاری، جنت الفردوس میں داخل ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح انتہائی بہترین شخص جس نے اپنی زندگی اعمال صالحہ میں بسر کی جہنم میں جا سکتا ہے۔ ذیل کی حدیث میں ہمیں اِس کا ذِکر ملتا ہے:

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ سواری پر سوار تھے اور معاذ آپ کے پیچھے بیٹھے تھے آپ نے فرمایا "معاذ!" معاذ نے عرض کیا میں حاضر ہوں یا رسول اللہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ (تین مرتبہ) آپ نے فرمایا "جو شخص سچے دِل سے اِس امر کی شہادت دے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد خدا کے رسول ہیں۔ اُس پر خداوند تعالیٰ دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔" معاذ نے کہا "یا رسول اللہ! کیا میں اِس سے لوگوں کو خبردار کر دوں؟ کہ وہ اِس بشارت کو سُن کر خوش ہو جائیں۔" آپ نے فرمایا "یہ سُن کر وہ اِسی پر بھروسا کر لیں گے۔" (مشکوٰة)

اِس مضمون پر ابو ذر سے ایک حدیث مروی ہے جس کے کُھلے الفاظ اِس بات پر ناطق ہیں کہ نجات بالاعمال کوئی چیز نہیں حتیٰ کہ زانی اور چور صرف لا الہ الا اللہ کہنے سے نجات پاتا ہے، وہ یہ ہے:

"ابو ذر نے کہا میں آنحضرت کے پاس آیا۔ آپ سو رہے تھے اور آپ کے سر پر سفید کپڑا تھا۔ میں پھر آیا تو آپ جاگتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر ایک بندہ جو لاالہ الا اللہ کہے اور اُس پر مر جائے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا 'اگرچہ وہ چور ہو یا زانی ہو؟' آپ نے فرمایا 'اگرچہ چور یا زانی ہو۔' پھر میں نے کہا کہ اگرچہ وہ چور یا زانی ہو؟ آپ نے کہا 'اگرچہ وہ چور ہو یا زانی ہو۔' اگرچہ یہ بات ابوذر کو ناگوار معلوم ہوئی۔" (مسلم و بخاری)۔

مجھے ایک اَور حدیث ملی جو اتنی تسلی بخش تھی کہ جیسے ایک بچے کےلئے مٹھائی کی ٹوکری، جس میں وعدہ کیا گیا ہے کہ ایک شخص چاہے نیکی کرے یا بدی، وہ چند الفاظ کے دہرانے سے جنت حاصل کر سکتا ہے۔ اِس میں یوں بیان کیا گیا ہے:

عبادہ بن صامت سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا "جو شخص کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں اِس بات کی کہ سوا اللہ کے کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور بےشک حضرت محمد اُس کے بندے اور بھیجے ہوئے ہیں اور بےشک حضرت عیسیٰ اللہ کے بندے ہیں اور اُس کی لونڈی کے بیٹے ہیں اور اُس کی بات سے پیدا ہوئے جو اُس نے مریم میں ڈال دی اور روح ہیں خدا کی، اور بےشک جنت حق ہے اور جہنم حق ہے، تو لے جاوے گا اُس کو اللہ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس میں سے چاہے جائے۔" (مسلم، بخاری)

قاری کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ مسیحی نیک کام کرنے کی ضرورت کا انکار نہیں کرتے۔ مسیحی مانتے ہیں کہ اُنہیں نیک کاموں میں مشغول رہنا چاہئے، تاہم اُن کی نجات کا انحصار اُن کے کاموں پر نہیں ہے، کیونکہ کوئی بھی فرد جتنا اُسے کرنا درکار ہے اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا۔ اِس لئے کوئی فرد بڑھ کر کام نہیں کر سکتا جو کہ اُس کے برے کاموں کا کفارہ ہو سکے (دیکھئے انجیل بمطابق لوقا 17: 7-10)۔

جب میں نے یہ احادیث پڑھیں تو میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک شخص جو اپنی تمام عمر بدی کرتا رہا اور نیکی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا وہ موت کے وقت جنت میں داخل ہو جائے، جبکہ ایک اَور فرد جس نے اپنی زندگی خوف ِخدا، خود ضبطی اور نیک کاموں میں گزاری وہ موت پر جہنم میں داخل کیا جائے۔

دوسرا یہ کہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نجات خدا کے رحم پر موقوف ہے، اِس حد تک کہ نبی خود اِس کے طلبگار ہوتے ہیں۔ جب تک کہ خدا کا رحم آپ کے شامل حال نہ ہو آنحضرت خود بھی کاموں سے نجات نہیں پا سکتے۔ مشکوٰة کی ایک حدیث میں یوں ملتا ہے:

ابوہریرہ نے کہا کہ آنحضرت نے فرمایا: " 'ہرگز تم میں سے کسی کو اُس کا عمل نجات نہیں دے سکتا۔' لوگوں نے کہا کہ آپ کو بھی نجات نہیں دے سکتا؟ آپ نے فرمایا 'نہیں۔ مگر جب خدا مجھ کو اپنی رحمت میں چھپا لے۔ پس مضبوط ہو اور کوشش کرو اور صبح و شام اور ہر وقت عمل میں کوشش کرو۔' " (مشکوٰة)

احادیث بالا میں مجھ کو قابل غور بات یہ معلوم ہوئی کہ جب تک خدا کا رحم شامل حال نہ ہو کوئی شخص نجات نہیں پا سکتا۔ اِس سے مجھ کو یک گونہ تسلی تو مل گئی لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ اگر خدا صرف اپنے رحم سے معاف کر دے تو صفت عدل معطل رہے گی اور تعطل سے خدا کی ذات میں نقص وارد ہو گا جو خدا کی شان کے شایاں نہیں۔

تیسری بات جو مجھ کو احادیث سے معلوم ہوئی یہ تھی کہ آنحضرت بھی کسی کو نہیں بچا سکتے یہاں تک کہ اپنے قرابت داروں اور اپنی بیٹی فاطمہ کو بھی بچانے سے قاصر ہیں۔ پس یہ خیال کہ قیامت کے دن آنحضرت شفاعت کریں گے جس کے متعلق میرا گمان تھا کہ صحیح ثابت ہو گا غلط ثابت ہوا۔ وہ حدیث یہ ہے:

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت پر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈرا تو آنحضرت کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ "اے قریش کے لوگو، اے عبد مناف کے بیٹو، اے عباس عبد المطلب کے بیٹے، اے صفیہ میری پھوپھی، میں تم کو قیامت کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، تم خود اپنی فکر کر لو۔ اے میری بیٹی فاطمہ، تُو میرے مال سے سوال کر سکتی ہے لیکن میں تم کو خدا سے نہیں بچا سکتا، تُو اپنی فکر آپ ہی کر۔" (بخاری)

پس احادیث کی وسیع اور دقیق چھان بین کے بعد میرے لئے کوئی حالت منتظر باقی نہ رہی جس کا میں اَور انتظار کرتا۔ لہٰذا میں نے یاس و حرمان کے ساتھ احادیث کو بھی بند کر دیا اور درگاہِ الہٰی میں یوں دست بدعا ہوا کہ:

"اے خدا تُو جو خالق و مالک ہے، جو میرے دِل کے کُل پوشیدہ و مخفی رازوں سے مجھ سے زیادہ واقف ہے، تُو جانتا ہے کہ ایک مدت دراز سے میں سچے مذہب کا متجسس رہا ہوں۔ جو کچھ مجھ سے ہو سکا میں نے تحقیق کی۔ پس تُو مجھ پر اپنے عرفان اور نجات کا دروازہ کھول دے۔ مجھ کو اُن لوگوں کے زمرے میں داخل کر جو تیرے منظورِ نظر ہیں تا کہ جب میں تیرے نورانی حضور میں آﺅں تو سرخرو و سرفراز ہوں۔ آمین!"

اِسی حالت رنج و الم میں میں ایک بار انجیل شریف کو اُٹھا کر دیکھنے لگا۔ بدیں خیال کہ اگر میری تحقیقات میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اُس کی اصطلاح ہو جائے، اب کی بار انجیل شریف کھولتے ہی جس آیت پر میری نظر پڑی وہ یہ تھی:

"اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو، سب میرے پاس آﺅ میں تم کو آرام دوں گا۔" (انجیل شریف بمطابق متی 11: 28)

میں نہیں کہہ سکتا کہ کس طرح انجیل شریف کا یہ رکوع کُھل گیا اور اِس آیت پر میری نگاہ پڑ گئی۔ نہ میں نے قصداً اِس باب کو کھولا تھا اور نہ یہ کوئی امر اتفاقی تھا بلکہ یہ خدا کی طرف سے میری سخت محنت اور سچی تحقیقات کی مکافات اور مجھ جیسے گنہگار شخص کےلئے علی الاعلان خوشخبری اور بشارت تھی۔ مجھ پر اِس آیت جان بخش کا بڑا اثر ہوا۔ دِل میں تسلی، اطمینان اور سرور پیدا ہو گیا۔ دِل کی بیقراری اور اضطراب یک قلم کافور ہو گئے۔ مسیح کا دعویٰ ہے: "میں تمہیں اطمینان دوں گا۔" وہ دکھاتا ہے کہ کیسے نجات کا انحصار اُس پر ہے۔ وہ نہ صرف ایک راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے بلکہ کہتا ہے: "راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا" (انجیل بمطابق یوحنا 14: 6)۔

تاہم، میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا: کیا ایک فرد مسیح کے اِس غیر معمولی دعوے پر بھروسا کر سکتا ہے؟ میں نے نتیجہ نکالا کہ ایک فرد ایسا کر سکتا ہے کیونکہ پہلی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کو مسلمان بےگناہ، اِس جہان میں اور آئندہ جہان میں بھی فضیلت والے، کلمتہ اللہ اور روح اللہ مانتے ہیں۔ یہ اور دوسرے بیانات جن کا اطلاق حضرت مسیح کی زندگی پر ہوتا ہے کاملیت کا اشارہ دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ مسیحیوں کے نزدیک وہ کامل خدا اور کامل انسان ہیں، جو تمام برے رویوں اور دنیاوی خواہشوں سے آزاد ہیں۔ غرض یہ ناممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح جو مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کے نزدیک اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں گناہ کریں۔

پھر میں نے اِس بات پر غور کرنا شروع کیا کہ کیسے جناب مسیح نے نجات دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اپنے ذہن کو تسلی دینے کےلئے میں نے انجیل مُقدّس کا مطالعہ کیا اور اِس آیت تک پہنچا:

"چنانچہ ابن آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے" (انجیل بمطابق متی 20: 28)۔

اِس آیت کے پڑھنے سے میں نے دریافت کیا کہ خدا کیسے نجات فراہم کرتا ہے۔ حضرت مسیح نے ہم گنہگاروں کےلئے اپنی زندگی دی۔ یہ ایک شاندار راہ ہے جس کی نقل دنیا نہیں کر سکتی۔ بہت سے لوگوں نے اِس دنیا میں مذاہب قائم کئے لیکن اُن میں سے کسی نے بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اُس کی موت گناہوں کی معافی کا کام کرے گی۔ حضرت عیسیٰ مسیح نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا بلکہ اِسے پورا بھی کیا۔

اِس خیال سے میں بیخودی کی حالت میں چلا گیا۔ مسیح اور انسانوں کے ساتھ اُس کی محبت کی تصویر نے میرے دِل پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ جبکہ میں اِس حالت بیخودی میں تھا، ایک اَور سوال میرے ذہن میں آیا: جناب مسیح کی قربانی و کفارے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا وہ اپنی جان دیئے بغیر نجات نہیں دے سکتا تھا؟ مزید کچھ سوچ بچار کے بعد مجھے اِس میں جواب ملا: خدا مہربان اور انصاف پسند دونوں ہے۔ اگر حضرت مسیح اپنی زندگی دیئے بغیر نجات دینے کا وعدہ کرتے، تو یقیناً رحم کا تقاضا پورا ہوتا۔ لیکن انصاف کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے کےلئے جناب مسیح نے فدیہ کی قیمت چکائی، یعنی اپنا قیمتی خون۔ یوں خدا نے ہمارے لئے اپنی محبت ظاہر کی۔

"محبت اِس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارہ کےلئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔" (انجیل مُقدّس خط 1۔ یوحنا 4: 10)

میں ایک محققانہ روش سے انجیل شریف کا مطالعہ کرتا رہا اور بالاستیاب اوّل سے آخر تک کئی بار پڑھا۔ مجھ کو سینکڑوں ایسی آیات اور بیسیوں ایسی تماثیل ملیں جن کے پڑھنے سے مجھے پورا پورا یقین ہو گیا کہ نجات جو مذہب کی علت غائی اور اِس کی جان ہے صرف سیدنا عیسیٰ مسیح پر ایمان رکھنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہاں اِس بات کے ثبوت کے طور پر میں ایک حوالہ کا اقتباس کر رہا ہوں:

"اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کچھ کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شریعت کے ماتحت ہیں تا کہ ہر ایک کا منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے۔ کیونکہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اُس کے حضور راستباز نہیں ٹھہرے گا۔ اِس لئے کہ شریعت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے۔ مگر اب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی ہے جس کی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔ یعنی خدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ کچھ فرق نہیں۔ اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مُفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُسے خدا نے اُس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو تا کہ جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔" (انجیل مُقدّس خط رومیوں 3: 19-25)

فیصلہ اور اقرار

پس اِن تمام تحقیقات و تدقیقات کے بعد جو آپ کے پیش نظر ہیں، میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اب میں مسیحی ہو جاﺅں گا اور یہ بھی مناسب معلوم ہوا کہ میں اپنی تحقیقات کو اپنی انجمن ضیاء الاسلام میں پیش کروں تا کہ اِس پر اگر چاہیں تو بحث بھی کریں اور خفیہ تحقیقات کا الزام میرے سر سے ہٹ جائے۔

میں حسبِ معمول انجمن میں گیا۔ آج پھر منصور مسیح صاحب کی باری تھی مگر میں نے یہ کہہ کر اُن کو روک دیا کہ آج میں خود اسلام کا مخالف ہو کر تقریر کروں گا۔ میں نے کھڑے ہو کر اپنے کئی سال کی تحقیقات پر تقریر کی۔ حاضرین سُن کر متعجب اور متحیر رہ گئے۔ اراکین انجمن کو فقط اِس بات کی تسلی تھی کہ جیسی تقریر میں نے کی تھی ویسا ہی جواب دوں گا۔ چنانچہ جب میں نے اپنی تقریر ختم کر لی اور بیٹھ گیا تو صدر ثانی صاحب نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ خود صدر صاحب ہی اپنی مخالفانہ تقریر کا جواب بھی دیں گے۔ اِس پر کھڑے ہو کر میں نے کہا کہ میرے دوستو سُنو، جو کچھ میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے، ظاہری یا مصنوعی نہیں بلکہ یقینی اور قطعی ہے اور کئی سال کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ اور علیٰ الخلوص اُس دن سے جبکہ جناب منصور مسیح صاحب نے نجات پر لیکچر دیا تھا میں نے خدا سے عہد کر لیا تھا کہ آج سے میں بائبل مُقدّس کو اِس نیت سے نہیں پڑھوں گا جس طرح پیشتر پڑھا کرتا تھا۔ بلکہ ایک محقق کی طرح اِس نیت اور مقصد سے پڑھوں گا کہ حقانیت اور صداقت مجھ پر ظاہر ہو جائیں۔ چنانچہ میں تعصب اور منطقی مغالطہ دہی کو بالائے طاق رکھ کر اوستا سیتارتھ پرکاش اور بائبل اور قرآن کا بالمقابل مطالعہ کرتا رہا اور میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ نجات صرف مسیحی مذہب میں ہی ہے اور بس۔ یہی ہے جو مجھے کہنا ہے۔ اگر میری تحقیق میں کوئی کمی ہے، تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا کہ اگر آپ میں سے کوئی صاحب اُس کی نشاندہی کر سکیں۔ لیکن اگر دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ میں اِن حقائق کی مخالفت میں کچھ کہوں تو میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ میں جواب نہیں دے سکتا، اور نہ کسی اَور کی طرف سے جواب کی کوئی امید ہے۔

یہ کہہ کر میں وہاں سے روانہ ہوا کیونکہ وہاں ٹھہرنا مصلحت کے خلاف تھا۔ مجھ کو نکلتے دیکھ کر منصور مسیح صاحب میرے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب میرے پاس پہنچ گئے تو دونوں ہاتھ میرے گلے میں ڈال کر خوشی کے آنسو بہانے لگے اور تھرّائی آواز سے کہنے لگے کہ آج رات میرے مکان میں آ کر سوئیں کیونکہ آپ کا تنہا مکان میں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ میری انجمن کے اراکین شائستہ اور تعلیم یافتہ ہیں۔ اُن سے مجھ کو کسی قسم کا خوف و خطرہ نہیں۔ البتہ عوام سے خطرہ ہے۔ اِس لئے میں علی الصبح اندھیرے ہی میں آپ کے مکان پر آﺅں گا اور اگر اُس وقت تک میں نہ آیا تو آپ خود میرے مطب میں تشریف لائیں۔

یہ کہہ کر ہم دونوں ایک دوسرے سے رخصت ہوئے۔ میں اپنے مکان میں آ کر دروازہ اندر سے بند کر کے چراغ بجھا کر تفکرات میں مبتلا بیٹھ گیا۔ میں اُس رات اور اُس کے ڈراﺅنے توہمات اور روحانی کشمکش کو کبھی نہ بھولوں گا۔ یہ فیصلہ کی رات تھی، جان جوکھوں میں ڈالنے والی امتحان کی رات تھی۔ میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ اگر میں مسیحی ہو جاتا ہوں، مجھے اپنا ملک، اپنی وراثت، اپنے حقوق، اپنا خاندان، اپنے دوست، قصہ مختصر سب کچھ کھونا ہو گا۔ مجھے اِس خیال سے بھی تکلیف ہوئی کہ مسیحی ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ میں ایک ایسی دنیا میں داخل ہو رہا ہوں جہاں آداب اور سب کچھ اُس ماحول سے بہت فرق ہے جس سے میں واقف ہوں۔ اُس رات سونا ناممکن تھا۔

آخرکار میں نے اپنے آپ سے کہا: "سلطان، غور کر کہ تُو ایک لمحہ کا فرزند ہے اور دنیا ختم ہونے کو ہے۔ جب تُو مرے گا، تیرا ملک اور وراثت تجھے کچھ فائدہ نہ دے گی، نہ ہی تیرا خاندان اور تیرے دوست تجھے کچھ فائدہ پہنچائیں گے۔ یہ سب کچھ اِسی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ قبر سے پرے اَور کچھ نہیں بلکہ تیرا ایمان جائے گا۔ اِس لئے اِس عارضی دنیا کی خاطر ابدی زندگی اور روحانی خوشی کھو دینا دانائی نہیں۔" تب میں خدا کے حضور اپنے گھٹنوں کے بل ہو گیا اور یہ دعا مانگی:

"اے قادر مطلق ابدی خدا، دِلوں کے جانچنے والے، میں تیری اطاعت میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ اِس نذر کو قبول فرما اور مجھے ابلیس اور روحانی خطروں کے تمام پھندوں سے بچا۔ میرے دِل سے دنیا اور اُس کی خواہشوں کو دُور کر۔ مجھے ہمت اور مضبوطی بخش کہ میں سب آدمیوں کے سامنے تیرے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح کا اقرار کر سکوں۔ میری دعا کو عیسیٰ مسیح کی خاطر سُن اور قبول فرما۔ آمین۔"

اِس دعا کو ختم کرنے کے بعد، مجھے کچھ غنودگی محسوس ہوئی اور میں تھوڑی دیر کےلئے سو گیا۔ جب میں جاگا تو میں مکمل طور پر خوش تھا۔ کسی پریشانی اور بےسکونی کا نام و نشان نہ تھا۔

صبح ہوتے ہی منہ ہاتھ دھو کر منشی منصور مسیح صاحب کی طرف روانہ ہوا۔ جب میں اُن کے مکان پر پہنچا تو وہ میرے انتظار میں پریشان تھے اور اُن کو معلوم تھا کہ مجھے چائے پینے کی سخت عادت ہے۔ چائے تیار رکھی تھی۔ چائے پی کر مختصر بات چیت کے بعد دعا میں مشغول ہوئے۔ دُعا کے بعد جناب پادری کینن لیجرڈ صاحب کے بنگلہ پر گئے۔

پادری صاحب موصوف کو ہماری اُس بےوقت آمد سے حیرانی ہوئی۔ لیکن دفتر میں جاتے ہی منصور مسیح صاحب نے اُن سے کہا مولوی صاحب بپتسمہ لینے کےلئے آئے ہیں۔ اوّل تو پادری صاحب نے اِس بات کو مذاق سمجھا لیکن جب اُن کے سامنے گذشتہ رات کا واقعہ بیان کیا تو بےاختیار اُٹھ کر گلے لگا کر کہنے لگے کہ "مجھ کو یقین تھا کہ اگر آپ نے غور سے بائبل کو پڑھا تو ضرور مسیحی ہو جائیں گے۔ اب خدا کا شکر ہے کہ آپ اِس کے قائل ہو گئے۔" یہ کہہ کر تین روز کے بعد بپتسمہ دینے کا وعدہ کیا اور اُن ایام میں احکام عشرہ، رسولوں کا عقیدہ اور دعائے ربّانی کے ازبر کرنے کی نصیحت کی اور کہنے لگے کہ "اب آپ کو واپس جانے کی صلاح نہیں دیتا۔ یا تو آپ میرے ساتھ رہیں یا منصور مسیح صاحب کے ساتھ۔" میں منصور مسیح صاحب کے ساتھ رہنے کےلئے راضی ہوا۔

جب اتوار کا دن آیا تو سارا گرجا مسلمانوں سے بھر گیا۔ اِس خطرے کو دیکھ کر پادری لیجرڈ صاحب نے بپتسمہ ملتوی کر دیا۔ آخرکار خدا کے فضل و کرم سے 6 اگست 1903ء کو سینٹ پال چرچ بمبئی میں میرا بپتسمہ اِن افراد کی موجودگی میں ہو گیا: پادری کینن لیجرڈ صاحب جنہوں نے مجھے بپتسمہ دیا، منشی منصور مسیح صاحب اور دو اَور صاحبان جن کے نام مجھے اب یاد نہیں۔ اور پھر اِس کے بعد میں کانپور چلا گیا کیونکہ بمبئی میں رہنا میرے لئے خطرے سے خالی نہ تھا۔

میرے عزیزو، جب میں مسیحی ہوا تو ایک عجیب انقلاب مجھ میں پیدا ہوا۔ میرے افعال، اقوال، گفتار سب بدل گئے۔ حتیٰ کہ ایک سال کے بعد جب میں چند دنوں کےلئے بمبئی گیا تو خود وہاں کے مسلمانوں نے میرے حق میں کہا: یہ شخص بالکل بدل گیا ہے۔ یہ کس قدر غصہ ور تھا اور اب کس قدر حلیم ہو گیا ہے۔

اگرچہ میں پہلے بھی گناہ کو گناہ سمجھتا تھا لیکن اُس کو اِس قدر خطرناک اور مہلک نہیں سمجھتا تھا جس قدر اب سمجھتا ہوں۔ اگرچہ اب بھی میں ایک کمزور اور مشتِ خاک انسان ہوں، مجھ سے اکثر سہواً خطائیں سرزد ہوتی ہیں لیکن ساتھ ہی جس قدر رنج و غم شرم اور افسوس میرے دِل میں پیدا ہوتے ہیں میں بیان نہیں کر سکتا۔ اُسی وقت منہ کے بل گر زار زار توبہ کرتا ہوں اور معافی چاہتا ہوں۔ یہ بات بجز ربنا المسیح کے کفارہ کے اَور کسی طرح سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ گناہ صرف توبہ ہی سے دُور نہیں ہو سکتا بلکہ ازبس لازمی ہے کہ ہمارے منجی عالمین سیدنا عیسیٰ مسیح کے خون سے صاف کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا آئے دن گناہ کو ایک معمولی بات سمجھ کر ہلاکت کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔

بےشک شیطان اپنی تمام قوت کے ساتھ میرے خلاف مصروفِ جنگ ہے تو بھی میں شکست خوردہ نہیں ہوں کیونکہ میرا ایمان ہے کہ المسیح نے اُس کے سر کو کچل دیا ہے۔ شیطان المسیح کے وفادار مومنین کو نہ کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ اُن پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو آسمان و زمین کا خالق و مالک اور دِلوں کا جاننے والا ہے اُس سے دعا ہے کہ وہ میرے مسلمان بھائیوں کے دِلوں کو اُسی طرح بدل دے جس طرح اُس نے میرے دِل کو بدل ڈالا ہے۔ وہ اُنہیں ایک ایسی سوچ عطا فرمائے کہ وہ روزِ عدالت کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اپنی گہری روحانی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے جناب مسیح کے دائرہ ایمان میں شامل ہو جائیں۔

میرے عزیز مسلم بھائیو، آپ کا روحانی خیر خواہ

سلطان محمد پال

سوالات

کتاب "میں کیوں مسیحی ہو گیا؟" کے سوالات حل کیجیے۔

عزیز قاری اگر آپ نے اِس گواہی کا مطالعہ کیا ہے تو مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب دیں۔

  1. "ہبوط انسانی" کیا ہے اور کیسے یہ انسانوں میں خود کو ظاہر کرتا ہے؟

  2. کس بنیادی پہلو نے سلطان محمد پال کو بیقرار کر رکھا تھا؟

  3. اُس انگریز پادری صاحب نے ردعمل میں کیا کہا جب سلطان محمد پال نے یہ سوال پوچھا: "میں بائبل کو پڑھ کر کیا کروں گا؟ ایسی محرّف کتاب کو کون پڑھے گا جس کو آپ لوگ ہر سال بدلتے رہتے ہیں؟"

  4. سلطان محمد پال نے کیسا محسوس کیا جب اُنہوں نے اسلام میں نجات کی بابت منشی منصور مسیح صاحب کے چیلنج کا جواب دیا؟

  5. جب منشی منصور صاحب کے الفاظ نے سلطان محمد پال کے دِل پر گہرا اثر کیا تو اُنہوں نے کس انداز سے بائبل کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا؟

  6. جب سلطان محمد پال نے قرآن، بائبل، اوستا اور سیتارتھ پرکاش کا موازنہ کرنا شروع کیا تو وہ کس چیز کے متلاشی بن گئے؟

  7. سلطان محمد پال نے قرآن میں انسان اور نجات کے بارے میں کیا دریافت کیا (32: 19; 99: 7-8)؟

  8. سلطان محمد پال نے قرآن کے اپنے مطالعہ میں حضرت آدم، حضرت ابراہیم، نبی اسلام، ابوبکر، اور تمام انسانیت کے بارے میں کیا سیکھا، اور کیسے حضرت عیسیٰ مسیح اِن سب سے مختلف ہیں؟

  9. انجیل مُقدّس کے پانچ مکمل بیانات کا اقتباس کریں جو سلطان محمد پال نے دیکھے جن میں حضرت عیسیٰ مسیح کی بےگناہی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اپنے جواب میں حوالہ جات کو شامل کریں۔

  10. چند جملوں میں دو بنیادی اصولوں کا خلاصہ بیان کیجئے جو سلطان محمد پال نے اِن حوالوں سے سیکھے: قرآن 19: 71 ،72 اور مشکوٰة میں اِس کی تفسیر، اور قرآن 11: 118، 119۔

  11. اُن تین باتوں کا مختصر بیان کیجئے جو سلطان محمد پال نے نجات کی بابت احادیث کی روشنی میں دریافت کیں۔ اِس تحقیق کے بعد اُن کی ذہنی کیفیت کیا تھی؟

  12. انجیل بمطابق متی کی اُس آیت کا اقتباس کیجئے جو سلطان محمد پال نے احادیث میں تحقیق کے بعد پڑھی۔ اِس کا اُن پر کیا اثر ہوا؟

  13. یوحنا 14: 6 کا اقتباس کیجئے اور اِس کی اہمیت کی وضاحت کیجئے۔

  14. سلطان محمد پال کن دو نتائج پر پہنچے جو جناب مسیح کے غیر معمولی دعوے کی حمایت کرتے ہیں؟

  15. متی 20: 28 کا اقتباس کیجئے اور بتائیے کہ کیسے خدا نجات کی پیشکش کرتا ہے؟

  16. سلطان محمد پال کو اپنے اِس سوال کا کیا جواب ملا کہ "جناب مسیح کی قربانی و کفارے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا وہ اپنی جان دیئے بغیر نجات نہیں دے سکتا تھا؟"

  17. انجیل مُقدّس کی اُس آیت کو تحریر کیجئے جو اِس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کیسے خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے اپنی محبت کا اظہار کیا؟

  18. مذہب کی علت غائی اور اِس کی جان کیا ہے اور کس وسیلہ سے یہ حاصل ہو سکتی ہے؟ رومیوں کے نام خط میں سے حوالہ تحریر کیجئے جو آپ کے جواب کی تائید کرتا ہو۔

  19. جب سلطان محمد پال نے اپنی انجمن کے سامنے آخری مرتبہ تقریر کی تو اُس کے بعد اُنہوں نے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر دیا۔ اُن الفاظ کا اقتباس کیجئے جو اُنہوں نے اپنے آپ سے کہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ دعا بھی تحریر کریں جو آپ نے اپنے گھٹنوں کے بل ہو کر مانگی۔

  20. جب سلطان محمد پال نے اپنی زندگی جناب مسیح کے سپرد کر دی تو اُن کے مسلمان دوستوں نے اُن کی زندگی میں کون سی تبدیلیاں دیکھیں؟


The Good Way
P.O.Box 66
        CH - 8486 
        Rikon
        Switzerland