توریت اور اِنجیل کی حقّانیّت

توریت اور اِنجیل کی حقّانیّت

از اسکندر جدید


ا- تعارف

ہزاروں سال پہلے خُدا نے یہودیوں کو موسیٰ کی معرفت حکم دیا: "جِس بات کا میں تُم کو حکم دیتا ہوں اُس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تا کہ تُم خُداوند اپنے خُدا کے احکام کو جو میں تُم کو بتاتا ہوں مان سکو" (استثنا 2:4)۔ یہ حکم اِس کتاب میں دوبارہ دُہرایا گیا ہے: "جِس جِس بات کا میں حکم کرتا ہوں تُم احتیاط کر کے اُس پر عمل کرنا اور تُو اُس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ اُس میں سے کچھ گھٹانا" (اِستثنا 32:12)۔

کئی صدیوں کے بعد سلیمان نے شہادت دی: "خُدا کا ہر ایک سُخن پاک ہے۔ وہ اُن کی سپر ہے جِن کا توکل اُس پر ہے تُو اُس کے کلام میں کچھ نہ بڑھانا۔ مبادا وہ تجھ کو تنبیہ کرے اور تُو جھوٹا ٹھہرے" (امثال 6،5:30)۔

اور پھر کتابِ مقدّس کے آخر میں ہمیں یہ سخت تنبیہ ملتی ہے: "میں ہر ایک آدمی کے آگے جو اِس کتاب کی نبوُّت کی باتیں سُنتا ہے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی اُن میں کچھ بڑھائے تو خُدا اِس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اُس پر نازل کرے گا۔ اور اگر کوئی اِس نبوُّت کی کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے گا تو خُدا اُس زندگی کے درخت اور مقدّس شہر میں سے جِن کا اِس کتاب میں ذِکر ہے اُس کا حصہ نکال ڈالے گا" (مکاشفہ 19،18:22)۔

ایسی سخت تنبیہ کے بعد، کیا خُدا کا کوئی پیرو، اُس کی کتابیں اور اُس کے رسول خُدا کے کلام کو بگاڑنے کی ہمت کر سکتے تھے کہ اُن تمام رُوحانی برکات کو جو خُدا نے اپنے وقف شُدہ لوگوں کےلئے تیار کی ہیں، اور ابدی زندگی اورنجات کے وعدوں کو جو خُدا نے انسانوں سے وعدہ کئے ہیں، اُن میں اپنا حصہ کھو دیں؟ جہاں تک غیرایمانداروں کی بات ہے، اُن کے بس میں یہ نہ تھا کہ اِلٰہی کتابوں میں تحریف کرتے کیونکہ وہ تمام دُنیا میں پھیلے ہوئے ہزاروں نسخوں کو حاصل کرنے کے قابل نہ تھے کہ اُن کو بگاڑ سکتے۔

یہ بدقسمتی ہے کہ آخری دنوں میں لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے اور مسیح کے بے قصور رسولوں پر الزام لگائیں گے کہ جو اِنجیل اُن کے سپُرد کی گئی تھی اُس میں اُنہوں نے تبدیلی کر دی ہے اور یہ نہ صرف بائبل مقدّس کا انکار ہے بلکہ قرآن کا بھی انکار ہے جو رسولوں کی گواہی دیتا ہے جو راستی اور دیانت کے باعث جانے جاتے تھے اور اُنہیں اللہ کے "مددگار" کہہ کر پکارا گیا ہے (سورة المائدة 52:3)۔

بائبل مقدّس کے معتبر ہونے اور اُس کے کسی بھی بگاڑ اور تحریف سے پاک ہونے کے بہت سے ثبوت ہیں جو ہم اگلی سطور میں بیان کریں گے۔

2- بائبل مقدّس کا آغاز اور ترویج

اپنے مقدّس کلام کو فہم و فراست سے ظاہر کرنے میں خُدا نے نہایت احتیاط سے اِس بات کو ممکن بنایا۔ اگر آپ پرانے عہدنامہ کا جائزہ لیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اِلہٰی صحائف خود ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تاریخ کے تین ادوار کے دوران سامنے آئے ہیں۔

پہلا دور: آدم سے موسیٰ تک

کتاب مقدّس جو اِلہامی کتاب ہے ہمیں بتاتی ہے کہ خُدا نے آدم کو ایک حکم دیا اور پھر وہ جانوروں اور پرندوں کو اُس کے پاس لایا کہ دیکھے کہ وہ اُن کے کیا نام رکھتا ہے (پیدایش 2 :15-19)۔ لیکن یہ حوالہ یہ نہیں بتاتا کہ کیسے خُدا نے ابتدا میں انسان کے ساتھ باتیں کیں۔ اِس لئے ہم میں سے اکثر مقدّس تاریخ پر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کےلئے اندازہ لگانے اور تصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اور پیدایش کی کتاب کے ابتدائی ابواب میں درج واقعات کے درمیان ہزاروں سال فرق پایا جاتا ہے۔

ہم وثوق سے تو نہیں کہہ سکتے کہ کب خُدا نے انسانوں کےلئے اپنے مکاشفے کو شروع کیا لیکن بائبل مقدّس کے مشمولات ایک نتیجہ اخذ کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ حنوک جس کا ذِکر پیدایش کی کتاب کے پانچویں باب میں ہے یہوداہ کے خط کے مطابق آدم سے ساتویں پُشت میں ایک نبی تھا۔ بائبل مقدّس بتاتی ہے کہ حنوک خُدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نبی ماضی کے بارے میں کچھ علم رکھتا تھا اور شروع کے بائبلی نسب نامے کے مطابق اُس نے آدم کو دیکھا ہوا تھا اوراُس سے بات بھی کی تھی۔ متوسلح جو حنوک کا بیٹا تھا نوح کے وقت تک جیتا رہا جو اپنے زمانے کے لوگوں میں بے عیب تھا اور خُدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔

بلاشبہ نوح ہی وہ تھا جس نے راستبازی کی منادی کی اور مقدّس پیغام کو طوفان کے بعد بچ جانے والی نسل کو منتقل کیا (2-پطرس 5:2)۔

نوح کا بیٹا سم ابراہام کے وقت تک جیتا رہا (پیدایش 21:10;26،10:11)۔ بائبل مقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ مقدّس پیغام ابرہام تک پہنچا۔ گلتیوں 8:3 میں ہم پڑھتے ہیں: "اور کتاب ِمقدّس نے پیشتر سے یہ جان کر کہ خُدا غیر قوموں کو ایمان سے راستباز ٹھہرائیگا پہلے ہی سے ابراہام کو یہ خوشخبری سُنا دی کہ تیرے باعث سب قومیں برکت پائیں گی۔" یہ آیت ہمیں یقین دلاتی ہے کہ ابرہام ماضی کے واقعات کے بارے میں واضح علم رکھتا تھا اور اپنے وقت پر جو کچھ وہ جانتا تھا اُس نے اپنے بیٹوں کو منتقل کیا۔ پیدایش 19:18 میں ہم پڑھتے ہیں: "کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں اور گھرانے کو جو اُس کے پیچھے رہ جائیں گے وصیت کرے گا کہ وہ خُدا کی راہ میں قائم رہ کر عدل و انصاف کریں تا کہ جو کچھ خُداوند نے ابرہام کے حق میں فرمایا ہے اُسے پُورا کرے۔" اِس آیت سے یہ واضح ہے کہ ابرہام اور موسیٰ کے درمیانی عرصے میں اِس پیغام کی منتقلی کا تسلسل حاصل کرنا مشکل نہ تھا۔

دوسرا دور: موسیٰ کی نسلیں

خروج کی کتاب کے آغاز کے ساتھ ہی مقدّس کتب میں واقعات کی تاریخ خُدا کے موسیٰ کو دیئے جانے والے حکم کے مطابق تفصیل سے درج کی گئی۔ اِس لئے ہم پڑھتے ہیں: "تب خُداوند نے موسیٰ سے کہا اِس بات کی یادگاری کےلئے کتاب میں لکھ دے اور یشوع کو سُنا دے" (خروج 14:17)۔

درحقیقت ہم جانتے ہیں کہ "پھر اُس [موسیٰ] نے عہدنامہ لیا اور لوگوں کو پڑھ کر سُنایا" (خروج 7:24) اور یہ بھی کہ "موسیٰ نے اُن کے سفر کا حال اُن کی منزلوں کے مطابق خُداوند کے حکم سے قلمبند کیا" (گنتی 2:33)۔ ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ "جب موسیٰ اِس شریعت کی باتوں کو ایک کتاب میں لکھ چُکا اور وہ ختم ہو گئیں تو موسیٰ نے لاویوں سے جو خُداوند کے عہد کے صندوق کو اُٹھایا کرتے تھے کہا کہ اِس شریعت کی کتاب کو لے کر خُداوند اپنے خُدا کے عہد کے صندوق کے پاس رکھ دو تا کہ وہ تیرے بر خلاف گواہ رہے" (اِستثنا 26:24)۔

تیسرا دور: یشوع سے ملاکی تک

خُدا نے یشوع سے کہا: "شریعت کی یہ کتاب تیرے مُنہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دِن اور رات اِسی کا دھیان ہو تا کہ جو کچھ اِس میں لکھا ہے اُس سب پر تُو احتیاط کر کے عمل کر سکے (یشوع 8:1)۔ پھر لکھا ہے کہ "اور یشوع نے یہ باتیں خُدا کی شریعت کی کتاب میں لکھ دیں" (یشوع 26:24)۔

"پھر سموئیل نے لوگوں کو حکومت کا طرز بتایا اور اُسے کتاب میں لکھ کر خُداوند کے حضور رکھ دیا" (1۔ سموئیل 25:10)۔

سلاطین کے زمانے کے آخر تک، یوسیاہ کے دور ِسلطنت کے دوران خلقیاہ سردار کاہن کے حکم پر جب سافن منشی نے مقدّس صحائف پڑھے تو ایک بڑی بیداری آئی (2۔ سلاطین 22 :8-13)۔

یسعیاہ نبی نے مقدّس صحائف کی صحت کی تصدیق کرتے ہوئے لوگوں میں منادی کی کہ خُداوند کی کتاب کو ڈھونڈیں اور پڑھیں۔ اُس نے کہا "تُم خُداوند کی کتاب میں ڈھونڈو اور پڑھو۔ اِن میں سے ایک بھی کم نہ ہو گا اور کوئی بے جفت نہ ہو گا کیونکہ میرے مُنہ نے یہی حکم کیا ہے اور اُس کی روح نے اِن کو جمع کیا ہے" (یسعیاہ 16:34)۔

یرمیاہ نبی کو خُدا نے حکم دیا کہ اپنی نبوتوں کو تحریر کرے "کتاب کا ایک طومار لے اور وہ سب کلام جو میں نے اِسرائیل اور یہوداہ اور تمام اقوام کے خلاف تجھ سے کیا ... اُس میں لکھ" (یرمیاہ 2:36)۔

دانی ایل نبی نے مقدّس صحائف کی تصدیق اپنی نبوتی کتاب میں یوں کی "میں دانی ایل نے کتابوں میں اُن برسوں کا حساب سمجھا جِن کی بابت خُداوند کا کلام یرمیاہ نبی پر نازل ہوا کہ یروشلیم کی بربادی پر ستر برس پورے گزریں گے" (دانی ایل 2:9)۔

شاہ فارس ارتخششتا کے دور ِسلطنت میں عزرا اور نحمیاہ دونوں نے اپنے آپ کو موسیٰ کی شریعت کےلئے وقف کیا جو خُداوند خُدا نے اُسے دی تھی "اِس لئے کہ عزرا آمادہ ہو گیا تھا کہ خُداوند کی شریعت کا طالب ہو اور اُس پر عمل کرے" (عزرا 10:7)۔ نحمیاہ کی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں: "سب لوگ یک تن ہو کر پانی پھاٹک کے سامنے کے میدان میں اکھٹے ہوئے ... عزرا کاہن توریت کو جماعت کے یعنی مردوں اور عورتوں اور اُن سب کے سامنے لے کر آیا جو سُن کر سمجھ سکتے تھے اور وہ اُس میں سے پانی پھاٹک کے سامنے کے میدان میں صُبح سے دوپہر تک مردوں اور عورتوں اور سبھوں کے آگے جو سمجھ سکتے تھے پڑھتا رہا" (نحمیاہ 8 :1-3)۔

"پھر خُداوند کا کلام زکریاہ پر نازل ہوا کہ رب الافواج نے یوں فرمایا تھا کہ راستی سے عدالت کرو اور ہر شخص اپنے بھائی پرکرم اور رحم کیا کرے ... لیکن وہ شنوا نہ ہوئے بلکہ اُنہوں نے گردن کشی کی اور اپنے کانوں کو بند کیا تا کہ نہ سُنیں اور اُنہوں نے اپنے دِلوں کو الماس کی مانند سخت کیا تا کہ شریعت اور اُس کلام کو نہ سُنیں جو رب الافواج نے گذشتہ نبیوں پر اپنی رُوح کی معرفت نازل فرمایا تھا" (زکریاہ 7 :8-21)۔

ملاکی نے بھی بائبل مقدّس کا ذکر کیا اور اُسے اِن الفاظ میں 'یادگار کا دفتر' کہا: "تب خُدا ترسوں نے آپس میں گفتگو کی اور خُداوند نے متوجہ ہو کر سُنا اور اُن کےلئے جو خُداوند سے ڈرتے اور اُس کے نام کو یاد رکھتے تھے اُس کے حضور یادگار کا دفتر لکھا گیا" (ملاکی 16:3)۔

مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ خُداوند خُدا نے طویل دورانیے کے دوران کتاب مقدّس کے لکھے جانے کے وقت احتیاط سے نگاہ رکھی اور اپنے مقدّس لوگوں کو تحریک بخشتا رہا کہ وہ انسانیت کی بھلائی کےلئے اپنی نبوتوں اور تعلیمات کو لکھ لیں۔ اور ایسا زندہ خُدا اپنے قوانین کے لکھے جانے کےلئے تحریک دینے کے بعد اُنہیں دیکھتا بھی رہا کہ یہ قوانین اُس کی مرضی اور وعدوں کے مطابق محفوظ ہیں۔

3- تحریک کی گواہی

الف۔ خُدا کی اپنے الفاظ کے دوام ہونے کی شہادت

بائبل مقدّس میں کئی جگہ پر اِس بات کا اعلان کیا گیا ہے اور خُدا کے وعدے ہیں کہ اُس کا کلام کبھی بھی نہیں ٹلے گا یا تبدیل نہیں ہو گا۔ کچھ حوالہ جات ذیل میں دیئے گئے ہیں:

"لیکن میں اپنی شفقت اُس پر سے ہٹا نہ لوں گا اور اپنی وفاداری کو باطل ہونے نہ دُوں گا۔ میں اپنے عہد کو نہ توڑوں گا اور اپنے مُنہ کی بات کو نہ بدلوں گا" (زبور 89 :33-34)۔

"میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کُچھ پُورا نہ ہو جائے" (متی 18:5)۔

"میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہو گی۔ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی" (متی 35،34:24)۔

"کتاب مقدّس کا باطل ہونا ممکن نہیں" (یوحنا 35:10)۔

ب۔ خُدا کی اپنے نبیوں کے بارے میں شہادت

خُدا نے یرمیاہ نبی سے کہا: "تُو اُن کے چہروں کو دیکھ کر نہ ڈر ... دیکھ میں نے اپنا کلام تیرے مُنہ میں ڈال دیا" (یرمیاہ 9،8:1)۔

اُس نے ہوسیع نبی سے کہا: "میں نے تو نبیوں سے کلام کیا اور رویا پر رویا دکھائی اور نبیوں کے وسیلہ سے تشبیہات استعمال کیں" (ہوسیع 10:12)۔

اُس نے یسعیاہ نبی سے کہا: "کیونکہ اُن کے ساتھ میرا عہد یہ ہے۔ خُداوند فرماتا ہے کہ میری رُوح جو تجھ پر ہے اور میری باتیں جو میں نے تیرے مُنہ میں ڈالی ہیں تیرے مُنہ سے اور تیری نسل کے مُنہ سے اور تیری نسل کی نسل کے مُنہ سے اب سے لے کر ابد تک جاتی نہ رہیں گی۔ خُداوند کا یہی ارشاد ہے" (یسعیاہ 21:59)۔

اُس نے حزقی ایل نبی سے اِن الفاظ میں کلام کیا: "اے آدم زاد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کہ میں تُجھ سے باتیں کروں ... میں تُجھے بنی اسرائیل کے پاس یعنی اُس باغی قوم کے پاس جس نے مُجھ سے بغاوت کی ہے بھیجتا ہوں ... اُن سے ہراسان نہ ہو اور اُن کی باتوں سے نہ ڈر ... اُن کی باتوں سے ترسان نہ ہو اور اُن کے چہروں سے نہ گھبرا اگرچہ وہ باغی خاندان ہیں ... اپنا مُنہ کھول اور جو کچھ میں تُجھے دیتا ہوں کھا لے" (حزقی ایل 2 :1-8)۔

اُس نے ملاکی نبی سے اِن الفاظ میں کلام کیا: "اور تُم جان لو گے کہ میں نے تُم کو یہ حکم اِس لئے دیا ہے کہ میرا عہد لاوی کے ساتھ قائم رہے ربُّ الافواج فرماتا ہے۔ اُس کے ساتھ میرا عہد زندگی اور سلامتی کا تھا اور میں نے اُسے زندگی اور سلامتی اِسلئے بخشی کہ وہ ڈرتا رہے چُنانچہ وہ مُجھ سے ڈرا اور میرے نام سے ترسان رہا۔ سچائی کی شریعت اُس کے مُنہ میں تھی اور اُس کے لبوں پر ناراستی نہ پائی گئی" (ملاکی 2 :4-6)۔

اُس نے زکریاہ نبی سے اِن الفاظ میں کلام کیا: "لیکن میرا کلام اور میرے آئین جو میں نے اپنے خدمت گزار نبیوں کو فرمائے تھے کیا وہ تمہارے باپ دادا پر پورے نہیں ہوئے؟ چنانچہ اُنہوں نے رجوع لا کر کہا کہ ربُّ الافواج نے اپنے ارادہ کے مطابق ہماری عادات اور ہمارے اعمال کا بدلہ دیا ہے" (زکریاہ 6:1)۔

4- نبیوں اور رسولوں کی گواہی

خُدا کے نبیوں اور رسولوں نے اِس بات کی گواہی دی کہ خُدا اُن سے ہم کلام ہوا اور اُنہیں تحریک بخشی کہ وہ اپنی نبوتیں اور تعلیمات انسانوں کےلئے ایک ابدی شریعت کے طورپر لکھیں۔ اُن میں سے کچھ کی گواہی ذیل میں دی گئی ہے۔

داؤد نے کہا: "خُدا کی رُوح نے میری معرفت کلام کیا اور اُس کا سُخن میری زبان پر تھا" (2۔ سموئیل 2:23)۔

یسعیاہ نے کہا: "یقیناً لوگ گھاس ہیں۔ ہاں گھاس مرجھاتی ہے۔ پُھول کُملاتا ہے پر ہمارے خُدا کا کلام ابد تک قائم ہے" (یسعیاہ 8،7:40)۔ "تُم خُداوند کی کتاب میں ڈھونڈو اور پڑھو۔ اِن میں سے ایک بھی کم نہ ہوگا اور کوئی بے جُفت نہ ہو گا کیونکہ میرے مُنہ نے یہی حکم کیا ہے اور اُس کی رُوح نے اِن کو جمع کیا ہے" (یسعیاہ 16:34)۔

یرمیاہ نے کہا: "پھر خُداوند کا کلام مُجھ پر نازل ہوا اور اُس نے فرمایا اے یرمیاہ تُو کیا دیکھتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ بادام کے درخت کی ایک شاخ دیکھتا ہوں۔ اور خُداوند نے مجھے فرمایا کہ تُو نے خوب دیکھا کیونکہ میں اپنے کلام کو پُورا کرنے کےلئے بیدار رہتا ہوں" (یرمیاہ 12،11:1)۔

حزقی ایل نے کہا: "اور سات دن کے بعد خُداوند کا کلام مُجھ پر نازل ہوا کہ اے آدمزاد میں نے تُجھے بنی اسرائیل کا نگہبان مقرر کیا۔ پس تُو میرے مُنہ کا کلام سُن اور میری طرف سے اُن کو آگاہ کر دے" (حزقی ایل 17،16:3)۔

خُداوند یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا "کیونکہ بولنے والے تُم نہیں بلکہ تمہارے باپ کا رُوح ہے جو تُم میں بولتا ہے" (متی 20:10)۔

پولُس رسول نے کہا "مگر ہم نے نہ دُنیا کی رُوح بلکہ وہ رُوح پایا جو خُدا کی طرف سے ہے تا کہ اُن باتوں کو جانیں جو خُدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔ اور ہم اُن باتوں کو اُن الفاظ میں نہیں بیان کرتے جو اِنسانی حکمت نے ہم کو سِکھائے ہوں بلکہ اُن الفاظ میں جو رُوح نے سِکھائے ہیں اور رُوحانی باتوں کا رُوحانی باتوں سے مقابلہ کرتے ہیں" (1۔ کرنتھیوں 13،12:2)۔

پطرس رسول نے کہا "کیونکہ تُم فانی تُخم سے نہیں بلکہ غیرفانی سے خُدا کے کلام کے وسیلہ سے جو زندہ اور قائم ہے نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو۔ چنانچہ ہر بشر گھاس کی مانند ہے اور اُس کی ساری شان و شوکت گھاس کے پھول کی مانند۔ گھاس تو سوکھ جاتی ہے اور پھول گر جاتا ہے لیکن خُداوند کا کلام ابد تک قائم رہے گا" (1۔ پطرس 1 :23-25)۔ "کتاب مقدّس کی کسی نبوّت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح القدس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے" (2۔ پطرس 21،20:1)۔

5- روایات یا رسولوں کے جانشینوں کی گواہی

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ مذہبی علما جو رسولوں کے ہمعصر تھے اور جنہوں نے اُن کے فوراً بعد کلیسیا میں خدمت کی، اُنہوں نے اکثر اپنے وعظوں اور تحریروں میں بائبل مقدّس اور خصوصاً اناجیل میں سے اقتباسات کئے ہیں کیونکہ وہ قائل تھے کہ یہ الہامی تھیں اور اِن میں ردوبدل نہیں ہو سکتا تھا۔ اُن میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے:

کرنتھس کا بشپ ڈایونیسیئس جس نے 100ء میں وفات پائی۔

ہرمیس نے جو پولُس کا ہمعصر تھا تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس میں نئے عہدنامہ سے کئی اقتباسات کئے گئے تھے۔

اگنیشیس جو مسیح کے صعود کے تیئیس سال کے بعد انطاکیہ کا بشپ مقرر ہوا۔

پولی کارپ شہید یوحنا رسول کا شاگرد اور سمرنہ کا بشپ تھا۔ وہ 166ء میں شہید ہوا۔

اُس کی صرف ایک تحریر باقی بچی ہے جو کہ ایک خط ہے جس میں چاروں اناجیل سے کثرت سے اقتباسات کئے گئے ہیں۔

اوپر مذکور ناموں کے علاوہ دوسری صدی عیسوی کے بھی کئی کلیسیائی بزرگ ہیں جنہوں نے اپنی تعلیمات میں بائبل مقدّس سے اقتباسات کئے ہیں۔ مثلاً:

پاپیاس 110ء میں فروگیہ کے علاقے ہیراپُلس میں کلیسیا کا بشپ تھا اورانتہائی قابلیت رکھنے والے عالم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وہ پولی کارپ سے مِلا اور بائبل مقدّس کی چھ جلدوں پر مشتمل ایک تفسیر لکھی۔ اُس نے بتایا کہ اُس وقت چاروں اناجیل یونانی زبان میں کلیسیاؤں میں موجود تھیں، اور اِس بات کی گواہی بھی دی کہ مرقس اِنجیل نویس پطرس کے ساتھیوں میں سے ایک تھا اور اُس کی اِنجیل مسیحیوں میں اُس وقت موجود تھی۔

یوسطین شہید 89ء میں پیدا ہوا جو کہ اپنی تبدیلی سے پہلے ایک فلسفی تھا۔ اُس کی سچائی کو جاننے کی تلاش اُسے مسیحیت کی جانب لے آئی۔ اُس مشہور مفکر نے مسیحیت کے دفاع میں کئی کتابیں لکھیں اور اپنے دفاع کی بنیاد چاروں اناجیل پر رکھی۔

اپنی ایک کتاب میں وہ ذکر کرتا ہے کہ اُس نے روم، اسکندریہ اور افسس کی کلیسیاؤں کا دورہ کیا اور یہ قابل ذکر بات دیکھی کہ مسیحی اپنی کلیسیاؤں میں عبادت کے دوران بلند آواز سے اناجیل میں سے تلاوت کرتے تھے۔

ہیگیئس جو یوسطین کے تیس سال بعد کی ایک قابل ذکر شخصیت تھی، اُس کی گواہی کی بھی بہت اہمیت ہے کیونکہ اُس نے فلسطین سے روم تک سفر کیا اور کئی بشپوں سے مِلا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ اُس نے ہر جگہ کے مسیحیوں کو ایک ہی تعلیم دیتے ہوئے پایا جس کی بنیاد شریعت، انبیا کے صحائف اور خُداوند یسوع مسیح پر تھی۔

ایرینیئس یونانی الاصل تھا جس کا تعلق ایشیائے کوچک سے تھا اور 140ء میں پیدا ہوا۔ وہ پولی کارپ کا شاگرد تھا جو خود یوحنا رسول کا شاگرد تھا۔ اُس کی خدمت کا مرکز لیون میں تھا جہاں وہ بونیتیس کے بعد بشپ بنا جسے 771ء میں شہید کر دیا گیا۔ اُس نے ایک خط لکھا جو اناجیل کے اقتباسات سے بھرا ہوا ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے:

"ہمیں کسی اَور ذریعہ سے نجات نہیں ملی سوائے اُس کے کہ جب اِنجیل ہم تک پہنچائی گئی، جس کی اُنہوں نے منادی کی اور بعد میں خُدا کی مرضی سے اُسے تحریر کیا کہ ہمارے ایمان کی بنیاد بنے۔ کیونکہ مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد خُدا نے رسولوں کو رُوح القدس کی قوت عنایت کی اور وہ خوشخبری کے بارے میں ہر بات مکمل طور پر جان گئے۔ وہ اپنے زمانے کے اُن تمام علاقوں میں جن سے وہ واقف تھے لوگوں کے پاس آسمانی فضل کی خوشخبری لے کر گئے۔ اُن میں سے ہر ایک نے خُدا کی خوشخبری (اِنجیل) کی منادی کی۔"

وہ لکھتا ہے "متی نے اپنی انجیل یہودیوں کےلئے لکھی جب پولُس اور پطرس روم میں سلامتی کی خوشخبری کی منادی کر رہے تھے اور کلیسیا قائم کر رہے تھے۔ اُن کے وہاں سے کوچ کرنے کے بعد مرقس نے جو ایک شاگرد اور پطرس کا ساتھی تھا اپنی اِنجیل لکھی جو پطرس کی منادی کا لُبِ لُباب ہے۔ لوقا جو طبیب اور پولُس کا ساتھی تھا، اپنی اِنجیل پولُس کی تعلیمات کی مناسبت سے لکھی۔ آخر میں یوحنا نے جو یسوع کا قریبی شاگرد تھا اپنی اِنجیل اُس وقت لکھی جب وہ افسس میں تھا۔"

یہ مشہور عالم یہ بھی لکھتا ہے: "وہ تعلیمات جو رسولوں نے آگے پہنچائیں تمام دُنیا میں پھیل گئیں۔ اوروہ سب جو سچائی کی تلاش کرتے ہیں یہ دیکھتے ہیں کہ ہر کلیسیا اِن تعلیمات کی حفاظت کرتی ہے اور انہیں مقدّس سمجھتی ہے۔"

اُس نے یہ بھی لکھا: "ہمارے لئے ممکن ہے کہ اُنہیں یاد رکھیں جنہیں رسولوں نے اِن کلیسیاؤں کے قائدین کے طور پر مقرر کیا اور جو اُن کے بعد آج تک آئے، اورہم اِس متصل سند کےلئے شکر گزار ہیں کہ کلیسیا میں ہونے والے واقعات اور سچائی کی تعلیمات جیسا کہ اناجیل کے ذریعے اُن کی منادی کی گئی ہم تک پہنچیں ہیں۔"

ایرینیئس کے 16 سال بعد اسکندریہ کے بشپ کلیمنٹ نے گواہی دی کہ تمام کلیسیائیں چاروں اناجیل پر ایمان رکھتی تھیں۔ اِس انتہائی باریک بین عالم نے اپنی تعلیمات اور تحریروں میں اناجیل کے اقتباسات کئے اور کہا کہ "چاروں اناجیل مستند تھیں۔"

طرطلیان 160ء میں پیدا ہوا اور اُس نے تقریباً 220ء میں وفات پائی۔ اِس عالم نے رسولوں کے بارے میں لکھا: "یوحنا اور متی ہمیں ایمان کے بارے میں سکھاتے ہیں، جبکہ اُن کے ساتھی لوقا اور مرقس اُس ایمان کو تروتازہ کرتے ہیں۔" وہ کلیسیائیں جنہیں پولُس نے کرنتھس، گلتیہ، افسس، فلپی اور تھسلنیکے میں قائم کیا اور وہ کلیسیائیں جو یوحنّا نے قائم کیں اور روم کی کلیسیا جسے پطرس اور پولُس نے قائم کیا اُن کا باری باری تذکرہ کرنے کے بعد اُس نے کہا "چاروں اناجیل شروع ہی سے کلیسیا کے زیر استعمال رہی ہیں۔" اُس نے یہ بھی کہا "ہم مسیحی اکھٹے ہوتے ہیں کہ مقدّس صحائف کا مطالعہ کریں اور اُن کے ذریعے سے اپنے ایمان کی نگہداشت کریں، اپنی اُمید کو مضبوط کریں اور اپنے بھروسے کی تصدیق کریں۔"

اوپر بیان کئے گئے نکات کا نتیجہ یہ ہے کہ:

الف۔ مسیحیت کے راہنما، چاہے وہ رسولوں کے ہمعصر تھے یا اُن کے بعد اُن کے جانشین، سب ممتاز علما مقدّس صحائف میں سے حوالے دیا کرتے تھے اور اپنی روزمرہ کی گفتگو میں اُن میں سے اقتباس کیا کرتے تھے۔

ب۔ مقدّس صحائف پر اُن کا بھروسا اور اُن میں سے اُن کے اقتباسات اُن کی قائلیت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ تمام متنازعہ امور میں حتمی سند رکھتے تھے۔

ج۔ وہ جماعتی عبادت و پرستش کے دوران مقدّس صحائف کو پڑھا کرتے اور اُن کی وضاحت کیا کرتے تھے۔

د۔ اُنہوں نے مقدّس صحائف کی کئی جلدوں پر مشتمل تفسیریں لکھیں اور اُس ہم آہنگی کی تصدیق کی جو اُن انجیلی بیانات میں پائی جاتی تھی جنہیں اِنجیل نویسوں نے رُوح القُدس کی تحریک سے لکھا۔

ہ۔ شروع سے تمام مسیحی چاہے اُن کا تعلق کسی بھی قوم سے کیوں نہ ہو مقدّس صحائف پر ایمان رکھتے تھے۔

6- قدیم نسخوں کی گواہی

وہ گراں قدر چیزیں جو مسیحیوں کے پاس محفوظ ہیں اُن میں قدیم نسخہ جات بھی ہیں جن کا تعلق اسلام سے بھی بہت عرصے پہلے سے ہے۔ مثلاً:

نسخہءاسکندریہ: اِس کا نام اُس شہر پر رکھا گیا جہاں یہ لکھا گیا۔ یہ تین نسخوں میں پہلا درجہ رکھتا ہے۔ اِسے سرل لوکار نے جو استنبول کا کلیسیائی راہنما (patriarch) تھا 1628ء میں انگلینڈ کے بادشاہ چارلس اوّل کو پیش کیا۔ سرل اِسے اپنے ساتھ اسکندریہ سے لایا تھا جہاں وہ پہلے کلیسیائی راہنما (patriarch) تھا۔ یہ یونانی زبان میں لکھا گیا ہے اور اِس میں بائبل مقدّس کی تمام کتب شامل ہیں جو نئے عہد نامے اور پرانے عہد نامے میں پائی جاتی ہیں۔ پہلے صفحے کے حاشیے پر لکھا ہوا ایک نوٹ اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اِسے ایک معزز مصری خاتون بنام تقلا نے 325ء میں نقل کیا۔ سرل نے حاشیے میں لکھے ہوئے اِس نوٹ پر اپنے ہاتھ سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تاریخ اُسکی رائے میں درست ہے۔ یہ نسخہ رَق کے طومار پر سادہ معیاری تحریر میں لکھا گیا، اِس کا ہر ورق دو کالموں میں منقسم ہے اور ہر کالم میں پچاس لائنیں ہیں۔ یہ اب برٹش میوزیم لندن میں موجود ہے۔

نسخہءویٹیکن: اِسے یہ نام اِس لئے دیا گیا ہے کہ یہ ویٹیکن کی لائبریری میں رکھا ہوا ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت رَق کے طومار پر چھوٹی سادہ معیاری تحریر میں لکھا ہوا ہے۔ ہرصفحے پر تین کالم ہیں جن میں سے ہر ایک بیالیس لائنوں پر مشتمل ہے۔ اِس نسخے میں بائبل مقدّس کی تمام کتابیں یونانی زبان میں موجود ہیں۔ علما اِس بات کے قائل ہیں کہ یہ تقریباً 300ء میں لکھا گیا تھا۔

نسخہءسینا: قدامت میں یہ نسخہ ویٹیکن نسخے کے برابر ہے اور غالباً اُس سے بھی قدیم ہے۔ متون کے موازنہ میں یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اِسے سینا کا نسخہ اِس لئے کہتے ہیں کہ اِسے جرمن عالم تشندورف نے کوہِ سینا پر سینٹ کیتھرین کی خانقاہ سے 1844ء میں دریافت کیا۔ یہ چمڑے کے اوپر بڑی سادہ معیاری تحریر میں لکھا ہوا ہے جس کے ہر صفحے پر چار کالم ہیں اور قدیم ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ تشندورف نے اِسے روس کے سار الیگزینڈر کو پیش کیا اور یہ روس میں بالشیوک انقلاب تک رہا جب اِسے لندن میں برٹش میوزیم کو بیچ دیا گیا جہاں یہ آج بھی محفوظ ہے۔

نسخہءافرائیمی: یہ نسخہ پیرس کی نیشنل لائبریری میں محفوظ ہے اور اِس میں بائبل مقدّس کی تمام کتابیں یونانی زبان میں موجود ہیں۔ یہ چمڑے کے اوپر عمدہ تحریر میں لکھا ہوا ہے جس میں وقفے یا حرکات نہیں ہیں۔ ہر صفحے کا پہلا حرف باقی حروف سے بڑا ہے۔ یہ غالباً 450ء کے قریب لکھا گیا۔

یہ قدیم نسخے اِس دعوے کاجواب ہیں کہ مقدّس صحائف تحریف شدہ ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ وہ معتبر ہیں کیونکہ وہ قرآن سے بھی پہلے لکھے گئے تھے۔ غرض آج ہمارے ہاتھوں میں موجود نقول کسی بھی طرح سے قدیم نقول سے مختلف نہیں ہیں۔

7- قدیم طوماروں کی گواہی

الف۔ قمران کے طومار: 1947ء میں فلسطین میں قمران کے غاروں سے ملنے والی چیزوں میں یسعیاہ نبی کی کتاب کا ایک مکمل نسخہ بھی شامل تھا جو چمڑے کے ایک طومار کے اوپر عبرانی زبان میں لکھا ہوا تھا۔ اِس کی تحریر اور ذخیرہ الفاظ نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ دوسری صدی قبل مسیح میں لکھا گیا۔ وہ علما جنہوں نے اُس کا جائزہ لیا ہمیں بتاتے ہیں کہ اِس کا متن اُس تحریر سے مختلف نہیں جو آج ہمارے پاس ہے۔

قمران کے غاروں سے احبار، ایوب، زبور اور حبقّوق کی کتابوں کی نقل بھی ملی ہے جن کا متن بالکل ویسا ہی ہے جو آج ہمارے پاس ہے۔ اِن تحریروں کے ساتھ پرانے عہدنامے کی کتابوں کی ایک فہرست بھی ملی ہے جس میں اب موجود تمام کتابوں کے نام موجود ہیں سوائے آستر کی کتاب کے۔

ب۔ ارسینوی کے طومار: 1877ء میں قاہرہ کے جنوب میں ارسینوی کے مقام پر پپائرس پر لکھی ہوئی دستاویزات بڑے پیمانے پر دریافت ہوئیں جو ریت میں دفن تھیں، اُن میں ایک نقل یوحنا کی اِنجیل کی تھی جو آج ہمارے ہاتھوں میں موجود اِنجیل سے بالکل بھی مختلف نہیں ہے۔

ج۔ سینا کے طومار: حال ہی میں سینا میں سینٹ کیتھرین کی خانقاہ سے سُریانی زبان میں لکھی ہوئی چاروں اناجیل کی ایک نقل دریافت ہوئی ہے جس کا تعلق پانچویں صدی عیسوی سے پہلے کے زمانے سے ہے۔ یہ دوسری صدی عیسوی میں مسیحیوں کے کئے گئے ایک ترجمے کی نقل ہے اور اِس کا متن آج موجود چاروں اناجیل سے مختلف نہیں ہے۔

کُھدائیوں اور قدیم طوماروں کی دریافت نے بائبل مقدّس کے معتبر ہو نے کی تصدیق نمایاں طورپر کر دی ہے۔ یہ قابل ذکر بات ہے کہ اِلہٰی کتاب اور تاریخ اتنی زیادہ حد تک مِلتی جُلتی ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ اَور بھی دریافتوں ہوں گی۔ ماہرین کُھدائی کے کام میں سرگرمی سے لگے ہوئے ہیں اور ہر چیز اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ نئے عہدنامے اور اُس کے لکھے جانے کی روایتی تاریخ پر اعتراض کرنے والوں کے پاس اپنے حق میں کہنے کےلئے کچھ نہیں ہے۔ بغیر کسی شک و شبہ کے اِن دریافتوں اور بائبل مقدّس کے متن کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی اِلہٰی وحی کی معتبری اور اُن کی سچائی کے حق میں جنہوں نے اِنہیں لکھا انتہائی مضبوط ثبوت پیش کرتی ہے۔

ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر البرائٹ کہتے ہیں: "قمران کی دریافتوں کی بِنا پر ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ نیا عہدنامہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ یہ اُس وقت تھا جب پہلی بار لکھا گیا تھا اور اِس میں مسیح اور اُس کے شاگردوں کی تعلیمات پائی جاتی ہیں۔ اِس کے لکھے جانے کی تاریخ 25ء سے 80ء کے درمیان کی ہے۔"

8- علم آثارِ قدیمہ کی گواہی

قدیم زمانے سے ہی صحائف ِمقدّسہ دہریوں اور بے ایمانوں کے حملوں کا سامنا کرتا رہا ہے کیونکہ خُدا کا کلام اُن کی سوچوں اور خیالات سے موافقت نہیں رکھتا تھا۔ اُن میں سے بہت سوں نے آثارِ قدیمہ اور کندہ کی ہوئی تحریروں میں صحائف مقدّسہ کے خلاف بہت کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن دریافتوں سے اُنہیں مایوسی ہی ہوئی۔ فلسطین اور مسو پتامیہ سے ماہرین آثارِ قدیمہ کے ہاتھوں دریافت ہونے والی کندہ کی ہوئی تحریروں نے بائبل مقدّس کی اِس حد تک تصدیق کی کہ اُن میں سے بہت سے دہریے ایمان لے آئے کیونکہ دریافت ہونے والی ایسی تحریروں نے بائبلی متون کی صحت کی تصدیق کی۔

ماہرین آثار ِقدیمہ کی یہ ایک عمومی رائے تھی کہ فلسطین میں 540 قبل مسیح سے پہلے لکھے جانے کا رواج نہ تھا جس کا اُن کے نزدیک مطلب یہ تھا کہ موسیٰ اور پرانے عہد نامے کی دیگر شخصیات نے وہ کتابیں خود نہ لکھیں تھیں جو اُن سے منسوب تھی۔ متشکک علما نے اپنی کتابوں اور قدیم تاریخ کی دریافتوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کی بنا پر دعویٰ کیا کہ توریت کے مصنفین نے واقعات اور مشرق وسطیٰ کی ثقافت کی وسعت کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔

تاہم، جدید دریافتوں نے اِن تمام نظریوں کو مکمل طور پر رد کر دیا ہے کیونکہ اِن دریافتوں نے مصر، بابل اور شام کی تہذیبوں سے متعلق مختلف تفاصیل میں کتب ِمقدّسہ کی صحت کی تصدیق کی ہے اور سینحیرب، تگلت پلناصر، نبوکد نضر اور دوسروں کے بارے میں جو کچھ بائبل مقدّس میں لکھا ہے اُس کی بھی تصدیق کی ہے۔

ہم خوش ہیں کہ اِن دریافتوں نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم وہ تختیاں دیکھ سکیں جن پر وہ حروف کندہ ہیں جو موسیٰ، یشوع، یسعیاہ، سموئیل اور دوسروں نے استعمال کئے، اور ہم پُریقین ہیں کہ ابرہام، موسیٰ، ایوب اور نحمیاہ کے وقتوں میں لوگ لکھنے کے عمل سے واقف تھے۔

ہم خوش ہیں کہ مسیح کے الفاظ "پتھر چِلاّ اُٹھیں گے" ہمارے دور میں پُورے ہو گئے ہیں۔ یقیناً وہ اپنے اوپر کندہ کی ہوئی تحریروں کے ذریعے سے جن میں زیادہ تر بائبل مقدّس میں مذکور اہم واقعات درج ہیں، ہم سے ہم کلام ہوئے ہیں۔

۱لف۔ تخلیق کی کہانی

بابلی اور اسوری کندہ کی ہوئی تحریروں میں تخلیق کی کہانی کا ذکر ہے اور جو کچھ بائبل مقدّس میں لکھا ہے صرف چند لفظی فرق کے علاوہ وہ اُس سے متفق ہیں۔ بائبل مقدّس میں لکھا ہے "سو خُدا نے دو بڑے نیّر بنائے۔ ایک نیّر اکبر کہ دِن پر حکم کرے اور ایک نیّر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اُس نے ستاروں کو بھی بنایا" (پیدایش 16:1)۔ بابلی کندہ کی ہوئی تحریر میں لکھا ہے "خُدا نے سحابیہ اور ستارے بنائے۔" بائبل مقدّس بتاتی ہے کہ خُدا نے چوپائے اور رینگنے والے جاندار "اُن کی جنس کے موافق پیدا" کئے (پیدایش 24:1)، اور بابلی تحریر میں لکھا ہے کہ "دیوتاؤں نے یہ جانور پیدا کئے۔" بائبل مقدّس میں لکھا ہے "خُدا نے زمین کی مٹی سے اِنسان کو بنایا" (پیدایش 7:2)، جبکہ بابلی تحریر میں لکھا ہے "دیوتا مردوک نے اِنسان کو گوشت اور ہڈیوں سے بنایا۔"

ب۔ وحدانیتِ خُداوندی اور شرک

بائبل مقدّس بتاتی ہے کہ لوگ گناہ میں گر گئے، زندہ خُدا کا انکار کیا اور کئی خُداؤں کی عبادت کی جبکہ نبی کوشش کرتے رہے کہ وہ اپنی ایسی روِش کو چھوڑ کر واحد خُدا کی عبادت کریں جبکہ متشکک علما نے دعویٰ کیا کہ اِنسان شروع سے کئی خُداؤں کی عبادت کرتا تھا۔ یہ نظریہ بہت سے لوگوں میں پھیلتا گیا مگر پھر ایک ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر ہربرٹ نے جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسوریات کے پروفیسر تھے اُنہوں نے اِسے رد کیا۔ اِس عالم نے کہا کہ سامی اور سومیری مذاہب میں شرک سے پہلے واحد خُدا کی عبادت کی جاتی تھی۔

جدید دریافتوں نے اِس عقیدے کو رد کیا ہے جو بہت سے علمی حلقوں میں عام ہے کہ یہودی مذہب میں واحد خُدا کی عبادت ساتویں اور آٹھویں صدی قبل از مسیح میں نبیوں کی منادی سے پہلے موجود نہ تھی۔ بہت سی تحریریں اِس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ موسیٰ نے عبرانیوں کے کنعان کی سرزمین میں داخل ہونے سے پہلے خُدا کی وحدانیت کی تعلیم دی تھی۔

ج۔ طوفان کی کہانی

علم آثارِ قدیمہ نے ہمیں بابلی تحریروں کی بدولت طوفان کی کہانی فراہم کی ہے جو پیدایش کی کتاب میں درج بیان سے مِلتی جُلتی ہے۔ دونوں تحریریں اِس بات کا ذکر کرتی ہیں کہ طوفان اِلہٰی منصوبے کے تحت آیا اور کہانی کے ہیرو نے دُنیا میں آنے والی تباہی کے بارے میں لوگوں کو متنبہ کیا، اور تنبیہ کرنے کے بعد اُس نے اپنے اور اپنے خاندان کےلئے ایک کشتی بنائی، پھر اُس نے اپنے ساتھ کشتی میں ہر قسم کے جانوروں کے نراور مادہ پر مشتمل جوڑے لئے تا کہ اُن کی نسلیں بچائی جا سکیں۔ جب طوفان ختم ہوا تو کشتی ایک پہاڑ کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی اور ہیرو نے یہ دیکھنے کےلئے پرندے باہر بھیجے کہ دیکھے کہ طوفان ختم ہوا ہے یا نہیں۔ جب طوفان ختم ہو گیا تو اُس نے خُدا کے حضور قربانی پیش کی جس نے اُس کی دُعا کا جواب دیا اور اُسے محفوظ رکھا۔

د۔ کسدیوں کا اُور

مسوپتامیہ میں کُھدائی سے پہلے بائبلی علما اُس ثقافت اور تہذیب کی وسعت کے بارے میں جو وہاں موجود تھی نہیں جانتے تھے۔ لیکن پھر یہ واضح ہو گیا کہ یہ ویران جگہ کسی زمانے میں بہت خوبصورت جگہ تھی جہاں دریا بہتے تھے اور جو قابل ذکر تہذیب یافتہ قوم کا دارالحکومت تھا۔ وہاں ہونے والی کُھدائیوں نے تصدیق کی کہ ماضی قدیم میں سومیری لوگ وہاں بستے تھے جنہوں نے وہاں شاندار تہذیب قائم کی۔ جہاں تک اُن کے مذہب کا تعلق ہے یہ سومیری کئی معبودوں کو مانتے تھے۔ ہر خاندان کا اپنا بت ہوتا تھا جو راخل کے رویے کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ جب اُس نے اپنے شوہر یعقوب کے ساتھ بھاگنے سے پہلے اپنے باپ لابن کے بتوں کو چُرا لیا (پیدایش 31 :27-35)۔

اِن کُھدائیوں سے اِس بات کی بھی تصدیق ہوئی کہ ابرہام بدوؤں کے کسی قبیلے کا راہنما نہیں تھا جو خیموں میں رہتے تھے بلکہ وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جو ایک شاندار تہذیب کی مالک تھی اور حاران میں بستی تھی۔ اور یہ حقیقت مکمل طور پر بائبل مقدّس میں پیدایش 11 :28-31 سے مطابقت رکھتی ہے۔ جب ہم ابرہام کے طویل سفر پرغور کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ایمانداروں کا باپ دوتین، بیت ایل اور سکم سے گزرا اور یہ وہ شہر ہیں جن کا بائبل مقدّس میں ذکر ہے۔ مزید برآں فلسطین میں دریافت ہونے والے کھنڈرات اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جو کچھ بائبل مقدّس اُس علاقے کے بارے میں بتاتی ہے جو بحیرہ مردار کے جنوب میں واقع ہے جہاں ابراہام نے کچھ وقت قیام کیا وہ بالکل سچ ہے۔ یہ علاقہ ابراہام کے ایام میں گنجان آباد تھا۔

ہ۔ یوسف کی کہانی

یوسف اپنے بھائیوں کی ظالمانہ چالاکی کا شکار ہوا۔ اُسے ایک مصری قافلے کے ہاتھ بیچ دیا گیا لیکن چونکہ وہ بے گناہ اور راستباز تھا، خُدا نے سب باتوں میں سے بھلائی پیدا کی۔ اُسے فرعون کی نگاہ میں قبولیت ملی جس نے اُسے ملک مصر کا حاکم (وزیر خزانہ) بنا دیا۔ اِس کہانی کی تصدیق ایک ایسی تختی سے ہوئی ہے جو ایک مشہور مصری کی قبر سے ملی جو یوسف کا ہمعصر تھا۔ ماہرین نے اِس کندہ تحریر سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اُس کے ایام میں ایک انتہائی خوفناک قحط پڑا اور ریاست نے لوگوں میں اناج تقسیم کیا جو فراوانی کے ایام میں وزیر خزانہ نے جمع کیا تھا اور بدلے میں ریاست نے لوگوں کی جائیداد ضبط کی۔ یہ بیان پیدایش 47 :18-22 سے مطابقت رکھتا ہے۔

و۔ مصر میں عبرانیوں کی غلامی

مصر میں تتمس سوئم کے زمانے سے تعلق رکھنے والا ایک کندہ کیا ہوا پتھر ملا ہے جو فرعون کے ایک معبد تعمیر کرنے والے عبرانیوں کو دکھاتا ہے۔ کئی کھنڈرات بھی دریافت ہوئے ہیں جن کی دیواریں موٹائی میں آٹھ فٹ تک ہیں جو سورج کی روشنی میں سکھائے گئے گارا اور بُھس سے بنائے گئے ہیں۔ یہ دریافت خروج 5:7 کی توثیق کرتی ہے۔

ز۔ عبرانیوں کا مصری غلامی سے خروج

1888ء میں تل العمارنہ سے ایک تختی دریافت ہوئی جس میں خطِ میخی میں تحریر لکھی ہوئی تھی کہ فلسطین کے حاکموں نے فرعون کو تختیاں بھیجیں جن میں عبرانی لوگوں کے حملے کی وجہ سے مدد مانگی گئی تھی۔

ح۔ موسیٰ اور شریعت

کچھ علما میں ایک غالب نظریہ یہ تھا کہ شریعت موسیٰ کے زمانے کے بعد آئی۔ لیکن 1884ء میں ڈی مورگن کی قیادت میں کھنڈرات کی کُھدائی نے بائبل مقدّس کے اِس بیان کی تصدیق کی کہ شریعت موسیٰ کی معرفت دی گئی۔ ڈی مورگن نے سوسن کے مقام پر جس کا ذکر آستر کی کتاب میں ہے کئی نسخوں پر مشتمل خزانے کو دریافت کیا۔ یہ نسخے موسیٰ کی شریعت کے بارے میں بائبلی بیان کی تائید کرتے ہیں۔

ط۔ کچھ قدیم نسلوں کے بارے میں بائبل مقدّس کے بیان

راس شمرہ میں جو شام میں لتاقیہ کے شمال میں تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ہے، اوگاریت شہر کے کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں۔ یہ دو ہزار قبل از مسیح میں تعمیر ہوا تھا۔ وہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں تختیاں ملی ہیں جو بائبل مقدّس میں حتیوں، حوّیوں اور فرزّیوں کے بیانات کی تصدیق کرتی ہیں۔

ی۔ حتیوں کے وجود کے بارے میں مصری تختیاں

تاریخ دان عرصے تک حتیوں کے وجود کے بارے میں شکوک کا شکار رہے ہیں جن کے بارے میں بائبل مقدّس پیدایش 20:32 میں بتاتی ہے کہ ابرہام نے اُن سے مکفیلہ کا غار خریدا تھا تا کہ اُس کی بیوی سارہ کے دفن کی جگہ ہو۔ یہ شک اُس وقت تک قائم رہا جب تک کہ اُن کی تواریخ دریافت نہیں ہو گئیں جو قدیم مصری تختیوں پر لکھی ہوئی تھیں۔ اُن میں سے ایک پر 1287 قبل مسیح میں قادس کے مقام پر حتیوں اور رعمسیس دوئم کے درمیان ہونے والی ایک جنگ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔

9- اِسلام کی گواہی

قرآن اِلہٰی صحائف کی صحت و حقانیت کی گواہی دیتا ہے اورجو اِسے پڑھتے ہیں وہ اِس کی سادہ گواہی سے حیران ہو جاتے ہیں جو اِتنی واضح ہے کہ اُس کےلئے کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ اِس گواہی کا بیان کئی سورتوں میں ملتا ہے، مثلاً:

"بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اُسی کے مطابق انبیا جو (خُدا کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں۔ اور مشائخ اور علما بھی کیونکہ وہ کتاب خُدا کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اُس پر گواہ تھے" (سورة المائدة 44:5)۔

"اور اُن پیغمبروں کے بعد اُنہی کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ ابنِ مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور اُن کو اِنجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نُور ہے اور تورات کی جو اُس سے پہلی (کتاب) ہے تصدیق کرتی ہے اور پرہیز گاروں کو راہ بتاتی اور نصیحت کرتی ہے" (سورة المائدة 46:5)۔

"اور ہم نے تُم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اُن (سب) پر شامل ہے تو جو حکم خُدا نے نازل فرمایا ہے اُس کے مطابق اُن کا فیصلہ کرنا" (سورة المائدة 48:5)۔

پہلی آیت توریت کی صحت و حقانیت کی قرآنی گواہی ہے کہ یہ راست ہدایت ہے اور ایسی باتیں ظاہر کرنے کےلئے نور ہے جن کے ذریعے سے نبیوں نے خُدا کی کتاب کے مطابق جیسے اُنہیں دی گئی تھی حکم دینے تھے۔ دوسری آیت میں بیان ہے کہ مسیح نے تورات کی تصدیق کی کہ وہ سچی ہے، اور اُس کی اِنجیل نے جو ہدایت، نور اور نصیحت ہے اُن سب مقدّس کتابوں کی تصدیق کی ہے جو اُس سے پہلے تھیں۔ تیسرے حوالے میں بیان ہے کہ یہ جناب محمد پر نازل کیا گیا جو اپنے سے پہلے صحائف کی تصدیق کرتا ہے، اور وہ اُن کا محافظ تھا اور تاکید یہ کی گئی کہ جو کچھ خُدا نے اُس میں نازل کیا ہے اُس کے مطابق فیصلہ کرنا جو توریت اور اِنجیل کی تائید میں ہو۔

توریت اور اِنجیل کی تائید کرتے ہوئے قرآن اُن کے پیروکاروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ اُن تعلیمات پر قائم رہیں جو اُن میں ہیں اور اِس ضمن میں کہتا ہے:

"کہو کہ اے اہل کتاب! جب تک تُم تورات اور اِنجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تُم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے" (سورة المائدة 68:5)۔

قرآن اِنجیل کے پیروکاروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ اُن احکام پر قائم رہیں جو اُن کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں اور جو اُن احکام کو نظرانداز کرتے ہیں اُنہیں گنہگار کہا گیا ہے۔ لکھا ہے:

"اور اہل اِنجیل کو چاہئے کہ جو احکام خُدا نے اِس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خُدا کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرمان ہیں" (سورة المائدة 47:5)۔

"مومنو! ... جو کتابیں اِس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ۔ اور جو شخص خُدا اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں اور روزِ قیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دُور جا پڑا" (سورة النساء 136:4)۔

مندرجہ بالا سے واضح ہے کہ:

۱لف۔ قرآن اہلِ کتاب کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ توریت اور اِنجیل کے احکام پر قائم رہیں۔ یہ ضمنی طور پر اُن کی صحت و حقانیت کا ایک اعتراف ہے کیونکہ دونوں ایماندار کو راستبازی کی نجات میں مضبوط رکھتے ہیں اور اُن میں نصیحت پائی جاتی ہے۔

ب۔ قرآن تمام ایمانداروں بشمول مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قرآن اور اُس سے پہلے نازل ہونے والی کتاب یعنی توریت اور اِنجیل پر ایمان لائیں۔ یہ مسلمانوں کےلئے واضح دعوت ہے کہ وہ توریت اور اِنجیل کو قبول کریں اور اُن پر ایمان لائیں اور مندرجہ ذیل آیت کے مطابق اُسے قائم رکھیں:

"یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم (شریعت) اور نبوت عطا فرمائی تھی۔ اگر یہ (کفار) اِن باتوں سے انکار کریں تو ہم نے اُن پر (ایمان لانے کےلئے) ایسے لوگ مقرر کر دیئے ہیں کہ وہ اُن سے کبھی انکار کرنیوالے نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خُدا نے ہدایت دی تھی تو تُم اُنہی کی ہدایت کی پیروی کرو" (سورة الانعام 90،89:6)۔

قرآن رُوحانی امور سے متعلق بائبل مقدّس کے اختیار کو تسلیم کرتا ہے کہ جب محمد سے کہتا ہے کہ: "اور یہ تُم سے (اپنے مقدمات) کیونکر فیصل کرائیں گے جبکہ خود اُن کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں خُدا کا حکم (لکھا ہوا) ہے (یہ اِسے جانتے ہیں) پھر اِس کے بعد اِس سے پھر جاتے ہیں اور یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے" (سورة المائدة 43:5)۔ یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ وہ جو بائبل مقدّس کے احکام پر قائم ہیں اُنہیں اپنے فیصلے کرانے کےلئے کسی دوسری کتاب سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں، جبکہ وہ جو اِس اِلہٰی کتاب میں پائی جانے والی سچائی کو جاننے کے بعد اِس سے پھر جاتے ہیں اُنہیں بے ایمان کہا گیا ہے۔

"کہہ دو (اُن سے اے محمد) کہ اگر سچے ہو تو تُم خُدا کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو اِن دونوں (کتابوں) سے بڑھ کر ہدایت کرنیوالی ہو۔ تا کہ میں بھی اُسی کی پیروی کروں" (سورة القصص 49:28)۔ یہ آیت جناب محمد کی راہنمائی کرتی ہے کہ اُن سے کیا کہا جائے کہ جنہوں نے پہلے موسیٰ کے پیغام کو رد کیا تھا اور جو اُس کے پیغام کو یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ خُدا کے پاس سے بائبل اور قرآن کے علاوہ کوئی اَور کتاب لے کر آؤ جو بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔

"اور ہم نے تُم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تُم لوگ نہیں جانتے تو اہلِ کتاب (اَھلَ الذِّکرِ) سے پُوچھ لو" (سورة النحل 43:16)۔

تفسیر الجلالین میں لکھا ہے کہ: "اَھلَ الذِّکرِ وہ ہیں جو توریت اور اِنجیل کے عالم ہیں۔ اور اگر آپ اُن (کتابوں) سے واقف نہیں ہیں تو وہ اُن سے واقف ہیں اور آپ کو چاہئے کہ محمد پر ایمان لانے والوں سے زیادہ اُن کا یقین کریں" (تفسیر الجلالین، صفحہ نمبر 357)۔

درحقیقت یہ آیت ایک واضح گواہی ہے کہ خُدا کے رسول اور نبی جنہوں نے اِس "ذِکر" کو تحریر کیا، رُوح القُدس کی تحریک سے ایسا کیا۔ دوسری آیات جن کا ہم نے اقتباس کیا اُن کے ساتھ ساتھ یہ آیت تائید کرتی ہے کہ قرآن بائبل مقدّس کو ہدایت، نور، ذِکر، خُدا کا حکم اور اُس کی وحی سمجھتا ہے۔ خُدا نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جو وہ نہیں جانتے اُن کے بارے میں ہم سے پوچھیں۔ کیا یہ قرآن سے واضح اعتراف نہیں ہے کہ ہمارے مقدّس صحائف معتبر ہیں اور اُن میں تحریف نہیں ہوئی؟

وہ مسیح کے رسولوں کی بائبل مقدّس اور اُس کے اِلہام کے معتبر ہونے کی گواہی سے متفق ہیں۔ خُدا کی خدمت میں سرگرم پولُس رسول نے لکھا "ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کےلئے فائدہ مند بھی ہے تا کہ مردِ خُدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کےلئے بالکل تیار ہو جائے" (2۔ تیمتھیس 17،16:3)۔

اِسی وجہ سے مسیحی پرانے عہد نامے کو قبول کرتے ہیں جو 400 قبل مسیح میں مکمل ہوا۔ یہودیوں نے اِسے تین حصوں میں تقسیم کیا:

الف۔ توریت پانچ کتابوں پر مشتمل ہے جو موسیٰ نے لکھیں یعنی پیدایش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا۔ اِسے شروع ہی سے معتبر، محترم اور مقدّس مانا جاتا تھا کیونکہ اِس میں خُدا کے دس احکام اور اِنسانوں کےلئے اُس کے وعدے پائے جاتے ہیں۔

ب۔ نبیوں کے صحائف جو دو حصوں میں منقسم ہیں: اوّل یشوع، قضاة، سموئیل اور سلاطین کی کتب۔ دوم یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، ہوسیع، یوایل، عاموس، عبدیاہ، یوناہ، میکاہ، ناحوم، حبقوق، صفنیاہ، حجی، زکریاہ اور ملاکی کی کتب۔

ج۔ کتابیں جن میں زبور، امثال، ایوب، دانی ایل، عزرا، نحمیاہ، تواریخ، غزل الغزلات، روت، نوحہ، واعظ اور آستر کی کتب شامل ہیں۔

نئے عہد نامے کی کتابوں کی بابت علما متفق ہیں کہ یہ مسیح کے مختلف پیروکاروں نے لکھیں یا ترتیب دیں جنہوں نے اُسے سُنا اور دیکھا تھا اور اُس وقت تک زندہ تھے۔ نئے عہد نامہ میں چار اناجیل، رسولوں کے اعمال، پولُس کے خطوط، پطرس کے خطوط، یعقوب، یوحنا اور یہوداہ کے خطوط اور مکاشفہ کی کتاب شامل ہے۔

یہ بائبل مقدّس کے مشمولات کا خلاصہ ہے جو خُدا کے مقدّسوں کے وسیلے اُس کا اِلہام ہے۔ خُدا نے اِس کی بہت احتیاط کے ساتھ حفاظت کی ہے۔ اُس نے وفادار آدمیوں کو چُنا کہ اُس کے مکاشفوں کو تحریر کریں اور اِسی طرح دُنیا کی زبانوں میں اُن کا ترجمہ کریں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ آج چودہ سو زبانوں اور بولیوں میں اِس کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ خُدا نے اپنے کلام پر نگاہ رکھی اور اُس کی ابد تک حفاظت کرتا ہے۔

یقیناً قومیں آتی جاتی رہیں گی، زبانیں موقوف ہو جائیں گی اور دُنیا بدل جائے گی لیکن قیمتی بائبل مقدّس ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ اِس میں ہر زمانے اور ہر جگہ کے مرد و عورت غرض تمام اِنسانوں کےلئے خُدا کا پیغام پایا جاتا ہے; میرا مطلب یسوع مسیح کے وسیلے سے نجات کا پیغام ہے جو سب کےلئے ہے چاہے وہ سفید ہوں یا کالے یا کسی بھی زبان و نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ اِس اِلٰہی کتاب میں زندگی بخش قوت ہے جو اُن سب کو ملتی ہے جو یسوع مسیح کو ایمان سے نجات دہندہ قبول کرتے ہیں اور خُدا کے فرزند بن جاتے ہیں۔

10- ایک ناگزیر سوال

مندرجہ بالا نکات کا احاطہ کرنے کے بعد ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ بائبل مقدّس تحریف شدہ ہے اور اِس ضمن میں سائنسی اور تاریخی دلائل پیش کرتے ہیں اُن سے پوچھیں کہ کب یہ تحریف واقع ہوئی؟

اگر وہ کہیں کہ یہ مسیح سے پہلے واقع ہوئی تو ہم اُن سے یہ کہتے ہیں کہ مسیح نے تو خود اِن مقدّس صحائف کی صحت کی تصدیق کی ہے۔ مثلاً:

الف۔ اُن نبوتوں کا اقتباس کیا جن میں اُن کا ذکر موجود تھا۔ اِس کی ایک مثال یسعیاہ نبی کی نبوت ہے جس کا اقتباس مسیح نے ناصرت کے ایک عبادت خانے میں کیا جس میں لکھا ہے "خُداوند خُدا کی رُوح مجھ پر ہے کیونکہ اُس نے مجھے مسح کیا تا کہ حلیموں کو خوشخبری سناؤں۔ اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دِلوں کو تسلّی دوں۔ قیدیوں کےلئے رہائی اور اسیروں کےلئے آزادی کا اعلان کروں تا کہ خُداوند کے سالِ مقبول کا اور اپنے خُدا کے انتقام کے روز کا اِشتہار دوں اور سب غمگینوں کو دلاسا دوں" (یسعیاہ2،1:61)۔ لوقا اِنجیل نویس ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ جب مسیح نے اِس نبوّت کو پڑھا جس میں اُس کا ذِکر تھا تو اُس نے سننے والوں کو بتایا "آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پُورا ہوا" (لوقا 12:4)۔

ب۔ یہودیوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ کتابِ مقدّس کو پڑھیں اوراُسے سمجھیں "تُم کتابِ مقدّس میں ڈھونڈتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے" (یوحنا 39:5)۔

ج۔ صدوقیوں کو سرزنش کی کہ وہ کتابِ مقدّس سے واقف نہیں "کیا تُم اِس سبب سے گمراہ نہیں ہو کہ نہ کتابِ مقدّس کو جانتے ہو نہ خُدا کی قدرت کو؟" (مرقس 24:12)۔

د۔ ابلیس کی آزمائشوں کے مقابلے میں صحائف مقدّسہ کو ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کیا۔ ہم پڑھتے ہیں کہ یردن کے بیابان میں مسیح نے بائبل مقدّس کی آیات کا اقتباس کرنے سے ابلیس کی آزمائشوں کو شکست دی۔ پہلی آزمائش کے جواب میں آپ نے کہا "اِنسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا بلکہ ہر بات سے جو خُداوند کے مُنہ سے نکلتی ہے" (اِستثنا 3:8)۔ دوسری آزمائش کے جواب میں کہا "تُم خُداوند اپنے خُدا کو مت آزمانا" (اِستثنا 16:6)۔ جبکہ تیسری آزمائش کا مقابلہ یہ کہہ کر کیا "تُو خُداوند اپنے خُدا کا خوف ماننا اور اُسی کی عبادت کرنا" (اِستثنا 13:6)۔

مسیح کے رسولوں نے اپنی تحریروں کی تائید میں پرانے عہد نامے کے حوالوں کا اقتباس کرنے سے اپنے خُداوند کی مثال کی پیروی کی۔ مثلاً یہوداہ اسکریوتی کی موت کا ذِکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ "اُس کا گھر اُجڑ جائے اور اُس میں کوئی بسنے والا نہ رہے اور اُس کا عہد ہ دوسرا لے لے" (اعمال 20:1 اور زبور 8:109)۔

جب اُنہوں نے عید پنتِکُست کے دِن رُوح القُدس کے بارے میں بات کی تو وضاحت کی کہ "یہ وہ بات ہے جو یوئیل نبی کی معرفت کہی گئی ہے کہ خُدا فرماتا ہے کہ آخری دِنوں میں ایسا ہو گا کہ میں اپنے رُوح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوّت کریں گی اور تمہارے جوان رویا اور تمہارے بُڈھے خواب دیکھیں گے، بلکہ میں اپنے بندوں اور اپنی بندیوں پر بھی اُن دِنوں میں اپنے رُوح میں سے ڈالوں گا اور وہ نبوّت کریں گی" (اعمال 18،16:2 اور یوایل 29،28:2)۔

کیا یہ ممکن ہے کہ مسیح اور اُس کے رسول اپنے رسول ہونے کی اور اپنی تعلیمات کی تصدیق تحریف شدہ صحائف سے کرتے اور پھر لوگوں کی تلقین کرتے کہ وہ اُنہیں پڑھیں اور اُن کے احکام پر عمل پیرا ہوں؟ کون یہ کہہ سکتا ہے کہ مسیح اور اُس کے رسول تحریف سے واقف نہ تھے اور اپنی لاعلمی میں اُنہوں نے اِن سے اقتباسات کئے؟ اگر کسی بھی عقیدے کا ماننے والا ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کرے تو وہ یقیناً رسولوں اور نبیوں کی وحی کی صحت کا انکار کرتا ہے اور دراصل خُدا پر الزام لگاتا ہے کہ اُس نے اپنے صحائف کی حفاظت کرنے میں کوتاہی برتی۔

مزید برآں ایسا اعتبار نہ کرنے کا دعویٰ قرآن پر بھی الزام ہے کیونکہ اِس میں بہت سی ایسی آیات پائی جاتی ہیں جو صحائف مقدّسہ کی صحت کی تصدیق کرتی ہیں۔

لیکن اگر وہ جو بائبل مقدّس میں تحریف کا دعویٰ کرتے ہیں، کہیں کہ یہ یہودی تھے جنہوں نے مسیح کے زمانے کے بعد پرانے عہد نامے کے متن کو تبدیل کر دیا تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ناممکن ہے۔ پرانے عہد نامہ کی تمام کتابیں مسیحیوں کے ہاتھوں میں تھیں اور اگر یہودی کبھی ایسا کرتے تو مسیحی اُن کے منصوبے کو عیاں کر دیتے۔

وہ جو تحریف کا دعویٰ کرتے ہیں اگر وہ کہیں کہ مسیحیوں نے بائبل مقدّس میں تحریف کی ہے تو ہمارا جواب یہ ہے کہ ایسی کوشش بھی ممکن نہ تھی اور اگر بالفرض اُنہوں نےتحریف کی بھی تو کیا مسیحیوں کے خلاف یہودی اُٹھ نہ کھڑے ہوتے؟

اور اگر تحریف کا دعویٰ کرنے والے کہیں کہ یہودیوں اور مسیحیوں دونوں نے باطل منصوبہ باندھا اور بائبل مقدّس میں تحریف کرنے کےلئے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے تو ایسا کہنے والے کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ یہودی جو شروع ہی سے مسیحیت کے مخالف تھے اور جنہوں نے مسیح کے آنے کا انکار کیا تھا کبھی بھی مسیحیوں کے ساتھ ایکا نہ کر سکتے تھے۔

اگر فرض کیا جائے کہ ایسا ناممکن کام ہوا تھا تو کیا یہودی اِس بات پرضد نہ کرتے کہ اُن تمام حوالوں کو نکال باہر کریں جن میں مسیح کی تمجید کی گئی ہے یا جو اُس کی الوہیت کے بارے میں بتاتے ہیں اور وہ تمام نبوتیں بھی جن میں اُس کے تجسم، معجزانہ پیدایش، دکھوں، موت اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا ذِکر ہے؟ چونکہ ایسے تمام حوالہ جات بائبل مقدّس میں اب بھی موجود ہیں اِس لئے ایسا ہر دعویٰ غلط ہے۔

ایک اَور حقیقت بھی ہے جس سے تحریف کا الزام لگانے والے آنکھیں نہیں چُرا سکتے۔ مسیحیت کے آغاز سے ہی پرانے عہد نامے کی کتابیں یہودیوں اور مسیحیوں کے درمیان اُنہی زبانوں میں موجود ہیں جن میں خُدا کے مقدّس لوگوں نے اُنہیں لکھا تھا۔ جب علما نے دونوں کے ہاں موجود نقول کا محتاط موازنہ کیا تو پتا چلا کہ وہ مکمل طور پر یکساں ہیں۔

مزید برآں، جو تحریف کا دعویٰ کرتے ہیں اُن سے ہم پُوچھتے ہیں کہ اِنجیل میں ایسی تحریف کب ہوئی تھی؟ کیا یہ قرآن سے پہلے ہوئی یا بعد میں؟ اگر وہ کہیں کہ قرآن سے پہلے تو قرآن اُنہیں شش و پنچ میں ڈال دیتا ہے کیونکہ اِس میں جناب محمد کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی طرح کے شکوک دور کرنے کےلئے اُنسے مدد لیں جو بائبل مقدّس کو پڑھتے ہیں "اگر تُم کو اِس (کتاب کے) بارے میں جو ہم نے تُم پر نازل کی ہے کچھ شک ہو تو جو لوگ تُم سے پہلے کی (اُتری ہوئی) کتابیں پڑھتے ہیں اُن سے پوچھ لو" (سورة یونس 94:10)۔

چونکہ خُدا ہر چیز کا علم رکھتا ہے اِس لئے یہ اُس کی خُداوندیت کے لائق نہیں کہ محمد عربی کو شکوک دور کرنے کےلئے اُن کے پاس بھیجتا جو ایک تحریف شدہ کتاب رکھتے تھے۔

بائبل مقدّس کے معتبر ہونے کی گواہی دیتے ہوئے قرآن یہ بھی کہتا ہے "اور (اے پیغمبر) ہم نے تُم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اُن (سب) پر شامل ہے" (سورة المائدة 48:5)۔ 'اُن پر شامل ہے' کا مفہوم یہ ہے کہ خُدا تعالیٰ کی کتابوں اور اُن کے اِلہٰی قوانین اور سچائیوں کی محافظ ہے۔

اگر وہ تحریف جس کا الزام لگایا جاتا ہے قرآن کے بعد ہوئی تو جو بھی تحریف کا الزام لگاتا ہے وہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ قرآن حفاظت کرنے کے کام میں ناکام رہا۔ دوسرے لفظوں میں اگر توریت اور اِنجیل میں قرآن کے بعد تحریف ہوئی تو ایسا دعویٰ قرآن کے پیروکاروں کا واضح الزام ہے کہ وہ انتہائی اہم فرض جو قرآن کے سپرد کیا گیا اُس میں غفلت ہوئی ہے۔ جب توریت اور اِنجیل میں تحریف ہوئی اُس سے پہلے لازم تھا کہ وہ اُن کی کچھ نقول سنبھال کر رکھتے کیونکہ محافظ ہونے کےلئے ضروری ہے کہ جس چیز کی حفاظت کی جا رہی ہے اُس کا وجود بھی ہو۔

مسیحیوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ جب اُنہوں نے توریت میں اپنے خُداوند مسیح کے بارے میں نبوّتیں دیکھیں تو اُنہوں نے اپنے آپ کو اُن کا محافظ بنا لیا اور دنیا میں اُن کی منادی کرنے کےلئے خوب کاوشیں کیں یہاں تک کہ آج اُن کے تراجم 1400 زبانوں میں موجود ہیں۔ مسلمانوں نے جب دیکھ کر یقین کیا کہ توریت اور اِنجیل میں جناب محمد کے بارے میں نبوّتیں اور ثبوت موجود ہیں تو کیوں اُنہوں نے ایسا نہ کیا؟

ذیل میں چند قرآنی آیات درج ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ خُدا کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا:

"بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم ہی نے اُتاری ہے اور ہم ہی اُس کے نگہبان ہیں" (سورة الحجر 9:15)۔

"اور خُدا کی باتوں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں" (سورة الانعام 34:6)۔

"خُدا کی باتیں بدلتی نہیں" (سورة یونس 64:10)۔

"(یہی) خُدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور خُدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے" (سورة الفتح 23:48)۔

"اور تمہارے پرودگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پُوری ہیں اُس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہ سُنتا اور جانتا ہے" (سورة الانعام 115:6)۔

"اور اپنے پروردگار کی کتاب کو جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اُس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اُس کے سوا تُم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے" (سورة الکھف 27:18)۔

اوپر درج آیات میں خُدا کا وعدہ پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی اُس کے کلام کو بدل نہیں سکتا کیونکہ اُسی نے اُسے نازل کیا اور وہی اُس کا محافظ ہے۔

اِن سب باتوں کا احاطہ کرنے کے بعد ہم یہ سوال کرنا ضروری سمجھتے ہیں: اگر مسلمانوں کا ایک گروہ جو ہر معاملے میں قرآن کی پیروی کرتا ہو، اہلِ کتاب کے پاس کسی الٰہیاتی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کےلئے جانا چاہے اور راہ میں ایک ایسے گروہ سے ملے جو تحریف کا الزام لگاتا ہے اور اُن سے کہے "جیسا کہ قرآن ہمیں تلقین کرتا ہے ہم اہلِ کتاب کے پاس جا رہے ہیں تا کہ اُن سے کچھ باتوں کے بارے میں پُوچھ سکیں"، تو کیا وہ جو تحریف کا دعویٰ کرتے ہیں اُن سے کہنے کی جرأت کریں گے "اُن کے پاس مت جاؤ کیونکہ اُن کی کتاب میں تحریف ہو گئی ہے؟ اور اگر وہ ایسا کہنے کی جرأت کریں تو اُس پہلے گروہ کا کیا جواب ہو گا؟ کیا وہ اُن کا یقین کریں گے جو تحریف کا دعویٰ کرتے ہیں یا قرآن کا یقین کریں گے جو کہتا ہے کہ "کچھ شک ہو تو جو لوگ تُم سے پہلے کی (اُتری ہوئی) کتابیں پڑھتے ہیں اُن سے پوچھ لو؟

یہ سوال ایک اَور سوال کی طرف ہماری راہنمائی کرتا ہے: اگر متشکک لوگوں نے توریت اور اِنجیل میں تحریف کا نظریہ اُن تک پہنچایا ہے اور وہی الزام قرآن پر بھی لگاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تحریف شدہ ہے تو اُن کے تحریف کے نظریے کو ماننے والے کیا کہیں گے؟ وہ اِس حقیقت کو مسترد کرنے کے بعد کہ خُدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی مقدّس کتابوں کی ہر طرح کی آمیزش اور تحریف سے حفاظت کرتا ہے، کیا جواب دیں گے؟

ایک تیسرا سوال بھی ہے: ایک اوسط درجے کا مسلمان جو تحریف کا الزام لگانے والوں کے دعویٰ کو قبول کرتا ہے قرآن کے مندرجہ ذیل الفاظ کو پڑھ کر اُسے کس قسم کے رویے کا اظہار کرنا چاہئے؟

" الٓمٓ۔ یہ کتاب (قرآن مجید) اِس میں کچھ شک نہیں (کہ کلام خُدا ہے خُدا سے) ڈرنے والوں کی راہنما ہے۔ جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے اُن کو عطا فرمایا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اورجو کتاب (اے محمد) تُم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تُم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں" (سورة البقرة 1:2-5)۔

"(مسلمانو) کہو کہ ہم خُدا پر ایمان لائے جو (کتاب) ہم پر اُتری اُس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسٰحق اور یعقوب اور اُن کی اولاد پر نازل ہوئے اُن پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسٰی کو عطا ہوئیں اُن پر اور جو اَور پیغمبروں کو اُن کے پروردگار کی طرف سے ملیں اُن پر (سب پر ایمان لائے) ہم اُن پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اُسی (خُدائے واحد) کے فرمانبردار ہیں" (سورة البقرة 136:2)۔

اگر پہلے کی اُتری ہوئی کتابوں میں تحریف ہوئی ہے اور وہ بدل گئی ہیں تو کیسے قرآن اُنہیں جو اُس کی تعلیمات پر ایمان لائے ہیں حکم دے سکتا ہے کہ اُنہیں قرآن اور دیگر پیغمبروں کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں کرنا؟ کیا تحریف کا ایسا دعویٰ خُدا کی راستبازی، اُس کی سچائی اور وقار پر ایک الزام نہیں ہو گا؟

تاریخ کی سچائی کو لیجئے۔ و ہ سب جنہوں نے تاریخ پڑھی ہے جانتے ہیں کہ مسیحیوں نے رسولی دور سے چوتھی صدی عیسوی کے شروع تک یہودیوں اور غیریہودیوں دونوں کے ہاتھوں ایذا رسانی اور تشدد کا سامنا کیا اور اُسے برداشت سے سہا جس سے تمام دُنیا اور خا ص طور پر اُنہیں دُکھ پہنچانے والے حیران ہو گئے۔ یہ برداشت اِنجیل مقدّس پر اُن کے ایمان اور اُس کے اِلٰہی اصولوں کے ساتھ اُن کی وابستگی کا نتیجہ تھی۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ خوشی خوشی شہید ہوئے کیونکہ وہ مسیح سے محبت رکھتے تھے اور اُس کے اِس حکم کے تابع رہے کہ موت تک وفادار رہیں۔ اُن میں سے بہت سوں کو انتہائی سخت قسم کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اُنہوں نے مسیح کا انکار کرنے اور اُس کی اِنجیل کو رد کرنے سے انکار کر دیا اور دنیا کی عارضی خوشیوں کے مقابلے میں کسی بھی طرح کی موت کو قبول کرنے کو ترجیح دی۔

مسیحیت کی تاریخ کا جائزہ لے لیجئے، آپ گواہوں کی ایک کثیر تعداد کے بارے میں پڑھیں گے جنہوں نے تشدد تو برداشت کیا لیکن کسی طرح کا سمجھوتا کر کے جان نہ چھڑائی کیونکہ اُن کی نگاہیں مستقبل کی جلالی قیامت پر تھیں۔ کیا کوئی مان سکتا ہے کہ مسیحی جنہوں نے اتنی بڑی قربانیاں دیں اور اِنجیل کے اصولوں کی خاطر دُکھ برداشت کئے اِنجیل مقدّ س میں تحریف کرنے کی ہمت کر سکتے تھے؟

کیا مسیحی کسی دوسر ے کو، چاہے اُس کا کوئی بھی عہدہ ہوتا، خُدا کے کلام اِنجیل مقدّس کے کسی ایک لفظ کو بھی بدل دینے کی اجازت دے سکتے تھے جبکہ اُن کے پاس یہ رسولی حکم تھا "لیکن اگر ہم یا آسمان کا کوئی فرشتہ بھی اُس خوشخبری کے سوا جو ہم نے تمہیں سُنائی کوئی اَور خوشخبری تمہیں سُنائے تو ملعون ہو" (گلتیوں 8:1)۔

میں اُس فرد سے جو تحریف کا دعویٰ کرتا ہو پوچھنا چاہوں گا کہ بائبل مقدّس میں تحریف کرنے کےلئے مسیحیوں کے پاس کیا محرک تھا؟ کیا یہ اُن کےلئے ابدی زندگی سے بڑھ کر اہمیت کا حامل تھا؟ اُنہوں نے اپنے خُداوند اور نجات دہندہ کی پورے دل سے اور ہر اُس چیز سے جو اُن کے نزدیک قیمتی تھی اُس کی پرستش کی اور اُس کےلئے اپنا خون تک بہانے سے دریغ نہ کیا، اور اُس نے اپنے وفادار رسول یوحنا کی معرفت ایک تنبیہ دیتے ہوئے اپنے عہد پر مہر ثبت کی: "میں ہر ایک آدمی کے آگے جو اِس نبوّت کی کتاب کی باتیں سُنتا ہے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی اُن میں کچھ بڑھائے تو خُدا اِس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اُس پر نازل کرے گا۔ اور اگر کوئی اِس نبوّت کی کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے تو خُدا اُس زندگی کے درخت اور مقدّس شہر میں سے جن کا اِس کتاب میں ذِکر ہے اُس کا حصہ نکال ڈالے گا" (مکاشفہ 18:22-19)۔

لیکن اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ تحریف قرآن کے بعد ہوئی تو مندرجہ ذیل حقائق کی بناء پر اُن کے الزامات کو نامعقول ہی کہا جا سکتا ہے:

الف۔ اُس وقت تک مسیحیت دور دراز کے علاقوں تک پھیل چکی تھی، مثلاً اناطولیہ، عرب، شمالی افریقہ، فارس، انڈیا، اٹلی، فرانس، سپین، انگلینڈ اور جرمنی وغیرہ۔ کیا یہ فرض کرلینا عقل سلیم پر مبنی ہے کہ اِن تمام دور دراز علاقوں کے مسیحی ایک ہی دن ایک ہی جگہ پر اپنی اِنجیل میں تبدیلی کرنے کےلئے جمع ہو سکتے تھے؟

ب۔ اوپر مذکورہ علاقوں میں مسیحیت کو قبول کرنے والے سب لوگوں کی ایک زبان نہ تھی بلکہ وہ فرق فرق زبانیں بولتے تھے اور بائبل مقدّس مختلف زبانوں میں اُن کے درمیان موجود تھی جس کی بناء پر صحائف مقدّسہ میں تبدیلی کرنے کےلئے ایک ہونے کا امکان ناممکن تھا، خاص طور پر اُس وقت جب کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف تھے۔

ج۔ چوتھی صدی عیسوی میں مسیحی اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے کئی گروہوں میں منقسم تھے۔ ہر کسی نے اپنے خیالات کو بائبل مقدّس کے متن سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔ تشریح کے تناظر میں کئی بحثیں اور مجلسیں ہوئیں تا کہ تعلیمی اختلافات پر گفتگو ہو۔ اُن میں سے ایک انتہائی اہم نقایہ کی کونسل تھی جس کا اختتام ایریئس اور اُس کے پیروکاروں کی بدعت کے ردّ کرنے کی صورت میں نکلا۔

اِس سارے تناظر میں یہ دعویٰ کہ مسیحیوں نے اِنجیل میں تبدیلی کی سازش کی خلافِ عقل معلوم ہوتا ہے۔ اِس بناء پر تحریف کا دعویٰ کرنے والوں سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ وہ وقت اور جگہ بتائیں جہاں تبدیلی کی گئی اور اِس کے مرتکب کیسے اِس پر متفق ہوئے؟

دنیا میں دیانتدار مؤرّخین کی کبھی کمی نہیں رہی اور اُنہوں نے دنیا کے واقعات کی تواریخ محفوظ کی ہیں۔ کیا کوئی کسی یہودی، مسلمان یا کسی اَور قوم کے ایسے تاریخ دان کا نام بتا سکتا ہے جس نے بیان کیا ہو کہ دنیا کے اُن لوگوں کی جنہوں نے یہودیت اور مسیحیت کو قبول کیا تھا جن کے مختلف عقائد اور مختلف زبانیں تھیں، اُن کی کبھی کوئی کانفرنس ہوئی تھی جہاں خُدا کے کلام کو بگاڑنے کا عمل واقع ہوا تھا؟ فرض کریں کہ اگر ایسا ہوا تھا تو کیا کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ یہودیوں اور مسیحیوں کی سازباز کی گواہی کے طورپر اصل نسخوں کی نقول کو محفوظ کر لیتا؟

یقیناً اگر ایسی سازش ہوئی تھی تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ خُدا کی شریعت کو بگاڑنے کے نتیجے میں یہودیوں اور مسیحیوں کے درمیان عناد ختم ہو گیا تھا۔

11- تحریف کے موضوع پر مسلمان علما کے اقوال

اوپر بیان کردہ نکات سے یہ واضح ہے کہ قرآن توریت اور اِنجیل کو خُدا کے کلام کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور اِس بات پر زور دیتا ہے کہ خُدا کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اور اگر یہ دہری گواہی سچی ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ توریت اور اِنجیل میں نہ تو قرآن سے پہلے اور نہ بعد میں تحریف ہوئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان علما نے قرآن کی روشنی میں اِس معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا اور اِس بات کے قائل ہو گئے کہ بائبل مقدّس کے نئے اور پرانے عہد نامے کی کتابوں میں تبدیلی، تغیر یا تحریف نہیں ہوئی جیسا کہ اکثر سمجھا جاتا ہے بلکہ اِس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ کچھ یہودی اُن کی تشریح غلط کر رہے تھے۔

اُن علما کی قائلیت کی بنیاد کچھ قرآنی آیات کی مسلم علما کی تفسیر پر ہے مثلاً الرازی، الجلالین اور ابو جعفر الطبری وغیرہ۔ ذیل میں ہم نے اُن میں سے چند آیات نقل کی ہیں۔

"اور یہ جو یہودی ہیں اِن میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو اُن کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سُن لیا اور نہیں مانا اور سُنیئے نہ سُنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے [تُم سے گفتگو کے وقت] راعنا کہتے ہیں" (سورة النسا 46:4)۔

الرازی کی تفسیر میں اِس آیت کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ محمد کے پاس کچھ سوالوں کے ساتھ آیا کرتا تھا جن کے محمد جواب دیتے تھے۔ لیکن جب وہ وہاں سے چلے جاتے تو اُن جوابات کو توڑ مروڑ کر بیان کرتے۔

تفسیرالجلالین میں مندرجہ بالا آیت کی وضاحت یوں کی گئی ہے: یہودیوں کے ایک گروہ نے توریت میں موجود الفاظ کو اُن کی اصل لفاظی سے بدل دیا خاص طور پر محمد سے بات کرتے وقت وہ ایسا کرتے تھے۔ اگر محمد کوئی حکم دیتے تو وہ کہتے "ہم نے آپ کی بات سُن تو لی، مگر ہم مانیں گے نہیں۔" وہ اُنہیں یہ بھی کہتے "سُنیے نہ سُنوائے جاؤ" جس کا مطلب یہ ہوا کہ "آپ کو بات سُننے کا موقع نہ ملے۔" آخر میں و ہ اُن سے کہتے ہیں "راعنا" جس کا عربی میں مطلب ہے "ہماری طرف متوجہ ہو" لیکن اُن کی اپنی زبان میں یہ ایک لعنت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ غرض وہ اپنی زبان سے مروڑتے (غلط بات کہتے) اور اسلام پر تہمت لگاتے تھے (الجلالین صفحہ نمبر 112)۔

الطبری کی تفسیر میں ہم پڑھتے ہیں کہ یہودی محمد کو بُرے الفاظ سے لعن طعن کر رہے تھے مثلاً یہ کہنا کہ "ہماری عرض سُنیے اور خُدا کرے کہ اپنے اقبال کی بدولت کبھی کوئی ناگوار بات نہ سُنیں" یوں کہتے کہ جیسا بولنا والا سُننے والے کی بے عزتی کر رہا ہے "ہماری بات ہوش کے کانوں سُنیے خُدا کرے آپ کو خوش کن بات سُننے کا موقع نہ ملے۔" جہاں تک لفظ "راعنا" کا تعلق ہے اُس نے اِس کی تشریح (ابن وہاب کا اقتباس کرتے ہوئے) اِس مفہوم میں کی "ہمیشہ بری باتیں سُنتے رہنا۔"

مندرجہ بالا وضاحت کے مطابق یہودیوں نے بائبل مقدّس کے متن میں سے کوئی بھی چیز نہ تو نکالی اور نہ کوئی اضافہ کیا ہے; جو کچھ اُنہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنی زبانوں کو مروڑ کر الفاظ کے معنٰی کو بدل دیا (الطبری جلد 8، صفحہ نمبر 433)۔

"اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آ گئے ہیں کہ جو کچھ تُم کتاب میں سے چھپاتے تھے وہ اُس میں سے بہت کچھ تمہیں کھول کھول کر بتا دیتے ہیں۔ اور تمہارے بہت سے قصور معاف کر دیتے ہیں" (سورة المائدة 15:5)۔

الرازی اِس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ یہاں یہودیوں کی بات ہو رہی ہے جنہوں نے توریت (اِستثنا 24،23:22) کو پڑھتے ہوئے اپنی زبانوں کو مروڑا اور "سنگسار" کے معنٰی کو "کوڑے مارنا" سے بدل دیا۔

الطبری اِس آیت کی وضاحت یہ بیان کرنے سے کرتا ہے کہ یہودی محمد کے پاس "سنگسار کرنے" کے بارے میں پوچھنے کےلئے آئے۔ اور وہ اکھٹے ایک گھر میں آئے اور محمد نے اُن سے پوچھا "تُم میں سے سب سے زیادہ پڑھا لکھا کو ن ہے؟" اُنہوں نے ابن صوریا کی طرف اشارہ کیا۔ جناب محمد نے اُس سے پوچھا "کیا تُم اِن میں سے سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہو؟ ابن صوریا نے محمد سے کوئی بھی سوال پوچھنے کےلئے کہا۔ محمد نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا "کیا تُم اِن میں سے سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہو؟" ابن صوریا نے جواب دیا "یہ ایسا ہی کہتے ہیں۔" محمد عربی نے اُسے اُس کی قسم دی جس نے موسیٰ کو توریت دی اور کوہ طور کو اُٹھا کھڑا کیا۔ اُس نے اُن کے باندھے ہوئے عہدوں کی اُسے قسم دی، یہاں تک کہ ابن صوریا ہل گیا اور بولا "ہماری عورتیں خوبصورت ہیں اِس لئے سنگساری ہم میں بڑھ گئی۔ سو زندگی بچانے کی خاطر ہم نے (حکم) کاٹ کر چھوٹا کر دیا اور ایک سو کوڑے مارے جانے کا اطلاق کیا۔" تب محمد نے حکم دیا کہ وہ سنگسار کئے جائیں (الطبری، جلد 11، صفحہ نمبر 611)۔

"اور ان لوگوں نے خُدا کی قدر جیسی جاننی چاہئے تھی نہ جانی۔ جب اُنہوں نے کہا کہ خُدا نے اِنسان پر (وحی اور کتاب وغیرہ) کچھ بھی نازل نہیں کیا۔ کہو کہ جو کتاب موسٰی لے کر آئے تھے اُسے کس نے نازل کیا تھا؟ جو لوگوں کےلئے نور اور ہدایت تھی اور جسے تُم نے علیحدہ علیحدہ اوراق (پر نقل) کر رکھا ہے۔ اُن (کے کچھ حصے) کو تو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو" (سورة الانعام 91:6)۔

البیضاوی، الرازی اور الطبری سب اتفاق کرتے ہیں کہ جس توڑنے مروڑنے کی یہاں بات ہو رہی ہے وہ توریت کی کچھ آیات کو چھپاتے ہوئے حقائق کی غلط بیانی ہے، یعنی وہ دوسرے یہودیوں کو بڑے فخر سے دکھاتے تھے کہ اُنہوں نے رق کے طوماروں پر توریت کو لکھا ہے اور جو کچھ لکھا ہوتا اُس میں سے بہت کچھ لوگوں کے سامنے کھولتے۔ لیکن وہ بہت سی باتیں چھپاتے بھی تھے جو اُن طوماروں میں لکھی ہوتی تھیں اور یوں وہ سب کچھ لوگوں کو نہ بتاتے تھے۔

ہم اتفاق کرتے ہیں کہ ایسا کرنا انتہائی معیوب اور ادنیٰ حرکت تھی۔ لیکن طوماروں کا چُھپانا مکمل طورپر "متن میں تبدیلی" سے مختلف بات ہے۔

"(مومنو) کیا تُم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہو جائیں گے (حالانکہ) اُن میں کچھ لوگ کلام خُدا (یعنی تورات) کو سُنتے پھر اُس کے سمجھ لینے کے بعد اُس کو جان بُوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں" (سورة البقرة 75:2)۔

اِس آیت کی الطبری کی تفسیر میں یہ وضاحت دی گئی ہے: "کچھ پڑھے لکھے آدمیوں نے موسٰی سے کہا 'ہمارے لئے یہ ناممکن ہے کہ خُدا کو دیکھیں، سو جب وہ تیرے ساتھ ہمکلام ہوتا ہو ہمیں اُس کی آواز سُننے دے۔' موسٰی نے خُدا سے اجازت طلب کی اور اُسے بتایا گیا 'ہاں، پہلے اُنہیں پاک ہونا ہے، اُنہیں اپنے کپڑے پاک کرنے ہیں اور روزہ رکھنا ہے۔' اُنہوں نے ایسا ہی کیا اور موسٰی اُنہیں اپنے ساتھ کوہِ طور پر لے گیا۔ جب بادل نے اُنہیں گھیر لیا تو موسٰی نے اُنہیں حکم دیا اور وہ اوندھے مُنہ گر گئے۔ تب خُدا موسٰی سے ہمکلام ہوا اور اُن سب نے حکم اور ممانعت پر مبنی اُس کے الفاظ سُنے اور جو کچھ سُنا اُسے سمجھ لیا۔ تب موسٰی اُن کے ساتھ بنی اِسرائیل کے پاس لوٹ آیا۔ لیکن جب وہ اُن کے پاس آئے تواُن میں سے ایک گروہ نے جو کچھ اُنہیں حکم ملا تھا اُسے توڑ مروڑ کر بیان کیا۔"

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ یہودی علما نے الفاظ کو سُننے اور سمجھنے کے بعد بھی اُن کے معنٰی کو بگاڑ دیا لیکن دوسروں نے جو کچھ سُنا اُس پر قائم رہے (الطبری، جلد 1، صفحہ نمبر 334)۔

"اور (کچھ) اُن میں سے جو یہودی ہیں اُن کی وجہ سے غمناک نہ ہو جانا یہ غلط باتیں بنانے کےلئے جاسوسی کرتے پھرتے ہیں اور ایسے لوگوں (کے بہکانے) کےلئے جاسوس بنے ہیں جو ابھی تمہارے پاس نہیں آئے (صحیح) باتوں کو اُن کے مقامات (میں ثابت ہونے) کے بعد بدل دیتے ہیں" (سورة المائدة 41:5)۔

تفسیرالجلالین میں اِس آیت کی وضاحت یوں کی گئی ہے: "یہ آیت خیبر کے یہودیوں کے ایک گروہ کے بارے میں کہی گئی جو اپنے درمیان میں سے دو شادی شدہ افراد پر زنا کی سزا سنگساری نہ چاہتے تھے۔ اُنہوں نے قریظہ سے ایک وفد محمد کے پاس بھیجا کہ اُن سے اُس حکم کے بارے میں پوچھیں جو توریت میں اِن دو افراد کے بارے میں لکھا ہوا ہے۔ جس بگاڑ کا اُن پر الزام ہے وہ یہ ہے کہ خیبر کے یہودیوں نے بھیجے گئے وفد کو بتایا اگر محمد کوڑے مارنے کی سزا کا فیصلہ کرے تو اُسے قبول کر لینا لیکن اگر وہ سنگساری کی سزا کا فیصلہ کرے تو اُسے قبول کرنے سے محتاط رہنا" (الجلالین، 150)۔

یہاں یہ سوال پوچھنا انتہائی مناسب ہے: "یہودیوں میں کون تھا جس نے تورات میں تحریف کی اور کس زمانے میں کی؟" الرازی بیان کرتا ہے کہ یہ محمد کے ہمعصر تھے جنہوں نے ایسا کیا۔ لیکن وہ قرآن کی اپنی تفسیر کی تیسری جلد میں ذِکر کرتا ہے کہ تحریف کا مطلب شکوک پیدا کرنا، غلط ترجمے سے الفاظ کے اصل معنٰی کو غلط طور پر پیش کرنا اور الفاظ سے چالاکیاں کرنا ہے، جیسا کہ بدعتی فرقے ہمیشہ سے متن کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔

ہم یہاں پر کسی بھی طرح سے یہودیوں کا دفاع نہیں کر رہے۔ لیکن ہم یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہودیوں نے تورات کے متن میں تبدیلی کرنے کی ہمت نہ کی اور قرآن کے الزام سے بھی یہ بات سامنے نہیں آتی۔ اور یہاں پر ہم یہ بھی بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کبھی بھی مسیحیوں پرالزام نہیں لگاتا کہ اُنہوں نے اِنجیل میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔

ہر وہ فرد جو دعویٰ کرتا ہے کہ بائبل مقدّس کے متن میں تحریف ہو چکی ہے یا یہ کہتا ہے کہ بائبل مقدّس کا اصل متن موجود نہیں ہے، ہم اُس کے سامنے یہ حقیقت رکھتے ہیں کہ ایسا الزام قرآنی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے جو گواہی دیتی ہیں کہ بائبل مقدّس معتبر کلام ہے جو غلطی سے پاک ہے۔ ہم نے اِس کتاب میں واضح کیا ہے کہ قرآن کے اہم اغراض میں سے ایک بائبل مقدّس کی تصدیق کرنا ہے۔

یقیناً کوئی بھی ایسا فرد جو خُدا پر، اُس کی کتابوں پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہے خُدا تعالیٰ کے بارے میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ اُس نے قرآن ایک بگڑی ہوئی تحریف شدہ کتاب کی تصدیق کرنے کےلئے بھیجا۔

سوالات

کتاب "توریت اور انجیل کی حقّانیّت" کے سوالات حل کیجئے۔ عزیزقاری، اب جبکہ آپ نے اِس کتاب کا دھیان سے مطالعہ کیا ہے تو ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ذیل میں دیئے گئے سوالات کے جوابات دے کر اپنے علم کا جائزہ لیں۔

  1. اُس نبوّت میں کیا لکھا ہے جو بائبل مقدّس کے آخر میں لکھی ہوئی ہے؟

  2. نوح نے کیا منادی کی اور کس زمانے میں کی؟

  3. وہ کون سی کتاب تھی جس میں بائبل مقدّس کے واقعات صحیح صحیح درج کرنا شروع کئے گئے؟

  4. شاہ ِفارس ارتخششتا کے ایام میں عزرا اور نحمیاہ نے اپنے آپ کو کس چیز کےلئے وقف کیا؟

  5. اِس حقیقت کے بارے میں کہ خُدا کا مکاشفہ کبھی نہیں ٹلتا اُس کی گواہیوں میں سے کوئی ایک گواہی بتائیں۔

  6. خُدا کی اپنے نبیوں کے بارے میں بہت سی گواہیوں میں سے کسی ایک گواہی کا ذِکر کریں۔

  7. نبیوں اور رسولوں کی بہت سی گواہیوں میں سے کسی ایک گواہی کا ذِکر کریں کہ خُدا نے اُن سے کلام کیا تھا۔

  8. مسیحی کلیسیا کے پاس بائبل مقدّس کی کتنی قدیم نقول موجود ہیں اور اُن کے نام کیا ہیں؟

  9. اب تک بائبل مقدّس کے کتنے قدیم نسخہ جات دریافت ہوئے ہیں؟

  10. بائبل مقدّس کے کسی ایک قدیم نسخے کا نام اور اُس کی تاریخ بتائیں۔

  11. علم آثارِ قدیمہ بائبل مقدّس کے بارے میں قابل قدر گواہی رکھتا ہے۔ آپ اِس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

  12. بائبل مقدّس کی گواہی دینے والی کوئی ایک قرآنی آیت بتائیں۔

  13. بائبل مقدّس کا پرانا عہد نامہ کتنے حصوں میں منقسم ہے؟

  14. نئے عہد نامہ میں کتنی کتابیں پائی جاتی ہیں؟

  15. کسی ایک قرآنی آیت کا ذِکر کریں جو بائبل مقدّس میں تحریف کی نفی کرتی ہے۔

  16. ہندوستان کے مسلمان علما کس نتیجے پر پہنچے؟


The Good Way
P.O.Box 66
        CH - 8486 
        Rikon
        Switzerland